امام غائب سے ملاقات کی شرائط

 

پہلی شرط
آپ علیہ السلام کا دیدار کرنے والا شخص آپ علیہ السلام کے خاص موالیوں سے ہو جیسا حضرت ابوعبداللہ امام جعفر صادق علیہ السلام سے روایت ہے ۔
آپ علیہ السلام نے فرمایا:”قائم کے لئے دو غیبتیں ہیں ایک دوسری سے مختصر اور چھوٹی ہو گی اور دوسری لمبی غیبت ہو گی، پہلی غیبت میں آپ علیہ السلام کی رہائش کے بارے کسی کو آگہی نہیں ہو گی مگر آپعلیہ السلام کے خاص شیعوں کو معلوم ہو گاکہ آپ کس جگہ رہائش پذیر ہیں جب کہ دوسری غیبت میں آپعلیہ السلام کے خاص موالیوں(موالیوں کا مقام و درجہ اس روایت کے مطابق آپ علیہ السلام کے خاص شیعوں سے زیادہ ہے اور موالیوں میں سے بھی سب سے زیادہ قرب والے افراد جو بہت ہی خاص ہوں گے ان کے لئے یہ سعادت حاصل ہو گی)کے سوا کوئی بھی آپعلیہ السلام کی رہائش سے آگاہ نہ ہوگا۔
(اصول الکافی ج۱ص۰۴۳ حدیث۹۱، باب الغیبة الغیبت نعمانی ص۹۸)

دوسری شرط
کوئی مصلحت موجود ہو کہ جس کا حصول ملاقات کے بغیر ممکن نہ ہو، جیسے اسلام کی حیثیت خطرہ سے دوچار ہویاکوئی ایسا واقعہ درپیش ہو جس میں مسلمانوں کی ہلاکت اور تباہی کا خطرہ ہو یا کوئی اور اہم مسئلہ ہو کہ جس کی حقیقت کو واضح کرنا اسلام کی حقانیت،حیثیت اور شان بچانے کے واسطے ضروری ہو۔
جب ہم ان لوگوں کے حالات پڑھتے ہیں کہ جنہوں نے امام غائب علیہ السلام سے ملاقات کی ہے تو اس سے یہی کچھ معلوم ہوتا ہے کہ جب کبھی لوگوں کی زندگی بچانے کا مسئلہ درپیش ہوا جیسے بحرین کے شیعوں کا واقعہ ہے یا کوئی شرعی مسئلہ تھا یا اسی سطح کے کچھ اور امور تو اس میں امام علیہ السلام نے ملاقات فرمائی اور وہ اس خاص مصلحت کی خاطر جس کا حصول ضروری سمجھا گیاایسی ملاقات ہوئی۔

تیسری شرط
بعض لوگوں کی حاجت روائی کے حوالے سے ملاقات کا ہونا، کسی شخص کو اپنی ذات کے حوالے سے کوئی مسئلہ درپیش رہا یا کسی اور کوکوئی مسئلہ درپیش تھا اور وہ شخص امام علیہ السلام سے اس کا حل چاہتا ہے کہ امام علیہ السلام سے ملاقات کے بغیر اس حاجت کے پورے ہونے کا امکان نہ ہو تو پھر دیدار ہوتا ہے اور ایسے واقعات بھی تاریخ کے اوراق میں موجودہیں۔

چوتھی شرط
غیبت کے زمانہ میں دیدار اور ملاقات کرنے والاشخص اس بات کا پابندہو کہ اس نے اس ملاقات کا اعلان نہیں کرنا نہ ہی اس واقعہ کو مشہور کرنا ہے، یہ بات اس تحریر سے ثابت ہوتی ہے جو امام علیہ السلام نے شیخ مفیدؒ کو لکھی ہے جس میں آپ علیہ السلام کا یہ فرمان موجود ہے”اس بات کو محفوظ کر لو اور کسی کو ہمارا یہ خط مت دکھاﺅ جو ہم نے تحریر کیاہے جو کچھ اس خط میں موجود ہے اور جس کی ہم نے کسی ایک کے لئے ضمانت اس خط میں دی ہے“۔(الزام الناصب میں لفظ بمالہ کی جگہ بمافیہ ہے، دیکھیں بحارالانوار ج۳۵ ص۶۷)
(مترجم:اس شرط سے مراد یہ ہے کہ دیدار کرنے والا اپنی زندگی میں ایسا نہ کرے کیونکہ امام علیہ السلام نے اپنے آخری نائب کے ذریعہ تمام شیعوں کے لئے یہ حکم دے دیا ہے کہ میری غیبت کے زمانہ میں اگر کوئی شخص مشاہدہ اور دیدار کا دعویٰ کرے تو اس کو جھٹلا دو، اس طرح دعویٰ کرنے والے کی توہین ہو گی اگرچہ وہ سچ بول رہا ہوگا، دوسرا امراس قسم کے اعلان میں اور بہت ساری خرابیاں موجود ہیں جس کی وجہ سے امام علیہ السلامنے منع فرما دیا البتہ اس شخصیت کی وفات کے بعد اس کی تحریروں سے اس واقعہ کا ثابت ہو جانا اس بات پر دلیل ہے کہ امام علیہ السلام نے اس سے منع نہیں کیا)
ایک سوال: اس جگہ یہ سوال سامنے آتا ہے کہ یہ شرط شیخ مفیدؒ کے زمانہ کے لئے تو ٹھیک ہے لیکن یہ ہمارے زمانہ کے لئے شاید ایسا نہ ہو، ہمارے زمانہ میں یہ پوچھا جا سکتا ہے امام علیہ السلام کے خط کو دیکھنا یا اس خط سے کسی رائے کولینا خاص امورکے بارے میں تو اس بارے کیا مانع اور کون سی رکاوٹ ہے یہ درست ہے کہ شیخ مفیدؒ کے زمانہ کے بعد ان کے پاس جو خطوط آئے اس سے کسی رائے کو اخذ کرنا اور اس سے استفادہ تو اس میں مانع نہیں ہے۔
جی ہاں! یہ بات معین مصلحت کے مطابق ہو گی اور دقیق اہم خصوصیات کی روشنی میں جو زیارت کرنے والے کو حاصل ہیں ہر ایک کے لئے ایسا نہیں ہے۔

پانچویں شرط
علامہ طباطبائی نے شیخ مفیدؒ کے حالات زندگی میں جو کچھ لکھا ہے اس سے جو استفادہ ہوتا ہے۔ آپ نے شیخ مفیدؒ کے لئے جو توقیعات جاری فرمائی ہیں ان کو ذکر کرنے کے بعد علامہ کی بات سے یہ اخذ ہوتا ہے کہ دیدار کرنے والاشخص جس وقت امام علیہ السلام سے ملاقات کر رہا ہوتا ہے تو اس حالت میں وہ اس ملاقات کا اعلان نہ کرے(البتہ ملاقات ختم ہو جانے کے بعداور امام علیہ السلام کے چلے جانے کے بعد اگر اس ملاقات بارے بیان کرے تو اس سے ممانعت موجود نہیں ہے)
بعد والے صفحات میں ایسی روایات بیان ہوں گی کہ جن سے ان پانچ شرائط کو سمجھا جا سکتاہے۔ البتہ یہ پانچ شرائط علت تامہ کے عنوان سے نہیں ہیں اور نہ ہی اس لحاظ سے ہیں کہ یہ پانچ شرائط علت نامہ کے اجزاءہیں جب سارے پورے ہو جائیں تودیدار ہوجانا ہے اور یہ سوائے اس کے اور کچھ نہیں کہ کچھ ایسے معیار ہمارے پاس موجود ہوں کہ جن کی روشنی میں جو شخص امام علیہ السلام سے ملاقات کا دعویٰ کر رہا ہے اسے پرکھا جا سکے کیونکہ یہ کوئی معمولی مسئلہ نہیں ہے اور نہ ہی کوئی بے وزن اور بے حیثیت بات ہے کہ ہرایک جب چاہے اس قسم کا دعویٰ کر دے اگر ملاقات کا مسئلہ اتنا آسان اور مکمل ہوتا اور ہر ایک کی دسترس میں یہ بات ہوئی تو پھر غیبت کی حکمت ہی ختم ہو جاتی ہے بلکہ امام علیہ السلام کا دیدارایک لطف الٰہی ہے جس کسی کو یہ نصیب ہو اور یہ توآئینہ دل کی پاکیزگی اور ثقافیت کو سامنے رکھ کر تقویٰ کی منزلوں کو طے کرنے کے بعد اللہ تعالیٰ اپنے خاص بندگان میں سے بھی جس پر اپنا لطف و کرم فرما دے اورپھر اس شخص کواپنے امام علیہ السلام کا دیدار نصیب ہو جائے۔(مترجم۔۔اللھم ارزقنا رویتہ وزیارتہ و دعائہ، اللھم ارنا الطلعة الرسیدہ والفرة الحمیدہ)

حکومت مہدی(عج)تقاضے۔امتیازات۔ ذمہ داریاں سید عاشورعلی( جبل عامل لبنان)
http://ahlulbaytportal.net/ur.php/page,18726A96644.html?PHPSESSID=486f2e...

Add new comment