نظریہ مہدویت پر علمی بحث
ہمارے بارهویں امام حضرت محمد بن حسن المہدی (عجل اللہ تعالیٰ فرجہ الشریف)[1]
لوگوں کی نظروں سے غائب ہیں اور جب حکم خدا هوگا تو آپ ظهور فرمائیں گے” اور ظلم وجور سے بہری دنیا کو عدل وانصاف سے بہر دیں گے۔“ [2]
لیکن امام مہدی کے سلسلہ میں بہت سے لوگوں نے عجیب وغریب اور بے جا اعتراضات کئے ہیں اور آپ کی” غیبت“کے بارے میں بہت زیادہ بے هودہ گفتگو کی ہے جس کی بنا پر سیاہ بادلوں نے حقیقت پر پردہ ڈال دیا اور انسان صحیح طریقہ پر حقیقت کی پہچان نہ کرسکا، جبکہ بعض مخلص موٴلفین نے اس سلسلہ میں غور وخوض سے کام نہیں لیا اس خوف سے کہ یہ سلسلہ بہت مشکل ہے ، جبکہ مخالفین اور منکرین اس سلسلہ میں بہت زیادہ مذاق اڑانے کی غرض سے خوش هوتے ہیں کہ ہم نے اس موضوع کو نابود کردیا اور جس کو یہ لوگ بہت بڑا اسلحہ سمجہتے ہیں، کیونکہ ان کا خیال خام یہ ہے کہ ہماری یہ باتیں
نہایت استدلال اور منطق پر استوار ہیں جن کی کوئی ردّ نہیں کرسکتا۔
اسی طرح بعض لوگوں نے ”مہدی ومہدویت“ کے بارے میں علمی استدلالات سے بحث نہیں کی ہے اور نہ ہی خاص موضوع کو واضح کیا ہے چنانچہ ایسے خیالات کے قائل هوگئے ہیں کہ عقل ومنطق سے دور ہیں۔
قارئین کرام ! اس کتاب میں ہماری روش اسی موضوع کے تحت هوگی تاکہ ہم بہی ان اشکالات سے دور رہیں جن میں دوسرے لوگ گرفتار هوئے ہیں۔
لہٰذا ہم اس کتاب میں اپنے طریقہ کی بنا پر احادیث کو تین حصوں میں تقسیم کریں گے :
۱۔ وہ احادیث جن میں نظریہ ”مہدویت“ کو بیان کیا گیا ہے اور وہ کس طرح اسلام سے ارتباط رکہتی ہیں۔
۲۔ وہ احادیث نبوی جن میں امام” مہدی “کو معین کیاگیا ۔
۳۔ وہ احادیث جن میں امکان ”غیبت“ پر بحث کی گئی ہے اور غیبت پر دلالت کرتی ہیں۔
چنانچہ ان تمام احادیث کی وضاحت کرنے کے کے بعد حقیقت واضح هوجائے گی، اور اس کووہ تمام ہی لوگ جو اپنی هویٰ وهوس اور خود غرضی کے خواہاں نہ هوں؛آسانی سے سمجہ سکتے ہیں۔
اگر ہم تاریخ پر ایک سرسری نظر ڈالیں( خصوصاً اگر تاریخ ادیان کو ملاحظہ کریں)تو ہمیں معلوم هوجائے گا کہ ”مہدویت “ کا عقیدہ صرف اور صرف شیعہ حضرات سے ہی مخصوص نہیں ہے اور نہ ہی ان کی ایجاد ہے (جیسا کہ بعض مولفین نے کہا ہے کہ مہدویت کا عقیدہ صرف شیعوں کی ایجاد ہے) بلکہ ہم تو یہ بہی کہہ سکتے ہیں کہ یہ عقیدہ مسلمانوں سے بہی مخصوص نہیں ہے بلکہ دوسرے آسمانی ادیان بہی اس عقیدہ میں شریک ہیں۔
کیونکہ یهود ونصاریٰ بہی ایک ایسے مصلح منتظر کا عقیدہ رکہتے ہیں جو آخرالزمان میں آئے گا جس کا نام ”ایلیا“ هوگا (یہ تہا یهودیوں کا نظریہ) جبکہ عیسائیوں کے نزدیک وہ مصلح منتظر حضرت عیسیٰ بن مریم هونگے۔
اسی طرح دیگر مسلمان بہی اپنے مذہبی اختلاف کے باوجود اسی چیز کا اقرار کرتے ہیں جبکہ شیعہ امامی اور کیسانیہ اور اسماعیلیہ ”امام مہدی“ کا عقیدہ رکہتے ہیں اور اس کو ضروریات مذہب سے شمار کرتے ہیں، اسی طرح اہل سنت حضرات اپنے ائمہ اور علماء حدیث کے بارے میں عقیدہ رکہتے ہیں،جن میں سے بعض لوگوں نے مہدویت کا دعویٰ بہی کیا ہے جیسا کہ مغرب ، لیبی اور سوڈان میں اس طرح کے واقعات رونما هوئے ہیں کہ اہل سنت کے بعض بڑے بڑے علماء نے اپنے کو ”مہدی مصلح“ کہلوایا۔
نیز اسی طرح کا عقیدہ تینوں آسمانی ادیان میں ملتا ہے۔
اسی طرح یہ عقیدہ شیعہ حضرات میں، دوسرے مسلمان بہائیوں کی طرح پایا جاتا ہے اور امام مہدی کے بارے میں ان کا وہی عقیدہ ہے جس کو ڈاکٹر احمد امین صاحب نے اہل سنت کے نظریہ کو بیان کیا ہے کہ:
”اس وقت تک قیامت نہیں آئے گی جب تک آخرالزمان میں اہل بیت (ع) سے ایک شخص ظاہر نہ هوجائے جو دین کی نصرت کرے گا اور عدل وانصاف کو عام کردے گا ،تمام مسلمان اس کی اتباع وپیروی کریں گے اور تمام اسلامی ممالک پر حکومت کرے گا جس کا نام ”مہدی“ هوگا۔[3]
شیعہ حضرات بہی وہی کہتے ہیں جو شیخ عبد العزیر بن باز رئیس جامعہ اسلامیہ مدینہ منورہ کہتے ہیں، چنانچہ موصوف فرماتے ہیں:
”(حضرت ) مہدی کا مسئلہ معلوم ہے کیونکہ ان کے سلسلہ میں احادیث مستفیض بلکہ متواتر ہیں جو ایک دوسرے کی کمک کرتی هوئی اس بات پر دلالت کرتی ہیں کہ واقعاً مہدی موعود ہیں اور ان کا ظهورحق ہے“۔ [4]
قارئین کرام ! یہاںتک یہ بات واضح هوگئی کہ ”نظریہ مہدویت“ایک صحیح نظریہ ہے جیساکہ معاصر کاتب مصری عبد الحسیب طٰہ حمیدہ کہتے ہیں[5]
لیکن واقعاً تعجب خیز ہے کہ جناب عبد الحسیب صاحب اس بات کی طرف متوجہ نہیں هوئے کہ خود پہلے نظریہ مہدویت کوصحیح مان چکے ہیں کیونکہ ان کا بعد کا نظریہ پہلے نظریہ کے مخالف ہے جبکہ اس سے پہلے انہوں نے یہ بہی کہہ ڈالا تہا کہ ”مہدویت کا نظریہ ایک ایسا نظریہ ہے جو یهودیوں سے لیا گیا ہے اور جس کا اسلام سے کوئی سروکار نہیں ہے“[6]
کیونکہ موصوف اپنی اس عبارت سے صرف اور صرف شیعوں پر تہمت لگانا چاہتے ہیں کہ شیعوں کے عقائد یهودیوں سے لئے گئے ہیں،لیکن موصوف نے اپنے اس اعتراض سے تمام مسلمانوں پر تہمت لگائی ہے (جبکہ اس بات کی طرف متوجہ بہی نہیں ہیں) کیونکہ ان کی ان دونوں بات میں واضح طور پر ٹکراؤ ہے کیونکہ پہلے انہوں نے نظریہ مہدویت کو صحیح تسلیم کیا لیکن بعد میں اس کو یهودیوں کے عقائد میں سے کہہ ڈالا، چنانچہ آپ حضرات نے بہی اندازہ لگایا لیا هوگا کہ موصوف کا اتنی جلدی نظریات کا تبدیل کرنا ان کی بد نیتی اور تعصب پر دلالت کرتا ہے کیونکہ تاریخ کا مطالعہ کرنے والے حضرات پر یہ بات واضح ہے کہ عبد اللہ ابن سبا نامی شخص کا تاریخی وجود ہی نہیں بلکہ یہ صرف خیالی اور جعلی نام ہے اور صرف اس کے نام سے مختلف عقائد منسوب کردئے گئے ہےں جو سب کے نزدیک معلوم ہیں کہ یہ سب کچہ جعلی اور صرف افسانہ ہے، اور شاید یہ سب اس وجہ سے هو کہ صدر اسلام میں عبد اللہ بن سبا کا نام بہت زیادہ زبان زدہ خاص وعام تہا اور اس سے مراد رسول اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ و سلمکے جلیل القدر صحابی جناب عمّار یاسر هوتے تہے جیسا کہ بعض مولفین نے اس چیز کی طرف اشارہ بہی کیا ہے۔[7]
خلاصہ بحث یہ هوا کہ ”نظریہ مہدویت“ شیعوں کی ایجاد کردہ نہیں ہے اور نہ ہی اس سلسلہ میں یهود وغیریهود کی اتباع کرتے ہیں بلکہ اس سلسلہ میں تینوں آسمانی ادیان (یهودی ،عیسائی اور اسلام) نے بشارت دی ہے ، اور اسلام نے اس سلسلہ میں عملی طور پر مزید تاکید کی ہے ، چنانچہ تمام مسلمانوں نے اس مسئلہ کو قبول کیا ہے اور اس بارے میں احادیثیں نقل کی ہیںاور ان پر یقین کامل رکہتے ہیں۔
لہٰذا ان تمام باتو ںکو ”شیعہ حضرات کی گمراہی اور بدعتیں“ کہنا ممکن نہیں ہے اور اس قول پر یقین کرنا ناممکن ہے ، بلکہ یہ ایک ایساصحیح عقیدہ ہے جو عقائد اسلام کی حقیقت اور احادیث رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے اخذ شدہ ہے جس کا انسان انکار ہی نہیں کرسکتا۔
چنانچہ اس حقیقت کا خلاصہ عراقی سنی عالم جناب شیخ صفاء الدین آل شیخ نے یوں کیا ہے:
”حضرت امام مہدی منتظر کے بارے میں احادیث اس قدر زیادہ ہیں کہ انسان کو اطمینان حاصل هوجاتا ہے کہ” وہ آخر الزمان میں ظاہر هوں گے اور اسلام کو اس کی صحیح حالت پر پلٹادیں گے، اوردین و ایمان کی قوت اور رونق کو بہی پلٹادیں گے اسی طرح دین کی رونق کو بہی لوٹادیں گے“
چنانچہ اس طرح کی روایت بغیر کسی شک وشبہ کے متواتر ہیں بلکہ ان سے کم بہی هوتیں تب بہی علم اصول کی اصطلاح کی بنا پر ان کومتواتر کہنا صحیح تہا ۔
قارئین کرام ! حضرت امام مہدی کے بارے میں صاف صاف روایات موجود ہےں اور ان کی تعداد بہی بہت زیادہ ہے کیونکہ علماء اہل سنت نے اس سلسلہ میں بہت سی روایات نقل کی ہیں جیسا کہ برزنجی صاحب نے ”الاشاعة لاشتراط الساعة“ میں ، جناب آلوسی صاحب نے اپنی تفسیر میں، ترمذی صاحب ، ابو داؤد، ابن ماجہ ، حاکم، ابویعلی ، طبرانی عبد الرازق، ابن حنبل، مسلم، ابونعیم ، ابن عساکر، بیہقی ، تاریخ بغداد ، دار قطنی ، ردیانی ونعیم بن حمادنے اپنی کتاب ”الفتن“ میں اور اسی طرح ابن ابی شیبہ، ابونعیم الکوفی، البزار، دیلمی، عبد الجبار الخولانی نے اپنی تاریخ میں، جوینی، ابن حبان، ابوعمرو الدانی نے اپنی سنن میںو۔۔۔
خلاصہ مذکورہ حضرات وغیرہ نے لکہا ہے کہ (امام مہدی) کے ظهور پر ایمان رکہنا ضروری ہے کیونکہ ان کے ظهور پر اعتقاد رکہنا حضرت رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی احادیث کی تصدیق کرنا ہے۔[8]
قارئین کرام ! اکثر علماء اسلام نے مہدویت کے بارے میں اقرار کیا ہے اور اس سلسلہ میں اخبار وراوایات کی تصحیح کی خاطر کتابیں تالیف کی ہیںتاکہ زمانہ پر حقیقت واضح هوجائے اور اس حقیقت کو لوگوں کے سامنے پیش کریں جس کو رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلمنے پیش کیا ہے ، لہٰذا ہم مثال کے طور پر چند مولفین کے نام پیش کرتے ہیں ، اگرچہ مولفین کی تعداد اس سے کہیں زیادہ ہے جس کو ہم بیان کرتے ہیں:
۱۔ عباد بن یعقوب الرواجنی متوفی ۲۵۰ہ نے کتاب ”اخبار المہدی“ میں۔
۲۔ ابو نعیم اصفہانی متوفی ۴۳۰ہ نے کتاب ”اربعین حدیثا فی امر المہدی“[9] و کتاب ”مناقب المہدی“[10]و کتاب ”نعت المہدی“ میں۔
۳۔محمد بن یوسف کنجی شافعی متوفی ۶۵۸نے کتاب ”البیان فی اخبار صاحب الزمان“ میں۔
۴۔ یوسف بن یحیٰ سلمی شافعی متوفی ۶۸۵ہ نے کتاب ”عقد الدرر فی اخبار المہدی المنتظر“ میں ۔[11]
۵۔ ابن قیم جوزی متوفی ۷۵۱ہ نے کتاب ”المہدی“ میں۔
۶۔ ابن حجر ہیتمی شافعی متوفی ۸۵۲ہ نے کتاب ”القول المختصر فی علامات المہدی المنتظر“ میں[12]
۷۔ جلال الدین سیوطی متوفی ۹۱۱ہ نے کتاب ”العرف الوردی فی اخبار المہدی“ جو شایع شدہ بہی ہے اسی طرح دوسری کتاب ”علامات المہدی“ میںبہی۔
۸۔ ابن کمال پاشا حنفی متوفی ۹۴۰ہ نے کتاب ”تلخیص البیان فی علامات مہدی آخر الزمان“ میں[13]
۹۔ محمد بن طولون دمشقی متوفی ۹۵۳ہ نے کتاب ”المہدی الی ماورد فی المہدی“ میں۔[14]
۱۰۔علی بن حسام الدین متقی ہندی متوفی ۹۷۵ہ نے کتاب ”البرہان فی علامات مہدی آخر الزمان“ اورکتاب ”تلخیص البیان فی اخبار مہدی آخر الزمان“ میں۔[15]
۱۱۔ علی قاری حنفی متوفی ۱۰۱۴ہ نے کتاب ”الرد علی من حکم وقضی ان المہدی جاء ومضی“ وکتاب”المشرب الوردی فی اخبار المہدی“ میں ۔[16]
۱۲۔ مرعی بن یوسف الکرمی حنبلی متوفی ۱۰۳۱ہ نے کتاب ”فرائد فوائد الفکر فی الامام المہدی المنتظر“ میں[17]
۱۳۔ قاضی محمد بن علی شوکانی متوفی ۱۲۵۰ہ نے کتاب ”التوضیح فی تواتر ما جاء فی المہدی المنتظر والدجال والمسیح“ میں۔ [18]
۱۴۔ رشید الراشد التاذفی حلبی (معاصر) نے کتاب ”تنویر الرجال فی ظهور المہدی والدجال“ میں جو شایع شدہ بہی ہے۔
قارئین کرام ! یہ تہے چند اہل سنت مولف جنہوں نے حضرت امام مہدی علیہ السلام کے بارے میں احادیث نقل کی اور کتابیں لکہیں ہیں۔
اسی طرح شعراء کرام نے بہی حضرت مہدی علیہ السلام کے بارے میں اپنے اپنے اشعار میں مہدی او رمہدویت کی طرف اشارہ کیا ہے چنانچہ انہوں نے اپنے اشعار وقصائد میں حضرت مہدی کی معرفت، ان کے ظهوراور ان کے وجود کی ضرورت کو بیان کیا ہے جن کی تعداد بہی بہت زیادہ ہے ، لہٰذا ہم یہاں پر چند شعراء کے ا شعار بطور مثال پیش کرتے ہیں:
۱۔ کمیت بن زید اسدی متوفی ۱۲۶ہ کہتے ہیں:
متیٰ یقوم الحق فیکم متیٰ یقوم مہدیکم الثانی[19]
کب ہمارے درمیان حق آئے گا اور کب ہمارا مہدی قیام کرے گا۔
۲۔ اسماعیل بن محمد حمیری متوفی ۱۷۳ہ کہتے ہیں:
باٴن ولیَّ الامر والقائم الذی تطلع نفسی نحوہ بتطرّبِ
لہ غیبة لابد من اٴن یغیبہا فصلی علیہ اللّٰہ من متغیب
فیمکث حیناً ثم یظہر حینہ فیملاٴ عدلا کل شرق ومغرب[20]
ولی امر قائم منتظر کے لئے میرا دل خوشحالی سے انتظار کرتا ہے۔
ان کے لئے غیبت ضروری ہے پس اس غائب پر خدا کا درود وسلام هو۔
وہ پردہ غیب سے ظاہر هونگے تو مشرق ومغرب (پوری دینا)کو عدل وانصاف سے بہر دیں گے۔
۳۔ دعبل خزاعی متوفی ۲۴۶ہ کہتے ہیں:
خروج امامٍ لا محالة خارج یقوم علی اسم اللّٰہ والبرکاتِ
یمیز فینا کل حق وباطل ویجزی علی النعماء والنقمات[21]
امام کا ظهور (ایک روز) حتمی اور ضروری ہے اور آپ خدا کے نام او راس کی برکتوں کے ساتہ ظهور کریں گے۔
اور آپ کے ظهور کے وقت حق وباطل الگ الگ هوجائے گا اور نعمت ونقمت کے لحاظ سے جزا دیں گے۔
۴۔ مہیار دیلمی متوفی ۴۲۸ہ کہتے ہیں:
عسیٰ الدہر یشفی غداً من عداک قلبَ مغیظٍ بہم مکمدِ
عسیٰ سطوة الحق تعلو المحال عسیٰ یُغلب النقص بالسودد
بسمعی لقائمکم دعوة یلبی لہا کل مستنجد [22]
ہم اس دن کے منتظر ہیں کہ جب آپ کے دشمن ہلاک هونگے اور ہم خوشحال۔
عنقریب وہ دن آنے والا ہے جب حق باطل پر اور کمزور متکبروں پر غلبہ حاصل کریں گے۔
اور جب ہمارے کانوں میں حضرت قائم(ع) کی آواز آئے گی تو ہم سب ان کی آواز پر لبیک کہیں گے۔
۵۔ ابن منیر طرابلسی متوفی ۵۴۸ہ مخالف کا مسخرہ کرتے هوئے کہتے ہیں:
والیتُ آل امیة ة الطہر المیامین الغرر
واکذّب الراوی واٴطعن ن فی ظهور المنتظر[23]
میں آل امیہ کو دوست رکہتا هوں جن کے صفات عالی ہیں!!
اور میں اس راوی کی تکذیب کرتا هوں جو ظهور مہدی کے انتظارمیں کہتا ہے!!
۶۔ محمد بن طلحہ شافعی متوفی ۶۵۲ہ کہتے ہیں :
وقد قال رسول اللّٰہ قولا قد رویناہ
وقد ابداہ بالنسبة والوصف و سمّاہ
یکفی قولہ ”منّی“ لاشراق محیاہُ
ومن بضعتہ الزہراء مرساہ ومسراہ
فمن قالوا هو المہدی ما مانوابما فاهوا[24]
بلا شبہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلمنے (امام مہدی کے بارے میںارشاد فرمایا جس کو ہم نے بیان کیا۔ چنانچہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلمنے آپ کی نسبت، اوصاف اور نام بہی بیان کیا ہے۔
آپ کی شان میں لفظ ”مِنِّی“ کہنا ہی آپ کی عظمت پر دلالت کرتا ہے۔ حضرت زہرا (ع)آپ کا ایک جزء ہیں جن سے آپ باہر جاتے وقت اور واپس آتے وقت (سب سے پہلے) ملاقات کیا کرتے تہے۔ جو افراد حضرت مہدی کے بارے میں کہتے ہیں وہ کوئی نئی چیز پیش نہیں کرتے (بلکہ یہ حقیقت تو پہلے سے معلوم شدہ ہے)
۷۔ ابن ابی الحدید معتزلی متوفی ۶۵۶ہ کہتے ہیں:
ولقد علمتُ بانہ لا بد من مہدیکم ولیومہ اٴتوقعُ
یحمیہ من جند الالہ کتائب کالیم اٴقبل زاخراً یتدفعُ
فیہا لآل اٴبی الحدید صوارم مشهورة ورماحُ خط شرَّع[25]
مجہے امام مہدی پر یقین ہے اور ان کے ظهور کا انتظار ہے۔ لشکر خدا کے سپاہی امام زمانہ کی اس طرح حمایت کریں گے جس طرح دریا کی لہریں اٹہتی ہیں۔
اس وقت آل ابی الحدید تیر وتلوار کے ساتہ آپ کی حمایت میں جنگ کرے گی۔
۸۔ شمس الدین محمد بن طولون حنفی دمشقی متوفی ۹۵۳ہ ، موصوف ارجوزہ کے ضمن میں فرماتے ہیں جس کوبارہ اماموں کی شان میں کہا ہے: والعسکری الحسن المطہرُ محمد المہدی سوف یظہرُ[26]
امام حسن عسکری علیہ السلام کے بعد حضرت مہدی ظاہر هوں گے۔
۹۔ عبد اللہ بن علوی الحداد تریمی شافعی متوفی ۱۱۳۲ہ فرماتے ہیں:
محمد المہدی خلیفة ربنا امام المہدی بالقسط قامت ممالکہ
کاٴنی بہ بین المقام ورکنہا یبایعہ من کل حزب مبارکہ
حضرت امام مہدی ہمارے رب کے خلیفہ ہیں جن کی وجہ سے پوری دنیا عدل وانصاف سے بہر جائے گی۔ اور جب آپ رکن ومقام کے درمیان کہڑے هوں گے اس وقت ہر گروہ آپ کی بیعت کرتا هوا نظر آئے گا۔
ایک دوسرے مقام پر فرماتے ہیں:
ومنّا امام حان حین خروجہ یقوم باٴمر اللّٰہ خیر قیام
فیملوٴہا بالحق والعدل والہدی کما ملئت جوراً بظلم طغام [27]
ہمارے امام کے ظهور کا وقت نزدیک ہے جو خدا کے حکم سے بہترین قیام کرےں گے۔ چنانچہ آپ ظلم وجور سے بہری دنیا کو عدل وانصاف سے بہر دیں گے۔
____________
[1] اسی کتاب کی فصل امامت پر رجوع فرمائیں۔
[2] اس حدیث نبوی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلمکو جناب ابن حجر ہیتمی نے اپنی کتاب صواعق المحرقہ ص۹۹ میں بیان کیا ہے۔
[3] المہدی والمہدویہ ، تالیف ڈاکٹر احمد امین ص ۱۱۰۔
[4] مجلة الجامعة الاسلامیہ شمارہ ۳ص ۱۶۱تا۱۶۲۔
[5] ادب الشیعہ ص ۱۰۱، اور اسی بات کی تائید ڈاکٹر عبد الحلیم النجار کتاب ”المہدیة فی الاسلام“ کے مقدمہ میںکرتے هوئے کہتے ہیں: علماء حدیث نے حضرت مہدی کے سلسلہ میں اس قدر روایت بیان کی ہیں جو کہ تواتر معنوی تک پہنچی هوئی ہےں۔
[6] ادب الشیعہ ص ۱۶۔
[7] وعاظ السلاطین ، ڈاکٹر علی الوردی۔
[8] مجله التربیه اسلامیه سال 14 شماره 7 ص 30.
[9] اس کتاب سے ابن صباغ مالکی نے فصول المہمہ ص ۲۷۵ میں روایت نقل کی ہے۔
[10] اس کتاب سے حافظ کنجی شافعی نے اپنی کتاب ”البیان“میں بہت سی روایات نقل کی ہیں۔
[11] اس کتاب کا نسخہ ”عہد مخطوطات عربیہ“ قاہرہ میں موجود ہے۔
[12] اس کتاب کی روایت ”اسعاف الراغبین“ ص ۱۳۹ میں پائی جاتی ہیں اور اس کتاب کے قلمی نسخے ”حلب“ اور ”استنالبول“ میں موجود ہیں ، نیز ہمارے پاس بہی اس کی ایک فوٹو کاپی موجود ہے جو کہ مولف کے سامنے قرائت شدہ نسخہ (موجود در ”حلب“ ) ؛کے مطابق ہے۔
[13] اس کتاب کا قلمی نسخہ استانبول (ترکیہ) میں موجود ہے۔
[14] اس کتاب کا ذکر خود مولف نے اپنی کتاب ”الائمہ الاثنی عشر“ ص ۱۱۸ میں کیا ہے۔
[15] ان دونوں کتابوں کے قلمی نسخے استانبول میں موجود ہیں، اور ہمارے پاس بہی کتاب برہان کی ایک فوٹو کاپی حرم مکی کتب خانہ سے اخذ شدہ موجودہے۔
[16] پہلی کتاب کا نسخہ ہندوستان میں اور دوسری کتاب کا نسخہ استانبول میں موجود ہے۔
[17] اس کتاب کا قلمی نسخہ استانبول میں موجود ہے۔
[18] مجلة الجامعة الاسلامیہ / شمارہ ۳/ ص ۱۳۱۔
[19] الغدیر ج۲ ص ۱۸۴۔ مطبوعہ نجف اشرف ۱۳۶۵ہ۔
[20] الغدیر ج۲ ص ۲۲۳۔
[21] دیوان دعبل ص ۴۲۔
[22] دیوان مہیار جلد اول ص ۳۰۰۔
[23] الغدیر ج۴ص ۲۷۹۔
[24] مطالب السوال ج۲ ص ۷۹۔
[25] شرح القصائد السبع العلویات ص ۷۰۔
[26] الائمہ الاثنی عشر ص ۱۱۸۔
[27] دیوان عبد اللہ بن علوی المسمیٰ ”الدر المنظوم ص ۱۸و ۱۴۶۔
اصول دین مکارم شیرازی
http://ahlulbaytportal.net/ur.php/page,18727Unit43000.html?PHPSESSID=486...
Add new comment