آغا صاحب ۔۔۔التماسِ دعا
بسم اللہ الرحمن الرّحیم
آغا صاحب ۔۔۔التماسِ دعا
نذر حافی
nazarhaffi@gmail.com
کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ پاکستان کے ایک نامور عالمِ دین کے گھر میں ڈاکہ پڑا۔ڈاکو اپنے اسلاف کی پیروی کرتے ہوئے اسلحے کی نوک پر گھر میں داخل ہوئے اور جو کچھ ان کے ہاتھ لگا انہوں نے لوٹ لیا۔واپس جاتے ہوئے ایک ڈاکو عاجزی کے ساتھ مولانا صاحب کے قریب آیا،اس نے باہر نکلتے ہوئے مولانا صاحب کا ہاتھ چوما اور کہا" آغا صاحب التماسِ دعا"۔
مولانا صاحب کے بقول جب اس نے " آغا صاحب التماسِ دعا" کہا تو میں سمجھ گیا کہ یہ دشمنوں کی سازش نہیں بلکہ اپنوں کا ہی کا ر نامہ ہے۔
یہ واقعہ اگرفرضی بھی ہوتو پھر بھی اس میں ہر جیتے جاگتے انسان کے لئے یہ پیغامِ عبرت موجود ہے کہ دشمنوں کے مورچوں کی مانند اپنے قلعے کے محافظین سے بھی چوکنّا رہنا چاہیے۔
ایسا ہی کچھ ہمارے نامور سیاستدان ذولفقار علی بھٹو کے ساتھ بھی ہوا۔انہوں نے ٨ جرنیلوں کو نظراندازکرکے ضیا الحق کو چیف آف آرمی سٹاف بنایاتھا اور اپنے آخری دنوں میں دن میں دومرتبہ ضیاالحق کو مشورے کے لئے بلایاکرتے تھے اور ہردفعہ ضیاالحق پورے ادب کے ساتھ اپنے سینے پر ہاتھ رکھ کر نیم خمیدہ کمر کے ساتھ ذوالفقار علی بھٹو کو یقین دلاتے تھے کہ سر! مسلّح افواج پوری طرح آپ کا ساتھ دیں گی۔میرے ہوتے ہوئے آپ کو بالکل فکرمند نہیں ہوناچاہیے۔ پھر یہی تابعدار وفرمانبردار جرنیل بھٹو صاحب کو لے ڈوبا۔
میں یہاں پر محسنِ ملت قبلہ سید ضیاالدّین رضوی شہید کا ذکر کرنا بھی ضروری سمجھوں گا ۔ ایک وہ وقت تھا کہ ان کے پرستاروں کی تعداد آسمان کے ستاروں کی مانند شمار سے باہر تھی۔اپنی زندگی کے آخری دنوں میں جب وہ حکومت کے ساتھ مذاکرات کے لئے بلوچستان ہاوس اسلام آباد آئے ہوئے تھے تو ایک جریدے کی جانب سے بندہ ناچیز کو آغا صاحب کا انٹرویو لینے پر مامور کیا گیا۔
اس وقت آئی ایس او کے سابق مرکزی سیکرٹری تعلیم برادر اقرار حسین جعفری بھی میرے ہمراہ تھے۔ہم نے تقریباْ ڈیڑھ گھنٹے تک آغا صاحب سے گفتگو کی اور انٹرویو لیا۔یہ وہ دن تھے جب آغا صاحب تنہائی کے کرب سے گزر رہے تھے۔انہیں عوام کے بجائے خواص سے شکایات تھیں۔انہیں خواص سے یہ گلہ تھاکہ نصابِ تعلیم کی اہمیت کو آخر یہ لوگ کیوں نہیں سمجھتے۔ ہماری قوم اورہمارے بچوں کا مستقبل اس ناقص نظام تعلیم کے باعث تاریک ہے۔ان کا کہنا تھا کہ اب کوئی میرا ساتھ دے یا نہ دے میں تنِ تنہا میدان میں ڈٹارہوں گا۔بلامبالغہ قبلہ مفتی جعفر حسین اور شہید علامہ عارف حسینی کے خلوص اور بصیرت کے بارے میں ہم نے جوکچھ پڑھ یا سن رکھا تھا اس کی نمایاں جھلک قبلہ ضیاالدین رضوی شہید میں نظر آرہی تھی۔آپ بہت دور کی سوچ رہے تھے اور ملت کی تعمیر کے کام کا آغاز اس کی بنیادوں اور نو نہالوں سے شروع کرنا چاہتے تھے۔
آپ کا موقف جتنا واضح ،روشن اور ٹھوس تھا ،آپ کی تنہائی بھی اتنی ہی شدید اور سنگین تھی۔آپ کی تنہائی کا اندازہ اس بات سے لگایاجاسکتاہے کہ آپ کی زندگی کا وہ آخری انٹرویو جو ہم نے لیا تھا وہ کسی دینی یا علاقائی میگزین نے نہیں چھاپا۔بعض کا کہنا تھا کہ یہ حکومت کوللکارنے والی بات ہے اور بعض کا کہنا تھا کہ ہمارے آغا صاحب کے ساتھ اختلافات ہیں۔
یہ حقیقت کسی سے ڈھکی چھپی نہیں کہ آغاصاحب کی زندگی کے آخری ایّام میں خود ہماری ملّی شخصیات نے آغا صاحب سے روابط کم کر لئے تھے اور ہمارا قومی و دینی میڈیا بھی آغا صاحب کو کوریج دینے سے معذرت خواہ تھا۔
بس پھر یہی ہوا کہ آغا صاحب کی دست بوسی کرنے والے ایک ایک کر کے انہیں چھوڑتے چلے گئے اور یہ مردِ مجاہد اپنے جدحسین ابنِ علی ؑ کی مانند عصرِ حاضر کی کربلا میں تنِ تنہا شہید ہوگیا۔
آج مدتوں بعد خوش قسمتی سے پاکستان کے معاشرتی افق پر ایک مرتبہ پھر دینی و علمی نیز سیاسی و فکری شخصیات ابھر کر سامنے آرہی ہیں۔مذہبی و دینی تنظیموں میں مثبت تحرک دیکھنے میں آرہاہے اور عوام النّاس اور علماء کے درمیان فاصلوں کی خلیج کم ہوتی جارہی ہے۔ایسے میں ہر شخصیت کو اپنے مخالفین سے زیادہ اپنی دست بوسی کرنے والوں سے ہوشیار رہنے کی ضرورت ہے۔مبادا ایسا نہ ہو کہ یہ دست بوسی کرنے والے ہماری شخصیات کے گرد ایسا حصار بنا ڈالیں کہ یہ شخصیات تنہا رہ جائیں اور یہ دست بوس افراد گھر لوٹنے کے بعد "آغاصاحب التماسِ دعا " کہہ کر چلتے پھریں۔
Add new comment