روحانی علاج

جسطرح جسمِ انسانی بیمار ہوتا ہے اور محتاجِ علاج ہے اسیطرح روح بھی مائل بہ زوال ہو کر بیمار ہوتی ہے وہ بھی محتاجِ علاج ہے۔ تا کہ اس کو اَفعال رذیلہ اور خواہشاتِ حیوانی سے جو انسان کے لئے مہلک اَمراض ہیں، نکال کر اَوصافِ حمیدہ اور اخلاق فاضلہ کی جانب مائل کرکے اصلاح کی جائے۔ یہ مانا کہ دانشورانِ عالم نے بھی کچھ آئین اور ضوابط اصلاحِ نفوس اور آدابِ اخلاق کے مرتب ضرور کئے ہیں۔ لیکن باوجود کوشش کامیابی کی منزل سے دو چار نہیں ہو سکے کیونکہ یہ کام صرف دینی رہبر و رہنما ہی کا ہے۔ کہ وہ آدمی کو بداخلاق و جہالت کی پستیوں سے نکال کر فضیلت کی منزل تک پہنچائیں۔ ظاہر ہے کہ حقیقتِ روح اور جسم کو اس سے بہتر اور کون جان سکتا ہے جس نے روح اور جسم کو پیدا کیاہے۔ لہذا اس نے جسکو روح اور جسم کا طبیب بناکر اصلاحِ عالم کیلئے اپنی طرف سے بھیجا، وہی سب سے کامل اور حاذق طبیب ہے۔انہی ہستیوں نے صحتِ نفوس بشری کو فضائلِ حمیدہ کی دعوت دی، چنانچہ آخری رسول اپنی تمام ذمہ داریوں کے ساتھ صرف اسی کام کے لئے مبعوث ہوا، قرآن نے پکار کر کہا، یایھالذین امنوااستجیبواللہ وللرسول اذادعاکم لما یحییکم(سورہ الانفال آیت نمبر۲۴)ترجمہ:۔ خدا اور اُس کے رسول کو جواب دو جب وہ حیات کی طرف بلائیں۔(۲)یاایھاالناس قد جآءَ تْکُم مَّوْعِظة مِّنْ ربکم و شفآء لما فی الصدور (سورہ یونس آیت نمبر ۷۵) ترجمہ:۔ یقینا تمہارے خدا کی طرف سے نصیحت اور شفاء آئی اِسکے لئے جو کچھ تمہارے سینوں میں ہے۔ (۳) ونُنزل من الْقرآنِ ما ھو شفاءٌ و رحمةٌ للموٴمنین ولا یزید الظلمین الا خسارا(سورہ الاسراء آیت نمبر ۸۲) ترجمہ:۔ہم نے قرآن میں وہ چیزیں جو رحمت اور شفا ئیں نازل کیں مومنین کے واسطے اور نہ پائیں گے ظالمین مگر خسارہ۔ پیغمبر اسلام:۔ رسول خدا نے فرمایا، نہیں مبعوث ہوا میں مگر صرف اسلئے کہ مکارم ِ اخلاق کو پایہء تکمیل تک پہونچاوٴں اور فضائلِ علم و حکمت سے انسانیت کے تاریک سینوں کو منور کروں۔ چنانچہ آپ اپنی پوری زندگی تبلیغِ دین اور سلامتی روح و جسم میں مشغول رہے یہاں تک کہ عالمِ فانی سے عالمِ باقی کی طرف رحلت فرمائی اور صرف اِسلئے کہ دُنیائے اِنسانیت بے سرپرست اور بغیر مُصلح نہ رہ جائے۔ دو گراں قدر چیزیں (قرآن اور عِترت) اَپنے بعد گم گشتہ راہ کیلئے چھوڑیں۔ ایک قرآن صامت اور دوسری قرآنِ ناطق(عِترت) تاکہ تعلیمِ قرآن سے اگر کوئی (انحراف کرے تو اُسکو راہِ مستقیم دکھائیں۔ امام جعفرصادق:۔ آپ کا زمانہ اِنتہائی بدامنی و بدنظمی اور اِختلافات کا دور تھا، دُنیا طرح طرح کے عقائد میں مبتلا تھی۔ ایسے ہولناک ہنگامے میں جہاں آواز بے سُود ہو کسی مصلح اور مبلغ کی طرف توجہ نہ دی جائے۔ امام عالی مقام نے اپنے فرض امامت کو اس طرح انجام دیا۔ جیسے ایک طبیب حاذق بہ حکم خداوندی بیمار اِنسانیت کے جسم و جان کی سلامتی کے لئے انتھک کوشش فرماتا ہے۔

http://www.shiaarticles.com/index.php/2012-01-18-18-33-36/2012-01-19-08-...

Add new comment