ایک خاص رات

باسم اللہ الرحمان الرحیم

شعبان المعظم کےمہینے میں ایک خاص رات موجود ہے جو ایک مولود کی شب ولادت ہے۔ اس رات اور اسکے مولود دونوں ہی کی عظمت ہمارے بیان اور ادراک سے بالاتر ہے۔ تقریباً ایک ہزار سال پہلے شیخ الطائفہ نے کتاب "المتہجد" میں اس دعا کا ذکر کیا جسکا آغاز اس طرح سے ہوتا ہے:

"اللھم بحق ليلتنا هذه و مولودها ۔۔۔۔۔۔۔"

یہ کیسی رات ہے کہ اس دعا میں خدا کو اس رات کی قسم دینی چاہئے، اسکی منزلت کا کیا مقام ہے جو امام اسکے بارے میں اس ذکر کا حکم دیتے ہیں: بحق ليلتنا هذه ۔

لیکن اس بامنزلت رات میں متولد ہونے والے مولود کو دیکھ کر عقل بھی اپنا ادراک کھو بیٹھتی ہے۔ اس عالم ھستی کے اندر ایک منظومہ موجود ہے جسکے اندر خدا نے سورج کو مقرر فرمایا ہے۔ اسی طرح سے ملکوت (عالم ماوراء) کے اندر بھی ایک منظومہ موجود ہے جسکا سورج حضرت ولیعصر امام زمانہ عج ہیں۔ اگر آنکھ کو ایسی قدرت حاصل ہے کہ وہ سورج کو دیکھ سکتی ہے تو عقل بھی اس عالم ھستی کے اندر یہ قدرت رکھتی ہے کہ اس خورشید کو جسکا نام صاحب الزمان اور مہدی موعود عج ہے درک کر سکے۔ زمانہ گزر گیا اور ہم یہ نہ سمجھ سکے کہ ہم کس امام کی امت ہیں۔ امام زمانہ عج کی پہچان تب ہی ممکن ہے جب خاتم الانبیاء ص جو جہان ھستی کی اولین شخصیت ہیں کی پہچان حاصل ہو۔ سوال پیش آتا ہے کیوں؟۔ اسکے بارے میں ایک "صحیح" حدیث موجود ہے۔ صحیح حدیث ایسی حدیث کو کہا جاتا ہے جس پر اس مذھب کے تمام تر فقھاء بغیر کسی استثناء کے ہر چھوٹے بڑے فقہی مسئلے میں اس کے مطابق فتوا صادر کریں۔

خبر کی حجیت کے بارے میں فقہاء کے مبانی مختلف ہوتے ہیں۔ اکثریت موثق روایت کو حجت سمجھتی ہے لیکن بعض افراد جیسا کہ صاحب مدارک فقیہ نحریر ایک موثق خبر کی بنیاد پر فتوا صادر نہیں کرتے بلکہ صحیح خبر کے مطابق فتوا دیتے ہیں۔

بیان شدہ مطالب ایک صحیح خبر کے اندر بیان ہوئے ہیں اور وہ صحیح خبر یہ ہے:

رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا: "المھدی من ولدی اسمہ اسمی و کنیتہ کنیتی اشبہ الناس بی خلقا و خلقا "۔

یہ وہ مقام ہے جہاں عقل اپنی حیثیت کھو بیٹھتی ہے۔ پہلی بات یہ ہے کہ خاتم الانبیاء ص کون ہیں؟، یہ وہ شخص ہیں جنکے بارے میں قرآن میں ایک سورہ ہے جسکا نام "بلد" ہے۔ قرآن کی طرف رجوع کیجئے کیونکہ اس سورہ کے نام مختلف ہیں۔ سورہ یس، سورہ صافات، سورہ ملک۔ سورہ کا وہ عمود اس سورہ کے نام کا نقطہ بن جاتا ہے جسکا نام سورہ "بلد" ہے۔ بلد کا مطلب کیا ہے؟، یعنی "شہر"۔ جیسے مشہد ایک شہر ہے، تہران ایک شہر ہے، مدینہ اور مکہ شہر ہیں۔

خداوند متعال جسکے ارادے سے کروڑوں کہکشانیں گھوم رہی ہیں اور تمام تر عالم ھستی "فیکون" ہونے کیلئے اسکے فقط ایک "کن" کی منتظر ہے۔ وہی ذات اقدس اس شہر کے خدا ہونے کی حیثیت سے جس میں خاتم الانبیاء ص رہ رہے ہیں، اس شہر کی قسم کھاتے ہوئے کہتا ہے: "لا اقسم بھذا البلد و انت حل بھذا البلد"۔

چونکہ آپ اس شہر میں رہتے ہیں میں نے اس کی قسم کھائی ہے۔ یہ ہے خاتم الانبیاء ص کی عظمت۔ کون ہے وہ ھستی؟۔ یہ وہی ھستی ہے جسکے بارے میں قرآن کے اندر "اسراء" نام کی ایک سورہ موجود ہے۔ اس سورہ کا آغاز یوں ہوتا ہے:

"سبحان الذی اسری بعبدہ لیلا من المسجد الحرام الی المسجد الاقصی الذی بارکنا حولھا لنریہ من آیاتنا ۔۔۔۔۔"

یہاں آ کر شیخ انصاری جیسے لوگ بھی مبہوت و حیران رہ جاتے ہیں۔ خدا ان الفاظ میں اپنی تسبیح بیان کر رہا ہے کہ سبحان الذی (پاک ہے وہ ذات) جو اس رات اسکو معراج پر لے گیا۔ یہ ہے خاتم الانبیاء کی عظمت کا عالم۔

"اس رات ہم اسکو لے کر گئے تاکہ اپنی نشانیاں اسکو دکھائیں"۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ یہ آیات یا نشانیاں کیا ہیں؟۔

ایک سورہ قرآن میں موجود ہے جسکا نام ہے سورہ "نجم"۔

"والنجم اذا ھوی ما ضل صاحبکم و ما غوی و ما ینطق عن الھوی ان ھو الا وحی یوحی"۔

خداوند متعال اس پیغمبر کی شرح حال کو بیان کرنے کیلئے نجم یعنی ستارے کی قسم کھاتا ہے۔ یہ سب تو مدح ہے، دیکھئے کہ مداح کون ہے؟۔

مداح خود خدا ہے اور مدح سورہ نجم ہے۔ مدح یہ ہے: "و ما ینطق عن الھوی ان ھو الا وحی یوحی علمہ شدید القوی ذومرۃ فاستوی و ھو بالافق الاعلی ثم دنا فتدلی فکان قاب قوسین او ادنی ۔۔۔۔۔۔۔"

سے لے کر وہاں تک کہ خدا یہ فرماتا ہے: "لقد رای من آیات ربہ الکبری"۔

یہ آیات کونسی ہیں؟، اس شب انہوں نے کیا دیکھا؟۔ جس رات آپ ص معراج تشریف لیکر گئے، وہ معراج جسکو خود خدا نے معراج کے نام سے تعبیر کیا ہے، اس رات آپ ص کی آنکھوں کے سامنے سے پردے اٹھا لئے گئے۔ جب آپ ص نے نظر ڈالی تو بارہ ستاروں کو دیکھا۔ ان میں سے پہلا ستارہ امیرالمومنین علی ع کی ذات تھی۔ پھر آپ ص نے دیکھا کہ ان میں سے ایک ستارہ باقی ستاروں کے درمیان صبح کے ستارے کی مانند جگمگا رہا ہے۔ آپ ص نے خدا سے پوچھا: "پروردگارا، یہ کون ہے؟"۔ خدا نے یوں تعارف کروایا: "یہ آل محمد ص کا مھدی ہے، یہ زمانے کا امام ہے"۔

صحیح حدیث یہ ہے کہ "المھدی من ولدی"۔ وہ خاتم الانبیاء جسکا مداح خدا ہے وہی اب امام زمانہ عج کا مداح ہے۔ یہ ہے حضرت ولیعصر عج کا مقام۔

"المھدی من ولدی، اسمہ اسمی، کنیتہ کنیتی ۔۔۔۔۔"۔ دنیا میں کسی پر بھی خاتم الانبیاء ص کا نام و کنیہ ایک ساتھ رکھنا جائز نہیں ہے جبکہ صرف ایک شخص ایسا ہے جسکا نام اور کنیہ دونوں آپ ص کے نام اور کنیہ پر ہیں۔

رسول خدا ص کے دو نام ہیں۔ ان میں سے ایک نام آسمانی ہے جو "احمد" ہے اور ایک زمینی جو "محمد" ہے۔ آپ ص نے یہ دونوں نام امام زمانہ عج کو ھدیہ کے طور پر دیئے ہیں۔ اپنے نام کو بھی اور اپنی کنیت کو بھی۔ آپ ص کا نام بھی اور کنیت بھی جو ابوالقاسم ہے۔ یہ نام اور کنیت سوائے حضرت ولیعصر عج کے کسی بھی امام کیلئے نہیں ہے۔

یہی وجہ ہے کہ امام زمانہ عج کو پہچاننا چاہئے۔ وہ مقام جہاں عقل حیران رہ جاتی ہے وہ یہ ہے: "اشبہ الناس"۔ دنیا کے سب افراد سے زیادہ خُلق اور ُخلق میں مجھ سے شبیہ ترین فرد۔ جو کچھ بھی رسول خدا ص اپنے وجود میں رکھتے تھے، انکے وجود میں بھی اسکا انعکاس موجود ہے۔

جو چیز رسول خدا ص کے اندر موجود تھی وہ کیا تھی؟، یہ وہ علم تھا جس کے بارے میں خداوند متعال قرآن میں فرماتا ہے: "و علمک ما لم تکن تعلم و کان فضل اللہ علیک عظیما"۔

رسول خدا ص کا علم اس حد تک گہرا ہے جسے آیۃ الکرسی پڑھ کر سمجھا جا سکتا ہے۔ خدا فرماتا ہے: "العلی العظیم"۔

یہی خداے علی العظیم جب خاتم الانبیاء کے علم کو بیان کرنا چاہتا ہے تو ان الفاظ میں بیان کرتا ہے: "و کان فضل اللہ علیک عظیما"۔

آپ ص کے علم کو وہ عظمت حاصل ہے کہ خداے علی العظیم نے اسکو "عظیم" شمار کیا ہے۔ جب آپ ص کے ُخلق کو بیان کرنا چاہتا ہے تو فرماتا ہے: "انک لعلی ُخلق عظیم"۔ یہ علم اور یہ ُخلق دونوں ہی مھدی آل محمد ص کو عطا کئے گئے ہیں۔ یہ ہیں امام زمان عج۔

آج کے بعد ہمیشہ خیال رکھیں۔ اس نگاہ کے ساتھ ان سے ان کلمات کے ذریعے گفتگو کریں۔ جس قدر معرفت کی سطح بڑھتی جائے گی اسی قدر قدر و قیمت بھی بڑھتی جائے گی۔

یہ کیا مقام و منصب ہے؟۔ قرآن پڑھ کر دیکھئے۔ موسی ابن عمران کون ہیں؟۔ وہ ہیں جنکے بارے میں خدا قرآن میں فرماتا ہے: "و کلم اللہ موسی تکلیما و نادیناہ من جانب الطور الایمن و قربناہ نجیا"۔

موسی ابن عمران وہ شخص ہیں جنہیں خدا نے نو نشانیاں عطا کی تھیں۔ ان میں سے ایک وہ عصا تھا جسکو ڈالتے ہی وہ سارے جادو کو ہڑپ کر گیا۔ دوسری نشانی یہ تھی کہ جب وہ اپنا ہاتھ آستین سے نکالتے تھے تو نورانی ہو جاتا۔ موسی ابن عمران نے جب تورات کے پہلے جزء (سِفر) میں اس مقام و منزلت کا جو خدا نے امام زمانہ عج کو عطا فرمائی ہے مطالعہ کیا اور انکے عظیم مقام سے باخبر ہوئے تو فرمایا: "بار الہا، یہ کتنا عظیم مقام ہے، مومن بھی ایسے مقام کی آرزو رکھتا ہے"۔ انکی اس بات کے بعد خدا کا یہ جواب آیا: "اے موسی، یہ مقام کسی بھی دوسرے شخص کو نہیں مل سکتا"۔

حضرت موسی ع نے دوبارہ نگاہ ڈالی اور آپ عج کے فضائل و مناقب و مکارم و کمالات کو دیکھا تو دوبارہ خدا سے دعا کی کہ خدایا، مجھے وہ شخص قرار دے۔ جواب ملا ایسا ممکن نہیں ہے۔ تیسری مرتبہ وہ ہے جہاں سب علماء، حکماء و فقہاء کی عقل حیران رہ جاتی ہے۔ انہوں نے تیسری مرتبہ پھر دعا کی کہ خدایا مجھے خاتم الانبیاء کا وہ آخری جانشین قرار دے تو جواب آیا کہ ہر گز ایسا ممکن نہیں ہے۔ یہ ہے امام زمان عج کا مقام۔

انکے ساتھ رابطہ کیا چیز ہے؟۔ ان کے ساتھ رابطہ کرنے کی راہ یہ ہے۔ کیا اس شیشے کو دیکھا ہے؟۔ اس شیشے کی تاریخ کو دیکھو۔ جو کچھ بھی ہے اسی کے اندر ہے۔ یہ بلب پہلے ایک شیشہ تھا جو پتھر کے دل میں موجود تھا۔ اس پتھر کو بھٹھی میں ڈالا گیا جو وہاں جا کر پگھل گیا جس سے شیشہ الگ ہو گیا۔ اس شیشے کے ذرات کو جو ایکدوسرے سے جدا ہو چکے تھے، شیشہ گر نے خمیر کی صورت دی۔ آخر میں اس میں پھونک دیا جس سے وہ بلب کی صورت اختیار کر گیا۔ پھر اسکو ہولڈر میں لگا کر بجلی کے ساتھ متصل کیا گیا۔ اب یہ شیشہ نہ رہا بلکہ سر تا پا نور بن گیا۔

میرے اور تمہارے دل کی بھی یہی مثال ہے۔ ہماری روح بھی یہی ہے۔ یہ روح ہوا و ہوس کے پتھروں سے آلودہ ہو چکی ہے۔ مجاہدت کے ذریعے ان پتھروں وک اس روح سے جدا کرنے کی ضرورت ہے۔ جب ایسا ہو گیا تو یہ روح بھی اس مثال کی طرح ایک صاف شیشے کی صورت اختیار کر جائے گا۔ جب بلب کی صورت اختیار کر گیا تو بجلی سے اتصال کا مرکز امام زمانہ عج ہیں۔ جب یہ دل اس منبع کے ساتھ متصل ہو گیا تو یہی دل نور میں تبدیل ہو جائے گا۔ راہ یہی ہے۔ جب امام زمانہ عج آئیں گے تو وہ خاتم الانبیاء ہی کی مجسم شکل ہوں گے۔ خاتم الانبیاء کون تھے؟۔ "و ما ارسلناک الا رحمۃ للعالمین"۔

امام زمانہ عج کا وجود رحمۃ للعالمین ہے۔ بعض نادان افراد یہ سمجھتے ہیں کہ وہ آئیں گے تو قلع قمع کرنا شروع کر دیں گے۔ جب ایسا سوچتے ہیں تو پھر انکے ذہن میں یہ بات آتی ہے کہ جب وہ ہمیں مار ہی دیں گے تو ہم بھی کیوں ان کا انتظار کریں؟۔ ان میں اتنا شعور نہیں ہے کہ یہ سمجھ سکیں۔ کیا آپ نے باغ دیکھا ہے؟۔ باغبان جب اپنے باغ میں آتا ہے تو زمین سے کانٹوں کو اکھاڑ پھینکتا ہے۔ کیا اسے یہ کانٹے اکھیڑنے چاہئیں یا نہیں؟۔ باغ تو پھولوں کی نگہداشت کی جگہ ہے نہ کانٹوں کی۔ جیسا کہ باغبان اپنے باغ سے کانٹوں کو دور کرتا ہے اسی طرح امام زمانہ عج بھی انسانیت کے باغ سے کانٹوں کو نکال پھینکیں گے۔ اگر تم پھول بنو گے تو باغبان بھی تمہاری نگہداشت کرے گا۔

سرجن کیا کرتا ہے؟۔ جب ایک ٹیومر پیدا ہو جائے تو پہلے اسکا معالجہ کرتا ہے اور جہاں تک میسر ہو اسکا دواوں اور مرھم پٹی سے علاج کرتا ہے۔ اگر دواوں نے اپنا اثر چھوڑ دیا یا مرھم پٹی نے کوئی نتیجہ نہ دیا تو پھر اسکا راہ حل کیا ہو گا؟۔ یا یہ کہ وہ شخص (اس مرض کے ساتھ) مر جائے گا یا یہ کہ اس ٹیومر کو نکال دیا جائے۔ یہاں پہنچ کر ایک سرجن آپریشن کر کے اس ٹیومر کو نکال دیتا ہے۔

آیا اس سرجن سے یہ کہا جا سکتا ہے کہ کیونکر اس ٹیومر کو آپریشن کر کے نکالا؟۔ امام زمانہ عج بھی انسانیت کے ٹیومرز کا علاج کرتے ہیں۔ یہاں یہ بات آتی ہے کہ انکی تلوار بھی رحمت ہے اور عفو و بخشش بھی رحمت ہے۔ انکا تمامتر وجود رحمت ہے۔

خدایا، تجھے خون شہداء کی قسم اور علی ابن موسی علیہ السلام کے زہر خوردہ لبوں کی قسم، ہم سب کو انکی نگاہ خاص میں قرار دے۔

جب وہ ایک نگاہ کریں گے تو وہ نگاہ کیا کچھ کر ڈالے گی؟۔ انکی ایک نظر کا اثر یہ ہے:

راس المحدثین شیخ صدوق اعلی اللہ مقامہ کتاب "کمال الدین" میں محمد ابن حسن صیرفی سے ایک داستان نقل کرتے ہیں۔ کہتے ہیں کہ یہ شخص بلخ کی سرزمین کا رہنے والا تھا۔ وہاں کے لوگوں نے اپنے اموال میں سے وجوھات نکال کر اس شخص کو دیں تاکہ وہ انہیں بغداد میں امام زمانہ عج کے نائب ابوالقاسم حسین ابن روح کے حوالے کر دے۔ اب سوچئے ذرا کہ بلخ کہاں اور بغداد کہاں؟۔ وہ بھی اس زمانے میں جب تہران سے مشہد تک سوارہ دو ماہ لگ جایا کرتے تھے۔ بلخ سے بغداد۔

صیرفی نے بھی اس مال کو سونے اور چاندی کی اینٹوں میں تبدیل کر دیا اور سفر کیلئے آمادہ ہو گیا۔ کافی عرصہ چلتے رہنے کے بعد وہ "سرخس" کے مقام پر پہنچا اور وہاں اس نے ایک ریتلی جگہ پر اپنا خیمہ نصب کیا۔ جب وہ اینٹیں گننے لگا تو ان میں سے ایک ریت میں گر کر گم ہو گئی۔ وہ امانت دار شخص گیا اور اپنے مال میں چاندی خریدی۔ کچھ عرصہ چلنے کے بعد ہمدان پہنچا۔ اس زمانے کے سرخس سے ہمدان تک۔ وہاں پہنچ کر اس نے چاندی کو اینٹ میں تبدیل کروایا اور اس اینٹ کو باقی اینٹوں میں اضافہ کر دیا۔ ہمدان سے دوبارہ چل پڑا یہاں تک کہ بغداد پہنچ گیا۔ ابوالقاسم حسین ابن روح کے گھر کا پتا معلوم کیا۔ انکے گھر گیا اور سونے اور چاندی والی اینٹوں کے تھیلے کو سامنے رکھ دیا۔

محمد ابن حسن پریشان تھا۔ حسین اب روح نے اینٹوں کو اوپر نیچے کرنے کے بعد ان میں سے ایک اینٹ نکالی اور کہا: "یہ ہماری نہیں۔ جو اینٹ ہم سے تعلق رکھتی تھی وہ سرخس میں ریت کے درمیان گم ہو گئی ہے اور تم نے بھی اس خیال سے کہ امانت میں خیانت نہ وہ ہمدان پہنچنے کے بعد اپنے مال میں یہ اینٹ بنوائی اور ان اموال میں رکھ دی۔ یہ تم سے متعلق ہے۔ جب واپس لوٹو تو سرخس میں اپنے ساتھ لیتے جانا۔ اس وقت تم مجھ سے نہیں مل سکو گے۔ میرے بعد اس کو میرے نائب کے حوالے کر دینا۔

یہ وہ شخصیت تھی جس پر امام زمان عج کی صحبت کا اثر تھا۔ اس صحبت نے اسے اس مقام پر پہنچا دیا تھا جسکی وجہ سے وہ ماضی اور مستقبل کو دیکھ سکتا تھا۔ بغداد، بلخ اور سرخس اسکے زیر نظر تھے۔ ہمدان اسکے قبضہ قدرت میں تھا۔ اگر نوکر اور نائب امام زمانہ عج یہ ہے تو خود امام زمانہ عج کا مقام کیا ہو گا؟۔ یہی وہ بات ہے جسکی وجہ سے حضرت موسی ع کلیم اللہ اس مقام کی حسرت کھاتے نظر آتے ہیں۔

کتنے خوش نصیب ہیں آپ اگر اسکی قدر و قیمت جان جائیں تو۔

اس سال نیمہ شعبان کو 11 بجے سب کو دعای فرج پڑھنی چاہئے۔ سارے سال اس عادت کو ترک نہ کریں۔ روزانہ جس قدر آپ کا وقت اجازت دیتا ہے قرآن پاک کی تلاوت کریں اور امام زمانہ عج کو ھدیہ کر دیں۔

اگر اس کام کو عملی کریں اور روزانہ اس گوھر گرانبھا جو کلام خدا ہے کرتے رہین اور انکو ارسال کرتے رہیں تو رمضان کی تئیسویں تاریخ (23 رمضان) کو جو کہ شب قدر ہے آپکے اعمال کا کاغذ انکے دستخط کیلئے پہنچ جائے گا۔ کیا سوچتے ہیں کہ وہ آپکے ساتھ کیسا معاملہ کریں گے؟۔

افسوس ہے کہ عمر گزر گئی اور ہم اس سے وہ فائدہ جو اٹھانا چاہئے تھا نہ اٹھا سکے۔ آپ لوگ جوان ہیں۔ اسی جوانی کے دور سے کام شروع کر دیں۔ کسی بھی دن قرآن کی تلاوت کو ترک نہ کریں اور ہر روز اسے اپنے امام زمانہ عج کو ھدیہ کیا کریں۔ اگر کبھی مٹی کو ایک ماہ پھولوں کے دستے کے پاس رکھا جائے تو پہلے دن انکا کوئی اثر نہیں دیکھیں گے لیکن ایک ماہ بعد جب دیکھیں گے تو اس مٹی سے بھی پھولوں کی خوشبو آنے لگے گی۔

میرے اور آپ کے دلوں کی بھی یہی مثال ہے۔ ایک دن قرآن کی تلاوت کے بعد تمہارا دل وہی گیلی مٹی ہے جو ایک دن پھول کے ساتھ رہی۔ لیکن اگر ہر روز قرآن کی تلاوت کریں اور اسکا ثواب انہیں بھیجیں تو یہ ھدیہ ان تک پہنچ جائے گا۔ اسکے بعد پھر آپکا کوئی کام نہیں ہے۔ ہماری طرف سے زمانے کے سلیمان کو ھدایا۔ پھر وہ اپنے کرم کے مطابق ہمارے ساتھ کیا معاملہ کریں گے؟۔

یہ ہے وہ مقام و منصب اور یہ ہے امام زمانہ عج کے ساتھ رابطہ برقرار کرنے کا راستہ۔ آپ یہ سمجھتے ہیں کہ وہ نظروں سے اوجھل ہیں لیکن اس بات کی خبر نہیں رکھتے کہ یہ نظریں تو انہیں دیکھنے سے محروم ہیں لیکن انکے نور کی شعاعیں سب ہی دلوں پر پڑتی ہیں۔

وہ خود فرماتے ہیں: "ہم آپ کو نہیں بھولتے اور ہمیں ہمیشہ آپ کا خیال رہتا ہے"۔

آپ سب انکی نظر میں ہیں۔ کوشش کریں کہ اس نگاہ سے کبھی بیگانے نہ ہوں۔ ہمیشہ اول وقت نماز ادا کریں۔ خدا کے ساتھ اپنے رابطے کی حفاظت کریں۔ روزانہ قرآن کی تلاوت کریں اور اسے انکی طرف ھدیہ کریں۔ ان دو اعمال کے ذریعے آپ اس عالم ھستی کے مبداء سے بھی متصل رہیں گے اور اسکی حجت کے ساتھ بھی۔ دنیا اور آخرت کی سعادت آپ کے نصیب میں لکھ دی جائے گی۔

اللھم کن لی ولیک الحجۃ ابن الحسن صلواتک علیہ و علی آبائہ فی ھذہ الساعۃ و فی کل ساعۃ ولیا و حافظا و قائدا و ناصرا و دلیلا و عینا حتی تسکنہ ارضک طوعا و تمتعہ فیھا طویلا۔

اللھم اصلح کل فاسد من امور المسلمین اللھم صل و سلم علی ولیک و حجتک صاحب العصر و الزمان عدد ما فی علمک بحق محمد و آلہ الطاھرین و الحمد للہ رب العالمین۔

http://wahidkhorasani.com/web/index.php?option=com_content&view=article&...

Add new comment