امام خمینیؒ بطور نمونہ عمل
سیدرمیز الحسن موسوی
حضرت امام خمینی ؒ کو اُمت سے جداہوئے کئی سال ہوچکے ہیں ،لیکن دنیائے اسلام کے اس عظیم قائد نے علم وعمل کے میدان میں ایسے انمٹ نقوش چھوڑے کہ جن کی یاد کبھی بھی دلوں سے نہیں مٹ سکے گی۔ حضرت امام اُمت ؒ نے چہاردہ معصومین علیہم السلام کے بعد اُمت اسلام میں قیادت ورہبری کاایسا معیار قائم کیا ہے کہ جس پر پورا اُترنا دنیائے اسلام کے قائدین کے لئے ناممکن نہیں تو مشکل ضرور ہوگا ۔امام خمینی ؒ کی قیادت ورہبری کی چند خصوصیات ایسی ہیں کہ جن پر عمل پیرا ہوئے بغیر کوئی بھی دینی قیادت اپنے معاشرے کی قیادت ورہبری کے فرائض درست انداز میں پورے نہیں کرسکتی ۔وہ بھی اس جدید دور میں کہ جب شیطانی قوتیں اپنے عروج پر ہیں اور گمراہی وضلالت کے راستے اس قدر پیچیدہ ہوچکے ہیں کہ جن سے ’ تقویٰ الہٰی ‘‘کے محکم قلعے کے بغیر محفوظ نہیں رہا جاسکتا ۔
حضرت امام خمینی ؒ کی زندگی کے چند پہلوؤں کو دیکھا جائے تو پتا چلتا ہے کہ دنیائے اسلام کا یہ عظیم قائد ایمان ویقین اور اللہ تعالیٰ کے وجود پر اعتقاد کی اعلیٰ ترین منزلوں پر فائز تھا ۔امام اُمت ؒ کے نزدیک رہنے والے لوگوں نے جو حالات وواقعات بیان کئے ہیں اُن کی روشنی میں مذکورہ خصوصیات کو بخوبی سمجھاجاسکتا ہے ۔ان میں سے چند واقعات یہاں نقل کئے جاتے ہیں ۔
قوت برداشت
حضرت امام ؒ کا شمار مشکلات ومصائب کے تحمل اور اپنی قیادت کے مشکل ترین لمحات میں قوت برداشت کے لحاظ سے دنیا کے چیدہ چیدہ لیڈروں میں ہوتا ہے ۔اس سلسلے میں اُن کے ایک معالج لکھتے ہیں :
’’جوواقعات مجھے یادہیں ان میں سے ایک زندگی کے مشکلات ومصائب پراس عظیم الٰہی انسان کاانتہائی قوت برداشت کامظاہرکرناہے۔ ایک مرتبہ تقریباً ساڑھے گیارہ بجے کاوقت تھاجب میں آقائے صانعی کے ساتھ دفترمیں بیٹھاتھاکہ اچانک ٹیلی فون آیااورہمیں خبردی گئی کہ (رہبر معظم ) آیت اللہ خامنہ ای پرقاتلانہ حملہ کیاگیاہے۔ فطری طورپراس خبرنے سب کوپریشانی میں مبتلا کردیا۔ لازم تھا یہ افسوسناک خبرامام تک بھی پہنچائی جاتی۔ آقائے صانعی نے مجھ سے امام کے خصوصی معالج ہونے کے ناطے کہاکہ اس خبرکوامام تک پہنچانے کے لئے اس اندازمیں کوئی بندوبست کریں کہ ان کی روح اورجسم پراس خبرکوسننے کے بعدکم ازکم اثرہو۔میں نے سوچاکہ امام کوچائے میں خواب آورگولیاں دے دی جائیں اوراس کے ایک گھنٹہ بعدیہ خبرانتہائی شائستہ اندازمیں آپ تک پہنچائی جائے۔ آقائے صانعی نے بھی اس ترکیب کوقبول کرلیامگرکہا:اگرآپ اجازت دیں تواستخارہ دیکھ لوں۔ استخارہ کیاتواچھانہ آیا لہذا ہم نے اس اندازکوترک کردیا۔ آقائے صانعی نے ارادہ کیاکہ خودجاکریہ خبرامام کوسنائیں جب واپس آئے توفرمایاکہ جب میں امام کی خدمت میں پہنچاتوبہت پریشان تھاکہ کس طرح یہ خبرامام کوسناؤں امام جائے نمازپربیٹھے تھے اس سے پہلے کہ میں کچھ کہتاامام نے فرمایا: ’’آقائے خامنہ ای پرقاتلانہ حملہ ہواہے؟!‘‘ جب میں نے دیکھاکہ امام کواس واقعے کی خبرہے تومجھے تسلی ہوئی۔
یہ کہ امام کویہ خبرکیسے ملی؟ میں کچھ نہیں کہہ سکتاالبتہ مسلم ہے کہ آقائے صانعی سے پہلے کوئی بھی آپ کی خدمت میں نہیں گیاتھاجویہ خبرآپ تک پہنچاتا۔ ایسامعلوم ہوتاہے کہ آپ کوالہام ہوا تھااورآپ سمجھتے تھے کہ آقائے صانعی یہ خبردینے آئے ہیں اورپریشان ہیں لہذا ان کی مشکل حل کرنے کے لئے آپ نے خود سے بات کاآغاز کردیا۔
ایسانہیں تھاکہ امام اس ناگوارواقعے پرلاتعلق رہیں بلکہ ایسے واقعات کے بارے میں آپ بہت حساس تھے مگراس کے باوجودان مصیبتوں اورمشکلات پربے پناہ تحمل کامظاہرہ کرتے تھے اوران مسائل کوحل کرنے کی جستجومیں لگ جاتے تھے اسی وجہ سے امام نے آقائے صانعی سے کہا کہ ڈاکٹرپورمقدس سے کہاجائے کہ ہرآدھے گھنٹہ بعد آقائے خامنہ ای کی زندگی کی علامات کی رپورٹ ان کودی جائے۔ زندگی کی علامات سے مراد بلڈپریشر، سانس لینے کی رفتار، بے ہوشی وغیرہ کی کیفیت اورنبض کی رفتار ہے۔ یہ مسئلہ امام کی نظرمیں اس قدر اہم تھاکہ وہ چیزیں جوصرف ڈاکٹر حضرات کی دلچسپی کاباعث ہوتی ہیں آپ خود ایک ڈاکٹر کی طرح ان کے بارے میں جاننا چاہتے تھے‘‘۔
ایران کے اسلامی انقلاب کی تاریخ کا ایک سخت ترین وقت وہ تھا جب عالمی سامراج کے کارندوں کی جانب سے انقلابی قیادت کو ختم کرنے کا اقدام کیا گیا اور ایک بم دھماکے میں ۷۲ انقلابی رہنماؤں اور کارکنوں کو جام شہادت نوش کرنا پڑا ۔یہ وقت انقلابی قیادت پر بہت سخت تھا ،لیکن اللہ تعالیٰ پر اعتقاد اور یقین کی حامل اس قیادت نے اس تلخ ترین جام کو بھی ہنسی خوشی قبول کرکے صبر وتحمل کی مثال قائم کردی تھی اور عملاً دنیا والوں پر واضح کردیا تھا مکتب کربلا سے تعلق انسان کو بڑی سے بڑی مصیبت برداشت کرنے کا حوصلہ دے دیتا ہے ۔اس سلسلے میں امام کے یہی معالج لکھتے ہیں :
’’ایک اورمسئلہ جواس عظیم شخصیت کی قوت برداشت کاگواہ ہے ،وہ حزب جمہوری اسلامی کے دفتر میں بم کے دھماکے کاواقعہ ہے ہم خیال کرتے تھے کہ امام کے ۷۲ بہترین ساتھیوں کی شہادت کی خبر آپ تک پہنچے گی توواقعاً آپ کی حالت دگرگوں ہوجائے گی اوراس کاآپ کوسخت روحانی صدمہ پہنچے گاہم جوعام افراد تھے اضطراب کاشکارہوچکے تھے مگرجب یہ خبرآپ تک پہنچی توآپ نے نہایت تحمل کیابلکہ اسی دن نہایت اہم تقریرفرماکر قوم وملت کی تسکین کاباعث بھی بنے۔ اس موقع پراگرہم سے مشورہ کیاجاتاتوہم یہی کہتے کہ امام کوآرام چاہیے لہذا تقریرسے پرہیزکرناچاہیے مگرآپ اس موقع پرخودآگے بڑھے اورایساخطاب کیاجس نے عوام کے زخمی دلوں پرمرہم کاکام کیا۔ یہ سب اس بات کی علامت ہے کہ آپ ان مشکل مواقع پر کس قدر تحمل فرماتے تھے اوریقیناًیہ چیزیں ہمارے لئے درس ہیں‘‘۔
نظم وضبط
دنیا کے عظیم لیڈروں اور کامیاب انسانوں کی زندگی میں نظم وضبط کو خاص اہمیت حاصل ہوتی ہے ۔اس لحاظ سے بھی حضرت امامؒ کسی سے پیچھے نہیں تھے بلکہ وقت کی پابندی اور نظم وضبط میں دوسروں کے لئے مثال سمجھے جاتے ہیں ۔اس سلسلے میں امام کے ایک قریبی ساتھ لکھتے ہیں :
’’ایک اوربات جوتقریباً بہت سے افرادنے بیان کی ہے آپ کی زندگی کامثالی نظم وضبط ہے۔واقعاً یہ پوری ملت اسلامیہ کے لئے نمونہ ہے اوراس مسئلے میں اس عظیم شخصیت کی پیروی کی جاناچاہیے۔ آپ کی ملاقات کاوقت مقررتھااخبارات اوررسائل کے مطالعے کاوقت مشخص تھا۔ کب عبادت کرناہے کس وقت قرآن کی تلاوت کرنی ہے۔ چہل قدمی کے لئے کب جاناہے ہرایک کے لئے وقت معین تھاخلاصہ یہ کہ آپ کاعبادت کرنا،نمازاورقرآن پڑھنا، مفاتیح الجنان پڑھنا، چہل قدمی حتیٰ کہ سونے کاوقت بھی معین تھامعمولاً آپ صبح کے کاموں سے فراغت کے بعد تقریباً ساڑھے دس یاپونے گیارہ بجے قیلولہ فرماتے تھے اورپون گھنٹہ سونے کے بعدبیدارہوجاتے تھے آپ کے اس آرام کے اوقات میں نہ کبھی ایک منٹ زیادہ ہواتھانہ کم۔ ہم آپ کے سونے اورجاگنے کے اوقات کوٹیلی ویژن مانیٹرکے ذریعہ سمجھ جاتے تھے کہ آپ کے دل کی دھڑکن میں تبدیلی واقع ہوتی ہے بیداری کے لئے آپ الارم بھی استعمال نہیں کرتے تھے کیونکہ وقت پرسوتے اوروقت پربیدارہوتے تھے۔
رات کوآپ کی نمازتہجدکبھی بھی ترک نہیں ہوتی تھی اورہمیشہ نمازفجرکے ساتھ متصل ہوتی تھی رات کوسونے کے اوقات بھی مشخص تھے اورپورے ساڑھے دس بجے آپ سوجاتے تھے آپ کی زندگی میں نظم وضبط اس طرح سے حکمفرماتھاکہ آپ کی حرکات وسکنات کے ذریعے انسان اپنی گھڑی کی خرابی یادرستگی کوجان سکتا تھا‘‘۔
راز ونیاز اور گریۂشب
الہٰی انسانوں اوردینی قائدین کی کامیابی کا سب سے بڑا راز اُن کا اپنے خالق سے رابطہ اور قلبی تعلق ہے ۔جو شخص معاشرے کی گرفت اپنے ہاتھ میں لینا چاہتا ہے اور سیاسی واجتماعی رہنمائی کا فریضہ ادا کرنا چاہتا ہے وہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ خصوصی راز ونیاز کے بغیر معاشرے کی رہنمائی کا یہ فریضہ ادا نہیں کرسکتا ۔یہ چیز انبیائے کرام سے لیکر ائمہ معصومین علیہم السلام کی سیرت میں بھی بخوبی دیکھی جاسکتی ہے ۔اور غیر معصوم شخصیات میں بھی جس نے اسلامی معاشرے کی قیادت ورہبری کا فریضہ ادا کیا ہے ،اُس کی زندگی میں عبادت اور گریہ شب کو خصوصی مقام حاصل رہا ہے ۔اس سلسلے میں امام خمینی ؒ ایک مثالی حیثیت رکھتے ہیں ۔اُن کے قریبی ساتھیوں میں سے ایک صاحب نقل کرتے ہیں :
’’امام کی تمام زندگی معاشرے کے لئے نمونہ ہے اس لئے ضروری ہے کہ نمازتہجدکے دوران میں آپ کی حالت گریۂ وزاری کوبھی بیان کیاجائے ہم جوکہ امام کے قریب تھے آپ کی راتوں کوگریہ وزاری کے گواہ ہیں اورخداسے آپ کے رازونیاز کے شاہدہیں حتیٰ کہ جب آپ کوہسپتال منتقل کیاگیااوراگلے روزآپ کاآپریشن تھااس رات بھی آپ اپنے معمول کے مطابق اٹھے اورنمازتہجدمیں مشغول ہوگئے اس نمازتہجدکی وڈیوفلم مخفی طورپربنائی گئی ہے اورعوام کے استفادہ کے لئے نشربھی ہوچکی ہے مگراس فلم کاایک حصہ مصلحتاً حذف کر دیاگیا ہے یہ وہ موقع ہے جب آپ اپنے پروردگار کے حضورگریہ وزاری میں مصروف ہیں مجھے امیدہے کہ فلم کایہ حصہ بھی عوام کئے نشرکیاجائے گاتاکہ اس عظیم انسان کی خداکے حضور خشوع وخضوع اورتواضع وانکساری کامشاہدہ کیاجاسکے جس انسان میں خوف نام کی کوئی چیزنہ تھی اورجوعالمی استکبار وطاغوت کے مقابلے میں اکیلا کھڑاتھا اورکسی سے نہ ڈرتاتھا۔
رات کے ان لمحات میں بعض مصلحتوں اورمجبوریوں کے باعث ہمیں امام کے نزدیک جاناپڑتا اورامام متوجہ نہ ہوتے توہم آپ کواس حالت میں پاتے کچھ دوستوں کاخیال ہے کہ اس فلم کے نشرہونے کے باعث کہیں ایسانہ ہوکہ لوگ یہ سمجھیں کہ امام اپنے آپریشن کے خوف سے رو رہے ہیں لہذا اس حصے کوحذف کردیاگیاہم جوہمیشہ آپ کی خدمت میں رہتے تھے اورہمارا آپ سے قریبی رابطہ تھااس بات کے چشم دیدگواہ ہیں کہ آپ کی آپریشن سے پہلے والی رات اوردوسری عام راتوں میں کوئی فرق نہ تھا اس سے پہلے کہ ڈاکٹر تشخیص کرتے کہ آپ کی زندگی کے آخری ایام ہیں آپ خودجانتے تھے کہ آپ کی عمرکے ایام ختم ہونے والے ہیں اس کے باوجود آپ میں خوف ووحشت یااضطراب کے ذرہ برابر اثرات بھی دیکھنے میں نہیں آتے۔
قوم وملت کی مشکلات میں شرکت
امام خمینی ؒ اپنے عوام کا بہت زیادہ احترام کرتے تھے اور قوم کے دکھ ودرد میں برابر کے شریک رہتے ۔امام خمینی ؒ دنیوی لیڈروں کی طرح اپنی آسائش وآرام کو قوم وملت کی آسائش وآرام پر ترجیح نہیں دیتے تھے لہذ اجب قوم پر کڑا وقت آیا ،اس مصیبت ومشکل میں قوم کے ساتھ شریک رہے ۔اس سلسلے میں جنگ کے دوران کے چند ایسے واقعات ہیں کہ جن سے آپ کی اس خصوصیت کی بخوبی عکاسی ہوتی ہے ۔اُن کے ایک ڈاکٹر بیان کرتے ہیں :
تہران پرمیزائلوں کے حملوں اوربمباری کے دوران میں جوتقریباً چھ ماہ پرمحیط ہے میں نے سوچا شاید یہ واقعات ہمارے لئے مشکلات پیداکریں لہذا میں نے اپنی سکونت کی جگہ تبدیل کرلی اورحضرت امام کے گھر کے قریب ہی آکر رہنے لگا ۔یہ حالات اسی طرح باقی رہے یہاں تک کہ یہ حملے ۱۹۸۸ء میں اپنے اوج پر پہنچ گئے۔ ایک دن تقریباً ساڑھے گیارہ بجے آقائے انصاری (امام ؒ کے دفتر کے انچارج ) تشریف لائے اور مجھ سے کہا ڈاکٹر صاحب !آئیے امام کے پاس چلیں ۔میں نے امام کے پاس جانے کی وجہ دریافت نہ کی اور اکٹھے امام کی خدمت میں پہنچ گئے ۔آپ کے ہاتھ میں تسبیح تھی اور اپنے معمول کے مطابق ذکر وتسبیح میں مشغول تھے ۔جب ہمیں دیکھا تو تعجب کرنے لگے کہ ہمیں کیا کام ہے کہ اتنی عجلت میں انکی خدمت میں آپہنچے ہیں ۔آقائے انصاری تو امام سے بہت مانوس تھے اور آپ سے بغیر جھجک کے بات کرسکتے تھے مگر اس دن میں نے دیکھا کہ ہمیشہ کے برخلاف سرلٹکائے ہوئے تھے اور بڑی عجزوناتوانی کی حالت میں امام کی خدمت میں کچھ کہہ پا رہے تھے۔ آقائے انصاری کی گفتگو کچھ ا س طرح تھی :
شہر کی حالت یہ ہے کہ اکثر لوگ شہر چھوڑچکے ہیں یااگر نہیں چھوڑا تواپنے گھروں میں پناہ گاہیں بناکر رہ رہے ہیں۔مختلف افراد جو آپ کے دفترمیں موجودہیں جیسے میں اور یہ ڈاکٹر صاحب پروانوں کی طرح مختلف امور کی وجہ سے آپ کے گرداگرد جمع ہیں اور بمباری کے سلسلے میں تشویش اور پریشانی کے شکارہیں لہذاانکی خاطر آپ سے گزارش ہے کہ آپ قبول فرمائیں کہ آپ کو کسی پرامن جگہ پر منتقل کردیاجائے۔اس کے علاوہ اس بات کی بھی خبریں ہیں کہ دشمن نے ارادہ کیا ہے کہ جماران کو میزائل کا نشانہ بنایاجائے نیز قرائن بھی اس پر دلالت کرتے ہیں۔ لہٰذاآپ سے استدعاہے کہ اجازت دیں تاکہ آپ کو ایک پرامن جگہ پرلے جایاجائے۔
یہ سب سننے کے بعد امام نے نہایت نرم لہجے میں اپنے فرزند آقائے احمد خمینی کے گھر کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا:’’ یہ احمد بھی اپنے بیوی بچوں سمیت چلاجائے۔‘‘پھر کچھ زور دے کر کہامیں اپنی اقامت گاہ کسی صورت نہیں بدلوں گا۔‘‘
آقائے انصاری اپنی بات پر اصرار کرتے رہے اوراب بھرائی ہوئی آوا زمیں اپنی بات کی تکرارکی اور امام سے کہا کہ قبول فرمائیں ۔اس مرتبہ امام مسکرائے اور فرمایا ’’آقائے انصاری !آپ کا اندازہ ٹھیک نہیں ہے آپ کیوں جذباتی ہورہے ہیں اپنے جذبات پر قابورکھیں۔ ‘‘ اس وقت جب امام نے آقائے انصاری کی التماس بھری حالت دیکھی تو بڑے پیارسے کہاآپ ڈاکٹر صاحب کے ساتھ جائیے اور اپنی منصوبہ بندی کے کاغذات اور نقشہ جات لے آئیے تاکہ فیصلہ کرسکوں ۔ہم بہت خوش ہوئے کہ آپ نے بالآخر ہماری بات مان لی ۔میں نے خوشی کے عالم میں آقائے انصاری کو چوم لیا اور کہا :ملت کے بزرگوں میں سے سب آئے اور امام سے خواہش کرتے رہے کہ ان حالات میں کسی پرامن جگہ پر چلے جائیں مگر امام نے قبول نہ کیااور اب بہت اچھاہواہے کہ آپ کی گفتگو موثر رہی ہے اور امام ؒ مان گئے ہیں۔
اس واقعے کو دس منٹ نہ ہوئے تھے کہ جناب احمد خمینی نے ٹیلی فون کیا اور کہا آپ کولوگ اپنے آپ کو پریشانی میں مبتلا نہ کریں ۔امام آپ کا بہت احترام کرتے ہیں اس لئے آپ سے یہ نہ کہہ سکے کہ چلے جائیں بلکہ کہا کہ جائیے کاغذات لے آئیے ۔اب انہوں نے مجھ سے کہا ہے کہ میں کسی صورت بھی اپنی اقامت گاہ تبدیل نہیں کروں گا۔
Add new comment