اہل سنت اور یزید پر لعنت

 

تدوین حجہ الاسلام سید پیر شاہ عرفان نقوی

اہل سنت کے درمیان یزید کے بارے میں تین ۳ نظریے پائے جاتے ہیں

ابن حجر ہیثمی مکی اپنی کتاب« الصواعق المحرقة» میں لکھتا ہے :

1) اہل سنت میں سے ایک گروہ اس نظریے کا قائل ھے کہ یزید کافر تھا اس کی دلیل میں وہ ابن جوزی کی بات کو نقل کرتا ہے کہ جب امام حسین علیہ السلام کا سر مبارک شام میں لایا گیا تو یزید نے لوگوں کو جمع کر کے امام حسین علیہ السلام کے سر و دانتوں پر ایک لکڑی کے ساتھ ضربیں لگا رھا تھا اور یہ شعر پڑہ رہا تھا

ليت اشياخى ببدر شهدوا *** جزع الخزرج من وقع الأسل

لأهلوا و استهلوا فرحاً *** ثم قالوا يا يزيد لا تشل...

لعبت هاشم بالملك فلا *** خبر جاء ولا وحى نزل

ابن جوزى حنبلی کہتا ہے : «ليس العجب من قتال ابن زياد للحسين و انما العجب من خذلان يزيد و ضربه بالقضيب ثنايا الحسين و حمله آل رسول الله سبايا على اقتاب الجمال و لو لم يكن فى قلبه احقاد جاهلية اضغان بدرية لاحترم الرأس لما وصل اليه و كفنه و دفنه وأحسن الى آل رسول الله(صلى الله عليه وآله)»؛[1] ابن زیاد کی امام حسين بن على(عليه السلام) کے ساتھ جنگ کرنا اتنی تعجب آور نہیں بلكه تعجب یزید کی خواری و خذلان پر ہے کہ وہ ایک لکڑی کے ساتھ امام حسین علیہ السلام کے دانتوں کو مار رہا تھا اور اہل بیت رسول صلی اللہ علیہ و آلہ کو اونٹوں پر سوار کرا کے قیدی بنانے پر ہے ۔ اگر یزید کی دل میں وہی جاھلیت اور جنگ بدر کا کینہ نا ہوتا تو وہ امام حسین علیہ السلام کی سر مبارک کی تعظیم کرتا اور اسکو کفن و دفن کراتا اور آل رسول صلی اللہ علیہ و آلہ کے ساتھ اچھے طریقے سے پیش آتا۔

2) دوسرا گروہ اس نظریے کا قائل ہے کہ یزید کافر نہیں

کیونکہ جب یزید کے سامنے شام میں امام حسین علیہ السلام کا سر مبارک آیا تو وہ سر سے اسطرح گویا ہوا: «رحمك الله يا حسين لقد قتلك رجل لم يعرف حق الارحام و قال قد زرع لى العداوة فى قلب البر و الفاجر»؛ اللہ تم پر رحمت کرے ای حسین تم کو اس شخص نے مارا ھے کہ جسکو ارحام و (آپ) کی قوم کا پتا ہی نھیں تھا اور تم کو قتل کر کے اس نے میرے خلاف ہر مومن و فاجر آدمی کی دل میں عداوت ڈال دی ۔[2]

ج) تیسرا گروہ اسکی تکفیر و عدمہ میں توقف کا قائل ہے .

ابن جوزى حنبلی اپنی کتاب «الرد على المتعصب العنيد المانع من ذم اليزيد» میں لکھتا ہے کہ: « سوال کرنے والے نے مجھ سے سوال کیا ہے کہ کیا یزید پر اسکی کربلاء کی جنایت کی وجہ سے لعنت کرنا جائز ہے یا نہیں ؟ تو میں نے اسے کھا کہ : علماء پرہیزگار جیسے امام احمد بن حنبل نے اسکے اوپر لعنت کرنے کو جائز قرار دیا ہے ». اسی بات کے حاشیہ میں شيخ محمد محمودى فرماتے ہیں: « شيخ عبدالكريم صاحب کتاب «مجمع الفوائد و معدن الفرائد» میں لکھتے ہیں کہ وہ فرماتے تھے کہ :میں نے اس کتاب (ابن جوزی والی کتاب)کو حرم نبوی صلی اللہ علیہ و آلہ کے کتابخانہ میں 1384 ہ ۔ ق میں دیکھا.وہاں لکھا تھا کہ مسلمانوں کا اجماع ہے کہ جناب زہراء سلام اللہ علہا کی اولاد رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ کی ذریت میں سے ہیں اور ضروری ہے کہ ان پر درود و سلام بھیجا جائے ۔اسکے بعد وہ على و فاطمه و حسن و حسين(عليهم السلام) کے فضائل میں روایات نقل کرتا ہے اور اسکے بعد کھتا ہے کہ یزید لعین اور اسکے ماننے والوں نے اہلبیت علیہم السلام کی اہانت کی اسی وجہ سے وہ دشمنی اور لعنت کے حقدار ہیں اور جسکو بھی یزید کے اوپر لعنت کرنے کے جواز کے اوپر دلائل چاہئیں وہ اس کتاب کی طرف رجوع کرے۔». بعد میں وہ لکھتا ہے کہ : «کچھ افراد یزید کے اوپر لعنت کرنے کو اس خوف کی وجہ سے جائز قرار نہیں دیتے کہ كه کہیں یہ لعنت یزید سے اسکے باپ ( معاویہ ) کی طرف سرایت نا کر جائے ».[3] یہ بات تفتازانی کی کتاب«شرح المقاصد» میں بھی ذکر ہوئی ہے.[4]

ابن حجر لکھتا ہے کہ : «قاضى ابويعلى کی ایک کتاب ہے کہ جس میں اس نے ان لوگوں کا نام ذکر کیا ہے جو لعنت کے مستحق ہیں اس میں انہوں نے یزید کا نام بھی درج کیا ہے اور دلیل میں رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ سے روایت نقل کرتے ہیں کہ رسول خدا نے فرمایا :«من اخاف اهل المدينة ظلماً أخافه الله و عليه لعنة الله و الملائكة والناس اجمعين؛ جس نے بھی مدینے کے لوگوں کو ڈرایا اسکو خدا جلد ہی ( اپنے عذاب سے ) ڈرایے گا اور اسکے اوپر اللہ اور ملائکہ اور تمام انسانوں کی لعنت ہو ». اسکے بعد لکھتے ہیں : «اس بات میں شک نہیں ہے کہ یزید نے اپنے مسلح لشکر کو مدینے کے رہواسیوں کے خلاف جنگ کرنے کے لئے بھیجا اور انکے خلاف جنایات کے ذریعے سے انکی دل میں خوف ڈالا اور مدینے کو ۳ دن تک اپنے لشکر کے لئے مباح قرار دیا ». تاریخ میں نقل ہوا ہے کہ مدینے میں یزیدی لشکر نے اصحاب رسول و مدینے کے رہنے والوں کی ۳۰۰ باکرہ لڑکیوں کے ساتھ زنا کی اور کافی اصحاب کو قتل کیا اور مسجد النبی میں نماز جماعت کو بند کروا دیا اور اس جنگ کے بعد عبد اللہ ابن زبیر کے ساتھ جنگ کرنے مکہ روانہ ہوئے اور کعبے کو منجنیق کے ساتھ آگ میں جلایا.[5]

ایک مھم نکتہ :

اہل سنت کے کچھ علماء قاتلان امام حسین علیہ السلام پر کلی طور پر یعنی کسی کا نام لئے بغیر لعنت کرنے کو جائز اور مورد اتفاق قرار دیتے ہیں ۔ مثلا اسطرح کھا جائے کہ ائ اللہ امام حسین علیہ السلام کے قاتلین پر اور جس نے انکے قتل کا حکم دیا اس پر لعنت فرما ملاحضہ فرمائیں

سعدالدين تفتازانى رقمطراز ہے : «وامّا ما جرى بعدهم من الظلم على اهل بيت النبى(صلى الله عليه وآله)فمن الظهور بحيث لا مجال للاخفاء و من الشناعة بحيث لا اشتباه على الآراء اذ تكادُ تشهد به الجماد و العجماء و يبكى له من فى الارض والسماء وتنهد منه الجبال و تنشق الصخور ويبقى سوء عمله على كرّ الشهور و مر الدهور و لعنة الله على من باشر او رضى او سعى و لعذاب الآخرة أشد و أبقى»؛[6] وہ ظلم و ستم جو اہلبیت رسول صلی اللہ علیہ و آلہ پر کیا گیا اسقدر روشن ھے کہ اسمیں کوئی ابھام نہیں بلکہ تمام جمادات و حیوانات اس ظلم و ستم پر گواہی دیتے ہیں اور زمین و آسمان میں رہنے والوں نے انکی مظلومیت پر گریہ کیا پہاڑ ریزہ ریزہ ہوگئے اور اس ظلم کے آثار ہمیشہ کے لئے تاریخ کے صفحات پر ثبت ہوگئے اور اللہ ہر اس شخص پر لعنت فرمائے کہ جو اس ظلم میں شریک تھا یا اسپر راضی تھا یا اسکے مقدمات کو انجام دینے والا تھا ، بتحقیق آخرت کا عذاب بہے ہی شدید ہے

مسعودى یزید کے بارے میں لکھتا ہے : «یزید ایک خوشگزران و عیاش شخص تھا اور ایک ایسا شخص تھا کہ جو کتوں اور بندروں سے محبت کرتا تھا اور ہمیشہ شراب کی محفلیں سجاتا تھا . امام حسین علیہ السلام کے قتل کے بعد ایک دفعہ ایک ایسی ہی شراب کی محفل میں وہ ایک طرف بیٹھا تھا اور ابن زیاد دوسری طرف بیٹھا تھا تو اس نے شراب کے ساقی کی طرف دیکھ کر یہ شعر کھا :

اسقنى شربة تروى مشاشى *** ثمّ صل فاسق مثلها ابن زياد

صاحب السر و الامانة عندى *** و لتسديد مغنمى و جهادى

ای ساقی مجھے شراب کا ایک اور جام پلا دےاور میری نرم ھڈیوں کو سیراب کردے ۔ اسکے بعد اسطرح کا ہی ایک جام ابن زیاد کو پلا دے ۔ (ابن زیاد وہ ہے کہ ) جو میرا رازدار اور میرے کاموں میں میرا امین ہے کہ جس کے جھاد ( امام حسین علیہ السلام کے قتل ) کے ذریعے سے میری خلافت کی اساس و بنیاد مظبوط ہوئی ہے ۔ اسکے بعد مسعودی یزید کے اس بندر کہ جسکا نام ابو قیس رکھا گیا تھا کہ حالات ذکر کرتا ہے کہ کسطرح خلافت رسول صلی اللہ علیہ و آلہ پر بیٹھ کر اسطرح کی حرکات کی جاتی تھیں.[7]

[1] .الصواعق المحرقة فی الرد علی اهل البدع و الزندقة، احمد بن حجر الهیتمی المکی(م:899ه)، ص220، مکتبة القاهرة.

[2] .ه الصواعق المحرقة فی الرد علی اهل البدع و الزندقة، احمد بن حجر الهیتمی المکی(م:899ه)، ص220، مکتبة القاهرة.

[3] .الرد علی المتعصب العنید المانع من ذم الیزید، ابن الجوزی، ص13.

[4] . شرح المقاصد، ج5 ، 311، المبحث السادس الأفضلية بين الخلفاء الراشدين.« فإن قيل: فمن علماء المذهب من لم يجوز اللعن على يزيد مع علمهم بأنه يستحق ما يربو على ذلك و يزيد.قلنا: تحاميا عن أن يرتقى إلى الأعلى فالأعلى، كما هو شعار الروافض على ما يروى في أدعيتهم و يجري في أنديتهم».

[5] . الصواعق المحرقة فی الرد علی اهل البدع و الزندقة، احمد بن حجر الهیتمی المکی(م:899ه)، ص222، مکتبة القاهرة.

شاه عبدالحق محدث دهلوى اپنی کتاب ما ثبت من السنة، ص 63 پر لکھتا ھے : «امام حسين(علیه السلام) کو جب شھید کیا گیا اور ان کا سر مبارک ایک طشت میں رکھ کر ابن زیاد کے پاس لایا گیا ۔ خدا لعنت کرے انکے قاتلین و ابن زیاد ویزید ابن معاویہ پر ». مولوى رشيد احمد كنگوهى مؤسس دارالعلوم ديوبند یزید کے بارے میں لکھتا ہے کہ : «پيغبر اکرم(صلی الله علیه و آله) نے فرمایا : من اخاف اهل المدينة ظلماً أخافه الله و عليه لعنة الله و الملائكة والناس اجمعين؛ جس نے بھی مدینے کے لوگوں کو ڈرایا اسکو خدا جلد ہی ( اپنے عذاب سے ) ڈرایے گا اور اسکے اوپر اللہ اور ملائکہ اور تمام انسانوں کی لعنت ہو. صحیح مسلم میں روایت درج ھے کہ یزید نے اپنے لشکر کے ذریعے سے انکی دل میں خوف ڈالا.

[6] . شرح المقاصد، ج5 ، 312.

[7] . بررسى تاريخ عاشورا، مرحوم آيتى، ص
http://www.shiaarticles.com/index.php/2011-11-29-20-24-40/2300-2012-08-2...

Add new comment