امام مہدی ؑ کا علمی تعارف
معارف حقہ اور قرآنی الٰہیات کے استاد حضرت شیخ مجتبیٰ قزوینی خراسانی (متوفی ۱۳۸۶ھق) نے اپنی گرانقدار کتاب ’’بیان الفرقان، ج ۵‘‘ میں امام عصر علیہ السلام کی غیبت سے متعلق کچھ مطالب اور مباحث بیان کئے ہیں ۔ منجملہ گرانبہا اور بیش قیمت مباحث کہ جس کی طرف اشارہ کیا جائے گا(گذشتہ سے پیوستہ شیعہ کتابوں میں بشارتیں)
، یہ ہیں :
۱۔ کامل اور جزئی فرج کے درمیان فرق
۲۔ ظہور سے متعلق اور غیر متصل علائم کے درمیان فرق۔
۳۔ قطعی اور غیر قطعی علائم کے درمیان فرق ۔
۴۔ علائم ظہور اور علائم قیامت کے درمیان فرق ۔(اشراط ساعت)
۵۔ہر اعتبار سے تعیین وقت کی رد۔ (خواہ علوم غربیہ کی بنیاد پر کیوں نہ ہو)
۶۔ غیبت کبریٰ کے درمیان عدم منافات اور کچھ لوگوں کے لئے امکان تربیت۔
خلاصہ یہ کہ عظیم استاد کی ذکر کردہ توضیحات کچھ اس طرح ہیں۔
پہلا مسئلہ
کچھ احادیث نے فرج کے لئے نزدیک کے زمانہ کا (تقریباً ۱۴۰ سال تک) ذکر کیا ہے یا بنی امیہ کی حکومت کا گرنا اور اس جیسے واقعات کو فرج کا مقدمہ کہا ہے ۔ یہ سب جزئی فرج پر ناظر ہے۔ یعنی : ائمہ طاہرین علیہ السلام کے لئے گشائش اور فرج کا حاصل ہونا تاکہ شیعوں کی تربیت اور اسلامی تعلیمات کو نشر کرسکیں۔ اسی طرح شیعوں کے لئے پر سکون دور کا فراہم ہونا تاکہ دباؤ، قید وبند ، شکنجہ اور خطرناک عواقب سے ہی کچھ مدت کے لئے سہی آسودہ خاطر ہوں۔ اسی طرح کی روایات کلی اور عالمی فرج پر دلالت نہیں کرتیں۔کیونکہ کلی فرج کے لئے کسی جہت سے وقت کی تعین نہیں ہوئی ہے۔
دوسرا مسئلہ
ظہور کی علامتیں جو احادیث میں ذکر ہوئی ہیں ۔ کچھ ایسی علامتیں ہیں جن کا واقع ہونا ظہور کے زمانہ سے متصل ہے۔ یا پھر اس کا ظہور سے بہت کم فاصلہ ہے۔ اور کچھ ایسی علامتیں ہیں کہ جو پوری غیبت کے زمانہ میں واقعے ہوتی ہیں ۔ اور جتنا زمانہ گذرتا جائے اور ظہور سے نزدیک ہوتا جائے گا، یہ علامتیں واقع ہوتی رہیں گی ، لیکن ظہور سے متصل نہیں ہیں ۔ مثال کے طور پر اگر عباسی خلافت کا سقوط ظہور کی علامتوں میں سے ایک ہے۔ اور اس سے مراد بغداد کی خلافت کا سقوط ہے کہ جو سنہ ۶۵۶ ھ میں واقع ہوا ہے۔ تو یہ غیر متصل علامتوں میں سے ہے۔ یعنی : ائمہ اطہار علیہم السلام نے عباسیوں کے اوج قدرت اور جاہ وحشم کی خبر دی ہے کہ یہ عظیم خلافت اور بڑی حکومت بھی پوری طرح قائم علیہ السلام کے قیام سے پہلے سقوط کرجائے گی۔ منجملہ وہ واقعات جو حضرت مہدی عجل اللہ فرجہ الشریف کے ظہور سے پہلے رونما ہوں گے ان میں سے ایک خلافت بنی عباس کا سقوط ہے ، لہٰذا یہ واقعہ متصل علامتوں میں سے نہیں ہے۔
تیسرا مسئلہ
ظہور کی کچھ علامتیں قطعی ہیں جن کے واقع ہوئے بغیر ظہور نہیں ہوگا اور ان کے وقوع سے پہلے جو کوئی بھی دعویٰ کرے، وہ جھوٹ ہے۔ اور ہر دعویٰ کا سادگی کے ساتھ قبول کرلینا بیوقوفی اور حماقت ہے اور بعض غیر قطعی علائم میں ، یعنی واقع ہونا ممکن ہے لیکن واقع نہیں ہوسکتیں۔تمام احادیث میں صرف پانچ علامتیںیقینی شمار کی گئی ہیں ۔
۱۔ یمانی (یمن کے سردار) کا خروج کرنا۔۲۔ نفس زکیہ (سید حسن) کا (خانۂ کعبہ میں )رکن و مقام کے درمیان قتل
۳۔ بیدا میں دھسنا( مکہ ومدینہ کے درمیان بیداء نامی مقام پر ایک لشکر کی نابودی اور اس لشکر کا زمین کے اندر دھنس جانا)
۴۔ سفیانی کا خروج (ایک ایسے مرد کا خروج کرنا جس کا سلسلہ نسب ابوسفیان تک پہونچتا ہو)
۵۔ آسمانی آواز (فضا سے آواز کا سناجانا)
استاد گرامی خود اس طرح فرماتے ہیں :
اس باب کی روایات سے مکمل استفادہ ہوتاہے کہ کچھ علامتیں قطعی ہیں اور بلا تردید ’’سفیانی کا خروج‘‘ اور’’آسمانی آواز‘‘ حتمی اور قطعی علامتوں میں سے ہے۔ اوربعض روایات میں پانچ چیز میں ذکر ہوئی ہیں : خروج’’یمانی‘‘ رکن ومقام کے درمیان سید حسنی کا قتل ہونا، خسف در بیداء ، سفیانی کا خروج اور آسمانی آواز جو کچھ ہم نے بیان کیا ہے اس سے ہم یہ نتیجہ اخذ کرسکتے ہیں ۔ کہ جس میں کوئی شک و شبیہ کی گنجائش نہیں ۔ اور وہ نتیجہ یہ ہے کہ ان قطعی علامتوں کے ظہور سے پہلے ( دیگر ادلہ و براہین سے قطع نظر ) مہدویت کا دعویٰ کسی کی طرف سے ہو باطل اور قابل سماعت نہیں ہے ۔ [1]
چوتھا مسئلہ
کچھ علامتیں جو آخر زمانے سے متعلق احادیث اور ’’ملاحم و فتن ‘‘ کی خبروں میں ذکر ہوئی ہیں[2]وہ قیامت کی علامتوں میں سے اور روز جزا کے برپا (اشراط الساعۃ) ہونے کی شرائط میں سے ہیں اور وہ ظہور سے مربوط نہیں ہیں ۔
مذکورہ ان دو روایت میں[3] دجّال ، ظہور کی علامتوں میں ذکر ہوا ہے۔ اور اکثر روایات میں دجّال کو قیامت کی علامتوں میں ذکر کیا گیا ہے ۔ گویا سفیانی کا ذکر کہ جو مسلم الثبوت علائم الظہور می سے ہے (دجّال کے ساتھ کہ جو قیامت کے علامتوں میں سے ہے خلط اور شبہ ہوا ہے راویوں کے ذریعہ غلط ملط ہو گیا ہے)۔
پانچواں مسئلہ
کسی بھی اعتبار سے تعین وقت یعنی حضرت بقیۃ اللہ الاعظم علیہ السلام کے ظہور کے لئے وقت کا تعین کرنا، بہت ساری احادیث کے برخلاف ہے، ائمہ طاہرین علیہ السلام نے وقت ظہور کے علم کو ’’علم الساعت‘‘ (قیامت واقع ہونے کے علم) کے مانند جانا ہے جو کہ خداوند عالم سے مخصوص ہے اور وقت معین کرنے والوں کی تکذیب کی ہے۔ انہوں نے نہ تو غیبت کے لئے کوئی مدت معین کی ہے اور نہ ہی وقت ظہور کے لئے بلکہ جو علامتیں ذکر ہوئی ہیں سب کو ان علامتوں اور ان کے واقع ہونے کی جانب متوجہ رہنا چاہئے، اور وقت بتانے والوں کی طرف توجہ نہ دیں کیونکہ وقت بتانے والے افراد اپنے پاس سے کچھ کہتے ہیں اور یہ خدا کے ارادہ غیبت کی حکمت اور اس کی مدت اور زمانہ ظہور سے دور دور کا اس سے کوئی واسطہ نہیں ہوتا۔
گذشتہ بیانات اور روایات سے واضح ہوگیا کہ حضرت (حجت بن الحسن علیہ السلام ) کی عمر مبارک طولانی ہے اور آنحضرت علیہ السلام کی غیبت کے لئے کوئی مدت یا آپ کے ظہور کے لئے کوئی وقت معین نہیں کیا گیا ہے ۔ بلکہ قطعی طور پر ایک معین وقت کی تعیین سے نہی اور ممانعت کی گئی ہے، لہٰذا بعض درویشوں یا علوم غریبہ کے مدعیوں سے وقت ظہور کی تعیین کرنا دستورات اور روایات کے مخالف ہے۔[4]
یہاں پر ہم ذکر کریں گے (جیسا کہ بزرگوں نے بیان کیا ہے) لوگ مسلسل حجت الٰہی ، ربّانی آیات حضرت بقیۃ اللہ کی یاد میںر ہیں اور اس امام نیز ان کے ظہور اور فرج کے نزدیک ہونے کی دعا کریں۔ ہمیشہ خدا سے ان کے ظہور کی درخواست کریں۔ ناامیدی کی کوئی جگہ نہیں ہے ہر آن ممکن ہے کہ ظہور کے قریبی ترین مقدمات فراہم ہوجائیں اور فرج آپہونچے اور امام ظاہر ہوجائیں ۔ یہ فلسفہ ہے اس بات کا کہ ہم ہمیشہ اس امام کو یاد کریں اور ان کی یاد سے اپنے دل کو قوی کریں اور ان کے آنے کی خدا سے دعا کریں ، یہی بات ہے کہ امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا :
’’جس وقت خدا کی حجت لوگوں کے درمیان نہیں ہوگی ، لوگ خدا سے زیادہ نزدیک ہوں گے اور خدا ان سے زیادہ راضی و خوشنود ہوگا ۔ کیونکہ باوجود اس کے کہ حجت خدا ظاہر نہیںہے اور خدا کا عہد وپیمان استوار ہے۔ ایسے زمانے (غیبت کے دور ) میں ہر صبح وشام فرج کا منتظر رہنا چاہئے ۔اس لئے کہ جب حجت خدا غائب ہوگی تو خدا کا غضب اپنے دشمنوں سے زیادہ ہوگا ۔(لہٰذا ممکن ہے کہ دشمنوں کو نابود کرنے کے لئے کسی وقت بھیج دے) اور خدا جانتا ہے کہ اولیاء اور مؤمنین اس کی حجت کے بارے میں (اگرچہ غائب ہو اور اس کی غیبت طولانی ہو) شک نہیں کرتے ، اگر یہ جانتا کہ وہ شک کریں گے تو پلک جھپکنے بھر بھی اپنی حجت کو غائب نہیں کرتا‘‘۔[5]
توضیح:
امام علیہ السلام کی اس بات سے مراد کہ آپ نے فرمایا ’’… ہر صبح وشام فرج اور ظہور کے منتظر رہو ‘‘ یہ ہے کہ ایسے حالات اور شرائط میں مسلسل ظہور کے واقع ہونے کا انتظار کرو، یعنی اس کی قطعی علامتوں کے ظاہر ہونے کا ۔ لہٰذا فرج کا انتظار ہر صبح و شام قطعی علامتوں کے ظاہری لزوم سے منافات نہیں رکھتا ۔ اور اس کے بعد ظہور اور کلی فرج کیونکہ قطعی علامتوں میں سے پہلی علامت کے ظاہر ہوتے ہی دوسری علامتیں پے درپے واقع ہوں گی ۔ اصل فرج اور امام علیہ السلام کے آنے میں بہت زیادہ فاصلہ نہیںہے ۔ ’’قتل نفس زکیہ‘‘ کے بارے میں شیخ مفید ؒ نے امام محمد باقر علیہ السلام سے روایت کی ہے کہ آپ علیہ السلام نے فرمایا :
’’نفس زکیہ کے قتل اور قائم علیہ السلام کے قیام کے درمیان پندرہ شب سے زیادہ فاصلہ نہیں ہوگا‘‘۔[6]
البتہ کچھ قطعی علامتوں کا ظہور سے پندرہ رات سے زیادہ کا فاصلہ ہے ، لیکن بہت زیادہ نہیںہے ، تقریباً چند ماہ کا جیسا کہ بعض احادیث سے سمجھ میں آتا ہے۔
چھٹا مسئلہ
بزرگان دین نے کہا ہے کہ غیبت کبریٰ کے زمانے میں بہت سارے لوگ امام غائب علیہ السلام کی زیارت سے مشرف ہوئے ہیں ۔ شیخ استاد نے ا س سلسلہ میں امام جعفر صادق علیہ السلام سے ایک حدیث نقل کی اور اس کے بعد ایک وضاحت پیش کی ہے اب اس سلسلہ میں استاد کی وضاحت اور حدیث کا ترجمہ خلاصہ کے طور پر پیش کررہا ہوں:
’’یوسف علیہ السلام کے بھائی صاحبان عقل و خرد اوریہ ایک پیغمبر کی اولاد تھے ، حضرت یوسف علیہ السلام کے پاس آئے اور ان سے بات چیت کی اور ان سے معاملہ کیااور اس کے باوجود کہ وہ سب ان کے بھائی تھے لیکن یوسف کو نہ پہچان سکے یہاں تک کہ خود اپنا تعارف کرایا اور فرمایا : میں یوسف ہوں ! تب ان لوگوں نے انہیں پہچانا، کیا حیران و پریشان لوگ اس بات سے انکار کرسکتے ہیں کہ جب تک خدا چاہے گا اپنی حجت کو لوگوں کی نگاہوں سے پوشیدہ رکھے گا۔ یوسف علیہ السلام مصر کے مالک تھے ان کے اور ان کے والد کے درمیان ۱۸ دن کے راستہ کا فاصلہ تھا۔ اگر خدا چاہتا تو یوسف ٹھکانہ ان کے باپ سے بتا سکتا تھا۔ پھر کیسے لوگ انکار کرتے ہیں اس لئے کہ خداوند عالم نے جو رویہ یوسف علیہ السلام کے ساتھ رکھا ہے وہی اپنی حجت کے ساتھ رکھا ہے ؟ کیا رکاوٹ ہے کہ صاحب امر علیہ السلام لوگوںکے درمیان ہو اور ان کے بازاروں میں راستہ چلے اور ان کے فرشوں پر اپنا قدم رکھے ، اس کے باوجود بھی لوگ اسے پہچان نہ سکیں ، جب خدا انہیں اجازت دے گا تو اپنا تعارف کرائیں گے جس طرح یوسف کو خدا نے اجازت دی تب ان کے بھائیوں نے کہا کیا تم وہی یوسف ہو؟
یہ روایت اس بات کی صراحت کرتی ہے کہ حضرت ولی عصر علیہ السلام کا وجود مبارک لوگوں کے درمیان ہے اس کے باوجود بھی لوگ انہیں نہیں پہچانتے البتہ یہ بات بعض لوگوں کی زیارت اور تعارف سے منافات نہیں رکھتی کیونکہ مقصود یہ ہے کہ آنحضرت لوگوں کے درمیان ہوں اور لوگ انہیں نہ پہچانیں ، لہٰذا ان روایات اور کچھ لوگوں کے امام کی زیارت سے مشرف ہونے میںمصالح اور جہات کی بناپر کوئی منافات نہیں ہے۔[7]
۱۰۔زمانہ کے آئینہ میں
کہا جاسکتا ہے آخری زمانہ کی بہت ساری علامتیں جو احادیث میں ذکر ہوئی ہیں اس وقت برسوں سے ظاہر ہوچکی ہیں۔ اور مسلسل ظاہر ہوتی رہتی ہیں۔ یہ علامتیں، عجیب و غریب اور صحیح پیشنگوئیاں بہت زیادہ ایسے حالات اور حوادث کے بارے میں ہیں کہ زمانے ساتھ ساتھ، ظہور سے مدتوں پہلے ہونا شروع ہوگئی ہیں او رہر ایک یکے بعد دیگر حالات کے اعتبار سے محقق ہوں گی۔
اس طرح کی احادیث میں غور وخوض جو آخر زمانہ اورلوگوں کے حالات کے بارے میں ظہور سے پہلے کے واقعات کے بارے میں ہم تک پہونچی ہیں (بالخصوص مفضل کی احادیث) اور جو حدیث کی کتابوں میں ثبت ہے بہت سے عظیم امور کو آشکار کرتی ہیں۔ اس سے مراد درج ذیل عنوان کی احادیث ہیں:
۱۔ سلمان فارسی کی معروف احادیث کہ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ نے زنجیر کعبہ پکڑے ہوئے فرمایا [8]
۲۔ براثا میں حضرت امیرالمومنین علیہ السلام سے انس بن مالک کی حدیث۔[9]
۳۔ امام جعفر صادق علیہ السلام سے حمران بن اعین کی حدیث[10]
ان احادیث میں آخر زمانہ کے حالات اور لوگوں کی کیفیت صدیوں پہلے اس طرح واضح اور آشکار انداز میں بیان کی گئی ہے۔ کہ گویا یہ بات کہنے والوں نے زمانہ آیندہ کو بہت صاف و شفاف آئینہ میں دیکھا ہے: لوگوں کی کیفیت اور ان کے حالات، اخلاق و معاشرت گناہ وتباہی ، عفو و درگذر ، طور طریقہ ، مردوں، عورتوں اور بچوں کی حالت ، زندگی کے اسباب اور ان کے درمیان ارتباط پروپیگنڈہ، مطبوعات ونشریات، حکومتیں اور ان کو چلانے کے طریقہ نیز اس طرح کے دسیوں دیگر مسائل۔ اور ان تمام امور کو ظہور کی عام علامتوں میں شمار کیا جاسکتا ہے۔
بہت ساری علامتیں ان آخری پچاس سالوں میں واقع ہوچکی ہیں … اور ان حوادث اور واقعات کا رونما ہونا آگاہ انسان کو دیگر علامتوں اور حوادث کی نسبت ہوشیار کرتے ہیں اور مومن بناتے ہیں اور اسے احتیاط اور پرہیز کی دعوت دیتے ہیں نیز آمادگی اور توجہ کی طرف اسکی راہنمائی کرتے ہیں ۔
۱۱۔ سرعت اور ہمہ گیری
مرحلہ ظہور میں حضرت مہدی عجل اللہ فرجہ الشریف کی شخضیت میں دو قید درج جوکہ ظہور کے لئے ناقابل تفکیک ملازمہ ہے ۔ ان دو قید کی طرف توجہ کرتے ہوئے ہر مدعی کی رسوائی کا اندازہ لگایاجاسکتا ہے۔ یہ دو قید یہ ہیں : فوری اور عام ہونا ،سرعت اور عمومیت یعنی مہدی واقعی کا ظہور پوری دنیا میں حکومت توحید کے عام ہونے کے مسلتزم ہے، وہ بھی بہت کم مدت میںاس کے علاوہ ہوا تو ظہور مہدی عجل اللہ فرجہ الشریف کی ذاتی خصوصیت منتفی ہوجائے گی۔
لہٰذا ان دو مسلم اصل کو نظر میں رکھتے ہوئے(کہ جو بہت ساری احادیث میںبیان کی گئی ہیں) اگر دعویداروں کے دعویٰ کے بعد ہم ملاحظہ کریں کہ ابھی دنیا متعدد حکومتوں ، فاسد نظام ، باطل عقائد وآراء ، تباہی وبربادی ، ظلم وگناہ کی تاریکی سے دوچار ہے۔ تو ہمیںاندازہ ہو جائے گاکہ ابھی مہدی نے ظہور نہیں کیا ہے ۔ یہ کیسے مہدی ہیں کہ آئے اور نابود ہوگئے ، اوردنیا ابھی ظلم وستم، تعدی و تجاوز، انحراف و کجروی ، کفرو جہالت ، گمراہی و انحطاط سے بھری پڑی ہے ؟مہدی اس لئے نہیں ہے کہ آکر ایک نئے فرقہ کی بنیاد رکھے اور اقوام کی پراکندگی اور افتراق نیز انسانی مشکلات میں اضافہ کردے۔
مہدی علیہ السلام ، بقیۃ اللہ ہیں ، مہدی ذخیرہ الٰہی ہیں ۔مہدی یا مُنْتَقِمُ ، حکیم یا عَدْلُ کا مظہر ہیں۔ وہ بشریت کی نجات کے لئے ذخیرہ کئے گئے ہیں کہ جب وہ آئیں گے تو انسانیت کو تمام دردو الم، جہالتوں، پستیوں ، ظلم وستم اور محرومیتوں سے نجات دیں گے۔
مہدی عجل اللہ فرجہ الشریف خدا کی طرف سے انسانوں کے امتحان اور آزمایش کے بعد زمانے کی آزمائش ، اقوام وملل ، عصر و فرد، معاشرتی و اعتقادی اور علمی آزمائش کے بعد خدا کے حکم سے ظاہر ہوں گے اور لوگوں کے درمیان اپنا تعارف کرائیں گے، سرعت و قاطعیت کے ساتھ دنیا کو (غیبی تائید نیزاپنے اصحاب وانصار اور جو لوگ ان سے ملحق ہوں گے کی نصرت و مدد سے اور دیگر ناشناختہ طاقتوں کے ذریعہ) عالمی سطح پر الٰہی قوت و توانائی کی صورت میں ظاہر ہوں گے۔ یہ ہے غیبت اور ظہور مہدی عجل اللہ فرجہ الشریف کا بلندترین فلسفہ اور اسی جوہری عمق پر نظر کرتے ہوئے حضرت مہدی عجل اللہ فرجہ الشریف کی شخصیت اور ان کے ظہور کی دو علامتیں (سرعت اور عمومیت) ہے۔ کہ جس کی وجہ سے شیعہ اثناء عشری اور مومن آگاہ تمام جھوٹے دعویداروں اور فریب کاروں، مسلک سازوں، استعمارو خیانت کاروں اور تفرقہ ایجاد کرنے والوں کے دام فریب سے محفوظ اور ہر طرح کی انحراف اور کجروی ، ضلالت وگمراہی سے بچے ہوئے ہیں اور ہمیشہ ’’طلعت رشیدہ‘‘۔ اور ’’دولت کریمہ‘‘ کے ظہور کے منتظر ہیں ۔
۱۲مغرب سے خورشید کا طلوع ہونا
منجملہ علائم ظہور میں سے ایک علامت مغرب سے سورج کا نکلنا بھی ہے۔ بعض احادیث میں یہ امر اس طرح بیان کیا گیا ہے:
خورشید ظہر کے وقت آسمان میں ٹھر جائے گا (آسمان شدت کے ساتھ سیاہ ہوجائے گا اور خورشید چھپ جائے گا ، گویا کہ غروب کرگیا ہے) اور کچھ دیر یعنی عصر تک ظاہر نہیں ہوگا اور غروب کے وقت مغرب سے ظاہر ہوگا۔ [11]
اس بیان سے اس طرح معلوم ہوتا ہے کہ آسمان کا سیاہ ہونا، اور خورشید کا تاریک ہونا اور ٹھرنا، نیز[12] ظہر کے وقت اس کا غائب ہوجانا اور غروب تک اسی حالت پر باقی رہنا پھر اس کا مغرب سے ظاہر ہونا، ایسا لگتا ہے کہ سورج ظہر کے وقت آسمان کے بیج وبیج سے غائب ہونے کے بعد ، غروب کے وقت ’’مغرب سے طلوع کرے گا‘‘۔
بعض روایات میں یہ مطلب بھی ذکر ہوا ہے کہ ’’خورشید ہی میں کوئی آیت ، کوئی نشانی اور کوئی علامت ظاہر ہوگی اور بعض آثار سے معلوم ہوا ہے کہ مہدی عجل اللہ فرجہ الشریف ہی در اصل خورشید ہیں جو مغرب یعنی اپنے ڈوبنے کی جگہ سے ظاہر ہوں گے (وہو الشمس الطالعہ من مغربہا)۔[13]
[1] بیان الفرقان، ج ۵، ص ۱۸۱، ۱۸۲
[2] ملاحم و فتن، عظیم جنگوں، خطرناک ماحول اور پر آشوب دور کے معنی میں ہے اور یہ اصطلاح آخری زمانے کے حوادث اور ظہور سے قبل کے حالات کے بارے میں استعمال ہوتی ہیں (جیسا کہ پہلے بھی اشارہ ہو چکا ہے) اسی عنوان ’’الملاحم‘‘ یا الملاحم و الفتن‘‘ کے عنوان سے کتابین پائی جاتی ہیں۔
[3] ان دو مذکورہ روایتوں سے مراد ’’ بیان الفرقان‘‘ ج۵، ص ۱۷۰ ہے۔
[4] ’’بیان الفرقان ‘‘ ، ج۵ ،ص ۲۱۷
[5] اصول کافی، کتاب الحجۃ، باب نادرفی حال الغیبۃ
[6] ارشاد ، ص ۳۶۰
[7] ’’بیان الفرقان‘‘ ج۵، ص ۱۶۷ اور ۱۶۸؛ عبارتوں میں معمولی تبدیلی کے ساتھ۔
[8] جامع الاخبار، بحار الانوار، ج ۵۲، ص ۲۶۲ اور ۲۶۴۔
[9] کشف الیقین، بحار الانوار، ج ۵۲، ص ۲۱۷ اور ص ۲۱۹۔
[10] روضہ کافی، ص ۳۶ اور ص ۴۲؛ بحار الانوار، ج ۵۲، ص ۲۵۴ اور ۲۶۰۔
[11] منجملہ: الارشاد، ص ۳۵۷ ص ۳۵۹
[12] ظاہراً خورشید کے سخت ہوا کی تیرگی میں غائب ہونے کو رکود کہا گیا ہے، ورنہ کرّات کی حرکت رک جائے گی ۔ جیسا کہ خود ان احادیث میں مذکور ہے۔ کہ خورشید کچھ گھنٹوں کے بعدمغرب سے (کہ جو تمام تاریکی کی مدت اور ہوا کی تیرگی (زمین کی سیر) کے ساتھ وہاں تک پہونچتا ہے) طلوع کرے گا
[13] اکمال الدین ، بحارالانوار، ج ۵۲، ص ۱۹۵۔
http://urdu.mahdi313.ir/index.php?option=com_content&view=article&id=490...
Add new comment