شبِ عاشور امام مہدیؑ کا ذکر
حضرت ابوجعفر امام محمد باقر(علیہ السلام) کی حدیث میں ہے کہ امام حسین علیہ السلام نے اپنے اصحاب سے شب عاشورہ فرمایا
ابشروابالجنة انا نمکث ماشاءاللہ بعد مایجری علینا ثم یخرجنا اللہ وریاکم حتی یظہر قائمنا فیتقم من الظالمین وانا وانتم نشاھدھم فی السلاسل والاغلال وانواع العذاب؟
فقیل لہ : من قائمکم یا بن رسول اللہ ؟
قال السابع من ولد ابنی محمد بن علی الباقر وھو الحجة بن الحسن بن علی بن محمد بن علی بن موسیٰ بن جعفر بن محمد بن علی ابنی وھو یغیب مدة طویلةثم یظہر ویملا الارض قسطا وعدلا کمامئلت ظلما وجورا۔
ترجمہ :آپ سب کوجنت کی بشارت ہو یہ بات جان لو خدا کی قسم ! ہمارے خلاف جو کچھ ہونا ہے جب یہ سب کچھ ہوجائے گا تو جس قدر اللہ تعالیٰ چاہے گا اورجو اس کی مشیت میں ہوگا ہم (مقام مخصوص) میں ٹھہریں گے پھر اللہ تعالیٰ ہمیں اورآپ سب کو وہاں سے باہر نکال لائے گا ایسی حالت میں ہمارے قائمعلیہ السلام کا ظہور پر نور ہوجائے گا .... پس ہمارے قائمعلیہ السلام سارے ظالموں سے انتقام لیں گے اس وقت میں خود اورآپ سب ان ظالموں کو ہتھکڑیوں ، بیڑیوں اور زنجیروں میں جکڑاہوادیکھیں گے اور ہم انہیں مختلف قسموں کے عذابوں میں مبتلا مشاہدہ کریں گے ان کو طرح طرح کا عذاب دیا جارہاہوگا اورہم سب اس منظر کو دیکھ رہے ہونگے ۔
پس آپ سے سوال کیا گیا یا بن رسول اللہ آپ کے قائم کون ہیں ؟
امام حسین( علیہ السلام )نے فرمایا وہ میرے بیٹے محمد بن علی الباقر کے ساتویں فرزند ہمارے قائم ہیں اوروہ حجت ہیں جو حسن بن علی بن محمد بن علی بن موسیٰ بن جعفر بن محمد ہیں اورمحمد میرے بیٹے علی کے فرزند ہیں اوروہ (ہمارے قائم) ایک لمبی مدت کے لئے غائب ہونگے پھر وہ ظہور فرمائیں گے اورزمین کو عدالت اور انصاف سے بھردیں گے جس طرح زمین ظلم وجور سے بھر چکی ہوگی ۔
(بحوالہ اثبات الرجعة ومقتل الحسین للمقرم)
ظہور کی نشانیوں کی فہرست
شیخ مفیدعلیہ السلام نے اپنی کتاب الارشاد میں ظہور کی نشانیوں کی ایک فہرست دی ہے جو کہ اس طرح ہے ،ان میں سے بعض ظاہرہوچکی ہیںاوربعض کاانتظارہے اورکچھ نشانیاں ایسی بھی ہیں جو اس وقت ظہورپذیرہورہی ہیں ۔
حضرت امام مہدی( علیہ السلام) کے قیام کے بارے میں بہت ساری نشانیاں بیان ہوئی ہیں اور آپ علیہ السلام کے قیام سے پہلے جو حالات اور واقعات رونما ہونگے انکے متعلق ہمیں خبر دی گئی ہے منجملہ ان نشانیوں سے ہم درج ذیل کو بیان کرتے ہیں ۔
۱۔ شام میں سفیانی کا خروج ۲۔ حسنی سید کا قتل کیاجانا
۳۔ بادشاہی ،سلطنت اور حکومت پر بنی عباس کا اختلاف
۴۔ سورج گرہن ۵۱ رمضان کو لگنا اورپھر اسی ماہ کے آخری دنوں میں چاند گرہن لگنا کہ ہر دو حالتیں طبیعت اورعادی نظام کے برعکس ہوںگی ۔
۵۔ صحرا اور بیابان میں لشکر کا دھنس جانا(مدینہ اورمکہ کے در میان)
۶۔ مشرق میں زمین کادھنس جانا ۔
۷۔ مغرب میں زمین کا دھنس جانا ۔
۸۔ سورج کازوال(ظہر) سے لیکر عصر کے آدھے وقت تک حرکت نہ کرنا ۔
۹۔ مغرب سے سورج کا طلوع کرنا ۔
۰۱۔ پشت کعبہ پر نفس زکیہ کا قتل کیاجانا ۔
۱۱۔ کوفہ ہی میں سترنیک اور صالحین کا قتل ہونا
۲۱۔ رکن اور مقام کے درمیان سیدہاشمی کا سر قلم کیاجانا
۳۱۔ مسجد کوفہ کی دیوار کا منہدم ہونا، خراب ہوجانا
۴۱۔ خراسان سے سیاہ پرچموں کا ظاہر ہونا
۵۱۔ یمانی سید کا قیام
۶۱۔ مصرمیں مغربی شخص کا ظاہر ہونا اور اسکا شام پر حکومت کرنا
۷۱۔ جزیرة العرب میں ترکیوں کا اترنا
۸۱۔ رومیوں(یورپی افواج) کا ساحل پراترنا
۹۱۔ مشرقی ستارہ کا طلوع کرنا جو چاند کی مانند روشن ہوگا اور پھر وہ اس طرح سے جھکے گا جیسے تیر کمان کے سرے آپس میں ملتے ہیں ۔
۰۲۔ آسمان میں سرخی ظاہر ہوگی جو پوری فضاءمیں پھیل جائے گی
۱۲۔ مشرق میں سخت قسم کی آگ ظاہر ہوگی جو تین یا سات دن تک آسمان پر باقی رہے گی ۔
۲۲۔ عربوں پر سختیوں کا خاتمہ اور ان کا شہروں پر حکومت کرنا،ا ور عجمیوں کے غلبہ سے آزاد ہوجانا (شایدترکیوں کی حکومت سے آزادہونامرادہویاانگلستان اور دیگر یورپین ممالک کے تسلط سے آزادہونامراد ہو جیساکہ آج کل ہے)
۳۲۔ مصر کے صدر کا خود مصریوں کے ہاتھوں قتل ہونا
۴۲۔ ایسے پرچموں کا ظاہرہونا جو خراسان کی جانب حرکت کریں گے
۵۲۔ مغرب سے فوج وارد ہوگی تاکہ(عراق میں) حیرت اور سرگردانی سے امن قائم ہو جائے ۔
۶۲۔ مشرق سے بھی اسی طرح کے پرچموں کا(عراق میں) وارد ہونا
۷۲۔ فرات کے بند کا ٹوٹنا اس طرح کہ فرات کا پانی کوفہ کی گلی، کوچوں اور گھروں میں داخل ہو جائے گا۔
۸۲۔ ۰۶نبوت کے جھوٹے دعویداروں کا شورش بپا کرنا
۹۲۔ آل ابی طالب علیہ السلام سے بارہ افراد کا شورش بپا کرنا کہ ان میں سے ہر ایک اپنی امامت کا دعویدار ہوگا ۔
۰۳۔ جلولاءاورخانقین کے درمیان بنی عباس کا بلند مرتبہ اور شان والے ایک مرد کو جلایا جانا
۱۳۔ اس جگہ پر پل بنانا جو جگہ بغداد اور مدینہ سلام کے درمیان ہے
۲۳۔ دن کے شروع میں سخت سیاہ آندھی کا چلنا
۳۳۔ ایسا زلزلہ آنا کہ جس میں بہت سارے لوگ غرق ہوجائیں گے ۔
۴۳۔ ایساخوف و ہراس جس سے عراق اور بغدا د میں رہنے والے مبتلا ہونگے ۔
۵۳۔ اچانک اموات کا ہونا
۶۳۔ معاشی بحران، قحط ، اموال کی کمی ، کساد بازاری ، اسی اثناءمیں لوگوں نے اس دوران جو زراعت اور کھیتی باڑی کی ہوگی اس پر مکڑیوں کا حملہ ہوگاجو پوری کاشت شدہ زمین کو ویران کردیں گی۔
۷۳۔ عجمیوں کے دو گروہوں کے درمیان اختلافات اور انکا بہت زیادہ خون بہایا جانا
۸۳۔ عوام کی حکمرانوں کے خلاف بغاوت اور انکا قتل عام
۹۳۔ بدعت گزاروں میں سے کچھ کا بند ر اور کچھ کا خنزیر کی شکل میں مسخ ہوجانا
۰۴۔ مزارعوں اور ہاریوں کا وڈیروں اورمالکوں کی زمینوں پر قبضہ کرلینا
۱۴۔ آسمان سے ایک آواز کاآنا جسے تمام زمین والے اپنی اپنی زبان میں سمجھ لیں گے
۲۴۔ عوام کیلئے سورج کی قرص(ٹکیہ) میں انسان کی شکل ،چہرے اور جسم کا نظرآنا۔
۳۴۔ ایسے مردے جو قبروں سے اس دنیا میں دوبارہ واپس آجائیں گے اور یہ ۴۲ دن مسلسل بارش برسنے کے بعد ہوگا کہ اس طرح زمین مردہ و ویران ہونے کے بعد زندہ اور آباد ہوجائے گی اور اس کی برکات نمایاں ہوںگی۔
شیعوں کیلئے اچھی خبر
ان حالات کے بعدوہ شیعہ جو حق کے معتقدہوںگے۔یعنی ان کااپنے امامعلیہ السلام پر یقین کامل ہوگاان سے مصائب اور آلام بر طرف ہوجائیں گے اور انہیں حضرت مہدی(علیہ السلام) کے ظہور کی اطلاع ملے گی کہ آپعلیہ السلام نے مکہ میں ظہور فرمایا ہے ان کی مدد اور نصرت کیلئے شیعہ مکہ کی طرف روانہ ہوجائیں گے۔ (الارشاد ج ۲ ص ۸۶۳،بحارالانوار ج ۲۵ص ۰۳۲ نسیارہ الاسلام ص ۵۷۱)
متحقق شدہ واقعات
ان دو روایات میں جو واقعات وحادثات وحالات کا ذکر ہوا ہے اور یہ ظہور سے قبل رونماہونگے ان میں سے جو وقوع پذیر ہوچکے ہیں وہ کچھ اس طرح ہیں
۱۔ ابومسلم خراسانی کے قیام سے خراسان سے سیاہ پرچم ظاہر ہونے والی بات پوری ہو چکی ہے۔
۲۔ مصر میں مغربی کاظہور جو شامات پر حکومت کرے گا تویہ واقعہ ۶۹۳ھ مغربی فاطمی کے قیام سے پورا ہوچکاہے جس نے شمالی افریقہ سے اپنی دعوت کاآغاز کیا اورسخت جنگوں کے بعد مصر کے راستہ شام پر حکومت قائم کی ۔
۳۔ ترکیوں کا جزیرة العرب میں واردہونا، جزیرة العرب کی سرزمین ۱۴۹ ھ سے ۵۳۳۱ھ ق تک حکومت عثمانی ترکی کے زیر کنٹرول رہی، پہلی جنگ عظیم میں برطانیہ کے قبضہ کرنے پر اس کے غلبہ کا خاتمہ ہوا،یہ خبرپوری ہوچکی ہے۔
۴۔ رملہ میں رومیوں کاورود،،آئمہ علیہ السلام کی گفتگومیں یورپ کوروم کے لفظ سے یادکیاگیاہے، رملہ ایک جگہ کانام ہے جوشام میں بھی ہے اورمصرمیں بھی ہے،فلسطین میں بھی ہے، تومصرپرفرانس ”نائیلون بنایارٹ“ کاقبضہ کرنااورپھرشام پربھی فرانس کاقبضہ اور عثمانیوں (ترکیہ)کاشام پرقبضہ اس واقعہ کی تصدیق ہے۔
۵۔ عربوں کاعجمیوں سے آزادہونا....یہ زمانہ جس میں ہم زندگی گزاررہے ہیں کہ اس میں عرب علاقوں پرخودعرب حکمرانی کررہے ہیں ان پربظاہرغیرعرب حکمران نہیں ہیں۔
۶۔ مصری صدرکاقتل ہونا....مصرکے صدرانورسادات مصری شخص خالداسلامبولی کے ہاتھوں قتل ہوئے۔
۷۔ عجمیوں کے دوگروہوں کے درمیان اختلافات ،جنگ عظیم دوم میں یورپ کے درمیان شدیداختلاف ہوا،فرانس،جرمنی ،برطانیہ کے درمیان جنگ ہوئی یاپھرترکیہ اور یونان کے درمیان جنگ ہوئی البتہ اس حدیث کے اس جز کوسمجھنے کےلئے جنگ عظیم اول اور جنگ عظیم دوم کے واقعات وحالات کوپڑھاجائے، جوانیسویں صدی کے پہلے نصف میں ہوئی ۔
اسی طرح اور بھی واقعات ہیں جووقوع پذیرہوچکے ہیں اورکچھ کی انتظار ہے( جیسے کوفہ میں سید کاقتل اور اس کے ہمراہ سترصالحین کاقتل تویہ شہید محمد باقر الصدر پربھی صادق آتاہے اور ہو سکتا ہے یہ واقعہ ابھی رونما ہونا ہو، عراق اوربغدادمیں خوف وہراس، قحط،معاشی بحران ، کسادبازاری،قتل وغارت گری ،اورمغربی افواج کاامن قائم کرنے کے لئے وارد ہونا اور عوام کااپنے حکمرانوں کے خلاف قیام اورعوام کاقتل عام یہ سب کچھ اس وقت موجودہ حالات میں عراق کے واقعات پر صادق آرہاہے ”مترجم“)یہ سب کچھ حضرات معصومین علیہ السلام کے بیانات کی صداقت کی دلیل ہے، جو کچھ ہوچکاہے یہی اس بات کو بھی ثابت کررہاہے کہ اب تک جوکچھ نہیں ہواوہ بھی ضرور ہوگا۔
ہماری ذمہ داری
۱۔ اب ہم پرہے کہ ہم ان حضراتعلیہ السلام سے اپنامعنوی،روحانی اوردلی ارتباط اورتعلق کومضبوط سے مضبوط ترکریں اورفقط عقائدی معلومات پرہی اکتفاءنہ کریں جولوگ اس قسم کی روایات اوراحادیث کے بارے زیادہ آگہی چاہتے ہیں وہ درج ذیل کتابوں کی طرف رجوع کریں۔
الف ) الغیبة النعمانی،یہ کتاب محمدبن ابراہیم بن جعفرنعمانی ،جوابن ابی زینب کے نام سے معروف ہے ،نے لکھی ہے آپ تیسری صدی ھجری کے علماءسے ہیں اورآپ ثقة الاسلام یعقوب کلینی علیہ السلام صاحب الکافی کے شاگردوں سے ہیں، یہ کتاب انتہائی عمدہ اور قیمتی ترین سرمایہ ہے جواس عنوان پرموجودہے شیخ مفیدعلیہ السلام نے اپنی کتاب ”الارشاد“میں ان کی تعریف کی ہے جواس کتاب کی اہمیت کومزیدبڑھادیتی ہے۔
ب ) کمال الدین وتمام النعمة شیخ ابوجعفرمحمدبن علی بن الحسین بابویہ القمی” معروف بہ شیخ صدوقعلیہ السلام “کی کتاب ہے جوچوتھی صدی ہجری کے علماءسے ہیں، تاریخ وفات ۱۸۳ھ ہے
ج ) کتاب الغیبة شیخ طوسیعلیہ السلام شیخ الطائفہ ابوجعفرمحمدبن الحسن الطوسی تاریخ وفات ۰۲۴ھ کی تالیف ہے۔
انتہائی شیرین لمحات
اب جب کہ اس سارے سلسلے کاانجام انتہائی شیرین اورلذت آورہے تو بہتر ہے کہ ہم اس کےلئے اپنے دلی جذبات ،اپناروحانی اورمعنوی رابطہ حضرت علیہ السلام کی ذات کے ساتھ بڑھادیں او ر اسے انتہائی بلنداوراعلیٰ حدتک پہنچادیںاوراپنے تمام وجودسے اس انتہائی بھاری ذمہ داری کا احساس کریں جوآئمہ معصومین(علیہم السلام)نے ہمارے لئے بیان کرکے ہماری گردنوں پرڈال دی ہے.... اس طرح سے کہ اپنی زندگی کے تمام لمحات میں، اپنی تمام حرکات و سکنات میں، خود کو حضرت ولی العصر علیہ السلام کے سامنے قراردیں اور خود کو آنحضرت علیہ السلام کی حمایت کے دائرہ کے اندرموجودپائیں او ر ایک لمحہ کے لئے بھی اس سے غافل نہ رہیں۔
اَللّٰھُمَ اج عَل نَامِن اَنصَارِہِ وَمُحِبِّی ہِ وَمَوَالِی ہِ وَصَلِّ عَلَیہِ وَبَارِک فِی ہِ وَاح فِظ ہُ وَعَجِّل فَرَجَہُ یَااَر حَمَ الرَّاحِمِینَ ۔
تمام آئمہ(علیہم السلام) کااتفاق
ہمارے سارے آئمہ علیہ السلام جس وقت حضرت مہدی علیہ السلام کے بارے میںگفتگوکرتے تھے اور ان کے ظہورکی نشانیاںاوران کے ظہورکے قریب ہونے کے متعلق بات کرتے تھے اور بعض اوقات اس بات کوبھی یاددلاتے تھے کہ ان علامات میں سے کچھ علامات ظہورکی حتمی نشانیوں سے ہیںاس طرح سے کہ اگروہ متحقق نہ ہوئیں توحضرت مہدی (علیہ السلام) کا ظہورنہ ہو گا( خداوندکی مدد اور توفیق سے )ہم ان پانچ حتمی نشانیوں اورعلامات کاتجزیہ کریں گے اوران کے بارے اس کتاب میں تفصیلی بات چیت بھی کریں گے جن کے ظاہرہوئے بغیرحضرت امام مہدی(علیہ السلام) کا ظہور نہ ہوگا ۔
آئمہ معصومین (علیہم السلام )کی امت سے ہمدردی
ذرا آپ سوچیں!ہمارے آئمہ علیہ السلام کس قدرحالات سے آگاہ تھے اور کس قدراپنے ماننے والوں کے ہمددر ہیں اوران سے محبت کرتے ہیں کہ انہیں ہرپیش آنے والی مشکل سے آگاہ بھی کر رہے ہیں اور اس کاحل بھی بتارہے ہیں اب ہمیں سوچناچاہیے کہ ہم نے اپنے آئمہ علیہ السلام کو اس محبت اور ہمدردی کا جواب کس طرح دیاہے؟کیاہم بھی انہیں اتنادوست رکھتے ہیں جتناکہ وہ ہم سے پیارکرتے ہیں اورہماراخیال رکھتے ہیںجوبھی ان سے محبت رکھتا ہے،ان سے عشق کرتاہے وہ اس پر فخر و مباہات کرے اور اس بڑی نعمت پرخدا کا شکر بجا لائے ۔
بنی کَلَب ± کے تیس ہزارافرادکاسفیانی کے ہاتھ پربیعت کرنا
سفیانی کاانقلاب ماہ رجب میں شروع ہوگا،جنگیں لڑی جائیں گی ،سیاسی جوڑ توڑ ہوگا ، وہ اپنے دائرہ اقتدارکووسیع کرنے کی تگ ودوکرے گا،مختلف قبائل ،اقوام کواپنے ساتھ ملائے گا ۔ اس بارے پیغمبراکرم نے یوں فرمایا”سفیانی کے انقلاب کاآغازتین سوساٹھ افرادسے ہوگا وہ دمشق میں رہے گا،ماہ رمضان آنے سے پہلے کَلَب ± قبیلہ کے تیس ہزارافراداس کی حمایت کااعلان کریں گے اوراس کی فرمانروائی میں آجائیں گے بنی کَلَب ± کے لوگ سفیانی کے چچازادہوں گے....یہ دروزقبائل ہیں، دروزی فرقہ سوریااورلبنان میں ہے ان کااپنا ایک طریقہ اور مسلک ہے دَرَی ± کی طرف ان کی نسبت ہے ان کااصلی طریقہ توحیدپرستی تھا اوریہ خودکوموحدون کہتے تھے، ان کے عقیدہ کی بنیادحلول ِ روح اور تناسخ ار واح کاعقیدہ ہے۔شروع میں یہ لوگ فاطمی خلیفہ کے پیروتھے، چھٹے فاطمی خلیفہ کے دورمیں نستتگین دروزی کی دعوت پرباطنیہ فرقہ کے ساتھ ملحق ہوگئے دروزی فرقہ کا قائد الحا کم باللہ قتل ہوگیا،اس کے بعدانہوں نے توقف کرلیااورکہتے ہیں کہ وہ غائب ہے اورآسمان کی طرف چلاگیاہے وہ دوبارہ لوگوں میں آئےں گے۔(شیعہ دراسلام ص ۸۳ طباطبائی
بنی کَلَب ± والے معاویہ کے زمانہ میں نصرانی تھے، یزیدملعون جوامام حسین علیہ السلام کا قاتل ہے اس کی ماں اسی قبیلہ سے تھی، سفیانی، یزیدبن معاویہ کی اولادسے ہوگااس کانام عثمان ہوگاعنبسہ کی اولاد سے ہوگا،دروزنظریہ کے لوگ اس وقت رملہ میں موجودہیں .... جو وادی برھوت کاعلاقہ ہے، یہ علاقہ فلسطین کے مشرق اوراردن کے مغرب میں ہے اور سوریاکے جنوب مغرب میںیہ لوگ رملہ علاقہ کے کئی کلومیٹررقبہ پرآبادہیں۔لبنان میں دروزی فرقہ مشہور ہے، باطنیہ خیالات رکھنے کی وجہ سے ان کے عقائدونظریات کی تفصیلات منظرعام پرنہیں۔
ماہ شوال کے واقعات
جوواقعات اس ماہ سے پہلے عالم اسلام میں رونماہوچکے ہوں گے وہ جاری وساری رہےں گے البتہ اس ماہ میں کچھ اورواقعات بھی رونماہوں گے جیساکہ بعدمیں ذکرہوگا۔
عالمی سطح پرلوگوں کی توجہ کامرکزسفیانی ہوگاکیونکہ اسے مسلسل اورپے درپے کامیابیاں حاصل ہورہی ہوں گی، اس طرح پوری دنیامیں عالم اسلام کوایک خاص اہمیت حاصل ہوچکی ہوگی، کیونکہ عالم اسلام کے حالات وواقعات پوری دنیاکی سیاست پراثر اندازہورہے ہوں گے۔
روایات سے پتہ چلتاہے کہ اس ماہ کے واقعات کچھ اس طرح ہوں گے۔
۱۔ ماہ شوال میں ایک بہت بڑی آبادی سفیانی اوراس کے حامیوں میں شامل ہوجائے گی۔(منتخب الاثرص۱۵۴،یوم الخلاص ۷۵۵،بیان الائمہ علیہ السلام ج۲ص۵۴۳)
۲۔ اس ماہ میں داخلی طورپرکچھ اورانقلابات بپاہوں گے لوگ ایک دوسرے سے جدا ہوں گے، نئی سیاسی دھڑے بندیاں وجودمیں آئیں گی، عوام میں بے چینی بڑھے گی، مسائل بہت ہی گھمبیرہوجائیں گے، اپنے حکمرانوں سے عوام سخت آشفتہ اوربے چین ہوں گے دہشت گردی بڑھ جائے گی،ہرشخص خوفزدہ ہوگا،اوراپنے آئیندہ کے بارے فکرمندوپریشان ہوگا۔
(بحارالانوارج۲۵ص۲۷۲،بشارة الاسلام ص۲۲۱،یوم الخلاص ص۵۰۷)
۳۔ماہ شوال میں آفات وبلیات بڑھ جائیں گی، جنگوں،فتنوں،قتل وغارتگری کے نتیجہ میںلوگ مصائب ومشکلات،آفات وبلیات سے دوچارہوں گے اس ماہ میںان ساری مشکلات سے بڑھ کر ایک نئی مصیبت میں لوگ گرفتارہونگے جسکی تفصیل معلوم نہیں البتہ اتنا ذکر ملتاہے کہ سابقہ مصائب ومشکلات کےساتھ ساتھ ایک نئی صورتحال کا سامنا ہوگا جس سے لوگوں کی پریشانیوں میں اوراضافہ ہوجائےگا(منتخب الاثرص۱۵۴،یوم الخلاص ص۷۵۵بیان الائمہ ج۲ص۵۴۳)
۴۔ شوال میں ایک نئی جنگ چھڑے گی، سھل بن حوشب نے حضرت رسول اکرم سے روایت کی ہے کہ ”ماہ رمضان میں آسمانی آوازآئے گی جب کہ ماہ شوال میں ایک جنگ بپا ہوگی (اورلڑنے کے لئے فوجوں کااجتماع ہوگا)“ (منتخب الاثرص۱۵۴،یوم الخلاص ص۷۵۵بیان الائمہ ج ۲ ص ۵۴۳)
ابن مسعودؓنے بھی حضرت محمدمصطفی(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے روایت بیان کی ہے ”جب ماہ رمضان میں آوازآچکے گی توشوال میں مختلف افواج جنگ کے واسطے جمع ہوجائیں گی، قبائل ایک دوسرے سے الگ ہوجائیں گے یعنی اپنے لئے علیحدہ محاذ تبدیل کرلیں گے اور ماہ ذیقعدہ میں باہمی جنگ لڑیں گے“۔
اس روایت سے ہم یہ نتیجہ لے سکتے ہیں کہ ماہ شوال میں سیاسی دھڑے بندیاں ہوں گی،فوجوں کو اکٹھاکیاجائے گااوراس تیاری کے بعدنئے محاذوں پرماہ ذیقعدہ میں جنگ ہو گی ۔
(منتخب الاثرص۱۵۴،یوم الخلاص ص۷۵۵بیان الائمہ ج۲ص۵۴۳)
ماہ شوال کی جنگ
ماہ شوال میں جس جنگ کی طرف اشارہ ملتاہے، ہوسکتاہے اس سے قرقیسا کا معرکہ مراد ہو کیونکہ لوگوں میں خوف وہراس ہوگامغربی اتحادی افواج سفیانی کی حمایت کریں گی اور عراق سے اٹھنے والی تحریک جوکہ اتحادی افواج کے خلاف ہوگی سفیانی کے ساتھ مقابلہ میں شکست کھا جائے گی اوربڑامعرکہ سوریااورعراق کی سرحد پر قرقیسا کے مقام پر لڑاجائے گا جیساکہ پہلے بیان ہوچکاہے کہ ایک لاکھ مسلح افراداس جنگ میںمارے جائیں گے.... البتہ واضح رہے کہ ان جنگجوﺅں میں حضرت امام مہدی علیہ السلام کے حامی شامل نہیں ہوں گے اسی لئے بیان ہوچکاہے کہ قرقیساکامعرکہ حضرت امام مہدی علیہ السلام کے بڑے دشمنوں کے خاتمہ میں مددگارثابت ہوگا۔
معرکہ قرقیسا
قرقیساسوریاکے شمال میں ایک وسیع علاقہ ہے جودریائے فرات اورخابورنام کے پہاڑی نالہ کے چشمہ کے درمیان ہے، اس کا فاصلہ عراقی حدود سے ایک سوکلومیٹرہے اورترکیہ کی حدودسے اس کافاصلہ ۲سوکلومیٹرہے اوراس علاقہ کے قریب شہرکانام ”شہردیرالزور“ ہے، مستقبل قریب میں اس جگہ ایک بڑاخزانہ دریافت ہوگا،سونے یا چاندی کاپہاڑ ہوگایاتیل (طلاءسیاہ) کا خزانہ ہوگاجیساکہ روایات سے پتہ چلتاہے کہ دریائے فرات کے پانی میں سے یہ پہاڑنمایاں ہوگا ،اس خزانہ پراتنی جنگ ہوگی کہ ہرنوافرادسے سات افرادمارے جائیں گے اس جنگ میں مختلف اقوام واردہوں گی جوکچھ اس طرح ہیں۔
۱۔ اتراک اس جزیرہ میں اپنی مسلح قوتیں اتاردیں گے(السفیانی ص۱۳)
۲۔ رومی،یہودی،اورمغربی قوتیں جوکہ فلسطین میں واردہوچکی ہوں گی آج کی اصطلاح اتحادی افواج جوکہ امریکہ سمیت یورپین ممالک کی افواج پرمشتمل ہوں گی اس میدان میں واردہوں گی۔
۳۔ سفیانی اس زمانہ میں سوریاپراپنی حکومت بناچکاہوگا۔
۴۔ عبداللہ نامی شخص بھی اپنی افواج اس جنگ میں لے آئے گاجس کے بارے میں ایسا معلوم ہوتاہے کہ وہ مغربیوں کے ساتھ ہم پیمان ہوگا۔
۵۔ قیس جس کے پاس مصری افواج کی کمان ہوگی۔
۶۔ عباسی خاندان کا فردجوکہ عراق سے اپنی افواج کے ساتھ اس معرکہ میں داخل ہوگا۔ (روزگاررہائی ج۲ص۸۹۹،۹۰۰۱،یوم الخلاص ص۸۹۶)
قرقیسامیں لڑی جانے والی جنگ کانتیجہ
اس جنگ کے نتیجہ میں بہت زیادہ خونریزی ہوگی، اس جنگ کے خاتمہ تک ایک لاکھ افراد اور بعض روایات میں چارلاکھ افرادتک مارے جاچکے ہونگے یہ جنگ حیوانات حتیٰ کے زراعت پربھی اپنے برے اثرات چھوڑے گی ہوسکتاہے کہ یہ جدیدہتھیاروں کے استعمال کی طرف اشارہ ہواوراس جنگ میں ایٹم بم،کیمیائی ہتھیاراوراسی قسم کے دوسرے ہتھیاروں کا استعمال کیاجائےگا، اس جنگ میں استعمال ہونے والے جدیدہتھیاروں کیوجہ سے بڑی تباہی ہوگی یہ جنگ حضرت امام مہدی علیہ السلام کے ظہورسے پہلے ایک سابقہ عالمی جنگ کا منظرپیش کرے گی کہ جس میں بڑی بڑی طاقتیں شامل ہونگی اس قسم کی جنگ اس کے بعد کبھی نہ ہوگی، اس جنگ کے نتیجہ میں سفیانی کے ہم پیمان اورحمایتی و اتحادی کامیاب ہونگے ۔
جناب عماریاسرؓ کی روایت
ہماری روایات میں اس واقعہ کی طرف بڑاواضح اشارہ ملتاہے ،جناب عمارؓبن یاسرؓسے اس طرح روایت بیان ہوئی ہے ۔
مغربی افواج مصرکی طرف پیش قدمی کریں گے ان کامصر آنے کامطلب سفیانی کے غلبہ کی نشانی ہوگااس سے قبل ایک شخص انقلاب بپاکرے گاجوآل محمد کی طرف لوگوں کودعوت دے گا اتراک حیر (کوفہ کے اطراف میں)میں واردہوں گے اور رومی (اتحادی فوج)فلسطین میں داخل ہوں گے، عبداللہ ان سے پہلے آگے بڑھ چکاہوگا.... ، یہاں تک کہ اس دریاکے کنارے ان کی افواج کاآمناسامناہوگا،بڑی جنگ ہوگی، مغربی کا اتحادی بھی اس جنگ میں شامل ہونے کےلئے اپنی جگہ سے چل پڑے گامردوں کا قتل کریں گے.... عورتوں کوقیدی بنائیں گے.... اس کے بعدقیس کی طرف پلٹ جائیں گے یہاں تک کہ وہ حیرہ میں واردہوگااوریمانی تیزی سے اس طرف بڑھے گاجبکہ سفیانی لشکراکٹھاکرچکاہوگاوہ اس کے ساتھ کوفہ کی طرف نکل کھڑاہوگااس روایت میں مختلف چھوٹی چھوٹی جنگوں کی طرف اشارہ کیاگیاہے دوسری روایات کوسامنے رکھ کر اس روایت کے اشارات کوسمجھاجاسکتاہے۔
(الغیبة نعمانی ص۷۸۱،بشارة الاسلام ص۲۰۱،العتبانی ص۸۰۱،یوم الخلاص ص۸۹۶ ، الممہدون للمہدی علیہ السلام ص۲۱۱)
جابرجعفی ؒ کی روایت
جابرجعفیؓ نے حضرت امام محمدباقر(علیہ السلام)سے ایک طولانی حدیث میں یہ بیان کیا ہے کہ ”ترکوں سے ایک امت کاباغی گروہ قیام کرے گاروم(مغربی اتحادی افواج) کے فسادی انکے پیچھے پیچھے آئیں گے، ترک ان کااستقبال کریں گے، یہ جزیرہ نمامیں آکراتریں گے اورروم کے فسادی قریب آجائیں گے اور وہ رملہ میں جااتریں گے۔
اے جابرؓ!یہ ایساسال ہوگاکہ اس سال میں بہت زیادہ اختلافات ہوں گے ،ہرزمین اختلافات کی لپیٹ میں ہوگی اوریہ اختلافات مغرب کی جانب سے آئیں گے اورمغربیوں کی پہلی سرزمین شام ہوگی .... اس وقت شام والے تین پرچموں میں تقسیم ہوجائیں گے۔
۱۔ الاصہب کاپرچم
۲۔ الابقع کاپرچم
۳۔ سفیانی کاپرچم
سفیانی کاٹکراﺅابقع سے ہوگا،باہمی جنگ ہوگی، سفیانی اسے قتل کردے گااور جواس کے ساتھی ہوں گے ان کوبھی قتل کردے گا الاصہب کوبھی قتل کردے گاپھراس کی خواہش عراق سے جنگ کرناہوگی اس کالشکرقرقیساسے گذرے گااورجابروں سے ایک لاکھ افرادکومار دے گا پھر سفیانی اپنی فوج کوکوفہ کی جانب روانہ کردے گا۔
(الغیبة نعمانی ص۷۸۱،بشارة الاسلام ص۲۰۱،السغباتی ص۸۰۱،یوم الخلاص ص۸۹۶، الممہدون للمہدی علیہ السلام ص۲۱۱)
حضرت امام محمدباقر(علیہ السلام )فرماتے ہیں
عبداللہؓ بن ابی یعفورؓنے کہاہے کہ حضرت امام محمدباقر(علیہ السلام) نے فرمایاکہ
”بنی عباس اوربنی مروان کے درمیان قرقیسامیں جنگ ہوگی یہ ایسی تباہ کن جنگ ہوگی کہ طاقتور جوان بوڑھے ہوجائیں گے خداوندتعالیٰ ان سے فتح وکامیابی کو اٹھا لے گااوروہ شکست کھاجائیں گے، اس جنگ کے بعدآسمان کے گوشت خورپرندوں اور زمینی درندوں کوحکم ملے گاکہ وہ ان جابروں کی لاشوں سے اپنے پیٹ بھرلیں اس کے بعد سفیانی اپنی شورش کوتیزکردے گا“۔
حذیفہ ؓکی روایت
حذیفہؓ بن منصورنے بھی حضرت امام جعفرصادق(علیہ السلام) سے روایت کی ہے کہ آپ علیہ السلام نے فرمایاکہ ”بتحقیق اللہ کاایک دسترخوان ہے جوکہ قرقیسیامیں ہے.... خبروں کا مالک آسمان سے خبردے گا....نداءآئے گی جودوسروں کوآگاہ کرے گااے آسمان کے پرندگان اوراے زمین کے درندگان خودسیرکرنے کے لئے جباروں کے بدن کے گوشت پرٹوٹ پڑو“۔
حضرت امام محمدباقر(علیہ السلام)کی حدیث
محمدبن مسلم نے حضرت امام محمدباقرعلیہ السلام سے روایت کی ہے کہ آپ علیہ السلام نے فرمایاکہ
”کیاتم اس بات کونہیں دیکھتے ہوکہ تمہارے دشمن اللہ تعالیٰ کی نافرمانی کرتے ہوئے قتل ہوں گے اوروہ ایک دوسرے کوقتل کردیں گے اوریہ دنیادارایک دوسرے کوماریں گے اور تم اپنے گھروں میں امن اورسکون میں ہوگے، ان سے تم جداہوگے ۔سفیانی بھی تمہارے واسطے تمہارے دشمنوں سے انتقام لینے کے لئے کافی ہے اوریہ تمہارے لئے علامات ہیںباوجودیکہ فاسق(سفیانی)جب خروج کرے گاتووہ رجب میں نکلے گا اس کے خروج اورانقلاب کے تم ایک یا دوماہ ٹھہروگے،توپھرتمہارے لئے کوئی نقصان نہ ہوگا یہاں تک کہ بہت ساری مخلوق تمہارے علاوہ ماری جائے گی۔
بہرحال قرقیسیاکے معرکہ کے بعد عالمی عسکری طاقتیں کافی حدتک کمزور ہو جائیں گی، حضرت اما م مہدی(علیہ السلام)کے ظہور کے بعد جن جن طاقتوں نے حضرت علیہ السلام کے خلاف محاذلگانے تھے وہ طاقتیں پہلے ہی آپس میں لڑ لڑ کر کمزورہوجائیں گی۔اوریہ بھی اللہ کی طرف سے ایک طرح کی اپنے ولی کے واسطے غیبی مددہوگی۔
ماہ ذیقعدہ کے واقعات
قرقیسیاکے معرکہ سے فصلیں تباہ ہوجائیں گی کافی بربادی اورویرانی ہوچکی ہوگی، غذائی قلت کا سامناہوگا،اسی جنگ میںکم ازکم ایک لاکھ افرادمارے جائیں گے جب کہ روایات میں چارلاکھ تک کی تعداد کاذکرموجودہے، غذائی اجناس آلودہ ہوجائیں گی،پانی آلودگی کی وجہ سے صحت کے لئے نقصان دہ ہو جائے گا،بے روزگاری عام ہوگی،بظاہرہلاک کرنے والی گیسوں اور کیمیائی ہتھیاروں کے بے دریغ استعمال کی وجہ سے ایساہوگا،خشک سالی آئے گی۔
عرب خطہ کی حساسیت اوراہمیت
البتہ جیساکہ پہلے بیان ہوچکاہے کہ حضرت امام مہدی(علیہ السلام) کے انقلاب کا آغاز مکہ سے ہوناہے اوربراہ راست عرب علاقے اورقریبی مسلمان ممالک ہی اس سے متاثر ہوں گے اورپوری دنیا اسی خطہ کی حساّسیت کے پیش نظراس کی طرف متوجہ ہوگی بلکہ عالمی سیاست میں تغیر و تبدل اسی خطہ میں رونماہونے والے حالات وواقعات سے ہوگااس لئے ظہورسے قبل رونماہونے والے علائم کے بارے میں جوبھی بیان ہورہاہے وہ ان ہی علاقوں سے متعلق ہے جبکہ عالمی سطح پر جو عمومی نشانیاں ہیں وہ ظہورکے سال سے قبل ہی ظاہرہوچکی ہوں گی خصوصی علائم اور ظہور کے سال کے واقعات کامحورومرکزدیہی علاقہ ہوگاجس کاتذکرہ روایات میں آیاہے اوراس کی وجہ بھی قابل فہم ہے۔
قحط سالی کے پیش نظرلوگ ادھرادھردوڑیں گے، اپنے لئے غذائی اجناس جمع کریں گے بھوک وافلاس سے ....کمرتوڑگرانی ہوگی اس وقت اپنے معاشی حالات کی بہتری کے واسطہ ہر شخص ادھرادھردوڑرہاہوگاجس سے حرص،لالچ ڈاکے، چوریاں ،لوٹ ماربھی عام ہوگی داخلی جنگیں،قبائلی لڑائیاں ، خاندانوں میں لڑائیاں.... سب اسی خونی معرکے کے نتائج سے ہوگا۔
حضرت پیغمبراکرم نے فرمایا
”جب ماہ رمضان میں اچانک آسمانی آواز (صیحہ) آجائے گی تواس کے بعدشوال کے مہینہ میں (قرقیسیاکامعرکہ)بڑی جنگ ہوگی جب کہ ذی قعدہ میں قبائلی اورعلاقائی جنگیں چھڑجائیں گی ذالحجہ میں حاجیوں کولوٹ لیاجائے گااورخون بہائے جائیں گے “۔
(بشارة الاسلام ص۴۳،منحب الاثرص۱۵۴،بیان الائمہ علیہ السلام ج۱ص۱۳۲،ج۲ص۴۵۳،یوم الخلاص ص۰۸۲)
روایت میں آیاہے کہ اس بڑی خونی معرکہ کے بعدماہ ذی قعدہ میں ”تمیر القبائل“ قبائل خوراک مہیاکرنے کے لئے نکل کھڑے ہوں گے، اس سے یہ معلوم ہوتاہے کہ قبائل ایک شہر سے دوسرے شہرکی طرف کوچ کریں گے تاکہ دوسرے شہرسے غذائی اجناس خرید کراپنے شہر لے آئیں اورایک سال کے لئے اپنی ضروریات کاذخیرہ کرلیں یہ کنجوسی ، قحط ،مہنگائی ،غذاﺅں کے آلودہ اورمضرصحت ہوجانے کی وجہ سے، جنگوں اور لڑائیوں کے خوف سے اوراجتماعی ہلاک کردینے والے اسلحہ کی بہتات کی خاطر،ایساہوگا، ہرشخص اپنی فکرمیں ہوگا“۔
حضرت امام جعفرصادق(علیہ السلام )کافرمان
جناب محمدؓبن مسلم نے حضرت امام جعفرصادق(علیہ السلام)سے اس طرح نقل کیاہے وہ کہتے ہیں کہ میں نے امام علیہ السلام سے سناکہ حضرت قائم(عج) کی آمدسے پہلے علامات اورنشانیاں ہوں گی یہ اللہ کی طرف سے مومنین کے واسطے امتحان اورآزمائش ہوگا۔
راوی:میں آپعلیہ السلام پرقربان جاﺅں یہ علامات کون سی ہیں ؟۔
امام علیہ السلام :اللہ تعالیٰ کا مومنین کوخطاب ہے”سورئہ بقرہ ص۵۵۱”کہ بتحقیق ہم ضرور....تمہیں (مومنین کو) آزمائیں گے یعنی حضرت قائم علیہ السلام کے ظہورسے پہلے کچھ ڈرہوگا،کچھ بھوک ہوگی،اموال میں کمی سے،جانوں کے چلے جانے سے،ثمرات اور میوہ جات کے ضائع ہونے سے،صبرکرنے والوں کے لئے بشارت اور خوش خبری ہے ۔ (اعلام الوری ص۷۲۶)
قبائل ماہ ذی قعدہ میں غذائیں اکھٹی کرنے میں مصروف ہوجائیں گے اور اسی پرجنگیں اور لڑائیاں ہوں گی یعنی معاشی بحران باہمی لڑائیوں کاسبب بنے گاجیساکہ حدیث میں اس بارے تاکیدواردہوئی ہے ماہ ذالحجہ میں حجاج کرام کولوٹ لیاجائے گاان کے مال ومتاع کوغارت کر لیا جائے گا۔
حضرت رسول اکرم کی حدیث
فیروزدیلمی حضرت رسول اللہ سے نقل کرتے ہیں آپ نے فرمایاکہ ”آوازماہ رمضان میں ہو گی، جنگ ماہ شوال میں ہوگی، ذالقعدہ میں قبائل غذاﺅں کی جمع آوری میں مصروف ہو جائیں گے،ذالحجہ میں حجاج کولوٹاجائے گا،ان کے اموال غارت ہوں گے اور محرم .... تو تمہیں کیامعلوم کہ محرم کیاہے؟ اس کاآغازمیری امت پرمصیبت اورپریشانی سے ہے اوراس کا انجام میری امت کے لئے فتح ونصرت پر ہے، یہ سب حالات ایک دوسرے کے بعد یکے بعددیگرے آئیں گے اس کے بعدایک سائبان والااونٹ آئے گا(نجات دہندہ آئے گا) جس کے ذریعہ مومنین نجات پائیں گے اور وہ ہلاکت سے بچ جائیں گے وہ ایسا اونٹ ہوگا جوہلاکت سے دوربھگاکرلے جا سکے گااوروہ خزانہ سے بہترہوگاکہ جس میں ایک لاکھ افراد پناہ لے سکیں گے۔
”دسکرہ“ کے معنی
روایت میں لفظ دسکرہ ہے اورراحلة کاذکرہے ،راحلہ سواری کے جانور کو کہتے ہیں اس سے اونٹ مرادلیاجاتاہے اوراس دورمیں اس سے بڑاجہازمرادلے سکتے ہیں ”دسکرہ“ اس راحلہ کا وصف بیان کیاگیاہے، دسکرہ ذخیرہ کرنے کی جگہ کوبھی کہتے ہیں، روایت کہہ رہی ہے کہ وہ سواری اور نجات دہندہ اس ذخیرہ کے مرکزسے بہترہے جس میں ایک لاکھ افراد کی گنجائش موجودہواس کا ایک معنی یہ بھی ہوسکتاہے ،راحلہ اشارہ اورکنایہ ہو حضرت امام مہدی(علیہ السلام) کے ظہور سے کہ اس دوران یعنی محرم الحرام میں حضرت امام مہدی(علیہ السلام) کی مدد کے لئے ان کی طرف روانہ ہوجانا غلہ ذخیرہ کرنے کی اس جگہ سے زیادہ فائدہ مندہوگاجس میں ایک لاکھ افراد کی گنجائش موجود ہو، دسکرہ ایسی بڑی عمارت.... جس میں بہت زیادہ اجناس کوذخیرہ کیاجاسکے، جیساکہ آج کل بڑے بڑے کولڈسٹوریج بنے ہوئے ہیں جوہزاروں بلکہ لاکھوں افراد کے لئے غذائی اجناس کو اپنے اندر جگہ دے دیتے ہیں ۔
اس عبارت کابہتر ترجمہ ہم اسی طرح کرسکتے ہیں کہ ایسی سواری جس کے اوپرسائبان ہوگا اور ایک باایمان شخص اس کے ذریعہ ہلاکت کے میدان سے گریزکرسکے گا توایسی سواری بہتر ہوگی اس بڑے محل سے جس کے ایک لاکھ نگہبان اورمحافظ ہوں ،بہرحال اس حدیث میں اس وقت کے حالات کوبیان کیاگیاہے کہ غذائی اجناس کاذخیرہ سودمندنہ ہو گااس وقت فائدہ مند صرف حضرت امام مہدی علیہ السلام کے لشکرمیں شامل ہوجاناہوگا۔اور ذخیرہ کرنے کی جگہ کاتذکرہ اس لئے کیا گیاہے کہ وہ ایسادورہوگاکہ ہرشخص غذاکی تلاش میں ہوگااورجس میں اتنی بڑی مقدارمیں غذائی مواد ذخیرہ کرنے کی جگہ ہوتومادی حوالے سے ایسا شخص اس دورمیں بہت ہی بڑامالدارہوگاتواسی تناظرمیں کہاجارہاہے کہ اس زمانہ میں حضرت امام مہدی (علیہ السلام)کی مددکی غرض سے نکل پڑنااتنے بڑے غذائی مواد کے ذخیرہ سے بہترہے کہ جس کے وسیلہ سے اربوں روپے کافائدہ ہو سکے ۔
آئمہ اطہار(علیہم السلام)کا اپنے پیروکاروں پراحسان
ہم اس سے پہلے بھی بیان کرآئے ہیں کہ آئمہ معصومین علیہ السلام نے اپنے پیروکاروں پراحسان اور مہربانی کرتے ہوئے ان کوسمجھادیاکہ جب تم ماہ رمضان میں آسمانی آواز کوسنو تو پھرگھروں میں بیٹھ جانا،ایک سال کے لئے غذائی اجناس ذخیرہ کرلینا،اس کامطلب یہ ہے کہ قرقیسیا اور دوسری جنگوں کے نتیجہ میں پورے علاقہ کے لوگ جس بڑے قحط سے دو چار ہونے والے ہیں اس سے پہلے آئمہ اطہار(علیہم السلام)کی طرف سے اپنے پیروکاروں کو خبردارکیاجارہاہے اورآپ حضرات علیہ السلام اپنے شیعوں کوسمجھارہے ہیں کہ ماہ رمضان میں عمومی قحط شروع ہونے کے درمیان دوماہ کاعرصہ باقی ہوگاتواس مشکل وقت کے لئے پہلے ہی سے انتظام کرلوکیونکہ ان جنگوں کے بعدغذائی اجناس ناپیدہوجائیں گی ،غذائی قلت کاسامناہوگا اور پھرکیمیائی ہتھیاروں کے استعمال کی وجہ سے ہرشئے مضرصحت ہوجائے گی،پانی تک آلودہ اورزہریلاہوجائے گا،فصلیں تباہ اورناقابل استعمال ہو جائیں گی اگرمومنین نے اس زمانہ میں اپنے آئمہ علیہ السلام کی طرف سے بیان کردہ ہدایات کے مطابق عمل کیاتواس دورکے مشکل حالات کامقابلہ کرنا ان کے واسطہ آسان ہوگا۔
سفیانی کی پہلی وحشیانہ قتل گاہ.... بغداد
قرقیسیاکے معرکہ کے بعداورعراق میں سیاسی بحران اورکمزورحکومت،سیاسی عدم استحکام اور اس معرکہ میں سفیانی کی کامیابی.... یہ سب کچھ سبب بنے گاجس سے سفیانی کی ہمت بڑھے گی اور وہ عراق پرقبضہ کرنے کے لئے آگے بڑھے گا۔
۱۲،۲۲ذیقعدہ کو بغدادمیں سفیانی عراقیوں کاقتل عام کرے گا اور پھر بغداد سے کوفہ میں داخل ہوگا،اسی طرح عراق کے دوسرے شہروں میں بھی اس کی وحشیانہ اورظالمانہ کاروائیاں جاری رہیں گی اوراس کایہ غیرانسانی رویہ اور عراقیوں پرظلم وبربریت کی یہ داستان جاری رہے گی یہاں تک کہ سیدخراسانی کی رہبریت میں ایرانی افواج عراقیوں کی مدد کے لئے آئیں گی اورسفیانی کو شکست سے دوچارکریں گی۔
حضرت امام جعفرصادق (علیہ السلام)کی حدیث
حضرت امام جعفرصادق(علیہ السلام)نے ایک طولانی حدیث میں فرمایاہے کہ ”عراق میں سخت خوف وہراس ہوگا،اور امن وسکون نہ ہوگاجب سفیانی کالشکر بغداد میں واردہوگاتوتیزی سے موت وہاں آئے گی، تیس دن تک ان کاقتل عام روارکھاجائے گا،بغدادمیں ساٹھ ہزار بعض روایات میں سترہزارافرادکاقتل ہوگا،اس شہرکے گھرویران ہوجائیں گے پھروہ اس شہرمیں ۸۱دن قیام کرے گااوران کے اموال کوآپس میں تقسیم کرلیں گے اوربغدادمیںسب سے محفوظ جگہ اس ” خونی معرکہ‘ ‘ میں کرخ کاعلاقہ ہوگا۔
ابن رہب اس روایت کونقل کرنے کے بعدفرماتے ہیں کہ حضرت علیہ السلام نے اس جگہ ابن ابی عقیب کے اس شعر کوپڑھا
وینحربالزوراءمنھم لدی
ثمانون الفامثل ماتنحرالبدن
بغدادمیں حیوانوں کی طرح اسی ہزارافرادکوذبح کردیاجائے گااوراسی افرادفلاں کی اولاد سے ہوں گے سب کے سب خلافت اورحکومت کرنے کے حقدارہوں گے (ہوسکتاہے کہ وہ ایسے افراد ہوں جو وزراءیاحکومت کے اہل کار ہوں گے)“۔
حضرت امیرالمومنین (علیہ السلام)کی حدیث
حضرت امیرالمومنین(علیہ السلام) نے بھی ایک طولانی حدیث میں بیان فرمایاہے ”بغدادکاحاکم پانچ ہزار جلادوں کے ہمراہ نکلے گا،سترہزارافرادبغدادکے پل پرقتل کرے گا ، اتنا فتنہ ہوگاکہ لوگ تین دن تک ان لاشوں کی بدبواورتعفن کی وجہ سے دریائے دجلہ پرنہ جاسکیں گے (روایت میں لفظ فرات آیاہے البتہ قرائن سے واضح ہے کہ دریائے دجلہ مرادہے)
(بشارة الاسلام ص۳۵۱،یوم الخلاص ص۷۵۲،الزام الناصب ج۲ص۹۱۱،بشارة الاسلام ص۸۵)
حضرت امام جعفرصادق( علیہ السلام) کی حدیث
حضرت امام جعفرصادق(علیہ السلام) نے فرمایا”بنی عباس کی ایک بڑی شخصیت کو دریا کے اس سمت وجانب پر جلایاجائے گاجوکرخ کی طرح سے بغدادکی طرف ہے ۔
(بشارة الاسلام ص۳۵۱،یوم الخلاص ص۷۵۲،الزام الناصب ج۲ص۹۱۱،بشارة الاسلام ص۸۵)
حضرت امام حسین (علیہ السلام)کی حدیث
حضرت سیدالشہداءامام حسین علیہ السلام نے بھی ایک طولانی حدیث میں بیان فرمایاہے کہ
”سفیانی ایک لاکھ تیس ہزارکالشکربغدادبھیجے گاتین دن تک اسکے پل پر ستر ہزار افراد قتل کردیئے جائیں گے اور بارہ ہزارلڑکیوں کی عصمت دری کی جائےگی دجلہ دریا کا پانی ان لاشوں کے خون سے رنگین ہوگااوربدبودارہوگا“۔(یوم الخلاص ص۸۵۶بیان الائمہ علیہ السلام ج۲ص ۵۶۳ )
الزوراءسے مراداورسفیانی کاقتل عام
روایات میں لفظ” الزورائ“ آیاہے اس سے مرادبغدادہی ہے، اس شہرکو منصور دوانیقی عباسی نے بنایا تھا،ہماری روایات میں پل کابہت ذکرآتاہے تواس پل سے مرادوہ پل ہے جو کرخ کی جانب سے محلہ جعفریہ سے بغدادکوملاتاہے اورمدینہ الطب دجلہ کے اس پارہے جیساکہ ہم نے اوپربیان کی گئی احادیث میں پڑھاہے، سفیانی اپنی وحشیانہ کاروائیوں کواسی پل پرانجام دے گااس جگہ ستر ہزار فوجی اورسویلین کاقتل کرے گا،اتناخون بہے گاکہ دجلہ کاپانی اس خون سے سرخ ہوجائے گا اور اس کی بدبوسے لوگ دجلہ کے نزدیک نہ آسکیں گے اوردجلہ کا رنگ سرخ ہوجائے گا۔
حضرت امام جعفرصادق(علیہ السلام)کی حدیث
حضرت امام جعفرصادق(علیہ السلام) کافرمان ہے کہ” زردپرچم والوں ،مغربی اتحادیوں، اورسفیانی کے لشکریوں سے بغدادکے لئے بدقسمتی ہے“۔(بشارة الاسلام ص۳۴۱،یوم الخلاص ص۱۰۷)
مفضل بن عمرکابیان ہے کہ میں نے حضرت علیہ السلام سے سوال کیااس زمانہ میں بغدادکی صورتحال کیسی ہوگی؟
بغداداللہ کے عذاب کے اترنے کی جگہ
امام علیہ السلام نے جواب فرمایا”بغداداللہ کے عذاب کی جگہ ہوگا،جو زردپرچم والوں کی جانب سے جونزدو دور سے اس شہر میں واردہوں گے.... بغداد کے لئے بربادی ہے.... خداکی قسم! اس شہر پرقسم قسم کے عذاب اتریں گے کہ ایسے عذاب اول دھرسے لے کراس وقت تک کسی نے بھی نہ دیکھے ہوں گے، نہ سنے ہوں گے ،جتنی سرکش اقوام گزری ہیں ان سب سے زیادہ عذاب ان پر ہوگا ،اس شہرمیں سیلاب کی آفت آئے گی،پانی کاطوفان ہوگا،سیلاب کی تباہ کاریاں دیدنی ہوں گی،بدبختی ہے اس کے لئے جوبغدادکواپنامسکن بنائے، خداکی قسم! بغدادکی ایسی عالیشان عمارتیں تعمیر ہوں گی کہ دیکھنے والاکہے گاکہ ساری دنیاہی بغدادشہر ہے، اس کے علاوہ اورکچھ بھی نہیں ہے اوریہ خیال کیاجائے گاکہ بغدادکی لڑکیاں حورالعین ہیں اور ان کی اولاد جنتی لڑکے ہیں اور اس شہرمیں اللہ پرجھوٹ اور بہتان باندھاجائے گا،ناحق فیصلے ہوں گے، غیرقانونی حکومت ہوگی، جھوٹی گواہیاں دی جائیں گی، شراب عام ہوگی،زناعام ہوگا،حرام مال کھایاجائے گا،ناحق خون بہایاجائے گا،اس کے بعداللہ تعالیٰ اس شہرسے فتنے ابھارے گا،ان کی فوجوں کے ذریعہ جوپل سے اس شہرمیں واردہوں گی.... اس حدتک ویرانی ہوگی کہ اس شہرمیں سے گزرنے والاسوائے گھرکی دیواروں کے اورکچھ نہ دیکھ پائے گا،اوراسے یہ کہناپڑے گا کہ یہ توبغدادکی زمین ہے، آبادی کہاں ہے؟پھرقزوین و دیلم کی جانب سے ایک بہت ہی خوش سیرت اورخوبصورت نوجوان نکلے گا،وہ بلندآوازسے فریادبلندکرے گااے آل محمد! مصیبت زدگان کی مددکوآﺅ،اس کی آواز اور فریادپرطالقان کے خزانے (طالقان کے پارسا، مجاہدین افواج)اس کی مددکونکلیں گے، یہ خزانے سونے اور چاندی کے نہ ہوں گے بلکہ یہ توایسے مرد ہوں گے جوفولادی جسم والے ہوں گے ، آ ہنی اعصاب کے مالک ہوں گے سخت جان، دلیر وبہاداوررجری ہوں گے اوریہ ایسی تیز رفتار سواریوں پرہوں گے جس کے رنگ سیاہ وسفید ہوں گے ....ظاہرہے اس سے مراد اس دورکے وسائل نقل وحمل ہیں جوافواج کوایک جگہ سے دوسری جگہ پہچانے کے لئے استعمال ہوتے ہیں .... یہ جنگ کے شوق میں آگے بڑھیں گے جس طرح بھیڑیئے شکارکے لئے تیزدوڑتے ہیں، ان کا کمانڈر اور سردار بنی تمیم کاایک مرد ہو گا اوران میں ہی حسنی سیدآگے بڑھے گااورشعیب بن صالح اس حسنی سید کی طرف رخ کرے گا، جس کاچہرہ چودھویں رات کے چاندکی مانندہوگااوروہ ان کے درمیان ہوگایہ ظالموں کی طرف بڑھیں گے، ان ظالموں سے جنگ لڑیں گے یہاں تک کہ کوفہ تک یہ لوگ جاپہنچیں گے۔
حسنی سیداورشعیب بن صالح
ہوسکتاہے اس جگہ حسنی سیدسے اس دورکے عظیم الشان رہبرمرادہوں.... جو حضرت امام مہدی (علیہ السلام) کےلئے ناصران تیارکرنے میں مصروف ہوں گے اورشعیب بن صالح خود کو ان کی قیادت میں دے گااور ان کے حکم سے سفیانی اوردیگرظالموں کے خلاف جنگ کرنے کےلئے آگے بڑھے گا،ان کاتعلق ایران سے ہوگااوریہ کامیابی سے آگے بڑھیں گے اورکوفہ تک پہنچ جائیں گے ،کیونکہ بغدادمیں وحشیانہ قتل وغارتگری لوٹ مارکرنے کے بعدسفیانی اپنی افواج کے ہمراہ کوفہ کارخ کرے گاکوفہ میں بھی ایسی ہی ویرانی ہوگی.... اتناقتل عام ہوگاکہ انسان کی عقل محو حیرت ہوگی اوریہ قتل وغارت گری اورظلم وستم کاسلسلہ جاری رہے گایہاں تک کہ خراسانی سیدکی قیادت میں افواج.... مظلوم مومنین کوسفیانی کے ظلم سے نجات دلانے کےلئے کوفہ میں داخل ہوں گی.... ایسے فتنوں سے ہم خداکی پناہ اور خداکی امان میں آتے ہیں۔
ماہ ذالحجہ کے حالات وواقعات
جیسے جیسے خورشیدامامت کاطلوع قریب ترہوتاجائے گاتوہم دیکھتے ہیں کہ احادیث اور روایات میں تفصیلات زیادہ بیان ہوتی جارہی ہیں اور روایات میں زیادہ جگہوں ، زیادہ دنوں اور زیادہ ساعات کے بارے میںبیانات موجودہیں اس لحاظ سے ہم مختلف حادثات وواقعات کے رونماہونے کی زمانی حدبندی کوذراتفصیل سے بیان کرنے کی کوشش میں ہیں،ماہ ذالحجہ کو بہت ساری روایات میں خونی مہینہ کانام دیاگیاہے ۔
جناب ابوبصیرؓایک طولانی حدیث کے ضمن میں بیان کرتے ہیں کہ میں نے حضرت امام جعفرصادقعلیہ السلام سے دریافت کیاکہ ماہ ذالحجہ کیسامہینہ ہے؟توآپ علیہ السلام نے فرمایاکہ”یہ خونی مہینہ ہے“
(بحارالانوارج۲۵ص۲۷۲،بشارة الاسلام ص۲۴۱)
حضرت رسول اللہ نے اس مہینہ کے بارے میں بیان فرمایاہے کہ”ماہ ذالحجہ میں حاجیوں کو لوٹ لیاجائے گا،اس ماہ خون بہت زیادہ بہایاجائے گا“۔
(منخب الاثرص۱۵۴،یوم الخلاص ص۰۸۲)
اس مہینہ میں اہم واقعات حسب ذیل رونماہوں گے کہ ان میں سے ایک واقعہ حتمی علامات سے ہے ۔
۱۔ نجف وکوفہ(عراق) میں سفیانی کادوسراقتل عام
اس ماہ کی عیداورخوشی کے دن یادسویں ذالحجہ عیدقربان کے دن سفیانی کی افواج بغداد میں قتل عام کرنے اورخون بہانے کے بعدکوفہ (نجف)کارخ کریں گی وہاں پربھی قتل عام کریں گے جسکی مثال تاریخ میںنہیں ہے،سفیانی ایک لاکھ تیس ہزارفوجی نجف اور کوفہ کی طرف روانہ کر دےگا اسکی افواج روحاہ،فاروق ،قادسیہ میں حضرت عیسیٰ(علیہ السلام) اور حضرت مریم(سلام اللہ علیہا) کے مقام پراتریں گی بالفاظ دیگریہ افواج بابل کے راستہ سے کوفہ میں داخل ہوں گی روحاہ فرات کے قریب ایک جگہ کانام ہے بعض نے بیان کیاہے کہ اس سے مرادنہر عیسیٰعلیہ السلام ہے اورفاروق دو راستوں کاآپس سے جداہونے کی جگہ کا نام ہے گویاایک چوراہاکانام ہے جہاں سے ایک راستہ قادسیہ (دیوانیہ)کی طرف اور دوسراراستہ بابل اوربغدادکی طرف جاتاہے تیسراراستہ ذی الکفل،کوفہ اورنجف کی جانب جاتاہے اورراستے بھی اس جگہ سے نکلتے ہیں، تیس ہزارپرمشتمل ایک لشکر نجف پرحملہ کے لئے روانہ ہوگاوہ لشکرنجف میں داخلہ کے لئے وادی السلام سے گزرے گاوہ لشکر وادی السلام میں ”ثویہ“محلہ ( نجف اشرف کی روحانی اورمعنوی فضاءمیں وادی السلام دنیاکا عظیم قبرستان ہے) نخیلہ کے راستے سے واردہو گا،جب کہ عیدقربان کے دن بابل کے راستہ سے کوفہ میں سفیانی کی افواج واردہوں گی، اس کے بعدوہ افواج بھی نجف کارخ کریں گی ”ان دو شہروں سے سفیانی کی افواج ستر ہزارجوان لڑکیوں کواسیربنائیں گی اوروہ انہیں گاڑیوں میں بٹھا کر ”ثویہ“محلہ کی طرف لے جائیں گے جس جگہ حضرت کمیل بن زیادالنخعیؒ کامزارہے اورحضرت علی (علیہ السلام) کے اوراصحاب کی قبریں بھی موجودہیں اس وقت یہ جگہ ایک بڑی آبادی پرمشتمل ہے سفیانی کی افواج اسیر عورتوں اورلڑکیوں کواس جگہ رکھیں گے ۔
سفیانی کی افواج نجف وکوفہ میں قتل عام کرنے کے بعدبہت سارے افراد کو قیدی بنالیں گے، آل محمدکے ناصران اورشیعوں کواورہر اس شخص کوجس کے بارے انہیں معلوم ہوگایاخیال ہوگا کہ یہ شخص آل محمد کے ناصران سے ہے اسے قتل کردیں گے.... اس فوج کے کمانڈرکی طرف سے اعلان ہوگاجوشخص حضرت علی(علیہ السلام) کے شیعہ کا سرقلم کرکے لائے گااسے ایک ہزار درہم (دس ہزاردرہم) دیاجائے گا،اس اعلان کے بعدہمسایہ دوسرے ہمسایہ کی شکایت کرے گا اور باہمی اختلافات کی آڑمیں ہرشخص دوسرے کے بارے یہ کہے گاکہ یہ حضرت علی علیہ السلام کاشیعہ ہے اور اس طرح اس کاسرقلم کرواکردس ہزاردرہم انعام حاصل کرے گا۔
کوفہ میں چھوٹے چھوٹے مسلح گروہوں کاقیام
کوفہ کے اندرجوچھوٹے چھوٹے گروہ سفیانی افواج کے خلاف قیام کریں گے لیکن وہ گروہ اتنے کمزورہوں گے کہ وہ نہ تو کوفہ والوں کوسفیانی کے مظالم سے آزاد کرواسکیں گے بلکہ اپنی کمزوری اورجنگی وسائل کی کمی کی وجہ سے اپنے رہبرکوکوفہ اورحیرہ کے درمیان قتل کروابیٹھیں گے۔
ایسامعلوم ہوتاہے کہ سفیانی کے مخالفین کی تحریک جب کمزورپڑجائے گی اور وہ سفیانی کی افواج کامقابلہ نہ کرسکیں گے تومخالف تحریک کے افراد منتشرہوجائیں گے( اورحیرہ کے مقام پر جو کہ نجف اورکوفہ کے درمیان مشہورجگہ ہے) اس تحریک کے رہبرکوسفیانی پالیں گے اوروہ اس کو وہیں پر قتل کردیں گے ۔
اس کے علاوہ سفیانی سترنیک اورصالح علماءدین ،بزرگان دین کوبھی اس ددران قتل کرے گا....ان کے قائدکوبھی گرفتارکرکے خانقین اورجلولاءکے درمیان قتل کردیں گے (ایسامعلوم ہوتاہے کہ پورے عراق پرسفیانی کے کارندوں کی حکومت ہوگی اور سفیانی کے خلاف تحریکوں کے اہم لیڈرکوخانقین اورجلولاءکے درمیان پکڑاجائے گااورانہیں اسی جگہ قتل کیاجائے گا)جوکہ ایک انتہائی محترم اوربزرگ ہستی ہوں گے اوریہ اس وقت ہوگاجب کہ کوفہ میں چار لاکھ افرادکاقتل عام ہوچکاہوگا۔
سفیانی کے لشکرکی ہیئت اوراس کے مظالم
روایات سے ایسامعلوم ہوتاہے کہ سفیانی کے لشکرکی تشکیل میں ایک لاکھ افراد جو کہ مشرکین اور منافقین سے ہوں گے وہ ہی اس کی پارلیمنٹ ،کابینہ،مشیران اور اس کی افواج کا بنیادی ڈھانچہ دینے والوں میں سے ہوں گے اور ایسے افرادہی کی مددسے سفیانی شام پرقبضہ کرنے کے بعد قرقیسیاکامعرکہ لڑے گا،پھرعراق میں واردہوگا،بغدادمیں قتل عام کرے گااوراس کے بعدکوفہ ونجف واردہوگا،کوفہ ونجف میں قتل عام کرے گا، خون کی ندیاں بہائے گا،گھروں کو ویران کرے گا،صالحین علماءکاقتل عام کرے گا،عورتوں کواسیر بنائے گا، اموال لوٹ لے گا .... حضرت علی(علیہ السلام) کامزارمبارک ویران کردے گا ، وہاں کی ہرشئی لوٹ لے گا ،مزارمبارک کا سخت نقصان ہوگا۔
اسی طرح سفیانی اپنی جنگ کادائرہ مزیدوسیع کر دے گا اور اس طرح جنگ شیرازکے دروازہ تک جاپہنچے گی اوراصطخرکے مقام پراس کی افواج داخل ہوں گی اوروہاں پرایرانیوں سے بڑی جنگ ہوگی سفیانی کوشکست ہوگی اور وہ وہاں سے واپس لوٹے گا.... عراق میں وسیع پیمانے پر قتل وغارت گری ولوٹ مارکے بعدعراق کے مومنین اپنے ایرانی بھائیوں کومددکے لئے پکاریں گے اوران کی مددکے لئے کوفہ واردہوں گے۔
سیدخراسانی اورعراقیوں کی امداد
سیدخراسانی ایران میں قیام کرچکے ہوں گے گویاوہ ان کے قائداوررہبرہوں گے وہ مومنین ایران کوعراق میں ہونے والے مظالم کی خبردیں گے اورانہیں عراق کے مومنین کی مددکے لئے آمادہ کریں گے اسکے بعدوہ ایک بہت طاقتوراورمضبوط فوج لے کرعراق کی طرف تیز رفتاری سے بڑھے گا....اس کے پاس عراقیوں کی مددکے واسطے ایک بڑی فوج اکھٹی ہوجائے گی، اس فوج کی کمان شعیب بن صالح کے پاس ہوگی.... اصطخرکے دروازہ پرخراسانی کی افواج اورسفیانی کی افواج کاآمناسامناہوگا،بڑی جنگ ہوگی، سفیانی کوشکست ہوگی، یہ سفیانی کی پہلی شکست ہو گی ، جب کہ اس سے قبل اسے پے درپے کامیابیاں ہورہی تھیں (البتہ اصطخرکے واقعہ کے بعدسفیانی عراق کے شہروں میں قتل عام کرے گااوربغدادوکوفہ کاخونی معرکہ اس کے بعدکاہے البتہ سابقہ پے درپے فتوحات اورقرقیساکے بڑے معرکہ میں فتح حاصل کرلینے کے بعداصطخرکے مقام پر اسے پہلی شکست ہوگی....ایرانی افواج عراق میں کوفہ کے خونی معرکہ نجف کی ویرانی اور مزار مبارک کونقصان پہنچائے جانے کے بعدواردہوں گے، بعض روایات میں واقعات کابیان ترتیب میں آگے پیچھے ہوگیاہے)
یمنی سیدکاقیام
اسی اثناءمیں سیدیمنی یمن میں قیام کرے گااس کانام حسن یاحسین ہوگاان واقعات اور حالات کی اطلاع اسے ملے گی وہ بھی عراق میں ہونے والے مظالم سن کر بے چین ہوجائے گا وہ جلدنجف وکوفہ پہنچے گاتاکہ سفیانی کے مظالم سے مومنین کونجات دلائے۔
یمنی اورخراسانی کی ملاقات
اسی اثناءمیں اس کی ملاقات خراسانی کی افواج سے ہوجائے گی دونوں افواج ملکر سفیانی کے خلاف بڑامعرکہ لڑیں گی ان شورشوں اورحملہ آوروں کونجف اشرف سے باہرنکال دیں گے قیدیوں کوآزادکرائیں گے لوٹاہوامال ان سے واپس لے لیں گے، مومنین خوشحال ہوں گے اور حضرت امام مہدی(علیہ السلام) کی انتظارمیں چشم براہ ہوں گے اورامام علیہ السلام کی زیارت کاشوق بڑھ جائے گا ۔
حضرت امام علی (علیہ السلام)کی حدیث
اصبغؒ بن نباتہ نے حضرت علی(علیہ السلام) سے روایت کی ہے ”ایک لاکھ تیس ہزار کا لشکر کوفہ کی طرف (سفیانی)بھیجے گابغدادسے آتے ہوئے کوفہ میں داخل ہونے کےلئے الروحا اور الفاروق میں اتریں گے ان میں سے ساٹھ ہزارنخیلہ کے راستہ حضرت ہود علیہ السلام کی قبرکے مقام پر (نجف) کوفہ میں اتریں گے (نجف کوظہرِکوفہ کہاگیاہے کوفہ کی پشت پرواقع شہر)،حضرت ہود علیہ السلام کی قبر مبارک عالم اسلام کے سب سے بڑے قبرستان وادی السلام میں ہے،،یہ افواج نخیلہ کے راستے سے نجف وارد ہوں گی۔
عیدکے دن (یوم الزینة)لوگ خوشی میں مصروف ہونگے کہ یہ ان پرحملہ کردیں گے لوگوں کی سربراہی انتہائی سرکش اورظالم وخونخوارکرے گاجوجادوگراورکاہن کے نام سے مشہور ہو گا ۔
کوفہ میں سفیانی کے مظالم
حدیث کے ایک اورحصہ میں آیاہے سفیانی افواج کاکمانڈرکوفہ سے سترہزارکنواری لڑکیوں کو اسیر کرے گاگرفتاری سے قبل وہ بے پردہ نہ ہوئی ہوں گی،، انہیں گاڑیوں پربٹھاکر”طویلہ وثویہ“ میں لے جائیں گے (اس جگہ کانام عربی زبان کا ہے)اس کے بعدایک لاکھ منافق اورمشرک کوفہ سے نکلیں گے ان کے سامنے کوئی بھی رکاوٹ کھڑی کرنے والا نہ ہوگایہ تباہی اوربربادی پھیلائیں گے، یہاں سے فتح یاب ہوکروہ دمشق جائیں گے۔
کوفہ والوں کی حمایت میں آنے والے پرچم
غیرواضح پرچم زمین کے مختلف حصوں سے اٹھیں گے.... ایسے پرچم جوروئی،اون اور پٹ سن سے تیار ہوئے ہوںگے.... ان پرچموں کے سروں پرسید اکبر کا نام کندہ ہوگایہ پرچم جو آئیں گے توان کی قیادت آل محمد سے ایک شخص کے پاس ہوگی جومشرق زمین سے اٹھے گا(اس سے مرادایران ہے اورخراسانی سیدہی مرادہے جوان کارہبر ہوگا،اوریہ سفیانی کے خلاف لڑنے کےلئے کوفہ کی طرف بڑھے گا....کوفہ سے سفیانی کا لشکر واپس دمشق” جوکہ بڑے بڑے ستونوں والا شہرہے“ وہاں پرجائے گاانتہائی عمدہ اورتیزخوشبوکی ماننداس لشکرکے اثرات مغرب زمین تک پھیل جائیں گے، ایک مہینہ کے فاصلہ سے اس لشکرکارعب ودبدبہ محسوس ہوگایہ سب کوفہ میں اتریں گے اوراپنے آباءکے خون کاانتقام لیں گے جب وہ اس حالت میں ہوں گے تویمانی کی سواریاں(افواج) بھی تیزی سے بڑھیں گی ،یمانی اورخراسانی کے لشکراس طرح تیزی سے کوفہ کی طرف آئیں گے جس طرح مقابلہ کے لئے دوگھوڑے دوڑتے ہوئے آگے بڑھتے ہیںان کے بال پریشان،گردآلود،تھکے ماندے،انتقام کے جذبہ سے سرشار،ان سپاہیوں سے ایک کے دل کو چیر کرکوئی دیکھے توہرایک دل میں یہ بات ہوگی کہ ہمارے لئے زندگی کاکوئی مزہ نہیںرہا اس ظلم کے بعدہماراسکون جاتارہا وہ سب فوجی فولادی عزم کے مالک ہوں گے،خداسے مناجات کرتے ہوں گے.... اے اللہ! توہماری کوتاہیاں معاف کردے ،ہم تیری جناب میں رجوع کرنے والے ہیں حقیقی توبہ ہم نے کی ہے، یہ ابدال ہوں گے، خداوندنے اپنی کتاب میں ان ہی کی تعریف میں فرمایاہے(سورئہ بقرہ آیت ۲۲۲)”اللہ تعالیٰ توبہ کرنے والوں کوپسند کرتاہے اور پاکیزہ لوگوں کوپسندفرماتاہے “ان کی مانند....آل محمد میں موجودہے ۔
حضرت امام محمدباقر(علیہ السلام)کی حدیث
جابرجعفیؒ حضرت اما م محمدباقر(علیہ السلام)سے ایک طولانی حدیث میں بیان کرتے ہیں ”سفیانی ایک لشکرکوفہ میں بھیجے گا،جس کی تعدادسترہزارہوگی کوفہ والوں کاقتل عام کریں گے، لوٹ مار کریں گے،انہیں قیدی بنائیں گے ،کوفہ میںویرانی کریں گے،جب وہ اس قتل و غارت گری میں مشغول ہوں گے توخراسان کی جانب سے پرچموں والی افواج بڑی تیزی سے فاصلہ طے کرتی ہوئی کوفہ آن پہنچےں گی، ان میں حضرت امام مہدی(علیہ السلام) کے خصوصی ناصران سے کچھ شخصیات موجودہوں گی، کوفہ کے اندرکی حالت یہ ہوگی کہ کمزور مومنین کی ایک تعداد سفیانی کے خلاف قیام کرے گی لیکن وہ سفیانی کے لشکرکے مقابلہ میں نہ ٹھہرسکیں گے اور شکست کھاجائیں گے کوفہ میں چلنے والی اس تحریک کاسربراہ بھی ماراجائے گا ۔
حضرت امام جعفرصادق(علیہ السلام) ایک طولانی حدیث
میں اس طرح بیان فرماتے ہیں
یہ امر کہ جب آل ابی سفیان سے ایک شخص انقلاب لائے گا،اس کی حکومت نوماہ ہوگی پھرقائم آل محمدکاظہورہوگا، یہاں تک کہ اس شورش کے زمانہ ہی میں اورسفیانی کے مظالم کے دوران آل شیخ سے ایک آدمی اس کے خلاف قیام کرے گا(یہ قیام کوفہ ہی میں ہوگا)وہ آگے بڑھے گااورپھربطن نجف (بظاہراس سے مرادمقام حیرہ ہے)میں قتل ہوجائے گاخداکی قسم! خداکی قسم! میں ان کے نیزوں ،تلواروں اور ان کے سامان اوراسباب جنگ کودیکھ رہاہوںکہ نجف کی آبادیوں میں سے ایک آبادی میں موجودہیں ،سوموارکادن ہے، بدھ کے دن وہ شہیدہوگا۔
اصبغ بن نباة کی روایت
اصبغ بن نباتہ نے حضرت امیرالمومنین(علیہ السلام)سے اس طولانی حدیث میں اس منظرکواس طرح بیان کیاہے ”کوفہ کے اطراف میں حصاربنایاجائے گا،خندق کھودی جائے گی، کوفہ کی گلیوں میں نشانات مٹا دیئے جائیں گے، چالیس رات.... مساجدویران ہوں گی، ہیکل (سلیمان)ظاہرہوگا، مسجد اکبر(اس سے مراد مسجدکوفہ ہے)کے اطراف میں پرچم آپس میں ٹکرائیں گے، قاتل ومقتول دونوں جہنمی ہوں گے پرچم والے آپس میں گھتم گھتاہوں گے اور بڑی تیزی سے قتل عام ہوگاہرطرف موت تیزی سے آئے گی، نفس زکیہ کاقتل سترصالحین کے ہمراہ پشت کوفہ(نجف اشرف) پرہوگا(پرچموں کاآپس میںٹکرانا اور ان کاایک دوسرے کے خلاف جنگ کرنا ، ان پرچموں سے مرادآل محمدکے مخالفوں کے پرچم ہیں۔
آپ(علیہ السلام) ہی سے نقل ہواہے
سترصالحین کاقتل ہوگا،ان کا سربراہ ایک عظیم الشان شخص ہوگاجو،ان کے نزدیک انتہائی بزرگ اورمحترم شخصیت ہوگی، سفیانی ا سے مارکرجلادے گااوراس کی راکھ کواڑادے گا، جلولاءاورخانقین کے درمیان بھی ایساہی واقعہ ہوگا، جب کہ سفیانی کی کوفہ میں چار ہزار(بعض روایات میں چارلاکھ ہے اوریہی صحیح معلوم ہوتاہے )افرادکاقتل کرچکاہوگا۔
حضرت امام جعفرصادق(علیہ السلام)کی حدیث
حضرت امام جعفرصادق(علیہ السلام) سے بیان نقل ہواہے کہ”گویامیں دیکھ رہاہوں کہ سفیانی نے تمہارے کوفہ میں پڑاﺅڈال دیاہے، منادی آوازدے رہاہے کہ جوبھی کسی ایسے شخص کا سرلائے گاجوعلی علیہ السلام کاشیعہ ہوگااسے ایک ہزاردرہم(دس ہزاردرہم) دیا جائے گا،ایک شخص سامنے آئے گا جس نے اپناچہرہ چھپارکھاہوگاجوخودان کوفہ والوں سے ہوگاوہ دشمن کے لئے جاسوسی کا کام کرے گااورایک ایک کی نشاندہی کرے گا،وہ زنازادہ ہوگا،کمینہ ہوگا،تم سے ہوگا،تم اس کونہ پہچان سکوگے وہ تم سب کوپہچانتاہوگا،ہمسایہ، ہمسایہ پرٹوٹ پڑے گا اور ایک دوسرے کوشیعہ علی علیہ السلام قرار دےں گے اوراس طرح انعام لینے میں ہرایک دوسرے پر سبقت لینے کی کوشش کرے گا۔
حضرت امیرالمومنین (علیہ السلام)فرماتے ہیں
جب سفیانی کی افواج کوفہ میں واردہوچکی ہوں گی توسفیانی پے درپے فتوحات کے نتیجہ میں خراسانی کے پیچھے اپنی افواج بھیجے گا....جب کہ خراسان والے حضرت امام مہدی(علیہ السلام) کی طلب میں سرگردان ہوں گے سفیانی کے لشکرسے خراسانی(ہاشمی)کے لشکر کا آمنا سامنا ہو گا ،خراسانی کی افواج کاکمانڈرشعیب بن صالح ہوگا،یہ مقابلہ باب اصطخرشیرازمیں ہوگا،بڑی جنگ ہوگی، خراسانی کے ساتھ نیاپرچم ہوگا،سفیانی کی افواج میدان سے بھاگ کھڑی ہوں گی ، اس صورتحال میں لوگ حضرت امام مہدی علیہ السلام کی تلاش میں نکلیں گے اوروہ حضرت علیہ السلام کوپالیں گے۔
(سابقہ روایات درج ذیل کتابوں میں موجودہیں بحارالانوارج۲۵ ص۰۲۲،۳۷۲،یوم الخلاص ص۵۳۶، ۷۳۶، ۱۵۶، ۳۰۷، بشارة الاسلام ص۲۰۱،۷۶،۱۵۵،۴۸۱،الغیبة نعمانی ص۷۸۱، الغیبة شیخ الطوسی ص۳۷۲،بیان الائمہ علیہ السلام ج ۲ ص ۲۱۶ )
منیٰ میں فسادات
ہماری روایات منیٰ کے اندرحاجیوں کے درمیان شورش بپاہونے کی خبردیتی ہیں اوریہ شورش عربستان میں بادشاہت کے سلسلہ میں وہاں کے حکمرانوں کے درمیان جواختلافات پیدا ہو چکے ہوں گے اس کانتیجہ ہوگی ۔
حضرت امام جعفرصادق(علیہ السلام) نے فرمایا”لوگ اکٹھے حج بجالائیں گے میدان عرفات کاوقوف بھی بغیرامام کے کریں گے، جب کہ وہ سب منیٰ میں آچکے ہوں گے کہ اچانک ایک بہت بڑافتنہ بپا ہوجائے گا،ایسافتنہ جوانہیں شکاری جانوروں کی طرح اچانک آلے گاقبائل ایک دوسرے پر حملہ آورہوں گے، جمرہ عقبہ خون سے رنگین ہوجائے گا،حجاج کرام وحشت زدہ ہو جائیں گے اور کعبہ میں پناہ جالیں گے “۔
نتیجہ
اس حدیث سے معلوم ہوتاہے کہ اس زمانہ کے لوگوں میں باہمی روابط اور تعلقات اچھے نہ ہونگے، مناسک حج کوانجام دینے کے فوراًبعدبلکہ مناسک حج کے مکمل ہونے سے پہلے رمی جمرات کے دوران منیٰ میں کچھ اعمال بجالانے میں مصروف ہونگے کہ لوگ ٹولیوں میں تقسیم ہو جائیں گے اورایک دوسرے پرحملہ کردیں گے حاجیوں کوغارت کریں گے انکے اموال لوٹ لیں گے، لوٹ مارکرنے والے بھی اس ہنگامہ میں مارے جائیں گے ، لوگوں کی ناموس اورعزتوں کی پردہ دری ہوگی “۔
منیٰ کے واقعات کے بارے میںحدیث نبوی
سہل بن حوشب نے رسول خدا سے اس طرح روایت بیان کی ہے
”رمضان میں آوازآئے گی، شوال میں جنگ کے لئے فوجیں جمع ہوں گی، ذیقعدہ میں قبائل آپس میں لڑیں گے، اس کی نشانی یہ ہے کہ حاجیوں کولوٹاجائے گااورمنیٰ میں بڑافساد ہوگا اور اس میں بہت زیادہ قتل ہوگااورمنیٰ میں خون بہے گا،یہاں تک کہ جمرہ خون سے رنگین ہو جائے گا (روایت میں لفظ جزیرہ ہے کہ اس سے مرادیہ لے سکتے ہیں کہ پورے جزیرہ نما (عربستان) میں خون بہے گا)“۔
حضرت امام جعفرصادق(علیہ السلام)کی منیٰ میں فسادات کے بارے میںحدیث
عبداللہ بن سنان نے حضرت امام جعفرصادق(علیہ السلام) سے نقل کیاہے
لوگوں کوموت ،قتل گھیرے میں لے لے گا،اس قتل وغارت گری سے گھبراکرلوگ حرم الٰہی میں پناہ لیں گے، ایک سچاانسان اس صورتحال میں آوازبلندکرے گا،لوگوشرم کرو،یہ قتل وقتال، یہ جنگ و جدال کیوں اورکس لئے؟تمہاراسیدوسرداراورفرمانروافلاںشخص ہے ۔
نفس زکیہ کی شہادت کاواقعہ.... حتمی علامات سے ہے
جن حادثات اورواقعات کااب تک ذکرہوچکاہے ان سب کےساتھ ساتھ آفتاب امامت کی نورانی شعائیں زمین کے ظلمت کدہ پرطلوع ہونے کے آثار روز بروز بڑھتے جائیں گے، اس دوران میں حضرت امام مہدی(علیہ السلام) اپنی خفیہ قیام گاہ سے ایک نمائندہ کواپنی جانب سے مکہ بھیجیں گے تاکہ حالات واضح ہوسکیں اورحضرتعلیہ السلام کے انقلاب کے مقدمات فراہم کئے جاسکیں (شاید وہ شخص ہوگاجومکہ میں موجودحضرت امام مہدی(علیہ السلام) کے ناصران کو حضرت علیہ السلام کے پیغامات پہنچانے پرمامورہوگاکہ انہیں امام علیہ السلام نے کیاحکم دیا ہے؟ یہ جوان مردہاشمی ہوگا ، ان کانام محمدبن الحسن ہوگااوریہی ہستی نفس زکیہ کے نام سے روایات میں موسوم ہے)حضرت امام مہدی(علیہ السلام) کی طرف سے جوکام ان کے ذمہ سونپا گیا ہو گاوہ اسے انجام دینے کے بعد ۵۲ذالحجة الحرام کومسجدالحرام میں واردہوں گے، رکن اورمقام ابراہیم علیہ السلام کے درمیان کھڑے ہوں گے اورمکہ والوں کے لئے اوراس وقت جولوگ حرم کے اندرموجودہوں گے ان سب کے واسطے حضرت امام مہدی(علیہ السلام) کاپیغام زبانی سنائیں گے ، اس خطاب میں کسی کی اہانت نہ ہوگی اورنہ ہی کسی کے خلاف کوئی بات ہوگی، کسی کی بے احترامی بھی نہ کی جائے گی بلکہ مکہ مکرمہ والوںکو حضرت امام مہدی (علیہ السلام) کاپیغام دیا جائےگا،اس پیغام میں حضرت امام مہدی(علیہ السلام) لوگوں سے مددطلب کریں گے.... حجاز میں حکمران اب تک جوبدترین مظالم کرچکے ہوں گے اور لوگوں کی عزت وناموس ومال سب پامال ہوچکاہوگا،وہ اپنے جرائم میں ایک اوربڑے جرم کا اضافہ کردیں گے کہ وقت کے حکمرانوں کے جیرہ خوارسپاہی آگے بڑھ کرامن کی جگہ پربلاوجہ اس سید زادہ کو شہید کر دیں گے، یہ جرم ان کی عاقبت اورانجام کےلئے فیصلہ کن کردار اداکرے گا....اس واقعہ کے پندرہ دن بعدحضرت امام مہدی علیہ السلام نے ظہورفرماناہے اورآپ علیہ السلام ہی اس وقت ان حکمرانوں کے جرائم کے بارے میںفیصلہ دیں گے ۔
مدینہ منورہ میں نفس زکیہ کاقتل
اسی قسم کاایک دردناک واقعہ مدینہ منورہ میں بھی ہوگااوروہ بھی نفس زکیہ کے نام سے ہوگااس کانام ابی محمدہوگااوران کی بہن کانام فاطمہ علیہ السلام ہوگا، یہ بہن بھائی اکھٹے ہوں گے اورمسجد نبوی میں ان کاسرقلم کیاجائے گایہ مکہ والے نفس زکیہ کے چچازادہوں گے۔
نفس زکیہ کے بارے میںروایات اورحضرت قائم(علیہ السلام) کااپنے
اصحاب سے خطاب
حضرت امام جعفرصادق(علیہ السلام) نے فرمایا”نفس زکیہ کاقتل ہوناحتمی ہے “۔
(الغیبة نعمانی ص۹۶۱،بشارة الاسلام ص۹۱۱،یوم الخلاص ص۷۶۶)
جناب ابوبصیرؓ حضرت امام محمدباقر(علیہ السلام) ایک طولانی حدیث میں اس طرح بیان فرماتے ہیں ”حضرت قائم علیہ السلام اپنے اصحاب سے کہیں گے اے قوم! مکہ والے مجھے نہیں چاہتے لیکن میں ان ہی کی طرف بھیجاگیاہوں میں ان پراس طرح حجت تمام کروں گاجس طرح کہ مجھ جیسے شخص کو حجت تمام کرنی چاہیے.... بس آپ اپنے اصحاب سے ایک شخص کوبلائیں گے اوران سے فرمائیں گے کہ تم مکہ چلے جاﺅاورمکہ والوں سے جاکرکہومیں فلاں(امام مہدی(علیہ السلام)کی طرف سے تمہارے پاس آیاہوں وہ آپ سے کہہ رہے ہیںکہ ہم اہل بیت علیہ السلام رحمت ہیں ، رسالت اورخلافت کامعدن ومرکزہیں، ہم محمدکی ذریت اوراولادہیں، ہم نبیوں کی اولادسے ہیں، ہمارے اوپرظلم کیاگیا،ہمارے ساتھ زیادتی روارکھی گئی، ہمیں مجبورکیاگیا،ہماراحق ہم سے چھین لیاگیا،اس دن سے ہم پرظلم ہورہاہے جس دن سے ہمارے نبی اس جہاں سے رخصت ہوئے تھے ،ہم تم سے مددطلب کرتے ہیں پس تم سب ہماری مددکرو“۔پس جیسے ہی یہ جوان اس طرح کاپیغام مکہ والوں کوحرم الٰہی میں پڑھکرسنائے گا تو حکمرانوں کے کارندے آگے بڑھیں گے اورانہیں رکن اورمقام کے درمیان ذبح کر دیں گے اور وہ شخصیت نفس زکیہ ہیں ۔
(بحارالانوارج۲۵ص۷۰۳،بشارة الاسلام ص۲۲۲،المہدی علیہ السلام من المہدالی اللحدص۸۶۳، یوم الخلاص ص۲۶۶، بیان الائمہ علیہ السلام ج۳ص۰۲)
نفس زکیہ کے قتل اورحضرت امام مہدی (علیہ السلام)کے ظہورمیںپندرہ دن کافاصلہ ہے
حضرت امیرالمومنین(علیہ السلام) نے یہ بھی فرمایا”کہ کیامیں تمہیں فلاں کی اولاد کے آخری بادشاہ کے بارے میںبیان نہ کردوں؟حرام خون کابہانا،ایسے دن جس میں خون بہانا حرام ہے،ایسے شہرمیں جس میں خون بہاناحرام ہے،قسم ہے اس ذات کی جس نے جاندار کو پیدا کیا اور دانہ کوشکافتہ کیا،اس واقعہ کے بعدوہ پندرہ دن سے زیادہ حکومت نہ کر سکیںگے“۔
حضرت امام جعفرصادق(علیہ السلام) کافرمان ہے کہ”قائم آل محمد کی آمداورنفس زکیہ کے قتل کے درمیان پندرہ راتوں سے زیادہ فاصلہ نہ ہوگا“۔
مدینہ منورہ میں ایک سیدجوان کاقتل
زرارةؓ بن اعینؓ سے روایت ہے کہ
مدینہ منورہ میں ایک جوان کاقتل ضرورہوگامیں نے سوال کیاکہ میں آپعلیہ السلام پر قربان جاﺅں ،کےااسے سفیانی قتل کرے گا؟ ....امام علیہ السلام نے فرمایاایسانہیں !لیکن اسے فلاں کی اولادکے سپاہی قتل کریں گے ،وہ قیام کرے گا،خروج کرے گا،مدینہ پہنچ جائے گا،لوگوں کو پتہ ہی نہ چلے گا، کہ کےا ہواہے اورکیاہونے والاہے؟ کہ اس کوقتل کردیاجائے گا،وہ اسے بزدلانہ طورپرقتل کردیں گے،ظلم وستم ان پرکریں گے، خداوندانہیں مہلت نہ دے گا،اس دوران انتظارفرج میں رہنا، کشادگی ،فرج قریب ہوگی “۔
حضرت امام محمدباقر(علیہ السلام)کی حدیث
حضرت امام محمدباقر(علیہ السلام) فرماتے ہیں کہ”اس وقت نفس زکیہ مکہ میں قتل ہوں گے اوراسکابھائی مدینہ میں قتل ہوگامدینہ میں قتل ہونے والامکہ والے نفس زکیہ کے خاندان سے ہوگا اور یہ کہ اسکی ہمشیرہ بھی مظلومانہ اندازمیںاس کے ساتھ قتل ہوںگی“۔
اس بارے حضرت امام جعفرصادقعلیہ السلام فرماتے ہیں ”ایک مظلوم یثرب میں مارا جائےگا اوراسکا ابن عم مکہ میں قتل ہوگا“۔(بحارالانوارج۲۵ص۷۴۱،بشارة الاسلام ص۷۱۱،۷۷۱،۷۸۱،یوم الخلاص ص۶۱۶، ص۵۶۶)
قابل غوربات
جیساکہ ہم نے پہلے بیان کیاہے کہ نفس زکیہ کاقتل ہوناظہورکی حتمی نشانیوں سے ہے، اس بارے پھرتاکیدکرتے ہیں کہ ظہورسے پندرہ دن پہلے ان کاقتل ہوگا،ان کانام محمدبن الحسن ہوگا ، رکن اورمقام کے درمیان ان کاقتل ہوگا اوراس شخصیت کے مختلف نام بیان ہوئے ہیں مشہورنام نفس زکیہ ہے، گناہوں سے پاک،بے جرم وبے خطاءماراجائے گا، ”مستنصربھی ان کانام ہے جس کامعنی ہے ”مدد طلب کرنے والا“آپ حضرت امام مہدی(علیہ السلام) کے ناصران اور انتظار کرنے والوں کوحضرت کی مددکے لئے آمادہ اور تیار کریں گے، یہ شخص ہاشمی ہے، سیدوسردار ہے، آل محمد سے ہے، خدا وند ہمیں ایسا منظر جلد دکھلائے اورہم بھی اس دورمیںان کے ساتھ کام کرنے والوں میں شامل ہوں ۔
(آمین یارب العالمین بحق محمدالمصطفیٰ وآلہ النجبائ)
http://www.zuhoor14.info/Imam%20Zamana%20(A.S)by%20%20AHLEBAIT.html
Add new comment