ماہ شعبان میں ولادتیں

ایس ایم موسوی بلتستانی

قارین کرام! سب سے پہلے شعبان کے اس مبارک ماہ میں جن عظیم ہستیوں کی ولادت ہیں اس مناسبت سے آپ کی خدمت میں مبارک باد پیش کرنا چاہتا ہوں۔(۱)یکم شعبان المعظم ولادت باسعادت ثانی زہراء حضرت زینب سلام اﷲ علیھا (۲) ۳ شعبان المعظم ولادت باسعادت سیّد الشھداء حضرت امام حسینؑ (۳) ۴شعبان المعظم ولادت باسعادت باب الحوائج حضرت ابالفضل عباسؑ (۴) ۷ شعبان المعظم ولادت باسعادت حضرت قاسم ؑ ابن امام حسن ؑ (۵) ۱۱شعبان ولادت باسعادت حضرت علی اکبر ؑ ابن امام حسینؑ (۶) ۱۵شعبان المعظم ولادت باسعادت حضرت صاحب العصرؑ ان تمام ولادتوں کی مناسبت سے آپ تمام مومنین خصوصاً ہمارے وقت کے امام ؑ کی خدمت اقدس میں مبارک باد پیش کرتے ہیں۔ہمارے وقت کے امام جو آج تک حکم خدا سے زندہ ہیں اور پردہ غیبت سے مسلسل ہماری رہنمائی کر رہے ہیں آپؑ کی ولادت باسعادت ۲۵۵ ؁ھ میں ماہ شعبان کی ۱۵ تاریخ کو بمقام سرمن رائے(سامرہ)میں ہوئی۔اور آپؑ کے والدِبزرگوار ہمارے گیارہویں امام حضرت امام حسن العسکریؑ اور مادرِ گرامی جناب نرجس خاتون بنت یوشعا ہیں جن کی عظمت کے لئے اتنا ہی کافی ہے کہ امام حسن عسکری ؑ کی پھوپھی جناب حکیمہ جو خاندان امامت کی ایک بزرگ خاتون تھیں۔انھیں اپنی اور اپنے خاندان کی سردار کا خطاب دیا ہے اور خود کو ان کی خدمت گذار سمجھتی تھیں۔اور امام ؑ نام و کنیت میں رسول اکرم ؐ سے موافق ہیں جو کہ رسول اکرمؐ نے بھی کئی مرتبہ فرمایاتھاکہ میرے آخری جانشین کا نام اور کنیت میرا نام اور کنیت ہوگی اور جب اس کا ظہور ہوگا تو دنیا کو عدل و انصاف سے بھر دے گا۔مشہور روایات کے مطابق جب آپؑ کی ولادت ہوئی تو دیکھا آپؑ کے دائیں بازو پر جٰآء الحق وزھق الباطل ان الباطل کان زھوقاً لکھا ہوا تھااور آپ اپنے آباواجداد کی طرح علم وحکمت اور تمام تر خصوصیات سے مالامال تھے۔ کہ آپؑ سن مبارک ۵ پانچ سال کو پہنچے تو خدا کے حکم کے مطابق غیبت صغریٰ کاآغاز ہوا امام ؑ کی غیبت کے دو مرحلے ہیں:ایک غیبت صغریٰ (کم مدت) اور دوسری غیبت کبریٰ (لمبی مدت) اور مشہور روایات کے مطابق آپؑ ۷۰ستر سال غیبت صغریٰ میں رہے اس وقت آپؑ کے چند خاص نائبین کے ذریعے شیعوں سے آپ کا رابطہ برقرار تھا۔اور غیبت صغریٰ کا زمانہ گزرجانے کے بعد غیبت کبریٰ کا آغاز ہو جو ابھی تک جاری ہے ۔امامؑ کے پہلے خاص نائب جناب عثمان ابن سعید تھے امام ہادیؑ اور امام حسن عسکری ؑ دونوں ہی کی طرف سے ان کی توثیق و تمجید ہوچکی ہے گیارہویں امامؑ کی رحلت کے بعد مسئلہ غیبت پیش آنے سے پہلے عثمان ابن سعید امام مہدی ؑ کی طرف سے نیابت کے عہدے پر فائز ہوئے امامؑ اور شیعوں کے درمیان رابطہ بنے۔اور امامؑ کے دوسرے نائب محمد ابن عثمان تھے۔۲۶۰ھ میں اپنے انتقال سے پہلے عثمان بن سعید نے امامؑ کے حکم سے اہنے بیٹے محمدابن عثمان کو اپنا جانشین اور امامؑ کا نائب مقرر کیا محمد ابن عثمان کی نیابت کی مدت ۴۵سال رہی اپنے انتقال سے پہلے انہوں نے حسین ابن روح کواپنا جانشین اور امامؑ کا تیسرا نائب بنادیااور۳۰۵ھ میں انتقال فرما گئے۔حسین ابن روح نے تقریباً۲۱ سال نیابت کی ذمہ داری نبھائی اور اپنی وفات سے پہلے انہوں نے امامؑ کے حکم سے نیابت کے امور کو علی ابن محمد سمری کے حوالہ کردیا اور خود ۳۲۶ھ میں انتقال فرماگئے ،یوں علی ابن محمدسمری امامؑ کے چوتھے اور آخری نائب خاص اور حسین ابن روح کے جانشین بنے علی ابن محمد سمری ۳۲۹ھ ق میں انتقال فرما گئے ان کی وفات سے پہلے شیعوں کا ایک گروہ ان کے پاس آیا اور ان کے جانشین کے بارے میں سوال کیا تو آپ نے فرمایا:مجھے اس کے متعلق کوئی وصیت نہیں کی گئی ہے اس کے بعد انہوں نے اس توقیع مبارک کے بارے میں بتایا جو امامؑ کی طرف سے صادر ہوئی تھی اس کا مظمون یہ تھابسم اﷲ الرحمٰن الرحیم اے علی ابن محمد سمری خدا تمہارے غم میں تمہارے بھائیوں کو جزائے خیر عطا کرے تم چھ روز کے بعد مرجاؤ گے لہٰذا اپنے امورسے جلد فارغ ہونے کی کوشش کرو اور کسی کے بارے میں وصیت نہ کرنا کہ تمہارے بعد وہ تمہارا جانشین ہو اب غیبت کبریٰ کا زمانہ آگیا ہے اور اس وقت تک ظہور نہیں ہو گا جب تک خدا وند متعال اجازت نہ دے ۔اور ٹھیک چھٹے دن علی ابن محمد سمری اس دنیا سے رخصت ہوگئے اور اس کے بعد آپؑ کو غیبت کبریٰ کا حکم ہوا لہٰذا آپ اس وقت سے آج تک غیبت کبریٰ میں ہیں۔ اورجس طرح امامؑ کی غیبت کے دو حصے ہیں اسی طرح آپ کی نیابت کی بھی دو صورتیں ہیں غیبت صغریٰ میں نیابت خاصہ اورغیبت کبریٰ میں نیابت عامہ غیبت صغریٰ ہو یا کبریٰ کسی بھی دور میں امامؑ نے لوگوں سے رابطہ بالکل ختم نہیں کیاغیبت صغریٰ اور نائبین خاصہ کے بارے میں بیان کرچکے ہیں اب غیبت کبریٰ اور نائبین عامہ کے بارے میں کچھ ذکر کروں کہ جب امامؑ کی غیبت کبریٰ کا آغاز ہوا تو امامؑ کی طرف سے کوئی خاص نائب معین نہیں تھا۔لیکن ائمہؑ کی طرف سے ضوابط اور معیار کا ایک سلسلہ موجود ہے تاکہ لوگ اس معیار سے اگاہی حاصل کر کے ہر زمانہ میں اس سے رجوع کر کے اپنے مسائل کے جوابات معلوم کریں ۔امام مہدیؑ خود نے فرمایا اماالحودث الوقعہ فاجعوا فیھا الی رواۃ حدیثنا فانّھم علیکم وانا حجۃ اﷲعلیھم آنے والے حوادث و واقعات میں ہماری حدیثیں بیان کرنے والوں کی طرف رجوع کرو۔ اس لئے کہ وہ تمہارے اوپر حجت ہیں اور ہم ان پر حجت ہیں۔نیز امام حسن عسکریؑ نے امام جعفر صادقؑ سے ایک روایت کے ضمن میں بیان فرمایا:اما من کان الفقھاء صائنا لنفسہ حافظا لدینہ مخالفا لھواہ مطیعا لامر مولاہ فللعوام ان یقلّدہفقہا میں سے جو اپنے نفس کو بچانے والا اپنے دین کا نگہبان اپنے ہوس کا مخالف اور اپنے مولا کے فرمان کا مطیع ہو تو لوگوں پر لازم ہے کہ اس کی تقلید کریں۔اس طرح اسلامی معاشرہ کی رہبری اور مسلمانوں کے امور کا حل اور ان کے فیصلے غیبت کبریٰ کے زمانے میں ولی فقیہ کے ہاتھوں میں آئے۔ولی فقیہ امام زمانہؑ کی نیابت میں ولایت شرعیہ کا مالک ہے اس کے حکم کی مخالفت امامؑ کے حکم کو رد کرنا اور امامؑ کے حکم کو رد کرنا خدا کے حکم کو رد کرنا ہے۔لہذا اپنے دور کے ولی فقیہ کے حکم کو مانناہم سب پر لازم ہے۔ امامؑ کی غیبت کی صل وجہ تو آج تک کسی نے بیان نہیں کی اور اس میں کیا حکمت پوشیدہ ہے یہ سب کچھ امامؑ کے ظہور کے بعد ہی پتہ چلے گا۔یہاں یہ ذکر کرنا مناسب ہوگا کہ امام حسن عسکری ؑ کے دور امامت میں حکام بنی عباس کے درمیان بڑی تشویش اور فکر مندی تھی ،تشویش ان کثیر اخبارات و احادیث کی بنا پر تھی جو پیغمبرؐ اور ائمہ ؑ سے مروی تھیں ان میں ذکر آچکا تھاکہ امام حسن عسکری ؑ کے ہاں ایک بیٹا پیدا ہوگا جو حکومتوں کی بنیادوں کو پلٹ دینے والا اور تخت و تاج کو الٹ دینے والا ہوگا۔اس لئے وقت کی حکومت یہ کوشش کر رہی تھی کہ اس نومولود کو پیدا ہونے سے روک دے ۔لہذا امام حسن عسکری ؑ بھی سخت پریشان تھے مگر خدا وند متعال نے حمل مہدی کو حمل جناب موسیٰ کی طرح مخفی رکھا تاکہ کسی کو آپؑ کے ولادت کے بارے میں پتہ نہ چلے امامؑ کی ولادت کے بعد سوائے چند خاص اصحاب اور دوستوں کے کسی کو آگاہ نہیں فرمایالہذا امامؑ کی ولادت سے لیکر امام حسن عسکری کی شہادت تک تقریباً ۶ سال گیارہویں امامؑ اپنے بہت سے قریبی افراد ،شاگرد اور خاص اصحاب کو امام مہدیؑ کے سامنے حاضر ہونے کا فیض پہنچاتے رہے تاکہ اس طرح وہ ان کی پیدائش اور وجود کا یقین حاصل کرلیں اور مشاہدہ فرمالیں نیز ضروری موقع پر دوسرے شیعوں کو اطلاع دیں تاکہ آپ کے بعد لوگ گمراہی میں نہ پڑجائیں۔ اورآپؑ کی غیبت نہ ہوتی اور آپؑ اپنے اباو اجدادکی طرح لوگوں کے سامنے ہوتے توظالم وجابرحکمرانوں سے کچھ بعید نہیں تھاکہ وہ آپؑ کو بھی شہید کردیتے اور یوں زمین حجت خدا سے خالی رہ جاتی خدا وند متعال نے جس دن سے حضرت آدمؑ کو خلق کیافرمایاہے اس سے لیکر آج تک زمین کو حجت سے خالی نہیں رکھا اور قیامت تک ایسے شخص سے خالی نہیں رکھے گا جو خلق خدا پر حجت ہوگا اور اس کی برکت سے اہل زمین سے بلا اور مصیبتوں کو دور کرتاہے اور آسمان سے بارش نازل کرنا اور زمین کی برکتیں اگانا یہ سب انہیں ہستیوں کی وجہ سے ہے۔اورامامؑ غیبت میں رہ کر ہماری بہتر رہنمائی کر رہے ہیں اور خود امام زمانہؑ فرماتے ہیں اناغیر مھملین لمراعاتکم ولا ناسین لذکرُِکم ولولا ذالک لنزل بِکم الَّأ وآء وصطلمکم الاعدآء فاتقواﷲجل جلالہٗہم تمہارے حال کی رعایت میں کوتاہی نہیں کرتے اور تم کو فراموش نہیں کرتے اگر ایسانہ ہوتاتوتم پربلائیں نازل ہوجاتیں اور دشمن تمہاراخاتمہ کردیتے پس تم اﷲسے ڈرتے رہو۔ایک اور حدیث میں آپؑ فرماتے ہیں کہ غیبت کے زمانے میں مجھ سے اس طرح فائدہ اٹھایاجاسکتاہے جس طرح سورج سے اٹھایا جاتا ہے اسے بادل نظروں سے چھپادیتے ہیں۔یعنی ہمارے گناہوں کی وجہ سے ہم امامؑ کو محسوس نہیں کر سکتے ورنہ امامؑ ہم سے دور نہیں ہیں ہمارے تمام اعمال کودیکھ رہے ہیں اور بہتر طور پر ہماری رہنمائی فرمارہے ہیں اس لئے شاعر نے کیا خوب فرمایا ہے :
ارتکاب جرم پہ جب ٹوک دیتا ہے ضمیر
در حقیقت یہ امام العصرؑ کی آواز ہے

اور امام ؑ کے ظہور سے پہلے کے حالات اور علامتوں کے بارے میں جوکچھ نقل ہوا ہے اس کی تعداد بہت زیادہ ہے اور ان میں سے کچھ علامات تو اب ظاہر بھی ہوچکی ہیں امامؑ کے ظہور سے پہلے دنیا میں ظلم، گناہ اور بے دینی کا پھیل جانا جو کہ آجکل ہمارے معاشرے میں عام ہو چکا ہے اور اسی طرح کی بہت ساری علامتیں ظاہر ہوچکی ہیں ۔ظہورامامؑ کے ساتھ ہر چیز ظاہر ہوجائے گی یعنی زمین ہرمعدنی چیز اگل دے گی اسی طرح انسان بھی اگر پاک ہے تواسکی پاکی اور اگر فاسد ہے تو اس کی کسافت ظاہر ہوگی لہذا ہمیں اپنے آپ کو اس طرح بنانا چاہیئے جس سے امامؑ خوش ہوجائیں ایسا نہ ہو کہ ہم اس خوش فہمی میں رہیں کہ ہم امامؑ کے چاہنے والوں میں سے ہیں اورحقیقت اس کے برعکس ہو۔امام جعفرصادقؑ فرماتے ہیں کہ من سرہ ان یکون من اصحاب القائم فلینظرولیعمل بالورع ومحاسن الاخلاق وھو منتظرجوشخص خوش ہو اس بات پرکہ وہ اصحاب امامؑ میں قرار پائے تووہ انتظار کرے اور عمل تقویٰ اختیار کرے اور خود کو اخلاق محاسنہ سے مزیّن کرے پس وہ منتظر امام ہے۔ایک اور جگہ پر امام صادقؑ نے فرمایاتم لوگ ہرصبح وشام امامؑ کے ظہور کاانتظار کرو، امام زمانہؑ خود فرماتے ہیں کہ جب تمہاری آنکھ نم ہوجائے تو خداسے میرے ظہور کے لئے دعاکروایسا نہیں ہے کہ صرف ہم امامؑ کے منتظرہیں بلکہ امامؑ خود بھی انتظار میں ہیں کہ جلد حکم خدا ہوجائے تاکہ دنیا کے ظلم وستم کو عدل وانصاف میں بدل دیں مگر امر الہی یہی ہے کہ انتظارکریں اور یہ انتظار ایک عبادت ہے اور مشہور روایات کے مطابق جب آپ ظہور فرمائیں گے تو اتنے طویل عرصے پردہ غیبت میں رہنے کے باجود ظہور کے وقت آپؑ ۴۰ سال کے دکھائی دیں گے اور آپ کے ظہور کے ساتھ آسمان سے ندا آئے گی جو دنیا کے کونے کونے میں سنائی دے گی ظہور کے بعد آپ ؑ خانہ کعبہ کی دیوار پر سہارادے کر کھڑے ہوں گے اور خالص مومنین میں سے تین سو تیرہ آدمی آپ کے پاس جمع ہوں گے تو آپ سب سے پہلے اس آیت کی تلاوت کریں گے بقیت اﷲ خیر لکم ان کنتم مومنین ومآ انا علیکم بحفیظٍ میں بقیہ خدا اور اس کا خلیفہ اور تم پر اس کی حجت ہوں اس وقت تمام لوگ یا بقیۃاﷲکہہ کر ٓآپ کی طرف خطاب کریں گے اورحضرت عیسیٰ ؑ بھی آسمان سے زمین پر تشریف لائیں گے اور امامؑ کی اقتداء میں نماز پڑھیں گے امامؑ کے دور حکومت میں خدا وند متعال اپنا دست لطف و مرحمت اپنے بندوں کے سروں پر رکھے گا اور ان کی عقل کو استحکام اور ان کے افکار کو ترقی عطا کرے گابس انہی جملوں کے ساتھ خدا وند متعال سے دعا ہے کہ پرور دگارااپنے آخری حجتؑ کے ظہور میں تعجیل فرما اور ہم سب کو اپنے وقت کے امامؑ کی زیارت نصیب فرما:آمین

Add new comment