مسافر کی نماز کے احکام
ضروری ہے کہ مسافر ظہر، عصر اور عشاء کی نماز آٹھ شرطیں ہوتے ہوئے قصر بجا لائے یعنی دو رکعت پڑھے۔
پہلی شرط
اس کا سفر آٹھ شرعی فرسخ (تقریباً ۴۴ کلو میٹر) سے کم نہ ہو۔
(۱۲۵۹)جس شخص کے جانے اور واپس آنے کی مجموعی مسافت ملا کر آٹھ فرسخ ہو اور خواہ اس کے جانے کی یا واپسی کی مسافت چار فرسخ سے کم ہو یا نہ ہو تو ضروری ہے کہ نماز قصر کر کے پڑھے۔ لہٰذا اگر جانے کی مسافت تین فرسخ اور واپس کی پانچ فرسخ یا اس کے برعکس ہو تو ضروری ہے کہ نماز قصر یعنی دو رکعتی پڑھے۔
(۱۲۶۰)اگر سفر پر جانے اور واپس آنے کی مسافت آٹھ فرسخ ہو تو اگرچہ جس دن وہ گیا وہ اسی دن یا اسی رات کو واپس پلٹ کر نہ آئے، ضروری ہے کہ نماز قصر کر کے پڑھے لیکن اس صورت میں بہتر ہے کہ احتیاطاً پوری نماز بھی پڑھے۔
(۱۲۶۱)اگر ایک مختصر سفر آٹھ فرسخ سے کم ہو یا انسان کو علم نہ ہو کہ اس کا سفر آٹھ فرسخ ہے یانہیں تو اسے نماز قصر کر کے نہیں پڑھنی چاہئے اور اگر شک کرے کہ اس کا سفر آٹھ فرسخ ہے یا نہیں تو اس کے لیے تحقیق کرنا ضروری نہیں ہے کہ پوری نماز پڑھے۔
(۱۲۶۲)اگر ایک عادل یا قابل اعتماد شخص کسی کو بتائے کہ اس کا سفر آٹھ فرسخ ہے اور وہ اس کی بات سے مطمئن ہو تو ضروری ہے کہ نماز قصر کر کے پڑھے۔
(۱۲۶۳)ایسا شخص جسے یقین ہو کہ اس کا سفر آٹھ فرسخ ہے اگر نماز قصر کر کے پڑھے اور بعد میں اسے پتا چلے کہ آٹھ فرسخ نہ تھا تو ضروری ہے کہ پوری نماز پڑھے اور اگر وقت گزر گیا ہو تو اس کی قضا بجا لائے۔
(۱۲۶۴)جس شخص کو یقین ہو کہ جس جگہ وہ جانا چاہتا ہے وہاں کا سفر آٹھ فرسخ نہیں یا شک ہو کہ آٹھ فرسخ ہے یا نہیں اور راستے میں اسے معلوم ہو جائے کہ اس کا سفر آٹھ فرسخ تھا تو گو تھوڑا سا سفر باقی ہو، ضروری ہے کہ نماز قصر کر کے پڑھے اور اگر پوری نماز پڑھ چکا ہو تو ضروری ہے کہ دوبارہ قصر پڑھے۔ لیکن اگر وقت گزر گیا ہو تو قضا ضروری نہیں ہے۔
(۱۲۶۵)اگر دو جگہوں کا درمیانی فاصلہ چار فرسخ سے کم ہو اور کوئی شخص کئی دفعہ ان کے درمیان جائے اور آئے تو خواہ ان تمام مسافتوں کا فاصلہ ملا کر آٹھ فرسخ بھی ہو جائے تو اسے نماز پوری پڑھنی ضروری ہے۔
(۱۲۶۶)اگر کسی جگہ جانے کے دو راستے ہوں اور ان میں سے ایک راستہ آٹھ فرسخ سے کم ہو اور دوسرا آٹھ فرسخ یا اس سے زیادہ ہو تو اگر انسان وہاں اس راستے سے جائے جو آٹھ فرسخ ہے تو ضروری ہے کہ نماز قصر کر کے پڑھے ارو اگر اس راستے سے جائے جو آٹھ فرسخ سے کم ہے تو ضروری ہے کہ پوری نماز پڑھے۔
(۱۲۶۷)آٹھ فرسخ کی ابتداء اس جگہ سے حساب کرنا ضروری ہے جہاں سے گزر جانے کے بعد آدمی مسافر شمار ہوتا ہے اور غالباً وہ جگہ شہر کی انتہا ہوتی ہے لیکن بعض بہت بڑے شہروں میں ممکن ہے کہ دو شہر کا آخری محلّہ ہو جبکہ سفر کی انتہا وہ آخری مقام سمجھا جائے گا جہاں تک انسان کو جانا ہے۔
دوسری شرط
مسافر اپنے سفر کی ابتدا سے ہی آٹھ فرسخ طے کرنے کا ارادہ رکھتا ہو یعنی یہ جانتا ہو کہ آٹھ فرسخ تک کا فاصلہ طے کرے گا، لہٰذا اگر وہ اس جگہ تک کا سفر کرے جو آٹھ فرسخ سے کم ہو اور وہاں پہنچنے کے بعد کسی ایسی جگہ جانے کا ارادہ کرے جس کا فاصلہ طے کردہ فاصلے سے ملا کر آٹھ فرسخ ہو جاتا ہو تو چونکہ وہ شروع سے آٹھ فرسخ طے کرنے کا ارادہ نہیں رکھتا تھا اس لیے ضروری ہے کہ پوری نماز پڑھے۔ لیکن اگر وہ وہاں سے آٹھ فرسخ آگے جانے کا ارادہ کرے یا اتنا فاصلے طے کرنے کا ارادہ کرے جو واپسی ملا کر آٹھ فرسخ بن جاتا ہو تو ضروری ہے کہ نماز قصر پڑھے۔
(۱۲۶۸)جس شخص کو یہ علم نہ ہو کہ اس کا سفر کتنے فرسخ کا ہے، مثلاً کسی گمشدہ (شخص یا چیز) کو ڈھونڈنے کے لیے سفر کر رہا ہو اور نہ جانتا ہو کہ اسے پا لینے کے لیے اسے کہاں تک جانا پڑے گا توضروری ہے کہ پوری نماز پڑھے۔ لیکن اگر واپسی پر اس کے وطن یا اس جگہ تک کا فاصلہ جہاں وہ دس دن قیام کرنا چاہتا ہو آٹھ فرسخ یا اس سے زیادہ بنتا ہو تو ضروری ہے کہ نماز قصر کر کے پڑھے۔ مزید برآن اگر وہ سفر کے دوران ارادہ کر لے کہ وہ اتنی مسافت طے کرے گا جو واپسی ملا کر آٹھ فرسخ بن جائے گی تو ضروری ہے کہ نماز قصر کر کے پڑھے۔
(۱۲۶۹)مسافر کو نماز قصر کر کے اس میں پڑھنی ضروری ہے کہ جب اس کا آٹھ فرسخ طے کرنے کا پختہ ارادہ ہو، لہٰذا اگر کوئی شخص شہر سے باہر جا رہا ہو اور مثال کے طور پر اس کا ارادہ یہ ہو کہ اگر کوئی ساتھی مل گیا تو آٹھ فرسخ کے سفر پر چلا جاؤں گا اور اسے اطمینان ہو کہ ساتھی مل جائےء گا تو اسے نماز قصر کر کے پڑھنی ضروری ہے اور اگر اسے اس بارے میں اطمینان نہ ہو تو ضروری ہے کہ پوری نماز پڑھے۔
(۱۲۷۰)جو شخص آٹھ فرسخ سفر کرنے کا ارادہ رکھتا ہو وہ اگرچہ ہر روز تھوڑا سافاصلہ طے کرے، جب حد ترخص… جس کے معنی مسئلہ ۱۳۰۵ میں آئیں گے… تک پہنچ جائے تو ضروری ہے کہ نماز قصر کر کے پڑھے۔ لیکن اگر ہر روز بہت کم فاصلہ طے کرے تو احتیاط لازم یہ ہے کہ اپنی نماز پوری بھی پڑھے اور قصر بھی پڑھے۔
(۱۲۷۱)جو شخص سفر میں کسی دوسرے کے احتیاط میں ہو، مثلاً بیوی بچے یا نوکر یا قیدی اگر اسے علم ہو کہ اس کا سفر آٹھ فرسخ کا ہے تو ضروری ہے کہ ہے کہ نماز قصر کر کے پڑھے اور اگر اسے علم نہ ہو تو پوری نماز پڑھے اور اس بارے میں پوچھنا ضروری نہیں، اگرچہ بہتر ہے۔
(۱۲۷۲)جو شخص سفر میں کسی دوسرے کے اختیار میں ہو اگر وہ جانتا ہو یا گمان رکھتا ہو کہ چار فرسخ تک پہنچنے سے پہلے سے اس سے جدا ہو جائے گا اور سفر نہیں کرے گا تو ضروری ہے کہ پوری نماز پڑھے۔
(۱۲۷۳)جو شخص سفر میں کسی دوسرے کے اختیار میں ہواگر اسے اطمینان نہ ہو کہ چار فرسخ تک پہنچنے سے پہلے اس سے جدا ہو جائے گا اور سفر جاری نہیں رکھے گا تو ضروری ہے کہ پوری نماز پڑھے لیکن اگر اسے اطمینان ہو تو ضروری ہے کہ نماز قصر کر کے پڑھے۔
تیسری شرط
راستے میں مسافر اپنے ارادے سے پھر نہ جائے۔ پس اگر دوچار فرسخ تک پہنچنے سے پہلے اپنا ارادہ بدل دے یا اس کا ارادہ متزلزل ہو جائے اور طے شدہ فاصلہ، واپسی کا فاصلہ ملا کر آٹھ فرسخ سے کم ہو تو ضروری ہے کہ پوری نماز پڑھے۔
(۱۲۷۴)اگر کوئی شخص کچھ فاصلہ طے کرنے کے بعد جو کہ واپسی کے سفر کو ملا کر آٹھ فرسخ ہو سفر ترک کر دے اور پختہ ارادہ کر لے کہ اسی جگہ رہے گا یا دس دن گزرنے کے بعد واپسی کے سفر کو ملا کر آٹھ فرسخ ہو سفر ترک کر دے اور پختہ ارادہ کر لے کہ اسی جگہ رہے گا یا دس دن گزرنے کے بعد واپس جائے گا یا واپس جانے اور ٹھہرنے کے بارے میں کوئی فیصلہ نہ کر پائے تو ضروری کہ پوری نماز پڑھے۔
(۱۲۷۵)اگر کوئی شخص کچھ فاصلہ طے کر نے کے بعد جو کہ واپسی کے سفر کو ملا کر آٹھ فرسخ ہو سفر ترک کر دے اور واپس جانے کا پختہ ارادہ کر لے تو ضروری ہے کہ نماز قصر کر کے پڑھے۔ اگرچہ وہ اس جگہ دس دن سے کم مدت کے لئے ہی رہنا چاہتا ہو۔
(۱۲۷۶)اگر کوئی شخص کسی ایسی جگہ جانے کے لیے جو آٹھ فرسخ دُور ہو سفر شروع کرے اور کچھ راستہ طے کرنے کے بعد کسی اور جگہ جانا چاہے اور جس جگہ سے اس نے سفر شروع کیا ہے وہاں سے اس جگہ تک جہاں وہ اب جانا چاہتا ہے آٹھ فرسخ بنتے ہوں تو ضروری ہے کہ نماز قصر کر کے پڑھے۔
(۱۲۷۷)اگر کوئی شخص آٹھ فرسخ تک فاصلہ طے کرنے سے پہلے متردد ہو جائے کہ باقی راستہ طے کرے یا نہیں اور دوران تردد سفر نہ کرے اور بعد میں باقی راستہ طے کرنے کا پختہ ارادہ کر لے تو ضروری ہے کہ سفر کے خاتمے تک نماز قصر پڑھے۔
(۱۲۷۸)اگر کوئی شخص آٹھ فرسخ کا فاصلہ طے کرنے سے پہلے تردد کا شکار ہو جائے کہ باقی راستہ طے کرے یا نہیں اور حالت تردد میں کچھ فاصلہ طے کر لے اور بعد میں پختہ ارادہ کر لے کہ آٹھ فرسخ مزید سفر کرے گا یا ایسی جگہ جائے کہ جہاں تک اس کا جانا اور آنا آٹھ فرسخ ہو جائے گا تو ضروری ہے کہ سفر کے خاتمے تک نماز قصر پڑھے۔
(۱۲۷۹)اگر کوئی شخص آٹھ فرسخ کا فاصلہ طے کرنے سے پہلے متردد ہو جائے کہ باقی راستہ طے کرے یا نہیں اور حالت تردد میں کچھ فاصلہ طے کر لے اور بعد میں پختہ ارادہ کر لے کہ باقی راستہ بھی طے کرے گا، چنانچہ تردد کے عالم میں طے شدہ تعداد کو نکال کر باقی آنے اور جانے کا کل فاصلہ آٹھ فرسخ بنتا ہو تو ضروری ہے کہ نماز قصر پڑھے اور اگر آٹھ فرسخ نہ بنتا ہو تو ضروری ہے کہ نماز پوری پڑھے۔
چوتھی شرط
مسافر آٹھ فرسخ تک پہنچنے سے پہلے اپنے وطن سے گزرنے اور وہاں توقف کرنے یا کسی جگہ دس دن یا اس سے زیادہ دن رہنے کا ارادہ نہ رکھتا ہو۔ پس جو شخص یہ چاہتا ہو کہ آٹھ فرسخ تک پہنچنے سے پہلے اپنے وطن سے گزرے اور وہاں توقف کرے یا دس دن کسی جگہ پر رہے تو ہے کہ نماز پوری پڑھے۔ ہاں اگر اپنے وطن سے توقف کیے بغیر گزرنے کا ارادہ رکھتا ہو تو ضروری ہے کہ احتیاطاً نماز قصر بھی پڑھے اور پوری بھی پڑھے۔
(۱۲۸۰)جس شخص کو یہ علم نہ ہو کہ آٹھ فرسخ تک پہنچنے سے پہلے اپنے وطن سے گزرے گا یا نہیں یا کسی جگہ دس دن ٹھہرنے کا قصد کرے گا یا نہیں تو ضروری ہے کہ پوری نماز پڑھے۔
(۱۲۸۱)وہ شخص جو آٹھ فرسخ تک پہنچنے سے پہلے اپنے وطن سے گزرنا اور وہاں توقف کرنا چاہتا ہو یا کسی جگہ دس دن رہنا چاہتا ہو اور وہ شخص بھی جو وطن سے گزرنے یا کسی جگہ دس دن رہنے کے بارے میں متردد ہو ، اگر وہ دس دن کہیں رہنے یا وطن سے گزرنے کا ارادہ ترک بھی کر دے تب بھی ضروری ہے کہ پوری نماز پڑھے۔ لیکن اگر باقی ماندہ راستہ چاہے واپسی کا راستہ ملا کر آٹھ فرسخ کا راستہ چاہے واپسی کا راستہ ملا کر آٹھ فرسخ ہو تو ضروری ہے کہ نماز قصر کر کے پڑھے۔
پانچویں شرط
مسافر حرام کام کے لئے سفر نہ کرے اور اگر حرام کام مثلاً چوری کرنے کے لئے سفر کرے تو ضروری ہے کہ نماز پوری پڑھے۔ اگر خود سفر ہی حرام ہو مثلاً اس سفر میں اس کے لئے کوئی ایسا ضرر مضمر ہو جو خون یا کسی عضو کے ناقص ہونے کا باعث ہو یا عورت شوہر کی اجازت کے بغیر ایسے سفر پر جائے جو اس پر واجب نہ ہو تو اس کے لئے بھی یہی حکم ہے۔ لیکن اگر حج کے سفر کی طرح واجب ہو تو نماز قصر کر کے پڑھنے ضروری ہے۔
(۱۲۸۲)جو سفر واجب نہ ہو اگر ماں باپ کی اولاد سے محبت کی وجہ سے ان کے لیے اذیت کا باعث ہو تو حرام ہے اور ضروری ہے کہ انسان اس سفر میں پوری نماز پڑھے اور (رمضان کا مہینہ ہو تو ) روزہ بھی رکھے۔
(۱۲۸۳۰)جس شخص کا سفر حرام نہ ہو اور وہ کسی حرام کام کے لیے بھی سفر نہ کر رہا ہو، وہ اگرچہ سفر میں گناہ بھی کرے، مثلاً غیبت کرے یا شراب پئے تب بھی ضروری ہے کہ نماز قصر کر کے پڑھے۔
(۱۲۸۴)اگر کوئی شخص کسی واجب کام کو ترک کرنے کے لیے سفر کرے تو خواہ سفر میں اس کی کوئی دوسری غرض ہو یا نہ ہو ضروری ہے کہ پوری نماز پڑھے۔ پس جو شخص مقروض ہو اور اپنا قرض چکا سکتا ہو اور قرض خواہ مطالبہ بھی کرے تو اگر وہ سفر کرتے ہوئے اپنا قرض ادا نہ کر سکے اور قرض چکانے سے فرار حاصل کرنے کے لیے سفر کرے تو ضروری ہے کہ پوری نماز پڑھے لیکن اگر اس کا سفر کسی اور کام کے لیے ہو تو اگرچہ وہ سفر میں ترک واجب کا مرتکب بھی ہو تو ضروری ہے کہ نماز قصر کر کے پڑھے۔
(۱۲۸۵)اگر کسی شخص کا سفر میں سواری کا جانور یا سواری کی کوئی اور چیز جس پر وہ سوارہو غصبی ہو اور مالک سے فرار ہونے کے لیے سفر کر رہا ہو یا وہ غصبی زمین پر سفر کر رہا ہو تو ضروری ہے کہ پوری نماز پڑھے۔
(۱۲۸۶)جو شخص کسی ظالم کے ساتھ سفر کر رہا ہو اگر وہ مجبور نہ ہو اور اس کا سفر کرنا ظالم کے ظلم کرنے میں مدد کا موجب ہو تو اسے پوری نماز پڑھنی ضروری ہے اور اگر مجبور ہو یا مثال کے طور پر کسی مظلوم کو چھڑانے کے لیے اس ظالم کے ساتھ سفر کرے تو اس کی نماز قصر ہو گی۔
(۱۲۸۷)اگر کوئی شخص سیروتفریح کی غرض سے سفر کرے تو اس کا سفر حرام نہیں ہے اور ضروری ہے کہ نماز قصر کر کے پڑھے۔
(۱۲۸۸)اگر کوئی شخص موج میلے اور سیر وتفریح کے لیے شکار کو جائے تو اگرچہ اس کا جانا حرام نہیں ہے لیکن اس کی نماز جاتے وقت پوری ہے اور واپسی پر اگر مسافت کی حد پوری ہو تو قصر ہے۔ اس صورت میں کہ اس کی حدِ مسافت پوری ہو اور شکار پر جانے کی مانند نہ ہو لہٰذا اگر حصولِ معاش کے لیے شکار کو جائے تو اس کی نماز قصر ہے اور اگر کمائی اور افزائش دولت کے لیے جائے تو اس کے لیے بھی یہی حکم ہے۔ اگرچہ اس صورت میں احتیاط مستحب یہ ہے کہ نماز قصر کر کے بھی پڑھے اور پوری بھی پڑھے۔
(۱۲۸۹)اگر کوئی شخص گناہ کا کام کرنے کے لیے سفر کرے اور سفر سے واپسی کے وقت فقط اس کی واپسی کا سفر آٹھ فرسخ ہو یا تو ضروری ہے کہ نماز قصر کر کے پڑھے اور احتیاط مستحب یہ ہے کہ اگر اس نے توبہ نہ کی ہو تو نماز قصر کرکے بھی پڑھے اور پوری بھی پڑھے۔
(۱۲۹۰)جس شخص کا سفر گناہ کا سفر ہو اگر وہ سفر کے دوران گناہ کا ارادہ ترک کر دے تو خواہ باقی ماندہ مسافت یا کسی جگہ جانا اور واپس آنا آٹھ فرسخ ہو یا نہ ہو ضروری ہے کہ نماز قصر کر کے پڑھے۔
(۱۲۹۱)جس شخص نے گناہ کرنے کی غرض سے سفر نہ کیا ہو اگر وہ راستے میں طے کرے کہ بقیہ راستہ گناہ کے لیے طے کرے گا تو ضروری ہے کہ نمازپوری پڑھے۔ البتہ اس نے جو نمازیں قصر کر کے پڑھی ہوں وہ صحیح ہیں۔
چھٹی شرط
ان لوگوں میں سے نہ ہو جن کے قیام کی کوئی (مستقل ) جگہ نہیں ہوتی اور ان کے گھر ان کے ساتھ ہوتے ہیں۔ یعنی ان صحرا نشینوں (خانہ بدوشوں) کی مانند جو بیابانوں میں گھومتے رہتے ہیں اور جہاں کہیں اپنے اور اپنے مویشیوں کے لیے دانہ پانی دیکھتے ہیں وہیں ڈیرہ ڈال دیتے ہیں اور پھر کچھ دنوں کے بعد دوسری جگہ چلے جاتے ہیں۔ پس ضروری ہے کہ ایسے لوگ ایسے سفر میں پوری نماز پڑھیں۔
(۱۲۹۲)اگر کوئی صحرا نشین مثلاً جائے قیام اور اپنے حیوانات کے لیے چراگاہ تلاش کرنے کے لیے سفر کرے اور مال و اسباب اس طرح اس کے ہمراہ ہو کہ یہ کہا جا سکے کہ اس کا گھر اس کے ہمرا ہ ہے تو وہ پوری نماز پڑھے، ورنہ اگر اس کا سفر آٹھ فرسخ ہو تو نماز قصر کر کے پڑھے۔
(۱۲۹۳)اگر کوئی صحرا نشین مثلاً حج، زیارت، تجارت یا ان سے ملتے جلتے کسی مقصد سے سفر کرے تو اگر نہ کہا جا سکے کہ اس کا گھر اس کے ساتھ نہیں ہے تو ضروری ہے کہ نماز قصر کر کے پڑھے اور اگر یہ کہا جا سکے تو ضروری ہے کہ نماز پوری پڑھے۔
ساتویں شرط
وہ شخص ”کثیر السفر“ نہ ہو۔ پس وہ شخص جس کا پیشہ سفر سے ہی وابستہ ہے جیسے ڈرائیور، ملاح ، گلہ بان اور ڈاکیہ وغیرہ یا وہ شخص جو زیادہ سفر کرتا ہو چاہے اس کا پیشہ سفر سے وابستہ نہ ہو جیسے وہ شخص جو ہفتے میں تین دن سفر میں گزارتا ہو، چاہے اس کا سفر تفریح یا سیاحت کے لیے ہو، ایسے افراد کے لیے ضروری ہے کہ اپنی نمازیں پوری پڑھیں۔
(۱۲۹۴)جس شخص کا پیشہ سفر میں ہو اگر وہ کسی دوسرے مقصد مثلاً حج یا زیارت کے لیے سفر کرے تو ضروری ہے کہ نماز قصر کر کے پڑھے لیکن اگر عرف عام میں کثیر السفر کہلاتا ہو مثلاً وہ شخص جو ہمیشہ ہفتے میں تین دن سفر میں رہتا ہو تو قصر نہ کرے، لیکن اگر مثال کے طور پر ڈرائیور اپنی گاڑی زیارت کے لیے کرائے پر چلائے اور ضمناً خود بھی زیارت کرے تو ہر حال میں ضروری ہے کہ پوری نماز پڑھے۔
(۱۲۹۵)وہ قافلہ سالار جو حاجیوں کو مکہ پہنچانے کے لیے سفر کرتا ہو اگر اس کا پیشہ سفر کرنا ہو تو ضروری ہے کہ پوری نماز پڑھے اور اگر اس کا پیشہ سفر کرنا نہ ہو اور صرف حج کے دنوں میں قافلہ لے جانے کے لیے سفر کرتا ہو تو اگر اس کے سفر کی مدت کم ہو مثلاً دو تین ہفتے ہو تو نماز قصر پڑھے جبکہ اگر اس کے سفر کی مدت طولانی ہو جیسے تین ماہ تو نماز تمام پڑھے اور اگر شک کرے کہ اسے ”کثیرالسفر“ کہا جائے گا یا نہیں تو احتیاط کرتے ہوئے قصر بھی پڑھے اور پوری بھی ۔
(۱۲۹۶)ڈرائیور یا اس جیسے کسی اور پیشے کا پیشہ ور کہلانے کے لئے ضروری ہے کہ ڈرائیونگ جاری رکھنے کا ارادہ ہو اور درمیان میں آرام کا وقفہ معمول کے مطابق ڈرائیوروں کے آرام کے وقفے سے زیادہ نہ ہو، لہٰذا اگر کوئی شخص مثلاً ہفتے میں ایک دن سفر پر جائے تو اسے ڈرائیور نہیں کہا جا سکتا۔ البتہ ”کثیر السفر“ ایک ایسے شخص کو کہا جا سکتا ہے جو ہر ہفتے کم از کم تین دن یا ہر مہینے دس دن سفر میں رہتا ہو اور کم از کم ایک سال چھ ماہ یا دو یا دو سے زیادہ سالوں میں تین ماہ اسی کیفیت میں رہنے کا ارادہ ہو (البتہ پہلے مہینے میں ضروری ہے کہ احتیاط کرتے ہوئے دونوں ذمہ داریوں کو ادا کرے)۔ ایسا شخص کثیر السفر نہیں ہے جو ہر ہفتے ایک دن سفر میں رہتا ہو۔ البتہ جو شخص ہر ہفتے دو دن سفر میں رہتا ہو تو احتیاط واجب یہ ہے کہ قصر بھی پڑھے اور پوری بھی پڑھے۔
(۱۲۹۷)جس شخص کا پیشہ سال کے کچھ حصے میں سفر کرنا ہو مثلاً ایک ڈرائیور جو صرف گرمیوں یا سردیوں کے دنوں میں اپنی گاڑی کرائے پر چلاتا ہو ضروری ہے اس سفر میں نماز پوری پڑھے اور احتیاط مستحب یہ ہے کہ قصر کرکے بھی پڑھے اور پوری بھی پڑھے۔
(۱۲۹۸)ڈرائیور اور پھیری والا جو شہر کے آس پاس دو تین فرسخ میں آتا جاتا ہو اگر وہ اتفاقاً آٹھ فرسخ کے سفر پر چلا جائے تو ضروری ہے کہ نماز قصر کر کے پڑھے۔
(۱۲۹۹)جس کا پیشہ ہی مسافرت ہے اگر دس دن یا اس سے زیادہ عرصے اپنے وطن میں رہ جائے تو خواہ وہ ابتدا سے دن رہنے کا ارادہ رکھتا ہو یابغیر ارادے کے اتنے دن رہے تو ضروری ہے کہ دس دن کے بعد جب پہلے سفر پر جائے تو نماز پوری پڑھے اور اگر اپنے وطن کے علاوہ کسی دوسری جگہ رہنے کا قصد کر کے یا بغیر قصد کے دس دن وہاں مقیم رہے تو اس کے لیے بھی یہی حکم ہے۔ البتہ ساربان اور ڈرائیور جو اپنی گاڑی کرائے پر چلاتا ہے، ان کے لیے خاص طور پر حکم ہے کہ ایسی صورت میں احتیاط مستحب کی بنا پر جب دس دن قیام کے بعد پہلے سفر پر نکلیں تو نماز قصر بھی پڑھیں اور پوری بھی۔
(۱۳۰۰)جس شخص کا پیشہ مسافرت ہو اس کے لیے یہ شرط نہیں ہے کہ کم از کم تین بار مسافرت کرے تاکہ اس کی نماز پوری ہو بلکہ جیسے ہی اسے ڈرائیور وغیرہ کہا جا سکے تو چاہے پہلا سفر ہی کیوں نہ ہو اس کی نماز پوری ہے۔
(۱۳۰۱)ڈرائیور اور ساربان کی طرح جن کا پیشہ سفر کرنا ہے اگر معمول سے زیادہ سفر ان کی مشقت اور تھکاوٹ کا سبب ہو تو ضروری ہے کہ نماز قصر پڑھیں۔
(۱۳۰۲)سیاح کہ جو شہر بہ شہر سیاحت کرتا ہو اور جس نے اپنے لئے کوئی وطن معین نہ کیا ہو وہ پوری نماز پڑھے۔
(۱۳۰۳)جس شخص کا پیشہ سفر کرنا نہ ہو اگر مثلاً کسی شہر یا گاؤں میں اس کا کوئی سامان ہو اور وہ اسے لینے کے لیے سفر پر سفر کرے تو ضروری ہے کہ نماز قصر کر کے پڑھے۔ مگر یہ کہ کثیر السفر بن جائے جس کے معنی مسئلہ ۱۲۹۶ میں ذکر ہو چکے ہیں۔
(۱۳۰۴)جو شخص ترک وطن کر کے دوسرا وطن اپنانا چاہتا ہو اگر اسے کوئی ایسا نام نہ دیا جا سکے جو اس کی نماز کے
پورا ہونے کا سبب ہو جیسے کثیر السفر یا خانہ بدوش تو سفر کی حالت میں اسے نماز قصر کر کے پڑھنی ضروری ہے
آٹھویں شرط
اگر سفر کا آغاز اپنے وطن سے کرنے تو حد ترخص تک پہنچ جائے لیکن وطن کے علاوہ حد ترخص معتبر نہیں ہے اور جونہی کوئی شخص اپنی اقامت گاہ سے نکلے اس کی نماز قصر ہے۔
(۱۳۰۵)حدِ ترخص وہ جگہ ہے جہاں سے اہل شہر حتیٰ کہ وہ افراد جو شہر کے مضافات میں شہر کے باہر رہتے ہیں مسافر کو نہ دیکھ سکیں اور اس کی علامت یہ ہے کہ وہ اہل شہر کو نہ دیکھ سکے۔
(۱۳۰۶)جو مسافر اپنے وطن واپس آ رہا ہو جب تک وہ اپنے وطن واپس نہ پہنچے قصر نماز پڑھنا ضروری ہے۔ ایسے ہی مسافر جو مسافر وطن کے علاوہ کسی اور جگہ دس دن ٹھہرنا چاہتا ہو وہ جب تک اس جگہ نہ پہنچے اس کی نماز قصر ہے۔
(۱۳۰۷)اگر شہر اتنی بلندی پر واقع ہو کہ وہاں کے باشندے دُور سے دکھائی دیں یا اس قدر نشیب میں واقع ہو کہ اگر انسان تھوڑا سا دور بھی جائے تو وہاں کے باشندوں کو نہ دیکھ سکے تو اس شہر کے رہنے والوں میں سے جو شخص سفر میں ہو جب وہ اتنا دُور چلا جائے کہ اگر وہ شہر ہموار زمین پر ہوتا تو وہاں کے باشندے اس جگہ سے دیکھے نہ جا سکتے تو ضروری ہے کہ نماز قصر کر کے پڑھے اور اسی طرح اگر راستے کی بلندی یا پستی معمول سے زیادہ وہ تو ضروری ہے کہ معمول کا لحاظ رکھے۔
(۱۳۰۸)کوئی شخص کشتی یا ریل میں بیٹھے اور حدِ ترخص تک پہنچنے سے پہلے پوری نماز کی نیت سے نماز پڑھنے لگے تو اگر تیسری رکعت کے رکوع سے پہلے حدِ ترخص تک پہنچ جائے تو قصر نماز پڑھنا ضروری ہے۔
(۱۳۰۹)جو صورت پچھلے مسئلے میں گزر چکی ہے اس کے مطابق اگر تیسری رکعت کے رکوع کے بعد حدِ ترخص تک پہنچے تو ضروری ہے کہ اسے دوبارہ قصر کر کے پڑھے اور پہلی نماز کو مکمل کرنا ضروری نہیں۔
(۱۳۱۰)اگر کسی شخص کو یہ یقین ہو جائے کہ وہ حدِ ترخص تک پہنچ چکا ہے اور نماز قصر کر کے پڑھے اور اس کے بعد معلوم ہو کہ نماز کے وقت حدِ ترخص تک نہیں پہنچا تھا تو نماز دوبارہ پڑھنا ضروری ہے۔ چنانچہ جب تک حدِ ترخص تک نہ پہنچا ہو تو نماز پوری پڑھنا ضروری ہے اور اس صورت میں جب کہ حدِ ترخص سے گزر چکا ہو نماز قصر کر کے پڑھے اور اگر وقت نکل چکا ہو تو نماز کو اس کے فوت ہوتے وقت جو حکم تھا اس کے مطابق ادا کرے۔
(۱۳۱۱)اگر مسافر کی قوت باصرہ غیر معمولی ہو تو اسے اس مقام پر پہنچ کر نماز قصر کر کے پڑھنی ضروری ہے جہاں سے متوسط قوت کی آنکھ اہل شہر کو نہ دیکھ سکے۔
(۱۳۱۲)اگر مسافر کو سفر کے دوران شک ہو کہ حدِ ترخص تک پہنچا ہے یا نہیں تو ضروری ہے کہ پوری نماز پڑھے۔
(۱۳۱۳)جو مسافر سفر کے دوران اپنے وطن سے گزر رہا ہو اگر وہاں توقف کرے تو ضروری ہے کہ پوری نماز پڑھے اور اگر توقف نہ کرے تو احتیاط لازم یہ ہے کہ قصر اور پوری نماز دونوں پڑھے۔
(۱۳۱۴)جو مسافر اپنی مسافرت کے دوران اپنے وطن پہنچ جائے اور وہاں کچھ دیر ٹھہرے تو ضروری ہے کہ جب تک وہاں رہے پوری نماز پڑھے لیکن اگر وہ وہاں سے آٹھ فرسخ کے فاصلے پر جانا چاہے یا مثلاً چار فرسخ جانا اور پھر چارفرسخ واپس آنا چاہے تو جس وقت وہ حدِترخص پر پہنچے تو ضروری ہے کہ نماز قصر کر کے پڑھے۔
(۱۳۱۵)جس جگہ کو انسان نے اپنی مستقل سکونت اور بودوباش کے لئے منتخب کیا ہو وہ اس کا وطن ہے خواہ وہ وہاں پیدا ہو ا ہو یا اور وہ اس کا آبائی وطن یا اس نے خود اس جگہ کو زندگی بسر کرنے کے لیے اختیار کیا ہو۔
(۱۳۱۶)اگر کوئی شخص ارادہ رکھتا ہو کہ تھوڑی سی مدت ایک ایسی جگہ رہے جو اس کا وطن نہیں ہے اور بعد میں کسی اور جگہ چلا جائے تو وہ اس کا وطن تصور نہیں ہوتا۔
(۱۳۱۷)اگر انسان کسی جگہ کو زندگی گزارنے کے لیے اختیار کرے اگرچہ وہ ہمیشہ رہنے کا قصد نہ رکھتا ہو تاہم ایسا ہو کہ عرف عام میں اسے وہاں مسافر نہ کہیں اور اگرچہ وقتی طور پر دس دن یا دس دن سے زیادہ دوسری جگہ رہے اس کے باوجود پہلی جگہ ہی کو اس کی زندگی گزارنے کی جگہ کہیں گے اور وہی جگہ اس کے وطن کا حکم رکھتی ہے۔
(۱۳۱۸)جو شخص دو مقامات پر زندگی گزراتا ہو، مثلاً چھ مہینے ایک شہر میں اور چھ مہینے دوسرے شہر میں رہتا ہو تو دونوں مقامات اس کا وطن ہیں۔ نیز اگر اس نے دو مقامات سے زیادہ مقامات کو زندگی بسر کرنے کے لیے اختیار کر رکھا ہو تو وہ سب اس کا وطن شمار ہوتے ہیں۔
(۱۳۱۹)بعض فقہاء نے کہا ہے کہ جو شخص کسی ایک جگہ سکونتی مکان کا مالک ہو اگر وہ مسلسل چھ مہینے وہاں رہنے کے ارادے سے رہے تو جس وقت تک مکان اس کی ملکیت میں ہے یہ جگہ اس کے وطن کا حکم رکھتی ہے ۔ پس جب بھی وہ سفر کے دوران وہاں پہنچے ضروری ہے کہ پوری نماز پڑھے لیکن یہ حکم ثابت نہیں ہے۔
(۱۳۲۰)اگر ایک شخص کسی ایسے مقام پر پہنچے جو کسی زمانے میں اس کا وطن رہا ہو اور بعد میں اس نے اسے ترک کر دیا ہو تو خواہ اس نے کوئی نیا وطن اپنے لیے منتخب نہ بھی کیا ہو تو ضروری ہے کہ وہاں پوری نماز نہ پڑھے۔
(۱۳۲۱)اگر کسی مسافر کا کسی جگہ پر مسلسل دس دن رہنے کا ارادہ ہو یا وہ جانتا ہو کہ بہ امر مجبوری دس دن تک ایک جگہ رہنا پڑے گا تو وہاں اسے پوری نماز پڑھنی ضروری ہے۔
(۱۳۲۲)اگر کوئی مسافر کسی جگہ دس دن رہنا چاہتا ہو تو ضروری نہیں ہے کہ اس کا ارادہ پہلی رات یا گیارہویں رات وہاں رہنے کا ہو، جونہی وہ ارادہ کرے کہ پہلے دن کے طلوع آفتاب سے دسویں دن کے غروب آفتاب تک وہاں رہے گا تو ضروری ہے کہ پوری نماز پڑھے اور مثال کے طور پر اس کا ارادہ پہلے دن کی ظہر سے گیارہویں دن کی ظہر تک وہاں رہنے کا ہو تو اس کے لیے بھی یہی حکم ہے۔
(۱۳۲۳)جو مسافر کسی جگہ دس دن رہنا چاہتا ہو اسے اس صورت میں پوری نماز پڑھنی ضروری ہے جب وہ سارے کے سارے دن ایک جگہ رہنا چاہتا ہو۔ پس اگر وہ مثال کے طور پر چاہے کہ دس دن نجف اور کوفہ یا تہران اور شمیران (یا کراچی اور حیدر آباد) میں رہے تو ضروری ہے کہ نماز قصر کر کے پڑھے۔
(۱۳۲۴)جو مسافر کسی جگہ دس دن رہنا چاہتا ہو اگر وہ شروع سے ہی قصد رکھتا ہو کہ ان دس دنوں کے درمیان اس جگہ کے آس پاس ایسے مقامات پر جائے گا جو عرفاً دوسری جگہ سمجھی جاتی ہے اور جس کا فاصلہ چار فرسخ سے کم ہو تو اگر اس کے جانے اور آنے کی مدت عرف میں دس دن قیام کے منافی نہ ہو تو پوری نماز پڑھے اور اگر منافی ہو تو نماز قصر کر کے پڑھے۔ مثلاً اگر ابتداء ہی سے ارادہ ہو کہ ایک پورے دن یا ایک پوری رات کے لیے وہاں سے نکلے گا تو یہ ٹھہرنے کے قصد کے منافی ہے اور ضروری ہے کہ نماز قصر کر کے پڑھے لیکن اگر اس کا قصد یہ ہو کہ مثلاً آدھے دن بعد نکلے گا اور پھر فوراً لوٹے گا اگرچہ اس کی واپسی رات ہونے کے بعد ہو تو ضروری ہے کہ نماز پوری پڑھے۔ مگر اس صورت میں کہ اس کا اس طرح نکلنا اتنا تکرار ہو کہ عرفاً یہ کہا جائے کہ دو یا اس سے زیادہ جگہ قیام پذیر ہے۔
(۱۳۲۵)اگر کسی مسافر کا کسی جگہ دس دن رہنے کا مصمم ارادہ نہ ہو، مثلاً اس کا ارادہ یہ ہو کہ اگر اس کا ساتھی آگیا یا رہنے کو اچھا مکان مل گیا تو دس دن وہاں رہے گا تو ضروری ہے کہ نماز قصر کر کے پڑھے۔
(۱۳۲۶)جب کوئی شخص کسی جگہ دس دن رہنے کا مصمم ارادہ رکھتا ہو اگر اسے اس بات کا احتمال ہو کہ اس کے وہاں رہنے میں کوئی رکاوٹ پیدا ہو گی اور اس کا یہ احتمال عقلاء کے نزدیک معقول ہو تو ضروری ہے کہ نماز قصر کرکے پڑھے۔
(۱۳۲۷)اگر مسافر کو علم ہو کہ مہینہ ختم ہونے میں مثلاً دس یا دس سے زیادہ دن باقی ہیں اور کسی جگہ مہینے کے آخرت تک رہنے کا ارادہ کرے تو ضروری ہے کہ نماز پوری پڑھے۔ لیکن اگر اسے علم نہ ہو کہ مہینہ ختم ہونے میں کتنے دن باقی ہیں اور مہینے کے آخر تک وہاں رہنے کا ارادہ کرے تو ضروری ہے کہ نماز قصر کر کے پڑھے۔ اگرچہ جس وقت اس نے ارادہ کیا تھا اس وقت سے مہینے کے آخری دن تک دس یا اس سے زیادہ دن بنتے ہوں۔
(۱۳۲۸)اگر مسافر کسی جگہ دس دن رہنے کا ارادہ کرے اور ایک چار رکعتی نمازپڑھنے سے پہلے وہاں رہنے کا ارادہ ترک کر دے یا مذبذب ہو کہ وہاں رہے یا کہیں اور چلا جائے تو ضروری ہے کہ نماز قصر کر کے پڑھے۔ لیکن اگر ایک چار رکعتی نماز پڑھنے کے بعد وہاں رہنے کا ارادہ ترک کر دے یا مذبذب ہو جائے تو ضروری ہے کہ جس وقت تک وہاں رہے نماز پوری پڑھے۔
(۱۳۲۹)اگر کوئی مسافر جس نے ایک جگہ دس دن رہنے کا ارادہ کیا ہو روزہ رکھ لے اور ظہر کے بعد وہاں رہنے کا ارادہ ترک کر دے جبکہ اس نے ایک چار رکعتی نماز پڑھ لی ہو تو جب تک وہاں رہے اس کے روزے درست ہیں اور ہے کہ اپنی نمازیں پوری پڑھے اور اگر اس نے چار رکعتی نماز نہ پڑھی ہو تو احتیاطاً اس دن کا روزہ پورا کرنا نیز اس کی قضا رکھنا ضروری ہے اور یہ بھی ضروری ہے کہ اپنی نمازیں قصر کر کے پڑھے اور بعد کے دنوں میں وہ روزہ بھی نہیں رکھ سکتا۔
(۱۳۳۰)اگر کوئی مسافر جس نے ایک جگہ دس دن رہنے کا ارادہ کیا ہو وہاں رہنے کا ارادہ ترک کر دے اور شک کرے کہ وہاں رہنے کا ارادہ ترک کرنے سے پہلے ایک چار رکعتی نماز پڑھی تھی یا نہیں تو ضروری ہے کہ اپنی نمازیں قصر کر کے پڑھے۔
(۱۳۳۱)اگر کوئی مسافر نماز کو قصر کر کے پڑھنے کی نیّت سے نماز میں مشغول ہو جائے اور نماز کے دوران مصمم ارادہ کرلے کہ دس یا اس سے زیادہ دن وہاں رہے گا توضرور ی ہے کہ نماز کو چار رکعتی پڑھ کر ختم کرے۔
(۱۳۳۲)اگر کوئی مسافر جس نے ایک جگہ دس دن رہنے کا ارادہ کیا ہو پہلی چار رکعتی نماز کے دوران اپنے ارادے سے باز آجائے اور ابھی تیسری رکعت میں مشغول نہ ہو اہو تو ضروری ہے کہ دو رکعتی پڑھ کر ختم کرے اور اپنی باقی نمازیں قصر کر کے پڑھے اور اسی طرح اگر تیسری رکعت میں مشغول ہو گیا اور رکوع میں نہ گیا ہو تو ضروری ہے کہ بیٹھ جائے اور نماز کو بصورت قصر ختم کرے اور اگر رکوع میں چلا گیا ہو تو اپنی نماز توڑ سکتا ہے یا مکمل کر سکتا ہے لیکن ضروری ہے کہ اس نماز کو دوبارہ قصر کر کے پڑھے۔
(۱۳۳۳)جس مسافر نے دس دن کسی جگہ رہنے کا ارادہ کیا ہو اگر وہاں دس دن سے زیادہ دن رہے تو جب تک وہاں سے سفر نہ کرے ضروری ہے کہ نماز پوری پڑھے اور یہ ضروری نہیں کہ دوبارہ دس دن رہنے کا ارادہ کرے۔
(۱۳۳۴)جس مسافر نے کسی جگہ دس دن رہنے کا ارادہ کیا ہو تو ضروری ہے کہ واجب روزے رکھے اور مستحب روزہ بھی رکھ سکتا ہے اور ظہر، عصر اور عشاء کی نفلیں بھی پڑھ سکتا ہے۔
(۱۳۳۵)اگر ایک مسافر جس نے کسی جگہ دس دن رہنے کا ارادہ کیا ہو ایک چار رکعتی ادا نماز پڑھنے کے بعد وہاں دس دن رہنے کے بعد اگرچہ اس نے ایک بھی پوری نماز نہ پڑھی ہو یا چاہے کہ ایک ایسی جگہ جائے جو چار فرسخ سے کم فاصلے پر ہو اور پھر لوٹ آئے اور اپنی پہلی جگہ پر دس دن یا اس سے کم مدت کے لیے رہے تو ضروری ہے کہ جانے کے وقت سے واپسی کے بعد اپنی نمازیں پوری پڑھے۔ لیکن اگر اس کا اپنی اقامت کے مقام پر واپس آنا فقط اس وجہ سے ہو کہ وہ اس سفر کے راستے میں واقع ہو اور اس کا سفر شرعی مسافت کا ہو تو اس کے لیے ضروری ہے کہ جانے اور آنے کے دوران اور ٹھہرنے کی جگہ میں نماز قصر کر کے پڑھے۔
(۱۳۳۶)اگرکوئی مسافر جس نے کسی جگہ دس دن رہنے کا ارادہ کیا ہو ایک چار رکعتی نماز ادا پڑھنے کے بعد چاہے کہ کسی اور جگہ چلا جائے جس کیا فاصلہ آٹھ فرسخ سے کم ہو اور دس دن وہاں رہے تو ضروری ہے کہ دوران سفر اور اس جگہ جہاں پر وہ دس دن رہنے کا ارادہ رکھتا ہو اپنی نمازیں پوری پڑھے۔ لیکن اگر وہ جگہ جہاں وہ جانا چاہتا ہو آٹھ فرسخ یا اس سے زیادہ دُور ہو تو ضروری ہے کہ دورانِ سفر اپنی نمازیں قصر کر کے پڑھے اور اگر وہ وہاں دس دن نہ رہنا چاہتا ہو تو ضروری ہے کہ جتنے دن وہاں رہے ان دنوں کی نمازیں بھی قصر کر کے پڑھے۔
(۱۳۳۷)اگر کوئی مسافر جس نے کسی جگہ دس دن رہنے کا ارادہ کیا ہو ایک چار رکعتی ادا نماز پڑھنے کے بعد کسی ایسی جگہ جانا چاہے جس کا فاصلہ چار فرسخ سے کم ہو اور مذبذب ہو کہ اپنی پہلی جگہ پر واپس آئے یا نہیں یا اس جگہ واپس آنے سے بالکل غافل ہو یا یہ ارادہ ہو کہ واپس جائے گا لیکن مذبذب ہو کہ دس دن اس جگہ ٹھہرے یا نہیں یا وہاں دس دن رہنے اور وہاں سے سفر کرنے سے غافل ہو تو ضروری ہے کہ جانے کے وقت سے واپسی تک اور واپسی کے بعد اپنی نمازیں پوری پڑھے۔
(۱۳۳۸)اگر کوئی مسافر اس خیال سے کہ اس کے ساتھی کسی جگہ دس دن رہنا چاہتے ہیں اس جگہ دس دن رہنے کا ارادہ کرے اور ایک چار رکعتی ادا نماز پڑھنے کے بعد اسے پتاچلے کہ اس کے ساتھیوں نے ایسا کوئی ارادہ نہیں کیا تھا تو اگرچہ وہ خود بھی وہاں رہنے کا خیال ترک کر دے تو ضروری ہے کہ جب تک وہاں رہے نماز پوری پڑھے۔
(۱۳۳۹)اگر کوئی مسافر اتفاقاً کسی جگہ تیس دن رہ جائے مثلاً تیس کے تیس دنوں میں وہاں سے چلے جانے یا وہاں رہنے کے بارے میں مذبذب رہا ہو تو تیس دن گزرنے کے بعد اگرچہ وہ تھوڑی مدت ہی وہاں رہے ضروری ہے کہ نماز پوری پڑھے۔
(۱۳۴۰)جو مسافر نو دن یا اس سے کم مدت کے لیے ایک جگہ رہنا چاہتا ہو اگر وہ اس جگہ نو دن یا اس سے کم مدت گزارنے کے بعد نو دن یا اس سے کم مدت کے لیے دوبارہ وہاں رہنے کا ارادہ کرے اور اسی طرح تیس دن گزر جائیں تو ضروری ہے کہ اکتیسویں دن پوری نماز پڑھے۔
(۱۳۴۱)تیس دن گزرنے کے بعد مسافر کو اس صورت میں نماز پوری پڑھنی ضروری ہے جب وہ تیس دن ایک ہی جگہ رہا ہو۔ پس اگر اس نے اس مدت کا کچھ حصہ ایک جگہ اور کچھ حصہ دوسری جگہ گزارا ہو تو تیس دن کے بعد بھی اسے نماز قصر کر کے پڑھنی ضروری ہے۔
Add new comment