"اب جائیں کس سےپوچھنے ہم آگہی کی بات"

تحریر: سید قمر عباس حسینی

عظیم لوگوں کی داستان زندگی بھی عظیم ہوتی ہے۔کہاجاتاہے کہ ۱۹۲۶  عالم باعمل الحاج علامہ سید علی الموسوی اعلی اللہ مقامہ کے والد گرامی جناب آغا سید حسن الموسوی کو اپنی اہلیہ کے ساتھ بلتستان سے کرگل اور کرگل سے کشمیر اور وہاں سے  نجف اشرف کا سفر پیش آیا۔اس وقت علامہ سید علی الموسوی اعلی اللہ مقامہ کی عمرِ مبارک فقط چھ ماہ تھی۔کسے خبر تھی کہ چھ ماہ کا یہ بچہ مستقبل میں  عالم باعمل، مجاہد، مبارز، بے نظیر سخن ور اور داعی اتحاد بین المسلمین بن کر ابھرے گا۔

آپ نے اپنی تمام عمر اسلام کی خدمت اور ارض پاکستان میں افکار خمینی (رہ) کے پرچار میں گزار کر اپنے عقیدت مندوں کو دس رمضان المبارک کی صبح داغ مفارقت دے گئے۔ ان کی رحلت سے مکتب آل محمد (ع) اور شیعیان پاکستان بالخصوص ملت بلتستان ایک مایہ ناز اور جید عالم دین سے محروم ہوگئی۔ ان کی ناقابل تردید خدمات رہتی دنیا تک قائم و دائم رہیں گی۔ آپ نے اپنی تمام آسائش و الائش کو قربان کرکے اسلام کی تبلیغ اور ترویج کو ترجیح دی، بلکہ یوں کہا جائے تو مناسب ہے کہ آپ زمان و مکان کے تمام قیود سے بالاتر ہو کر دین مبین اسلام کی خدمت کرتے رہے۔

آپ کے والد محترم بھی اپنے دور کے انتہائی بزرگ اور قابل احترام باعمل عالم دین تھے۔ آپ کم عمری میں ہی اپنے والد محترم حجۃ الاسلام والمسلمین سید حسن الموسوی کے ساتھ علوم آل محمد (ع) کے حصول کی خاطر حوزہ علمیہ نجف اشرف چلے گئے، جہاں آپ نے اس دور کے بزرگ مجتہدین آیت اللہ ابولحسن اصفہانی، آیت اللہ سید حسین بروجردی، آیت اللہ محسن الحکیم اور دیگر اساتید سے کسب فیض کیا۔ حسین آباد کے کچھ بزرگوں جن میں سرفہرست جناب حاجی فدا محمد ناشاد کے والد محترم جناب کاچو امیر بیگ مرحوم ہیں ان کے اصرار پر تعلیم مکمل کرنے کے بعد اپنے والد محترم کے ساتھ پاکستان چلے آئے، دوران سفر جب آپ لاہور پہنچے تو آپ دونوں (سید حسن موسوی اور سید علی موسوی) کے علم و عمل اور زہد و تقوی سے متاثر ہو کر لاہور کے مومنین نے لاہور میں ہی دینی خدمات انجام دینے پر زور دیا۔ آپ انہیں مایوس نہیں کرسکتے تھے، اس لئے مشقتوں کو تحمل کرکے لاہور اور حسین آباد دونوں جگہوں پر تبلیغی خدمات انجام دینے پر کمربستہ ہوگئے۔ اگرچہ ان دونوں جگہوں پر تبلیغ کرنا مسافت کی دوری اور ان دنوں کی مخصوص سفری مشکلات کے پیش نظر آسان نہ تھا، لیکن دین کی خاطر آپ نے تمام سختیوں کو برداشت کیا۔

آپ نے نہ صرف اپنی ذات کو مکتب اہلیبیت (ع) کی ترویج کے لئے وقف کیا بلکہ اپنے پانچ بیٹوں کو بھی بہترین عالم، مبلغ اور خطیب بنایا۔علامہ موسوی صاحب دین مبین اسلام کی تبلیغ کرتے ہوئے بے حد خوشی محسوس کرتے تھے یہی وجہ ہے کہ آپ بلتستان جیسے دور افتادہ علاقے کے دور و دراز دیہاتوں میں بھی تبلیغ کے لئے جانے سے گریز نہیں کرتے تھے۔ آپ ایک دور اندیش اور صاحب فہم عالم تھے۔ تبلیغی امور کی انجام دہی کے ساتھ ساتھ فلاحی امور میں بھی آپ پیش پیش تھے۔

بلتستان کے علماء کو منتشر دیکھ کر آپ کو بے حد دکھ ہوتا تھا، اس لئے آپ نے یہاں کے علماء کو جمع کرکے ہیئت علماء امامیہ کے نام سے 1974ء میں ایک انجمن کی تاسیس کی، بعد ازاں تمام علماء نے آپ کے استعداد اور صلاحیتوں کی وجہ سے آپ کو اس انجمن کا صدر منتخب کیا۔آپ نے ہیئت علماء امامیہ کے پلیٹ فارم پر پہلی بار بلتستان میں ایک مذہبی اور ادبی مجلہ حبل المتین کا اجراء کیا۔ اس مجلے کی وساطت سے تبلیغ کے ساتھ ساتھ علماء، شعراء اور مذہبی و سماجی شخصیات کے تعارف اور معارف دین کی تبلیغ و ترویج کرتے رہے۔ لوگوں کی ضرورت اور سہولت کو ملحوظ نظر رکھتے ہوئے اپنی مدد آپ کے اصولوں کے مطابق حسین آباد کے گھر گھر سڑکیں تعمیر کروائیں۔ پاکستان بھر میں مساجد، امام بارگاہیں اور مدارس کی تعمیر میں آپ عمر بھر کوشاں رہیں۔ جامعۃ المنتظر ماڈل ٹاون کی تعمیر میں آپ اور مولانا صفدر حسین نجفی کی خدمات ناقابل فراموش ہیں۔ مدرسہ قرآن و عترت سیالکوٹ کی تعمیر کا سہرا بھی آپ کے ہی سر جاتا ہے، درسگاہ علوم اسلامی فیصل آباد اور درسگاہ علوم اسلامی لاہور موچی دروازہ بھی آپ ہی کی مشقتوں کا نتیجہ ہے۔ بلتستان میں پہلی بار۸۴ کنال پر مشتمل ایک عظیم دینی اور علمی ادارہ مدرسہ حیدریہ کے نام سے سکردو کھر گرونگ میں قائم کیا اس تعلیمی ادارے نے ایک عرصہ تک ملت تشیع کی خدمت کی اور بہت سے مبلغین پیدا کئے ۔اس کے علاوہ حسین آباد میں موجود امام بارگاہوں کی تعمیر و توسیع، جامع مسجد حسین آباد کی تعمیر سب ہی آپ کی بلند شخصیت کی گواہی دیتی ہے۔ آپ نے دین اسلام کی خدمت کرنے کی خاطر بہت سے دینی طلاب کی تربیت بھی کی جو یا تو مختلف جگہوں پر خدمات انجام دے رہے ہیں یا حوزہ علمیہ قم اور نجف میں زیر تعلیم ہیں۔

فن خطابت میں آپ کا ثانی نہ تھا جہاں آغا صاحب کی خطابت کا پروگرام ہو وہاں ارادتمندوں کا ایک ٹھاٹھیں مارتا ہوا سمندر دکھائی دیتا تھا۔ آپ نے پاکستان میں خطابت اور درس اخلاق کو نیا روپ اور حیات عطا کی۔ تبلیغی امور اور دینی امور کے ساتھ ساتھ سیاسی خدمات میں بھی آپ کسی سے پیچھے نہ تھے۔ آپ امامیہ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن جیسی فعال مذہبی طلباء تنظیم کے بانی رہنماؤں میں سے تھے۔ بے شمار خدمات کے باوجود آپ کو جس پر ناز ہے وہ آئی ایس او پاکستان ہے۔ آپ آئی ایس او سے کبھی دور نہیں رہے، بلکہ آپ کہا کرتے تھے کہ آئی ایس او میری زندگی کا حاصل ہے.

علامہ مفتی جعفر حسین (رہ) کے دور سے ہی آپ تحریک جعفریہ پاکستان کی سپریم کونسل کے رکن رہے۔ شہید قائد علامہ عارف حسین الحسینی (رہ) کے شانہ بشانہ ملت جعفریہ کی ترقی کے لئے سرگرم رہے۔ 6 جولائی 1987ء میں شہید قائد علامہ عارف حسین الحسینی ( رہ ) نے مینار پاکستان پر قرآن وسنت کانفرنس کا انعقاد کیا وہاں آپ کی تقریر نے تو پورے مجمع کو اٹھایا اور نعرے لگانے پر مجبور کیا۔ آج بھی لوگ آپ کی اس دن کی تقریر کو یاد کرتے ہیں۔ جہاں آپ نے ملت تشیع کو صالح قیادت کے پرچم تلے اکھٹے کرنے میں بنیادی کردار ادا کیا بلکہ میں یوں کہوں گا کہ پاکستان میں شہید قائد عارف حسین الحسینی ( رہ ) کو متعارف کرانے اور ان کی قیادت کو پاکستانی عوام میں مقبول کرانے میں آغا علی موسوی مرحوم نے کلیدی کردار ادا کیا۔ آپ شہید قائد کے دست ِ راست تھے۔ شہید قائد جہاں بھی تشریف لے جاتے آپ ان کے ساتھ ہوتے اور اپنی انقلابی تقریروں کے ذریعے شیعہ قوم کو بیدار اور منظم کرنے اور اپنی ذمہ داریوں سے آگاہ کرانے میں مرحوم نے بنیادی کردار ادا کیا۔

مختلف فلاحی ادارے بھی آپ کی زیر سرپرستی چل رہے ہیں، جن میں آل عمران لاہور ، ادارہ درس عمل ، کاروان حج حیدری ، حسینہ مشن حسین آباد نمایاں ہیں۔ بلتستان میں جلوس عاشورا اور جلوس اسد عاشورا کو ترویج دینے اور پھیلانے میں آپ نے بھرپور کردار ادا کیا، ان سے پہلے صرف کھرگرنگ، گنگوپی، سکمیدان، چھومیک سزگرکھور کے عوام ہی ان جلوسوں میں شرکت کرتے تھے، لیکن آغا صاحب کی تبلیغ کی بدولت اب پورے بلتستان میں انتہائی شان و شوکت سے یہ ایام منائے جاتے ہیں۔

جشن مولود کعبہ (ع)، یوم الحسین (ع)، ولادت امام زمانہ (ع) اور عید غدیر جیسی تقریبات کو جدید طرز پر جلسے کی صورت میں انعقاد کرنے کی بنیاد بھی آپ نے ہی ڈالی ہے ورنہ ان سے قبل ان محافل کے انعقاد کا انداز صرف روایتی طرز پر تھا۔

آپ کے چندنمایاں خصوصیات

زہد وتقوی

زاہد ،متقی ،پرہیزگار اور عابد سب زندہ دار تھے ۔صبح صادق سے قبل ہی عبادت کے لئے آمادہ ہو جاتے ۔عبادت الہی کا اہتمام فرماتے اور اول وقت مسجد میں تشریف لے آتے اور نہایت خضوع و خشوع کے ساتھ نماز بجا لاتے ۔صحت کے ساتھ معمولات کا انداز تبدیل ہوا مگر ذوق عبادت و بندگی میں کوئی کمی نہ آئی۔

تواضع و انکساری

آپ حد درجہ متعاضع اور منکسر المزاج تھے شاید اس تواضع اور انکساری کے صلہ میں پروردگار عالم نے آپ کو عظمت و رفعت کا مالک بنادیا تھا ۔نام ونمود کے جذبہ سے عاری خاموشی کے ساتھ تبیلغ دین اور خدمت خلق میں زندگی بسر کرنے والے شہرہ آفاق ہونا ہر جگہ عزت و حترام سے نام لیا جانا اسی خاکساری کا انعام ہے۔جو آپ سے ملاقات کرتا آپ کا گرویدہ ہو جاتا۔

علم و بردباری

حد درجہ متین ،حلیم الطبع اور بردبار تھے۔ کوئی بھی موضوع گفتگو ہو روئے سخن کسی کی جانب ہو متانت و بردباری کا عنصر آپ کے لہجے میں نمایاں نظر آتا ۔ کسی کے لئے بھی آپ درشت و طنزیہ یا ہتک آمیز لہجہ اختیار نہ کرتے اور نظریاتی اختلاف کے باوجود مقابل کا احترام ہمیشہ ملحوظ رکھتے۔ عام حالات میں متانت برقرار رکھنا آسان ہے مگر بحث و مباحثہ اور جواب الجواب کی منزل میں بہت دشوار ہوتا ہے مگر آپ حد ادب کو کبھی ہاتھ سے نہ جانے دیتے تھے۔

کثرت مطالعہ

مطالعہ کا بے پناہ شوق تھا۔ ذاتی کتب خانہ میں کافی کتب موجود تھیں برصغیر کے زیادہ تر جرائد اور رسائل آپ کے یہاں آتے اور آپ پابندی سے انکا مطالعہ فرماتے ۔اس طرح جدید موضوعات اور قومی مسائل پر بھی آپ کی مکمل نگاہ رہتی ۔ڈھلتی عمر اور ضعف بصارت بھی آپ کے مطالعہ کی راہ میں حائل نہ ہو سکے۔

نظم کار و حیات

آپ کی زندگی میں تنظیم امور کی خاص اہمیت تھی ۔وقت معینہ کا خاص کر پابند تھے ہر کام اپنے معینہ بلکہ وقت سے پہلے انجام دے دیتے تھے۔حسن تحریر بھی حسن سلیقہ کی گواہ اور آپ کی امتیازی خصوصیت تھی تحریر میں انتہائی جاذبیت اور پختگی پائی جاتی تھی ۔ آپ نے مختلف زبانوں میں علمی مقالہ تحریر کئے جو ایران اور پاکستان کے علمی رسالوں میں چھپ ۔کے ہیں ۔

علامہ موسوی نے ماہنامہ “حبل المتین” کے ذریعہ اہل بیت اطہار ؑ کے حقوق کا دفاع کیا ۔آپ نے اس رسالے کے ذریعے بلتستان کے لوگوں کو فن تحریر اور میدان صحافت سے آشنا کردیا۔یہ میگزین بلتستان کا پہلا مذہبی اور علمی رسالہ تھا۔

علامہ موسوی مرحوم نے اردو میں بیحد سلیس،جاذب،دلکش اور روح افزا ترجمے کئے ۔آپ نے نہ تو کبھی اپنے علمی اعمال و اشتغال خصوصا ترجموں کی خود ہی تعریفی گردان کی اور نہ ہی دوسروں سے اس کی امید رکھی ۔لسانی مہارت ،لغوی صلاحیت اور فنی استعداد آپ کے اندر کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا تھا۔ مرحوم علامہ موسوی چار زبانوں عربی، فارسی، اردو اور بلتی زبان پر عبور رکھتے تھے اور ہر زبان میں فصاحت و بلاغت کے ساتھ تقریر و تحریر کے جوہر دکھاتےتھے۔

فن شاعری میں بھی آپ اپنے جوہر دکھا چکے ہیں برصغیر کے شعرا میں سے آپ علامہ اقبال کے کلام سے بے متاثر تھے۔آپ کے شعری محاسن اور انکے فنی خصوصیات ،طرز نگارش پر اظہار خیال اور تبصرہ نہ میرا موضوع ہے اور نہ ہی میرے لئے ممکن ہے۔ لیکن اتنا ضرور ہے کہ ان فنون میں آپ کی مہارت کے سبھی قائل ہیں۔

یہ بزرگ عالم دین جو واقعاً فخر ملت تشیع تھے۔شیعیان پاکستان کے لئے ایک شفیق باپ کی حیثیت رکھتے تھے ایک عرصہ علیل رہنے کے بعد دس رمضان المبارک ۲۰۱۲ کے صبح ۴بجے آپ لاہور میں انتقال فرماگئے۔ آپ کے ارتحال کی خبر سن کر لاہور بھر سے مومنین جوق در جوق آپ کی تشییع جنازہ میں شرکت کرنے کی خاطر موچی دروازہ پہنچ گئے جہاں آپ کی نماز جنازہ باغ بیرون موچی گیٹ لاہور میں آیت اللہ حافظ ریاض حسین نجفی کی امامت میں ادا کر دی گئی ہے۔ جس میں لاہور کے عوام کی بڑی تعداد کے علاوہ علمائے کرام، شیعہ علماء کونسل، مجلس وحدت مسلمین، امامیہ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن اور تنظیم غلامان آل عمران کے کارکنوں نے شرکت کی۔ وفاق المدارس شیعہ پاکستان کے سیکرٹری جنرل علامہ محمد افضل حیدری، مرکزی صدر آئی ایس او اطہر عمران، مجلس وحدت مسلمین پنجاب کے سیکرٹری جنرل علامہ عبدالخالق اسدی، شیعہ علماء کونسل پنجاب کے نائب صدر علامہ حافظ کاظم رضا نقوی، ایس یو سی ضلع لاہور کے صدر آصف علی زیدی، اور دیگر رہنما نماز جنازہ میں شریک تھے۔ نماز جنازہ کے مو قع پر میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے آیت اللہ حافظ ریاض حسین نجفی نے کہا کہ علامہ آغا علی موسوی کی دینی خدمات ستر سال سے زائد عرصے پر محیط ہیں۔ انہوں نے کہا کہ علامہ مرحوم نے لاہور کے شیعہ عوام کی فکری اور اسلامی تربیت کی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ آغا علی نے لوگوں کو نماز، روزہ، حج، زکوٰۃ اور خمس کی طرف متوجہ کیا۔ انہوں نے کہا کہ تقریباً تمام شیعہ تنظیموں کی بھی وہ سرپرستی کرتے رہے ہیں۔ تحریک جعفریہ، امامیہ اسٹودنٹس آرگنائزیشن اور امامیہ آرگنائزیشن کے پروگراموں میں شریک ہوتے، مشاورت اور رہنمائی کرتے، وہ آئی ایس او کے بانی علماء میں سے تھے۔ جنہوں نے 1972ء میں اس تنظیم کا نام قرآنی استخارہ کے ذریعے رکھا۔

اس موقع پر امامیہ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن کے مرکزی صدر اطہر عمران نے کہا کہ آغا علی موسوی کی وفات سے آئی ایس او شفیق باپ سے محروم ہوگئی ہے۔ پانچ روزہ سوگ کا اعلان کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ملک بھر میں آغا علی الموسوی کی خدمات کو خراج عقیدت پیش کرنے کیلئے سیمینار اور کانفرنسز کا انعقاد کیا جائے گا۔

نماز جنازہ کی ادائیگی کے بعد علامہ آغا علی موسوی کا جسد خاکی اسلام آباد روانہ کر دیا گیا۔ جہاں امام بارگاہ G-6/II میں بھی نماز جنازہ ادا کی گئی۔ اسلام آباد سے منگل کی صبح پرواز کے ذریعے علامہ علی الموسوی کا جسد خاکی سکردو ائرپورٹ لے جایا گیا جہاں لاکھوں لوگوں نے آہوں اور سسکیوں میں ان کے جنازے کا پرتپاک استقبال کیا سکردو ائر پورٹ سے لوگوں کے ہجوم میں یادگار چوک سکردو لایا گیا جہاں آئی ایس او پاکستان کی جانب سے سلامی دی گئی اور نوحہ خوانی کی۔ یہاں سے جامع مسجد سکردو لے گئے وہاں علامہ شیخ محمد حسن جعفری کی امامت میں نماز جنازہ ادا کر دی گئی نماز جنازہ کی ادائیگی اور مجلس ترحیم کے بعد ان کے آبائی گاوں حسین آباد لے گئے جہاں گرلز ہائی سکول حسین آباد کے گراونڈ میں چوتھی بار نماز جنازہ ادا کی گئی ۔

علامہ آغا علی موسوی کو ان کے آبائی گاؤں حسین آباد میں ہزاروں سوگواران کی دعاؤں، آہوں اور سسکیوں کے ساتھ ان کے ہی ہاتھوں سے بنائی ہوئی قبر میں انکے والدہ محترمہ کے قدموں میں دفنا گیا۔

Add new comment