جان نکلنے کے بعد کے احکام
بقیہ:::::::::
(۵۳۰)مستحب ہے کہ مرنے کے بعد میت کی آنکھیں اور ہونٹ بند کر دئیے جائیں، اس کی ٹھوڑی کو باند دیا جائے، نیز اس کے ہاتھ اور پاؤں سیدھے کر دئیے جائیں اور اس کے اوپر کپڑا ڈال دیا جائے۔ اگر موت رات کو واقع ہو تو جہاں موت واقع ہوئی ہو وہاں چراغ جلائیں (روشنی کر دیں) اور جنازے میں شرکت کے لئے مومنین کو اطلاع دیں اور میت کو دفن کرنے میں جلدی کریں لیکن اگر اس شخص کے مرنے کا یقین نہ ہو تو انتظار کریں تاکہ صورت حال واضح ہو جائے۔علاوہ ازیں اگر میت حاملہ ہو اور بچہ اس کے پیٹ میں زندہ ہو تو ضروری ہے کہ دفن کرنے میں اتنا توقف کریں کہ اس کا پہلو چاک کر کے بچہ باہر نکال لیں اور پھر اس پہلو کو سِی دیں۔
غسل، کفن، نماز میّت اور دفن کا وجوب
(۵۳۱)مسلمان کا غسل، حنوط ، کفن، نماز میت اور دفن خواہ وہ اثنا عشری شیعہ نہ بھی ہو اس کے ولی پر واجب ہے۔ ضروری ہے کہ ولی خود ان کاموں کو انجام دے یا کسی دوسرے کو ان کاموں کے لئے معین کرے اور اگر کوئی شخص ان کاموں کو ولی کی اجازت سے انجام دے تو ولی پر سے وجوب ساقط ہو جاتا ہے بلکہ اگر دفن اور اس کی مانند دوسرے امور کو کوئی شخص ولی کی اجازت کے بغیر انجام دے تب بھی ولی سے وجوب ساقط ہو جاتا ہے اور ان امور کو دوبارہ انجام دینے کی ضرورت نہیں اور اگر میت کا کوئی ولی نہ ہو یا ولی ان کاموں کو انجام دینے سے منع کرے تب بھی باقی مکلّف لوگوں پو واجب کفائی ہے کہ کہ میت کے ان کاموں کو انجام دیں اور اگر بعض مکلّف لوگوں نے انجام دیا تو دوسروں پر سے وجوب ساقط ہو جاتا ہے۔ چنانچہ اگر کوئی بھی انجام نہ دے تو تمام مکلّف لوگوں نے انجام دیا تو دوسرے پر سے وجوب ساقط ہو جاتا ہے۔ چنانچہ اگر کوئی بھی انجام نہ دے تو تمام مکلّف لوگ گناہگار ہوں گے اور ولی کے منع کرنے کی صورت میں اس سے اجازت لینے کی شرط ختم ہو جاتی ہے۔
(۵۳۲)اگر کوئی شخص تجہیز وتکفین کے کاموں میں مشغول ہو جائے تو دوسروں کے لئے اس بارے میں کوئی اقدام کرنا واجب نہیں اگر وہ ان کاموں کو ادھورا چھوڑ دے تو ضروری ہے کہ دوسرے انہیں پایہٴ ٴتکمیل تک پہنچائیں۔
(۵۳۳)اگر کسی شخص کو اطمینان ہو کہ کوئی دوسرا میت کے کاموں میں مشغول ہے تو اس پر واجب نہیں ہے کہ میت کے کاموں کے بارے میں اقدام کرے لیکن اگر اسے اس بار ے میں محض شک یا گمان ہو تو ضروری ہے کہ اقدام کرے۔
(۵۳۴)اگر کسی شخص کو معلوم ہو کہ میت کا غسل یا کفن یا نماز یا دفن غلط طریقے سے ہوا ہے تو ضروری ہے کہ ان کاموں کو دوبارہ انجام دے لیکن اگر اسے باطل ہونے کا گمان ہو یا شک ہو کہ درست تھا یا نہیں تو پھر اس بارے میں کوئی اقدام کرنا ضروری نہیں۔
(۵۳۵)عورت کا ولی اس کا شوہرہے اور عورت کے علاوہ وہ اشخاص کہ جن کو میت سے میراث ملتی ہے اسی ترتیب سے جس کا ذکر میراث کے مختلف طبقوں میں آئے گا دوسروں پر مقدم ہیں۔ میت کا باپ میت کے بیٹے پر میت کا دادا اس کے بھائی پر، میت کا پدری و مادری بھائی اس کے صرف پدری بھائی یا مادری بھائی پر، اس کا پدری بھائی اس کے مادری بھائی پر اور اس کے چچا کے اس ماموں پر مقدم ہونے میں اشکال ہے۔ چنانچہ اس سلسلے میں احتیاط کے (تمام) تقاضوں کو پیشِ نظر رکھنا ضروری ہے۔ ہاں اگر ولی ایک سے زیادہ ہوں تو ان میں سے کسی ایک کی اجازت کافی ہے۔
(۵۳۶)نابالغ بچّہ اور دیوانہ میت کے کاموں کو انجام دینے کے لئے ولی نہیں بن سکتے۔ اسی طرح وہ شخص بھی جو اس طرح غیر حاضر ہو کہ خود یا کسی شخص کو مامور کر کے میت سے متعلق امور کو انجام نہ دے سکتا ہو تو وہ بھی ولی نہیں بن سکتا۔
(۵۳۷)اگر کوئی شخص کہے کہ میں میت کا ولی ہوں یا میت کے ولی نے مجھے اجازت دی ہے کہ میت کے غسل، کفن اور دفن کو انجام دوں یا کہے کہ میں میت کے دفن سے متعلق کاموں میں میت کا وصی ہوں اور اس کے کہنے سے اطمینان حاصل ہو جائے یا میت اس کے تصرف میں ہو یا دو عادل شخص گواہی دیں تو اس کا قول قبول کر لینا ضروری ہے۔
(۵۳۸)اگر مرنے والا اپنے غسل، کفن، دفن اور نماز کے لئے اپنے ولی کے علاوہ کسی اور کو مقرر کرے تو ان امور کی ولایت اسی شخص کے ہاتھ میں ہے اور یہ ضروری نہیں ہے کہ جس شخص کو میت نے وصیت کی ہو وہ خود ان کاموں کو انجام دینے کا ذمہ دار بنے اور اس وصیت کو قبول کرے لیکن اگر قبول کر لے تو ضروری ہے کہ اس پر عمل کرے۔
غسلِ میت کی کیفیت
(۵۳۹)میت کو ترتیب سے تین غسل دینے واجب ہیں: پہلا ایسے پانی سے جس میں بیری کے پتّے مِلے ہوئے ہوں، دوسرا ایسے پانی سے جس میں کافور ملا ہو اور تیسرا خالص پانی سے۔
(۵۴۰)ضروری ہے کہ بیری اور کافور نہ اس قدر زیادہ ہوں کہ پانی مضاف ہو جائے اور نہ اس قدر کم ہوں کہ یہ کہا جا سکے کہ بیری اور کافور اس پانی میں نہیں ملائے گئے ہیں۔
(۵۴۱)اگر بیری اور کافور اتنی مقدار میں نہ مل سکیں جتنی کہ ضروری ہے تو احتیاط مستحب کی بنا پر جتنی مقدار میّسر آئے پانی میں ڈال دی جائے۔
(۵۴۲)اگر کوئی شخص احرام کی حالت میں مَر جائے تو اسے کافور کے پانی سے غسل نہیں دینا چاہئے بلکہ اس کے بجائے خالص پانی سے غسل دینا چاہئے لیکن اگر وہ حج تمتع کا احرام ہو اور وہ طواف، نمازِ طواف اور سعی کو مکمل کر چکا ہو یا حج قران یا افراد کے احرام میں ہو اور سر منڈا چکا ہو تو ان دو صورتوں میں اس کو کافور کے پانی سے غسل دینا ضروری ہے۔
(۵۴۳)اگر بیری اور کافور یا ان میں سے کوئی ایک نہ مِل سکے یا اس کا استعمال جائز نہ ہو مثلاً یہ کہ غصبی ہو تو احتیاط کی بنا پر ضروری ہے کہ اسے ایک تیمم کرایا جائے اور ان میں سے ہر اس چیز کے بجائے جس کا ملنا ممکن نہ ہو میت کو خالص پانی سے غسل دیا جائے۔
(۵۴۴)جو شخص میت کو غسل دے ضروری ہے کہ وہ عقل مند اور مسلمان ہو اور احتیاط کی بنا پر ضروری ہے کہ وہ اثنا عشری ہو۔ نیز ضروری ہے کہ غسل کے مسائل سے بھی واقف ہو۔ ممیّز بچّہ اگر غسل کو صحیح طریقے سے انجام دے سکتا ہو تو اس کا غسل دینا بھی کافی ہے۔ چنانچہ اگر غیر اثنا عشری مسلمان کی میت کو اس کا ہم مذہب اپنے مذہب کے مطابق غسل دے تو مومن اثنا عشری سے ذمہ داری ساقط ہو جاتی ہے۔ لیکن اگر وہ اثنا عشری شخص میت کا ولی ہو تو اس صورت میں اس سے ذمہ داری ساقط نہیں ہوتی ۔
(۵۴۵)جو شخص غسل دے ضروری ہے کہ وہ قربت کی نیت رکھتا ہو اور یہ کافی ہے کہ اللہ تعالیٰ کے حکم کی بجا آوری کی نیّت سے غسل دے۔
(۵۴۶)مسلمان کے بچّے کو خواہ وہ ولدالزنا ہی کیوں نہ ہو غسل دینا واجب ہے اور کافر اور اس کی اولاد کا غس، کفن اور دفن واجب نہیں ہے۔ کافر کا بچّہ اگر ممیز ہو اور اسلام کا اظہار کرتا ہو تو وہ مسلمان ہے اور جو شخص بچپن سے دیوانہ ہو اور دیوانگی کی حالت میں ہی بالغ ہو جائے اور اگر اس کاباپ یا ماں مسلمان ہو تو ضروری ہے کہ اسے غسل دیں۔
(۵۴۷)اگر ایک بچہ چار مہینے یا اس سے زیادہ کا ہو کر ساقط ہو جائے تو اسے غسل دینا ضروری ہے بلکہ اگر چار مہینے سے بھی کم ہو لیکن اس کا پورا بدن بن چکا ہو تو احتیاط کی بنا پر اس کو غسل دینا ضروری ہے۔ ان دو صورتوں کے علاوہ احتیاط کی بنا پر اسے کپڑے میں لپیٹ کر بغیر غسل دئیے دفن کر دینا چاہئے۔
(۵۴۸)مرد،نامحرم عورت کو غسل نہیں دے سکتا اسی طرح عورت، نامحرم مرد کو غسل نہیں دے سکتی۔ لیکن بیوی اپنے شوہر کو غسل دے سکتی ہے اور شوہر بھی اپنی بیوی کو غسل دے سکتا ہے۔
(۵۴۹)مرد اتنی چھوٹی لڑکی کو غسل دے سکتا ہے جو ممیز نہ ہو اور عورت بھی اتنے چھوٹے لڑکے کو غسل دے سکتی ہے جو ممیز نہ ہو۔
(۵۵۰)محرم افراد ایک دوسرے کو غسل دے سکتے ہیں، چاہے نسبی محرم ہوں جیسے ماں اور بہن یا رضاعی یعنی دودھ پینے کی وجہ سے ایک دوسرے کے محرم بن گئے ہوں۔ شرمگاہ کے علاوہ باقی بدن میں لباس کے نیچے سے غسل دینا ضروری نہیں ہے اگرچہ بہتر ہے ۔ لیکن احتیاط واجب کی بنا پر ضروری ہے کہ مرد اپنی محرم عورت کو صرف اسی صورت میں غسل دے جب غسل دینے کے لئے کوئی عورت نہ مل سکے۔ یہی حکم عورت کے لئے محرم مرد کو غسل دینے کے بارے میں ہے۔
(۵۵۱)اگر میت اور غسال دونوں مرد ہوں یا دونوں عورت ہوں تو جائز ہے کہ شرمگاہ کے علاوہ میت کا باقی بدن برہنہ ہو لیکن بہتر یہ ہے کہ لباس کے نیچے سے غسل دیا جائے۔
(۵۵۲)میاں بیوی کے علاوہ میت کی شرمگاہ پر نظر ڈالنا حرام ہے اور جو شخص اسے غسل دے رہا ہو اگر وہ اس پر نظر ڈالے تو گناہگار ہے لیکن اس سے غسل باطل نہیں ہوتا۔
(۵۵۳)اگر میت کے بدن کے کسی حصے پر عین نجاست ہو تو ضروری ہے کہ اس حصے کو غسل دینے سے پہلے عین نجاست دُور کرے اور اولیٰ یہ ہے کہ غسل شروع کرنے سے پہلے میت کا تمام بدن پاک کر لیا جائے۔
(۵۵۴)غسل میت غسل جنابت کی طرح ہے اور احتیاط واجب یہ ہے کہ جب تک میت کو غسل ترتیبی دینا ممکن ہو غسل ارتماسی نہ دیا جائے اور غسل ترتیبی میں بھی ضروری ہے کہ داہنی طرف کو بائیں طرف سے پہلے دھویا جائے۔
(۵۵۵)جو شخص حیض یا جنابت کی حالت میں مر جائے اسے غسل حیض یا غسل جنابت دینا ضروری نہیں ہے بلکہ صرف غسل میت اس کے لئے کافی ہے۔
(۵۵۶)میت کو غسل دینے کی اجرت لینا احتیاط کی بنا پر حرام ہے اور اگر کوئی شخص اُجرت لینے کے لئے میت کو اس طرح غسل دے کہ یہ غسل دینا قصد قربت کے منافی ہو تو غسل باطل ہے لیکن غسل کے ابتدائی کاموں کی اجرت لینا حرام نہیں ہے۔
(۵۵۷)میت کے غسل میں جبیرہ غسل جائز نہیں ہے اور اگر پانی میّسر نہ ہو یا اس کے استعمال میں کوئی رکاوٹ ہو تو ضروری ہے کہ غسل کے بدلے میت کو ایک تیمم کرائے اور احتیاط مستحب یہ ہے کہ تین تیمم کرائے جائیں۔
(۵۵۸)جو شخص میت کو تیمم کرا رہا ہو اسے چاہئے کہ اپنے ہاتھ زمین پر مارے اور میت کے چہرے اور ہاتھوں کی پشت پر پھیرے اور احتیاط مستحب یہ ہے کہ اگر ممکن ہو تو میت کو اس کے اپنے ہاتھوں سے بھی تیمم کرائے۔
http://www.shiastudies.com/library/Subpage/Book_Matn.php?syslang=4&id=48...
جاری ہے۔۔۔
Add new comment