غسل کے احکام

بقیہ۔۔۔

(۳۷۱)غسل ارتماسی یا غسل ترتیبی میں غسل سے پہلے سارے جسم کا پاک ہونا ضروری نہیں ہے بلکہ اگر پانی میں غوطہ لگانے یا غسل کے ارادے سے پانی بدن پر ڈالنے بدن پاک ہو جائے تو غسل صحیح ہو گا۔ البتہ یہ ضروری ہے کہ جس پانی سے غسل کر رہا ہے۔ وہ طہارت کی حالت سے خارج نہ ہو جائے۔ مثلاً کُر پانی سے غسل کر رہا ہو۔
(۳۷۲)اگر کوئی شخص حرام سے جنب ہو ا ہو اور گرم پانی سے غسل کرلے تو اگرچہ پسینہ بھی آ جائے تب بھی اس کا غسل صحیح ہے۔
(۳۷۳)غسل میں بال برابر بدن بھی اگر اَن دُھلا رہ جائے تو غسل باطل ہے لیکن کان اور ناک کے اندرونی حصوں کا اور ہر اس چیز کا دھونا جو باطن شمار ہوتی ہو واجب نہیں ہے۔
(۳۷۴)اگر کسی شخص کو بدن کے کسی حصے کے بار ے میں شک ہو کہ اس کا شمار بدن کے ظاہر میں ہے یا باطن میں تو ضروری ہے کہ اسے دھو لے۔
(۳۷۵)اگر کان کی بالی کا سوراخ یا اس جیسا کوئی اور سوراخ اس قدر کھلا ہو کہ اس کا اندرونی حصہ بدن کا ظاہر شمار کیا جائے تو اسے دھونا ضروری ہے ورنہ اس کا دھونا ضروری نہیں ہے۔
(۳۷۶)جو چیز بدن تک پانی پہنچنے میں مانع ہو ضروری ہے کہ انسان اسے ہٹا دے اور اگر اس کے ہٹ جانے کا یقین کرنے سے پہلے غسل کرے تو اس کا غسل باطل ہے۔
(۳۷۷)اگر غسل کے وقت کسی شخص کو شک گزرے کہ کوئی ایسی چیز اس کے بدن پر ہے یا نہیں جو بدن تک پانی پہنچنے میں مانع ہو تو ضروری ہے کہ چھان بین کرے حتیٰ کہ مطمئن ہو جائے کہ کوئی ایسی رکاوٹ نہیں ہے۔
(۳۷۸)غسل میں ان چھوٹے چھوٹے بالوں کو جو بدن کا جزو شمارے ہوتے ہیں دھونا ضروری ہے اور لمبے بالوں کا دھونا واجب نہیں ہے بلکہ اگر پانی کو جلد تک اس طرح پہنچائے کہ لمبے بال تر نہ ہوں تو غسل صحیح ہے لیکن اگر انہیں دھوئے بغیر جلد تک پانی پہنچانا ممکن نہ ہو تو انہیں بھی دھونا ضروری نہیں ہے تاکہ پانی بدن تک پہنچ جائے۔
(۳۷۹)وہ تمام شرائط جو وضو کے صحیح ہونے کے لیے بتائی جا چکی ہیں مثلاً پانی کا پاک ہونا اور غصبی نہ ہونا وہی شرائط غسل کے صحیح ہونے کے لیے بھی ہیں۔ لیکن غسل میں یہ ضروری نہیں ہے کہ انسان بدن کو اوپر سے نیچے کی جانب دھوئے۔ علاوہ ازیں غسل ترتیبی میں یہ ضروری نہیں کہ سر اور گردن دھونے کے بعد فوراً بدن کو دھوئے۔ لہٰذا اگر سر اور گردن دھونے کے بعد توقف کرے اور کچھ وقت گزرنے کے بعد بدن کو دھوئے تو کوئی حرج نہیں بلکہ ضروری ہے نہیں کہ سر اور گردن یا تمام بدن کو ایک ساتھ دھوئے پس اگر مثال کے طور پر سر دھویا اور کچھ دیر بعد گردن دھوئے تو جائز ہے کہ لیکن جو شخص پیشاب یا پاخانہ کے نکلنے کو نہ روک سکتا ہو تاہم اسے پیشاب اور پاخانہ اندازاً اتنے وقت تک نہ آتا ہو کہ غسل کر کے نماز پڑھ لے تو ضروری ہے کہ فوراً غسل کرے اور غسل کے بعد فوراً نماز پڑھ لے۔
(۳۸۰)اگر کوئی شخص یہ جانے بغیر کہ حمام والا راضی ہے یا نہیں اس کی اجرت ادھار رکھنے کا ارادہ رکھتا ہو تو خواہ حمام والے کو بعد میں اس بات پر راضی بھی کر لے اس کا غسل باطل ہے۔
(۳۸۱)اگر حمام والا اُدھار پر غسل کی اجازت دینے کے لیے راضی ہو لیکن غسل کرنے والا اس کی اجرت نہ دینے یا حرام مال سے دینے کا ارادہ رکھتا ہو تو اس کا غسل باطل ہے۔
(۳۸۲)اگر کوئی شخص حمام والے کو ایسی رقم بطور اجرت دے جس کا خمس ادا نہ کیا گیا ہو تو اگرچہ وہ حرام کا مرتکب ہو گا لیکن بظاہر اس کا غسل صحیح ہو گا اور مستحقین کو خمس ادا کرنا اس کے ذمہ رہے گا۔
(۳۸۳)اگر کوئی شخص شک کرے کہ اس نے غسل کیا ہے یا نہیں تو ضروری ہے کہ غسل کرے لیکن اگر غسل کے بعد شک کرے کہ غسل صحیح کیا ہے یا نہیں تو دوبارہ غسل کرنا ضروری نہیں ۔
(۳۸۴)اگر غسل کے دوران کسی شخص سے حدث اصغر سرزد ہو جائے مثلاً پیشاب کردے تو اس غسل کو ترک کر کے نئے سرے سے غسل کرنا ضروری نہیں بلکہ وہ اپنے اس غسل کو مکمل کر سکتا ہے۔ اس صورت میں احتیاط لازم کی بنا پر وضو کرنا بھی ضروری ہے۔ لیکن اگر وہ شخص غسل ارتماسی کی طرف یا غسل ارتماسی سے غسل ترتیبی کی طرف پلٹ جائے تو وضو کرنا ضروری نہیں ہے۔
(۳۸۵)اگر وقت کی تنگی کی وجہ سے مکلّف شخص کا فریضہ تیمم ہو لیکن اس خیال سے کہ غسل اور نماز کے لیے اس کے پاس وقت ہے غسل کرے تو اگر اس نے غسل قصد قربت کیا ہے تو اس کا غسل صحیح ہے۔ اگرچہ اس نے نماز پڑھنے کے لیے غسل کیا ہو۔
(۲۸۶)جو شخص مجنب ہو، اگر وہ نماز پڑھنے کے بعد شک کرے کہ اس نے غسل کیا ہے یا نہیں تو جو نمازیں وہ پڑھ چکا ہے وہ صحیح ہیں۔ لیکن بعد کی نمازوں کے لیے غسل کرنا ضروری ہے اور اگر نماز کے بعد اس سے حدث اصغر صادر ہوا ہو تو لازم ہے کہ وضو بھی کرے اور اگر وقت ہو تو احتیاط لازم کی بناپر جو نماز پڑھ چکا ہے اسے دوبارہ پڑھے۔
(۳۸۷)جس شخص پر کئی غسل واجب ہوں وہ ان سب کی نیت کر کے ایک غسل کر سکتا ہے اور ظاہر یہ ہے کہ اگر ان میں سے کسی ایک مخصوص غسل کا قصد کرے تو وہ باقی غسلوں کے لیے بھی کافی ہے۔
(۳۸۸)اگر بدن کے کسی حصے پر قرآن مجید کی آیت یا اللہ تعالیٰ کا نام لکھا ہوا ہو تو غسل کو ترتیبی طریقے سے انجام دینے کی صورت میں ضروری ہے کہ پانی اپنے بدن پر اس طرح پہنچائے کہ اس کا ہاتھ ان تحریروں کو نہ لگے۔ وضو کرتے وقت آیاتِ قرآنی بلکہ احتیاط واجب کی بنا پر اللہ کے ناموں کے لیے بھی یہی حکم ہے۔
(۳۸۹)جس شخص نے غسل جنابت کیا ہو ضروری ہے کہ نماز کے لیے وضو نہ کرے بلکہ دوسرے واجب غسلوں کے بعد بھی سوائے غسل استحاضہ متوسط اور مستحب غسلوں کے جن کا ذکر مسئلہ ۶۳۴میں آئے گا بغیر وضو نماز پڑھ سکتا ہے۔ اگرچہ احتیاط مستحب یہ ہے کہ وضو بھی کرے۔
http://www.shiastudies.com/library/Subpage/Book_Matn.php?syslang=4&id=48...
جاری ہے۔۔۔۔

Add new comment