اسے کہتے ہیں صحیح وضو

 

وضو صحیح ہونے کی چند شرائط ہیں:

۱) وضو کا پانی پاک ہو
۔ ایک قول کی بنا پر وضو کا پانی ایسی چیزوں مثلاً حلال گوشت حیوان کے پیشاب، پاک مَردار اور زخم کی ریم سے آلودہ نہ ہو جن سے انسان کو گِھن آتی ہو، اگرچہ شرعی لحاظ سے ایسا پانی پاک ہے اور یہ قول احتیاط کی بنا پر ہے۔

۲) پانی مطلق ہو۔
(۲۶۴) نجس یا مضاف پانی سے وضو کرنا باطل ہے خواہ وضو کرنے والا شخص اس کے نجس یا مضاف ہونے کے بارے میں علم نہ رکھتا ہو یا بھول گیا ہو۔ لہٰذا اگر وہ ایسے پانی سے وضو کر کے نماز پڑھ چکا ہو تو صحیح وضو کر کے دوبارہ پڑھنا ضروری ہے۔
(۲۶۵) اگر ایک شخص کے پاس مٹی ملے ہوئے مضاف پانی کے علاوہ اور کوئی پانی وضو کے لیے نہ ہو اور نماز کا وقت تنگ ہو تو ضروری ہے کہ تیمم کر لے لیکن اگر وقت تنگ نہ ہو تو ضروری ہے کہ پانی کے صاف ہونے کا انتظار کرے یا کسی طریقے سے اس پانی کو صاف کرے اور وضوکرے۔ ہاں ! مٹی ملا ہوا پانی اسی وقت مضاف بنتا ہے جب اسے پانی نہ کہا جا سکے۔

۳) وضو کا پانی مباح ہو۔
(۲۶۶) ایسے پانی سے وضو کرنا جو غصب کیا گیا ہو یا جس کے بارے میں یہ علم نہ ہو کہ اس کا مالک اس کے استعمال پر راضی ہے یا نہیں حرام اور باطل ہے۔ علاوہ ازیں اگر چہرے اور ہاتھوں سے وضو کا پانی غصب کی ہوئی جگہ پر گرتا ہو یا وہ فضا جس میں وضو کرنے کے لیے کوئی اور جگہ بھی نہ ہو تو اس شخص کا فریضہ تیمم ہے اور اگر کسی دوسری جگہ وضو کر سکتا ہو تو ضروری ہے کہ دوسری جگہ وضو کرے۔ لیکن اگر دونوں صورتوں میں گناہ کا ارتکاب کرتے ہوئے اسی جگہ وضو کرلے تو اس کا وضو صحیح ہے۔
(۲۶۷)کسی مدرسے کے ایسے حوض سے وضو کرنے میں کوئی حرج نہیں جس کے بارے میں یہ علم نہ ہو کہ آیا وہ تمام لوگوں کے لیے کیا گیا ہے یاصرف مدرسے کے طلباء کے لیے وقت ہے اور صورت یہ ہو کہ لوگ عموماً اس حوض سے وضو کرتے ہوں اور کوئی منع نہ کرتا ہو۔
(۲۶۸)اگر کوئی شخص ایک مسجد میں نماز پڑھنا نہ چاہتا اور یہ بھی نہ جانتا ہو کہ آیا اس مسجد کا حوض تمام لوگوں کے لیے وقف ہے یا صرف ان لوگوں کے لیے جو اس مسجد میں نماز پڑھتے ہیں تو اس کے لیے اس حوض سے وضو کرنا درست نہیں لیکن اگر عموماً وہ لوگ بھی اس حوض سے وضو کرتے ہوں جو اس مسجد میں نماز نہ پڑھنا چاہتے ہوں اور کوئی منع نہ کرتا ہو تو وہ شخص بھی اس حوض سے وضو کر سکتا ہے۔
(۲۶۹)سرائے، مسافر خانوں اور ایسے ہی دوسرے مقامات کے حوض سے ان لوگوں کا جوان میں مقیم نہ ہوں، وضو کرنا اسی صورت میں درست ہے جب عموماً ایسے لوگ بھی جو وہاں مقیم نہ ہوں اس حوض سے وضو کرتے ہوں اور کوئی منع نہ کرتا ہو۔
(۲۷۰)ان نہروں سے وضو کرنے میں کوئی حرج نہیں جن پر عقلاء کا طریقہ یہ ہے کہ تصرف کیا کرتے ہیں، چاہے نہریں بڑی ہوں یا چھوٹی اور چاہے انسان کو مالک کی رضایت کا علم بھی نہ ہو بلکہ اگر مالک وضو کرنے سے روکے یا انسان جانتا ہو کہ مالک راضی نہیں یامالک نابالغ بچہ یا پاگل ہو، پھر بھی ان نہروں میں تصرف جائز ہے۔
(۲۷۱)اگر کوئی شخص یہ بھول جائے کہ پانی غصبی ہے اور اس سے وضو کر لے تو اس کا وضو صحیح ہے۔ لیکن اگر کسی شخص نے خود پانی غصب کیا ہو اور بعد میں بھول جائے کہ یہ پانی غصبی ہے اور اس سے وضو کر لے تو اس کا وضو صحیح ہونے میں اشکال ہے۔
(۲۷۲)اگر وضو کا پانی تو اس کا اپنا ہو لیکن غصبی برتن میں ہو اور اس شخص کے پاس اس کے علاوہ اور کوئی پانی نہ ہو تو اگر وہ اس پانی کو شرعی طریقے سے دوسرے برتن میں انڈیل سکتا ہو تو اس کے لیے ضروری ہے کہ اسے پانی کسی دوسرے برتن میں انڈیل لے اور پھر اس کے پاس اس کے علاوہ دوسرا پانی موجود ہو تو ضروری ہے کہ اس سے وضو کرے اور اگر ان دونوں صورتوں میں وہ صحیح طریقے پرعمل نہ کرتے ہوئے اس پانی سے جو غصبی برتن میں ہے وضو کر لے تو اس کا وضو صحیح ہے۔
(۲۷۳)اگر کسی حوض میں مثال کے طور پر غصب کی ہوئی ایک اینٹ یا ایک پتھر لگا ہو اور عرفِ عام میں اس حوض میں سے پانی نکالنا اس اینٹ یا پتھر پر تصرف نہ سمجھا جائے تو (پانی لینے میں) کوئی حرج نہیں لیکن اگر تصرف سمجھا جائے تو پانی کا نکالنا حرام لیکن اس سے وضو کرنا صحیح ہے۔
(۲۷۴)اگر آئمہ طاہرین ٪ یا ان کی اولاد کے مقبرے کے صحن میں جو پہلے قبرستان تھا کوئی حوض یا نہر کھودی جائے اور یہ علم نہ ہو کہ صحن کی زمین قبرستان کے لیے وقف ہو چکی ہے تو اس حوض یا نہر کے پانی سے وضو کرنے میں کوئی حرج نہیں۔

۴)وضو کے اعضا دھوتے وقت اور مسح کرتے وقت پاک ہوں۔ چاہے انہیں وضو کے دوران ہی دھونے یا مسح کرنے سے پہلے پاک کر لے جبکہ اگر کریا اس جیسے پانی سے دھو رہا ہو تو دھونے سے پہلے پاک کرنا بھی ضروری نہیں۔
(۲۷۵)اگر وضو مکمل ہونے سے پہلے وہ مقام نجس ہو جائے جسے دھویا جا چکا ہے یا جس کا مسح کیا جا چکا ہے تو وضو صحیح ہے۔
(۲۷۶)اگر اعضائے وضو کے سوا بدن کا کوئی حصہ نجس ہو تو وضو صحیح ہے لیکن اگر پاخانے یا پیشاب کے مقام کو پاک نہ کیا ہو تو پھر احتیاط مستحب یہ ہے کہ پہلے انہیں پاک کرے اور پھر وضو کرے۔
(۲۷۷)اگر وضو کے اعضاء میں سے کوئی نجس ہو اور وضو کرنے کے بعد شک گزرے کہ آیا وضو کرنے سے پہلے اس عضو کو دھویا تھا یا نہیں تو وضو صحیح ہے لیکن اس نجس مقام کو دھو لینا ضروری ہے۔
(۲۷۸)اگر کسی کے چہرے یا ہاتھوں پر کوئی ایسی خراش یا زخم ہو جس سے خون نہ رکتا ہو اور پانی اس کے لیے مضر نہ ہو تو ضروری ہے کہ اس عضو کو صحیح سالم اجزاء کو ترتیب واردھونے کے بعد زخم یا خراش والے حصے کو برابر پانی یا جاری پانی میں ڈبو دے اور اسے اس قدر دبائے کہ خون بند ہو جائے اور پانی کے اندر ہی اپنی انگلی زخم یا خراش پر رکھ کر اوپر سے نیچے کی طرف کھینچے تاکہ اس (خراش یا زخم) پر پانی جاری ہو جائے اور پھر اس سے نچلے حصوں کو دھو لے۔ اس طرح اس کا وضو صحیح ہو جائے گا۔

۵) وضو کرنے اور نماز پڑھنے کے لیے وقت کافی ہو۔
(۲۷۹)اگر وقت اتنا کم ہو کہ وضو کرے تو ساری کی ساری نماز یا اس کا کچھ حصہ وقت کے بعد پڑھنا پڑے تو ضروری ہے کہ تیمم کر لے لیکن اگر تیمم اور وضو کے لیے تقریباً یکساں وقت درکار ہو تو پھر وضو کرے۔
(۲۸۰)جس شخص کے لیے نماز کا وقت تنگ ہونے کے باعث تیمم کرنا ضروری ہو اگر وہ قصد قربت کی نیت سے یا کسی مستحب کام مثلاً قرآن مجید پڑھنے کے لیے وضو کرے تو اس کا وضو صحیح ہے اور اگر اسی نماز کو پڑھنے کے لیے وضو کرے تو بھی یہی حکم ہے سوائے اس کے کہ اسے قصد قربت حاص نہ ہو سکے۔

۶) وضو بقصد قربت سے کرے اور اس کے لیے اتنا کافی ہے کہ حکم الہٰی کی بجا آوری کے قصد سے کیا جائے۔ اگر اپنے آپ کو ٹھنڈک پہنچانے یا کسی اور نیت سے کیا جائے تو وضو باطل ہے۔
(۲۸۱)وضو کی نیت زبان سے یا دل میں کرنا ضروری نہیں بلکہ اگر ایک شخص وضو کے تمام افعال اللہ تعالیٰ کے حکم پر عمل کرنے کے لیے بجا لائے تو کافی ہے۔

۷) وضو اس ترتیب سے کیا جائے جس کا ذکر اوپر ہو چکا ہے یعنی پہلے چہرہ اور اس کے بعد دایاں اور پھر بایں ہاتھ دھویا جائے اس کے بعد سرکا اور پھر پاؤں کا مسح کیا جائے اور احتیاط مستحب یہ ہے کہ دونوں پاؤں کا ایک ساتھ مسح نہ کیا جائے بلکہ بائیں پاؤں کا مسح دائیں پاؤں کے بعد کیا جائے۔

۸)وضو کے افعال پے در پے انجام دے۔
(۲۸۲)اگر وضو کے افعال کے درمیان اتنا فاصلہ ہو جائے کہ عرف عام میں پے در پے دھونا نہ کہلائے تو وضو باطل ہے لیکن اگر کسی شخص کو کوئی عذر پیش آ جائے مثلاً یہ کہ بھول جائے یا پانی ختم ہو جائے تو اس صورت میں بلا فاصلہ دھونے کی شرط معتبر نہیں ہے بلکہ وضو کرنے والا شخص جس وقت کسی عضو کو دھونا یا اس کا مسح کرنا چاہے اور اس وقت تک ان تمام مقامات کی تری خشک ہو چکی ہو جنہیں وہ پہلے دھو چکا ہے یا جن کا مسح کر چکا ہے تو وضو باطل ہو گا۔ اگر جس عضو کو دھونا ہے یا مسح کرنا ہے صرف اس سے پہلے دھوئے ہوئے یا مسح کئے ہوئے عضو کی تری خشک ہو گئی ہو مثلاً بایاں ہاتھ دھوتے وقت دائیں ہاتھ کی تری خشک ہو چکی ہو لیکن چہرہ تر ہو تو وضو صحیح ہے۔
(۲۸۳)اگر کوئی شخص وضو کے افعال بلافاصلہ انجام دے لیکن گرم ہوا یا بدن کی زیادہ حرارت یا کسی اور ایسی ہی وجہ سے پہلی جگہوں کی تری خشک ہو جائے تو اس کا وضو صحیح ہے۔
(۲۸۴)وضو کے دوران چلنے پھرنے میں کوئی حرج نہیں۔ لہٰذا اگر کوئی شخص چہرہ اور ہاتھ دھونے کے بعد چند قدم چلے اور پھر سر اور پاؤں کا مسح کرے تو اس کا وضو صحیح ہے۔

۹) انسان خود اپنا چہرہ اور ہاتھ دھوئے اور پھر سر کا اور پاؤں کا مسح کرے۔ اگر کوئی دوسرا اسے وضو کرائے یا اس کے چہرے یا ہاتھوں پر پانی ڈالنے یا سر اور پاؤں کا مسح کرنے میں اس کی مدد کرے تو اس کا وضو باطل ہے۔
(۲۸۵)جو شخص خود وضو نہ کر سکتا ہو ضروری ہے کہ وہ کسی دوسرے شخص سے مدد لے، اگرچہ دھونا اور مسح کرنا دونوں کی مشارکت سے ہو اور اگر وہ شخص اجرت مانگے تو اگر اس کی ادائیگی کر سکتا ہو اور ایسا کرنا اس کے لیے مالی طور پر نقصان دہ نہ ہو تو اجرت ادا کرنا ضروری ہے۔ البتہ یہ ضروری ہے کہ وضو کی نیت خود کرے اور مسح بھی اپنے ہاتھ سے کرے اور اگر خود دوسرے کے ساتھ شرکت نہ کر سکتا ہو تو ضروری ہے کہ کسی دوسرے شخص سے مدد لے جو اسے وضو کروائے اور اس صورت میں احتیاط واجب یہ ہے کہ دونوں وضو کی نیت کریں اور اگر یہ ممکن نہ ہو تو ضروری ہے کہ اس کا نائب اس کا ہاتھ پکڑ کر اس کی مسح کی جگہوں پر پھیرے اور اگر یہ بھی ممکن نہ ہو تو ضروری ہے کہ نائب اس کے ہاتھ سے تری حاصل کرے اور اس کے سر اورپاؤں پر مسح کرے۔
(۲۸۶)وضو کے جو افعال بھی انسان بذاتِ خود انجام دے سکتا ہو ضروری ہے کہ انہیں انجام دینے کے لیے دوسروں کی مدد نہ لے۔

۱۰) وضو کرنے والے کے لیے پانی کے استعمال میں کوئی رکاوٹ نہ ہو۔
(۲۸۷)جس شخص کو خوف ہو کہ وضو کرنے سے بیمار ہو جائے گا یا اس پانی سے وضو کرے گا تو پیاسا رہ جائے گا اس کا فریضہ وضو نہیں ہے اور اگر اسے علم نہ ہو کہ پانی اس کے لیے مضر ہے اور وہ وضو کر لے جبکہ وضو کرنا اس کے لیے واقعتا نقصان دہ تھا تو اس کا وضو باطل ہے۔
(۲۸۸)اگر چہرے اور ہاتھوں کے اتنے کم پانی سے دھونا جس سے وضو صحیح ہو جاتا ہو ضرررساں نہ ہو اور اس سے زیادہ ضرر رساں ہو تو ضروری ہے کہ کم مقدار سے ہی وضو کرے۔

۱۱) وضو کے اعضاء تک پانی پہنچنے میں کوئی رکاوٹ نہ ہو۔
(۲۸۹)اگر کسی شخص کو معلو م ہو کہ اس کے وضو کے اعضاء پر کوئی چیز لگی ہوئی لیکن اس بارے میں اسے شک ہو کہ آیا وہ چیز پانی کے ان اعضاء تک پہنچنے میں مانع ہے یا نہیں تو ضروری ہے کہ یا تو اس چیز کو ہٹا دے یا پانی اس کے نیچے تک پہنچائے۔
(۲۹۰)اگر ناخن کے نیچے میل ہو تو وضو درست ہے لیکن اگر ناخن کاٹا جائے اور اس میل کی وجہ سے پانی کھال تک نہ پہنچے تو وضو کے لیے اس میل کا دور کرنا ضروری ہے۔ علاوہ ازاں اگر ناخن معمول سے زیادہ بڑھ جائین تو جتنا حصہ معمول سے زیادہ بڑھا ہوا ہو اس کے نیچے سے میل نکالنا ضروری ہے۔
(۲۹۱)اگر کسی شخص کے چہرے، ہاتھوں، سر کے اگلے حصے یا پاؤں کے اوپر والے حصے پر جل جانے سے یا کسی اور وجہ سے آبلہ پڑ جائے تو اسے دھو لینا اور اس پر مسح کر لینا کافی ہے اور اس میں سوراخ ہو جائے تو پانی جلد کے نیچے پہنچانا ضروری نہیں بلکہ اگر جلد کا ایک حصہ اکھڑ جائے تب بھی یہ ضروری نہیں کہ جو حصہ نہیں اکھڑا اس کے نیچے تک پانی پہنچایا جائے لیکن جب اکھڑی ہوئی جلد کبھی بدن سے چپک جاتی ہو اور کبھی اوپر اٹھ جاتی ہو تو ضروری ہے کہ یا تو اسے کاٹ دے یا اس کے نیچے پانی پہنچائے۔
(۲۹۲)اگر کسی شخص کو شک ہو کہ اس کے وضو کے اعضاء سے کوئی چیز چپکی ہوئی ہے یا نہیں اور اس کا یہ احتمال لوگوں کی نظر میں بھی درست ہو مثلاً گارے سے کوئی کام کرنے کے بعد شک ہو کہ گارا اس کے ہاتھ سے لگا رہ گیا ہے یا نہیں تو ضروری ہے کہ تحقیق کر لے یا ہاتھ کو اتنا ملے کہ اطمینان ہو جائے کہ اگر اس پر گارا لگا رہ گیا تھا تو دور ہو گیا ہے یا پانی اس کے نیچے پہنچ گیا ہے۔
(۲۹۳)جس جگہ کو دھونا ہو یا جس کا مسح کرنا ہو اگر اس پر میل ہو لیکن وہ میل پانی کے ساتھ جلد تک پہنچنے میں رکاوٹ نہ ڈالے تو کوئی حرج نہیں۔ اسی طرح اگر پلستر وغیرہ کا کام کرنے کے بعد سفیدی ہاتھ پر لگی رہ جائے جو پانی کو جلد تک پہنچنے سے نہ روکے تو اس میں بھی کوئی حرج نہیں۔ لیکن اگر شک ہو کہ ان چیزوں کی موجودگی پانی کے جلد تک پہنچنے میں مانع ہے یا نہیں تو انہیں دور کرنا ضروری ہے۔
(۲۹۴)اگر کوئی شخص وضو کرنے سے پہلے جانتا ہو کہ وضو کے بعض اعضاء پر ایسی چیز موجود ہے جو ان تک پانی پہنچنے میں مانع ہے اور وضو کے بعد شک کرنے کہ وضو کرنے وقت پانی ان اعضاء تک پہنچایا ہے یا نہیں تو اس کا وضو صحیح ہے۔
(۲۹۵)اگر وضو کے بعض اعضاء میں کوئی ایسی رکاوٹ ہو جس کے نیچے پانی کبھی تو خود بخود چلا جاتا ہو اور کبھی نہ پہنچتا ہو اور انسان وضو کے بعد شک کرے کہ پانی اس کے نیچے پہنچا ہے یا نہیں جبکہ وہ جانتا ہو کہ کے وقت وہ اس رکاوٹ کے نیچے پانی پہنچنے کی جانب متوجہ نہ تھا تو احتیاط مستحب یہ ہے کہ دوبارہ وضو کرے۔
(۲۹۶)اگر کوئی شخص وضو کرنے کے بعد وضو کے اعضاء پر کوئی ایسی چیز دیکھے جو پانی کے بدن تک پہنچنے میں مانع ہو اور اسے یہ معلوم ہو کہ وضو کے وقت یہ چیز موجود تھی یا بعد میں پیدا ہوئی تو اس کا وضو صحیح ہے لیکن اگر وہ جانتا ہو کہ وضو کرتے وقت وہ اس رکاوٹ کی جانب متوجہ نہ تھا تو احتیاط مستحب یہ ہے کہ دوبارہ وضو کرے۔
(۲۹۷)اگر کسی شخص کو وضو کے بعد شک ہو کہ جو چیز پانی کے پہنچنے میں مانع ہے وضو کے اعضاء پر تھی یا نہیں تو اس کا وضو صحیح ہے۔
http://www.shiastudies.com/library/Subpage/Book_Matn.php?syslang=4&id=48...
جاری ہے۔۔۔

Add new comment