دین اسلام میں احکام نجا سا ت

بقیہ۔۔۔۔

 

(۱۲۹) قر آ ن مجید کی تحر یر اور ور ق جو نجس کر نا جب کہ یہ فعل بے حر متی میں شما ر ہو تا ہو بلا شبہ حرام ہے اور اگر نجس ہو جائے تو فو را پا نی سے دھونا ضر ور ی ہے بلکہ اگر بے حرمتی کا پہلو نہ بھی نکلے تب بھی احتیاط وا جب کی بنا پر کلا م پا ک کو نجس کر نا حر ام اور پا نی سے دھو نا و اجب ہے ۔
(۱۳۰ ) اگر قر ا ٓ ن مجید کی جلد نجس ہو جا ئے اور اس سے قر ا ٓ ن مجید کی بے حر متی ہو تی ہو تو جلد کو پانی سے دھو نا ضر ور ی ہے۔
(۱۳۱) قر آ ن مجید کو کسی عین نجا ست مثلا خو ن یا مر دار پر ر کھنا خو اہ وہ عین نجا ست خشک ہی کیوں نہ ہو اگر قر آ ن مجید کی بے حر متی کا با عث ہو تو حرا م ہے ۔
( ۱۳۲) قر ا ٓ ن مجید کو نجس رو شنا ئی سے لکھناخوا ہ ایک حرف ہی کیو ں نہ ہو اسے نجس کر نے کا حکم ر کھتا ہے اگر لکھا جا چکا ہو تو اسے پا نی سے دھو کر یا چھیل کر یا کسی اور طر یقے سے مٹا د ینا ضروری ہے ۔
(۱۳۳)اگر کا فر کو قر آ ن مجید دینا بے حر متی کا مو جب ہو تو حرام ہے اور اس سے قرآ ن مجید واپس لے لینا و ا جب ہے ۔
(۱۳۴) اگر قر آ ن مجید کا کو ئی ور ق یا کو ئی ایسی چیز جس کا احترام ضر ور ی ہو ، مثلا ایسا کا غذ جس پر اللہ تعا لی کا یا حضر ت رسو ل خدا ﷺ کا یا کسی امام - کا نام لکھا ہو بیت الخلا میں گر جا ئے تو اسے با ہر نکالنا اور اسے دھو نا و ا جب ہے خوا ہ اس پر کچھ ر قم ہی کیو ں نہ خر چ کر نی پڑے اور اگر اس کا با ہر نکالنا ممکن نہ ہو تو ضرو ر ی ہے کہ اس و قت تک بیت الخلا ء کو استعمال نہ کیا جا ئے جب تک یقین ہو کہ وہ گل کر ختم ہو گیا ہے اسی طر ح اگر خا ک شفاء بیت الخلا ء میں گر جا ئے اور اس کا نکالنا ممکن نہ ہو تو جب تک یہ یقین نہ ہو جا ئے کہ وہ با لکل ختم ہو چکی ہے اس بیت الخلا ء کا استعما ل نہیں کر نا چا ہیے ۔
(۱۳۵) نجس چیز کا کھا نا پینا یا کسی دو سر ے کو کھلا نا حرا م ہے لیکن بچے یا دیو ا نے کو کھلا نا پلا نا جائز ہے اور اگر بچہ یا د یو ا نہ نجس غذا کھا ئے پیئے یا نجس ہا تھ سے غذا کو نجس کر کہ کھا ئے تو اسے رو کنا ضر وری نہیں ۔
(۱۳۶) جو نجس چیز پاک کی جا سکتی ہو اسے بیچنے اور اد ھا ر د ینے میں کو ئی حر ج نہیں لیکن اس کے نجس ہو نے میں جب یہ دو شر طیں مو جو د ہو ں تو خر ید نے یا اد ھا ر لینے وا لے کو بتانا ضروری ہے ۔
(۱) جب اند یشہ ہو کہ دو سرا فر یق کسی وا جب حکم کی مخا لفت کامر تکب ہو گا مثلا اس (نجس چیز ) کو کھا نے پینے میں استعمال کرے گا اگر ایسا نہ ہو تو بتانا ضر ور ی نہیں ہے مثلا لبا س کے نجس ہو نے کہ با ر ے میں بتانا ضر ور ی نہیں جسے پہن کر دو سر ا فریق نماز پڑھے گا کیو نکہ لباس کا پا ک ہو نا شر ط وا قعی نہیں ہے۔
(۲) جب بیچنے یا اد ھا ر د ینے وا لے کو تو قع ہو کہ دو سرا فر یق اس با ت پر عمل کرے گا اور اگر جا نتا ہو کہ دو سرا فر یق اس کی با ت پر عمل نہیں کرے گا تو اسے بتانا ضر ور ی نہیں ہے۔
(۱۳۷)اگر کو ئی شخص کسی دو سر ے شخص کو نجس کھا تے یا نجس لباس سے نما ز پڑ ھتے د یکھے تواسے اس با رے میں کہنا ضروری نہیں ۔
(۱۳۸) اگر گھر کا کو ئی حصہ یا قا لین یا (در ی ) نجس ہواور وہ د یکھے کہ اس کے گھر آ نے و الو ں کا بدن ، لبا س یا کو ئی اور چیز تر ی کے سا تھ جگہ سے جا لگی ہے اور صا حب خا نہ اس کا با عث ہو ا ہو تو دو شر طو ں کے سا تھ گز شتہ مسئلے میں بیان ہو ئی ہیں ان لو گو ں کو اس با ر ے میں آگا ہ کر د ینا ضر ور ی ہے ۔
(۱۳۹) اگر میز با ن کو کھانا کھا نے کے دو را ن پتہ چلے کہ غذا نجس ہے تو دو شر طو ں کے مطا بق جو مسئلہ ۱۳۶میں بیان ہوئی ہیں ضر ور ی ہے کہ مہما نو ں کو اس کے متعلق آ گا ہ کر دے لیکن اگر مہما نو ں میں سے کسی کو علم ہو جا ئے تو اس کے لیے دو سر و ں کو بتا نا ضر ور ی نہیں البتہ اگر وہ ان کے سا تھ یو ں گھل مل کر رہتا ہو کہ ان کے نجس ہو نے کی و جہ سے خود بھی نجا ست میں مبتلا ہو کر و اجب احکا م کی مخا لفت کا مر تکب ہو گا تو ان کو بتانا ضر وری ہے ۔
(۱۴۰) اگر کو ئی ادھا ر لی ہو ئی چیز نجس ہو جا ئے تو اس کے ما لک کو دو شر طو ں کے سا تھ جو مسئلہ ۱۳۶ میں بیان ہو ئی ہیں آگا ہ کرے۔
(۱۴۱) اگر بچہ کہے کہ کو ئی چیز نجس ہے یا کہے کہ اس نے کسی چیز کو د ھو لیا ہے تو اس با ت پر اعتبار نہیں کر نا چا ہیے لیکن اگر بچہ ممیز ہو اور نجاست و طہا ر ت کو بخو بی سمجھتا ہو اور وہ کہے کہ اس نے ایک چیز پا نی سے د ھو ئی ہے جبکہ وہ چیز وہ چیز اس کے استعمال میں ہو یا بچے کا قول اعتما د کے قابل ہو تو اس کی با ت قبول کر لینی چا ہیے اور یہی حکم ہے کہ بچے کہے کہ وہ چیز نجس ہے ۔
جاری ہے۔۔۔http://www.shiastudies.com/library/Subpage/Book_Matn.php?syslang=4&id=48...

Add new comment