سیاست اور آئمہ اہلبیتؑ

سید افتخار عابد نقوی

آئمہ(علیہم السلام) کی روشن زندگی میں ایک قطعی اور مشترک اصول جو کہ تمام زاویوں سے نظر آتاہے وہ سیاست میں شرکت کرنا ہے اور آئمہ(علیہم السلام)کا سیاست میں شامل ہونا اس طرح ہے کہ اس کو ان کی زندگی سے علیحدہ نہیں کیا جاسکتا۔

ہمیں کوشش کرنی چاہئے کہ ہم اس رکن کی طرف زیادہ اہمیت دیں ، کیونکہ دنیادار لوگوں نے مسلمانوں کی دنیا اور دین کو ختم کرنے کیلئے ہمیشہ یہ نعرہ لگایاہے کہ دین اور سیاست ایک دوسرے سے جدا ہیں لیکن اس کے مقابلے میں اس صدی میں اسلام کو زندہ کرنے والی شخصیت حضرت امام خمینی (رحمۃاللہ) فرماتے ہیں:

"خدا کی قسم اسلام پورے کا پورا سیاست ہے، اسلام کو غلط طریقے سے لوگوں کے سامنے پیش کیا گیا ہے"۔

حضرت امام خمینی اپنی کتاب تحریر الوسیلہ میں فرماتے ہیں کہ:

اسلام کے فلسفے سے بے خبر کچھ لوگ آئمہ(علیہم السلام) کے کچھ اقوال کو نہ سمجھتے ہوئے اس نظرئیے کی تائید کرتے ہیں کہ اسلام اور سیاست الگ الگ ہیں اور دلیل کے طور پر آئمہ(علیہم السلام) کے اقوال کو پیش کرتے ہیں جیسے کہ امام علی- نے فرمایا :

تمہاری دنیا میرے نزدیک بکری کے بلغم سے زیادہ بے وقعت ہے۔

یا ایک جگہ فرماتے ہیں کہ:

اے دنیا! تو میرے علاوہ کسی اور کو جاکر دھوکہ دے ۔ میں تو تجھے تین طلاقیں دے چکاہوں جن کے بعد پلٹنے کی گنجائش نہیں ہے۔

مندرجہ بالا جملات میں حضرت امیر المومنین- نے دنیا سے دوری کا اظہار کیا ہے اور یہ دوری اس بات پر دلیل ہے کہ آئمہ(علیہم السلام) دنیا کو پسند نہیں کرتے تھے اور اس بنا ء پر آئمہ(علیہم السلام)کس طرح سیاست میں حصہ لے سکتے ہیں جب کہ سیاست کا دوسرا نام دنیا ہے۔

فلسفہ دنیاداری

دنیا کی دو قسمیں ہیں:۱۔مذموم ۲۔مدوح

جب بھی دنیا حلال طریقے سے حاصل کی جائے اور معنوی اہداف کو پورا کرنے کا ذریعہ بنے تو یہ خدا کی نظر میں پسندیدہ ہے۔

اور جب بھی دنیا غلط راستے سے حاصل کی جائے اور خود دنیا ہدف ہو تو وہ خداکی نظر میں ناپسند ہے۔

حضرت امیر المومنین- کی سرزنش یا دوری اس دنیا سے مربوط ہے جو کہ خدا کی نظر میں ناپسند ہے جوکہ دین بیچنے کیلئے استعمال کی جائے۔

پہلا قول: ان منافقین سے تعلق رکھتا ہے کہ جنہوں نے اس دنیا کی خاطر یا یوں کہہ لیجئے کہ اس دنیا نے ان کو رسول اکرم کی وفات کے بعد رہبری اور قیادت کے مقام کو غصب کرنے پر اکسایا۔ مولا نے یہ جملہ "خطبہ شقشقیہ "میں فرمایا جو کہ اسی سلسلہ میں ہے۔

دوسرا قول :اس دنیاسے متعلق ہے کہ جس میں دنیا کیلئے بیت المال سے غلط فائدہ اٹھایا جائے یہ قول مولا نے بیت المال کی تقسیم کے دوران فرمایا۔

خود قرآن کے اندر ہمیں سرمایہ دار افراد کی دونوں قسمیں نظر آتی ہیں۔

سرمایہ دار قرآن میں

۱۔ قارون ۔گناہ کا سبب اور برایہ کا نمونہ

ہم نے قارون اور اس کے گھر بار کو زمین میں دھنسادیا۔1

۲۔سلیمان-۔انسان کی نجات کا سبب اور سعادت کا نمونہ

یہ محض میرے پروردگار کا فضل و کرم ہے تاکہ وہ میرا امتحان لے کہ میں اس کا شکر کرتاہوں یا ناشکری کرتاہوں۔2

نتیجہ :

اگر دنیا کے امکانات اور دولت سلیمان- جیسے افراد کے ہاتھوں میں آجائے تو نعمت ہے اور اگر قارون جیسے افراد کے ہاتھوں میں چلی جائے تو عذاب ہے۔ حضرت امیر المومنین- کی دنیا سے مراد قارون والی دنیا ہے نہ کہ حضرت سلیمان- کی دنیا۔

آئمہ اطہار(علیہم السلام) اور سیاسی حکمت عملی

سیاست ایک بہت ہی وسیع موضوع ہے یو ں کہنا غلط نہ ہوگا کہ سیاست کا لفظ قابل بحث ہے ہر کوئی اپنی نظر کے مطابق اسکی تعریف کرنے کی کوشش کرتاہے لیکن یہاں پر ہم سیاست کے لفظ یا موضوع کو آئمہ(علیہم السلام) ک نظر سے دیکھیں گے(کیونکہ ہر امام سیاست دان تھے )اور پھر ان کی زندگی میں رونما ہونے والے سیاسی واقعات کو بیان کریں گے۔

حضرت امیر المومنین حضرت علی ابن ابی طالب- نے اپنے اقوال زریں میں سیاست کی تعریف کچھ یوں کی ہے۔

"سِیَاسَةُ الْعَدْلِ ثَلاَثٌ لِیْنٌ فِیْ حَزْمٍ وَ اِسْتِقْصَاءٌ فِیْ عَدْلٍ وَ اِفْضَالٌ فِیْ قَصْدٍ"3

عادلانہ سیاست تین چیزوں میں ہے

۱۔ اپنے کاموں میں میانہ روی اختیا ر کرنا ۔

۲۔عدالت کے اجراء میں تحقیق کرنا۔

۳۔مدد کے وقت میانہ روی اختیار کرنا۔

سبط اکبر حضرت امام حسن مجتبیٰ- سے کسی نے پوچھا کہ سیاست کیا ہے امام نے جواب میں فرمایا:

سیاست خدا کے حقوق ،زندہ لوگوں کے حقوق اور مردہ لوگوں کے حقوق کی ادائیگی کا نام ہے۔ خدا کے حقوق یہ ہیں کہ جس بات کا حکم دے اس کو انجام دیا جائے اور جس سے منع کرے اس سے پرہیز کیا جائے، زند ہ لوگوں کے حقوق یہ ہیں کہ لوگوں سے متعلق جو فرائض ہیں ان کو انجام دیا جائے ان کی خدمات کی جائے قائد اسلامی سے مخلص رہا جائے جب تک کہ وہ خدا سے مخلص ہے اور جب وہ منحرف ہوجائے تو اسکے خلاف آواز بلند کرنا اور مردہ لوگوں کے حقوق یہ ہیں کہ ان کی خوبیوں کا ذکر کرنا اور ان کی برائیوں کو یاد نہ کرنا کیونکہ خدا انکے اعمال کی باز پرس کیلئے موجود ہے4

مولائے کائنات ایک جگہ ارشاد فرماتے ہیں کہ:

"بِئْسَ السِّیَاسَةِ الْجَوْرِ"

ظلم کرنا بری سیاست ہے5

اگر ہم مندرجہ بالا ارشادات سے نتیجہ نکالنا چاہیں تو یہ چند باتیں ہمارے سامنے آئیں گی کہ:

سیاست دو طرح کی ہے۔

۱۔مثبت سیاست ۲۔منفی سیاست

۱۔مثبت سیاست وہی ہے جو کہ احادیث میں بیان ہوئی اور اگرہم لغت کی طرف رجوع کریں تو بھی سیاست کے معنی یہی نظر آتے ہیں:

"سیاست یعنی کسی چیز کی فلاح و بہبود کیلئے کام کرنا"۔

۲۔منفی سیاست یعنی ظلم کرنا ،ہرکام کو اسکے صحیح طریقے سے انجام نہ دینا یا آج کل کی دنیا میں سیاست کے رائج الوقت معنی دھوکہ بازی کے ہیں جسے "میکیاولی" کی سیاست کہا جاتاہے۔

گذشتہ باتوں سے یہ بات سامنے آتی ہے کہ آئمہ(علیہم السلام)سیاست دان تھے کیونکہ انہوں نے ہمارے سامنے سیاست کے معنی بیان کئے۔

ایک اور دلیل کے ذریعے بھی ہم اس بات کو ثابت کرسکتے ہیں کہ آئمہ(علیہم السلام) کی زندگی میں سیاست کا عمل دخل تھا اور تمام آئمہ(علیہم السلام) سیاست دان تھے اور وہ یہ ہے کہ ہم یہ کہتے ہیں کہ آئمہ(علیہم السلام) انبیاء کے وارث ہیں اور انبیاء کا مشن اور مقصد فقط معاشرے کی اصلاح اور لوگوں کو کمال کی منزل تک پہنچانا تھا اور یہی سیاست کے معنی بھی ہیں۔

قرآن انبیاء کے اس مقصد کی کچھ اس طرح نشاندہی کرتاہے۔

۱۔"لَقَدْ اَرْسَلْنَا رُسُلَنَا بِالْبَیِّنٰتِ وَ اَنْزَلْنَا مَعَہُمُ الْکِتٰبَ وَ الْمِیزَانَ لِیَقُوْمَ النَّاسُ بِالْقِسْطِ"

ہم نے یقینا اپنے پیغمبروں کو واضح و روشن معجزے دے کر بھیجا اوران کے ساتھ کتاب اور ترازو نازل کی تاکہ لوگ انصاف پر قائم رہیں6

۲۔"الٓراٰوقف کِتٰبٌ اَنْزَلْنہُاٰا اِلَیْکَ لِتُخْرِجَ النَّاسَ مِنَ الظُّلُمٰتِ اِلَی النُّوْرِ لا۵ بِاِذْنِ رَبِّہِمْ اِلٰی صِرَاطِ الْعَزِیْزِ الْحَمِیْدِ"7

(اے رسول یہ قرآن وہ)کتاب ہے جس کو ہم نے تمہارے پاس اس لئے نازل کیا ہے تا کہ تم لوگوں کو انکے پروردگار کے حکم سے کفر کی تاریکی سے (ایمان کی) روشنی میں نکال لاؤ غرض اس کی راہ پر لاؤ جو سب پر غالب اور سز ا وار حمد ہے۔

۳۔ "اَلَّذِیْنَ یَتَّبِعُوْنَ الرَّسُوْلَ النَّبِیَّ الْاُمِّیَّ الَّذِیْ یَجِدُوْنَہ مَکْتُوْبًا عِنْدَہُمْ فِی التَّوْرٰةِ وَ الْاِنجِیْلِز یَاْمُرُہُمْ بِالْمَعْرُوْفِ وَ یَنْہٰہُمْ عَنِ الْمُنْکَرِ وَ یُحِلُّ لَہُمُ الطَّیِّبٰتِ وَ یُحَرِّمُ عَلَیْہِمُ الْخَبٰٓئِثاَا وَ یَضَعُ عَنْہُمْ اِصْرَہُمْ وَ الْاَغْلٰلَ الَّتِیْ کَانَتْ عَلَیْہِمْ"8

یعنی :"جو لوگ ہمارے نبی امی پیغمبر کے قدم بقدم چلتے ہیں جس (کی بشارت) کو اپنے ہاں توریت اور انجیل میں لکھاہواپا تے

ہیں ( وہ نبی )جو اچھے کام کا حکم دیتاہے اور برے کام سے روکتا ہے اور جو پاک و پاکیزہ چیزیں تو ان پر حلال اور ناپاک گندی چیزیں ان پر حرام کردیتاہے اور وہ (سخت احکام کا )بوجھ جو ان کی گردن پر تھا اور وہ پھندے جو ان پر ( پڑے ہوئے) تھے ان سے ہٹادیتاہے۔"

ان آیات سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ انبیاء کی نبوت کا مقصد عدالت کا اجراء لوگوں کو اندھیرے سے نکال کر روشنی کی طرف ہدایت کرنا ، ظالم حکمرانو ں سے نجات دلانا اور ان کو ایمان کے پرچم تلے جمع کرنا تھا ، اور یہ بات واضح ہے کہ ان مقاصد کو حکومت (اقتدار) کے بغیر حاصل کرنا ممکن نہ تھا ۔

نتیجہ کے طورپر ہمارے سامنے تین چیزیں آتی ہیں:

۱۔ اسلام ایک کامل نظام حیات ہے اورسیاست اس کا ایک اہم حصہ ہے۔

۲۔ انبیاء اور آئمہ(علیہم السلام) اس سیاست کو (جو کہ ایک کامل نظام حیات کا اہم حصہ ہے)رائج کرنے کیلئے بھیجے گئے ہیں۔

۳۔ اسلام نے غیبت کے زمانے میں ہم پر بھی اس سلسلے میں ذمہ داری ڈالی ہے

حضرت امیر المومنین اور سیاست

حضرت امیر المومنین- کی زندگی میں سیاسی روش کی بے شمار مثالیں ہیں۔مندرجہ ذیل سطروں میں ہم تین نکات پر روشنی ڈالیں گے ۔

الف۔حضرت امیر المومنین- کی سیاست یہ تھی کہ معاشرے کو اسلامی عدالت کے ساتھ چلایا جائے۔

امام کی سیاست یہ تھی کہ حاکمیت اور حکومت ہدف اور مقصد نہیں ہے بلکہ وسیلہ ہے اسلام کو بچانے کا اور اس کی سیاسی حکمت عملی کو انجام دینے کا ۔ اس سلسلے میں خود حضرت امیر امومنین- فرماتے ہیں کہ:

یہاں تک کہ میں نے خود اپنی آنکھوں سے دیکھا کچھ لوگ اسلام سے پلٹ گئے ہیں اور چاہتے ہیں کہ دین محمد(صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کو نابود کردیں(یہاں پر ) میں ڈرگیا کہ اگر اسلا م اور اہل اسلام کی مدد نہ کروں توشاید ان کی نابودی اور اسلا م میں شگاف کا منظر دیکھوں اور یہ مصیبت میرے لئے حکومت اور خلافت چھوڑنے سے زیادہ سخت ہے۔ (خطبہ ۲۶ نہج البلاغہ)

یہاں سے ہم امام- اور معاویہ کی سیاست میں فرق کو بھی سمجھ سکتے ہیں۔معاویہ اصلاح امور کے نام پر ہر چیز کرنے کو تیار تھا چاہے وہ اسلا م کے خلاف ہی کیوں نہ ہو جبکہ حضرت امیر المومنین- ہر کام کو انجام دیتے تھے مگر اسلام کے دائرے میں رہ کر۔

جب حضرت امیر المومنین- نے زمام حکومت کو ہاتھ میں لیا تو فرمایا کہ:

اگر خداکا عہد و پیمان نہ ہوتا علماء اور دانشوروں سے کہ وہ ظالموں کے بھرے پیٹ اور مظلوموں کی بھوک کے سامنے خاموش نہ رہیں ، میں خلافت کی رسی کو چھوڑدیتا اور اپنی آنکھیں بند کرلیتا9

معاویہ اپنی سیاست میں اگر مکرو فریب سے کام نہ لیتا تو کبھی بھی کامیاب نہیں ہوسکتا تھا ۔حضرت امیر المومنین- مشروع اور جائز سیاست میں کامیاب رہے لیکن نامشروع اور ناجائز سیاست میں کبھی آگے نہ بڑھے ۔ خود حضرت امیر المومنین- اس بارے میں فرماتے ہیں کہ :

خدا کی قسم معاویہ مجھ سے زیادہ سیاست دان نہیں ہے لیکن دھوکہ بازی اور گناہ کرتاہے اگر دھوکہ بازی ایک بری صفت نہ ہوتی تومیں تمام لوگوں میں سب سے زیادہ سیاست دان شخص ہوتا۔10

یا ایک اور جگہ ارشاد فرماتے ہیں کہ :

اگر دھوکہ دہی آتش جہنم کا سبب نہ ہوتی تومیں سب سے زیادہ فریب دینے والا انسان ہوتا11

کچھ لوگوں نے معاویہ کی حکومت کو دیکھتے ہوئے یہ سمجھا کہ معاویہ حضرت امیر المومنین- سے زیادہ عقلمند ہے البتہ ایسے لوگ عقل کی صحیح تعریف نہیں جانتے تھے۔

کسی نے حضرت امام صادق-سے پوچھا کہ عقل کیا ہے؟ حضرت نے فرمایا:

عقل و ہ ہے جس کے ذریعے سے خدا کی عبادت کی جائے اور بہشت کو خریدا جائے۔

پوچھنے والے نے پوچھا ، تو پھر معاویہ کی عقل کیا تھی ۔حضرت نے فرمایا:

"تلک النکراء تلک الشیطنة ، وھی شبیھة بالعقل ولیست بالعقل"

وہ دھوکہ بازی تھی و ہ شیطنت تھی وہ ظاہری شباہت عقل سے رکھتی تھی لیکن عقل نہیں تھی ۔12

ب۔ امام کی سیاست گمراہ افراد سے دوری

حضرت امیر المومنین- کی سیاست لوگوں کے ساتھ دو طرح کی تھی وہ افراد جو لائق اور قابل تھے ان کو اپنی طرف جذب کرلیتے تھے جیسے مالک اشتر، عمار(رحمۃاللہ)‘ یاسر(رحمۃاللہ)،کمیل بن زیاد وغیرہ اور جو افراد اس قابل نہیں تھے ان کو اپنے سے دور کردیتے تھے کیونکہ حضرت امیر المومنین- کی تربیت ایسے ماحو ل میں ہوئی جیسا کہ خداوند ارشاد فرماتاہے کہ :

" میں کبھی بھی گمراہوں کو اپنا بازو قرارنہیں دیتا13

سقیفہ کے برقرار ہونے کے بعد ابوسفیا ن جو کہ مختلف وجوہ کی بناء پر ابوبکر کی حکومت سے خوش نہیں تھا کچھ افراد کے ساتھ امام کے حضور آیا تاکہ حضرت- کی بیعت کرے اسی ضمن میں اس نے کہا کہ اگر آپ اجازت دیں تومیں عظیم لشکر کے ساتھ آپ کی حمایت کروں۔

امام- جو ابو سفیان کو اچھی طرح سے جانتے تھے اسکی ان باتوں میں نہیں آئے اور اسکے جواب میں فرمایا:

اے لوگو! فتنہ کی پہاڑ جیسی موجوں کو نجات کی کشتیوں سے توڑدو۔ اختلافات اور بکھرنے سے باز آؤ بلند پروازی اور برتری کے تاج کو اپنے سر سے اتار پھینکو14

امام- اپنی سیاسی بالا نظری کی وجہ سے جانتے تھے کہ یہ وقت حکومت ہاتھ میں لینے کا وقت نہیں اسی لئے جملہ کے بعد حضرت نے فرمایا:

کچے پھل کو توڑنا ایسا ہے جیسے نمکین زمین میں بیج بونا۔

ج۔ امام-کی سیاست ،آزاد منش افراد کی حمایت

امام نے ہمیشہ آزاد منش افراد کی حمایت کی اس سلسلے میں جو اہم واقعہ ہم کو امام- کی زندگی میں نظر آتا ہے وہ ابو ذر غفاری کی جلا وطنی کاہے ویسے تو کئی واقعات ہیں لیکن کیونکہ یہ واقعہ اس زمانہ کا ہے کہ جب امام- کے ہاتھ میں زمام حکومت نہیں اور حکومت وقت صحابی رسول کو جلاوطن کررہی ہے۔ مدینہ کے اندر کرفیو نافذ ہے خلیفہ وقت کی طرف سے حکم تھا کہ کوئی بھی ابوذر سے خدا حافظی نہ کرے اور اس نے مروان کو حکم دیاکہ جو کوئی بھی خداحافظی کے لئے آئے اسکو پکڑلو۔

لیکن اما م-نے حکومت کے ان احکامات کی پرواہ نہ کی اور اپنے فرزندان گرامی حسن-و حسین-، اپنے بھائی عقیل اور عمار یاسر کے ساتھ ابوذر کو رخصت کرنے کیلئے گئے ۔اسی اثناء میں کہ جب امام حسن- ابوذر سے باتیں کررہے تھے مروان نے پکارا کہ اے حسن- خاموش ہوجاؤ کیا خلیفہ کا حکم نہیں سنا کہ ابوذر سے باتیں کرنا منع ہے۔امام علی- نے آگے بڑھ کے مروان کے سامنے آئے اور فرمایا دور ہوجاؤ خدا تمہیں آتش جہنم میں ڈالے۔

امام- اور ان کے چاہنے والوں کا یہ کام صد در صد سیاسی تھا اور حکومت وقت کے خلاف تھا کیونکہ ابو ذر کا عمل حکومت کے خلاف صحیح ہے اور حکومت کا رویہ غلط ہے

حضرت امام حسن و امام حسین اور سیاست

حضرت امام حسن-اور سیاست:

حضرت امام حسن-کی سیاسی زندگی کا سب سے اہم واقعہ جو کہ ہر تاریخ نگار کی توجہ اپنی جانب مبذول کرتاہے وہ صلح امام حسن-ہے۔

جب دشمن ایک دوسرے کے روبرو قرا ر پاتے ہیں تو ان کا مقصد یہ ہو تاہے کہ اپنے آپ کو حق پر اور دوسرے کو باطل ثابت کرنے کی کوشش کریں اور اصل ہدف بھی یہی ہوتاہے لیکن جب تک انسان کاباطن لوگوں کے سامنے نہ آجائے یا یوں کہہ لیجئے کہ جب تک لوگ ہارنے والے یا جیتنے والے کے باطن سے آگاہ نہ ہوجائیں اس وقت تک اسکے بار ے میں صحیح رائے قائم نہیں کرپاتے اگر امام حسن- معاویہ سے جنگ کرکے جیت بھی جاتے تب بھی لوگ یہی خیال کرتے کہ شاید معاویہ حق پر تھا یا یہ کہ یہ جنگ ناحق لڑی گئی ۔لیکن امام حسن- نے معاویہ کے ساتھ صلح کرکے لوگوں کے سامنے اس کے باطن کی پہچان کروا دی۔

جب امام حسن- نے معاویہ کے بھیجے ہوئے سادے کاغذپر اپنی شرائط لکھ کردے دیں تو معاویہ کوفہ میں داخل ہوا اور اس نے لوگوں سے خطاب کرتے ہوئے یوں کہا:

"میں نے اس لئے تم سے جنگ نہیں لڑی کہ تم نماز اور حج بجالاؤ اور زکوٰة دو کیونکہ میں جانتا ہوں کہ تم لوگ یہ کام انجام دیتے ہو۔ میں نے اس لئے تمہارے ساتھ جنگ کی تاکہ تم کو اپنا مطیع اور فرمانبردار بناؤں اور تم لوگوں پرحکومت کروں"۔

اور اسکے بعد کہا:

یاد رکھو !اللہ نے ہمارے لئے ہماری بات کو درست کردیا ۔ہماری دعوت کو عزت دی ، تو اب جن شرطوں کو میں نے ماناتھا ان سب سے میں انکار کرتاہوں ،اور ہر وہ وعدہ جومیں نے تم میں سے کسی ایک سے بھی کیاتھا وہ میرے پیروں تلے روندا جاچکاہے۔

یہاں سے لوگ سمجھ گئے کہ کون اسلام کی خاطر جنگ کررہا تھا اور کس کو صرف حکومت چاہئے تھی۔

حضرت امام حسین- اور سیاست

حضرت امام حسین- نے صرف یزیدہی کے خلاف آواز بلند نہیں کی بلکہ معاویہ کے زمانے میں بھی آپ نے لوگوں کی توجہ اس بات کی طرف مبذول کروائی کے معاویہ خلافت اور حکومت کے لائق نہیں ہے۔

۵۸ئھ میں حج کے موقع پر آپ نے سر زمین منٰی میں بنی ہاشم اور انصار کے برجستہ افراد کی ایک کانفرنس بلائی جس میں ایک ہزار سے زیادہ افراد نے شرکت کی اس کانفرنس میں تقریر کرتے ہوئے حضرت نے فرمایا:

اس طاغوت (معاویہ)نے جو کچھ ہمارے اور ہمارے شیعوں کے ساتھ کیا ہے وہ سب آپ لوگ جانتے ہیں۔میں آپ سے کچھ پوچھنا چاہتا ہوں اگر سچ کہوں تو میری تصدیق کیجئے گا۔ اور اسکے بعد اپنے ملک یا شہر واپس جانے کے بعدمیری باتوں کولوگوں تک پہنچائے اور ان کو معاویہ کی بد اعمالیوں سے آگاہ کیجئے اور ظلم کے خلاف اٹھ کھڑے ہونے کی دعوت دیجئے مجھے اس بات کا ڈر ہے کہ اس حالت کے باقی رہنے کی وجہ سے حق نابود نہ

ہوجائے لیکن خدا اپنے نور کی تکمیل کرے گا چاہے کا فر یا فاسق اس کو پسند نہ کریں۱۵

کربلا کے واقعہ سے ۳ سال پہلے معاویہ کی زندگی میں امام حسین-نے حج کے موقع پر حکومت کے خلاف لوگوں کو قیام کی دعوت دی۔

 

کربلا:

امام حسین- کی کر بلا کی تحریک ایک مکمل سیاسی تحریک تھی اگر دین سیاست سے جدا ہو تا تو پھر امام حسین- کے لئے ضروری تھا کہ وہ مدینہ میں کونے میں بیٹھ جاتے اور عراق کی طرف حرکت نہ کر تے اس صورت میں کوئی بھی آپ سے کچھ نہ کہتا۔

اگر ہم کر بلا کے واقعے کی تحلیل کریں اور اس واقعے کا مطالعہ کر یں تو ہم کو مندرجہ ذل نکات کی صورت میں نتیجہ ملے گا۔

۱۔یزید نے امام حسین- سے بیعت لینا چاہی امام- نے انکار کر دیا۔

۲۔امام حسین- نے فوج جمع کر نے اور یزید کی حکومت کو ختم کر نے کے لئے عراق کی طرف کوچ کیا۔

۳۔امر بالمعروف اور نہی عن المنکر نے امام حسین- کو اس بات کی طرف مائل کیا کہ وہ ظلم و ستم کو جڑ سے اکھاڑنے اور عدل کو بر قرار کر نے لئے شہادت کی سرحد تک جہاد کریں۔

مندر جہ بالا تینوں چیزیں سیاسی حیثیت رکھتی ہیں اور اس کے ساتھ ساتھ عین دین بھی ہیں۔

امام حسین- ہر چند کہ ظاہری طور شکست سے دوچار ہوئے لیکن تا قیقام قیامت آگاہی اور روشنی کا ایک ایسا راستہ چھوڑ گئے۔ حق کے متلاشی انسان کے لئے صراط مستقیم کا سامان فراہم کرے۔

کیا خوب تجزیہ کیا ہے عربی زبان کے ادیب نے

"کربلا میں روز عاشور کامیابی ، ناکام ہونے والوں کے نقصان سے کہیں زیادہ ہے"۱۶

حضرت امام زین العابدین- اور سیاست

جب بھی ہم امام زین العابدین- کا ذکر کر تے ہیں تو ان کو بیمار امام- کی حیثیت سے پہچانتے ہیں ، اور اگر اس کے ساتھ سیاست کا ذکر بھی ہو جائے تو شاید ہم یہ ماننے کے لئے تیار نہ ہوں کے حضرت سجاد-نے کر بلا کے اس عظیم سانحہ کے بعد بھی سیاست میں حصہ لیا ہو گا۔

بنیادی طور پر ذلت اور غلامی سے آزادی ، عزت اور آزادی واپس لانے اور ایک بڑے انقلاب کے لئے زمین ہموار کر نے کے لئے لوگوں کو صحیح حقائق سے روشناس کر انے اور ان کے ضمیروں کو جگانے کے علاوہ کوئی راستہ نہیں ہے اس لئے ضروری ہے کہ لوگوں کو آگاہ کیاجائے اور پہچان کرائی جائے تاکہ وہ ذمہ داری کا احساس کریں اس طرح انقلاب خود بخود وجود میں آنے لگیں گے۔

اس کے پہلے قدم کو خود امام حسین- اور ان کے اصحاب نے کر بلا میں انجام دیا اور دوسرے مرحلہ کی ذمہ داری حضرت زینب(علیہا السلام) اور حضرت سجاد- کے کندھوں پر پڑی۔ اور فقط یہی ایک راستہ تھا کہ جس کے ذریعے سے نبی امیہ کی حکومت کی جڑوں کو کاٹا جا سکے۔ اس کی بہترین مثال امام سجاد- کا شام کے دربار میں وہ خطبہ تھا کہ جس سے پریشان ہو کر یزید نے موذن کو اذان دینے کا حکم دیا یہی خطبہ تھا جس کے سبب اس کو یہ اندیشہ ہوا کہ کہیں لوگ بغاوت نہ کر دیں آخر وہ کیا سبب تھا جس کی وجہ سے یہ تمام لوگ اس خدشہ کا اظہار کر رہے تھے یہ وہی آگاہی اور شناخت تھی اور احساس تھا کہ جس کی ذمہ داری امام سجاد- نے قبول کی تھا آپ- فرماتے ہیں :

جو مجھے جانتا ہے وہ جانتا ہے اور جو نہیں جانتا میں اس کو خود اپنی شناخت کروا دوں میں مکہ اور منیٰ کا بیٹا ہوں میں زمزم اور صفا کا بیٹا ہوں میں اس کا بیٹا ہوں کہ جس نے حجراسود کو عبا کے چار گوشوں سے اٹھایا میں اس کا بیٹا ہوں کہ جس نے احرام باندھنے کے بعد بہترین طواف اور سعی کی میں اس کا بیٹا ہوں جو انسانوں میں سب سے بہترین ہے میں اس کا بیٹا ہوں جو مسجد الحرام سے مسجد اقصیٰ کی طرف لے جایا گیا، میں اس کا بیٹا ہوں جو سدرة المنتہیٰ تک پہنچا، میں اس کا بیٹا ہوں جو آسمانوں کی سیر کے وقت حق سے اس قدر نزدیک ہوا کہ آواز آئی "قاب قوسین اوادنی" میں اس کا بیٹا ہوں کہ جس نے فرشتوں کے ساتھ نماز پڑھی میں اس کا بیٹا ہوں کہ جس پر خدائے بزرگ نے وحی نازل کی میں محمد(صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کا بیٹا ہوں علی مرتضیٰ-کا بیٹا ہوں میں اس کا بیٹا ہوں کہ جس نے مشرکوں سے اس قدر جنگ کی کہ زبان سے "لاالہ الا اللّٰہ"کہنے لگے میں اس کا بیٹا ہوں کہ جس نے رکاب پیغمبر(صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) میں دو تلواروں اور دو نیزوں کے ساتھ لڑائی کی اور ایک لمحہ کے لئے بھی خدا کی طرف کفر نہیں کیا میں اس کا بیٹا ہوں کہ جو مومنین میں صالح ترین، وارث پیغمبران ، کافروں کو نابود کر نے والا، مسلمانوں کا پیشوا اور رہبر، مجاہدوں کا نور ، عابدوں کا زیور و زینت ، گریہ کر نے والوں کا فخر ، صابروں میں صابر، بہترین جہاد کرنے ولاہے۔

میرے جد وہ ہیں کہ جن کے ساتھ جبرئیل ہے جن کا مددگار میکائیل ہے اور جو خود مسلمانوں کی ناموس کا حامی اور نگہبان تھا ، جس نے مارقین، ناکثین اور قاسطین کے ساتھ جنگ کی اور دشمنان خدا کے ساتھ جنگ کی۔ میں قریش کے بر ترین فرد کا بیتا ہوں کہ جس نے سب سے پہلے پیغمبر کی حمایت کی جو مسلمانوں میں سب سے آگے تھا، مشرکوں کو نابود کر نے والا، ولی امر خدا، حکمت الہیٰ کا باغ اور علم کا مرکز وہ تھا۔

میں فاطمہ الزہراء(علیہ السلام)کا بیٹا ہوں خواتین کی سردار کا بیٹا۔

یہاں پر امام- نے اس قدر گفتگو کی کہ لوگ رونے لگے وہ شام کے لوگ جو علی- کے دشمن تھے۔

ان تمام مراحل کو طے کرنے کے بعد امام کا دوسرا ہدف کر بلا کی تحریک کو زندہ رکھنا تھا لوگوں کو مظلومیت حسین- کا احساس دلانا تھا اس کام کو آپ- نے ایسے انجام دیا کہ ہر جگہ کر بلا کا ذکر کرتے ۔ آپ- نے اپنی انگوٹھی پر بھی اس ہدف کے تحت عبارت کندہ کروائی جو یہ تھی کہ

"خَزِیَ وَ شَقِیَ قَاتِلُ الْحُسَیْنِ بْنِ عَلِی "

رسوا اور بد بخت ہو جائے قاتل حسین بن علی-۔

حضرت امام صادق-سے نقل کر تے ہیں کہ آپ- نے فرمایا کہ امام سجاد- نے ۳۵سال تک اپنے والد کے مصائب پر گریہ کیا اس مدت میں دن کو روزے رکھتے تھے اور جب افطار کے وقت کھانا لایا جاتا تو آپ- گریہ فرماتے اور کہتے:

" فرزند رسول اللہ کو بھوکا قتل کیا گیا! فرزند رسول اللہ کو پیاسا قتل کیا گیا

ایک دفعہ حضرت امام سجاد- بازار سے گزررہے تھے کہ ایک شخص کی آواز سنائی دی"انار جل غریب فارحمونی"میں غریب مرد ہوں مجھ پر رحم کیجئے۔ حضرت کی توجہ اس کی جانب مبذول ہوئی آپ- اس کے قریب گئے اور پوچھا کہ اگر تقدیر میں یہ لکھا ہو کہ تم یہاں پر مر جاؤ تو کیا تمہارا جنازہ زمین ہی پر پڑا رہے گا اس نے جواب دیا اللہ اکبر کس طرح ممکن ہے کہ میرے جنازہ کو دفن نہ کریں جبکہ میں مسلمان ہوں ۔ امام- منقلب ہو گئے اور فرمایا:

کس قدر افسوس کی بات ہے اے پدر بزر گوار حسین- کہ آپ کا جنازہ تین دن تک بغیر دفن کے خاک پر پڑا رہا جب کہ آپ نواسہ رسول تھے۱۷

حضرت امام محمد باقر- اور سیاست

امام-کے زمانہ امامت میں بنی امیہ کے دو ایسے خلیفہ گزرے کہ جنہوں نے حکومت اسلامی میں علم کی ترویج کی۔ ولید بن عبدالملک اور عمر بن عبدالعزیز ۔ولید بن عبدالملک چونکہ خود زیادہ پڑھا لکھا نہیں تھا اس لئے شاید اپنی کمزوریوں پر پر دہ ڈالنے کے لئے علوم و فنون کی ترویج کی۔ لیکن عمر بن عبدالعزیز نے دانستہ طور پر حکومت اسلامی میں علمی شخصیات کو رائج کیا۔

ان خلفاء کی وجہ سے امام محمد باقر- نے حالات کو بہتر جانا کہ ایسے ماحول میں تعلیمات اسلام کو جو کہ ۱۰۰سالہ دور میں مسخ ہو کر رہ گئی تھیں دوبارہ زندہ کیا جائے۔

ٍ اس تھوڑے سے عرصے میں ان خدمات کا ذکر نہیں کر سکتا کہ جو حضرت امام محمد باقر- نے انجام دیں لیکن اتنا ضرور کہہ سکتا ہوں کہ وہ عظیم اسلامی مدرسہ جس میں شاگردوں کی تعدادچار ہزار تک پہنچی اور امام جعفر صادق-نے اپنے زمانہ میں چلا یا وہ حضرت امام باقر- کی کوششوں کا نتیجہ تھا۔

اس زمانہ کے خلیفہ ہشام بن عبدالملک نے حضرت سے واپسی پر مدینہ کے گورنر کو حکم دیا کہ امام باقر- اور ان کے فرزند جعفر بن محمد- کو شام کی طرف روانہ کر دو۔

حضرت مجبوراً اپنے فرزند ارجمند کے ساتھ شام کی طرف روانہ ہوئے اور دمشق پہنچے ہشام نے اپنا جاہ و جلال دکھانے کے لئے تین دن تک امام- کو ملاقات کی اجازت نہ دی بلکہ یوں کہنا چاہئے کہ تین دن تک امام کی عظمت کو کم کر نے کے حربے سوچتا رہا اور بالآخر اس نتیجہ پر پہنچا کہ جب امام- دربار میں داخل ہوں تو ان کے سامنے تیز اندازی کا ایک مقابلہ کرایا جائے اور امام- کو بھی اس میں شرکت کی دعوت دی جائے اور اس طرح جب امام- شکست کھا جائیں گے تو اہل دربار اس بات کا چرچا پورے شام میں کر دینگے ۔ جب امام- دربار میں داخل ہوئے تو خلیفہ کے کچھ افراد تیر اندازی میں مشغول ہو گئے امام- دربار میں تشریف فرما ہوئے کچھ دیر بعد خلیفہ نے امام- کی طرف رخ کر کے کہا کہ کیا تیر اندزی کے مقابلے میں شرکت کر نا پسند کریں گے۔

امام- نے جواب میں فرمایا کہ میں بوڑھا ہو گیا ہوں اور میرا تیر اندازی کا وقت گذر چکا ہے امام کا جواب سن کر تو خلیفہ کا اصرار اور بڑھ گیا اور خلیفہ نے امام- کی طرف تیر کمان بڑھانے کا اشارہ کیا امام نے بھی بلاجھجھک تیر کمان لے لیا، پہلا تیر چلایا جو سیدھا نشانہ پر لگا دوسرا چلایا جو پہلے تیر کو چیرتا ہوا ہدف پر لگا تیسرا تیر چوتھا تیر یہاں تک کہ امام- نے یکے بعد دیگرے نو تیر چلائے جو سب کے سب ہدف پر لگے یہ منظر دیکھنے کے بعد تمام درباری اور خلیفہ انگشت بدندان رہ گئے تھوڑی دیر کے بعد جب ہوش و ہواس بر قرار ہوئے تو خلیفہ نے امام- کو مخصوص جگہ پر بیٹھنے کی دعوت دی اور ادھر ادھر کی باتوں کے بعد پوچھا کہ جعفر (حضرت امام جعفر صادق-) بھی آپ کی طرح تیر اندازی جانتے ہیں؟

امام- نے جواب میں فرمایا:

"ہمارا خاندان اکمال دین اور اتمام نعمت کو جو الیوم اکملت کی آیت میں آیا ہے ایک دوسرے سے ارث میں لیتے ہیں اور زمین ہر گز ایسے افراد سے خالی نہیں رہے گی"۱۸

دوسرا واقعہ عیسائیوں کے پادری کے ساتھ مناظرہ ہے کہ جب آپ- دربار سے نکل کر واپس جانے لگے تو دیکھا بہت سے افراد مجمع لگائے کسی کا انتظار کر رہے ہیں پوچھا تو معلوم ہوا کہ عیسائی ہیں جو کہ مختلف مقامات سے آئے ہیں اور اپنے مسائل کا حل لینے کے لئے پادری کے انتظار میں ہیں حضرت بھی ان افراد کے مجمع میں بیٹھ گئے جب پادری آیا تو اس کی توجہ حضرت کے نورانی چہرہ کی طرف مبذول ہوئی پوچھا مسلمانوں ہو یا عیسائی جواب ملا کہ مسلمان نادانوں میں سے نہیں ہوں پادری نے پوچھا پہلے میں سوال کروں یا تم امام- نے فرمایا اگر چاہتے ہو تو سوال کرو پادری نے پوچھا کس وجہ سے مسلمان کہتے ہیں کہ اہل بہشت کھانا کھائیں گے لیکن ان سے کوئی اضافی چیز جسم سے خارج نہیں ہو گی کیا دنیا میں اس کی کوئی مثال ہے۔

امام-نے جواب میں فرمایا: اس کی روشن مثال ماں کے رحم میں بچہ کی ہے جو غذا کھاتا ہے لیکن کوئی اضافی چیز جسم سے خارج نہیں ہوتی ۔

پادری نے تعجب کا اظہار کیا اور کہا تم نے کہا تھا کہ دانشمندوں میں نہیں ہوں۔

امام- نے فرمایا: کہ میں نے یہ نہیں کہا بلکہ کہا تھا کہ نادانوں میں سے نہیں ہوں۔

پادری نے کہا ایک اور سوال ہے امام- نے فرمایاپوچھو اس نے کہا کس دلیل کی بنا پر کہتے ہو کی جنت کی نعمتوں میں جتنا خرچ کیا جائے کم نہیں ہو گا دنیا میں اس کی کوئی مثل ہے امام- نے فر مایا ہاں ہے اس زمانہ میں اس کی روشن مثال آگ کی ہے اگر ایک چراغ کی لو سے ایک ہزار چراغ بھی جلا لو تو اس کی روشنی کم نہیں ہو گی۔

پادری نے جتنے سوال تھے کر ڈالے اور سب کے جواب حاصل کر لئے اور جب اپنے آپ کو عاجز دیکھا تو غصہ کر کے چلا گیا۔

اس واقعہ کے بعد اہل شام میں خوشی کا احساس پھیل گیا اور امام کا معنوی اثر بڑھ گیا ہشام نے امام- کو تحفے تحائف بھیجے اور چونکہ امام- کے معنوی اثر سے پریشان تھا اس لئے خط لکھا کہ آپ آج ہی مدینہ کے لئے روانہ ہو جائیں۔

امام جعفر صادق- اور سیاست

امام جعفر صادق- کے زمانے میں بنی امیہ اور بنی عباس اقتدار کی جنگ میں مصروف تھے اس فرصت سے فائدہ اٹھاتے ہوئے آپ- اور آپ- کے والد بزرگوار حضرت امام باقر- نے اسلام کی تعلیمات کو پھیلانا شروع کیا اور اگر یہ کہا جائے کہ آپ دونوں نے اس زمانے میں پہلی اسلامی یونیورسٹی کی بنیاد رکھی ، تو کچھ غلط نہ ہوگا۔

اس یونیورسٹی کا مقصد خالص اسلام کی ترویج تھا اس کے ساتھ ساتھ امام صادق- نے اپنے زمانے کے خلیفہ کو یہ بات بھی سمجھانے کی کوشش کی کہ حکومت اور معاشرے کی رہبری ہمارا حق ہے۔

امام جعفر صادق- نے منصور دوانیقی کے زمانے میں جب کہ بنی عباس اپنی حکومت قائم کر چکے تھے لیکن حکومت کو مضبوط کر نے کے لئے ہر مخالف کو تہہ تیغ کر رہے تھے۔ حضرت- نے اس وقت بھی اپنے اقوال کے ذریعے سے خلیفہ تک یہ بات پہنچائی کہ حکومت اور معاشرے کی قیادت ہمارا حق ہے اس کے ساتھ ساتھ امام جعفر صادق- نے ان شیعان حید ر کرار کو جو ظلم و ستم کی وجہ سے یا پھر نادانی کی وجہ سے یہ سمجھنے لگے تھے کہ حکومت کوئی الگ چیز ہے اور دین ایک دوسری چیز، ان کے لئے بھی یہ بات واضح کر دی کہ حکومت حق ولایت ہے اور ولایت فقط ہمارے لئے ہے مثال کے طور پر امام- نے ایک دفعہ فرمایا کہ:

اسلام پانچ چیزوں پر قائم ہے نماز، زکوة ، حج، روزہ، اور ولایت۔

زرارہ نے امام- سے سوال کیا ان میں سے بر تر کون سی چیز ہے؟

امام- نے بلا جھجھک فرمایا:

"ولایت بر تر ہے کیونکہ ولایت تمام چیزوں کی چابی ہے اور حاکم، لوگوں کو ان کی طرف راہنمائی کر تا ہے"۱۹

کس وضاحت کے ساتھ امام- نے ان افراد کو جو کہ یہ سوچتے ہیں کہ دین اور سیاست دو الگ چیزیں ہیں یہ ثابت کر دیا کہ دین کا اجراء اور اس کا کمال حکومت کے بغیر ممکن ہی نہیں ہے، حکومت ہی ہے جو کہ حاکم اسلامی کو یہ اختیار دیتی ہے کہ وہ دین کا اجراء کماحقہ کر ے حکومت ہے جو کہ حاکم اسلامی کو یہ قدرت عطا کرتی ہے کہ وہ دین کے خلاف ہو نے والی ہر سازش کو ختم کر دے اس لئے ہمارا نظریہ یہ ہے کہ ہر ظالم و فاسق شخص خلافت کے عہدہ پر فائز نہیں ہو سکتا بلکہ اس کا متقی اور پر ہیز گار ہو نا ضروری ہے۔

اسی زمانے میں جب کچھ علماء نے بنی عباس کی حکومت کو اپنے فائدے حاصل کر نے کے لئے صحیح ثابت کر نے کی کوشش کی اور لوگوں کو سمجھانا چاہا کہ یہ حکومت صحیح ہے تو امام جعفر صادق- نے اس کے خلاف بھی اپنا جہاد شروع کیا اور اپنے اقوال کے ذریعے سے ایسے علماء کی مذمت کی جو ظالم اور جابر حکمرانوں کے دربار میں زندہ لاشوں کے عنوان سے جاتے تھے امام جعفر صادق- نے فرمایا:

فقہاء انبیاء کے نمائندہ ہیں اور جب بھی یہ فقہاء سلاطین کے دربار کے چکر لگا نا شروع کر دیں تو ان کو متہم کر و (یعنی اس کے صحیح عالم ہونے کے بارے میں شک کرو۔۲۰

کبھی امام- نے اپنے درسوں میں یا اپنی تقریروں میں رسول اکرم(صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) سے یہ حدیث نقل کر نی شروع کر دی کہ:

"فقہاء اس وقت تک انبیاء کے نمائندہ ہیں جب تک دنیا ان پر حاوی نہ ہو جائے۔ پوچھا گیا کہ یا رسول اللہ دنیا کب حاوی ہو گی تو فرمایا ظالم سلطان کی اطاعت کے وقت اور جب بھی تم ایسا دیکھو تو اپنے دین کو ان سے جداکر لو"۲۱

ایک دفعہ امام صادق- بازار سے گزر رہے تھے تو دیکھا کہ عذافر دوکان پر کھڑے کچھ خرید رہے ہیں امام- نے آگے بڑھ کر سلام کیا اور پوچھا عذافر سنا ہے کہ ابو ایوب اور ربیع (خلیفہ کے دو وزیر) کے لئے کام کر رہے ہو یاد رکھو قیامت کے دن تمہارا حال ان دو جیسا ہو گا سوچو اس وقت تمہاری کیا حالت ہو گی جب تم کو ظالم کی مدد کر نے والے کے نام سے آواز دے کر بلایا جائے گا یہ سنتے ہی عذافر کے چہرے کا رنگ بدل گیا۔

امام- نے پھر فرمایا کہ میں اپنی طرف سے کچھ نہیں کہہ رہا فقط اسی چیز سے ڈرا رہا ہوں جس سے خدا وند نے مجھ کو ڈرایا ہے۔

یہ کہنے کے بعد امام- آگے چل دئیے عذا فراس قدر متاثر ہوئے کہ کہتے ہیں کہ آخر عمر تک غمگین و افسردہ رہے۔۲۲

امام نے سربازار اپنے ماننے والے کی مذمت کر نے کے لئے اور ان کو سیدھا راستہ دکھانے کے لئے یہ بات کہی یقینا امام- یہ بھی چاہتے ہوں گے کہ جو افراد اطراف میں کھڑے ہوئے ہیں وہ بھی یہ بات سن لیں کہ ظالم کی مدد کر نا ایسا ہی ہے جیسا کہ خود ظلم کر نا۔

ایک اور موقعہ پر امام صادق- نے فرمایا:

"جو کوئی یہ چاہے کہ ظالمین باقی رہیں وہ ایسے ہے کہ جیسے وہ چاہتا ہو کہ خدا کی معصیت اور نافرمانی ہو تی رہے۔۲۳

ان اقوال کے ذریعے سے امام- لوگوں کو یہ بتا دینا چاہتے ہیں کہ اگر ہمارے شیعہ یا ہمارے ماننے والے ہمارا ساتھ نہیں دے سکتے کہ ہم ان ظالموں کو اقتدار سے ہٹا دیں تو ایسا نہیں ہے کہ ہم خاموش بیٹھ جائیں نہیں بلکہ ہمارا جہاد ظالموں سے جاری ہے اور وہ زبان کے ذریعے سے ہے جس کو ختم کر نے کا فقط ایک ہی طریقہ ہے کہ ہماری زبانوں کو کاٹ دیا جائے۔

امام صادق- ہی کے زمانے میں بنی عباس کی حکومت کے قیام کے بعد لوگوں میں یہ باتیں کی گئیں کہ اگر یہ حکومتیں صحیح نہیں ہیں تو کم از کم ان کے ساتھ مل کر لوگوں کی فلاح و بہبود کا کام تو کیا جا سکتا ہے ۔ بہت سے سادہ لوح افراد اس دھوکہ میں آگئے اور حکومت کا ساتھ دینا شروع کر دیا ۔ امام- نے حکومت کی اس حکمت عملی کو بھی فقط اپنے اقوال کے ذریعے سے شکست دی امام- نے ایک موقعہ پر ایک چھوٹا سا جملہ ارشاد فرمایا کہ

"حتیٰ مسجد کی تعمیر میں بھی ظالموں کی مدد نہ کرو"۔۲۴

حضرت امام جعفر صادق- نے معاشرے میں پھیلے ہوئے ان افراد کی بھی مذمت کی جو دولت کے لالچ میں جانتے ہوئے بھی کہ یہ حکمران غاصب اور ظالم ہیں ان کی مدح و سرا میں مشغول تھے۔

امام گرامی قدر فرماتے ہیں کہ:

"اگر کوئی ظالم حکمرانوں کی مدح کر ے اور اس کی دولت کے لالچ میں عزت کر ے تو وہ شخص اسی ظالم کا پڑوسی ہوگا آخرت میں"۔۲۵

لمحہ فکر یہ ہے ہم لوگوں کے لئے کہ آج ہم اگر کسی ایسے شخص کی مدح کریں کہ جس کے بارے میں ہم جانتے ہیں کہ وہ ظالم ہے لیکن کیونکہ وہ ہمارے ذاتی حقوق ہم کو دلادے گا یا پھر ہم کو کسی اچھی جگہ نوکری دلوا سکتا ہے اور ہم اس ظالم شخص کی مدح شروع کر دیں تو یاد رکھئے کہ ہماری جگہ بھی دوزخ میں ہو گی۔

جیسا کہ میں نے پہلے عرض کیا کہ آئمہ(علیہم السلام) بار بار لوگوں تک یہ پیغام پہنچا رہے تھے کہ حکومت اور ولایت ہمارا حق ہے اور ہم ہی اس منصب کے اہل ہیں۔ اسی ضمن میں امام- کی بھی سیاسی حکمت عملی کا تقاضہ یہی تھا کہ لوگوں تک یہ پیغام پہنچائیں کہ اول اسلام سے لے کر انتہا تک جتنے بھی خلیفہ آئیں گے اگر وہ ہمارے علاوہ کوئی ہو تو غاصب ہے۔ ان نظریات کا اظہار ایسا تھا جیسے شیر کے منہ سے شکار چھین لینا امام- نے حالات پر نظر رکھتے ہوئے اپنے بیانات اس طرح سے دیئے کہ افراد تک یہ بات پہنچ گئی اور وہ اس طرح سے ہوا کہ اس زمانے میں لوگ بنی امیہ یا بنی عباس کے خلفاء کو امیرا لمومنین کہہ کر پکارتے تھے ایک شیعہ نے آپ سے سوال کیا کہ کیا امام قائم (عج) کے ظہور کے بعد ان کو امیر المومنین کہہ کر سلام کر سکیں گے؟

امام- نے اس سوال کے جواب میں ایک پورا نظریہ دیااور فرمایا:

"یہ نام مخصوص ہے امیر المومنین حضرت علی ابن ابی طالب- سے ان سے پہلے نہ کسی کو اس نام سے پکارا گیا اور نہ ان کے بعد کسی کو اس نام سے پکارا جائے گا مگر کافر"۔۲۶

امام- نے کمال صراحت سے یہ بات لوگوں تک پہنچاد ی کہ جو بھی اپنے آپ کو امیرالمومنین کہلوائے وہ کافر ہے۔

اپنے آخر ی دور میں بھی امام- نے سیاسی نزاکتوں کو سمجھااور اس کے توڑکے مطابق عمل کیا۔ منصور دوانیقی نے آپ- کو بے انتہا پریشانیوں میں مبتلا کیا اور کئی مرتبہ آپ- کو قتل کر نے کی دھمکی دی آپ- نے منصور دواینقی کی ان ہی باتوں کو مدنظر رکھتے ہوئے اپنے وصی کی جان بچانے کے لئے ایک اور سیاسی حربہ استعمال کیا ۔

امام صادق- نے اپنی وصیت میں اپنے پانچ وصی مقرر کئے۔

۱۔ ابو جعفر منصور دوانیقی خلیفہ وقت

۲۔ محمد بن سلیمان (مدینہ کا گورنر )

۳۔ عبداللہ افطح (آپ- کے فرزند)

۴۔ موسیٰ بن جعفر(آپ-کے فرزند)

۵۔ حمیدہ (آپ- کی زوجہ محترمہ)

البتہ یہ وصیت جیسا کہ پہلے عرض کیا سیاسی تھی کیونکہ امام صادق- کے وصی اور جانشین امام موسیٰ کا ظم- تھے۔

جب امام- کے انتقال کی خبر منصور کو ملی تو اس نے اپنے ایک وزیر کو بلایا اور کہا کہ والی مدینہ کے نام خط لکھو۔

"یہ خط والی مدینہ محمد بن سلیمان کے لئے خلیفہ وقت منصور کی طرف سے ہے اگر جعفر بن محمد نے کسی خاص شخص کو اپنا وصی بنایا ہو تو اس کو اپنے پاس بلاؤ اور اس کا سر تن سے جدوا کر دو"۔

یہ خط والی مدینہ کے پاس پہنچا تو اس کا جواب کچھ یوں آیا کہ جعفر بن محمد نے پانچ افراد کو اپنا وصی بنایا ہے۔

۔ منصور دوانیقی1

۲۔ محمد بن سلیمان

۳۔ عبداللہ افطح

۴۔ موسیٰ بن جعفر

۵۔ حمیدہ۔ ۲۷

جب منصور کو یہ خط ملا تو اس نے کہا کہ

"میرے پاس ان افراد کو قتل کر نے کا کوئی راستہ نہیں "۔۲۸

ٍ اس کے علاوہ امام- نے ایک اور وصیت بھی کی کہ میری وفات کے سات سال بعد تک حج کے ایام میں عزاداری امام حسین- کی جائے اور اس عزاداری کے لئے آپ- نے اپنے مال کا کچھ حصہ مقرر فرمایا۔

یہ وصیت بھی سیاسی تھی کیونکہ ان مجالس کے ذریعے سے دوسرے افراد امام- کی مظلومیت سے با خبر ہوتے اور ان کو پتہ چلتا کہ کس طرح امام- پر ظلم ہوئے ہیں اور جب اس کے ذریعے ان کے دل اماموں کی طرف مائل ہوتے اور وہ آئمہ- کی زندگی کے بارے میں جستجو کر تے جس کا نتیجہ یہ نکلتا کہ لوگ باطل حکومت سے دوری اختیار کرتے اور صالح افراد لوگوں کے امور کو سنبھالتے۔

امام موسیٰ کاظم- اور سیاست

امام موسیٰ کاظم- کا زمانہ امامت ۳۵ سال پر محیط تھا اور اس دوران چار عباسی خلیفہ گزرے جن میں سے ہارون رشید نے سب سے زیادہ خلافت کی اور اسی خلیفہ نے امام موسیٰ کاظم- کو سب سے زیادہ تکلیف پہنچائی اور سب سے زیادہ پریشان کیا لیکن اسکے باوجود امام- کو جب بھی فرصت ملتی آپ حکومت کے خلاف سر گرم عمل ہوجاتے۔

امام موسیٰ کاظم- کی زندگی کے بارے میں بحث کرنے سے پہلے میں ضروری سمجھتا ہوں کہ آگ کی توجہ اس نکتہ کی طرف مبذول کراوٴں کہ آئمہ اطہار(علیہم السلام)کی زندگی میں آپ کو اکثر واقعات بار بار پڑھنے کو ملتے ہیں اسکی وجہ یہ کہ آئمہ(علیہم السلام)کی سیاسی زندگی تقریباً ایک جیسی تھی کیونکہ ہر خلیفہ وقت کا ہدف ایک تھا اور وہ یہ کہ ان شخصیات کو کسی نہ کسی طرح لوگوں سے جدا کردیا جائے۔یہ شخصیات عوام سے اپنا رابطہ مضبوط نہ کرسکیں کیونکہ اگر ایسا ہوگیا تو پھر ان کی حکومت کو خطرہ لاحق ہوجائے گا۔

اس کے مقابلے میں آئمہ(علیہم السلام)کا مقصد یہ تھا کہ لوگوں کو صحیح راستے کی نشاندہی کردی جائے ان کو کمال کا راستہ بتادیا جائے اس مقصد کو حاصل کرنے کے لئے آئمہ(علیہم السلام)نے کبھی بھی حکومت کو اپنے اور عوام کے درمیان روکاوٹ نہ بننے دیا آئمہ(علیہم السلام)نے چھوٹی ملاقاتوں میں جزئی مسائل کے جواب میں بھی لوگوں کی ہدایت فرمائی جیسا کہ پہلے امام صادق کا امیرالمومنین کے نام والا قصہ بیان کیا گیا کہ جس میں امام صادق نے ایک جزئی مسئلہ پر ایک کلی موضوع کوبیان کیا۔ان تمام اہداف اور مقاصد میں آئمہ(علیہم السلام)کا ایک مقصد یہ بھی تھا کہ عوام کو بتایا جائے کہ یہ حکومت غیر قانونی ہے۔یہ خلیفہ غاصب ہیں اور اس منصب کے حق دار نہیں ہیں۔

امام موسیٰ کاظم- کی زندگی میں بھی ہمیں ایسے واقعات کثرت سے ملتے ہیں جو کہ اسی مقصد کو حاصل کرنے کے سلسلے میں تھے۔مثال کے طور پر امام موسیٰ کاظم کا ایک ماننے والا جن کا نام صفوان تھا ان کے پاس اس زمانے میں اونٹ ہوا کرتے تھے جس کو وہ قافلے والوں کو کرائے پر دیتے تھے ایک دفعہ حج کے زمانے میں ہارون رشید نے ان اونٹوں کوکرائے پر لیا امام کوجب اسکی خبرملی تو امام نے صفوان کو بلایا اور پوچھا کہ کیا تم نے اپنے اونٹ ہارون رشید کو کرائے پر دئیے ہیں صفوان نے کہا جی مولا۔

امام نے فرمایا کہ پھر تو ضرور تمہاری یہ دعا ہوگی کہ جب تک اونٹوں کا کرایہ نہ مل جائے ہارون رشید اور اس کے دربار والے زندہ رہیں؟ صفوان نے جواب دیا جی مولا۔

امام- نے فرمایا:

"جو بھی ان کی بقاء کی دعا کرے گا وہ ان میں سے ہے اور جو ان میں سے ہے اسکا ٹھکانہ جہنم ہے"

صفوان نے جب یہ سنا تو چہرہ شرم سے سرخ ہوگیا توبہ کی اور اپنے اونٹ کسی کو بیچ دئیے

ہارون رشید کوجب اس کی خبرملی تو ہارون نے کہا کہ اگر صفوان سے پرانی دوستی نہ ہوتی تو اس کو پھانسی پر لٹکا دیتا۲۹

اسی کے ذیل میں امام صادق اور امام کاظم- کا ایک واقعہ ذکر کروں گا اور پھر جو چیز مقدمہ کے طور پر عرض کی گئی اس سے متعلق کچھ نتیجہ اخذ کریں گے۔

ایران کے شہر کا گورنر نجاشی تھا جو کہ شیعان اہل بیت میں سے تھا ایک دفعہ خلیفہ کے ظلم وستم سے تنگ آکر اور پریشان ہوکر امام صادق- کو خط لکھا اور اس میں حکومت کے ظلم وستم اورخلیفہ کی زیادتیوں کے بارے میں لکھا اور آخر میں امام سے درخواست کی کہ:

"میں یہ گورنری چھوڑنا چاہتا ہو ں کیونکہ ڈرتاہوں کہ میری آخرت کا کیا ہوگا آپ مجھ کو اجازت دیجئے کہ میں اس مقام کو چھوڑدوں"

امام- نے جواب میں تحریر فرمایا کہ:

تمہارا خط ملنے سے مجھے خوشی بھی ہوئی اور میں پریشان بھی ہوا خوشی اس وجہ سے ہوئی کہ میں نے اپنے آپ سے کہا کہ:

"خدا سے امیدوار ہوں کہ خدا تمہارے ذریعے سے آل محمدکے بے آسرالوگوں کوپناہ دے آل محمد کے بے بس لوگوں کو تمہارے ذریعے سے عزت دے آل محمد کے غریب لوگوں کو تمہارے ذریعے سے غنی کرے، ضعیف لوگوں کو قوی کرے اور دشمن کی آگ کو ان کی نسبت تمہارے ذریعے سے کم کرے"

میری پریشانی کا سبب یہ کہ:

"سب سے چھوٹی چیز جس کی وجہ سے میں پریشان ہو ں وہ یہ ہے کہ خدا نہ کرے کہ تم ہمارے دوستوں میں سے کسی سے بھی برا سلوک کرو اور اسکے نتیجہ میں خطیرہ القدس کی خوشبو سے بھی محروم ہوجاوٴ"۳۰

امام موسیٰ کاظم- کے ماننے والوں میں علی بن یقطین نامی ایک شخص تھا جو کہ خلیفہ کے دربار میں وزیرتھا ایک دفعہ خلیفہ کے ظلم وستم سے تنگ آکر امام موسیٰ کاظم- کو ایک خط لکھا کہ:

"خلیفہ کے ظلم وستم کی انتہا ہوچکی ہے میری برداشت سے باہرہے یہاں پر مجھے اپنا دم گھٹتا ہوا محسوس ہوتا ہے میں روز قیامت کے حساب وکتاب کے بارے میں سوچ کر اور پریشان ہوجاتا ہوں اگر آپ مجھے اجازت دیں تو میں یہاں سے فرار ہوجاوٴں اور کہیں چھپ جاوٴں۔"

امام موسیٰ کاظم- نے اسکے جواب میں تحریر فرمایا کہ:

"تم کو اجازت نہیں دوں گا کہ تم اس کام کو چھوڑدو جوکہ تم انکے دربار میں انجام دے رہے ہو بس خدا کو مت بھولنا"۳۱

اگر ہم پچھلے صفحوں پر ایک نظر ڈالیں تو ہم کو ایسے واقعات نظر آئیں گے کہ جس میں آئمہ(علیہم السلام)نے اپنے ماننے والوں کو خلفاء سے رابطہ برقرار کرنے پر سخت تنقید کا نشانہ بنایا تھا لیکن ان دو واقعات کی طرف نگاہ ڈالیں تو امام صادق- اور امام موسیٰ کاظم -گورنر اور وزیر کو اجازت نہیں دیتے کہ وہ حکومت چھوڑدیں وہ شخص جس نے اپنے اونٹ فقط کرائے پردے رکھے ہیں اس کواتنی مہلت بھی نہیں دیتے کہ وہ اپنے اونٹوں کا کرایہ لینے تک انتظار کرلے یا اگر کوئی کسی ذریعے سے وزیروں کے لئے کام کررہا ہے تو فرماتے ہیں کہ اسکی جگہ دوذج میں ہے آخر اسکا کیا سبب ہے؟آیا یہ دومخالف سوچیں ہیں؟ آیا یہ ایک دوسرے کے مخالف عمل ہیں؟ اگر نہیں تو پھر اسکا جواب کیا ہے؟

ان سوالوں کے جواب میں چند نکات بیان کروں گا جس کی بناء پر آئمہ اطہار(علیہم السلام) کے عمل میں یہ اختلافی چیزیں نظرآتی ہیں ان کی وجہ سے آئمہ(علیہم السلام)کے عمل میں کسی قسم کا کوئی تضادنہیں۔

وہ شخص جو کہ دربار میں یا حکومت کے ساتھ کام کررہاہے اسمیں مندرجہ ذیل صفات ہونی چاہئیں۔

۱۔ متقی اور پرہیز گارہونا۔

۲۔ ولایت آئمہ(علیہم السلام)پر ایمان ہونا۔

۳۔ غریب اور نادار لوگوں کی مدد کرنا۔

ٍ ۴۔ صاحبان ایمان کادفاع اور ان کی حفاظت کرنا۔

ٍ ۵۔ راز دار رہنا۔

اسی ضمن میں ایک اوراہم نکتہ کی طرف اشارہ کرتا چلوں اور ایک اورواقعہ حضرت امام موسیٰ کاظم- کی زندگی کے بارے میں بیان کروں ۔

خلفاء بنی عباس کی تاریخ کے اندر ہمیں کچھ ایسے خلفاء بھی ملتے ہیں جو بڑے نرم دل تھے، اور انہوں نے جو مال ان سے پہلے والے خلفاء نے غصب کیا تھا وہ واپس کردیا تھا، من جملہ ان میں فدک بھی تھا جو کہ انہوں نے واپس کرنے کی حامی بھری اس سلسلے میں واقعہ بعد میں بیان کروں گا۔ جس نکتہ کی طرف آپکی توجہ دلانا چاہتا ہوں وہ یہ نہیں ہے بلکہ وہ یہ کہ ان خلفاء کی نرمی اس وجہ سے نہیں تھی کہ وہ آئمہ اطہار(علیہم السلام) سے محبت کرتے تھے بلکہ پے درپے ظالم حکمرانوں کی وجہ سے عوام کے اندر غصہ بھرچکا تھا اور مختلف جگہوں سے حکومت کے خلاف تحریکیں شروع ہوگئی تھیں ان تحریکوں اور ان مخالفتوں کود بانے کے لئے خود حکومت کے مشیر ایسے خلیفہ کو چنتے تھے جو کہ کم ظلم کرے اور لوگوں کے غصب شدہ حقوق ان کو واپس دے دے،’اور یہی افراد جب دیکھتے تھے کہ عوام کا غصہ کم ہوگیا تو خود ہی اس خلیفہ کو زہر دے کرماردیتے تھے۔

مہدی عباسی(بنی عباس کا تیسرا خلیفہ)نے اپنے آباء واجداد کے گناہ پرپردہ ڈالنے کیلئے اور آزادی کی تحریکوں کو ختم کرنے کے لئے تخت پر بیٹھنے کے بعدعام اعلان کیا کہ اگر کسی کا حق میری گردن پر ہے وہ آکر اسکا مطالبہ کرے تو اسکا حق اس کو واپس لوٹادیا جائیگا۔

امام موسیٰ کاظم- نے جب یہ اعلان سنا تو مہدی عباسی کے پاس گئے اس وقت مہدی عباسی لوگوں کے حقوق ان کو واپس کرنے میں مشغول تھا۔

امام- نے اس کی طرف دیکھتے ہوئے فرمایا:

"کیا ہمارے چھنے ہوئے حقوق ہم کو واپس نہیں دیئے جائیں گے؟

مہدی عباسی نے کہا: آپ کے حقوق کون سے ہیں ۔

امام- نے جواب میں فرمایا کہ "فدک"

مہدی نے کہا کہ فدک کی حدود معین کر دیں تو میں فدک آپ کو واپس پلٹا دوں گا۔

امام موسیٰ کاظم- نے اس کے جواب میں فرمایا :

" فدک کی پہلی حدا حد کا پہاڑ ہے اس کی دوسری حد عریش مصر ہے اس کی تیسری حد خزر کے ساحل تک ہے اور اس کی چوتھی حد عراق اور شام ہے۔ (یعنی تمام حکومت اسلامی) "

مہدی عباسی نے تعجب سے پوچھا کہ یہ فدک کی حدود ہیں!

امام کاظم- نے فرمایا :ہاں

یہ سن کر مہدی عباسی اس قدر غصہ میں آیا کہ غصہ کے آثار اس کے چہرے سے عیاں تھے کیونکہ امام موسیٰ کا ظم- اس جواب کے ذریعے سے اس کو سمجھانا چاہتے تھے کہ حکومت اسلامی کی باگ ڈور ہمارے ہاتھ میں ہو نی چاہیے مہدی عباسی وہاں سے اٹھ کر جانے لگا اور زیر لب کہہ رہا تھا کہ یہ حدیں بہت زیادہ ہیں اس کے بارے میں کچھ سوچنا پڑے گا۳۲

امام رضا- اور سیاست

حضرت امام رضا- کا طرز زندگی بھی اپنے اجداد کی طرح تھا۔ آپ-نے بھی اپنی تمام زندگی ظالموں کے خلاف جہاد میں گزاری ، اور ان میں بنی عباس کے خلفاء سرفہرست تھے کہ جن کی خلافت کو آپ- نے کبھی بھی قانونی حیثیت نہیں دی۔

آپ- کے ایک صحابی سلیمان جعفری نے کہا کہ میں امام-کی خدمت میں حاضر ہوا اور سوال کیا کہ مامون کی حکومت سے تعلقات کے بارے میں آپ- کا نظریہ کیا ہے؟

حضرت امام رضا- نے جواب میں فرمایا:

"ان کی طرف عمداً اور جان بوجھ کر توجہ دینا گناہ کبیرہ میں سے ہے اور اس کی سزا آتش دوزخ ہی"۳۳

کیونکہ امام رضا- نے ولی عہدی کو قبول کر لیا تھا اس لئے بعض افراد کے ذہنوں میں یہ سوال پیدا ہو تاتھا لیکن سوال یہ ہے کہ حضرت امام رضا- نے کیوں ولی عہدی کو قبول کیا؟

اسلامی سلطنت میں بڑھتی ہوئی اسلامی تحریکوں کو دیکھ کر مامون کو یہ احساس ہونے لگا تھا کہ اب حکومت کو خطرہ لاحق ہے ، اور اس کی سب سے بڑی وجہ یہ تھی کہ حضرت امام رضا- مدینہ میں تھے اور آپ- کا رابطہ عام لوگوں سے مضبوط تھا مامون نے اس رابطے کو توڑنے کے لئے اور آپ- کو زیر نگرانی رکھنے کے لئے ایک چال چلی ۔

خراسان سے مدینہ خط بھیجا کہ میں حکومت کے تمام امور آپ- کو سونپنا چاہتا ہوں اس لئے آپ- خراسان تشریف لے آئیے ۔

مدینہ کے گورنر نے حالات کو کچھ اس طرح سے بنایا کہ امام- کو اپنی مرضی کے بغیر مدینہ چھوڑنا پڑا(البتہ تمام آئمہ اطہار- کے لئے مدینہ چھوڑنا بہت مشکل ہو تا تھا کیونکہ وہاں پر رسول خدا(صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) اور حضرت زہرا(علیہ السلام) کی مطہر اور منور قبریں ہیں )۔

جب حضرت امام رضا- مامون کے پاس پہنچے تو مامون نے آپ- کو خلافت کی پیشکش کی۔ آپ- نے بڑی سختی سے اس کو رد کر دیا تقریباًدو ہفتہ تک اس گفتگو کا سلسلہ جاری رہا ایک دن مامون نے کہا کہ میں خلافت سے استعفاء دینا چاہتا ہوں اور خلافت کے امور آپ- کے ہاتھ میں سونپنا چاہتا ہوں ۔

امام- نے اس کے جواب میں فرمایا:

"اگر یہ خلافت تمہاری ہے اور خدا نے اس کو تمہارے لئے قرار دیا ہے تو تمہارے لئے جائز نہیں ہے کہ جو لباس خدا نے تمہارے لئے سیا ہے تم اسے دوسرے کو پہنا دو اور اگر خلافت تمہاری چیز نہیں ہے توجائز نہیں ہے کہ جو چیز تمہاری نہیں ہے اس کو مجھے دے دو۳۴

مامون کا زور بڑھتا گیا اور آپ- کا انکار اپنی جگہ پر رہا مامون آپ کا انکار دیکھ کر کچھ نرم ہوا اور آپ- کو جانشینی کی پیشکش کی۔ آپ- نے اس کو بھی قبول کر نے سے انکار کر دیا مامون نے بہت زور دیا آخر کار نوبت یہاں تک پہنچی کہ اس گستاخ نے کہا کہ اگر آپ- نے جانشینی قبول نہیں کی تو میں آپ- کو قتل کر دوں گا۔

امام- نے اس کے جواب میں فرمایا کہ:

خدا نے مجھ کو منع کیا ہے کہ میں اپنے آپ کو ہلاکت میں ڈالوں اور اب جب کہ تم زبردستی کر رہے ہو تو میں اپنی شرائط کے ساتھ جانشینی کو قبول کروں گا:

۱۔ کسی کو کسی کے مقام سے ہٹاؤں گا نہیں اور کسی کو کسی کے مقام پر فائز نہیں کروں گا۔

۲۔ فتویٰ نہیں دوں گا۔

۳۔ قضاوت نہیں کروں گا۔

۴۔ وہ چیز جو کہ قائم ہے اس کو تبدیل نہیں کروں گا۔۳۵

یہ شرائط اس بات کی مکمل نشاندہی کر رہی ہیں کہ امام- نے مامون کی سیاست کو سمجھتے ہوئے اس کا جواب دیا مامون یہ چاہتا تھا کہ حضرت امام رضا- کو حکومت میں لاکر یہ ثابت کر دے عام مسلمان کے لئے کہ میری حکومت قانونی ہے اور شرعی ہے لیکن امام- نے اس کے مقابلے میں اپنی خاص روش اختیار کی اور یہ بات سمجھا دی کہ میرا مامون کی ظالم حکومت سے کوئی رابطہ نہیں ہے اور جانشینی فقط ایک عنوان کی حیثیت رکھتی ہے۔

امام- نے اپنی روش کے ذریعے سے دو چیزوں کی وضاحت کی۔

ٍ ۱۔ امام- مامون کی حکومت سے راضی نہیں تھے۔

۲۔ جانشینی کو قبول کر نا ظاہری تھا کیونکہ امام- کی نظر میں آپ کا زندہ رہنا معاشرے کے لئے ضروری تھا اور اس زمانے کے واقعات اس بات کی نشاندہی کرتے ہیں امام- نے یہ بات صریحاً بیان کر دی تھی کہ میں تم سے پہلے دنیا سے چلا جاؤں گا (یعنی مجھے جانشین بنا نا بے معنی ہی)امام- نے جانشینی کو قبول کر نے کے بعد محروم اور نادار فقراء اور مساکین کی تاحد امکان مدد کی اور ان کے حقوق ان کو دلوائے۔

اپنی مفصل نشستوں میں شیعہ مذہب کی حقانیت کو ثابت کیا اور تشیع کے اصولوں کو جو کہ دراصل خالص اسلام کے اصول ہیں روشن اور واضح کیا اور ان کو پھیلایا جس کی وجہ سے شیعت کو عروج ملا اور بہت سے علاقوں میں شیعت پھیل گئی یہی مسائل تھے کہ جو آگے چل کر اس بات کا سبب بنے کے آپ- کو زہر دے کر شہید کر دیا گیا۔

ان تمام شرائط کے با وجود امام- نے مامون کی سیاست کو سمجھا اور اس کو موقعہ پر ختم کر دیا اور اس کے مقابل اپنے آپ- کوجھکا یا نہیں ، لیکن اگر امام- ان تمام چالاکیوں کے سامنے سادگی سے بیٹھے رہتے اور سیاسی مسائل کو سمجھتے تو شاید وہ واقعات پیش نہ آتے جو کہ تاریخ میں ثبت ہوئے۔

ان تفصیلات کے ذیل میں ایک واقعہ بیان کر تا چلوں کہ کس طرح سے امام رضا- نے مامون کی مخالفت کی ہے امام- کو مدینہ اور حجاز سے یہ خبر دی گئی کہ وہاں پر مسلمانوں کی حالت بہت خراب ہے اور وہاں کے حکمرانوں نے بھی عوام پر ظلم کے پہاڑ توڑ دیئے ہیں۔

ایک دن مامون ہاتھ میں لمبا چوڑا سا خط لئے امام- کے پاس آیا اور اس خط کو پڑھا اس میں کابل کے اطراف کے کچھ علاقوں کی فتح کی خبر دی گئی تھی جب خط ختم ہو گیا تو امام- نے مامون سے پوچھا کہ:

"کیا تم مشرک اور کافر قوموں کی کچھ زمین کو فتح کرنے کی وجہ سے خوش ہو؟"

مامون نے تعجب سے پوچھا آیا ان شہروں کی فتح خوشی کی بات نہیں ہے؟

امام- نے اس کے جواب میں فرمایا:

"امت محمد کے سلسلے میں خدا کے فرمان کی مخالفت سے پرہیز کرواور اسی طرح سے قیادت کے سلسلے میں بھی جو کہ تمہارے ہاتھ میں ہے کیونکہ تم نے مسلمانوں کے امور کو تباہ و برباد کر دیا ہے اور عوام پر ایسے حکمرانوں کو مسلط کر دیا ہے جو کہ خدا کے فرمان کے خلاف کام کر تے ہیں اور تم یہاں پر بیٹھے ہوئے ہو اور مرکز وحی کو چھوڑ دیا ہے اور وہاں کے مظلوم عوام کی فکر میں نہیں ہو"۳۶

یہاں پر امام- نے مامون کو مبارک باد دینے کے بجائے اس کے نمائندوں کی بے عدالتی پر اس کو ڈانٹا اور مصلح کہنے کی بجائے ا س کوفاسد کہا۔

آئمہ اطہار (علیہم السلام) نے اپنے اصولوں پر کبھی سمجھوتا نہیں کیا کسی بھی زمانہ میں کسی بھی صورت حال میں ۔ آئمہ(علیہم السلام) کے ان ہی اصولوں میں مظلوم عوام کی حمایت تھی اور ان کی مدد کر نا تھی کبھی راتوں کو روٹیوں کی بوری کمر پر رکھ کر کبھی اندھے اور بوڑھے شخص کو کھانا کھلا کر ، کبھی جنگ کر کے اور کبھی درس و بحث کی محفلوں میں بیٹھ کر ، اس اصول کی حفاظت تمام آئمہ اطہار (علیہم السلام) نے اپنے حالات کے مطابق کی ۔ امام رضا- نے بھی گو کہ سیاسی صورتحال سے اس قدر مضبوط نہ تھے مگر اس کے با وجود بھی کس قاطعیت اور یقین کے ساتھ آپ- نے ظالم حکمرانوں کے سامنے مظلوم مسلمانوں کی حمایت کی۔

ایک دفعہ ایک زاہد اور متقی شخص نے چوری کی اور وہ پکڑا گیا جب اس کو مامون کے دربار میں لایا گیا تو اس نے مامون سے بحث مباحثہ شروع کر دیا بحث نے طول پکڑایہاں تک کہ آخر میں مامون نے امام- سے رائے معلوم کی امام- نے کمال صراحت کے ساتھ مامون کے جواب میں فرمایا کہ:

"خدا نے حضرت محمد(صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)سے کہا کہ "فللّٰہ الحجة البالغہ" "خدا کے لئے دلیل قاطع ہے۳۷

اور یہ حجت وہی ہے کہ جاہل اپنے جہل کے باوجود اس کو سمجھ لیتا ہے اور عالم اپنے علم کے ذریعے سے اس تک پہنچتا ہے اور دنیا اور آخرت حجت اور دلیل کی بناء پر ہے اور یہ مرد اس کے پاس بھی دلیل ہے"

یہ سننا تھا کہ مامون غصہ میں آگیا لیکن کیونکہ دربار میں تھا اس لئے اس زاہد کو رہا کر دیا اور لوگوں سے کنارہ گیری اختیار کر لی اور امام رضا- سے بھی ملاقاتیں بند کر دیں یہی سبب تھا کہ اس نے امام رضا- کو شہید کر وا دیا اس کے علاوہ امام- کے بہت سے اصحاب کو بھی شہید کر دیا۔ ۳۸

آئمہ اطہار (علیہم السلام)کی عملی زندگی کو اگر ہم دقت کی نظر سے دیکھیں یا کم از کم دیکھ ہی لیں تو پھر ہمارے لئے یہ سوال باقی نہ رہے کہ ہم کس شخصیت کو اپنے لئے معیار بنائیں کس روش کو اپنائیں کس تنظیم کو اختیار کریں ہمارے لئے راستہ روشن ہے صرف اس بات کی دیر ہے کہ ہم اس پر اپنی عملی زندگی میں عمل کریں ۔ اور سیرت آئمہ(علیہم السلام) کو یہ کہہ کر نہ چھوڑ دیں کہ ہم تو اس قابل نہیں اور یہ عمل تو فقط آئمہ (علیہم السلام)ہی انجام دے سکتے تھے اگر ہم یہ سوچ کر آئمہ(علیہم السلام) کی زندگی کو چھوڑ دیں تو میرے خیال میں یہ سب سے بڑا ظلم ہو گا جو کہ ہم ان کے حق میں کریں گے۔

امام محمد تقی- اور سیاست

امام محمد تقی- ۱۹۵ھ میں پیدا ہوئے اور ۳۰۳ئھ میں امام رضا- کے بعد ۸ سال کی عمر میں امامت کے منصب پر فائز ہوئے۔ آئمہ اہل بیت (علیہم السلام)کی تاریخ میں یہ پہلی دفعہ تھا کہ کسی امام کی امامت ۸ سال کی عمر میں شروع ہوئی ہو یا یوں کہہ لیجئے کہ بلوغ کی حدود تک پہنچنے سے پہلے امامت کے منصب پر فائز ہوئے ہوں (البتہ یہ آغاز تھا اس بات کا کہ باقی آئمہ (علیہم السلام) کوبھی کم سنی میں امامت ملے جسیے امام علی نقی- اور خود امام زمانہ(عج)کہ ان حضرات(علیہم السلام) کو بالترتیب ۸ اور ۵ سال کی عمر میں امامت ملی )یہی وجہ تھی کہ امام رضا- کی تاکید کے با وجود شیعوں میں بھی امام محمد تقی- کی کم سنی اختلاف کا باعث بنی تو چہ جائے کہ شیعوں کے مخالف افراد، اسی وجہ سے حکومت کے کارندوں نے لوگوں میں یہ بات پھیلانا شروع کر دی محمد بن علی رضا- میں امام بننے کی صلاحیت نہیں ہے اس طرح کی افواہوں سے حکومت کا مقصد یہ تھا کہ عوام کو امام سے دور کر دیا جائے، لیکن امام محمد تقی- نے اپنی کم سنی کے با وجود کیونکہ علم لدنی کے حامل تھے، خلیفہ کے اس جال کو بھی توڑنا شروع کر دیا آپ- نے اپنی علمی سر گرمیوں کو تیز کر دیا اور علمی محفلوں کی تعداد میں اضافہ کر دیا ۔

جب امام- خلیفہ کے اصرار پر مدینہ سے بغداد تشریف لائے تو خلیفہ نے فیصلہ کیا کہ اپنی بیٹی کی شادی آپ- سے کر دی جائے تاکہ امام- کی سر گرمیاں بھی زیر نظر رہیں اور شیعوں کے آنے جانے پر بھی نظر رکھی جا سکے لیکن خلیفہ نے اس کا کھل کر اظہار نہیں کیا جس کی وجہ سے اس کے دربار والے اس سے شکایت کر نے لگے کہ یہ تو ابھی کم سن ہیں اور اس کی معلومات دین کے متعلق کم ہیں خلیفہ نے کہا کہ اگر چاہتے ہو تو محمد بن علی- کا امتحان لے لو (کیونکہ خود خلیفہ کی بھی یہی خواہش تھی کہ اگر ہو سکے تو کسی طرح سے امام کو شکست دے کر عوام کے سامنے رسواء کر دیا جائے)دربار کے علماء نے یحییٰ بن اکثم جو کہ مشہور اور نامی گرامی فقیہ اور قاضی تھا کو آمادہ کر لیا کہ وہ امام- سے بھرے دربار میں ایسا سوال کر ے کہ امام- اس کا جواب نہ دے سکیں ۔ جب امام- دربار میں تشریف لائے تو یحییٰ بن اکثم نے خلیفہ سے اجاز ت لے کر امام- سے سوال پوچھا کہ اگر محرم (جس نے احرام حج باندھا ہوا ہے) حرم خدا کی حدود میں کسی جانور کو قتل کرے تو اس کا کفارہ کیا ہے؟

امام- نے ا سکے جواب میں اکثم سے سوال کیا کہ:

"محرم نے اس کو حرم میں شکار کیا ہے یا کسی اور جگہ؟ مارنے والا حکم کو جانتا تھا یا نہیں ؟ عمداً مارا ہے یا سہواً؟ آیا ابتداء اس کو مارا ہے یا دفاع کر تے ہوئے آیا شکار پرندوں میں سے تھا یا اس کے

علاوہ؟شکار چھوٹا تھا یا بڑا؟ شکاری اپنے عمل پر قائم ہے یا شرمندہ ہے؟ آیا شکار رات میں ہوا ہے یا دن میں ؟ آیا محرم حج عمرہ میں تھا یا حج واجب میں ؟"

یہ سوالات سن کر یحییٰ بن اکثم کے چہرے پر ہوائیاں اڑنے لگیں اور تاریخ لکھنے والوں کے بقول گھبراہٹ کے آثار یحییٰ کے چہرے پر اس قدر واضح تھے کہ دربار میں موجود ہر شخص نے اس کو محسوس کیا جب یحییٰ امام- کے سوال کا جواب نہ دے سکا تو خلیفہ نے امام- سے درخواست کی کہ آپ- ہی اس کا جواب دے دیجئے تو امام نے اپنے سوال کا تفصیل سے جواب دیا

معتصم عباسی خلیفہ کے زمانے میں کسی چور نے اپنی چوری کا خود سے اقرار کیا اور خلیفہ سے کہا کہ مجھ پر حد جاری کی جائے۔

خلیفہ نے علماء سے پوچھا کہ حد کا اجراء کہاں تک ہے قاضی احمد ابن داؤد نے کہا کہ میری رائے تو یہ ہے کہ کلائی تک حد کا اجراء ہو۔

خلیفہ نے پوچھا اس کی دلیل کیا ہے اس نے کہا کہ تیمم کے بارے میں خدا وندکا ارشاد ہے کہ "وامسحوا بوجوھکم وایدیکم" اوربہت سے علماء اس سے متفق ہیں اسی دوران میں خلیفہ نے محمد تقی- کو بلا بھیجا۔ کچھ دوسرے علماء نے اپنی رائے کا اظہار کر تے ہوئے کہا کہ ہاتھ کا کہنی تک کاٹنا ضروری ہے کیونکہ خدا کا ارشاد ہے کہ "ایدیکم الی المرافق" ان اختلاف آراء کے بعد معتصم نے امام- سے دریافت کیا کہ اے ابو جعفر- اس سلسلے میں آپ- کی کیا رائے ہے امام نے فرمایا کہ جو جماعت کہتی ہے معتصم نے کہا کہ آپ- اس کو چھوڑئیے میں آپ کو خدا کا واسطہ دیتا ہوں کہ آپ اپنی رائے بتائیے امام- نے فرمایا اب جب کہ تم نے مجھ کو خدا کی قسم دی ہے اس لئے یہ کہہ رہا ہوں کہ علماء نے جو رائے دی ہے اس سلسلے میں انہوں نے غلطی کی ہے ہاتھ کاٹنے میں واجب یہ ہے کہ ہتھیلی کو چھوڑ کر انگلیوں کو جڑ سے کاٹ دیا جائے معتصم نے پوچھا اس کی دلیل کیا ہے امام- نے فرمایا کہ رسول خدا کا ارشاد ہے کہ سجدہ سات اعضاء پر ہوتا ہے پیشانی ، دونوں ، ہتھیلیاں ، دونوں گھٹنے، دونوں پاؤں ،دونوں انگو ٹھے اگر چور کا ہاتھ کلائی یا کہنی سے کاٹ دیا جائے تو سجدہ کر نے کے لئے اس کا ہاتھ باقی نہیں رہے گا اور خدا کا ارشاد ہے کہ "ان المساجد للّٰہ۔۔۔"کہ جس سے مراد یہی سات اعضاء ہیں اور جو چیز خدا کے لئے ہوا س کو کاٹا نہیں جا سکتا معتصم امام- کا جواب سن کر بہت متاثر ہوا اور اس نے یہی حکم جاری کیا ۔

اس طرح سے اس دور میں کہ جب منصب امامت کو کم سنی کا الزام لگا کر لوگوں سے دور کیا جارہا تھا امام محمد تقی- نے عام درباروں اور محفلوں میں ان مسائل کا حل پیش کرکے لوگوں کے منہ بند کردیئے۔

امام علی نقی- اور سیاست

اسلام کے ابتدائی دور میں اسلامی معاشرہ محدود تھا اسلامی تعلیمات عام تھیں اور لوگ اسلام کے گرد جمع تھے یہ اسلامی تعلیمات ہی کا نتیجہ تھا کہ جس کی وجہ سے مسلمانوں نے وہ عظیم ایثار اور فدا کاری انجام دی ۔ لیکن جیسے جیسے خود خواہ افراد حکومت کے منصب کو سنبھالنے لگے اور اسلامی تعلیمات سے دور ہونے لگے تو لوگوں کا اعتماد بھی حکومت پر سے اٹھ گیا بلکہ آہستہ آہستہ لوگوں نے حکومت کے خلاف اپنی تحریکیں شروع کر دیں ۔

حکومت کو ہر دور میں سب سے زیادہ خطرہ آئمہ (علیہم السلام)سے تھا یہی وجہ ہے کہ ہر خلیفہ نے آئمہ (علیہم السلام) کواپنے زیر نظر رکھا اور ان کی چھوٹی سے چھوٹی حرکات و سکنات کی تحقیقات کیں۔ امام علی نقی- کے زمانے میں بھی صورتحال کچھ مختلف نہ تھی امام- کو زبردستی مدینہ چھوڑنے پر مجبور کیا گیا اور اس زمانہ کے دارالحکومت یعنی سامرہ میں بلالیا گیا تاکہ حکومت مکمل طور سے امام- کی سر گرمیوں پر نظر رکھ سکے۔ اسی انثاء میں حکومت اور خلفاء کی یہ بھی کوشش رہی کہ امام- کی حیثیت کو لوگوں کے سامنے کم کریں اور اس ہدف کو حاصل کر نے کے لئے انہوں نے مختلف طریقے اپنائے لیکن امام- نے کبھی اپنے علم سے کبھی زور امامت سے اور کبھی علم غیب کی مدد سے ان کے ان مقاصد کو خاک میں ملا دیا۔

متوکل نے ایک دن ہندی جادوگر سے کہا کہ اگر وہ امام- کو کھلے دربار میں بے عزت کر دے تو وہ اس کو منہ مانگا انعام دے گا۔ جادو گر نے کہا کہ امام- کو کھانے پر بلاؤ اور ہلکی روٹیاں پکا کر امام- کے سامنے رکھ دو اور مجھ کو امام- کے برابر میں بٹھا دو باقی کام میرا ہے۔ متوکل نے تمام علماء اور دانشوروں کو کھانے پر مدعو کیا من جملہ امام- کو بھی بلایا امام- آنے سے منع کیا لیکن پھر مجبوراً آنا پڑا جب دسترخوان بچھایا گیا تو جادو گر کو امام- کے برابر میں بٹھا دیا گیا امام- نے جیسے ہی روٹی اٹھانے کے لئے ہاتھ بڑھایا تو روٹی پھدک کر آگے چلی گئی امام- نے دوسری دفعہ ہاتھ بڑھایا تو پھر ویسے ہی ہوا امام- نے تیسری دفعہ ہاتھ بڑھایا تو پھر روٹی پھدک کر آگے چلی گئی اس عرصہ میں تمام دربار یوں کا ہنس ہنس کر برا حال ہو گیا۔

امام- نے جب یہ منظر دیکھا تو دربار میں موجود ایک شیر کی تصویر کی طرف اشارہ کیا اور فرمایا کہ اس جادو گر کو کھا جاؤ ۔ شیر تصویر سے باہر آیا اور جادو گر کو کھا کر واپس تصویر بن گیا یہ ماجرا دیکھ کر متوکل تو بیہوش ہو گیا اور باقی تمام افراد حواس باختہ ادھر ادھر فرار کر گئے جب خلیفہ کو ہوش آیا تو اس نے امام- سے درخواست کی کہ اس جادو گر کو واپس کر دیجئے امام- نے فرمایا کہ یہ کام نہیں ہو سکتا یہ کہنے کے بعد امام- واپس تشریف لے گئے۔

معتصم عباسی نے اپنے زمانے میں اسلامی فوج میں عرب اور فارس کی تعداد کم کر کے ترکوں کو بھرتی کر نا شروع کیا اور کچھ عرصہ میں ترک افراد فوج میں اکثریت میں ہو گئے۔ اور ان کا اثرو رسوخ حکومت پر زیادہ ہو گیا اور جب انہوں نے دیکھا کہ حکومت اپنی بقا کے لئے ان کی محتاج ہے تو انہوں نے حکومت پر اپنی خواہشات کو مسلط کر نا شروع کر دیا اپنے ارادہ اور خواہشات کی بناء پر ایک خلیفہ کو ہٹا کر دوسرے کو اس کا جانشین کر دیتے تھے صرف امام ہادی- کے ۳۳ سالہ دور امامت میں ان ترکوں نے چھ عباسی خلفاء کو حکومت سے بر کنار کیا اور دوسرے کو اس کا جانشین مقرر کیا جب معتز خلیفہ خلافت کے منصب پر فائز ہوا تو اس نے دربار کے نجومیوں سے کہا کہ حساب کر کے بتائیں کہ حکومت کتنے عرصہ بر قرار رہے گی۔ دربار کے مسخرہ نے کہا کہ یہ تو میں بھی بتا سکتا ہوں تو دربار والوں نے اس سے پوچھا کہ کب تک خلیفہ کی حکومت قائم رہے گی تو اس نے جواب دیا کہ جب تک ترک چاہیں گے۳۹

ترک اس قدر حکومت پر مسلط تھے اور امام محمد تقی ہادی- بھی اس چیز کو اچھی طرح سے جانتے تھے۔ ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ واثق کی حکومت کے دور میں عرب مخالفین کی سرکوبی کے لئے ترک کمانڈر کی زیر نگرانی فوج مدینہ بھیجی گئی ایک دن امام- نے اپنے اصحاب سے فرمایا کہ چلو ذرا چل کر نزدیک سے اس ترک کمانڈر کے لشکر کو تو دیکھیں آپ- اپنے اصحاب کے ساتھ سڑک کے کنارے کھڑے ہوگئے اور لشکر کے گزرنے کا انتظار کر نے لگے فوج کا کمانڈر جو کہ ترک تھا جب وہاں سے گزرنے لگا تو امام نے اس سے ترکی زبان میں کچھ کہا وہ کمانڈر اپنے گھوڑے سے اتر اور امام- کے پاؤں چومنے لگا جب وہ واپس جانے لگا تو ایک شخص نے اس سے کہا کہ اے شخص علی بن محمد- نے تم سے ایسی کون سی بات کہہ دی کہ جو تم اس قدر شدت سے ان کے فریفتہ ہو گئے اس کمانڈر نے کہا کہ یہ آقا کون ہیں ؟

انھوں نے پو چھا کیوں۔

کمانڈر نے کہا کہ اس شخص نے مجھ کو اس نام سے پکارا ہے جس سے میرے گاؤں کے لوگ مجھ کو بچپن میں پکارا کر تے تھے اور کوئی بھی شخص اس نام سے آگاہ نہیں ہے۔۴۰

حضرت امام حسن عسکری- اور سیاست

حضرت امام علی نقی- اور امام حسن عسکری- کو حکومت نے سامرہ بلوایا اس کی وہی سیاست تھی جو مامون نے امام رضا- کے ساتھ چلی تھی وہ یہ کہ امام کی سرگرمیوں پر نظر رکھ سکے۔ حکومت کی کوشش تھی کہ اس مضبوط زنجیر کو توڑ دیں جو کہ امام اور ان کے حامیوں کے درمیان بن چکی تھی حکومت نے امام سے کہا تھا کہ آپ حکومت سے اپنارابطہ برقرار رکھیں گے جس کے لئے امام کو ہر پیر اور جمعرات کو دربار میں جانا ضروری تھا۔ حکومت نے بظاہر کچھ عرصہ کی قید کے علاوہ امام- کو کوئی اذیت نہیں پہنچائی لیکن زمانے کی حالت کا اندازہ ہم مندرجہ ذیل واقعہ سے لگا سکتے ہیں۔

علی بن جعفر حلبی کہتے ہیں کہ ہم چھاؤنی میں جمع تھے اور منتظر تھے امام کے، کیوں کہ ان کو دربار میں جانا تھا کہ اتنے میں مجھے ایک رقعہ ملا جس پر لکھا تھا کہ:

"کوئی مجھ کو سلام نہ کرے کوئی تم میں سے مجھ کو اشارہ نہ کرے تم خطرے میں ہو"

یہ واقعہ بخوبی ہم کو حکومت کی سختی کے بارے میں بتاتا ہے کہ حکومت نے امام- اور شیعوں کے روابط کو کس قدر کنٹرول میں رکھا تھا۔

امام- نے حکومت کے ان ہی حربوں کو دیکھتے ہوئے اپنے بعد آنے والے امام کے لئے میدان فراہم کیا اور اصحاب کا ایک ایسا گروہ تیار کرلیا جو فقط خط و کتابت کے ذریعے سے آپ- سے رابطہ برقرار رکھتا تھا۔

آپ- نے تمام علاقوں میں اپنے وکیل مقرر کئے تھے جو علاقہ کے مسائل اور وہاں جمع ہونے والی رقم آپ- کے ان نمائندوں تک پہنچاتے تھے جن کا آپ سے رابطہ تھا اس سلسلے کی سب سے اہم شخصیت عثمان بن سعید عمری کی ہے جو امام زمانہ عج کے پہلے نائب خاص بھی تھے۔

خط بھیجنے کے لئے بھی امام- کے مخصوص افراد تھے جن میں ایک ابو الدیان تھے وہ کہتے ہیں کہ:

میں امام حسن عسکری- کا خدمت گزار تھا اور حضرت کے خطوط کو مختلف شہروں میں لے کر جاتا تھا آخری خط دیتے ہوئے امام- نے فرمایا کہ یہ خط مدائن لے کر جاؤ اور تم پندرہ دن میں واپس آؤگے جب پلٹو گے تو مجھ کو غسل دینے کی حالت میں پاؤگے ابو الدیان کہتے ہیں کہ میں نے ایسا ہی پایا۔

امام- نے اپنی وکالت کے جال کو منظم کیا اور اس کے دو مقاصد تھے۔

۱۔ شیعوں کی ہدایت راہنمائی کرنا، ان کی واجب رقم کی ادائیگی کے سلسلے میں تاکہ دین کی حفاظت ہوسکے۔

۲۔ ایسے افراد کی پہچان کروانا جن پر آپ- مکمل اعتماد کرتے تھے تاکہ معاشرے میں ان کی شخصیت بنے۔

بہرحال یہ افراد آگے چل کر امام زمانہ (عج) کی غیبت صغری اور پھر غیبت کبریٰ میں لوگوں کی رہنمائی کا ذریعہ بنے۔

اس طرح امام- نے ایک ایسے زمانے میں کہ جب آپ- پر حکومت کی کڑی نظر تھی ایک ایسا نظام قائم کرنے میں کامیاب ہوگئے جو امامت کی درپردہ شخصیت کے پیغام کو لوگوں تک پہنچاسکے۔

نتیجہ

آئمہ اطہار(علیہم السلام)کی زندگی کو اگر ہم دقت کی نظر سے دیکھیں یا اس کا مطالعہ کریں تو پھر ہمارے لئے یہ سوال باقی نہیں رہے گا کہ ہم کس شخصیت کو اپنے لئے مثال (آئیڈیل) بنائیں کس روش کو اپنائیں کس تنظیم میں شمولیت اختیار کریں ہمارے لئے راستہ روشن ہے صرف اس بات کی دیر ہے کہ ہم اس پر عمل کریں۔ آئمہ(علیہم السلام)کی زندگی کے ان پہلوں کو نظر میں رکھ کر ہم کو اب یہ فیصلہ کرنا ہوگا کہ ہماری شخصیت بحثیت شیعہ کے کیا ہے؟

کہیں ایسا تونہیں کہ آئمہ(علیہم السلام)کی محبت ہماری زبانوں تک ہی محدود ہو یایو ں کہہ لیجئے کہ ہم سال کے کچھ ہی دنوں میں ان کی طرف متوجہ ہوتے ہیں اور سال کے باقی حصہ میں ہماری زبان ان کے ساتھ مگر ہماری تلواریں (اعمال) یزید اور معاویہ کے ساتھ۔ سال کے باقی دنوں میں آئمہ(علیہم السلام)کی تعلیمات کا ہمارے آس پاس سے گزر بھی نہیں ہوتا اگر ہم چاہتے ہیں کہ ہمارے اعمال بھی آئمہ(علیہم السلام)کے ساتھ ہوں تواس کا فقط اور فقط ایک ہی پیمانہ ہے اور ایک ہی میزان ہے اور وہ ہے عمل۔ہر شخص اپنے عمل سے یہ بات ثابت کرتا ہے کہ وہ کس کا ماننے والا ہے۔

ہم سیرت آئمہ اطہار(علیہم السلام)کویہ کہہ کر نہ چھوڑدیں کہ ہم تو اس قابل نہیں اور یہ عمل تو فقط آئمہ(علیہم السلام)ہی انجام دے سکتے تھے۔اگر ہم یہ سوچ کر آئمہ اطہار(علیہم السلام)کی عملی زندگی کو چھوڑدیں گے یہ سب سے بڑاظلم ہوگا جو کہ ہم خود ان کے چاہنے والے آئمہ اطہار(علیہم السلام)پر کریں گے

والسلام علینا وعلی عباداللّٰہ الصالحین

(۱۲ صفر المظفر۱۴۱۵ھ)

---------------------------------------------------

حوالاجات

-1(سورئہ قصص :آیت ۸۱)

2(سورئہ نمل:آیت ۴۰)

3(غرر الحکم جلد ۱ ، صفحہ ۴۳۴)

4۔(حیاة الحسن باقر شریف قرشی جلد ۱ صفحہ ۴۲)

5۔(غرر الحکم جلد ۱ صفحہ ۴۳۴)

6۔(سورئہ حدید :آیت ۲۵)

7(سورئہ ابراھیم : آیت ۱)

8(سورئہ اعراف :آیت ۱۵۷)

9۔(خطبہ ۳ نہج البلاغہ )

10(خطبہ ۲۰۰،نہج البلاغہ)

11۔(منھاج البراعة جلد ۱۲ صفحہ ۳۶۶)

12(اصول کافی جلد ۱ صفحہ ۱۱ باب العقل والجہل جلد ۳)

13 "(کہف ۵۱)

14۔(خطبہ ۵ نہج البلاغہ)

۱۵۔(احتجاج طبرسی جلد ۲صفحہ ۱۸،۱۹)

۱۶(کتاب ابو الشہدا عباس عقاد صفحہ…… ۱۸۱)

۱۷۔ (مأساة الحسین تالیف شیخ عبدالوھاب ۱۵۲)

۱۸۔(حمد بن جدید بن رستم الطبری۔ دلائل امامہ نجف منشورات المطبوعة الحیدریہ ۱۳۸۳ھ (منشورات الرضی قم) صفحہ ۱۰۵)

۱۹(وسائل الشیعہ جلد ۱ صفحہ ۸۰۷)

۲۰)(کشف الغمہ جلد ۲ صفحہ۱۸۲)

۲۱ (اصول کافی جلد ۱ صفحہ ۴۲)

۲۲ (وسائل الشعیہ جلد ۱۲صفحہ ۱۲۸)

۲۳(وسائل شعیہ جلد ۲صفحہ۱۳۰)

۲۴(وسائل الشیعہ جلد ۱۲ صفحہ۱۳۴)

۲۵(وسائل الشیعہ جلد ۱۲ صفحہ ۱۳۳)

۲۶(اصول کافی جلد ۱ صفحہ ۴۱۳)

۲۷(اصول کافی جلد ۱ صفحہ۳۱۰)

۲۸(اعلام الوری صفحہ ۱۹۰)

۲۹۔(وسائل الشیعہ جلد ۱۲ صفحہ۱۳۱۔۱۳۲)

۳۰(وسائل الشیعہ جلد ۱۲ صفحہ ۱۵۲)

۳۱(وسائل الشیعہ جلد ۱۲ صفحہ۱۴۳)

۳۲۔ (بحار الانوار جلد ۴۸ صفحہ ۱۵۶)

۳۳وسائل الشیعہ جلد ۱۲ صفحہ ۱۳۸ بحار الانوار جلد ۷۵صفحہ ۳۷۴

۳۴۔عیون اخبار الرضا جلد ۲صفحہ ۱۳۹، ۱۴۰

۳۵(مناقب آل ابیطالب- جلد ۴ صفحہ ۳۶۳)

۳۶(عیون اخبار الرضا ج ۲ صفحہ ۱۵۹،۱۶۰)

۳۷(سورہء انعام : ۱۴۹)

۳۸(عیون اخبار الرضا جلد ۲صفحہ ۲۳۷، ۲۳۸)

۳۹۔(الفحزی صفحہ ۲۲۰تاریخ تمدن اسلامی جلد ۴ صفحہ ۱۸۰)

۴۰ (انور البھیہ صفحہ ۳۰۰)

Add new comment