علم اور علمائے کرام کی فضیلت

 

ہر دو جنس مذکور الصدر یعنی جربزہ اور جہل ِبسیط کی ضد یعنی حدِّ اعتدال قوّتِ عاقلہ کا نام حکمت ہے اور علمِ حقائق ِ اشیاء کو حکمت کہتے ہیں ۔ کوئی شک نہیں کہ صفتِ علم افضلِ اوصافِ کمال و اشرفِ نعمت ِ جمالِ نفسِ انسانی ہے بلکہ صفاتِ ربوبیت سے بالا تر ہے ۔ علم کے ذریعہ سے انسان کو قربِ خداوندِ عالم حاصل ہوتا ہے ۔ اسی کی وجہ سے ملائکہ مقرّبین میں داخل ہوتا ہے ۔ اس سے انسان کو حیاتِ ابدی و سعادتِ سرمدی وابستہ ہے بغیر معرفت و علم کے محرمِ حرمِ اُنسِ پروردگارِ عالم نہیں ہو سکتا ۔ بساطِ قربِ حضرتِ آفریدگار پر قدم نہیں رکھ سکتا ۔ حکمتِ حقّہ میں ظاہر کر دیا گیا ہے کہ علم و تجرّد ایک دوسرے کی گردن میں ہاتھ ڈالے ہوئے ہیں ۔ نفس میں صفتِ علم جس قدر زیادہ ہوتی ہے اسی قدر تجرّد بھی بڑھتا ہے ۔ مرتبۂ تجرّد بہت بلند مرتبہ ہے ۔ جو انسان کے لیے تصّور کیا گیا ہے کیونکہ تجرّد کے ذریعہ سے انسان اہلِ عالمِ ملکوت و سکّانِ قدسِ جبروت سے موافقت کرتا ہے ۔ منجملۂ علوم ۔ معرفتِ خداوند عالم ہے اور یہی معرفت سببِ ایجادِ عالمِ علوی و سفلی ہے ۔ جیساکہ حدیث قدسی میں وارد ہے :

کُنْتُ کَنْزًا مَخْفِیًّا فَاَحْبَبْتُ اَنْ اُعْرَفَ فَخَلَقْتُ الْخَلْقَ لِکَیْ اُعْرَفَ ۔

یعنی : ’’ میں ایک خزانہ پوشیدہ تھا میں نے چاہا کہ پہچانا جاؤں ۔ پس مخلوقات کو خلق کیا تا کہ مجھ کو پہچانیں ۔ ‘‘

علاوہ اس کے خود علم فی نفسہ لذیذ و محبوب ہے ۔ جو لذت اہل ِ علم کو حاصل ہرگز جاہل کو میسّر نہیں ۔ مسائل ِ علمیہ میں سے کسی مسئلہ کے سمجھنے میں جو خوشی حاصل ہوتی پے وہ ہرگز لذتِ جسمانیہ سے حاصل نہیں ہوتی ۔ دنیا میں علم کے فائدہ ظاہر ہیں ۔ اہلِ علم کو اخیار و اشرار کے نزدیک قابلِ عزت و اعتبار ہیں ۔ سلاطین کی گردنیں علماء کے سامنے خم ہیں ۔ حکمِ مطلق جلَّ شانہ نے اپنی حکمتِ کاملہ سے خاص و عام کی طبیعتِ کو اہلِ علم کی تعظیم و اطاعت اور فرماں برداری پر پیدا کیا ہے بلکہ تمام حیوانات اور درندے اِن انسانوں کے مطیع و مسخّر ہیں ۔ جو قوائے ادراک و تمیز سے مخصوص کیے گئے ہیں ۔ اگر بنظرِ تحقیق غور کرے تو معلوم ہوگا جو شخص دوسرے پر بزرگی و زیادتی جاہ و منصب و مال اور دولت میں تفوّق رکھتا ہے وہ زیادتی ادراک و تمیز کی ہی وجہ سے ہے ۔ اگرچہ مکر و حیلہ و شیطنیّت سے ہو ۔ علم کی شرافت و فضیلت میں آیات و احادیث بکثرت ہیں ۔ بمناسبتِ مقام اُن میں سے کسی قدر ذکر کیے جاتے ہیں ۔

پروردگار جلَّ شانہ فرماتا ہے : إِنَّمَا يَخْشَى اللَّهَ مِنْ عِبَادِهِ الْعُلَمَاءُ ﴿فاطر، 28﴾

یعنی : ’’ تمام بندگانِ خدا میں سے علماء ہی خدا سے ڈرتے ہیں ۔ ‘‘

هَلْ يَسْتَوِي الَّذِينَ يَعْلَمُونَ وَ الَّذِينَ لاَ يَعْلَمُونَ ﴿الزمر، 9﴾

یعنی : ’’ جو کوئی عالم ہے اور جو نہیں ہے ۔ یہ دونوں مرتبہ میں مساوی نہیں ہو سکتے ۔ ‘‘

وَ تِلْکَ الْأَمْثَالُ نَضْرِبُهَا لِلنَّاسِ وَ مَا يَعْقِلُهَا إِلاَّ الْعَالِمُونَ‌ ﴿العنكبوت‏، 43﴾

یعنی : ’’ یہ مثالیں تو ہم تو کُل آدمیوں کے لیے بیان کرتے ہیں اُن کو سوائے عالم کے اور کوئی نہیں سمجھتا ۔ ‘‘

وَ مَنْ يُؤْتَ الْحِکْمَةَ فَقَدْ أُوتِيَ خَيْراً کَثِيراً ﴿البقرة، 269﴾

یعنی ـ جس کو حکمت دی گئی اسے بہت کچھ خیر برکت عطا کی گئی ۔ ‘‘

حضرت رسول اللہ ﷺ فرماتے ہیں کہ : ’’ علماء ورثۂ انبیاء ہیں ۔ ‘‘

دوسری حدیث میں ہے کہ : ’’ خداوندا ! میرے خلفاء پر رحمت کر ۔ ‘‘

بعض نے عرض کیا کہ : ’’ یا رسول اللہ ﷺ ! آپ کے خلفاء کون ہیں ؟ ‘‘

فرمایا ’’ وہ لوگ ہیں جو بعد میرے آئیں ، میری حدیث و آداب کو روایت کریں اور دوسروں کو پہنچائیں ۔ ‘‘

نیز حضرت رسول اللہ ﷺ سے مروی ہے کہ فرمایا :

’’ اباؔذر ایک ساعت اس مجلس میں بیٹھنا جس میں گفتگوئے علم ہوتی ہو ۔ ۔ خدا کے نزدیک بیداریٔ ہزار شب سے جس میں ہر رات ہزار رکعت نماز پڑھی گئی ہو ۔ نیز راہِ خدا سے ہزار وقت جہاد کرنے سے اور بارہ ہزار ختمِ قرآن سے ، اور اس عبادت ِ یکسالہ سے کہ جس میں ہر روز روزہ رکھا گیا ہو اور ہر رات کو شب بیداری کی گئی ہو بہتر و محبوب تر ہے ۔ ‘‘

جو کوئی کسی مسئلہ کے دریافت میں گھر سے باہر نکلے تو ہر قدم پر خداوند عالم ثوابِ پیغمبر ؐ اور ثواب ِ ہزار شہید کا شہدائے جنگ میں سے لکھتا ہے ۔ جو ایک حرف عالم سے سنے یا لکھے ایک شہر بہشت میں اس کو عطا فرماتا ہے ۔ طالب علم کو خدا دوست رکھتا ہے ۔ اس کو ملائکہ و پیغمبراں دوست رکھتے ہیں ۔ علم اہلِ سعادت کا محبوب ہے ۔ طالبانِ علم کس قدر خوش نصیب ہیں ۔ عالم کے چہرے پر نظر کرنا ہزار غلام آزاد کرنے سے بہتر ہے ۔ جو کوئی عالم کو دوست رکھتا ہے بہشت اس پر واجب ہے ۔ اس کی زندگی خوشنودی خدا میں گزرتی ہے ۔ وہ دنیا سے نہیں جاتا ۔ جب تک کہ شرابِ کوثر نہ چکّھے ۔ اس کے بدن کو قبر میں کیڑے نہیں کھاتے ۔ وہ بہشت میں خضر کا رفیق ہوتا ہے ۔

حضرت امیر المومنین علیہ السلام سے مروی ہے کہ فرمایا : ’’ اگر مومن مر جائے اور اس سے کوئی ورق جس میں مسئلۂ علمیّہ لکھا ہو باقی رہے تو وہ ورق اس کے اور آتشِ جہنم کے درمیان حجاب ہوگا ۔ ہر حرف کے عوض میں جو اُس پر لکھا ہو ، خداوند عالم ایک شہر عطا کرے گا کہ وہ دنیا سے سات حصّہ بڑا ہوگا ۔ ‘‘

حضرت سیّد السّاجدین علیہ السلام نے فرمایا کہ :

’’ اگر تمام آدمی طالبِ علم کے فوائد سے واقف ہوتے تو ہر آئینہ طلبِ علم کرتے اگرچہ ان کے خون اور بدن ضائع ہوتے ۔ ‘‘

حضرت امام محمد باقر علیہ السلام سے مروی ہے کہ فرمایا : ’’ اگر آدمی فضیلتَ معرفت ِ خداکو جانتا تو متاع و نعمت ِ دنیا پر ہز گز نظر نہ کرتا ۔ تمام دنیا اس کے آگے حقیر ہوتی ۔ وہ معرفتِ الہی میں وہ لطف حاصل کرتا گویا کہ وہ اولیاء اللہ کے ساتھ بہشت میں جاگزیں ہے ‘‘

حقیقتا معرفتِ خدا ہر وحشت میں انیس ہے ۔ ہر تنہائی کی رفیق ہے ۔ ہر انھیرے کا نور ہے ۔ ہر ضعیف کی قوت اور ہر دوا کی شفا ہے ۔

حضرت امام رضا علیہ السّلام سے روایت ہے ۔ وہ حضرت اپنے پدرِ بزرگوار سے روایت فرماتے ہیں کہ ہر مسلمان پر علم کا طلب کرنا واجب ہے ۔ پس علم کو طلب کرو اس جگہ سے جہاں شبہ حاصل کرنے کا ہو حقیقتا عنداللہ علم حاصل کرنا نیک ہے ۔ اس کا طلب کرنا عبادت ہے ۔ جو کوئی نہ جانتا ہو اس کو یاد دلانا تصدیق ہے ۔ علم کا اہلِ علم تک پہنچانا تقرّبِ خدا ہے ۔ کیونکہ علم سے ہی مسائلِ حلال و حرام پہچانے جاتے ہیں ۔ اس سے بہشت کا راستہ ظاہر اور روشن ہوتا ہے ۔ علم ہر حالت میں رہنما ہے ۔ ہر دشمن کے مقابلہ میں سلاح ہے ۔ دوستوں کے نزدیک زینت ہے ۔ بوجۂ علمِ کے خدا مرتبۂ قوم کو بلند کرتا ہے ۔ ان کو نیکی طرف رہنمائی کرتا ہے تا کہ تمام آدمی ان کی متابعت کریں ۔ ان کے افعال و اعمال کی پیروی کریں ۔ ملائکہ ان کی دوستی و محبت میں رغبت کرتے ہیں ۔ ان پر اپنے پروں کا سایہ کرتے ہیں ، حقیقتا علم سے دل زندہ ہوتا ہے ۔ دیدۂ بصیرت روشن اور بدن ضعیف قوی ہوتا ہے ۔ علم منزلِ اخیار و مجالس ابرار میں درجاتِ بلند پر پہنچاتا ہے ۔ دنیا و آخرت میں ذکرِ علم کا ثواب روزہ کے برابر ہے اور سبق پڑھانا رات کی عبادت کے برابر ہے ۔ علم سے اطاعت و عبادتِ پروردگار حاصل ہوتی ہے ۔ انسان علم سے ہی صلہ رحم بجا لاسکتا ہے ۔ علم سے ہی حلال و حرام پہچانے جاتے ہیں ۔ علم پیشرو امام ہے ۔ عمل ،علم کا تابع ہے ۔ خداوندِ عالم اہلِ سعادت کو علم کا الہام کرتا ہے ۔ اہلِ شقاوت کو اس سے محروم رکھتا ہے ۔ خوشا حال اس کا جس کو خدا نے حظِّ علم سے محروم نہیں کیا ۔

واضح ہو کہ اس مقام پر دو فائدہ ہیں جن کا بیان کرنا ضروری ہے ۔

پَہلا فائدہ

تعلّم و تعلیم کے آداب و شرائط

جاننا چاہیے کہ تعلیم و تعلّم کے لیے کئی شرائط و آداب ہیں ، اور آدابِ تعلّم میں چند چیزیں ضروری ہیں :۔

پہلا یہ کہ :

طالب علم پیروئ شہواتِ نفسانیہ و خواہش ِ جسمانیہ و موافقتِ اہل دنیا اور مصاحبتِ صاحبانِ ہوا و ہوس سے پرہیز کرے ۔ جیسا کہ چشمِ ظاہر جس وقت نابینا ہو روشنی خورشید سے محروم رہتی ہے ۔ ویسا ہی دیدۂ باطن جب کہ متابعت ِ ہوس و ہوا و مصاحبتِ اہلِ دنیا میں مبتلا ہو انوارِ قدسیہ سے بے نصیب رہتا ہے ۔

دوسرا یہ کہ :

تعلّم کی غرض صرف یہ ہو کہ انسان تقرّبِ خداوندی حاصل کرے ، اور مرتبۂ بہائم سے ترقی کر کے عالمِ انسانیّت میں داخل ہوجائے ۔ اس کا مقصود خود نمائی و جدال یا حصُول ِ منصب و مال و افتخار نہ ہو ۔

حضرت امام جعفر صادق علیہ السّلام سے مروی ہے کہ طالبِ علموں کی تین قسمیں ہیں :۔

۱ : پہلی قسم کے لوگ دوسروں کو خفیف و استہزا و جدال کے واسطے طلبِ علم کرتے ہیں ۔ یہ طریقۂ جہالت ہے ۔

۲ : دوسری قسم یہ ہے کہ فخر و مکر کرنے کے لیے علم طلب کرتے ہیں ۔

۳ : تیسری قسم وہ ہے کہ دین میں بصیرت حاصل کرنے اور تکمیلِ عقل اور تحصیلِ یقین کے واسطے علم کے طالب ہوتے ہیں ۔

پہلی قسم والوں کی علامت یہ ہے کہ وہ اپنے برابر والوں سے جھگڑتے ہیں ۔ ان کی ایذا و غلبہ کے درپے ہوتے ہیں ۔ سرِ مجلس تعرّض کرتے ہیں ۔ تا کہ اپنی بزرگی ظاہر ہو اور مجلسوں میں ذکر علم و صفتِ حلم اور خضوع و خشوع کا اظہار کرتے ہیں ۔ کبھی سر جھکائے ہوئے آہِ سرد کھینچی جا رہی ہے ۔ سر اور ہاتھ سے عجیب عجیب حرکتیں ظاہر ہوتی ہیں ۔ چلتے وقت کمر جھکائی جاتی ہے ۔ ان کا دل پرہیزگاری سے اور ان کا باطن تقویٰ سے خالی ہے ۔ خداوند عالم ان کو ذلیل و خوار کرتا ہے ۔ خاک پر ان کی ناک رگڑواتا ہے ۔ ان کو ضائع و ہلاک کرتا ہے ۔

دوسری قسم کی علامت یہ ہے کہ وہ صاحبِ مکر و حیلہ ہوتے ہیں ۔ اپنے برابر والوں سے تکبّر کرتے ہیں ۔ توانگرانِ پست مرتبہ سے تواضع و فروتنی کے ساتھ پیش آتے ہیں ۔ ان کے لقمۂ تر کھا کھا کر ان کے اور اپنے دین کو ضائع کرتے ہیں ۔ خدا ان کے نام کو دفترِ علماء سے مٹاتا ہے ۔

تیسری قسم والوں کی علامت یہ ہے کہ وہ ہمیشہ محزون و غمگین رہتے ہیں اور شب بیداری کو اپنا شعار بنا کر جامۂ عبادت پہن کر اندھیری راتوں میں عند اللہ پروردگار کی پوشیدہ عبادت کرتے ہیں ۔ اپنی تقصیر سے خائف اور ترساں اور ہمیشہ اپنے اعمال سے مضطرب و لرزاں رہتے ہیں ۔ وہ خدا کو پکارتے ہیں اور ڈرتے ہیں کہ ان کی شنوائی ہوتی ہے یا نہیں اور ہمیشہ اپنے نفس کی اصلاح میں متوجہ رہتے ہیں ۔ خدا وند عالم ان کے اعضاء و جوارح کو عمل کے لیے مضبوط کرتا ہے ۔ ان کو امان و آسائش روز قیامت عطا کرتا ہے ۔

تیسرا یہ کہ :

جو کچھ سمجھا اور معلوم کیا اس پر عمل کرے ۔ جو شخص اپنے علم پر عمل نہ کرے تو وہ جو کچھ جانتا ہے بھُول جاتا ہے ۔ اور جس نے اپنے علم پر عمل کیا تو اس علم سے جس کو وہ نہیں جانتا ہے خدا اس کو کرامت فرماتا ہے ۔

حضرت امام زین العابدین علیہ السّلام سے مروی ہے کہ :’’ جس علم کے ساتھ عمل نہ ہو اس سوائے کفر دوریٔ خدا و پیغمبر کے اور کچھ حاصل نہیں ہوتا ۔‘‘

حضرتِ پیغمبرؐ نے فرمایا کہ : ’’ جس عالم نے اپنے علم پر عمل نہ کیا ہو ۔ اُس کی بُو سے اہلِ دوزخ ایذا پاتے ہیں ۔ ‘‘

نیز فرمایا کہ : ’’ سب سے زیادہ حسرت و پشیمانی اس شخص کی بڑھی ہوئی ہے ۔ جس نے دوسرے کو خدا کی طرف دعوت دی اس نے اس دعوت کو قبول کیا اور داخلِ بہشت ہو گیا ۔ خود اسی داعی نے اپنے علم پر عمل نہ کیا اور مستوجب دوزخ ہُوا ۔ ‘‘

چوتھا یہ کہ :

اپنے استاد کے حقوق کو پہچانے ۔ اس کا ادب کرے ۔ فروتنی و توضع سے پیش آئے ۔ اس کی کوئی بات رو نہ کرے ۔ اس کو دل سے دوست رکھے ۔ اگر اس کی بدی مذکور ہو تو رد کرے ۔ اگر عد نہیں کر سکتا تو وہاں سے اٹھ جائے ۔ اس کے حقوق کو فراموش نہ کرے ، کیونکہ وہ اس کا پدرِ معنوی و روحانی ہے ۔ اس کے حقوق اصل باپ سے زیادہ ہیں ۔ ایسا ہی دوسرے علماء کا ادب اور احترام کرے ، خصوصاً جن سے فائدہ اٹھایا ہے یا ان کا علم جس ذریعے سے پہنچا ہے ۔ وہ بھی پدرِ بالواسطہ ہیں ۔ جب کوئی مطلب فوراً فہم ناقص میں نہ آئے تو ان پر زبانِ اعتراض و طعن نہ کھولے ۔ ان کو غلطی سے نسبت نہ دے اگر بعد کوشش کے بھی اس کا کوئی مطلب اس کی نظر میں صحیح نہ معلوم ہو اور اعتراض کرنا چاہتا ہو تو طریقۂ نیک ، اور نرمی سے دریافت کرے ۔

پانچواں یہ کہ :

اپنے نفس کو اخلاقِ رذیلہ و اوصافِ ذمیمہ سے پاک کرے ۔ کیونکہ جب تک کہ لوحِ نفس نقوشِ باطلہ سے پاک نہ ہو نُورِ علوم اُس پر نہیں چمکتا ۔ جب تک کہ آئینۂ دل صفاتِ رذیلہ کے زنگ سے صاف نہ ہو صورتِ علم اُس میں ظاہر نہیں ہوتی ۔ اسی طرح آدابِ تعلیم میں بھی چند اُمور ہیں :۔

پہلا یہ کہ :

استاد تعلیم میں خوشنودی خدا کا قصد رکھتا ہو ۔ اس کی غرض درس دینے میں حصُولِ مرتبۂ بزرگی و شہرت و خودنمائی نہ ہو ۔ یا وظیفۂ سلطان یا دُوسروں کے مال کی طمع نہ رکھتا ہو بلکہ سوائے نظرِ ثواب کے کوئی دوسری چیز اس کو منظور نہ ہو ۔ کوئی شک نہیں کہ ج کسی کو تعلیم دے وہ ثواب میں اس کے شریک ہوگا جس کو اُس نے تعلیم دی ہے ۔ ایسا ہی بوجہ ایک تعلیم کے ثواب بے انتہا حاصل ہوتا ہے ۔

دوسرا یہ کہ :

شاگرد پر استاد مہربان ہو ۔ اس کو نصیحت مثلِ دوستوں کے کرے سبق دینے میں بقدر اس کو سمجھ کے اکتفا کرے ۔ نرمی و کشادہ روی سے بات کرے ، سختی سے پیش نہ آئے ۔

تیسرا یہ کہ :

جس کسی کو علم کے لائق جانے تو اس سے مضائقہ نہ کرے ۔ سبق دینے میں بدگمانی و بخل سے کام نہ لے اور جب کسی کو کسی مطلب کا قابل نہ جانے تو اس سے وہ مطلب بیان نہ کرے ۔

چوتھا یہ کہ :

خلافِ واقعہ مطلب طالب علم سے بیان نہ کرے ، بلکہ جس مطلب کو نہیں جانتا یا خود کسی مسئلہ میں شبہ رکھتا ہے تو ایسے مقام پر سکوت کرے اور ٹھہر جائے ۔ یہاں ت جواب صحیح حاصل ہو ۔ یہ جوابِ صحیح طالب علم کے سامنے بیان کرے ۔ تعلیم میں یہی شرط اہم ہے ۔ کیونکہ اگر شاگرد کے ذہن میں خلافِ واقعہ اُمور نقش کر دیے جائیں تو پھر اسے عادت پڑجاتی ہے ۔ اس کی طبیعت کجی اختیار کرتی ہے ۔ وُہ ترقیاتِ علمیّہ سے محروم رہ جاتا ہے ۔

یہ چند شرائطِ تعلیم و تعلّم بطور کلیّہ بیان ہوئے ۔ باقی دوسرے آداب جزئ احادیث و علمِ اخلاق میں تلاش کرنے سے معلوم ہوتے ہیں ۔ لیکن افسوس اس زمانہ میں آدابِ تعلیم و تعلّم دوسرے اوصاف ِ کمالیہ کے مانند نابوُد ہیں ۔ اُستاد اور شاگرد دونوں شرائط سے واقف نہیں ہیں ۔ اسی نا اہلی سے زمانہ خراب ہو رہا ہے ۔ ہدایت کی کساد بازاری ہے ۔ نہ اُستاد کی نیّت خالص ہے ، نہ شاگرد کی ۔ یہی وجہ ہے کہ ہزار میں سے ایک کو بھی مرتبۂ کمال حاصل نہیں ہوتا ۔ باوجودیکہ عمر کا زیادہ حصّہ درس وتدریس میں بسر ہوتا ہے ۔ اُس پر بھی جہالت سے ایک قدم آگے نہیں بڑھتا ۔

ــــــــــــــــــــــ

دُوسرا فائدہ

علوم کے اقسام جو ممدوح و مذموم ہیں اور جن کا بقدرِ عقائد و ضرورت حاصل کرنا لازم ہے

واضح ہو کہ تمام علوم سے اگرچہ روح کو کمال اورنفس کو جمال حاصل ہوتا ہے ۔ لیکن بلحاظِ شرافت و وجوبِ تحصیل ان میں فرقِ مراتب موجود ہے کیونکہ علوم دو طرح کہ ہیں :۔

پہلا ۔ علمِ دُنیا

یعنی وہ علوم جن میں دنیا کا فائدہ ہے ۔ مثلاً علمِ طب و ہندسہ و نجُوم و عروض و موسیقی و ہئیت و حساب ۔ اِن علوم سے کوئی خوشی و سعادتِ عقبیٰ حاصل نہیں ہوتی ۔ اس لیے ان کا حاصل کرنا واجب نہیں ۔ ہاں بعض مسائل کی تحصیل میں بعض علوم واجبِ کفائی ہیں ۔

دُوسرا ۔ علمِ آخرت

کہ اس کا نتیجہ ٔ اصلی حصولِ سعادتِ اُخرویہ ہے ۔ یہ تین علم ہیں ۔

جن کو علمِ دین کہتے ہیں :

۱ : علمِ الہٰی جس سے اصُول ِ دین یعنی معرفت مبدو معاد کا تعلق ہے ۔ یہ تمام علوم سے اشرف و افضل ہے ۔

۲ : علمِ اخلاق جس سے تحصیلِ راہِ سعادت ہوتی ہے اور مہلکاتِ نفسیّہ پہچانے جاتے ہیں ۔ علمِ الہٰی کے بعد اس علم سے کوئی علم افضل و اشرف نہیں ہے ۔

۳ : علمِ فقہ جس سے عبادت و معاملہ و حلال و حرام و آداب و کیفیتِ احکام سمجھ میں آتی ہے ۔

ان تینوں علموں کا حاصل کرنا واجب و لازم ہے ۔ ایسا ہی وہ علوم جن سے تحصیلِ علومِ مذکورہ کی استعداد ہوتی ہے ۔ مثلاً علمِ لغتِ عرب و تفسیر وغیرہ ۔ لیکن اِن علوم ( لغت وغیرہ ) کا وجوب من باب المقدمہ ہے ۔

اب رہا علمِ الہٰی یعنی علمِ اصولِ عقائد اس کا جاننا ہر شخص پر واجب ہے ۔ اور عذرِ جہالت اس مقام پر مسموع نہیں ۔ لیکن اس سے یہ مطلب نہیں ہے کہ اس علم کے تمام مسائل ِ حکمیّہ کا سیکھنا ہر شخص پر واجب ہے ۔ بلکہ اس کی مقدارِ واجب جس پر کہ امّتِ مرحومہ کا اجماع ہے یہ ہے کہ انسان اس امر کا یقین کر لے کہ عالم کا پیدا کرنے والا موجود واجب الوجود ہے ۔ اُلوہیّت میں اس کا کوئی شریک نہیں وُہ اجزاء ترکیب و جسمیّت و عوارض سے پاک ہے اس کا وجود عین ذات اور اس کی ذات عینِ صفات ہے ۔ زمان و زمانیات ، مکان و مکانیات پر مقدّم اور ان سے بالا تر ہے ۔ نہ کسی زمانہ نے اس پر احاطہ کیا ہے ۔ نہ کوئی مکان اس کے لیے ہے ۔ دستِ تصرّف زمان و زمانیات اس کے دامنِ کبریائی سے کوتاہ ہے ۔ وہ زندہ و قدیم و ازلی ہے ۔ اُس کے وجود کی کوئی ابتداء نہیں ہے ۔ وہ ہمیشہ سے ہے ۔ وہ ہمیشہ سے ہے جس کی انتہا نہیں ہے ۔ ہر چیز پر وہ قادر اور ہر امر پر توانا ہے ۔ جو کچھ کرتا ہے اختیار و ارادے سے کرتا ہے ۔ جس کو چاہتا ہے پیدا کرتا ہے جو کام چاہتا ہے کرتا ہے ۔ ہر کام اس کے ارادے و مشیت سے عدم سے وجود میں آتا ہے ۔ قبل اس کے کہ ایجاد کرے تمام اشیاء پر اس کے علم نے احاطہ کیا ہے ۔ اس کا حکم عدل اور اس کا وعدہ سچا ہے ۔ اس کا مثل و مانند کوئی نہیں ہے ۔ وہ تمام صفاتِ کمالیہ کا جامع ہے ۔ حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اس کے رسول ہیں ۔ قرآن اس کا کلام ہے ۔ جو کچھ پیغمبر لائے ہیں ۔ مثلاً تعیّن ائمہ معصومین و احکام ِ شریعت و دین و کیفیت نشانی آخرت مثلاً بہشت و دوزخ و ثواب و عقاب و حساب و صراط و میزان و نامۂ اعمال و شفاعت تمام حق و ثابت ہیں ۔ حصُولِ نجات سعادت کے لیے اسی قدر جاننا کافی ہے ۔

اب رہی اس کے صفات کی کیفیت کہ قدیم ہے یا حادث یا دیگر کیفیاتِ آخرت ان سے بحث کرنا لازم نہیں بلکہ بعضی حدیث میں ان کی بحث سے منع کیا گیا ہے بلکہ اسی قدر اعتقاد رکھنا کافی ہے کہ واجب تعالی شانہ تمام صفاتِ کمالیہ سے متصّف اور تمام صفات نقائص سے پاک ہے گو اس کی وجہ کو نہ سمجھیں ، اس کی حقیقت کو نہ جانیں ، نیز اعتقاد رکھے کہ جو پیغمبر نے فرمایا ہے سچ اور مطابق واقعہ ہے گو اس ارشاد کی تفصیل و حقیقت سمجھ میں نہ آتی ہو ۔ ہر مکلّف پر واجب ہے کہ وہ امورِ مذکورہ الصّدر پر اعتقادِ مضبوط اور اطمینانِ کامل رکھتا ہو ۔صرف زبانی تصدیق بغیرِ اطمینانِ قلب کے آخرت میں نجات اور وصول ِ مراتب ِ سعادتِ حقیقیہ کے لیے کفایت نہیں کرتی ۔ ہاں حفاظت قتل و مال و حکمِ طہارت میں اور ان کے مثل احکامِ دنیویّہ میں کافی ہے ، اور نجاتِ اُخروی اطمینان ِ قلب پرمنحصر ہے ۔ اگر چہ اس کا اعتقاد و اطمینان دلائلِ حکمیّہ و براہینِ کلامیّہ سے نہ ہو ۔ کیونکہ اعتقاد مذکورہ کی تصدیق سے زیادہ تکلیف شرعاً ثابت نہیں ۔

پس اگر کسی شخص کو صرف اس بات سے اطمینان حاصل ہوجائے کہ تمام انبیاء حکما و علماء امرِ خلافِ واقعہ پر جمع نہیں ہو سکتے تو اس کے لیے کافی ہے اسی طرح یہ اطمینان بعض شخصوں کو ایسے امور کی وجہ سے ہوتا ہے جو اس پر وارد ہوتے ہیں مثلاً قبولیّت دعا و نجات از خطرات وغیرہ اور بعض اشخاص ایسے بھی ہیں کہ ان کو امورِ مذکورہ بالا میں اطمینان حاصل ہوتا ہے لکین وہ اس کے دلائل سے آگاہ نہیں ۔ یہ ان کی فطرت ہے جو خدا نے عطا کی ہے ، اور وہ اس پر قائم ہیں ۔ جیسا کہ حدیث میں وارد ہے ۔

بلکہ ظاہر ہے کہ انسان کو جہالت کی طرفداری اور ماں باپ کی پیروی فطرت سے علیٰحدہ نہیں کرتی ۔اس کی فطرت وجود ِ صانع پر حاکم ہے ۔ اگر چہ اس کو کوئی دلیل منظور نہ ہو ۔ کیونکہ ہر مخلوق کے لیے خالق کی اور ہر حادث کے لیے مُوجد کی احتیاج ایک فطری امر ہے ۔ ہر شخص اس سے واقف ہے ۔ اگرچہ وہ ابھی صاحبِ تمیز و ادراک نہ ہو ۔

مثلاً : اگر سیب طفلِ خورد سال کے پاس رکھّا ہو اور ا س کو کوئی اٹھا لے تو وہ سوال کرتا ہے کہ سیب کس نے اٹھایا ۔ گویا اس کی فطرت نے حکم لگا دیا کہ سیب خود بخود غائب نہیں ہو سکتا ۔ بلکہ اس کے لیے ایک اٹھانے والے کی ضرورت ہے ۔

انسان تو انسان ، حیوانات کی جبلّت اسی مطلب پر حاکم ہے ۔ مثلاً اگر مکان میں جہاں حیوانہو کوئی آواز کرے یا کوئی پتھّر پھینکے ، تو وہ حیوان التفات کرتا ہے ۔ ہر طرف نگاہ دوڑاتا ہے کہ آواز کرنے والے اور پتھّر پھینکنے والے کو دیکھے کیونکہ اس کی جبلّت حکم کرتی ہے کہ آواز کے لیے ایک آواز کرنے والا پتھّر کے لیے ایک پتھّر پھینکنے والا ضروری ہے ۔

پس صانع کے اثبات میں ہر شخص کی فطرت کفایت کرتی ہے اور جس وقت انسان ہر فطرت کے ساتھ بعض مقدماتِ عقلیہ بدیہیّہ کو ملا کر گناہوں سے پرہیز کرتا ہے اور طاعات و عبادات کی حتی الامکان دعات کرتا ہے ، تو لشکرِ شیطان کا ہجوم قلب پر سے ہٹ جاتا ہے اور تمام امورِ شرعیہ میں اسے اطمینانی حالت میّسر آجاتی ہے ۔ طاعت و عبادات کے قبل اگر اس کو صرف مظنّہ حاصل تھا تو یہ مظنّہ اب یقین سے بدل جاتا ہے ۔ اگرچہ وہ اس یقین کے متعلق طریقۂ استدلال سے واقف نہ ہو ۔

یہی وجہ تھی کہ حضرت رسول اللہ ﷺ صرف اظہارِ اسلام کو کافی سمجھتے تھے ۔ اگرچہ جانتے تھے کہ خوف و بیم یا طمع و امید سے اسلام قبول کیا گیا ہے ۔ کیونکہ حضرت رسول اللہ ﷺ کو علم تھا کہ گناہوں کے پرہیز سے طاعت کی عادت سے رفتہ رفتہ ان کی فطرت جو ظلمتِ کفر سے سیاہ ہوچکی ہے ، حالتِ اصلی پر عود کرے گی ۔ اُن میں نور اطاعت کا تاثیر کرے گا۔ اُن کو مرتبۂ تصدیقِ قلبی اور اعتقادِ قطعی پر پہنچائے گا ۔

لیکن برخلاف اس کے کہ اگر نفس پاک نہ ہو اور عبادات اور طاعات کی عادت نہ ہو تو صرف دلائل و برہان سے ہرگز اطمینانِ قلب و سکون ِ نفس حاصل نہیں ہوتا ۔ بلکہ اکثر اوقات یہ دلائل و برہان زیادتی شبہ و شک کا سبب ہوجاتے ہیں ۔ محقّقِ طوسی خواجہ نصیر الدّین ؒ نے اپنے بعض فوائد میں بیان فرمایا ہے کہ :

’’ ہر مکلّف پر اس قدر واجب ہے کہ لَا اِلٰہَ اِلَّا اللہُ مُحَمَّدٌ رَّسُولُ اللَّهِ کی تصدیق کرے ۔

جب تصدیقِ رسول ادا کیاتو اس کے بعد صفاتِ خدا و احوال ِ روزِ جزا و تعیّنِ ائمہ ہدیٰ سے جو کچھ خبر دی گئی ہے ان کی اسی طرح تصدیق کرے جیسا کہ قرآن مجید میں ہے ۔ اس کی ضرورت نہیں ہے کہ اس میں کچھ زیادتی کرے یا کسی دوسری دلیل کا محتاج ہو ۔ خداوند عالم کے صفات میں اعتقاد رکھے کہ خدا ہی قادر ، عالم ، مرید ، متکلّم ہے ۔ کوئی چیز اس کے مثل نہیں ہے ۔ وہ سننے والا اور دیکھنے والا ہے

اسی طرح احوالِ آخرت مثلاً بہشت دوزخ اور صراط و میزان اور حساب و شفاعت پر ایمان لائے ۔ حقیقتِ صفاتِ خدا پر بحث کرنا واجب نہیں ، بلکہ اس کا تصور بھی نہ کرے اور دل میں بھی نہ لائے اور اسی حال میں مر جائے تو با ایمان مرا ہے ۔ اگر کسی وقت کوئی شبہ و شک اس کو عارض ہو تو ایسے کلام سے اسے دفع کرے جو اس کے فہم سے قریب ہو ۔ اگرچہ کلام صاحبانِ جدل و مناظرہ و متکلّمین کے نزدیک ناکافی ہے ۔

واضح ہو کہ دلائلِ اجمالیہ یا برہانیہ یا شواہدِ عینیہ و قرائنِ خارجیہ سے اگرچہ یقین کے بعض مراتب حاصل ہوجاتے ہیں ۔ لیکن اگر کوئی شخص نورانیّتِ یقین و معلومات ِ عقائد کا طالب ہو کر نورِ معارفِ ربانیہ و روشنی علومِ حقیقیہ سے اپنا دل روشن کرنا اور یقینِ کامل کے مرتبہ کو پہنچنا چاہتا ہے ۔ تو یہ مرتبہ ہرگز دلیل و برہان و جدال و کلام سے حاصل نہیں ہوتا ۔ بلکہ یہ مرتبہ اس طرح حاصل ہوتا ہے کہ انسان پرہیز گار بنے ۔ نفس کو ہوا و ہوس سے باز رکھے ۔ صفاتِ ذمیمہ سے بچائے ۔ درگاہِ الہٰی میں تضرّع و زاری کرے ۔ اسی سے امداد کا طالب ہو تاکہ نورِ الہٰی دل میں روشن ہو ۔ آنکھوں کے آگے سے حجاب اٹھایا جائے ۔

وَ الَّذِينَ جَاهَدُوا فِينَا لَنَهْدِيَنَّهُمْ سُبُلَنَا ﴿العنكبوت‏، 69﴾

’’ جو لوگ ہمارے دین کے بارے میں کوشش کریں گے ہم ضرور با لضّرور ان کو اپنا راستہ دکھلائیں گے ۔ ‘‘

لَیْسَ الْعِلْمُ بِکَثْرَۃِ التَّعَلُّمِ اِنَّمَا ھُوَ نُوْرٌ یَقْذِفُہُ اللہُ فِیْ قَلْبِ مَنْ یَّشَاءُ ۔

’’ زیادہ سبق پڑھنے سے علم حاصل نہیں ہوتا ہے ۔ بلکہ وہ ایک نور ہے کہ خداوندِ عالم جس کے دل میں چاہتا ہے ڈال دیتا ہے ۔ ‘‘

واضح ہوکہ بعض مراتبِ یقین کا حاصل کرنا جیسا کہ گزرا دلیل و برہان سے ممکن ہے اور وصولِ مرتبۂ انکشاف و ظہورِ تام مجاہدہ و ریاضت و تصفیّۂ نفس پر موقوف ہے ۔ لیکن یقین کے کچھ اور بھی مراتب ہیں جو مرتبۂ اوّل سے بالا تر ہیں ۔ ان سے بھی دل کو اطمینان و سکون حاصل ہوتا ہے اور اضطرابِ قلبی و تزلزل سے شبہات پیدا نہیں ہوتے ۔یہ مرتبہ بھی دلائلِ کلامیہ و عقلیہ سے میّسر نہیں ہوتا ۔ اگرچہ ریاضت و مجاہدۂ کثیرہ کی بھی ضرورت نہیں ہے بلکہ اس بات کی ضرورت ہے کہ تعلیم یا دلائل سے عقائد معلوم کرنے کے بعد انسان طاعت و عبادت میں مشغول ہو ۔ گناہوں سے پرہیز کرے ۔ ذکر ِ حدیث و آیات کا عادی ہو صاحبانِ مذاہبِ فاسدہ و ارباب ہوا و ہوس کی صحبت سے دُور ہو ۔

بیان مذکور الصّدر سے معلوم ہوا کہ کیفیت ِ تصدیق و ایمان میں آدمی مختلف ہیں ۔

بعض کمالِ یقین و ظہورِ عقائد میں روشنی ٔ خورشید کے مانند ہیں کہ اگر پردہ اٹھا دیا جائے تو ان کہ یقین میں کوئی کمی نہیں ہوگی ۔ ان سے کم درجے پر ہیں لیکن ان کو اطمینان و سکون حاصل ہے ۔ ان کو کوئی اضطراب اور ان کو کوئی شبہ نہیں ہوتا ۔ بعض دوسرے اس گروہ سے بھی پست ہیں ۔ لیکن اگر ان کے دل میں کوئی شبہ و سببِ اضطراب پیدا ہوتا ہے تو اس کو دلیل و برہان سے دفع کردیتے ہیں یا اس پر کچھ التفات نہیں کرتے ۔ بعض صرف تصدیق ِ ظنّی یا تقلیدی پر اکتفا کرتے ہیں اور ہر ایک شبہ سے متزلزل ہوجاتے ہیں ۔

چنانچہ حضرت امام جعفر صادق علیہ السّلام نے اختلاف کی طرف اشارہ فرمایا ہے کہ ایمان کے چند حالات و درجات و طبقات و منازل ہیں ۔ بعض اُن میں کامل جو انتہائے کمال کو پہنچے ہیں ۔ بعض ناقص ہیں کہ اُن کا نقصان واضح ہے ۔ بعض راحج ہیں کہ ان کا رجحان ظاہر ہے ۔ کوئی شک نہیں کہ یقین کا حاصل کرنا واجب ہے ۔ صرف تصدیقِ ظنّی کہ مرتبۂ آخر ہے کافی نہیں ہے ۔

معلوم ہوا کہ ابتدائے تمیز و ادراک میں طفل کو عقائدِ مذکورہ کی تعلیم دینا ضروری ہے کہ ان کو حفظ کرے اور صفحہ ٔ دل پر نقش کر لے ۔ تھوڑا تھوڑا ان کے معنی کی تعلیم دے اور سمجھائے ۔ نشو نما کے سبب سے اس کے دل میں اثر پیدا ہو کر اعتقاد حاصل ہوجاتا ہے ۔ اگرچہ کوئی دلیل و برہان اس کے پاس نہ ہو ۔ یہ خدا وندِ عالم کی مہربانی ہے کہ آدمی کے دل کو ابتدائے ترقی میں بغیر دلیل و برہان کے ایمان کی منزل بنا دیتا ہے ۔ لیکن یہ اعتقاد ابتداء میں ضعف و سستی سے خالی نہیں ۔ ممکن ہے کہ شبہات سے زائل ہوجائے ۔

پس بچوں اور عوام کے دل میں اس طرح ان عقائد کو مضبوط کرنا چاہیئے کہ پھر ان میں کوئی خلل واقع نہ ہو اور اس کا طریقہ یہ نہیں ہے کہ جدل و مناظرہ سے اس کو تعلیم دی جائے یا تعلیم و مطالعۂ کتبِ کلامیہ و حکمیہ میں مشغول کریں ۔ بلکہ تاویلاتِ قرآن و تفسیر و احادیث کے پڑھنے اور اس کے معانی کو سمجھنے میں توجہ دلائیں ۔ عبادتِ پنجگانہ و اطاعت کی عادت کرائیں ۔ اس کی وجہ سے روز بروز اس کا اعتقاد مضبوط ہوتا ۔ دلائل ِ قرآنیہ اور حجّتھائے معصومیہ کو سنتا ہے تو اس کے ذریعہ سے نیز عبادت سے اس کے دل پر رفتہ رفتہ ایک نور چمکتا ہے ۔ صاحبانِ مذہبِ فاسد و صاحبِ رائے باطلہ و مناظرہ و جدال و صاحبانِ شک و شبہ اور ہوا و ہوس و اہلِ دنیا کی صحبت سے پرہیز لازم ہے ۔ صالحین و صاحبِ تقویٰ و یقین کی صحبت میں بٹھائیں تاکہ طفل ان کے طریقہ و رفتار کو دیکھے ۔

واضح ہکہ ابتداء میں عقائس کی تعلیم دینا زمینِ سینہ میں مثل تخم بونے کے ہے اور باقی امور مثل پانی دینے اور پرورش کرنے کے ہیں تاکہ اسے نشو نما ہو اور قوت پکڑے اور ایسا درخت بن جائے جس کا میوہ قربِ پروردگارَ احد و سعادتِ ابد ہے ۔ جدل و کلام و شبہاتِ باطلۂ متکلّمین کے سننے سے حفاظت کرنا چاہیے ، کیونکہ مجادلہ و مناظرہ کے فساد اصلاح سے بہت زیاہ ہے ۔

چناچہ اکثر دیکھا جاتا ہے کہ عوام الناس میں سے جو صاحبانِ تقویٰ اور اصلاح ہیں ۔ ان کے اعتقاد پہاڑ کے مانند ہیں ۔ جنہیں ہرگز جنبش نہیں ہوتی ۔ و اہلِ جدل کے شبہ و شک کی طرف توجہ ہی نہیں کرتے ، نہ ان کے سننے سے کوئی اضطراب انہیں لاحق ہوتا ہے ۔ بر خلاف اس کے ان کا اعتقاد جو اپنی عمر کو علم کلام و حکمت میں صرف کر کے رات دن مجادلہ و مباحثہ ٔ کلامیہ میں بسر کرتے ہیں ۔ اس رسی کے مانند ہے جو ہوا میں لٹکی ہوئی ہو اور شب و روز متحرک رہے ۔ وہ معمولی امور میں متامّل اور مشتبہ ہوجاتے ہیں اور اگر ان کا اعتقاد قوی بھی ہے تو اسی تعلیم کی وجہ سے ہے جو عالمِ طفولیت میں حاصل کر چکے ہیں ۔ جب ان عقائد پر مر جائے تو مومن مرا ہے ۔ اگر توفیقِ خداوندِ عالم شاملِ حال ہو ۔ عبادت و تقویٰ میں مشغول رہے ۔ نفس کی ہوا و ہوس سے حفاظت کرے ۔ مجاہد و ریاضت کا متحمّل ہو اور قلب کو کدورت سے پاک کرے تو اس پر ہدایت کا دروازہ کھولا جاتا ہے ۔ ان عقائد کی حقیقت اس کو معلوم ہوتی ہے ۔

ذٰلِکَ فَضْلُ اللَّهِ يُؤْتِيهِ مَنْ يَشَاءُ ﴿المائدة، 54﴾

’’ یہ فضلِ خدا ہے جس کو چاہے عطا فرمائے ۔ ‘‘

واضح ہو کہ علمِ اخلاق جس کے کمالات و آفاتِ نفس معلوم ہوتے ہیں ۔ اس کی تحصیل بھی ہر شخص پر بقدرِ استعداد واجبِ عینی ہے ۔ کیونکہ اس کے ترک میں انسان کی ہلاکت ہے اور اس کی تہذیب میں نجاتِ آخرت ۔

قَدْ أَفْلَحَ مَنْ زَکَّاهَا وَ قَدْ خَابَ مَنْ دَسَّاهَا ﴿الشمس‏ 9 ، 10﴾

’’ بلکہ غرضِ کُلّی بعثتِ نبیؐ کی اس علم کے سیکھنے پر مبنی ہے ۔ ‘‘

چنانچہ فرمایا :

اِنِّیْ بُعِثْتُ لِاُتَمِّمْ مَکَارِمَ الْاَخْلَاقِ ۔

یعنی : ’’ میں اس لیے مبعوث ہوا ہوں کہ اخلاقِ حسنہ کو انجام تک پہنچاؤں ۔ ‘‘

پس ہر کسی پر لازم ہے کہ تھوڑا یا بہت وقت عیوب و کمالاتِ نفس کے پہچاننے اور ان کے طریقۂ معالجہ میں صرف کرے ۔ کتبِ اخلاق و حدیث کو دیکھے یا اس کے صاحبِ فن سے سنے اور طریقۂ معالجہ جو کچھ اخبار و آثار و طریقۂ علماء سے معلوم ہوا ہو اس کا پابند ہو ۔ ان طریقون سے دور رہے جنہیں صاحبانِ بدعت و ہوا و ہوس نے مقرر کیا ہے ۔

اسی طرح علم فقہ بھی ہر انسان کو عبادات و معاملات کے لیے بقدرِ حاجت اور ضرورت حاصل کرنا واجبِ عینی ہے اور اس سے زیادہ حاصل کرنا واجبِ کفائی ہے ۔ تاکہ دوسروں کی احتیاج رفع ہو سکے ۔ یہ علمِ فقہ یا تو ماخذ شرعیّہ سے استنباط و اجتہاد کی بنا پر حاصل ہوتا ہے یا مجتہد حیّ کی تقلید سے اور اگرچہ ان دونوں طریقوں سے مسائل کا علم حاصل ہوتا ہے ۔ اور اس پر عمل کرنے والا مطیع و متمثل شمار ہوتا ہے ۔ لیکن جو نورانیت و تاثیر طریقۂ اجتہاد میں ہے وہ تقلید میں ہرگز نہیں پائی جا سکتی ۔ عملِ مجتہد سے جو تکمیل حاصل ہوتی ہے ، وہ کسی طرح مقلّد کو حاصل نہیں ہوتی ۔

اب کوئی چاہتا ہے کہ اپنے اجتہاد سے مسائل کو سمجھے تو اس کو اوّلاً اپنی صحتِ نفس کا علم حاصل کرنا چاہیے ۔ شیطان کا فریب نہ کھائے ۔ صرف چند مسائل کے معلوم ہونے پر اپنے کو مجتہد نہ سمجھے اور جو کوئی تقلید سے معلوم کرنا چاہتا ہے تو اسے مجتہد کو سمجھنا چاہیئے اس کی صفت و عدالت کو

جو علمِ اصُول میں ہے معلوم کرے ۔ ؎

اے بسا ابلیسِ آدم روی ہست

پس بہر دستے نشاید داد دست

جاننا چاہیئے کہ علمِ فقہ اور اس کے مقدمات مثل لغت و صرف و نحو وغیرہ مقصود و بالذّات نہیں ہیں ۔ بلکہ اِن سے غرض عبادت و بندگی ہے ۔

پس ان میں مشغول و منہمک ہو کر اصل مقصد کو فوت کر ناز یبا نہیں ۔ بلکہ بقدرِ ضرورت اکتفا کرنا چاہیے ۔

بہت سے لوگ ایسے ہیں کہ مسائل صرف و نحو و معانی و بیان میں اپنی عمر صرف کر دیتے ہیں اور مسائلِ شرعیّہ سے بے خبر رہتے ہیں ۔ حالانکہ کسی قوم کے طرزِ کلام ۔ ترکیبِ الفاظ اور محسناتِ عبارات کو سمجھنے سے نہ دُنیا کا فائدہ ہے نہ دین کا ۔

اسی طرح وہ لوگ ہیں کہ اپنی اوقات احتمالاتِ عبارت کے سمجھنے میں صرف کرتے ہیں ۔ عمل و عبادت بلکہ استنباطِ مسائل سے باز رہتے ہیں ، اور انہیں وجوہات و احتمالات کے متعلق صفحے کے صفحے سیاہ کرتے ہیں ۔ حالانکہ اُس عبارت کا صحتِ مسئلہ سے بھی کوئی تعلق نہیں ہوتا اور بسا اوقات قواعدِ فاسدۂ علمائے عامّہ مثل قیاسی و استحسان کے متعلق عبارات کی توجیہات میں وقت برباد ہوتا ہے ۔

یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ مسئلہ کا ماخذ واضح ہے ۔ دلیل اس کی روشن ہے ۔ ترجیح اس کی ظاہر ہے ۔ لیکن ایک دلیلِ ضعیف یا کوئی حدیث ِ عامی سامنے آگئی ۔ بس اس کے پیچھے ہو لیے اور عمر کا ایک حصّہ اسی کی توجیہات میں برباد ہو گیا ۔ یا ایسے مسائل کے استخراج میں عمر صرف کردی جن کی عدمِ احتیاج کا یقین یا ظن قوی ہو ۔

پس طالبِ کمال و سعادت کو چاہیئے کہ وہ ان مہملات سے دور رہے ۔ اس سے یہ مطلب نہیں کہ بالکل اُس طرف متوجہ نہ ہو ۔ کیونکہ حصُولِ ملکہ اجتہاد اور فہمِ آیات و احادیث و کلماتِ علمائے ابرار جدّت ذہن پر موقوف ہے ۔ بلکہ مقصود یہ ہے کہ ان امور میں بقدرِ ضرورت متوجہ ہو ۔ اور بعدِ حصُولِ ملکۂ اجتہاد و وصُولِ مرتبۂ فہمِ اوّلہ و استنباط ان امور میں چنداں منہمک نہ ہو اور فہمِ احکامِ واجبہ و ادائے عبادات سے باز نہ رہے ۔ اس لیے کہ اگر صرف تشحیذِ ذہن اور تقویتِ قوت نظر ہی مقصود ہے تو اُس کی تو کوئی حد نہیں پھر کیا آدمی تمام عمر اُسی میں صرف کرتا رہے گا ـــــــــــــــــــــــــــــــــــ

حوالہ : کتاب معراج السّعادۃ (ص 123 - 146)

http://shiaarticles.com/index.php/2012-01-18-19-48-56/2770-2014-04-27-11...

ترتیب و تدوین: ذوالفقار اسدی

Add new comment