احادیث نبویؐ کی سب سے معتبر کتاب
كتاب الكافی شیعوں كی معروف و معتبر ترین حدیثی كتاب اور علامہ ثقۃ الاسلام كلینی كی جاودان تالیف ہے یہ كتاب تین جداگانہ حصوں پر مشتمل ہے:
1 ۔ اصول
2 ۔ فروع
3 ۔ روضہ
جلیل القدر مؤلف نے كتاب كے پھلے حصہ میں آٹھ عناوین (فصلوں) كے تحت شیعوں كے اصول و اعتقادات كی تشریح اوران كے اعتقادی مسایل سے مربوط مطالب كا تذكرہ كیا ہے۔
مؤلف نے ہر عنوان كو مختلف ابواب میں تقسیم كیا ہے اور ہر باب میں متعدد روایات نقل كی ہیں ان میں سے بعض عناوین دو سو سے زیادہ ابواب پر مشتمل ہیں البتہ ہر باب میں ذكر شدہ روایات كی تعداد متفاوت ہے كبھی تو ایك باب میں صرف ایك ھی روایت ھے جب كہ بعض ابواب میں دسیوں روایات ذكر ہوئی ہیں ۔
كتاب كے اصلی عناوین اور خصوصیات
1۔ عنوان العقل و الجھل
اس عنوان كے تحت صرف ایك باب ہے جو34روایات پر مشتمل ہے حضرت امام موسیٰ كاظم علیہ السلام كی ھشام بن حكم كی نام سفارشیں بھی اسی باب میں آئی ہیں ۔
2۔ عنوان فضل العلم
اس میں بہت زیادہ ابواب ہیں جن كے بعض مباحث اس طرح ہیں:
" حصول علم كا واجب ہونا "، " علم كے ذریعہ روٹی توڑنے والےلوگ "، " علم كی صفت، علم اور علماء كی فضیلت "، " كتابت اور اس كی فضیلت "، " عالم كی صفت "، " تقلید "، " عالم كا حق "، " بدعت، رائے اور قیاس "، " بغیر علم كے كلام كی ممانعت "، " تمام انسانوں كو قرآن اور سنت كی ضرورت " ۔
3 ۔ عنوان التوحید
اس میں بھی درج ذیل موضوعات پر روشنی ڈالی گئی ہے :
" كائنات كا حدوث اور اس كا خالق "، " معرفت خدا كا معمولی درجہ "، " اس كی ذات كے بارے میں گفتگو سے ممانعت "، " نظریہ رویت خدا كا بطلان "، " خدا كے ذاتی صفات "، " ارادہ اور اس كے دیگر صفات افعالی "، " اسمائے الھی كے معانی "، " مشیئت اور ارادہ "، " بد بختی اور خوش بختی "، " جبر و قدر اور امر بین الامرین "
4 ۔ عنوان الحجۃ
كافی كے حصہ ٔ اصول كے عنوان " ایمان اور كفر" كے بعد سب سے وسیع و عریض عنوان یہی ہے اس میں بہت زیادہ روایات ایك سو تیس سے زیادہ ابواب میں ذكر ہوئی ہیں كہ ھم ان كی سرخیوں كو یہاں پر ذكر كر رہے ہیں ۔
1 ۔ حجت خدا كی ضرورت
2 ۔ انبیاء و مرسلین اور ائمہ كے طبقات
3 ۔ رسول، نبی اور محدث میں فرق
4 ۔ معرفت امام اور اس كی اطاعت كا لزوم
5 ۔ ائمہ كے صفات (صاحبان امر، خزان علم، انوار الٰھی، اركان زمین وغیرہ)
6 ۔ ائمہ كے سامنے اعمال كا پیش ہونا
7 ۔ ائمہ كا وارث علوم انبیاء ہونا
8 ۔ ائمہ كے پاس چیزیں (قرآن كا مكمل علم، كتب انبیاء، صحیفۂ فاطمہ، جفر و جامعہ وغیرہ)
9 ۔ علم ائمہ اور اس میں اضافے كی مختلف جھتیں
10 ۔ ائمہ اثناعشر میں ہر ایك پردلالت كرنے والے نصوص
11 ۔ تاریخ ائمہ كے چنندہ اوراق
5 ۔ عنوان الایمان و الكفر
الكافی كے حصۂ اصول كا سب سے وسیع و گستردہ عنوان یہی ہے جو دو سو سے زیادہ عناوین پر مشتمل ہے ۔
اس عنوان كے اصلی مباحث اس طرح ہیں:
" خلقت مومن و كافر"، " اسلام و ایمان كا معنی "، " مومن كے صفات اور ایمان كے حقائق "، " اصول و فروع كفر"، " گناہ اور اس كے آثار اور اقسام "، " كفر كے اقسام " ۔
6 ۔ عنوان الدعاء
یہ عنوان دو حصوں میں ہے:
پہلا حصہ: دعا كی فضیلت اور آداب كے بیان میں ھے اس حصہ میں پہلے" آثار دعا "، " دعا كے وسیلہ سے قضا و قدر الٰھی كی تبدیلی "، " تمام بیماریوں كی شفا " اور اس كا استحباب بیان كیا گیا ہے پھر اس كے بعد آداب دعا جیسے " دعا میں سبقت "، " قبلہ رخ بیٹھنا اور دعا كے وقت یاد خدا میں رھنا "، " پنھانی دعا "، " دعا كے مناسب اوقات "دعا میں اجتماعی شركت " كا بیان ہے ۔
دوسرا حصہ: اس حصہ میں بعض دعائیں اور چھوٹے چھوٹے اذكار یا بعض خاص حالات كی دعائیں جمع كی گئی ہیں جیسے " خواب سے بیدار ہونے كے وقت كی دعا "، " گھر سے باھر نكلتے وقت كی دعا "، " نماز كی تعقیبات "، " بیماریوں كے وقت كی دعا " یا " قرائت قرآن كرتے وقت كی دعا " وغیرہ
7 ۔ عنوان فضل القرآن
اس میں چودہ باب ہیں جیسے حاملین قرآن كی فضیلت، قرآت قرآن، ترتیل و حفظ قرآن وغیرہ كی فضیلت بیان ہوئی ہے اسی طرح ہر روز كس مقدار میں قرآن كی تلاوت كرنی چاہئے وغیرہ كا بیان موجود ہے ۔
8 ۔ عنوان المعیشۃ
كافی كے حصۂ اصول كا آخری عنوان یہی ہے جس میں درج ذیل مضامین ملاحظہ كیے جا سكتے ہیں:
" ہم نشینی كا لزوم "، " اچھی معاشرت "، " اچھے اور برے ہمنشین "، " آداب و وظایف معاشرت "، " سماجی تعلقات "، " ایك دوسرے كو سلام كرنا "، " بڑوں كا احترام "، " كریموں كا احترام "، " بزم كی باتوں كو امانت سمجھنا "، " پڑوسی كا حق "، " میاں بیوی كا حق "، " نامہ نگاری" وغیرہ
كتاب كافی كا دوسرا حصہ " فروع الكافی" نام ركھتا ہے جس میں فقھی مسایل سے متعلق روایات ہیں۔
فروع الكافی كے عناوین درج ذیل ہیں:
1 ۔ كتاب الطہارۃ
2 ۔ كتاب الحیض
3 ۔ كتاب الجنائز
4 ۔ كتاب الصلاۃ
5 ۔ كتاب الزكاۃ والصدقۃ
6 ۔ كتاب الصیام
7 ۔ كتاب الحج
8 ۔ كتاب الجہاد
9 ۔ كتاب المعیشۃ
10 ۔ كتاب النكاح
11 ۔ كتاب العقیقۃ
13 ۔ كتاب الطلاق
14 ۔ كتاب العتق والتدبیروالمكاتبۃ
15 ۔ كتاب الصید
16 ۔ كتاب الذبائح
17 ۔ كتاب الاطعمۃ
18 ۔ كتاب الاشربۃ
19 ۔ كتاب الزی والتجمل
20 ۔ كتاب الدواجن
21 ۔ كتاب الوصایا
22 ۔ كتاب المواریث
23 ۔ كتاب الحدود
24 ۔ كتاب الدیات
25 ۔ كتاب الشھادات
26 ۔ كتاب القضاء والاحكام
27 ۔ كتاب الایمان والنذور والكفارات
یہ یاد دہانی ضروری ہے كہ فروع كافی كے بعض عناوین فقھی كتابوں میں مستقل طور پر لائےجاتے ہیں جبكہ اجارہ، بیع، رھن، عاریہ، ودیعہ وغیرہ كافی كے عنوان المعیشۃ میں، اور امر بالمعروف عنوان الجھاد میں، نیز زیارات عنوان الحج میں ذكر ہوئے ہیں ۔
فروع كافی، كتاب كافی كا سب سے بڑا حصہ ہے۔
الكافی كا تیسرا حصہ " روضۃ الكافی " كے نام سے معروف ہے جس میں مختلف موضوعات سے متعلق روایات بغیر كسی خاص نظم و ترتیب كے ذكر كی گئی ہیں۔
نمونہ كے طور پر ذیل كے عناوین ملاحظہ ہوں:
1 ۔ بعض آیات قرآن كی تفسیر و تاویل
2 ۔ ائمہ معصومین كے وصایا و مواعظ
3 ۔ خواب اور اس كی قسمیں
4 ۔ بیماریاں اور اس كا علاج
5 ۔ تخلیق كائنات كی كیفیت اور بعض موجودات
6 ۔ بعض بزرگ پیغمبروں كی تاریخ
7 ۔ شیعوں كے فضائل و وظائف
8 ۔ صدر اسلام كی تاریخ اور خلافت امیر المومنین سے متعلق بیانات
9 ۔ حضرت مھدی اور ان كے اصحاب كے صفات اور زمانۂ ظھور كے حالات
10 ۔ بعض اصحاب و اشخاص جیسے ابوذر، سلمان، جعفر طیار، زید بن علی وغیرہ كی تاریخ زندگی ۔
روایات كی تعداد
روایات كافی كی تعداد بڑی مختلف بتائی گئی ہے علامہ شیخ یوسف بحرانی نے كتاب لؤلؤۃ البحرین میں 16199 حدیث، ڈاكٹر حسین علی محفوظ نے مقدمۂ كافی میں 15176حدیث، علامۂ مجلسی نے 16121حدیث اور ہمارے بعض ہم عصر بزرگوں جیسے عبد الرسول الغفار نے 15503حدیث شمار كی ہیں۔ (الكلینی و الكافی ص402)
البتہ یہ اختلاف، روایات كے شمار كرنے كی نوعیت سے تعلق ركھتا ہے اس طرح سے كہ بعض نے جو روایات دو سند سے ذكر ہوئی ہیں انھیں دو روایت اور بعض نے ایك ھی مانا ہے اسی طرح بعض نے "مرسل" روایات كو جو" وفی روایۃ اخریٰ " جملہ كے ساتھ ذكر ہوئی ہیں انھیں ایك الگ حدیث سمجھا ہے جب كہ بعض نے انھیں علاحدہ حدیث نہیں سمجھا ہے البتہ بعض جگھوں پر روایات كی تعداد كا اختلاف نسخوں میں اختلاف كی وجہ سے ہے۔ (الكلینی والكافی ص399)
اھمیت كافی
اس كتاب كی اھمیت كا اندازہ لگانے كے لئے ہم پھلے اس میدان كے شہسواروں اور حدیث كے بزرگوں كے كلمات كا تذكرہ كریں گے اس كے بعد اس كتاب كے بعض خصوصیات كو بیان كریں گے ۔
شیخ مفید: جناب كلینی كے ہم عصر شمار ہوتے ہیں كافی كے بارے میں لكھتے ہیں: كتاب كافی شیعوں كی برترین اور پر فائدہ ترین كتاب ہے۔ (تصحیح الاعتقاد ص202)
شھید اول: شھید محمد بن مكی ، ابن خازن كو لكھے گئے اپنے اجازہ میں شیعوں كی حدیثی كتابوں كو شمار كرتے ہوئے لكھتے ہیں: كتاب كافی كے مانند شیعوں میں حدیث كی كوئی كتاب نہیں لكھی گئی ہے (بحار الانوارج 107 ص190)
شھید ثانی: شیخ ابراہیم میسی كے نام اپنے اجازہ میں كتاب كافی كو بقیہ تین كتابوں الفقیہ، التھذیب، الاستبصار كے ہمراہ اسلام و ایمان كا ستون شمار كرتے ہیں ۔
مجلسی اول: كا بھی دعویٰ ھے كہ مسلمانوں میں كتاب كافی كے مانند كوئی كتاب نہیں لكھی گئی ہے ۔ (بحار الانوارج110 ص 70)
مجلسی ثانی: اپنی كتاب مرآۃ العقول یعنی كتاب كافی كی مفصل شرح میں لكھتے ہیں: كتاب كافی تمام كتب اصول و جوامع سے جامع تر اور مضبوط كتاب ھے اور فرقۂ ناجیہ شیعہ امامیہ كی بزرگترین و بھترین كتاب ہے۔(مرآۃ العقول ج 1 ص 3)
علامۂ مامقانی: كا كہنا ھے كہ كافی كے مانند اسلام میں كوئی كتاب نہیں لكھی گئی ہے كہا جاتا ہے كہ یہ كتاب امام زمان علیہ السلام كے سامنے پیش كی گئی امام نے اسے پسند كیا اور فرمایا: یہ كتاب ھمارے شیعوں كے لئے كافی ہے (تنقیح المقال س3 ص 202)
آقابزرگ تھرانی: عظیم ترین ماھركتابیات آقا بزرگ تھرانی كا كہناھے كہ كتاب كافی كتب اربعہ میں برترین كتاب ھے اور اس كے مانند روایات اہلبیت پر مشتمل كوئی كتاب نہیں لكھی گئی ہے ۔ (الذریعہ ج 17 ص 245)
خصوصی امتیازات
1 ۔ اس كتاب كے مؤلف نے امام حسن عسكری علیہ السلام كا زمانہ اور امام زمانہ علیہ السلام كے چار نائبین كا زمان درك كیا ہے ۔
2 ۔ مؤلفین اصول كے زمانہ سےنزدیك ہونے كے باعث مؤلف نے بھت كم واسطوں سے روایات نقل كی ہیں یھی وجہ ہے كہ كافی كی بہت سی روایات فقط تین واسطوں سے نقل ہوئی ہیں ۔ (دیكھئے كتاب ثلاثیات الكلینی و قرب الاسناد تالیف امین ترمس العاملی)
3 ۔ كتاب كے عناوین بڑے مختصراور واضح ہیں جو ہر باب كی روایات كا پتہ دیتے ہیں ۔
4 ۔ روایات بغیر كسی دخل و تصرف كے نقل ہوئی ہیں اور مصنف كے بیانات احادیث سے مخلوط نہیں ہیں ۔
5 ۔ مصنف كی كوشش رہی ھے كہ صحیح اور واضح احادیث كو باب كے آغاز میں اور اس كے بعد مبھم و مجمل احادیث كو ذكر كریں ۔ (اصول كافی ج1 ص10 مقدمہ مترجم سید جواد مصطفوی)
6 ۔ حدیث كی پوری سند ذكر ہوئی ھے اسی لئے یہ كتاب تہذیب الاسلام، الاستبصار اور من لا یحضرہ الفقیہ سے متفاوت ھے
7 ۔ مؤلف نے انھیں راوایات كو ذكر كیا ھے جو باب كے عنوان سے سازگار ہیں اور متضاد احادیث كے نقل سے پرھیز كیا ھے ۔
8 ۔ روایات كو ان كے باب كے علاوہ جگہوں پر ذكر نہیں كیا ھے ۔
9 ۔ كتاب كے ابواب كو بڑے دقیق اور منطقی انداز سے تنظیم كیا ھے: عقل و جھل پھر علم اس كے بعد توحید كو شروع كرتے ہیں در حقیقت معرفت شناسی كے بعض مباحث كو پہلے مرحلے میں قرار دیا ہے پھر اس كے بعد توحید و امامت تك پہنچتے ہیں اس كے بعد اخلاقی روایات كو نقل كركے فروع اور احكام تك پہنچتے ہیں اور آخر میں مختلف قسم كی روایات كو كشكول كے مانند جمع كیا ہے ۔
10 ۔ كافی كے عقیدتی، اخلاقی اور فقھی مباحث كی جامعیت ایك اور قابل ذ كر خصوصیت ہے ۔
كافی پر كئے گئے اشكالات كی حقیقت
فن حدیث كے ماھر بزرگوں نے كتاب كافی كی بڑی تجلیل و تكریم كے پہلو میں اس پر كچھ اعتراضات بھی كئے ہیں:
الف: علامہ فیض كاشانی نے اپنی كتاب وافی كے مقدمہ میں درج ذیل اشكال كئے ہیں:
1 ۔ كافی میں بہت سے فقھی احكام نہیں بیان كئےگئے ہیں ۔
2 ۔ كافی میں بعض جگہ قول مخالف كی روایات كو ذكر نہیں كیا گیا ھے ۔
3 ۔ كافی میں مشكل اور مبھم الفاظ كی وضاحت نہیں كی گئی ھے ۔
4 ۔ كافی میں بعض عناوین كے ابواب اور روایات میں مد نظر ترتیب كا خیال نہیں ركھا گیا ہے اور كبھی تو غیر جگہ پر ذكر كر دیا گیا ھے یا ایك عنوان كو حذف كركے دوسرا غیر ضروری عنوان ذكر كیا گیا ھے ۔
ب: بعض متضاد روایات یا مسلمات مذھب كے خلاف روایات موجود ہیں جو اس كتاب پر اشكال كے طور پر ذكر كی جاتی ہیں بعنوان مثال كافی میں كچھ ایسی روایات پائی جاتی ہیں جو تحریف قرآن پر دلالت كرتی ہیں اور شیعہ عقیدہ كے خلاف ہیں ۔
ج: بعض ایسے اسماء ہیں جیسے محمد، احمد، حسین، محمد بن یحیی، احمد بن محمد وغیرہ جو چند افراد میں مشترك ہیں مصنف نے اس سلسلہ میں كوئی توضیح نہیں دی ہے لھٰذا واضح نھیں ہو پاتا كہ اس سے كون مراد ہے البتہ بعض جگھوں پر قرائن كے ذریعہ مد نظر راوی یا مروی عنہ كی تشخیص دی جا سكتی ھے لیكن اس كے باوجود یہ راہ ہر جگہ راہ گشا نہیں ھے اور منظور نظر راوی مبھم رہ جاتا ھے ۔
د: اگلا اشكال یہ ھے كہ یہ طے ھے كہ شیخ كلینی نے تمام روایات كو اپنے استاد سے نہیں سنا ھے بلكہ بعض كو سنا ھے اور بعض كو اجازہ كی شكل میں ان سے دریافت كیا ھے حالانكہ دونوں صورتوں میں سند متصل اور معتبر ھے لیكن كلینی نے ان دونوں میں فرق قائم نہیں كیا ھے اور سب كو ایك ہی كلمہ " عن " كے ذریعہ ایك دوسرے سے متصل كر دیا ھے در حالیكہ بعض مؤلفین نے ان دونوں قسموں میں لفظ " حدثنا " اور لفظ " روینا " كے ذریعہ فرق قائم ركھا ھے ۔
ہ: بعض نے كلینی پر یہ اعتراض كیا ھے كہ كیوں كافی میں انھوں نے بعض راویوں كے قطعاً ضعیف ہونے كے باوجود ان سے روایت نقل كی ھے جیسے: وھب بن وھب (ابو البختری) احمد بن ھلال، محمد بن ولید صیرفی، عبد اللہ بن قاسم حارثی وغیرہ
ان تمام اشكالات و اعتراضات كے سلسلہ میں كتاب الكافی و الكلینی اور كتاب الكلینی و كتابہ الكافی میں بحث كی گئی ھے ہم ان اشكالات كے سلسلہ میں فی الحال كوئی فیصلہ نہیں كرتے لیكن اتنا ضرور كہیں گے كہ اگر سارے اعتراضات صحیح مان بھی لئے جائیں تب بھی شیخ كلینی كے كام كی عظمت سے انكار نہیں كیا جاسكتا نیز ان كی كتاب پر اطمینان و اعتبار میں بھی كمی نہیں آئے گی البتہ كوئی كتاب سوائے اللہ كی طرف سے نازل كردہ كتاب قرآن كے محفوظ نہیں اور كوئی مؤلف سوائے ائمہ معصومین علیہم السلام كے كہ جن كو خدا نے عصمت سے نوازا ہے خطا و غلطی سے محفوظ نہیں ھے ۔
كیا روضۃ الكافی، كافی كا جزء ھے ؟
بعض لوگ روضۃ الكافی كو كلینی كے آثارمیں نہیں شمار كرتے بلكہ اسے السرائر كے مؤلف جناب ابن ادریس كی طرف نسبت دیتے ہیں اس لئے اسے كافی كا حصہ تسلیم نہیں كرتے مقابل میں كافی لوگ اسے كافی كا جزء اور كلینی كی تالیف مانتے ہیں اس موضوع پر سیر حاصل گفتگو كو كتاب الكلینی و الكافی میں ص408 سے ص 415 تك اور كتاب الكلینی و كتابہ الكافی میں ص 132 سے ص 140 تك ملاحظہ كیا جاسكتا ہے ۔
كافی پرانجام شدہ تحقیقات
كتاب كافی اپنی تالیف كے پہلے مرحلہ سے ہی علماء اور محدثین كی توجہ كا مركز بنی رہی ھے اسی لئے اس كتاب پر بڑا كام ہوا ھے ۔
شیخ آقا بزرگ تھرانی نے اپنی كتاب الذریعہ میں اصول یا پوری كتاب كی 27 شرح كا تعارف پیش كیا ہے (الذریعۃ الیٰ تصانیف الشیعۃ ج13 ص 94 تا ص100، ج14 ص26 تا ص 228، المعجم المفھرس لالفاظ بحار الانوار ج1 ص 66 تا ص 67) اسی طرح اس كتاب پر دس حاشیہ بھی شمار كیا ہے (الذریعۃ الیٰ تصانیف الشیعۃ ج 6ص 181، المعجم المفھرس لالفاظ بحار الانوار ج1ص 66)
اسی طرح بعض دیگر اھل قلم نے كتاب كافی كے سلسلہ میں بڑا كام ھونے كا تذكرہ كیا ہے كہ جن میں بھت سے آثار چھپ نہیں سكے ہیں یا بعض دسترس میں ھی نہیں ہیں (ثامر ہاشم حبیب، الشیخ الكلینی و كتابہ الكافی ص 158 تا ص 177) قابل ذكر بات یہ ہے كہ" ثقۃ الاسلام كلینی بین الاقوامی كانفرنس" نے كافی سے متعلق قابل ملاحظہ آثار جو ابھی تك منتشر نہیں ہوئے ہیں آمادہ یا نشر كرنے جارہی ھے ۔
یہاں پر كتاب كافی سے متعلق نشر شدہ آثار كی طرف چند حصوں میں اشارہ كیا جاتا ہے ۔
الف) شروح اور حواشی
1 ۔ " التعلیقۃ علیٰ كتاب الكافی " محممد باقر حسینی معروف بہ میر داماد (متوفی 1041ھ) تحقیق سید مھدی رجائی (مطبعہ خیام قم 1403ھ)، 22+ 404ص
یہ تعلیقہ اصول كافی كی كتاب حجت تك ھے تعلیقہ كے ساتھ اصل روایات بھی چھپی ہیں اسی طرح شارح كی ایك اور كتاب بنام " الرواشح السماویہ " بھی ھے جس میں علم حدیث كے بعض قواعد اور كافی كے مقدمہ كی شرح ھے جو در حقیقت اس تعلیقہ كی جلد اول شمار كی جا سكتی ھے ۔
2 ۔ " شرح اصول الكافی " صدر الدین شیرازی (متوفی 1050ھ)، (مكتبۃ محمودی تھران 1391ھ ش) 492ص
یہ شرح اصول كافی كی كتاب الحجۃ كے آخر تك ھے جو محمد خواجوی كی تصحیح كی ساتھ دو جلد میں موسسۂ مطالعات وتحقیقات كے توسط سے چھپ چكی ھے اس شرح كو محمد خواجوی نے فارسی میں ترجمہ بھی كیا ھے اور اسی پبلشر كی طرف سے دو جلد میں طبع ھوئی ھے ۔
3 ۔ " الحاشیۃ علیٰ اصول الكافی " رفیع الدین محمد بن حیدر النائینی، تحقیق: محمد حسین درایتی (دار الحدیث قم، 1383ھ ش) 672ص وزیری سائز
4 ۔ " الحاشیۃ علیٰ اصول الكافی " سید بدر الدین بن احمد الحسینی العاملی، تحقیق: علی فاضلی (دار الحدیث قم 1383ھ ش) 352ص وزیری سائز
5 ۔ " الدر المنظوم من كلام المعصوم " علی بن محمد بن حسن بن زین الدین عاملی (1103 یا 1104ھ) تحقیق: محمد حسین درایتی (دار الحدیث قم 1385 ھ ش) ج1، 717ص وزیری سائز
6 ۔ " مرآۃ العقول " محمد باقر مجلسی (متوفی 1110ھ) دار الكتب العلمیۃ تھران 1404ھ 1363ھ ش 26ج ۔
7. «شرح الكافى، الاصول والروضة»، محمّد صالح مازندرانى، تعليق: ميرزا ابو الحسن شعرانى (تهران، المكتبة الاسلاميۃ 1342) 12ج ۔
یہ شرح صرف اصول كافى اور روضۃ الكافی كو شامل ھے .
8. «الشافي في شرح اصول الكافي»، 3ج، عبد الحسین المظفر(مطبعة الغری، نجف اشرف 1389ھ 1969ع)۔
ب) تراجم
1 ۔ «اصول كافی»، ترجمه و شرح فارسی: سید جواد مصطفوی (تهران، دفتر نشر فرهنگ اهل بیت، 2ج)؛ یہ ترجمه، متن احادیث كے همراه ھے .
2۔ «الروضة من الكافي»، ترجمه و شرح فارسی: سيد هاشم رسولى محلاتى (تهران، انتشارات علميه اسلاميه) 2ج، 297 + 259ص. اس كتاب میں احاديث كا عربى متن بھی درج ھے .
3 ۔ «الكافي»، انگریزی ترجمه، المؤسسة العالمية للخدمات الاسلامية.
اس ترجمہ كی اب تك 13 جلدیں عربی متن كے ھمراہ نشر ھو چكی ہیں .
ج) تلخيصات
1. «گزيدۀ كافى»، فارسی ترجمه و تحقيق: محمّد باقر بهبودى (تهران، شركت انتشارات علمى و فرهنگى، 1396ش) 6جزء تین مجلد میں .(ج1 معارف و آداب ج2: طهارت، صلات ج3: زكات روزه ج4: حج، معيشت ج5: ازدواج، مشروبات6ج: زينت و گل و گلشن) .
2۔ «خلاصهٔ اصول كافى» فارسی ترجمه، على اصغر خسروى شبسترى (تهران، كتاب فروشى اميرى، 1351ش)، 270ص.
3۔ «الصحيح من الكافي»، 3 ج، محمّد باقر بهبودى (الدار الاسلامية، 1401ھ 1981ع).
4۔ «درخشان پرتوى از اصول كافى»، سيد محمّد حسينى همدانى (قم، مؤلف، 1406ق).
د) معاجم و راهنما
1 ۔ «المعجم المفهرس لالفاظ اصول الكافي»، الياس كلانترى (تهران، انتشارات كعبه).
2 ۔ «المعجم المفهرس لالفاظ الاصول من الكافي»، على رضا برازش (تهران، منظمة الاعلام الاسلامى، 1408ھ 1988ع، اول) 2 ج، 2011 ص.
3 ۔ «الهادى الى الفاظ اصول الكافي»، سيد جواد مصطفوى (آستان قدس رضوى، مشهد، 1406ھ)، ج 1، ص 413 ص، حرف شين تك .
4 ۔ «فهرس احاديث اصول الكافي»، مجمع البحوث الاسلامية، (آستان قدس رضوى، مشهد، 1409ھ)
5 ۔ «فهرس احاديث الروضة من الكافي»، مجمع البحوث الاسلاميه (آستان قدس رضوى، مشهد، 1408ھ).
6 ۔ «فهرس احاديث الفروع من الكافي»، مجمع البحوث الاسلامية (آستان قدس رضوى، مشهد، 1410ھ).
7 ۔ «فهرس احاديث الكافي»، بنياد پژوهشهاى اسلامى آستان قدس رضوى.
ه) اسناد و رجال كافى
1. «تجريد اسانيد الكافى و تنقيحها»، حاج ميرزا مهدى صادقى (قم، 1409ھ).
2. «الموسوعة الرجالية»، حسين طباطبايى بروجردى، 7 ج، تصحيح و تكميل: ميرزا حسن النورى (مجمع البحوث الاسلامية، مشهد، 1413ھ /1992ع).
اس مجموعه كی پہلی جلد بعنوان«ترتيب اسانيد كتاب الكافي»567 صفحه میں اورچوتھی جلد بعنوان «رجال أسانيد او طبقات رجال الكافي»، 468 صفحه میں كافی سے متعلق ھے .
و) كافى سے مربوط
1 ۔ «دفاع عن الكافي»، ثامر هاشم حبيب العميدى (مركز الغدير للدراسات الاسلامية، 1415ھ /1995ع) 2 ج، 768 + 789 ص.
2 ۔ «الشيخ الكليني البغدادي و كتابه الكافي»، ثامر هاشم حبيب العميدي (مكتب الاعلام الاسلامى، قم، 1414ھ /1372ھ ش)، 495 ص. اس كتاب میں شیخ كلینی كی ذاتی اور علمى زندگی، كافی كے سلسلہ میں ان كی علمی كاوشیں فروع كافی میں ان كی كیا روش رہی ھے بیان كیا گیا ھے .
3 ۔ «بین الكليني و خصومه، موقف محمد ابو زهرة من الكلینی»، عبدالرسول الغفار (دار المحجة البيضاء، بيروت، 1415ھ /1995ع)، 96 ص .اس كتاب میں مصری رائٹر ابو زھرہ كے كافی پر اعتراضات كا جواب دیا گیا ھے .
4 ۔ «بحوث حول روايات الكافي»، امين ترمس العاملي (مؤسسة دارالهجرة، قم، 1415ھ)، 200ص.
5 ۔ «دراسات في الكافي للكليني والصحيح للبخاري»، هاشم معروف الحسنى (1388/1968ع)، 365ص.مولف نے اس كتاب میں (كافی اور بخاری) كے درمیان مقائسہ كیا ھے اور كچہ عناوین كا انتخاب كر كے اپنا فیصلہ سنایا ھے ۔
6 ۔ «ثلاثيات الكليني و قرب الاسناد»، امين ترمس العاملي (مؤسسة دارالحديث الثقافية، قم 1417ھ / 1376ھ ش)، 445 ص اس كتاب كے مقدمہ میں شیخ كلینی كے حالات زندگی اور ثلاثیات كی اصطلاحات كی توضیح كے بعد صرف تین واسطوں سے معصومین علیھم السلام تك متصل ہونے والی روایات كو انتخاب كیا ھے جن كی تعداد كل 135 بنتی ھے .
7 ۔ «الكليني و الكافي»، الدكتور عبدالرسول الغفار (مؤسسة النشر الاسلامى، قم، 1416ھ)، 589 ص.
منبع: «حیاة الشیخ محمد بن كلینی»، دكتر ثامر حبیب عمیدی - «فرهنگ كتب حدیثی شیعه»، سید محمود مدنی بجستانی - «آشنایی با متون حدیث و نهج البلاغه»، مهدی مهریزی
http://shiaarticles.com/index.php/2012-04-07-08-03-32/2071-2012-04-07-08...
Add new comment