کون کس کا بھائی ہے؟

نذر حافی

کسی زمانے میں درندوں کا مقابلہ آسان تھا، لوگ درندوں کی شکلوں سے پہچان جاتے تھے کہ یہ شیر ہے، یہ چیتا ہے، یہ ریچھ ہے، لیکن اب تو درندے انسانوں کے درمیان ہی رہتے ہیں، انسانوں کی سی ہی بود و باش رکھتے ہیں اور انسانوں پر ظلم ڈھاتے ہیں۔ آج دنیا کے ہر ملک اور ہر کونے میں انسان نما درندے موجود ہیں۔ یہ کبھی تیر و تلوار کے ذریعے بے گناہ انسانوں کو موت کے گھاٹ اتارتے ہیں اور کبھی ووٹ و سیاست کے ذریعے انسانوں پر شب خون مارتے ہیں۔ ہمیں اس حقیقت کو سمجھنا چاہیے کہ درندے نہ سنّی ہیں اور نہ شیعہ، درندوں کا کوئی مذہب اور دین نہیں ہوتا۔

اپریل کا مہینہ ان شہیدوں کی یاد کے زخم تازے کر دیتا ہے تھا جنہیں 2 اپریل 2012ء کی شب راولپنڈی سے سکردو جانے والی بیس مسافر گاڑیوں سے چلاس کے مقام اتار کر موت کے گھاٹ اتار دیا گیا تھا۔ اس مرتبہ ان مظلوموں کی برسی کے ایام پاکستان میں انتخابات کے ایّام سے متصل ہیں۔ مجھے افسوس ہے کہ ایک سال گزرنے کے بعد میرے دامن میں ان شہیدوں کی بارگاہ میں پیش کرنے کے لئے سوائے چند اشکوں کے اور کچھ نہیں۔ میں ان شہیدوں کو یہ نہیں کہہ سکتا کہ ہم نے تمہارے بعد تمہارے یتیموں کی خبر گیری کی، تمہارے قاتلوں کو کیفر کردار تک پہنچایا، یا تمہارے مقدمات کی پیروی کی۔ البتہ اپنے اس مادی قلم کے ساتھ شہیدوں کی معنوی دنیا میں یہ پیغام بھیجنا چاہتا ہوں کہ تمہارے بعد یہ ملت بیدار ہوگئی ہے اور تمہاری مظلومیت نے اس ملت کو ظالموں اور درندوں کے خلاف تحریک پاکستان کی مانند متحد کر دیا ہے۔

تحریک پاکستان کی مانند اس سال کے انتخابات میں بھی اب سارے شیعہ اور سنّی، ظالموں اور درندوں کے خلاف متحد ہوچکے ہیں، پوری ملت نے پاکستان کو ظالموں اور درندوں سے پاک کرنے کا فیصلہ کر لیا ہے۔ درندوں اور ظالموں کے خلاف قیام کرنا دین اسلام کا حکم بھی ہے اور عالمِ بشریت کی ضرورت بھی۔ بات صرف پاکستان کی نہیں، آپ عراق کی خبریں سنیں، آپ دیکھیں گے کہ وہاں پر ایک مخصوص گروہ نہتّے انسانوں کا بے دردی کے ساتھ قتل ِ عام کر رہا ہے۔ آپ ایران کی صورتحال کا جائزہ لیں، آپ دیکھیں گے کہ ایران میں بھی اسی طرزِ فکر کا حامل مخصوص ٹولہ وقتاً فوقتاً موقع ملتے ہی دہشت گردانہ کاروائیاں انجام دیتا رہتا ہے، آپ افغانستان کے حالات پر نگاہ دوڑائیں، آپ دیکھیں گے کہ وہی مخصوص گروہ افغانیوں کے ناک میں بھی دم کئے ہوئے ہے، آپ فلسطین کی تحریک آزادی کا جائزہ لیں، آپ دیکھیں گے کہ وہی انسان دشمن گروہ "حماس" کے خلاف یہودیوں کا آلہ کار ہے اور گزشتہ کئی سالوں سے مظلوم فلسطینیوں کے خون میں اپنے ہاتھ رنگ رہا ہے۔

آپ پاکستان میں آجائیں آپ دیکھیں گے کہ وہی گروہ کبھی پاکستانی فوجیوں کے گلے کاٹ رہا ہے، کبھی اولیاء کرام کے مزاراتِ مقدسہ پر بم دھماکے کر رہا ہے اور کبھی شیعوں کی مجالس و محافل پر شب خون مار رہا ہے۔ اس گروہ کے ظلم و ستم سے جس طرح اہلِ سنّت والے تنگ اور نالاں ہیں، اسی طرح شیعہ حضرات بھی اظہارِ بیزاری کرتے ہیں۔ اس گروہ کا تعلق نہ شیعوں سے ہے اور نہ ہی سنّیوں سے، لیکن اس کے باوجود یہ گروہ اسلام ،اسلام، اور اللہ، اللہ کے نعرے لگا رہا ہے۔ اس گروہ کے بیانات اور کردار وغیرہ سے پتہ چلتا ہے کہ خوارج اور مرزائیت کے فکری ملاپ سے یہ گروہ وجود میں آیا ہے۔

چنانچہ ہم اس گروہ کے چیدہ چیدہ عقائد آپ کے سامنے پیش کر رہے ہیں، ملاحظہ فرمائیں اور پھر فیصلہ آپ خود کریں:
1۔ مرزائیوں اور خوارج کی طرح ان کے عقائد میں حضورِ اکرم (ص) کے صحابہ کرام (ر) اور اولیاءِ کرام (ر) کے مقدس مزارات نعوذباللہ شرک کے مراکز ہیں۔ لہذا تمام مزارات کو منہدم کرنا واجب ہے۔ اس سلسلے میں بری امام سے لے کر عبداللہ شاہ غازی اور داتا دربار سے لے کر جنّت البقیع تک یہ اپنی مذموم کارروائیاں کرچکے ہیں۔
2۔ مرزائیوں اور خوارج کی طرح ان کے نزدیک بھی سنّی اور شیعہ دونوں ہی کافر اور مشرک ہیں اور دونوں کا خون بہانا جنّت میں جانے کا باعث ہے۔ اس بات کا ثبوت ان کے فتووں سے بھی ملتا ہے اور ان کے خودکش حملہ آوروں کے بیانات سے بھی۔
3۔ مرزائیوں اور خوارج کی طرح ان کا یہ بھی عقیدہ ہے کہ دعا مانگنا حتّیٰ کہ مرحومین کے ایصالِ ثواب کے لئے فاتحہ پڑھنا بھی شرک اور کفر ہے۔
4۔ مرزائیوں اور خوارج کی طرح ختمِ نبوّت کی توہین ان کا بھی مسّلمہ عقیدہ ہے۔ ان کے مطابق حضرت محمد رسول اللہ (ص) بھی ہماری طرح کے انسان ہیں اور جو شخص ان کی فضیلت کا قائل ہے، وہ بھی مشرک اور کافر ہے۔ [1]

5۔ بالکل مرزائیوں اور خارجیوں کی طرح ان کا بھی یہ عقیدہ ہے کہ یزید حق پر تھا اور نعوذباللہ حضرت امام عالی مقام حسین (ع) کا قیام باطل پر تھا۔
6۔ یہ لوگ مرزائیوں اور خوارج کی طرح اپنے اکابرین کو نعوذباللہ حضور اکرم (ص) اور ان کے اصحاب سے افضل جانتے ہیں۔ [2]
7۔ یہ اسلامی جمہوریہ پاکستان کے باسیوں سے فطری طور پر کینہ اور بغض رکھتے ہیں اور انہیں پاکستان کا امن و امان ایک آنکھ نہیں بھاتا۔ پاکستانی فوجیوں کے گلے کاٹنے سے لے کر خودکش حملوں تک سب کچھ باقاعدہ منصوبہ بندی سے کرتے ہیں۔
8۔ مرزائیوں اور خوارج کی مانند اللہ ہی اللہ اور اسلام ہی اسلام جیسی چکنی چپڑی باتیں کرکے مرزائیوں کی طرح مسلمانوں کی غفلت سے فائدہ اٹھا کر ان کی مساجد پر قبضہ کرنا، ان کی سیاست کا عملی حصّہ ہے۔

9۔ مرزائیوں کی مانند ان کے ہاں اولیاء کرام کی کرامات بدعات اور خرافات ہیں، جبکہ اپنے اکابرین کے ہاتھوں سے معجزات رونما ہونے کے بھی معتقد ہیں۔ [3]
10۔ مرزائیوں اور خوارج کی طرح صرف یہ خود مسلمان ہیں، ان کے سوا باقی سب گمراہ ہیں۔ اس لئے یہ جسے چاہیں قتل کر دیں، یہ مجاہدین اسلام ہیں اور انہیں حق ہے کہ یہ دیگر لوگوں کا قتلِ عام کریں۔
11۔ مرزائیوں اور خوارج کی طرح خود کو مسلمانوں کی صفوں میں گھسانے کی کوشش کرتے ہیں اور اپنے آپ کو مسلمان کہہ کر عالمِ اسلام کو فریب دینے کی کوشش کرتے ہیں۔ [4]
12۔ ان کے فتووں اور سوچ کے مطابق "پاکستان، کافرستان، پاک فوج ناپاک فوج ہے اور قائداعظم، کافرِ اعظم ہیں۔

13۔ خوارج کی طرح مسلمانوں کے درمیان فرقہ واریّت کو بھڑکا کر اپنے مذموم مقاصد حاصل کرنا، ان کا معمول ہے۔ جیسا کہ ایک طرف تو انہوں نے "تحفظ ناموس صحابہ" کا ڈھونگ رچا کر سادہ لوح مسلمانوں کو مشتعل کیا اور دوسری طرف جنّت البقیع میں صحابہ کرام کے مزرات کو مکمل طور پر منہدم کر دیا۔ اسی طرح انہوں نے ایک طرف تو "تحفّظ ختمِ نبوّت" کے نام پر گلے پھاڑ پھاڑ کر لوگوں کی توجہ حاصل کی اور پھر سادہ لوح لوگوں میں اس عقیدے کی تبلیغ کی کہ حضرت محمد رسول اللہ (ص) بھی ہمارے جیسے بشر اور آدمی ہیں۔

14۔ یہ مرزائیوں کی مانند دنیا کے ہر کونے اور ہر گوشے میں ہر اس شخص، تنظیم اور تحریک کے خلاف ہیں، جو امریکہ اور اسرائیل کے خلاف ہے اور ہر اس ٹولے کے ساتھ ہیں جو امریکہ اور اسرائیل کا حامی ہے۔ یہ حماس سمیت فلسطینی عوام کے خلاف ہیں اور اسرائیل کے ظالم حکمرانوں کے ساتھ ہیں۔ اسی طرح افغانستان کی عوامی آواز کے خلاف ہیں، جبکہ شدّت پسند ٹولوں کے ساتھ ہیں۔ یہ جس طرح عید میلاد النبی (ص) کے جلوسوں سے گھبراتے ہیں، اسی طرح یوم القدس کی ریلیوں سے بھی سراسیمہ ہو جاتے ہیں، چونکہ ان جلوسوں اور ریلیوں سے ایک طرف تو لوگوں میں عشقِ رسول (ص) موجزن ہوتا ہے اور دوسری طرف ملّت اسلامیہ بیدار ہوتی ہے۔ قادیانیوں کی طرح یہ نہیں چاہتے کہ ملّت اسلامیہ بیدار ہو کر آمریّت اور ڈکٹیٹر شپ کی ذلت سے نجات حاصل کرے۔
اب ہم اپنے قارئین سے انصاف کے نام پر بھیک مانگتے ہیں اور انسانیّت کے نام پر سوال کرتے ہیں کہ آپ چاہے سنّی ہوں یا شیعہ ان لوگوں کی سازشوں اور چالوں سے ہوشیار رہیں۔ آپ عراق، بحرین، یمن، لیبیا، تونس اور مصر سمیت پوری دنیا میں دیکھ لیں، یہ آج بھی مظلوم مسلمانوں کے خلاف ہر ڈکٹیٹر اور آمر کی پشت پناہی کر رہے ہیں۔

15۔ یہ پیغمبر اسلام صل اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شفاعت کے قطعاً منکر ہیں، ان کا عقیدہ ہے کہ سرکارِ دو عالم کسی کی شفاعت نہیں کرسکتے، جبکہ دنیائے اسلام کے مایہ ناز محقق علامہ طاہرالقادری کی تحقیق کے مطابق "شفاعت کے وجود کا مطلقاً انکار صریح کفر ہے" نیز ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ شفاعت کا منکر مسلمات دین کا منکر ہے۔ [5]
16۔ خلافت عثمانیہ سے غداری۔۔ جب اسلامی دنیا میں ترکوں نے فقہ حنفی کے تحت سلطنت عثمانیہ قائم کر رکھی تھی اور خلافت عثمانیہ سامراج کی آنکھوں میں کانٹا بن کر کھٹک رہی تھی تو ایسے میں انہوں نے خلافتِ عثمانیہ سے غداری کی اور خلافت پر کاری ضرب لگائی۔ میر جعفر اور میر صادق کے یہ پیروکار آج بھی مرزا غلام احمد قادیانی کی طرح ایک کانے شخص ملّا عمر کے پیروکار ہیں اور اپنے چہروں پر مجاہدین اسلام کا لیبل لگا کر عالم اسلام کی پشت میں خنجر گھونپ رہے ہیں۔ عراق میں جب تک صدام رہا یہ اس کی ناک کے بال بنے رہے۔ صدام کی آمریّت کے خلاف انہوں نے کبھی اعلان جہاد نہیں کیا اور جب عوام نے سیاسی فعالیّت شروع کی تو یہ عوام کے خلاف میدان میں اتر آئے۔

لیبیا میں قذافی جیسا آمر ایک لمبے عرصے تک برسرِ اقتدار رہا، اس کی آمریّت کو یہ خلافت اسلامیہ کہتے رہے، ان کے مفتیوں نے کبھی قذافی کی آمریّت کے خلاف طبلِ جہاد نہیں بجایا، لیکن جب وہاں کی عوام اپنے حقوق کے لئے اٹھی تو انہوں نے قذافی کی مدد کے لئے کمر کس لی۔ مصر میں کتنے ہی عرصے سے حسن مبارک جیسا مکروہ ڈکٹیٹر برسرِ اقتدار رہا، لیکن انہوں نے کبھی اس کے خلاف اعلانِ جہاد نہیں کیا، لیکن جب وہاں کی مسلمان عوام ڈکٹیٹر کے خلاف اٹھی تو یہ عوام کے خلاف میدان میں اتر آئے۔ تونس کے مسلمان کتنی ہی مظلومیّت کے دور سے گزرے، لیکن کبھی انہوں نے اپنی زبان پر تونس کے ڈکٹیٹر کے خلاف جہاد کا لفظ نہیں لایا۔ افغانستان میں اگر امریکہ اور سعودی عرب کی ڈکٹیٹر شپ کے زیرِ سایہ طالبانی آمریّت کی بات کی جائے تو یہ بغلیں بجانے لگتے ہیں، ان کی باچھیں کھل جاتی ہیں، لیکن اگر افغانستان میں ایک آزاد عوامی اور اسلامی حکومت کی بات ہو تو ان کے رونگھٹے کھڑے ہوجاتے ہیں۔

ایران میں جب تک شہنشاہِ ایران برسرِ اقتدار رہا، انہوں نے کبھی اس کے خلاف اعلان جہاد نہیں کیا، لیکن جب وہاں اسلامی انقلاب آیا تو انہوں نے بانی انقلاب کے خلاف کفر کے فتوی بھی دیئے اور اسلامی انقلاب کو ناکام کرنے کے لئے امریکہ اور اسرائیل کی کھل کر مدد کی اور آج تک کر رہے ہیں۔ چلیں اب شام اور سعودی عرب کا ذکر کرتے ہیں، یہ نام نہاد مجاہدین شام کے شاہی خاندان کے خلاف ہیں اور سعودی عرب کے شاہی خاندان کی محبت ان کی توحید میں شامل ہے۔ سعودی عرب کے شاہی خاندان کی محبت سے ان کی توحید پرستی پر کوئی فرق نہیں پڑتا۔ شام کے شاہی خاندان سے ان کی دشمنی کی وجہ یہ ہے کہ وہاں کا شاہی خاندان اسرائیل اور امریکہ کا کٹر دشمن ہے، لیکن چونکہ سعودی عرب کا شاہی خاندان امریکہ، اسرائیل اور برطانیہ کا مکمل طور پر ہم نوالہ و ہم پیالہ ہے، اس لئے سعودی شاہی خاندان کی محبّت ان کے نزدیک عین توحید پرستی اور خالص ایمان ہے۔

2 اپریل 2012ء کی شب راولپنڈی سے سکردو جانے والی بیس مسافر گاڑیوں سے چلاس کے مقام اتار کر جن بے گناہوں کو موت کے گھاٹ اتار دیا گیا تھا، ان کا لہو ہم سب کے کاندھوں پر ہے۔ انہیں صرف قتل نہیں کیا گیا بلکہ ظلم، وحشت اور درندگی کی تاریخ میں ایک اور باب کا اضافہ کیا گیا۔ بہن کے سامنے بھائی اور ماں کے سامنے بیٹے کو بےدردی کے ساتھ قتل کیا گیا۔ کتنے ہی زندہ انسانوں کے ہاتھ پاوں باندھ کر انہیں دریا میں پھینک دیا گیا۔ بچوں اور خواتین کی آہ و بکا سے پتھروں کا جگر بھی چاک ہوگیا، لیکن ان ظالموں پر کوئی اثر نہیں ہوا۔ ان لوگوں کی منافقت کا بھانڈا پھوڑنے کے لئے یہی کافی ہے کہ جب کچھ مسافر وہاں سے مقامی سنّی آبادی کی طرف بھاگنے میں کامیاب ہوگئے تو وہاں کے سنّی مسلمانوں نے انہیں پناہ دی اور ان کی جانیں بچائیں۔ اس سے ظاہر ہے کہ یہ کوئی شیعہ سنّی مسئلہ نہیں تھا بلکہ اسلام اور پاکستان کے غدار بے گناہوں کا قتلِ عام کر رہے تھے۔

کسی زمانے میں درندوں کا مقابلہ آسان تھا، لوگ درندوں کی شکلوں سے پہچان جاتے تھے کہ یہ شیر ہے، یہ چیتا ہے، یہ ریچھ ہے، لیکن اب تو درندے انسانوں کے درمیان ہی رہتے ہیں، انسانوں کی سی ہی بود و باش رکھتے ہیں اور انسانوں پر ظلم ڈھاتے ہیں۔ اس وقت یہ درندے انتخابات کے ذریعے پاکستانی سیاست میں اپنے پنجے گاڑھنا چاہتے ہیں، ان درندوں اور ان کے سرپرستوں کو پاکستان کی سیاست سے باہر رکھنا تمام پاکستانیوں کے لئے ضروری ہے۔

ملت پاکستان کے مظلوم شہیدوں کا لہو ہم سے یہ تقاضا کر رہا ہے کہ اس وقت ہم درندوں کے خلاف متحد ہو کر پاکستان کی بقاء اور پاکستانیوں کی سالمیت کو یقینی بنائیں۔ اپریل کے مہینے میں مارے جانے والے بے گناہ شہیدوں کا لہو ہمیں یہ پیغام دے رہا ہے کہ درندے نہ سنّی ہیں اور نہ شیعہ، درندوں کا کوئی مذہب اور کوئی دین نہیں ہوتا۔ درندوں اور ظالموں کے خلاف قیام کرنا دین اسلام کا حکم بھی ہے اور عالمِ بشریت کی ضرورت بھی۔
--------------------------------------------------------------------------------

[1]استفادہ از پھل تے کنڈے از صائم چشتی
[2]استفادہ از زلزلہ از علامہ ارشد القادری مکتبہ ضیائیہ بوہڑ بازار راولپنڈی
[3]ایضاً
[4] ایضاً
[5] عقیدہ شفاعت از ڈاکٹر محمد طاہرالقادری ص

Add new comment