امام علیؑ سے حقیقی محبت اورعداوت

 

امیر المومنین حضرت علی علیہ السلام سے دوستی اور دشمنی کے حوالے سے' ابتدا سے آج تک ایک پیچیدگی موجود ہے۔ مرادیہ ہے کہ بعض لوگ آپ سے محبت کرتے ہیں' آپ سے دوستی رکھتے ہیں ۔جبکہ کچھ لوگ ایسے بھی ہیں جو آپ سے بغض 'دشمنی اورکینہ رکھتے ہیں۔ اس صورت میں ہمیں چاہئے کہ خود حضرت علی کے نکتۂ نظر سے باہمی دوستی اور دشمنی کے طرزِ عمل کے مختلف طریقوں کا جائزہ لیں۔ تاکہ اِس کے ذریعے محبت کے صحیح مفہوم کو سمجھ سکیں اور اِس مسئلے کی حقیقت تک پہنچ سکیں کہ آ پ اُن لوگوں کے بارے میں کیا رائے رکھتے ہیں جو لوگ اپنے دل میں آپ سے بغض و عداوت رکھتے ہیں اور اُن کا یہ جذبہ اِس قدر شدید ہوتا ہے کہ اگر دنیا کے تمام خزانوں کے منھ اُن کے لئے کھول دیئے جائیں 'تب بھی وہ اِس دشمنی اور عداوت سے دستبردار نہیں ہوں گے۔
اس بارے میں حضرت علی فرماتے ہیں:لو ضربت خیشوم المؤمن بسیفی ھذا علی ان یبغضنی 'ما ابغضنی۔ ولو صببت الدنیا بجما تھا او بجمتھا علی المنافق علی ان یحبنی ما احبّنی وذلک انہ قضی علی لسان النبی الامی(ص)' انہ قال: یا علی لا یبغضک مؤمن ولا یحبک منافق (اگر میں اپنی تلوار سے مومن کی ناک بھی کاٹ دوں' کہ وہ مجھ سے دشمنی کرنے لگے 'تو وہ ہرگزایسا نہیں کرے گا۔ اور اگر دنیا کی تمام نعمتیں منافق پر انڈیل دوں' کہ وہ مجھ سے محبت کرنے لگے 'تو وہ ہرگزیہ نہیں کرے گا ۔اسلئے کہ اِس بات کا فیصلہ نبی ٔ صادق (صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم) کی زبان سے ہو چکا ہے کہ: اے علی! کوئی مومن تم سے دشمنی نہیں کر سکتا اور کوئی منافق تمہارامحب نہیں ہو سکتا۔نہج البلاغہ ۔ کلماتِ قصار ٤٥)
پیغمبر اسلامۖ نے کس بنیاد پریہ بات کہی ہے ؟جبکہ ہم جانتے ہیں کہ کسی سے محبت کرنا اور کسی سے بغض و عداوت رکھنا ایک قلبی امر ہے'دل کا معاملہ ہے' جس کے بارے میں عام طور پر کوئی متعین اور معروف اصول نہیں پایا جاتا۔ کیونکہ بعض اوقات دل کسی ایسے شخص کی محبت میں بھی گرفتار ہوجاتا ہے جو اِس سے اختلافِ رائے رکھتا ہے۔ اسی طرح بسا اوقات اسکے برعکس بھی ہوتا ہے۔
اِس بنیاد پر دل کسی متعین اصول اور قاعدے کا پابندنہیں ہوتا' جس کی بنیاد پر وہ عمل کرتا ہو۔ لہٰذا کیا وجہ ہے کہ مومن علی سے کینہ و عداوت نہیں رکھتا اور منافق اِن سے دوستی اور محبت نہیں کرتا؟
علی میں کچھ انسانی خصوصیات پائی جاتی ہیں' جن کی بنیاد پر ممکن ہے منافق اِن سے محبت کرے۔ حضرت علی شجاع' عالم' عادل اور بہت سی اعلیٰ انسانی صفات کے حامل شخص ہیں اور لوگ انہی صفات و خصوصیات کی وجہ سے ایک دوسرے سے محبت کرتے ہیں' ایک دوسرے کو پسند کرتے ہیں۔
جب ہم دنیا میں محبت اور دشمنی کے اثرات کا جائزہ لیتے ہیں'تو اِس نتیجے پر پہنچتے ہیں کہ یہ مسئلہ آئیڈیالوجی سے کوئی تعلق نہیں رکھتا ۔کیونکہ علی سے محبت کوئی ایسا مسئلہ نہیں ہے جو سادہ قلبی احساسات سے تعلق رکھتا ہو۔ بلکہ اِس کا تعلق گہرے فکر و شعور سے ہے۔ کیونکہ علی کا پورا وجود ایمان سے معمور تھا۔ خداوند عالم فرماتا ہے : وَ مِنَ النَّاسِ مَنْ یَّشْرِیْ نَفْسَہُ ابْتِغَآئَ مَرْضَاتِ اﷲِ (اور لوگوں میں ایسے بھی ہیں 'جو اپنے نفس کو خدا کی خوشنودی کی خاطر بیچ ڈالتے ہیں۔ سورئہ بقرہ ٢۔ آیت ٢٠٧)
علی نے خدا کے ساتھ اپنی جان کا سودا کیا۔ حضرت علی کے وجود میں اپنے لئے کوئی چیز نہ تھی' آپ کی فکر' قلب' جد و جہد' شجاعت' زہد' عدل اور علم سب کچھ راہِ خدا کے لئے تھا۔ اور ان میں سے ہر چیز ایمان کے مدار پر گھومتی تھی۔ لہٰذا ایک ایسا مومن جو گہرے ایمان کا مالک ہو اور جس کی زندگی اسی راہ پر گامزن ہوبے شک و ہ علی سے محبت کرے گا۔ کیونکہ جب وہ اُس خدا سے محبت کرتا ہے جس پر علی ایمان رکھتے ہیں' جس کی معرفت علی رکھتے ہیں اور جس کی راہ میں وہ جہاد کرتے ہیں' تو لا محالہ وہ علی سے بھی محبت کرے گا اور اگروہ اسلام سے محبت کرتا ہے' تو لازماً وہ علی سے بھی محبت کرے گا۔
علی اورحق کے درمیان کوئی دوئی اور فاصلہ نہیں۔ لہٰذا ایک ایسا شخص جو حق پر ایمان رکھتا ہے' اس کے لئے ناگزیر ہے کہ وہ علی پر بھی ایمان رکھے۔ کیونکہ اگر کوئی شخص حق پر ایمان رکھتا ہے 'تو اسے چاہئے کہ آزادی'غورو فکراور عشق و محبت کے ساتھ کسی ایسے شخص کی پیروی کرے جو کُلِ ایمان ہے اور علی ایمان کے تمام و کمال کا مظہر ہیں۔
منافق اُسے کہا جاتا ہے جس نے اپنے دل میں کفر کو چھپایا ہوا ہوتا ہے' جس کے دل میں ذرّہ برابر ایمان نہیں ہوتا' اور جو اپنے افکار اور عقائد پر پردہ ڈالنے کے لئے زبان سے ایمان کا اظہار کرتا ہے' تاکہ عقائد 'اعمال اور زندگی کے تمام میدانوں سے ایمان کو جڑ سے ختم کر دے۔بھلا کیسے ممکن ہے کہ ایسا شخص علی کا محب ہو؟!!
http://www.balaghah.net/nahj-htm/urdo/id/maq/16.htm

Add new comment