غصب ِ خلافت کے بعد حضرت علی کا ردِ عمل
اسی لئے ولایت (اور مسلمانوں کی حاکمیت) کے لئے حضرت علی کا انتخاب کیا گیا تھا' کیونکہ وہی اس منصب کے اہل واحد ہستی تھے۔ وہی تھے جو فکری' معنوی' شرعی اور عملی پہلوئوں میں حقیقی اسلام سے لوگوں کو روشناس کرا سکتے تھے اور اسکی بنیاد پر لوگوں کے امور کا انتظام و انصرام کر سکتے تھے۔
لیکن اس دور کے اسلامی معاشرے کے پیچیدہ حالات نے علی کو ان کے مقام سے محروم کر کے ایک اور شخص کو اس منصب پر بٹھا دیا۔
اس حساس اورپیچیدہ صورتحال میں حضرت علی نے کس ردِ عمل کا مظاہرہ کیا؟
کیاانہوں نے اپنے حق کی بازیابی کے لئے مشکلات پیدا کرنی شروع کر دیں؟
یا آپ نےاسلام کی مصلحت اور اسکے مفاد کو ہر چیز پر مقدم قرار دیا؟
اچھا ہو گااگر ہم اِن حالات میں حضرت علی کے موقف اور ردِ عمل کو خود ان کے کلام میں تلاش کریں۔ اس بارے میںآپ نے فرمایا: حتی اذارایت راجعة الناس قدرجعت عن الاسلام یریدون محق دین محمد (ص) فخشیت ان لم انصرالاسلام واھلہ واشارک القوم فی امورھم واجھھم وانصحھم ان اری فیہ ثلماا و ھدما' تکون المصیبة بہ علیَّ اعظم من فوت ولا یتکم ھذہ' التی انما ھی متاع ایام قلائل' یزول منھا مازال کما یزول السراب اوکما ینقشع السحاب' فنھضت حتیٰ زال الباطل و زھق 'واطمان الدین و تنھنہ (یہاں تک کہ میں نے دیکھا کہ لوگوں کا ایک گروہ اسلام سے منھ موڑ کر دین محمد کو مٹا دینے پر تل گیاہے۔ مجھے اس بات کا خو ف ہوا کہ کوئی رخنہ یا خرابی دیکھنے کے باوجود اگرمیں اسلام اور اہلِ اسلام کی مدد نہ کروں' تو یہ میرے لئے اس سے بڑھ کر مصیبت ہو گی جتنی تمہاری حکومت میرے ہاتھ سے چلی جانے کی مصیبت 'جو تھوڑے دنوں کا اثاثہ ہے' اِس میں کی ہر چیز سراب اور ان بدلیوں کی مانند جو ابھی جمع نہ ہوئی ہو ں زائل ہو جانے والی ہے۔ چنانچہ اِن حالات میں' میں اٹھ کھڑا ہوا۔ تاکہ باطل نیست و نابود ہو جائے اور دین محفوظ ہو کر تباہی سے بچ جائے۔نہج البلاغہ ۔ مکتوب ٦٢)
اسی طرح آپ کے کلام میں یہ بھی ملتا ہے کہ : لولا حضور الحاضرو قیام الحجة بوجود الناصر' ومااخذ اﷲ علی العلماء ان لا یُقارواعلی کظة ظالم و سغب مظلوم لا لقیت حبلھا علی غاربھا 'ولسقیت آخرھا بکاس اوّلھا ' ولا لفیتم دنیا کم ھذہ اھون عندی من عفظة عنز (اگر بیعت کرنے والوں کی کثرت اور مدد کرنے والوں کی موجودگی سے مجھ پر حجت تمام نہ ہو گئی ہوتی' اور وہ عہد نہ ہوتا جو اﷲ نے علما سے لے رکھا ہے کہ وہ ظالم کی شکم سیری اور مظلوم کی بھوک دیکھ کر سکون و اطمینان سے نہ بیٹھے رہیں 'تو میں خلافت کی باگ اسی کے کاندھے پر ڈال دیتا اور اس کے آخر کو اسی پیالے سے سیراب کرتا جس پیالے سے اسکے اوّل کو سیراب کیا تھا اور تم دیکھتے کہ دنیا میری نظروں میں بکری کی چھینک سے بھی زیادہ بے قیمت ہے۔ نہج البلاغہ ۔ خطبہ ٣)
علی علیہ السلام اپنی ذاتی خواہشات کی تسکین کے لئے حکومت نہیں چاہتے تھے 'بلکہ آپ احکامِ الٰہی کے اجرا اور نفاذ کے لئے حکومت کے طلبگار تھے۔ اِس بارے میں آپ یوں فرماتے ہیں کہ: الھی انک تعلم انہ لم یکن الذی کان منا منافسہ فی سلطان ' ولا التماس شی من فضول الحطام ' ولکن لنردّ المعالم من دینک 'ونظھر الاصلاح فی بلادک ' وتُقام المعطلة من حدودک'ویامن المظلومون من عبادک (بارِالٰہا! یہ جو کچھ ہم سے( جنگ و پیکار کی صورت میں) ظاہر ہوا ہے' اسلئے نہ تھا کہ ہمیں تسلط و اقتدار کی خواہش تھی' یا ہم مالِ دنیا کے طالب تھے ۔بلکہ یہ اسلئے تھا کہ ہم دین کے نشانات کو (پھر ان کی جگہ پر) واپس لے کر آئیں اور تیرے وہ احکام (پھر سے) جاری ہو جائیں جنہیں بے کار بنا دیا گیا ہے اور تیرے شہروں میں امن و بہبود کی صورت پیدا کریں۔تاکہ تیرے ستم رسیدہ بندوں کو کوئی کھٹکا نہ رہے۔ نہج البلاغہ ۔ خطبہ ١٢٩)
روزِ غدیر 'وہ دن ہے جس دن خداوند عالم نے اپنے دین کو کامل کیا' اپنی نعمتوں کو وافر انداز میں عطا کیا۔ آج کے دن ہر مومن کے لئے مستحب ہے کہ وہ اپنے دینی بھائی سے ملاقات کرتے ہوئے کہے کہ : الحمد ﷲ الذی جعلنا من المتمسکین بولایة علی والا ئمة من اھل البیت 'الحمد ﷲ علی اکمال الدین و اتمام النعمة (اس خدا کا شکر جس نے ہمیں علی اور اُن کے اہل بیت کی ولایت سے وابستہ کیا' شکر اس خدا کا جس نے دین کو کامل کیا' اور نعمتوں کو اپنی انتہا پر پہنچایا)
واقعۂ غدیر سے یہ سبق حاصل کیا جا سکتا ہے کہ ہمیں ہمیشہ حضرت علی کی راہ اور اُن کی فکر کی پیروی کرنی چاہئے 'اُن کی محبت کو اپنے دل میں پروان چڑھانا چاہئے' ایک لمحے کے لئے بھی اُن سے جدا نہیں ہونا چاہئے۔ کیونکہ ولایت کی پیروی اسلام اور قرآن کی پیروی ہے۔ اسی کے ذریعے ہماری فکری اور معنوی سطح میں بلندی آئے گی اور ہم اپنے دشمنوں کے مقابل کھڑے ہو سکیں گے۔اسکے برعکس علی سے جدائی' اور علی سے دوری 'اسلام قرآن اور تمام خوبیوں سے دوری کے مترادف ہے ۔
اس نکتے کی جانب حضرت علی نے اپنے ایک خطاب میں اشارہ کرتے ہوئے فرمایا ہے کہ:انکم ستدعون الی سبّی والبرائة منی' امالسبّ فسبّونی فانّہ لی زکاة ولکم نجاة 'واماالبراء ة فانی ولدت علی الفطرة وسبقت الی الایمان والھجرة(جان لو کہ عنقریب تمہیں مجھ سے بیزاری اور مجھے برا بھلا کہنے پر اکسایا جائے گا۔ جہاں تک مجھے برا بھلا کہنے کی بات ہے (دشمن کے ظلم و زیادتی سے امان کے لئے) مجھے برا بھلا کہہ دینا۔ اسلئے کہ یہ میرے لئے درجات کی بلندی کا سبب اور تمہارے لئے (دشمنوں سے) نجات کا باعث ہوگا۔ لیکن (دل سے) ہر گز مجھ سے بیزاری کا اظہار نہ کرنا۔ اسلئے کہ میں (دین) فطرت پر پیدا ہوا ہوں' اور سب سے پہلے ایمان لانے اور ہجرت کرنے والا ہوں۔ نہج البلاغہ ۔خطبہ ٥٧)
لہٰذاجوکوئی علی سے اظہار ِبیزاری کرے'گویا اُس نے ایمان اور اسلام سے بیزاری و برائت کا اظہار کیا ہے۔یہی وجہ ہے کہ آپ سے بیزاری ظاہر نہیں کی جا سکتی ۔یہ علی کی پیروی کرنے اور ان کی راہ پر چلنے والے ہر شخص کی راہ ِعمل ہونی چاہئے۔ تاکہ اس طرح فکری' معنوی اور جہادی لحاظ سے امت قوت حاصل کرے۔ کیونکہ بزرگ اور معاشرے کی اصلاح کے لئے کوشاں شخصیات کے لئے اہم بات یہ نہیں ہوتی کہ لوگ اُن کے بارے میں کن جذبات کا اظہار کرتے ہیں بلکہ اُن کے لئے اہم بات یہ ہوتی ہے کہ لوگ راہ ِراست سے منحرف نہ ہوں۔ اور یہ واقعۂ غدیر میں مد ِ نظر اسباق میں سے ایک سبق ہے۔۔
http://www.balaghah.net/nahj-htm/urdo/id/maq/16.htm
Add new comment