پیغمبر کے بعد علی کو در پیش مشکلات

 

پیغمبر کے بعد حضرت علی کو سخت ترین مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔آپ اپنے آپ کو تن تنہا محسوس کرتے تھے۔ تنہا سوچتے' تنہا تکالیف جھیلتے اور تنہا ہی خطرات کا سامنا کرتے۔ آپ جانتے تھے کہ آپ کا مقام اس میخ کا سا ہے جس کے گرد چکی گھومتی ہے اور یہ سب ہی جانتے ہیں کہ چکی کی یہ میخ یا کلِّی ایک ہی ہوتی ہے۔ وہ اس بات پر یقین رکھتے تھے کہ علم و معرفت کا پاک و پاکیزہ چشمہ آپ ہی کے وجود سے جاری ہوتا ہے اور آسمانِ علم و دانش کے کسی پرندے میں مجال نہیں کہ وہ اُن کے علم و دانش کی بلندیوں تک نہیں پہنچ سکے۔ علی اپنے بھرپور علم و دانش سے خوب آگاہ تھے۔ لیکن انہیں کوئی ایسا شخص نہیں ملتا تھا جو اس چھلکتے ہوئے دریائے علم سے فیض اٹھا سکے۔ اوریہ بات آپ کو مسلسل کرب اور غم واندوہ میں مبتلا رکھتی تھی۔ آپ خود فرماتے ہی:ان ھاھنا لعلما جمالو وجدت لہ حملة (دیکھو یہاں (حضرت نے اپنے سینے کی طرف اشارہ کیا) علم کا ایک بڑا ذخیرہ موجود ہے ۔کاش! اس کو لینے والے مجھے مل جائیں۔ نہج البلاغہ ۔ کلمات قصار ١٤٧)
اپنے علم کا بوجھ اٹھانے کے لئے آپ کا ایسے افراد کو طلب کرنا' انہیں تلاش کرنا اسلئے نہ تھا کہ آپ اپنے علم کو اپنی برتری اور اقتدار کا ذریعہ بنانا چاہتے تھے۔ بلکہ آپ طالب ِ علموں کے متلاشی اسلئے تھے تاکہ اُن کے ذریعے اپنے علم و دانش کوآئندہ نسلوںتک منتقل کر سکیں۔ اسی بنیاد پر ہم کہتے ہیں کہ علی اپنی قوم اور اپنے زمانے میں تن تنہا رہے۔ اور آپ کی ایک سب سے بڑی مشکل یہ تھی کہ آپ ایسے معاشرے میں زندگی بسر کر رہے تھے جسے آپ کے مقام و منزلت کا ادراک ہی نہ تھا۔ اور اس بات کی گواہ آپ کی وہ گفتگو ہے جو آپ نے (خلیفۂ ثانی کی جانب سے قائم کردہ) شوریٰ اور اس سے متعلق مسائل پر فرمائی : فیا ﷲ وللشوریٰ' متی اعترض الریب فیَّ مع الاوّل منھم حتیٰ صرت اقران الی ھذہ النظائر' لکننی اسففت اذا سفّواوطرتُ اذاطاروا(اے اﷲ! مجھے اِس شوریٰ سے کیا سروکار! اِن میں سب سے پہلے کے مقابلے ہی میں میرے استحقاق اور فضیلت میں کیا شک تھا 'جو اب ان لوگوں میں بھی شامل کر لیا گیا ہوں۔ مگر میں نے یہ طریقہ اختیار کیا تھا کہ جب و ہ زمین کے نزدیک ہو کر پرواز کرنے لگیں 'تو میں بھی ایسا ہی کرنے لگوں اور جب وہ اونچے ہو کر اڑنے لگیں' تو میں بھی اسی طرح پرواز کروں۔نہج البلاغہ ۔ خطبہ ٣) ۔یعنی جہاں تک ہو سکے کسی نہ کسی صورت اِن سے نباہ کرتا رہوں۔
حضرت علی نے اسلام کے تحفظ اور اسکی بقا و سلامتی کے لئے بدترین حالات کا سامنا کیا اور اپنے انفرادی اور ذاتی مسائل سے درگزر فرمایا۔ اگر آپ خلافت کے طلبگار تھے' تو یہ اپنے کسی شخصی اور ذاتی مفاد کے لئے نہ تھا۔ بلکہ صرف اور صرف اسلام کی بہتری مقصود تھی۔
اِن حساس حالات میں 'حضرت علی کو جس مشکل کا سامنا تھا' وہ اسلام کو انحراف کی طرف لے جانے کی مشکل تھی۔ آپ ہر چند ظاہری طور پر اسلام کو دنیا میں فروغ پاتا دیکھ رہے تھے' اسے مضبوط ہوتا دیکھ رہے تھے لیکن آپ کی خواہش تھی کہ اسلام انسانوں کے شعور میںبس جائے' اُن کی فکر اور سوچ میں جگہ بنائے 'اُن کی روح میں اتر جائے۔ جیسا کہ پیغمبر اسلام کے زمانے میں قدرتی طور پر اسلام پھیلا۔ پیغمبر اسلام ایمان کے بارے میں فرماتے تھے کہ : من قال لا الہ الا اﷲ محمد رسول اﷲ حقن بھا مالہ و دمہ و عرضہ (جو کوئی یہ کہہ دے کہ کوئی معبود نہیں سوائے اﷲ کے' اور محمد اﷲ کے رسول ہیں 'اس نے اپنے مال و جان اور عزت و آبرو کو امان میں کر لیا (لیکن وہ حقیقتاً ایمان نہیں لایا ہے)۔ اسی طرح اِس بارے میں قرآنِ کریم میں اشارہ کیا گیا ہے کہ: قَالَتِ الْاَعْرَابُ ٰامَنَّاط قُلْ لَّمْ تُؤْمِنُوْا وَٰلکِنْ قُوْلُوْآ اَسْلَمْنَا وَ لَمَّا یَدْخُلِ الْاِیْمَانُ فِیْ قُلُوْبِکُمْ (یہ دیہاتی عرب کہتے ہیں کہ ہم ایمان لے آئے ہیں' تو آپ ان سے کہہ دیجئے کہ تم ایمان نہیں لائے بلکہ یہ کہو اسلام لے آئے ہیں' کہ ایمان ابھی تمہارے دلوں میں داخل نہیں ہوا ہے۔ سورئہ حجرات ٤٩۔ آیت ١٤)
بہر حال ' اپنے زمانے میں رسولِ مقبول کالائحۂ عمل یہ تھا کہ لوگ شرک سے نکل کر دائرۂ اسلام میں داخل ہو جائیں اور اس طرح رفتہ رفتہ ان میں اسلام کی قبولیت کا میدان ہموار ہو۔
http://www.balaghah.net/nahj-htm/urdo/id/maq/16.htm

Add new comment