مولود کعبہ کی ولادت
حضرت علی علیہ السّلام (599 – 661) رجب کی تیرہ تاریخ کو شہر مکہ میں خانہ کعبہ میں پیدا ہوۓ ۔ آپ کے والد کا نام ابوطالب علیہ السّلام اور والدہ کا نام فاطمہ بنت اسد السلام اللہ علیہا ہے۔ آپ کی پیدائش خانہ کعبہ کے اندر 13 رجب بروز جمعہ 30 عام الفیل کو ہوئی۔ حضرت علی علیہ السلام پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے چچا زاد بھائی ہیں بچپن میں پیغمبرصلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے گھر آئے اور وہیں پرورش پائی ۔ پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی زیر نگرانی آپ کی تربیت ہوئی ۔حضرت علی علیہ السلام پہلے مرد تھے جنہوں نے اسلام کا اظہار کیا ۔ آپ کی عمر اس وقت تقریبا دس یا گیارہ سال تھی ۔
آپ کی شادی مبارک حضور اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی شہزادی حضرت فاطمہ سلام اللہ علیہا سے ہوئی اور آپ کی گھریلو زندگی طمانیت اورراحت کا ایک بے مثال نمونہ تھی ۔
حضرت سیدہ فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا سے آپ کو تین فرزند ہوئے۔ حضرت محسن علیہ السّلام، امام حسن علیہ السّلام اور امام حسین علیہ السّلام، جبکہ ایک صاحبزادی حضرت سیدہ زینب سلام اللہ علیہا اور حضرت ام کلثوم سلام اللہ علیہا بھی حضرت سیدہ فاطمہ سلام اللہ علیہا سے تھیں۔
غزوہ بدر ،غزوہ احد، غزوہ خندق، غزوہ خیبر اور غزوہ حنین وہ بڑی لڑائیاں ہیں جن میں حضرت علی علیہ السلام نے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ساتھ رہ کر اپنی بے نظیر بہادری کے جوہر دکھلائے . تقریباًان تمام لڑائیوں میں حضرت علی علیہ السلام کو علمداری کا عہدہ بھی حاصل رہا ۔حضرت علی علیہ السلام مسلمانوں کے پہلے امام اور چوتھے خلیفہ تھے ۔
جتنے اقوال مبارک حضرت علی علیہ السّلام کے بارے میں احادیث نبوی میں موجود ہیں، کسی اور صحابی رسول کے بارے میں نہیں ملتے۔ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم فرماتے ہیں ۔۔ سبحان اللہ .. چند احادیث مبارک کی روشنی میں مولائے کائینات و متقیان حضرت علی علیہ السلام کی شان مبارک دیکھئے …
1.علی مجھ سے ہیں اور میں علی سے ہوں
2. میں علم کا شہر ہوں اور علی اس کا دروازہ ہے
3.تم سب میں بہترین فیصلہ کرنے والا علی ہے
4. علی کو مجھ سے وہ نسبت ہے جو ہارون کو موسیٰ علیہ السّلام سے تھی
5.علی مجھ سے وہ تعلق رکھتے ہیں جو روح کو جسم سے یا سر کو بدن سے ہوتا ہے۔
6.علی خدا اور رسول کے سب سے زیادہ محبوب ہیں
7. مباہلہ کے واقعہ میں حضرت علی کرم اللہ وجہہ کو نفسِ رسول کا خطاب ملا.
8.عملی اعزاز یہ تھا کہ مسجد میں سب کے لئے دروازے بند ہوئے تو علی کرم اللہ وجہہ کے لئے دروازہ کھلا رکھا گیا.
9.جب مہاجرین و انصار میں بھائی چارہ کیا گیا تو حضرت علی علیہ السلام کو پیغمبر نے اپنا دنیا واخرت میں بھائی قرار دیا
10.غدیر خم کے میدان میں ہزاروں مسلمانوں کے مجمع میں حضرت علی کو اپنے ہاتھوں پر بلند کر کے یہ اعلان فرما دیا کہ جس کا میں مولا (مددگار، سرپرست) ہوں اس کا علی بھی مولا ہیں۔
حضرت علی علیہ السّلام کو 19 رمضان 40ھ کو صبح کے وقت مسجد میں عین حالتِ نماز میں ایک زہر میں بجھی ہوئی تلوار سے زخمی کیا گیا۔ جب آپ کے قاتل کو گرفتار کرکے آپ کے سامنے لائے اور آپ نے دیکھا کہ اس کا چہرہ زرد ہے اور آنکھوں سے آنسو جاری ہیں تو آپ کو اس پر بھی رحم آ گیا اور اپنے دونوں فرزندوں حضرت حسن علیہ السلام اور حضرت حسین علیہ السلام کو ہدایت فرمائی کہ یہ تمہارا قیدی ہے اس کے ساتھ کوئی سختی نہ کرنا جو کچھ خود کھانا وہ اسے کھلانا۔ اگر میں اچھا ہو گیا تو مجھے اختیار ہے میں چاہوں گا تو سزا دوں گا اور چاہوں گا تو معاف کردوں گا اور اگر میں دنیا میں نہ رہا اور تم نے اس سے انتقام لینا چاہا تو اسے ایک ہی ضرب لگانا، کیونکہ اس نے مجھے ایک ہی ضرب لگائی ہے اور ہر گز اس کے ہاتھ پاؤں وغیرہ قطع نہ کیے جائیں، اس لیے کہ یہ تعلیم اسلام کے خلاف ہے، دو روز تک حضرت علی علیہ السلام بستر بیماری پر انتہائی کرب اور تکلیف کے ساتھ رہے اخر کار زہر کا اثر جسم میں پھیل گیا اور 21 رمضان کو نمازِ صبح کے وقت آپ کی وفات ہوئی۔ حضرت حسن علیہ السلام و حضرت حسین علیہ السلام نے تجہیزو تکفین کی اور پشتِ کوفہ پر نجف کی سرزمین میں دفن کیے گئے۔
اقوال مولا علی علیہ السلام ۔۔۔ فرماتے ہیں ۔۔
1. جب عقل بڑھتی ہے ,تو باتیں کم ہو جاتی ہیں ….
2. گناہ تک رسائی کا نہ ہوتا بھی ایک صورت پاکدامنی کی ہے۔
3. جب کسی کام میں اچھے برے کی پہچان نہ رہے توآغاز کو دیکھ کر انجام کو پہچان لینا چاہیے ….. .
4. ہرشخص کی قیمت وہ ہنر ہے ,جو اس شخص میں ہے …..
5. تمہیں ایسی پانچ باتوں کی ہدایت کی جاتی ہے. …..-
اگر انہیں حاصل کرنے کے لیے اونٹوں کو ایڑ لگا کر تیز ہنگاؤ, تو وہ اسی قابل ہوں گی .
– تم میں سے کوئی شخص اللہ کے سوا کسی سے آس نہ لگائے
– اس کے گناہ کے علاوہ کسی شے سے خو ف نہ کھائے .
— اگر تم میں سے کسی سے کوئی ایسی بات پوچھی جائے کہ جسے و ہ نہ جانتا ہو تو یہ کہنے میں نہ شرمائے کہ میں نہیں جانتا
- اگر کوئی شخص کسی بات کو نہیں جانتا تو اس کے سیکھنے میں شرمائے نہیں
— صبر و شکیبائی اختیار کرو کیونکہ صبر کو ایمان سے وہی نسبت ہے جو سر کو بدن سے ہوتی ہے.اگر سر نہ ہو تو بدن بیکار ہے ,یونہی ایمان کے ساتھ صبر نہ ہو تو ایمان میں کوئی خوبی نہیں .
6. عفت فقر کا زیور ہے اور شکر دولت مندی کی زینت ہے .
7. تھوڑا دینے سے شرماؤ نہیں کیونکہ خالی ہاتھ پھیرنا تو اس سے بھی گری ہوئی بات ہے .
8. کسی کو اس کے حق سے زیادہ سراہنا چاپلوسی ہے اور حق میں کمی کرنا کوتاہ بیانی ہے یا حسد.
9. ہر شخص کے مال میں دو حصہ دار ہوتے ہیں۔ ایک وارث اور دوسرے حوادث.
10. جو عمل نہیں کرتا اور دعا مانگتا ہے وہ ایسا ہے جیسے بغیر حلیہ کمان کے تیر چلانے والا.
56 تبصرے برائے “تیرہ رجب ، مولائے کائینات حضرت علی علیہ السلام کا یوم ظہور مبارک”
صفدر ھمٰدانی نے کہا ہے:
May 29, 2012 بوقت 2:42 pm
جزاک اللہ۔نیک کام میں اولیت اور پہل بذات خود باقی نیکیوں کی نسبت بڑی نیکی ہے اور اللہ پاک کا احسان ہے۔یہ سعادت وہ جسے چاہے بخش دے۔
صفدر ھمٰدانی نے کہا ہے:
May 29, 2012 بوقت 2:45 pm
ولادت علی (ع) کے سلسلہ میں علماء، مؤرخین و محدثین اہل سنت کا نظریہ
حضرت علی علیہ السلام
حاکم نیشابوری
امیر المومنین حضرت علی بن ابی طالب کرم اللہ وجہ خانہ کعبہ میں فاطمہ بنت اسد کے بطن مبارک سے پیدا ہوئے یہ روایت تواتر کی حد تک ہے ۔ (1)
حافظ گنجی شافعی
امیرالمومنین حضرت علی بن ابی طالب علیہ السلام مکہ معظمہ میں خانہ کعبہ کے اندر شب جمعہ ۳۱رجب ، ۰۳ عام الفیل کو پیدا ہوئے۔ اس سے پہلے اور اس کے بعد کوئی بیت اللہ میں پیدا نہ ہوا ۔ یہ مقام و منزلت و شرف فقط حضرت علی علیہ السلام کو حاصل ہے ۔ (2)
علامہ ابن صبّاغ مالکی
علی بن ابی طالب علیہ السلام شب جمعہ ۳۱رجب ،۰۳عام الفیل، ۳۲سال قبل از ہجرت مکہ معظمہ میں خانہ کعبہ کے اندر پیدا ہوئے ۔حضرت علی علیہ السلام کی جلالت وبزرگی اور کرامت کی وجہ سے خداوند عالم نے اس فضیلت کوان کے لئے مخصوص کیا ہے ۔ (3)
احمد بن عبد الرحیم دہلوی
شاہ ولی اللہ احمد بن عبد الرحیم د معروف محدث دہلوی نقل کرتے ہیں:
”بغیر کسی شک و شبہ کے یہ روایت متواتر ہے کہ علی بن ابی طالب علیہ السلام شب جمعہ ۱۳رجب ،۳۰عام الفیل، ۲۳سال قبل از ہجرت ،مکہ معظمہ میں خانہ کعبہ کے اندر فاطمہ بنت اسد کے بطن مبارک سے پیدا ہوئے ۔ ان سے پہلے اور نہ ان کے بعد کوئی بھی شخص خانہ کعبہ کے اندر پیدا نہیں ہوا ۔ حضرت علی (ع) کی جلالت وبزرگی اور کرامت کی وجہ سے خداوند عالم نے اس فضیلت کوان کے لئے مخصوص کیا ہے “ (4)
علامہ ابن جوزی جنفی کہتے ہیں کہ حدیث میں وارد ہے
”جناب فاطمہ بنت اسد خانہ کعبہ کا طواف کررہی تھیں کہ وضع حمل کے آثار ظاہر ہوئے اسی وقت خانہ کعبہ کا دروازہ کھلا اورجناب فاطمہ بنت اسد کعبہ کے اندر داخل ہوگئيں ۔اسی جگہ خانہ کعبہ کے اندر حضرت علی علیہ السلام پیدا ہوئے ۔“ (5)
ابن مغازلی شافعی زبیدہ بنت عجلان سے نقل کرتے ہیں :
”جس وقت فاطمہ بنت اسد پر وضع حمل کے آثار ظاہر ہوئے اور درد شدت اختیار کرگیا ، تو جناب ابو طالب(ع) بہت زیادہ پریشان ہوگئے اسی اثناء میں حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم وہاں پہنچ گئے اور پوچھا چچا جان آپ کیوں پریشان ہیں! جناب ابو طالب (ع) نے جناب فاطمہ بنت اسد کا قضیہ بیان کیا ۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم فاطمہ بنت اسد کے پاس تشریف لے گئے ۔ اور آپ (ص) نے جناب ابو طالب (ع) کا ہاتھ پکڑکر خانہ کعبہ کی طرف روانہ ہو گئے ،فاطمہ بنت اسد بھی ساتھ ساتھ تھیں ۔ وہاں پہنچ کر آپ نے فاطمہ بنت اسد کو خانہ کعبہ کے اندر بھیج کر فرمایا : ”اجلسی علیٰ اسم اللّٰہ “ اللہ کا نام لے کر آپ اس جگہ بیٹھ جائیے ۔ پس کچھ دیر کے بعد ایک بہت ہی خوبصورت و پاکیزہ بچہ پیدا ہوا ۔ اتنا خوبصورت بچہ ہم نے کبھی نہیں دیکھا تھا ۔ جناب ابوطالب (ع) نے اس بچہ کا نام ” علی “رکھا حضرت رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اس بچہ کو ایک سفید کپڑے میں لپیٹ کر فاطمہ بنت اسد کے ہمراہ ان کے گھر تشریف لے گئے ۔ (6)
علامہ سکتواری بسنوی
اسلام میں وہ سب سے پہلا بچہ ہے جس کا تمام صحابہ کے درمیان ”حیدر “ یعنی شیر نام رکھا گیا ہے۔ وہ ہمارے مولا اور سید و سردار حضرت علی بن ابی طالب علیہ السلام ہیں ۔ جس وقت حضرت علی علیہ السلام خانہ کعبہ میں پیدا ہوئے اس وقت حضرت ابو طالب (ع)سفر پر گئے ہوئے تھے ۔ حضرت علی علیہ السلام کی مادر گرامی نے ان کا نام تفأل کرنے کے بعد”اسد“ رکھا ۔ کیوں کہ” اسد“ ان کے والد محترم کا نام تھا۔ (7)
علامہ محمد مبین انصاری حنفی لکھنوی(فرنگی محلی)
حضرت علی علیہ السلام خانہ کعبہ کے اندر پیدا ہوئے ۔ حضرت علی علیہ السلام کے علاوہ کوئی بھی اس پاک و پاکیزہ اور مقدس جگہ پر پیدا نہ ہوا ۔ خدا وند عالم نے اس فضیلت کو فقط حضرت علی (ع) ہی سے مخصوص کیا ہے اور خانہ کعبہ کو بھی اس شرف سے مشرف فرمایا ہے۔ (8)
صفی الدین حضرمی شافعی لکھتے ہیں
حضرت علی ابن ابی طالب علیہ السلام کی ولادت خانہ کعبہ کے اندر ہوئی ۔آپ (ع) وہ پہلے اور آخری شخص ہیں جو ایسی پاک اور مقدس جگہ پیدا ہوے ۔ (9)
حافظ شمس الدین ذہبی
حافظ شمس الدین ابو عبد اللہ محمد بن احمد ذہبی ” تلخیص مستدرک “ میں تحریر فرماتے ہیں: یہ خبر تواتر کی حد تک ہے کہ حضرت علی ابن ابی طالب علیہ السلام خانہ کعبہ کے اندر پیدا ہوئے ۔ (10)
آلوسی بغدادی
یہ واقعہ اپنی جگہ بجا اور بہتر ہے کہ خدا وند عالم نے ارادہ کیا ہے کہ ہمارے امام اور پیشوا کو ایسی جگہ پیدا کرے جو سارے عالم کے مومنین کا قبلہ ہے ۔ پاک و پاکیزہ ہے وہ پر وردگار کہ ہر اس چیز کو اسی کی جگہ پر رکھتا ہے ۔وہ بہترین حاکم ہے ۔ (11)
وہ آگے لکھتے ہیں:
جیسا کہ کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ حضرت علی علیہ السلام بھی چاہتے تھے کہ خانہ کعبہ جس کے اندر پیدا ہونا ان کے لئے باعث افتخار تھا اس کی خدمت کریں۔ یہی وجہ تھی کہ انھوں نے بتوں کو بلندی سے اٹھا کر نیچے پھینک دیا ۔ حدیث کے ایک ٹکڑے میں آیا ہے کہ خانہ کعبہ نے بارگاہ خداوندی میں شکایت کرتے ہوئے کہا : بار الٰہا کب تک لوگ میرے چاروں طرف بتوں کی پوجا کرتے رہیں گے۔ خداوند عالم نے اس سے وعدہ کیا کہ اس مکان مقدس کو بتو ں سے پاک کرے گا۔ (12)
1- مستدرک حاکم نیشاپوری ،ج۳ص۴۸۳۔۵۵۰( حکیم ابن حزام کے شرح میں) و کفایۃ الطالب،ص۲۶۰
2- کفایۃ الطالب ، ص۴۰۷
3- الفصول المہمۃ ،ص۳۰
4- ازالۃ الخلفاءج۲ص۲۵۱
5- تذکرۃ الخواص ،ص۲۰
6- مناقب ابن مغازلی ،ص ۶، ح۳ ۔الفصول المہمۃ ،ص۳۰
7- محاضرۃ الاوائل ،ص۷۹
8- وسیلۃ النجاۃ ،محمد مبین حنفی ،ص۶۰( چاپ گلشن فیض لکھنو )
9- وسیلۃ المآل ،حضرمی شافعی ، ص۲۸۲
10- تلخیص مستدرک ج۲ص۴۸۳
11- غالیۃ المواعظ ،ج ۲ص۸۹ و الغدیر ،ج۶ ، ص۲۲
12- ازاحۃ الخلفاءعن خلافۃ الخلفاء،ص۲۵۱
تحریر : مولانا صفدر حسین یعقوبی
شاھین حیدر رضوی نے کہا ہے:
May 29, 2012 بوقت 3:04 pm
جتنے اقوال مبارک حضرت علی علیہ السّلام کے بارے میں احادیث نبوی میں موجود ہیں، کسی اور صحابی رسول کے بارے میں نہیں ملتے۔ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم فرماتے ہیں ۔۔ سبحان اللہ .. چند احادیث مبارک کی روشنی میں مولائے کائینات و متقیان حضرت علی علیہ السلام کی شان مبارک دیکھئے …
1.علی مجھ سے ہیں اور میں علی سے ہوں
2. میں علم کا شہر ہوں اور علی اس کا دروازہ ہے
3.تم سب میں بہترین فیصلہ کرنے والا علی ہے
4. علی کو مجھ سے وہ نسبت ہے جو ہارون کو موسیٰ علیہ السّلام سے تھی
5.علی مجھ سے وہ تعلق رکھتے ہیں جو روح کو جسم سے یا سر کو بدن سے ہوتا ہے۔
6.علی خدا اور رسول کے سب سے زیادہ محبوب ہیں
7. مباہلہ کے واقعہ میں حضرت علی کرم اللہ وجہہ کو نفسِ رسول کا خطاب ملا.
8.عملی اعزاز یہ تھا کہ مسجد میں سب کے لئے دروازے بند ہوئے تو علی کرم اللہ وجہہ کے لئے دروازہ کھلا رکھا گیا.
9.جب مہاجرین و انصار میں بھائی چارہ کیا گیا تو حضرت علی علیہ السلام کو پیغمبر نے اپنا دنیا واخرت میں بھائی قرار دیا
10.غدیر خم کے میدان میں ہزاروں مسلمانوں کے مجمع میں حضرت علی کو اپنے ہاتھوں پر بلند کر کے یہ اعلان فرما دیا کہ جس کا میں مولا (مددگار، سرپرست) ہوں اس کا علی بھی مولا ہیں۔
حضرت علی علیہ السّلام کو 19 رمضان 40ھ کو صبح کے وقت مسجد میں عین حالتِ نماز میں ایک زہر میں بجھی ہوئی تلوار سے زخمی کیا گیا۔ جب آپ کے قاتل کو گرفتار کرکے آپ کے سامنے لائے اور آپ نے دیکھا کہ اس کا چہرہ زرد ہے اور آنکھوں سے آنسو جاری ہیں تو آپ کو اس پر بھی رحم آ گیا اور اپنے دونوں فرزندوں حضرت حسن علیہ السلام اور حضرت حسین علیہ السلام کو ہدایت فرمائی کہ یہ تمہارا قیدی ہے اس کے ساتھ کوئی سختی نہ کرنا جو کچھ خود کھانا وہ اسے کھلانا۔ اگر میں اچھا ہو گیا تو مجھے اختیار ہے میں چاہوں گا تو سزا دوں گا اور چاہوں گا تو معاف کردوں گا اور اگر میں دنیا میں نہ رہا اور تم نے اس سے انتقام لینا چاہا تو اسے ایک ہی ضرب لگانا، کیونکہ اس نے مجھے ایک ہی ضرب لگائی ہے اور ہر گز اس کے ہاتھ پاؤں وغیرہ قطع نہ کیے جائیں، اس لیے کہ یہ تعلیم اسلام کے خلاف ہے، دو روز تک حضرت علی علیہ السلام بستر بیماری پر انتہائی کرب اور تکلیف کے ساتھ رہے اخر کار زہر کا اثر جسم میں پھیل گیا اور 21 رمضان کو نمازِ صبح کے وقت آپ کی وفات ہوئی۔ حضرت حسن علیہ السلام و حضرت حسین علیہ السلام نے تجہیزو تکفین کی اور پشتِ کوفہ پر نجف کی سرزمین میں دفن کیے گئے۔
اقوال مولا علی علیہ السلام ۔۔۔ فرماتے ہیں ۔۔
1. جب عقل بڑھتی ہے ,تو باتیں کم ہو جاتی ہیں ….
2. گناہ تک رسائی کا نہ ہوتا بھی ایک صورت پاکدامنی کی ہے۔
3. جب کسی کام میں اچھے برے کی پہچان نہ رہے توآغاز کو دیکھ کر انجام کو پہچان لینا چاہیے ….. .
4. ہرشخص کی قیمت وہ ہنر ہے ,جو اس شخص میں ہے …..
5. تمہیں ایسی پانچ باتوں کی ہدایت کی جاتی ہے. …..-
اگر انہیں حاصل کرنے کے لیے اونٹوں کو ایڑ لگا کر تیز ہنگاؤ, تو وہ اسی قابل ہوں گی .
– تم میں سے کوئی شخص اللہ کے سوا کسی سے آس نہ لگائے
– اس کے گناہ کے علاوہ کسی شے سے خو ف نہ کھائے .
— اگر تم میں سے کسی سے کوئی ایسی بات پوچھی جائے کہ جسے و ہ نہ جانتا ہو تو یہ کہنے میں نہ شرمائے کہ میں نہیں جانتا
- اگر کوئی شخص کسی بات کو نہیں جانتا تو اس کے سیکھنے میں شرمائے نہیں
— صبر و شکیبائی اختیار کرو کیونکہ صبر کو ایمان سے وہی نسبت ہے جو سر کو بدن سے ہوتی ہے.اگر سر نہ ہو تو بدن بیکار ہے ,یونہی ایمان کے ساتھ صبر نہ ہو تو ایمان میں کوئی خوبی نہیں .
6. عفت فقر کا زیور ہے اور شکر دولت مندی کی زینت ہے .
7. تھوڑا دینے سے شرماؤ نہیں کیونکہ خالی ہاتھ پھیرنا تو اس سے بھی گری ہوئی بات ہے .
8. کسی کو اس کے حق سے زیادہ سراہنا چاپلوسی ہے اور حق میں کمی کرنا کوتاہ بیانی ہے یا حسد.
9. ہر شخص کے مال میں دو حصہ دار ہوتے ہیں۔ ایک وارث اور دوسرے حوادث.
10. جو عمل نہیں کرتا اور دعا مانگتا ہے وہ ایسا ہے جیسے بغیر حلیہ کمان کے تیر چلانے والا.
ڈاکٹر نگہت نسیم سڈنی
Add new comment