‘‘علامہ طبرسیؒ مفسِّرین کے لئے نمونۂ عمل ’’

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

سید عقیل حیدر زیدی المشہدی

فاضلِ حوزۂ علمیہ مشہد مقدَّس (ایران)

ابو علی فضل ابن حسن ابن فضل طبرسیؒ جن کا لقب ‘‘أمین الاسلام’’ ہے، چھٹی صدی ہجری کے مشہور شیعہ عالم، مفسِّر، محدِّث، فقیہ، متکلِّم، أدیب، لغت شناس اور ریاضی دان شمار ہوتے ہیں، آپ کی تفسیر ‘‘مَجْمَعُ البَیٰانِ فِی تَفْسِیْرِ الْقُرآنِ’’ قرآنِ کریم پر لکھی جانے والی بہترین تفاسیر میں سے شمار ہوتی ہے نیز اسلامی اور مکتبِ تشیّع کے مکتوب ورثہ کے افتخارات میں سے ایک سمجھی جاتی ہے۔

‘‘علامہ طبرسیؒ ’’ کی ولادت ٤٦٨ یا ٤٦٩ ہجری قمری کو ایران کے مشہور و معروف شہر، مشہد مقدس میں ہوئی اور آپ کی رحلت مشہور قول کے مطابق ٥٤٨ ہجری قمری کو عید الاضحی کی شب، صوبہ خراسان کے شہر سبزوار میں ہوئی، جہاں آپ نے اپنی زندگی کے آخری ٢٥ سال گذارے، وفات کے بعد آپ کے جسدِ خاکی کو مشہد مقدس منتقل کیا گیا اور آپ حرم مطہر امام علی ابن موسیٰ الرضا کے نزدیک ، اُس مقام پر سپرد خاک کئے گئے ، جسے اُس زمانے میں قتل گاہ کے نام سے جانا جاتا تھا (کیونکہ حکومت صفویہ کے آخری دور میں ‘‘عبد اللہ خان امیر افغان’’ کے حکم سے یہاں پر لوگوں کا قتل عام کیا گیا تھا)۔ لیکن انقلاب اسلامی ایران کے بعد حرم مطہر امام علی ابن موسیٰ الرضا  کی توسیع اور حرم کے اطراف زیر زمین شارع بچھانے کے پیش نظر آپ کے مقبرے کو باغِ رضوان کے ایک حصے میں منتقل کر دیا گیا۔ اِس وقت آپ کے مرقد کے سامنے اور حرم امام علی رضا  کے شمال کی طرف ایک وسیع و عریض شارع گزرتی ہے ، جسے ‘‘علامہ طبرسیؒ ’’ کے نام سے موسوم کیا گیا ہے۔

آپ کے فرزند ‘‘ابو نصر حسن ابن فضل ابن حسن طبرسیؒ ’’ صاحب کتاب ‘‘مَکَارِمُ الاَخْلَاقِ’’ ہیں اور آپ کے پوتے ‘‘ابوالفضل علی ابن حسن ابن فضل طبرسی’’ صاحب کتاب ‘‘نَثْرُ الْلِئَالِی’’ اور ‘‘مِشْکٰوةُ الاَنْوَارِ’’ ہیں، انہوں نے ‘‘مِشْکٰوةُ الاَنْوَارِ’’ اپنے والد کی کتاب ‘‘مَکَارِمُ الاَخْلَاقِ’’ کی تکمیل میں تألیف فرمائی۔

ابو منصور احمد ابن علی ابن ابی طالب بھی‘‘طبرسی’’ کے نام سے مشہور ہیں اور ان کی طرف کتاب ‘‘اَلْاِحْتِجٰاجُ’’ کی نسبت دی جاتی ہے ، لیکن اُن کی صاحب ‘‘مَجْمَعُ البَیٰان’’ سے کسی قسم کی کوئی نسبت یا قرابتداری نہیں ہے۔

البتہ کتاب ‘‘نَثْرُ الْلِئَالِی’’ کے بارے میں بعض کا نظریہ یہ ہے کہ یہ کتاب خود ‘‘علامہ طبرسی’’ صاحبِ ‘‘مَجْمَعُ البَیٰان’’ نے تألیف فرمائی ہے، علّامہ آقا بزرگ تہرانی ؒ اِس کتاب کے بارے میں فرماتے ہیں: ‘‘نَثْرُ الْلِئَالِی امیر المومنین علی  کے مختصر کلمات پر مشتمل ایسا مجموعہ ہے کہ جو حروف تہجّی کی ترتیب پر جمع آوری کیا گیا ہے اور ہر حرف کے ذیل میں دس یا اُس سے کم و بیش فرمودات بیان ہوئے ہیں، اِس مجموعہ کو مفسِّر قرآن أمین الاسلام فضل ابن حسن ابن فضل طبرسیؒ (وفات ٥٤٨ قمری) نے تألیف کیا ہے اور اس کتاب کا ایک نسخہ کتابخانۂ صدر اور ایک نسخہ موقوفہ حاجی ملا نوروز علی بُسطامی، مشہد مقدس میں محفوظ ہے۔’’١

کتاب ‘‘نَثْرُ الْلِئَالِی’’ کا تعارف

نثر اللألی امیر المومنین علی ابن ابی طالب  کی مختصر فرمائشات پر مشتمل ایسا مختصر رسالہ ہے، جسے مرحوم آمدی کی کتاب ‘‘غِرَرُالْحِکَمِ وَدُرَرُ الْکَلِمِ’’ کی روش پر حروفِ تہجّی کی ترتیب کے مطابق مرتَّب کیا گیا ہے اور حرفِ الف سے آغاز اورحرفِ یاء پر اختتام ہوتا ہے، لیکن ایک حرف کے ذیل میں جو فرمائشات بیان ہوئی ہیں، خود اُن فرمائشات میں حروف تہجّی کی ترتیب کا لحاظ نہیں رکھا گیا، بلکہ ہر حرف کے ذیل میں نامنظم اور غیر مرتّب فرمائشات ذکر کی گئیں تھیں، لہذا جناب محمد حسن زبری قاینی نے اِس کتاب کی تحقیق و تصحیح کے بعد حروف تہجّی کی کلی ترتیب کے پیش نظر، خود ہر حرف کے ذیل میں بھی حروف تہجّی کی ترتیب کو ملحوظ خاطر رکھا ہے، تاکہ کتاب کا حُسن مزید بڑھ جائے اور قاری بھی آسانی سے اپنے مقصود تک دسترسی حاصل کرلے۔

یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ یہ فرمایشات جو مرحوم طبرسیؒ نے اس کتاب ‘‘نَثْرُ الْلِئَالِی’’ میں جمع فرمائی ہیں، دوسری اُن کتب اور منابع میں، جن میں امیر المومنین علی علیہ السلام کے کلمات کو جمع آوری کیا گیا ہے، جیسے: نہج البلاغہ، غرر الحکم، ابن ابی الحدید کی الحکم المنثور، مطلوب کل طالب اور ان کے علاوہ دیگر کتابوں میں نہیں پائی جاتی ہیں۔ (لہٰذا اِس کتاب کی اِسی اہمیت کے پیش نظر ہم نے امیر المومنین علی  کی ان فرمایشات کو قارئین کی خدمت میں بمعہ ترجمہ پیش کیا ہے)۔

نَثْرُ الْلِئَالِی کی تصحیح اور اِس کا مورد توجّہ نسخہ

اِس کتاب کے بہت سے نسخے مختلف خطِ کتابت اور اسلوب تحریر میں مختلف کتابخانوں میں موجود ہیں، اس کتاب کی تحقیق اور تصحیح کے لئے جناب محمد حسن زبری قاینی نے استاد محترم کاظم مدیر شانہ چی (قدّس سرّہ ) کے شخصی اور ذاتی کتابخانے کے چھپے ہوئے (Printed) نسخے کو مورد عنایت اور مورد ِ توجّہ قرار دیا اور اس چھپے ہوئے نسخے کو کتابخانہ آستانِ قدس رضوی (مشہد مقدس) کے اندر موجود دیگر نو نسخوں سے مقایسہ اور مقابلہ کیا اور نسخوں کے اختلاف کو نیچے حاشیہ میں ذکر کیا ہے، مذکورہ نسخہ ١٣١٣ قمری میں تحریر کیا گیا اور حدیث ‘‘ اِیْمَانُ الْمَرْئِ یُعْرَفُ بِأَیْمَانِہِ ’’ سے شروع ہوتا ہے اور حدیث ‘‘ یَأْسُ الْقَلْبِ رَاحَةُ النَّفْسِ ’’ پر ختم ہوتا ہے۔ لیکن تحقیق و تصحیح کرنے والے نے کیونکہ خود حروف تہجّی کی ترتیب کو بھی ملحوظ خاطر رکھا ہے اور مذکور احادیث کو بھی بعد میں آنے والے حروف تہجّی کے لحاظ سے ترتیب دیا ہے ، اسلئے اس نسخے کی ترتیب تبدیل ہو گئی ہے۔

طبرسی کا صحیح تلفُّظ کیا ہے؟

مرحوم طبرسیؒ کی شہرت ‘‘طبرسی’’ کے تلفُّظ میں اختلاف ہے، بعض اس کو‘‘ طَبَرْسی’’پڑھتے ہیں، اُن کا دعویٰ یہ ہے کہ آپ کی نسبت ‘‘طبرستان’’ کی طرف ہے، میرزا عبداللہ أفندی ‘‘رِیٰاضُ العُلَمٰاء’’ میں اور محمد باقر خوانساری ‘‘رَوْضٰاتُ الجَنّٰاتِ’’ میں اِسی پر اصرار کرتے ہیں۔

لیکن بعض یہ کہتے ہیں کہ ‘‘طبرستان’’ کی طرف نسبت سے ‘‘طَبَرِی’’ یا ‘‘طَبْرٰانی’’ یا ‘‘طَبْرِسْتٰانی’’ ہونا چاہیے ، نہ کہ ‘‘طَبَرْسی ’’۔ بلکہ مؤلِّفِ‘‘مَجْمَعُ البَیٰان’’ کا دقیق منسوب نام ‘‘طَبْرِسی’’ ہے، جو‘‘تَفْرِشی’’سے عربی میں پھیرا گیا (یعنی معَرَّب ہوا )ہے ،‘‘تَفْرِش’’ قم مقدس اور أراک کے نزدیک، ایک شہر ہے، جس شہر کی طرف ‘‘علامہ طبرسی ؒ ’’ کی نسبت ہے۔۲

اِسی طرح سے‘‘طَبْرَسی’’ اور ‘‘طَبْرِسی’’ (راء کے زبر اور زیر) ہر دو پڑھے گئے ہیں اور مختلف منابع میں دونوں صورتوں میں ضبط ِ تحریر ہوئے ہیں،‘‘طَبْرَسی’’ ضبط کرنے کی دلیل شاید یہ ہو کہ عجمی الفاظ کو عربی میں ڈھالنے کے وقت حروف کی تبدیلی کے ساتھ، کبھی حرکات بھی تبدیل ہوجاتی ہوں اور عربی کے أوزان کے مساوی کرنا، مشہور صرفی أوزان کی شکل میں ہی ہو سکتا ہے اور عربی میں ‘‘فَعْلِل’’ کا وزن نہ ہونے کی وجہ سے راء کا زیر ، زبر میں تبدیل ہوگیا ہو، نیز یہ کہ زبر( فَتْحَہ) کی حرکت تلفُّظ میں ہلکی اور آسان ہے، لہٰذا ‘‘طَبْرَسی’’ پڑھا گیا ہے۔ لیکن وہ لوگ جو ‘‘طَبْرِسی’’ (راء کے زیر کے ساتھ) پڑھتے ہیں، وہ اصل کے وزن کو ملحوظ رکھتے ہیں، کیونکہ ‘‘ تَفْرِش’’ راء کے زیر (کَسْرَہ) کے ساتھ ہے۔

اس بارے میں اگرچہ کافی تفصیل سے لکھا گیا ہے، لیکن پھر بھی کچھ اِبھامات اور اِشکالات نظر آتے ہیں، جن میں سے کچھ کی طرف ہم اشارہ کرتے ہیں:

1۔ کہاں، کس وقت اور کیوں علّامہ کو‘‘طَبْرَسی’’ کے لقب سے شہرت حاصل ہوئی؟ جبکہ ‘‘علّامہ’’ صوبہ خراسان کے شہر مشہد مقدّس میں پیدا ہوئے اور اِسی صوبہ کے شہر سبزوار میں انتقال فرمایا۔

2۔ اگر دیکھا جائے تو ‘‘علّامہ طبرسیؒ ’’ نے اپنی تمام عمر پُر برکت، فارسی زبان کے علاقوں، خراسان اور شاید کچھ مدّت ‘‘شہرِ رَی’’ میں گزاری، تو پھر ‘‘تَفْرِشی’’ کے لقب سے کیوں مشہور نہ ہوئے اور آپ کی شہرت عربی میں کیوں تبدیل ہوئی؟

اِن دونوں سؤالوں کا جواب تمام اُن آثار اور تألیفات میں جو اَب تک تحریر کئے گئے ہیں، ہمیں کہیں نظر نہیں آتا۔

مرحوم طبرسیؒ کے بارے میں علماء کے اقوال

علّامہ طبرسی ؒ کے شاگرد منتجب الدین ابو الحسن علی ابن عبید اللہ ابن بابویہ رازی، جو پانچویں صدی ہجری کے بزرگ علماء میں سے شمار ہوتے ہیں اپنی کتاب میں لکھتے ہیں: ‘‘شیخ امام أمین الدین ابو علی فضل ابن حسن ابن فضل طبرسیؒ قابل ثقہ شخصیت و فاضل، دیندار اور معروف حیثیت کے حامل تھے۔’’۳

علامہ محمد باقر مجلسیؒ اپنی کتاب ‘‘بحار الانوار’’ کے مدخل میں فرماتے ہیں: ‘‘طبرسیؒ علماء اعلام کے فخر، أمینِ ملّت واسلام، مفسِّرین قرآن کے لئے نمونہ عمل اور ماہر فضلاء کیلئے بہترین سرمایہ تھے۔ طبرسی، دین اسلام کے بزرگ زُعماء اور طائفہ شیعہ کے جلیل القدر اور قابل اعتماد علماء میں شمار ہوتے ہیں۔’’ پھر فرماتے ہیں: ‘‘طبرسیؒ کی بلند و بالا شہرت اور ان کے فضل و دانش کی درخشندگی اور نیز ان کی گرانمایہ کتاب تفسیرِ مجمع البیان اور دیگر تألیفات اور آثار علمی و جاودانی کی موجودگی میں، جو ان کے علم و فضل اور میدانِ تفسیر میں برجستگی کو ظاہر کرتے ہیں، کسی اور کتاب سے طبرسی کی زندگی اور شرح احوال کو پیش کرنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔’’ ۴

سید محسن أمین العاملی فرماتے ہیں: ‘‘شیخ جلیل القدر، عالم و زاہد، أمین الدین، ثقة الاسلام، أمین رُوساء اور خلاصہ یہ کہ مرحوم طبرسی کا فضل، عظمت و بزرگی اور علوم میں ان کی مہارت و وثاقت ہر قسم کی وضاحت سے بے نیاز ہے اور اس چیز پر بہترین شاہد خود ان کی کتابیں ہیں۔’’ پھر فرماتے ہیں: ‘‘مرحوم طبرسیؒ اپنے فکری مخالفین کے ساتھ بھی أدب و احترام کا لحاظ رکھتے تھے، ان کی گفتگو اور کلام میں کوئی ایسی بات نہیں ملتی، جو ان کے مخالفین کی نفرت و رنجش کا سبب بنے، یا ان کی ہجو اور مذمت یا بُر ا بھلا کہنے پر مشتمل ہو، در حالانکہ مصنِّفین و مولِّفین میں بہت ہی کم ایسے ملیں گے، جن کی گفتگو اور کلام اس چیز سے بچا ہوا ہو۔’’ ۵

تفسیر کے میدان میں علّامہ طبرسیؒ کی تالیفات

مشہور یہ ہے کہ ‘‘علّامہ طبرسیؒ ’’ نے تین کتابیں تفسیر کے موضوع پر تألیف فرمائیں، اُن میں سے پہلی کتاب ‘‘مَجْمَعُ البَیٰانِ لِعُلُوْمِ الْقُرٰآنِ ’’ ۶ یا ‘‘مَجْمَعُ البَیٰانِ فِی تَفْسِیْرِ الْقُرآنِ’’ ہے، یہ تفسیر مرحوم ‘‘علّامہ طبرسیؒ ’’ نے ٥٣٠ تا ٥٣٤ ہجری قمری یا ٥٣٦ہجری قمری تک تدوین کی اور اُنہوں نے اِس تفسیر کو ‘‘تفسیر کبیر’’ سے تعبیر کیا ہے۔

کیونکہ علّامہ طبرسیؒ، تفسیر ‘‘مجمع البیان’’ لکھنے کے دوران محمود زمخشری کی کتاب ‘‘اَلْکَشّٰافُ عَنْ حَقٰائِقِ التَّنْزِیْلِ وَعُیُوْنِ الأَقٰاوِیْلِ فی وُجُوْہِ التَّأْوِیْلِ’’ سے آشنا نہیں ہوئے تھے، اسلئے ‘‘اَلْکَشّٰافُ عَن۔ ۔ ۔’’ سے آشنا اور متاثر ہونے کے بعد، اُنہوں نے ایک اور تفسیر ‘‘اَلْکٰافِیُ الشّٰافِیُ’’ کے نام سے تحریر فرمائی،کہ جو روش اور ترتیب میں ‘‘اَلْکَشّٰافُ’’ کی مانند تھی اور مطالب کو بیان کرنے میں بھی انہوں نے ‘‘اَلْکَشّٰافُ’’ سے بہت زیادہ استفادہ کیا تھا اور یہ کہا جا سکتا ہے کہ اُن کی یہ تفسیر، محمود زمخشری کی ‘‘الکشّاف’’ کا خلاصہ اور انتخاب تھی۔ ‘‘علّامہ طبرسی’’ نے اپنی عمر کے آخری سالوں میں، اپنے بیٹے حسن ابن فضل، صاحب ِ ‘‘مکارم الاخلاق’’ کے مشورے اور اصرار پرایک اور تفسیر ‘‘جَوٰامِعُ الْجٰامِعِ’’ کے عنوان سے تألیف کی، جو تفسیر ‘‘مَجْمَعُ الْبَیٰانِ’’ کی تلخیص اور ‘‘اَلْکَشّٰافُ’’ سے حاصل شدہ اضافات کے ساتھ ہے، علّامہ نے یہ تفسیر تقریباً ٥٤٢ ہجری قمری میں، ایک سال کی مدّت میں تحریر فرمائی۔

تحقیق سے معلوم ہوتا ہے کہ مرحوم ‘‘علّامہ طبرسی ’’ نے اِن تین تفاسیر کے علاوہ کوئی اور تفسیر تحریر نہیں فرمائی اور بعض جو یہ کہتے ہیں کہ اُنہوں نے ایک یا دو تفاسیر، اِن کے علاوہ بھی تحریر کی ہیں، اِس کی کوئی سند یا دلیل نہیں ہے، جیسا کہ اِن تین تفاسیر کو اصطلاح میں ‘‘کبیر، وسیط اور وجیز’’ (یعنی بڑی، درمیانی اور مختصر) کہا جاتا ہے۔ ٧ اگرچہ علّامہ کی تفسیر ‘‘الکافی الشافی’’ اِس وقت موجود نہیں ہے، لیکن لگتا یہ ہے کہ علّامہ کی درمیانی تفسیر ‘‘جوامع الجامع’’ ہے اور ‘‘الکافی الشافی’’ ان کی مختصر تفسیر تھی۔

لیکن وہ بات جو اس بارے میں قابل افسوس کہی جا سکتی ہے، وہ تفسیر ‘‘الکافی الشّافی’’ کی عدم دستیابی ہے، کہ اِس وقت علّامہ طبرسیؒ کی اِس کتاب کا کوئی أثر و نشان موجود نہیں ہے، حالانکہ علّامہ طبرسیؒ خود ‘‘جوامع الجامع’’ کے مقدَّمہ میں بیان فرماتے ہیں: ‘‘تفسیر کی بڑی کتاب ‘‘مجمع البیان’’ تالیف کرنے کے بعد میں نے ‘‘الکشّاف’’ کو دیکھا اور اُس سے استفادہ کرنے کے بعد ۔۔۔‘‘الکافی الشّافی’’ کو تحریر کیا، جب یہ دونوں کتابیں چھپ گئیں تو اِنہوں نے لوگوں کے دل مُوہ لئے ۔۔۔اور دلوں میں علم کی آگ روشن کردی ۔۔۔اور ایک ضرب المَثَل اور کہاوت کی طرح شہروں میں رواج پا گئیں اور فکر و خیال کی طرح ہر جگہ پہنچ گئیں۔’’

غور طلب بات یہ ہے کہ یہ گفتگو اور تعریف و توصیف اُن سالوں کی کیفیت کو بیان کرتی ہے، جب ‘‘مجمع البیان ’’ اور ‘‘الکافی الشافی’’ کی تالیف اور ‘‘جوامع الجامع’’ کی تالیف کے درمیان فاصلہ ہوگیا تھا، اب اِن تمام تعریفوں کے بعد کس طرح ‘‘الکافی الشّافی’’ کا کوئی أثر و نشان اور کوئی نسخہ موجود نہیں؟ یہ ایک ایسا سؤال ہے کہ جو نسخہ شناس اور آثارعلمی تلاش کرنے والوں کے لئے جستجو اور تلاش کا دروازہ کھولتا ہے، تاکہ وہ ‘‘علّامہ طبرسیؒ ’’ کی اِس کتاب کو تلاش کرکے اہل علم کیلئے استفادہ کا سامان فراہم کریں۔

علّامہ طبرسیؒ کے اساتذہ اور شاگرد

‘‘علّامہ طبرسیؒ ’’ کے ابتدائی حصول علم کے زمان و مکان کے بارے میں موجودہ منابع میں کوئی خاص بات موجود نہیں ہے، لیکن فقہ، روایت اور تفسیر میں اُن کے معروف اور مشہور اساتذہ درج ذیل بیان کئے گئے ہیں:

١۔ ابو علی حسن ابن محمد ابن حسن طبرسی،(فرزند ِ شیخ طوسیؒ، جو مفید ثانی کے لقب سے جانے جاتے ہیں)۔

٢۔ ابو الوفاء عبدالجبّار ابن عبداللہ علی مقریٔ نیشاپوری۔

٣۔ حسن ابن حسین ابن بابویہ قمی رازی (جدِّ شیخ منتجب الدین)۔

٤۔مو فَّق الدین حسین ابن فتح واعظ بکر آبادی جرجانی۔

٥۔ سید محمد ابن حسین حسینی جرجانی۔

٦۔ شیخ ابو الفتح عبداللہ ابن عبد الکریم ابن ھوازن قشیری۔

٧۔ شیخ ابو الحسن عبداللہ ابن محمد ابن حسین بیہقی۔

٨۔ جعفر ابن محمد دوریستی۔

‘‘علّامہ طبرسیؒ ’’ کے شاگردوں میں سے درج ذیل شخصیات کو بیان کیا جا سکتا ہے:

١۔ حسن ابن فضل (علّامہ طبرسیؒ کے فرزند)۔

٢۔ رشید الدین ابو جعفر محمد ابن علی ابن شہر آشوب سروی مازندرانی۔

٣۔ شیخ منتجب الدین علی ابن عبیداللہ ابن بابویہ قمی۔

٤۔ ضیاء الدین فضل اللہ ابن علی راوندی کاشانی۔

٥۔ قطب الدین سعید ابن ھبةاللہ راوندی (معروف بہ قطب راوندی)۔

علّامہ طبرسیؒ کی تألیفات و تصنیفات

مذکورہ تین تفاسیر کے علاوہ، فقہ کے موضوع پر ‘‘اَلْمُؤْتَلَفُ مِنَ الْمُخْتَلَفِ بَیْنَ آئِمَةِ السَّلَف’’ اور سیرت اہل بیتؑ کے موضوع پر ‘‘اِعْلٰامُ الْوَرَیٰ بِأَعْلٰامِ الْھُدَیٰ’’ علّامہ طبرسی کی گرانقدر تصنیفات موجود ہیں اور کے علاوہ دس سے زائد دیگر آثار بھی علامہ کے لئے ذکر کئے گئے ہیں، جن میں سے بعض اِس وقت موجود ہیں اور بعض کے فقط نام، حالات زندگی کی کتابوں میں دیکھے جاسکتے ہیں۔

‘‘علّامہ طبرسی ؒ ’’ کے عصر کو تفسیر کی شگوفائی اور رونق کا دور کہا جاسکتا ہے، کیونکہ علّامہ کے زمانے ہی میں ‘‘ابو الفضل رشید الدین میبدی’’ کی تفسیر ‘‘کَشْفُ الْأَسْرٰارِ وَعُدَّةُ الْأَبْرٰارِ’’، جار اللہ محمود ابن عمر زمخشری کی تفسیر ‘‘اَلْکَشّٰافُ عَنْ حَقٰائِقِ التَّنْزِیْلِ وَعُیُوْنِ الْأَقٰاوِیْلِ فی وُجُوْہِ التَّأْوِیْلِ’’، ابوالفتوح رازی کی تفسیر ‘‘رُوْحُ الجِنٰانِ رَوْحُ الجَنٰانِ’’ اور کچھ دیگر تفاسیر تالیف پائیں، جیسا کہ علّامہ کے زمانے کو ایک پہلو اور ایک جنبۂ خاص کی تفسیر نویسی کے مرحلے سے نئے تفسیر نویسی کے دور کا آغاز بھی کہا جا سکتا ہے، ایک وہ زمانہ تھا، جب مرحوم شیخ طوسیؒ نے اپنی تفسیر ‘‘اَلتِّبْیٰانُ فِی تَفْسِیْرِ الْقُرْآنِ’’ لکھی، یہ تفسیر کے ایک خاص رنگ اور خاص انداز میں تصنیف کے دور کا آغاز تھا، اِس دور میں بہت سی قابل قدر تفاسیر، مختلف پہلوؤں سے لکھی گئیں، مثلاًأدبی، لغوی، تاریخی، فقہی، کلامی اور عرفانی جنبوں سے تفاسیر تالیف پائیں اور تفسیرِ ‘‘مَجْمَعُ الْبَیٰانِ’’ اِن میں ممتاز اہمیت کی حامل تفسیر ہے،اِسی بناء پر اِس تفسیر کو جامع تفاسیر کی صف میں رکھا جا سکتا ہے، ایسی تفاسیر جو کسی ایک خاص جنبہ میں محدود نہیں ہوتی ہیں، اگرچہ اِس کا أدبی رنگ اور أدبی پہلو زیادہ نمایاں دیکھائی دیتا ہے۔

تفسیر ‘‘مَجْمَعُ الْبَیٰانِ’’ میں علامہ طبرسیؒ نے تالیف کی روش اور اِس کے مطالب کی ترتیب و تنظیم درج ذیل اُمور میں قرار دی ہے:

١۔ سورتوں اور آیات کے مکّی یا مدنی ہونے کی طرف اشارہ اور اختلافی موارد کا ذکر۔

٢۔ سورتوں کی آیات کی تعداد اور اِس بارے میں مختلف أقوال کا ذکر۔

٣۔ سورتوں کے نام رکھے جانے کی کیفیت اور سورتوں کے مفاہیم سے اِن ناموں کی مناسبت۔

٤۔ سورہ کی تلاوت اور پڑھنے کی فضیلت کا بیان اور اِس سے مربوط احادیث۔

٥۔ ‘‘اَلْقِرٰا ئَةُ’’ کے عنوان سے اختلاف قرائت کا بیان۔

٦۔ ‘‘اَلْاِعْرٰابُ’’ کے عنوان سے کلمات کے اعراب کی دلیل اور اِس بارے میں مختلف قرائتوں کی صورتوں (وجوہ) کی تشریح۔

٧۔ ‘‘اَلْلُغَةُ’’ کے عنوان سے آیات کی مشکل لغات کے معنیٰ کا بیان۔

٨۔ ‘‘اَلنُّزُوْلُ’’ کے عنوان سے آیات کے عِلل و اسبابِ نزول کا بیان۔

٩۔ ‘‘اَلْمَعْنیٰ’’ کے عنوان سے آیات کی تأویل و تفسیر کا بیان۔

١٠۔ ‘‘اَلنَّظْمُ’’ کے عنوان سے آیت کا ماقبل ومابعد آیات سے اِرتباط اور مناسبت کا بیان۔

١١۔ ‘‘اَلْقِصَّةُ’’ کے عنوان سے قرآنی داستانوں (قِصص) کا بیان۔

١٢۔ آیت کی تفسیر کے ذیل میں احکام فقہی کا بیان اور اِن کی جانچ پڑتال۔

علّامہ طبرسیؒ کی تفسیری روش

چند خصوصیات علّامہ طبرسیؒ کی تفسیری روش، بالخصوص تفسیر ‘‘مَجْمَعُ الْبَیٰانِ’’ میں نمایاں طور پر دیکھی جاسکتی ہیں ، اُن ہی میں سے بعض خصوصیات کو ہم ذیل بیان کرتے ہیں:

پہلی خصوصیت: نظم بدیع (جدید اور نئے انداز کا نظم)

تفسیرِ ‘‘مجمع البیان’’ کی خصوصیات میں سے ایک خصوصیت اِس کا بے سابقہ و جدید نظم اور بہترین اُسلوب ہے، جو اِس تفسیر کو دیگر تمام تفسیروں سے نمایاں اور ممتاز کرتا ہے، اور تمام صاحبان ِ علم کو گزشتہ صدیوں سے داد تحسین دینے پر مجبور کرتا رہا ہے، علّامہ طبرسیؒ نے در حقیقت مرحوم شیخ طوسیؒ کی ‘‘تفسیرتبیان’’ کو، جو علامہ کے نزدیک صحت و سُقم کی حامل اور ترتیب و نظم سے فاقد تھی، خوبصورت ترین شکل میں نظم بخشا ہے اور اِس پر مزید تجزیٔہ و تحلیل اور فوائد کا اضافہ بھی کیا اور اس سے بعض غیر ضروری مطالب کو حذف کر دیا ہے۔

علامہ طبرسیؒ اگرچہ اپنی تفسیری تألیفات میں جدیّت رکھنے والی بے سابقہ شخصیت کے حامل ہیں اور انہوں نے زیادہ تر روایات و حکایات پر توجہ کی ہے، جیسا کہ خود علامہ طبرسیؒ ‘‘مجمع البیان’’ کے مقدَّمہ میں لکھتے ہیں: ‘‘انہوں نے قدم بہ قدم اپنے متقدِّمین، جیسے شیخ الطائفہ مرحوم طوسیؒ کے نقش قدم پر عمل کیا ہے اور ان کو اپنے لیے نمونۂ عمل اور قابل تقلید قرار دیا ہے۔’’

لیکن بلاشکّ و شبہ علامہ طبرسیؒ جدید تفسیری اسلوب کی جانب حرکت کا آغاز کرنے والے اور منظم و مرتّب تفسیر کی تدوین کی بنیاد رکھنے والے کہے جا سکتے ہیں، کیونکہ علامہ طبرسیؒ سے پہلے مفسِّرین کا اصلی ہدف و مقصد لفظی، أدبی اور لغوی خصوصیات کی تشریح یا مربوطہ روایات کا نقل کرنا ہی ہوتا تھا، علامہ طبرسیؒ روایت کے بیان کرنے میں صادق اور أمین، روایات کی چھان پھٹک کرنے میں تیزبین اور نقّاد، متن کے انتخاب کرنے میں تمام جوانب نگاہ رکھنے والے اور دوسروں پر نقد و تنقید کرنے میں عدل و انصاف کے تمام پہلوؤں کی رعایت کرنے والے تھے۔ انہوں نے گزشتہ مفسِّرین کے اقوال و گفتار اور نظریات کو انتخاب کرنے اور بیان کرنے میں اس قدر خوبصورتی سے کام لیا ہے کہ مرحوم طبرسیؒ سے پہلے یا بعد میں کسی نے اس طرح کا کام نہیں کیا۔

اِن تمام چیزوں کے باوجود، علّامہ طبرسیؒ نے کسی کی تقلید یا پیروی نہیں کی، بلکہ انہوں نے فقہی، کلامی، عرفانی، أدبی و تاریخی نظریات اور گزشتگان کے اقوال کا بڑی دقَّت سے مطالعہ کیا اور ان میں سے بہترین کا انتخاب کیا ہے۔

دوسری خصوصیت: متن محوری (یعنی قرآن محوری)

تفسیر ‘‘مجمع البیان’’ میں علّامہ طبرسیؒ کی ایک اور خصوصیت، قرآن محوری ہے، جامعة الازہر، مصر کے شیخ محمود شلتوت اِس بارے میں لکھتے ہیں: ‘‘یہ کتاب پہلی اور کامل ترین تفسیرِ جامع ہے، ایسی تفسیرِ جامع جو وسیع تحقیقات کے علاوہ، عمیق، دقیق اور بے نظیر نظم کی حامل بھی ہے، فصل بندی کے ساتھ، خوبصورت ترتیب اور نہایت موزوں عبارات میں لکھی گئی ہے، ایسی تفسیر ہے جو فنِ تفسیر کو قرآن کریم کی خدمت میں استعمال کرتی ہے، نہ یہ کہ قرآن کریم کو اہل لغت اور فقہاء کی خدمت میں لے آئے، یا یہ کہ قرآن کریم کو ‘‘سیبویہ’’ کی ‘‘نحو’’ پر، ‘‘عبدالقاہر’’ کی ‘‘بلاغت’’ پر اور یونان و روم کے ‘‘فلسفوں’’ پر تطبیق کرے، یا یہ کہ قرآن کریم کو ایسے اعتقادات کے قبول کرنے اور گروہی رجحانات و تمایلات کے مطابق قرار دینے پر محکوم کرے، جو خود قرآن کریم کے حکم سے محکوم ہونے چاہییں۔

تیسری خصوصیت: اعتدال پسندی اور أدب کی رعایت

علّامہ طبرسیؒ کی ایک اور خصوصیت، مذہبی نظریات میں اعتدال ہے، باوجود اِس کے کہ علامہ طبرسیؒ کا تعلّق اُس زمانے سے ہے کہ جب مختلف مکاتب فکر کے علماء اور دانشمندان فقط اپنے ہی نظریات اور اعتقادات کو قابل اعتناء سمجھتے تھے اور اپنے مخالفین کی بات کو نقل کرنے سے بے اعتنائی برتتے تھے، لیکن علامہ طبرسیؒ نے اس طرح کے طرز فکر کی پروا نہ کرتے ہوئے، مختلف اقوال کے نقل کرنے میں کسی قسم کے تعصُّب کا اظہار نہیں کیا، اور تمام اصناف اور ہر قسم کے اقوال کو یکساں نظر سے دیکھا، جس قول کو قابل قبول جانا، خواہ وہ قول کسی کا بھی تھا، اُسے لے آئے، جیسا کہ بعض اِس حوالے سے علامہ طبرسیؒ پر اعتراض کرتے ہیں کہ وہ زیادہ تر عامّۂ مفسِّرین سے نقلِ قول کرتے ہیں، حتیٰ کہ علامہ طبرسیؒ مختلف آراء اور اقوال کے نقل کرنے میں ان کے ناموں کے مقدَّم یا مؤخَّر کرنے میں بھی کسی قسم کی غرض مندی کو جائز نہیں سمجھتے تھے۔

علّامہ طبرسیؒ بہت سے دیگر مؤلِّفین کے بر خلاف، اپنے مخالفین کی نسبت طعن و تشنیع، اعتراض اور تحقیر کرنے سے اجتناب کرتے تھے، جیسا کہ تفسیر جوامع الجامع کے آغاز میں صاحب کشّاف، زمخشری کو جو حنفی اور معتزلی المسلک ہے، نیکی اور بڑائی سے ذکر کرتے ہیں اور اُس کے اپنے ہم عصر ہونے کے حجاب کو بالائے طاق رکھتے ہوئے، اُس کی اِس تالیف کی تعریف کرتے نظر آتے ہیں۔

لہٰذا علّامہ طبرسیؒ کی یہ روش اور اسلوب نگارش نہ صرف قابل تعریف ہے، بلکہ تمام محقِّقین اور مولّفین کے لئے قابل تقلید بھی ہے، ہمارے دوسرے سلفِ صالح کی سیرت بھی اِسی قسم کی رہی ہے، اس بارے میں شیخ مفیدؒ، سید رضیؒ، سید مرتضیٰؒ اور شیخ طوسیؒ کے نام قابل ذکر ہیں، کیونکہ یہ ہستیاں اہل سنّت کی درمیان بھی مقبول اور قابل احترام رہی ہیں، نیز انہیں مسندِ درس اور فتویٰ بھی حاصل رہا ہے۔

علّامہ طبرسیؒ، شیخ محمد تقی قمی کی نگاہ میں

جامعة الازہر مصر کے مشہور استاد جناب محمد تقی قمی، علّامہ طبرسیؒ کے بارے میں کہتے ہیں: ‘‘علّامہ طبرسیؒ اپنی تفسیر میں مقام انصاف پر فائز تھے، وہ قرآنی أدب اور اخلاق کی راہ سے ہرگز دور نہیں ہوئے، مجادلہ کرنے میں سختی سے کام نہ لیا اور گفتگو میں غیر معقول باتوں اور جلد بازی کا مظاہرہ نہیں کیا، وہ اپنے مخالف اور موافق ہر دو کے ساتھ اچھی، مستدل اور مستند گفتگو کرتے ہیں اور اس طرح سے پڑھنے والے کو صحیح فیصلہ کرنے کا موقع فراہم کرتے ہیں ، لہٰذا اس طرح سے انہوں نے اپنی کتاب کو اس آیت ‘‘وَجَادِلْھُمْ بِالَّتِیْ ھِیَ أَحْسَنُ’’ کا بہترین نمونہ اور مصداق قرار دیا ہے۔’’

چوتھی خصوصیت: وسیع النظری

علّامہ طبرسیؒ کی تفسیر کی ایک اور خصوصیت اُن کا وسیع النظر ہونا اور قرآن کریم کے تمام اطراف و جوانب کا احاطہ کرنا ہے، وہ قرآن کی آیات پر بڑے تسلُّط اور قدرت کے ساتھ ایک آیت کی تفسیر کے لئے بہت سی دوسری آیات سے استفادہ کرتے ہیں اور اس طرح سے قرآن کریم کی تفسیر خود قرآن ہی کے ساتھ یعنی ‘‘تَفْسِیْرُ الْقُرآنِ بِالْقُرآنِ’’ کے انتہائی عمدہ اور پسندیدہ اسلوب سے کرتے ہیں۔

پانچویں خصوصیت: مختلف علوم و فنون پر دسترس

علّامہ طبرسیؒ اُن چند گزشتہ شیعہ علماء میں سے ہیں کہ جو مختلف علوم اسلامی میں صاحبِ نظر اور مہارت رکھنے والے سمجھے جاتے تھے اور انہوں نے مختلف علوم و فنوں میں کتابیں بھی تألیف و تصنیف فرمائی ہیں، اُن کی تفسیر مجمع البیان بھی قرآن کریم کے مختلف علوم کا ‘‘دائرة المعارف’’ کہی جاسکتی ہے، لیکن قابل افسوس بات یہ ہے کہ علّامہ طبرسیؒ کے بعد کئی صدیوں تک علوم قرآنی شیعہ علماء کے درمیان بے توجہی اور غفلت کا شکار رہے ہیں اور اس بارے میں بہت ہی کم صاحب نظر افراد پیدا ہوئے، جنھوں نے اس سلسلے میں کچھ تألیف بھی کیا ہو، لہٰذا علوم قرآنی کے تمام مہم اور اصلی منابع عمدةً اہل سنّت کے علماء کی طرف سے ہیں اور بعض اوقات تو یہ کسی خاص مذہبی رجحان کے تحتِ أثر تألیف پائے ہیں، اِس بارے میں کوئی ایسی تألیف جو قابل توجّہ ہو، مجمع البیان کے بعد شیعہ علماء کے درمیان نظر نہیں آتی، سوائے اِ ن آخری چند دہائیوں کے (بالخصوص انقلاب اسلامی ایران کے بعد) خوشبختی سے دوبارہ اِن علوم قرآنی کی جانب توجّہ پیدا ہوئی ہے، اور اہل تشییع کے درمیان اِن علوم قرآنی نے دوبارہ رواج پایا ہے اور اس موضوع سے متعلِّق کئی ارزشمند کتابیں شیعہ علماء اور دانشمندوں کے طرف سے تألیف کی گئی ہیں۔

چھٹی خصوصیت: تمام زمانوں میں قابل استفادہ

بلا شکّ و شبہ تفسیر کے میدان میں تسلسل سے جاری و ساری رہنے والا سفر اور کلام حقّ کو سمجھنے کے لئے صراطِ مستقیم کی جانب حرکت، ایسا عمل ہے، جو کبھی بھی رکنے والا نہیں ہے، قرآن کریم انسانوں کی ہدایت و راہنمائی کے لئے، اُن کی سطحِ فکری اور علم و آگاہی کے مطابق نازل ہوا ہے، قرآن شب و روز کی سیر و گردش کے ساتھ اور زمانے و زمانے والوں کے ہمراہ سفر کرتا ہے، ہمیشہ نئی فکروں کو جلاء بخشتا ہے اور زمانے کے گزرنے کے ساتھ اِس کی نور افشانی اور درخشندگی بڑھتی ہی جاتی ہے ،لہٰذا نہ تو کبھی بوسیدہ ہوتا ہے اور نہ ہی ماند پڑتا ہے۔

اِس تفسیری سفر میں دو طرح کی تفسیریں تألیف پائیں ہیں، بعض تفاسیر وہ ہیں جو اپنے زمانے کے حاصل شدہ تجربات اور معلومات کو اُسی محصور و محدود زمانے اور افراد کے تناظر میں پیش کرتی ہیں، اس طرح کی تفاسیر ہرگز قرآن کی مستمر اور جاری ہدایت کے ساتھ، کہ جو طول تاریخ میں جاری وساری ہے، قدم بہ قدم نہیں چل سکتیں، اسلئے اس قسم کی تفاسیر کی ایک تاریخ اختتام (Expairity Date) ہوتی ہے، اور وہ تاریخ پوری ہوجانے کے بعد، کاروانِ علم و معرفت کی پیشرفت کے سفر سے یہ تفاسیر خود بخود خارج ہوجاتی ہیں۔

لیکن مجمع البیان کی مانند تفاسیر، جو تفسیر کے ثابت اور مضبوط اصول و قواعد اور خاص روش و طریقۂ کار کے تحت لکھی گئی ہیں، خود قرآن کی طرح اُن کی ارزش و اہمیت ہمیشہ باقی ہے اور یہ تفاسیر ہمیشہ قابل استفادہ اور قابل توجّہ رہتی ہیں۔

ساتویں خصوصیت: معیار تفسیر اور تفسیر معیار

کلام الٰہی کا سمجھنا اور اُس میں تدبُّر کا عمل، ایسا کام ہے جس میں ہمیشہ پیش رفت ہوتی رہی ہے اور یہ چیز تسلسل کے ساتھ آگے بڑھی ہے، لیکن ضروری ہے کہ یہ فہم و تدبُّر اور قرآن کریم سے مطالب کا أخذ کرنا، یقینی طور پر کسی خاص روش اور کسی خاص اساس پر استوار ہو، جسے معیَّن اور بیان کیا گیا ہو اور اس معیَّن کئے گئے معیار سے تخلُّف و روگردانی، تفسیر بہ رائے کہلائے گی۔

صحیح تفسیر کا معیار و مبنیٰ اور اصول و قواعد پر منطبق متن مجمع البیان کی طرح کا ہوتا ہے، جو بہترین شکل و صورت اور خاص نظم کے ساتھ موجود ہے، اگر دوسرے مفسِّرین ان بیان کئے گئے اصولوں کی بنیاد پرفہم و تدبُّر اور قرآن سے مطالب أخذ کرنے کا کام لیں، تو وہ مجاز ہوں گے اور انہیں أجر و ثواب بھی دیا جائے گا، وگرنہ اُن کے ہر قدم پر تفسیر بہ رائے کا خدشہ اور اس کے بعد جَلا دینے والے انجام کا خوف اُن کے دامن گیر ہو گا۔

ہم کہہ سکتے ہیں کہ تفسیر مجمع البیان تفسیر معیار بھی ہے اور معیار تفسیر بھی، کیونکہ اس میں تفسیر کے ثابت اصول و قواعد کو جمع کیا گیا ہے، یعنی آغاز میں آیات سے مرادِ الٰہی کو سمجھنا اور عبارات کو بیان کرنے کے ساتھ، اشارات، لطائف اور حقائق کو پیش کرنے کے لئے آمادہ کرنا مقصود ہے۔

آٹھویں خصوصیت: حوزہ ہای علمیہ اور طلّاب دینیہ کیلئے متنِ درسی

علّامہ طبرسیؒ کی ‘‘مجمع البیان’’ کو تفسیر قرآن کے عنوان سے بہترین تدریس کا متن قرار دیا جا سکتا ہے، کیونکہ یہ تفسیر اپنی اس خصوصیت میں کسی اور تفسیر کے متن سے ہرگز قابل مقایئسہ نہیں ہے، گویا اس کے مصنِّف نے اس تفسیر کو موجودہ حوزہ ہای علمیہ میں تدیس کیلئے تألیف فرمایا ہے۔

آخر میں اس چیز کی طرف توجّہ دلانا ضروری ہے کہ متأسفانہ ‘‘مجمع البیان’’ جیسی قابل قدر اسلامی میراث، صنعت طباعت کو ایک صدی سے زیادہ گزر جانے کے باوجود، ابھی تک اس کی مناسب اور قابل ملاحظہ طباعت نہیں ہوئی ہے اور ابھی تک جو چیز منظر عام پر آئی ہے، وہ کم و بیش واضح اور تغییر دینے والی غلطیوں کی حامل رہی ہے اور ہرگز آج کل کے تحقیق و تصحیح کے معیاروں کے ساتھ ہم آہنگ نہیں ہے۔ بعض مراکز نے چند سال قبل تحقیق کا ارادہ اور بہترین انداز سے چھاپنے کا اعلان بھی کیا تھا، لیکن ابھی تک ان کا یہ دعویٰ تحقُّق پذیر نہیں ہوا ہے۔

جی ہاں! معتبر قدیمی نسخوں کا حاصل کرنا اور ان کے اقوال کا تحقیق کے ساتھ استخراج کرنا، روایات کو ارجاع دینا اور مختلف طرح کی فنّی فہرستوں کا تیار کرنا، ایک ایسا ضروری کام ہے، جو وقت طلب ہے، علاوہ یہ کہ یہ کام دشوار اور مجمع البیان کے متن کی خصوصیت کی وجہ سے بلاشکّ و شبہ انتہائی سخت اور زحمت طلب ہے۔

(والسَّلامُ عَلیٰ مَن اتَّبَع الھُدیٰ)

seydaqeel@yahoo.com

 

حوالہ جات

١۔ علّامہ آقا بزرگ تہرانی ؒ، اَلذَّرِیْعَةُ اِلیٰ تَصَانِیْفِ الشِّیْعَةِ، ج ٢٤، ص ٥٣

٢ ۔ لفظ ِ‘‘طبرسی’’ کے تلفُّظ اور صحیح ضبط کے بارے میں بعض علماء نے تفصیل سے بحث کی ہے، جیسے: مرحوم آیت اللہ شہید قاضی طباطبائیؒ کا تفسیر ‘‘جَوٰامِعُ الْجٰامِعِ’’پر مقدَّمہ، میرزا طاہر قزوینی کی کتاب ‘‘شَرْحُ شَوٰاہِدِ مَجْمَعِ البَیٰانِ’’ پر میرزا محمد باقر مازندرانی کا مقدَّمہ، ڈاکٹر حسین کریمان کی کتاب ‘‘طَبْرِسی وَ مَجْمَعُ البَیٰانِ’’ اور ڈاکٹر ابو القاسم گرجی کا ‘‘جَوٰامِعُ الْجٰامِعِ’’ مطبوعہ دانشگاہ تہران پر مقدَّمہ، اس بارے میں قابل ملاحظہ ہیں۔

٣۔ ابو الحسن علی ابن عبید اللہ ابن بابویہ رازی، فِہْرِسْتُ أَسْمَآءِ عُلْمَآءِ الشِّیْعَةِ وَمُصَنِّفِیْھِمْ، ص ١٤٤ ؛ نیز رجوع کریں: رِیَاضُ الْعُلَمَآء، ج٤ ، ص ٣٤٢ ؛ شیخ محمد ابن حسن الحرّ العاملی (وفات: ١١٠٤ قمری)، أَمَلُ الْآمِلِ، ج ٢ ، ص ٢١٦ ؛ علامہ اردبیلی (وفات : ١١٠١قمری)، جَامِعُ الرُّوَاةِ، ج ٢، ص ٤ ؛ سید امیر مصطفی حسینی تفرشی (دسویں صدی ہجری)،کتاب نَقْدُ الرِّجَالِ، ص ٢٦٦ ؛ علامہ مامقانی (وفات: ١٣٥١ قمری )، تَنْقِیْحُ الْمَقَالِ،ج ٢،ص ٧ (بخش دوم شمارہ ٩٤٦١)

٤۔ علامہ محمد باقر مجلسی (وفات : ١١١١ قمری )، بِحَارُ الْأَنْوَارِ ، ص ١٣٦

٥۔ سید محسن أمین العاملی (وفات: ١٣٧١ قمری)، اَعْیَانُ الشِّیْعَةِ، ج ٨، ص ٣٩٩؛ نیز رجوع کریں: مرحوم شیخ عباس قمی ( وفات ١٣٥٩ قمری)، سَفِیْنَةُ الْبِحَارِ، ج ٣، ص٢٠٥ ؛ ھَدْیَةُ الْأَحْبَابِ، ص ٢١٣ ؛ اَلْکُنٰی وَالْأَلْقَابُ، ج ٢، ص ٤٠٩ ؛ اور فَوَائِدُ الرَّضَوِیَّۃِ، ص ١١٧؛ محدِّ ث نوری (وفات: ١٣٢٠ قمری)، خَاتِمَةُ مُسْتَدْرَکِ الْوَسَائِلِ، ج٢١، ص٦٩

٦۔ اِس تفسیر کے مقدَّمہ میں علّامہ طبرسیؒ نے اِس تفسیر کو اِسی نام سے ذکر کیا ہے، لیکن مترجمین اور فہرست نگاروں نے اِس تفسیر کو ‘‘مَجْمَعُ البَیٰانِ فِی تَفْسِیْرِ الْقُرآنِ’’ کے نام سے بیان کیا ہے۔

٧۔ شیعہ علماء میں سے بعض دیگر مفسِّرین، مثلاً مرحوم فیض کاشانی ؒ اور سید عبداللہ شُبَّر ؒ نے بھی تین مختلف روشوں اور مختلف حجموں (کبیر ، وسیط اور وجیز) میں تین تین تفاسیر لکھی ہیں۔

+ نوشته شده در Thu 1 Dec 2011ساعت 11:57 PM توسط سید عقیل حیدر زیدی | نظر بدهید
پیغمبر اکرم ﷺ کی حیاتِ طیّبہ اور اس کے اخلاقی پہلو
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

پیغمبر اکرم ﷺ کی حیاتِ طیّبہ

اور اس کے اخلاقی پہلو

سید عقیل حیدر زیدی[*]

اسلام اور دیگر تمام ادیانِ الہی و غیرِ الہی کی تعلیمات حقیقت میں تین اہم چیزوں (اعتقادات، احکامات اور اخلاقیات) پر مشتمل ہیں، اور تمام انبیاءِ الہٰی اور آسمانی کتابیں، من جملہ قرآنِ کریم کی تمام آیات، خواہ وہ قرآنی قصّوں پر ہی مشتمل کیوں نہ ہوں، انہی تین تعلیمات کو بیان کرنے کے لیے نازل ہوئی ہیں۔ اعتقادات کا تعلق انسان کی سوچ اور فکر سے ہوتا ہے، اور اس میں کسی دوسرے کی تقلید نہیں کی جاتی، بلکہ دوسرے کی بات کو دلیل و منطق کے ساتھ ذہنی طور پر قبول کیا جاتا ہے، لیکن احکامات اور دستوراتِ الہٰی کو بلا چوں چرا اور بغیر کسی دلیل کے قبول کرنا ضروری ہے، جبکہ اخلاقیات ایسی تعلیمات کو کہتے ہیں جو کسی کی شخصیت اور اس کے کردار کو اجاگر کریں، اور دوسرے اس کے کردار کو اپنے لیے اُسوہ اور نمونۂ عمل قرار دیں۔

درسِ اخلاق در حقیقت درسِ زندگی اور درسِ حیات ہوتا ہے، یعنی درسِ اخلاق کا مطلب درس بیان کر دینا اور آیات و احادیث کو نقل کر دینا نہیں ہوتا، بلکہ درسِ اخلاق کا مطلب اپنی شخصیت کو دوسروں کے لیے نمونۂ عمل کے طور پر پیش کرنا ہوتا ہے۔ ہمارے ایک استاد محترم کو جب درسِ اخلاق کے لیے کہا گیا تو انہوں نے فرمایا کہ آپ لوگ میری ذاتی اور نجی زندگی سے ناواقف ہیں، آپ کو میرے ذاتی اخلاق کا کوئی علم نہیں ہے، تو آپ لوگوں پر میری باتوں کا کیا اثر ہوسکتا ہے؟ آپ لوگ بھی امتحان پاس کرنے کے لیے اس درس کو سنیں گے اور یاد کریں گے، عمل کرنے کے لیے نہیں۔

اسی مطلب کی طرف امام جعفر صادقؑ اشارہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں: ‘‘ کُوْنُوْا دُعَاةَ النَّاسِ بِأَعْمٰالِکُمْ وَلَا تَکُوْنُوْا دُعَاةً بِأَلْسِنَتِکُمْ’’ ۱ ‘‘تم لوگوں کو (دین کی طرف) اپنے اعمال و کردار سے دعوت دو اور لوگوں کو فقط زبان سے نہ بلاؤ۔’’ یعنی ہمارا عمل اور کردار ایسا ہونا چاہیے کہ لوگ ہمیں دیکھ کر خود نیکیوں کی طرف رغبت کریں اور اچھائیوں کو دوست رکھیں، نہ کہ ہم اپنے عمل سے لوگوں کو دین سے دور کرنے کا باعث بن جائیں۔

پیغمبر اکرم ﷺ تمام انسانوں کے لیے اسوۂ حسنہ

ماہِ ربیع الاول پیغمبرِ ختمی مرتبتؐ کی ولادت باسعادت کا مہینہ ہے، اور تمام مسلمان، خواہ وہ کسی بھی مسلک و مکتبِ فکر سے تعلق رکھتے ہوں، آنحضرتؐ کی ولادت کا جشنِ پُرنور اسی ماہ میں مناتے ہیں، لیکن کیا آپؐ کی ولادت کا جشنِ سرور منانا ہی کافی ہے اور کیا خدا وند عالم اور آنحضرتؐ کی ذاتِ گرامی فقط ہمارے اِس طرح خوشی منانے کے عمل سے راضی ہو جائے گی؟

جبکہ پیغمبر اکرم حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ کی ذات گرامی تو وہ ہے جس کو خود خدا وند عالم نے قرآن مجید میں تمام اہلِ توحید کے لیے نمونۂ عمل قرار دیا ہے،ارشادِ ربّ العزت ہوتا ہے: ‘‘ لَقَدْ کَانَ لَکُمْ فِیْ رَسُوْلِ اللہِ أُسْوَةٌ حَسَنَةٌ لِّمَنْ کَانَ یَرْجُوْ اللہَ وَالْیَوْمَ الْآخِرَ وَذَکَرَ اللہَ کَثِیْراً’’۲ ‘‘اے لوگو! تم میں سے ہر اس شخص کے لیے رسول اکرمؐ کی زندگی میں بہترین نمونۂ عمل ہے، جو اللہ اور روزِ آخرت سے اُمیدیں وابستہ کئے ہوئے ہے اور اللہ کو بہت زیادہ یاد کرتا ہے۔’’

اس آیتِ کریمہ میں خدا وند عالم نے آنحضرتؐ کی حیاتِ طیبہ کو صرف مسلمانوں کے لیے اُسوۂ حسنہ اور نمونۂ عمل قرار نہیں دیا، بلکہ اُن تمام انسانوں کے لیے نمونۂ عمل اور آئیڈل قرار دیا ہے، جو یکتا پرست اور موحِّد ہیں اور اُن کا روزِ جزاء و حساب پر عقیدہ ہے۔ اگرچہ آپؐ کے اقوال و فرامین بھی انسانوں کے لیے قابل اتباع اور قابل پیروی ہیں، لیکن جو آپؐ کی شخصیت کے اخلاقی پہلو کسی دوسرے کی کردار سازی اور کمال انسانی کے حصول میں موثر واقع ہو سکتے ہیں، گفتار و فرامین وہ کام نہیں کر سکتے۔ جب ہم آپؐ کی پاکیزہ زندگی کا مطالعہ کرتے ہیں تو ہمیں آپؐ کی زندگی کے دو اہم دور نظر آتے ہیں، ایک نبوت کے اعلان سے پہلے کا دور اور دوسرا نبوت کے اعلان کے بعد کا زمانہ ہے۔

پیغمبر اکرم ﷺ کے اعلان نبوت سے پہلے کا دور

قابلِ ملاحظہ بات یہ ہے کہ کئی برگزیدہ انبیاءؑ کے برخلاف آپؐ کے اعلانِ نبوت سے قبل کا زمانہ، خود نبوت کے عرصے سے کسی حد تک زیادہ ہے، مشہور تواریخ اس بات پر شاہد ہیں کہ آپؐ نے چالیس سال کے سنِ مبارک میں اعلانِ نبوت فرمایا،اگر اس دور میں ہم آپؐ کی شخصیت کے اخلاقی پہلوؤں کا جائزہ لیں تو ہمیں معلوم ہوگا کہ آپؐ اعلانِ نبوت فرمانے سے پہلے بھی معاشرے میں ایک اہم مقام رکھتے تھے، اور اہل مکہ آپؐ کے کردار کی شرافت اور زبان کی سچائی کی وجہ سے آپؐ کو صادق اور أمین کے لقب سے یاد کرتے تھے۔

صداقت کا تعلق انسان کی زبان سے ہوتا ہے جبکہ امانت کا تعلق اُسکی پوری شخصیت سے ہوتا ہے، آپؐ نے اُس وقت کے مکہ کے فاسد اور گمراہ معاشرے میں اپنے اعلیٰ و ارفع کردار اور بلند شخصیت کے ایسے نمونے رقم کئے کہ ہر شخص آپؐ کو صادق اور امین کہہ کر پکارتا تھا۔

پیغمبر اکرمؐ نے مکہ والوں کے درمیان اپنے اِس مقام اور ساکھ کو مدّنظر رکھتے ہوئے کہ لوگ آپؐ کو صادق اور امین سے یاد کرتے ہیں اور اپنے آپس کے معاملات اور مسائل کے حل کے لیے آپؐ ہی سے رہنمائی لیتے ہیں، اپنے مشن کا آغاز کیا اور جب آپؐ نے دین کی تبلیغ شروع کی تو لوگ ایک ایسے شخص سے حق کی باتیں سن رہے تھے کہ جس کے بارے میں ان کا ایمان تھا کہ یہ شخص صادق و امین ہونے کے ساتھ ساتھ اُن کا ہمدرد بھی ہے۔ لہٰذا بہت سے لوگ آپؐ کی تبلیغ پر صدقِ دل سے ایمان لے آئے۔

کردار اور عمل کا اثر زبان سے زیادہ ہوتا ہے

اگر مبلّغ خود اپنی بات کی صحت پر اعتقاد نہ رکھتا ہو یا خود اپنے کہے پر عمل پیرا نہ ہو، تو وہ کس طرح اپنی تبلیغ کے دوسروں کے لیے موثّر ہونے کا سوچ سکتا ہے؟ کیونکہ مقولہ ہے کہ ‘‘اِنَّ الْکَلٰامَ اِذٰا خَرَجَ مِنَ الْلِسٰانِ لَمْ یَتَجٰاوَزْ مِنَ الْأُذُنِ وَاِذٰا خَرَجَ مِنَ الْقَلْبِ دَخَلَ فِی الْقَلْبِ ’’ ۳ ‘‘بے شک جب بات زبان سے نکلتی ہے تو وہ کانوں سے فراتر نہیں جاتی، لیکن جب بات دل سے نکلتی ہے تو دل میں اُتر جاتی ہے۔’’

انبیاءِ کرامؑ کی پیغام رسانی بھی فقط زبان کی حد تک محدود نہیں ہوتی تھی، بلکہ اُن کی تبلیغ دلوں کو تسخیر کرلیتی تھی اور اُن کی حکومت دلوں پر ہوتی تھی،جیسا کہ ایک چھوٹے سے واقعہ سے ہم آنحضرتؐ کی سیرت کے اِس پہلو کو سمجھ سکتے ہیں کہ آپؐ جو فرماتے تھے، پہلے خود اُس پر عمل پیرا ہوتے تھے، ایک شخص اپنے بچّے کے ہمراہ آنحضرتؐ کی خدمت اقدس میں حاضر ہوا اور عرض کی: یا رسول اللہؐ میرا یہ بچّہ کھجور بہت زیادہ کھاتا ہے، لہٰذا آپؐ اسے نصیحت فرمائیں کہ زیادہ کھجور نہ کھایا کرے۔ آپؐ نے فرمایا: ‘‘تم اپنے اِس بچّے کو کل لے کر آنا۔’’

جب دوسرے دن وہ شخص بچّے کو لے کر حضورؐ کی خدمت أقدس میں حاضر ہوا تو آپؐ نے فرمایا: ‘‘بیٹے زیادہ کھجور مت کھایا کرو۔’’ اُس شخص نے پوچھا: یا رسول اللہؐ! یہی نصیحت آپؐ نے کل کیوں نہیں فرمائی تھی؟’’ آپؐ نے فرمایا: ‘‘کیونکہ کل میں نے خود کھجور کھائی تھی!’’

آپؐ کی اِسی سیرت حسنہ کو دیکھتے ہوئے فارسی میں ضرب المثل بن گئی کہ ‘‘ رُطَب خوردہ منع رطب چون کند’’ یعنی ‘‘کھجور کھانے والا کس طرح کھجور کھانے سے منع کر سکتا ہے۔’’ آپؐ اپنے اِس عمل سے اپنے ماننے والوں کے لیے یہ درس چھوڑ گئے کہ واعظ کی زبان میں تاثیر اُسی وقت ہو سکتی ہے جب وہ خود اپنے کہے پر عمل کرتا ہو، یعنی اُس کا عمل اُس کے کہے کے بر خلاف نہ ہو، جیسا کہ قرآنِ کریم میں ارشاد ہوتا ہے کہ ‘‘ یٰآ أَیُّھَا الَّذِیْنَ آمَنُوْا لِمَ تَقُوْلُوْنَ مَا لٰا تَفْعَلُوْنَ * کَبُرَ مَقْتاً عِنْدَ اللہِ أَنْ تَقُوْلُوْا مَا لٰا تَفْعَلُوْنَ ’’ ۴ ‘‘اے صاحبانِ ایمان! آخر وہ بات کیوں کہتے ہو جس پر تم خود عمل نہیں کرتے، اللہ کے نزدیک یہ سخت ناراضگی کا سبب ہے کہ تم وہ بات کہو جس پر تم خود عمل نہیں کرتے ہو۔’’

آج بھی اگر کوئی تبلیغ دین کرنا چاہتا ہے تو اسے چاہیے کہ پہلے اپنے آپ کو ہر قسم کی کثافت اور آلودگی سے پاک کرے، تاکہ ہر کوئی اس سے محبت اوراپنائیت کا احساس کرنے لگے، پھر اپنے افکار و نظریات کو اُن کی طرف تک منتقل کرے۔ لیکن اگر کوئی اپنے آپ کو پاک نہیں کرتااور فقط زبانی جمع خرچ سے دوسروں میں تبدیلی کا خواہش مند ہوتا ہے، تو کوئی بھی اس کی بات کو قبول کرنے کے لیے آمادہ نہ ہوگا، اور نہ ہی اُس کی بات کا کوئی اثر ہو گا۔

امیر المومنین علیؑ اِس بارے میں فرماتے ہیں:‘‘ اِحْصِدِ الشَّرَّ مِنْ صَدْرِ غَیْرِکَ بِقَلْعِہ مِنْ صَدْرِکَ ’’ ۵ ‘‘دوسرے کے سینے سے بُرائی کو اُکھاڑ دو، (لیکن) اپنے سینے سے اُکھاڑنے کے ساتھ۔’’

پیغمبر اکرمؐ اپنے پیارے صحابی جناب ابوذر غفاریؒ سے فرماتے ہیں کہ‘‘ اَلْکَلِمَةُ الطَّیِّبَةُ صَدَقَة ’’ ۶ ‘‘اچھی بات کرنا خود ایک قسم کا صدقہ ہے۔’’ یعنی ضروری نہیں کہ انسان صرف مال اور روپے پیسے سے ہی کسی کے ساتھ ہمدردی کرے، بلکہ اچھی اور اصلاحی گفتگو، کسی کو نصیحت کرنا اور دوسرے کی راہنمائی کرنا بھی اللہ کے نزدیک صدقہ شمار ہوتا ہے۔ اچھی باتیں آپ کی طرف سے دوسروں کے لئے تحفہ ہیں، اچھے جملات اور کلمات سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ مخاطب سے آپ کس قدر محبت اوراُس کی عزت کرتے ہیں۔

رسول اکرمؐ کا معاشرے میں کردار

حضور اکرمؐ ایسے ہی قلبِ مطّہر کے مالک تھے، جو ہر ایک کے لیے محبت اور ہمدردی سے لبریز تھا۔ آپؐ ہمیشہ اچھے کام انجام دینے کے لیے آمادہ رہتے، ہر ایک سے خوش اخلاقی سے پیش آتے، اور سب سے شائستہ اور نفیس گفتگو فرماتے، حتّی کہ کافروں کے بارے میں بھی آپؐ فکر مند رہتے تھے۔ آپؐ نہیں چاہتے تھے کہ لوگ آپؐ کی اندھی تقلید کریں، بلکہ آپؐ کی خواہش تھی کہ لوگ دلیل و برہان کے ساتھ، عقل اور منطق کی روشنی میں حق کو پہچانتے ہوئے، اسلام کی طرف بڑھیں، کیونکہ آپؐ اُن کی دنیا و آخرت دونوں کی بھلائی چاہتے تھے۔

خداوند عالم ہمیں اپنے رسولؐ کا اس طرح تعارف کرواتا ہے: ‘‘ لَقَدْ جَآئَکُمْ رَسُوْل مِّنْ أَنْفُسِکُمْ عَزِیْز عَلَیْہِ مَا عَنِتُّمْ حَرِیْص عَلَیْکُمْ بِالْمُؤْمِنِیْنَ رَؤُوْف رَّحِیْم ’’ ۷ ‘‘ یقیناََ تمہارے پاس وہ پیغمبرؐ آیا ہے جو تم ہی میں سے ہے ، اُس پر تمہاری ہرمصیبت شاق گزرتی ہے، وہ تم مومنین کی ہدایت کے بارے میں حریص ہے اور مومنین کے حال پر شفیق و مہربان ہے۔’’

حضور اکرمؐ انتہائی نرم خو اور مہربان تھے،وہ بچوں، بوڑھوں، ضعیف اور کمزور سب کا یکساں احترام کرتے تھے، آپؐ کی زبان اور لہجہ اس قدرنرم تھے کہ ہر ایک آپؐ سے بات کرنے کا خواہش مند ہوتا تھا، اور سب کی نظر میں آپؐ کی شخصیت غیر متنازع تھی، آپؐ اپنی جوانی کے دنوں میں بھی ایسی ہی شخصیت کے حامل فرد تھے، جب خانۂ کعبہ کی تعمیرِ نو ہو رہی تھی اور حجرِ اسود کو نصب کرنے کا وقت آپہنچا، تو مکہ کا ہر قبیلہ اس بات کا خواہشمند تھا کہ یہ سعادت اُسے حاصل ہو جائے، اور یہ چیز قبائل کے سرداروں کے درمیان اختلاف کا موجب بن گئی، اور جھگڑا اِس قدر بڑھا کہ نزدیک تھا ان کے درمیان جنگ شروع ہو جائے، بالآخر یہ فیصلہ ہوا کہ جو شخص بھی بابِ بنی شیبہ سے پہلے مسجد الحرام میں داخل ہوگا، وہ اس معاملہ کا فیصلہ کرے گا۔

وہ کسی ایسے شخص کے منتظر تھے جس پر سب کا اعتماد ہو، کہ اُن کی نظر محمدؐ ابن عبداللہ پر پڑی، آپؐ کو دیکھ کر سب کو اطمینان ہو گیا کہ آپؐ اِس معاملے میں بالکل صحیح فیصلہ کریں گےاور سب کو آپؐ کی حاکمیت پر اتفاق تھا۔ جب معاملہ آپؐ کی خدمت میں پیش کیا گیا، تو آپؐ نے فرمایا: ‘‘ایک چادر لے آؤ!’’ جب چادر آگئی تو آپؐ نے اپنے دستِ مبارک سے حجرِ اسود اٹھا کر اُس چادر پر رکھ دیا اور فرمایا: ‘‘ہر قبیلے کا سردار اِس چادر کا ایک کنارہ پکڑ لے اور اِسے خانۂ کعبہ کے نزدیک حجرِ اسود کے نصب کئے جانے کے مقام تک لے چلے۔’’ اُس مقام پر آپؐ نے خود چادر سے حجرِ اسود کو اُٹھایا اور اپنے دستِ مبارک سے حجرِ اسود کو خانۂ کعبہ میں نصب کر دیا۔ اِس حکمتِ عملی اور تدبیر سے آپؐ نے ان کے جھگڑے کو ختم کر دیا، اور سب نے آپؐ کی روش کو نہ صرف یہ کہ پسند کیا، بلکہ آپؐ کی دور اندیشی کی تعریف بھی کی۔ ۸

رسولِ خداؐ کا اخلاق اور قرآنِ کریم

خدا وند عالم نے قرآن مجید میں اپنے حبیبؐ کی صفات ، اخلاق حسنہ اور دیگر کمالات کو بیان کر کے انسانیت کیلئے ایک مکمل اورجامع نمونۂ حیات پیش کیا ہے۔خود حضورؐ نے بھی لوگوں کے ساتھ معاملات میں اُن کی مدد کرتے، ہر ایک کے ساتھ محبت سے پیش آتے تھے اور ہر ایک کی ہدایت و راہنمائی کے لیے ہمہ تن آمادہ رہتے تھے۔

شرحِ صدر اور وسعتِ قلبی، اللہ کی وہ عظیم نعمت ہے کہ جس کے ساتھ انسان ہر بڑی سے بڑی مصیبت کا مقابلہ نہایت خندہ پیشانی سے کرسکتا ہے، حضرت موسیٰؑ ابن عمران نے اپنی اِس ضرورت کے لیے خود بارگاہِ خدا وندی میں درخواست کی: ‘‘ قَالَ رَبِّ اشْرَحْ لِیْ صَدْرِیْ * وَیَسِّرْ لِیْ أَمْرِیْ * وَاحْلُلْ عُقْدَةً مِّنْ لِّسَانِیْ * یَفْقَھُوْا قَوْلِیْ ’’ ۹ ‘‘حضرت موسیٰؑ نے عرض کی پروردگار میرے سینے کو کشادہ کر دے، میرے (اِس رسالت کے) کام کو آسان بنادے اور میری زبان کی گرہ کو کھول دے، تاکہ یہ لوگ میری بات سمجھ سکیں۔’’

لیکن رسولِ خداؐ کی نسبت خدا وند عالم کا لطفِ خاص دیکھئے کہ اُس نے آپؐ کی ضرورت کو از خود پورا کر دیا اور فرمایا: ‘‘ أَلَمْ نَشْرَحْ لَکَ صَدْرَکَ * وَوَضَعْنَا عَنْکَ وِزْرَکََ ’’ ۱۰ ‘‘ کیا ہم نے آپؐ کے سینے کو کشادہ نہیں کر دیااور کیا آپؐ کے بوجھ کو آپؐ سے اُتار نہیں دیا۔’’

لہٰذا ہمیں بھی اپنے معاملات میں صبر و تحمل اور کشادہ روی سے کام لینا چاہیے اور دوسروں کے معاملات میں ہمدردی اور محبت سے پیش آنا چاہیے اور دوسروں کی راہنمائی میں سردمہری اور لا پرواہی کا مظاہرہ نہیں کرنا چاہیے، کیونکہ یہ سیرتِ نبی کریمؐ کے کاملاً برخلاف اور تعلیماتِ اسلامی کے منافی ہے۔

پیغمبر اکرمؐ کا اخلاق اور آپؐ کا علم و فضل ہی تھا کہ جس کے ذریعے آپؐ نے لوگوں کے دلوں میں بہت تھوڑے عرصے میں گھر کر لیا۔ قرآن کریم آپؐ کی توصیف بیان کرتے ہوئے فرماتا ہے: ‘‘ وَاِنَّکَ لَعَلیٰ خُلُقٍ عَظِیْمٍ ’’ ۱۱ ''بے شک آپؐ تو اخلاق کے اعلیٰ مرتبہ پر فائز ہیں۔’’ اور شریعت اسلامی کے تمام احکامات، چاہے وہ حرام ہوں یا واجب، یا دیگر احکامات سب اخلاقی اصولوں پر استوار ہیں اور انہی اخلاقیات کی تکمیل کے لیے انسانوں پر فرض قرار دیئے گئے ہیں۔

قرآنِ کریم ایک دوسرے مقام پر آنحضرتؐ کی نرم مزاجی اور لوگوں کے ساتھ حسنِ سلوک کو بیان کرتا ہے: ‘‘ فَبِمٰا رَحْمَةٍ مِّنَ اللہِ لِنْتَ لَھُمْ وَلَوْ کُنْتَ فَظًّاً غَلِیْظَ الْقَلْبِ لَانْفَضُّوْا مِنْ حَوْلِکَ فَاعْفُ عَنْھُمْ وَاسْتَغْفِرْلَھُمْ وَشٰاوِرْھُمْ فی الْأَمْرِ ۔۔۔ ’’ ۱۲ ‘‘اے پیغمبرؐ! یہ اللہ کی مہربانی ہے کہ تم ان لوگوں کے لئے نرم دل ہو ورنہ اگر تم بد مزاج اور سخت دل ہوتے، تو یہ تمہارے پاس سے بھاگ کھڑے ہوتے، لہٰذا اب انہیں معاف کردو اور ان کے لئے استغفار کرو اور ان سے جنگ کے معاملات میں مشورہ کرو۔۔۔’’

پروردگارِ عالم اپنے رسولؐ کی پہلی ذمّہ داری کے بارے میں ارشاد کرتے ہوئے فرماتا ہے: ‘‘ لَقَدْ مَنَّ اللّٰہُ عَلٰی الْمُؤْمِنِیْنَ اِذْ بَعَثَ فِیْھِمْ رَسُوْلًا مِنْ أَنْفُسِھِمْ یَتْلُوْا عَلَیْھِمْ اٰیٰتِہ وَ یُزَکِّیْھِمْ وَ یُعَلِّمُھُمُ الْکِتٰبَ وَ الْحِکْمَةَ وَ اِنْ کٰانُوْا مِنْ قَبْلُ لَفِیْ ضَلٰلٍ مُبِیْنٍ ’’ ۱۳ ‘‘یقینا اللہ نے ایمانداروں پر بڑا احسان کیا کہ اِن کے واسطے اُنہی میں سے ایک رسولؐ بھیجا، جو اُنہیں خدا کی آیتیں پڑھ پڑھ کر سُناتا ہے اور ان کے نفوس کو پاکیزہ کرتا ہے اور اُنہیں کتابِ خدا اور حکمت کی باتیں سکھاتا ہے۔ اگرچہ وہ اس سے پہلے کُھلی گمراہی میں پڑے ہوئے تھے۔’’

کفارِ قریش جب بھی پیغمبر خداؐ سے اِن آیات کو سُنتے تو متاثر ہوئے بغیر نہ رہتے، اس لیے انہوں نے قرآن کی آیات نہ سُننے کا ایک دوسرے کے ساتھ معاہدہ کیا۔ لہٰذا جب بھی آپؐ قرآن کی تلاوت فرماتے، وہ لوگ شور شرابہ کرتے، تاکہ دوسرے لوگ بھی سُننے سے باز رہیں۔ کیونکہ وہ جانتے تھے، جو بھی ان آیات کو کُھلے ذہن کے ساتھ سنے گا، وہ ضرور خدا اور اس کے رسولؐ پر ایمان لے آئے گا۔

یہی وجہ ہے کہ قرآنِ کریم کی آیات کا کافی بڑا حصّہ مکّی آیات پر مشتمل ہے، جس کا ایک مقصد سادہ ذہنیت رکھنے والے لوگوں کے ذہنوں کو جھنجوڑنا تھا۔ نبی اکرمؐ نے ان کی ہدایت اور دین کی تبلیغ اسی انداز میں جاری رکھی، تاکہ اُن کے ذہن حق کے ساتھ پروان چڑھیں اور اُن کے دل محبت اور اچھائی سے بھر جائیں اور اُن کے اعمال حق اور انصاف پر مبنی ہوں۔

مگر جب بعض متکبرین اور مفاد پرستوں نے اپنے مفادات کو خطرے میں دیکھا تو آپؐ کی مخالفت شروع کر دی، وہ کبھی آپؐ کو ڈراتے اور کبھی لالچ کے ذریعہ سے تبلیغِ اسلام سے روکنے کی کوشش کرتے۔ لیکن آپؐ نے اپنے چچا ‘‘حضرت ابوطالب سے (جو کہ آنحضرتؐ اور قریش کے درمیان سفیر کا کام کیا کرتے تھے اور انہوں نے حضورؐ کی حفاظت کرنے میں کسی قسم کی کوئی کسر نہ چھوڑی تھی، با وجود اس کے کہ وہ پکّے اور سچّے مومن تھے مگر انھوں نے اپنے بھتیجے کی حفاظت کی خاطر اپنے ایمان کو چھپائے رکھا۔ وہ کہتے تھے:‘‘ وَقَدْ عَلِمْتُ أَنَّ دِیْنَ مُحَمَّدٍ مِنْ خَیْرِ أَدْیٰانِ الْبَرِیَّہِ دِیْنًا ’’ ۱۴ ‘‘مجھے یقین ہے کہ میرے بھتیجے محمدؐ کا دین ہی تمام انسانوں کے دین سے بہتر دین ہے’’) یہ فرمایا :‘‘ وَاللہِ یٰا عَمّ ، لَوْ وَضَعُوْا الشَّمْسَ فی یَمِیْنِیْ وَ الْقَمَرَ فی یَسٰارِیْ عَلٰی اَنْ أَتْرُکَ ھٰذٰا الْأَمْرَ مٰا تَرَکْتُہ حَتّی یَظْھَرَہُ اللہُ أَوْ أَمُوْتَ دُوْنَہُ ’’ ۱۵ ‘‘چچا جان! خدا کی قسم! اگر یہ لوگ میرے دائیں ہاتھ میں سورج اور بائیں ہاتھ میں چاند لاکر بھی رکھ دیں، تاکہ میں اس امر رسالت کو چھوڑ دوں، تب بھی ہرگزمیں اپنے اِس مشن کو ترک نہ کروں گا، یہاں تک کہ خدا مجھے اس مقصد میں کامیابی عطا کر دے یا مجھے موت آجائے۔’’

رَحْمَۃً لِّلْعٰالَمِیْنَ کی سند

قرآنِ کریم کی سب سے زیادہ اُمید دلانے اور رحمت پروردگار کو اُس کے بندوں تک پہنچانے والی آیت یہ ہے: ‘‘ وَمَآ اَرْسَلْنٰاکَ اِلَّا رَحْمَةً لِّلْعٰالَمِیْنَ ’’ ۱۶ ‘‘اور ہم نے آپؐ کو سارے جہانوں کے لیے رحمت بنا کر بھیجا ہے۔’’

جس طرح پروردگارِ عالم کی رحمت بے حد وسیع ہے اور اُس کی حد و انتہا کے اندازہ نہیں لگایا جا سکتا، اِسی طرح اُس کے حبیب محمد مصطفی ٰؐ کی رحمت کی وسعت کی بھی کوئی حد نہیں ہے، آپؐ ہر شخص کے لیے مہربان باپ کی طرح شفیق اور دلسوز تھے، کبھی کسی کی برائی نہیں چاہتے تھے اور آپؐ کی اِس رحمت میں کسی زمانے کی بھی کوئی قید نہیں ہے، یعنی جس طرح آپؐ اپنی حیاتِ طیّبہ میں تمام انسانوں کے لیے باعثِ رحمت تھے، اِسی طرح اِس دنیائے فانی سے رحلت فرمانے کے بعد بھی آپؐ کی رحمت اور نظرِ کرم سب کے شاملِ حال ہے۔

لیکن یہ نکتہ بھی قابل غور ہے کہ آپؐ کی اِس رحمت کا تعلّق آپؐ کے منصبِ رسالت کے ساتھ ہے، کیونکہ پروردگارِ عالم نے آپؐ کو تمام جہانوں کے لیے رحمت بنا کر مبعوث کیا ہے، اس لیے کہ آنحضرتؐ کی جو رسالتِ الہیہ ہے، اصل میں وہی جہاں والوں کے لیے رحمت ہے، نہ فقط اِس جہاں والوں کے لیے، بلکہ دنیا و آخرت دونوں جہانوں کے لیے آپؐ کا مبعوث بہ رسالت ہونا ہی با عثِ رحمت ہے۔ لہٰذا جو شخص آپؐ کی رسالت و نبوت کی گواہی نہیں دیتا، حقیقت میں وہ آپؐ کی رحمت کا حقدار بھی نہیں ہے۔

خود حضور اکرمؐ اپنی بعثت کا مقصد بیان کرتے ہوئے ارشاد فرماتے ہیں: ‘‘ اِنَّمَا بُعِثْتُ لِأُ تَمِّمَ مَکٰارِمَ الْاَخْلٰاقِ ’’ ۱۷ ‘‘ مجھے مکارم ِاخلاق کی تکمیل کے لئے معبوث کیا گیا ہے۔’’

کون سمجھے گامقام رحمة اللعالمیں ؐ
جب علیؑ ٹھہرے غلامِ رحمة اللعالمیں ؐ
جوش میں پڑھتا ھے میرے خون کا ھر قطرہ درود
دل میں جب لیتا ھوں نامِ رحمة اللعالمیں ؐ
بہت سی قرآنی آیات اِس بات پر شاہد ہیں کے آنحضرتؐ قبل از بعثت اور بعثت کے بعد دیگر انسانوں کی طرح معاشرت کرتے تھے، کھاتے پیتے اور بازار میں رفت و آمد کرتے تھے، ارشاد ہوتا ہے: ‘‘ وَقَالُوْا مَالِ ھٰذَا الرَّسُوْلِ یَأْکُلُ الطَّعَامَ وَیَمْشِیْ فِیْ الْأَسْوَاقِ لَوْلَآ أُنْزِلَ اِلَیْہِ مَلَکٌ فَیَکُوْنَ مَعَہ نَذِیْراً * أَوْ یُلْقٰی اِلَیْہِ کَنْزٌ أَوْ تَکُوْنُ لَہ جَنَّةٌ یَأْکُلُ مِنْھَا وَقَالَ الظَّالِمُوْنَ اِنْ تَتَّبِعُوْنَ اِلَّا رَجُلاً مَّسْحُوْراً ’’ ۱۸ ‘‘اور وہ لوگ یہ کہتے تھے کہ اس رسول کو کیا ہو گیا ہے کہ یہ کھانا بھی کھاتا ہے اور بازاروں میں چلتا پھرتا بھی ہے، اِس کے پاس کوئی مَلَک کیوں نہیں نازل کیا جاتا، جو اس کے ساتھ مل کر عذاب الہٰی سے ڈرانے والا ثابت ہو، یا اس کی طرف کوئی خزانہ ہی گرا دیا جاتا یا اس کے پاس کوئی باغ ہی ہوتا، جس سے کھاتا پیتا اور پھر یہ ظالم کہتے ہیں کہ تم لوگ تو ایک سحر زدہ شخص کی پیروی کر رہے ہو۔’’
مکہ کے بت پرست مشرک سردار اِسی طرح کی بہانہ تراشیاں کرکے ایمان لانے سے کتراتے تھے، کیونکہ ایمان لانے کی صورت میں انہیں اپنی ریاست اور سرداری جانے کا خطرہ لاحق تھا،اور دوسری جانب کبر و نخوت کے جو تاج انہوں نے اپنے سروں پر سجائے ہوئے تھے، ان کا نفس انہیں اپنے ہی غلاموں اور اپنے سے کم حیثیت افراد کے ساتھ بیٹھنے کی اجازت نہیں دیتا تھا۔

بعثت کے پانچویں سال جب مسلمانوں نے مشرکین مکہ کی اذیت و آزار سے تنگ آکر حبشہ کی طرف ہجرت کی، تو مشرکین مکہ نے بھی اپنے نمائندے مہاجرین کو واپس لانے کے لیے حبشہ کے بادشاہ نجاشی کے پاس بھیجے، لیکن نجاشی جو عادل اور انصاف پسند حکمران تھا، قریش کے نمائندوں کی باتوں میں نہ آیا، بلکہ اُس نے مہاجرین کو اپنے حضور طلب کرکے ماجرا دریافت کیا، حضرت ابو طالبؑ کے بیٹے حضرت جعفر طیّارؑ نے مہاجرین کی نمائندگی کرتے ہوئے، اسلام اور پیغمبر اکرمؐ کا تعارف اس طرح کروایا: ‘‘ہم جاہل اور بت پرست لوگ تھے، مردار کا گوشت کھاتے اور قبیح کاموں کا ارتکاب کرتے تھے، ہماری نظر میں ہمسائیوں کا کوئی احترام نہ تھا، ہمارے کمزور اور ناتواں لوگ ستمگروں کے رحم و کرم پر تھے، ہم اپنے ہی رشتہ داروں سے بہانے بہانے سے جھگڑتے اور جنگ کرتے تھے، یہاں تک کہ ہم ہی میں سے ایک ایسے شخص نے قیام کیا، جس کا ماضی تابناک اور جس کی شخصیت درخشاں تھی۔ لوگ اُسے صادق اور أمین کہہ کر پکارتے تھے، اُس نے ہمیں خدا کے حکم سے وحدانیت کی دعوت دی اور بت پرستی کے توہُّمات سے روکا، امانتوں کے واپس لوٹانے کا حکم دیا اور حرام و مردار چیزوں کے کھانے سے منع کیا، اپنے ہمسائیوں اور رشتہ داروں کے ساتھ حسن سلوک روا رکھنے، اور جنگ و جدال سے باز رہنے کی تلقین فرمائی، نیز جھوٹی گواہی دینے، عورتوں سے نا مشروع تعلقات رکھنے، یتیموں کے اموال میں خیانت کرنے اور عورتوں پر بہتان تراشیوں سے بھی دور رہنے کا حکم دیا۔’’ ۱۹

پیغمبر اکرم ﷺ کا دور جوانی

جوانی کا دور ہر معمولی انسان کیلئے خواہشاتِ نفسانی کے عروج اور لذَّت طلبی کا دور ہوتا ہے، اور یہی وقت کسی بھی جوان کے راہِ حق سے منحرف ہونے اور خواہشات نفسانی کے ناجائز طور پر تکمیل کرنے کا ہو سکتا ہے، لیکن جو أہم فرق آپؐ کی شخصیت میں نمایاں طور پر پایا جاتا تھا، وہ آپؐ کی پاک طینت، صداقت و امانتداری اور خدا پرستانہ زندگی تھی، جس سے اُس وقت کا کوئی بھی نوجوان بہرہ مند نہ تھا۔

آنحضرتؐ نے بارہ سال کی عمر میں اپنے شفیق چچا حضرت ابوطالبؑ کے ہمراہ اپنا پہلا تجارتی سفر شام کی جانب کیا، اِسی سفر کے دوران بُصریٰ نامی مقام پر قیام کے وقت وہاں کے عیسائی راہب ‘‘بحیراء’’نے آپؐ میں نبوت کی نشانیوں اور علامات کو دیکھا اور دل و جان سے آپؐ کا گرویدہ ہو گیا، اُس نے حضرت ابوطالبؑ سے کہا: ‘‘یہ بچہ بہت روشن مستقبل کا مالک ہو گا۔۔۔’’

راھب یہ خیال کر رہا تھا کہ یہ لوگ بت پرست ہوں گے، کیونکہ یہ تجارتی کاروان مکہ سے تعلق رکھتا تھا، اس لیے اُس نے آنحضرتؐ کو مخاطب کرکے کہا: ‘‘اے بیٹے! میں تمہیں لات و عزّیٰ کی قسم دیتا ہوں کہ میں جو تم سے پوچھوں گا تم مجھے جواب دو گے!’’ آپؐ نے فرمایا: ‘‘تم مجھے لات و عزّیٰ کو قسم مت دو! کیونکہ میری نظر میں اِن دو سے زیادہ قابلِ نفرت کوئی اور چیز نہیں ہے۔’’ بحیراء نے کہا: ‘‘تو پھر تمہیں خداوند کی قسم دیتا ہوں! کہ میرے سوالات کا جواب دو۔’’ آنحضرتؐ نے فرمایا: ‘‘تم جو پوچھنا چاہتے ہو پوچھو!’’ ۲۰

اِس کے بعد بھی آپؐ نے متعدّد بار شام کے تجارتی سفر کئے، یہاں تک کہ آپؐ کی صداقت و امانتداری اور حسن سلوک کے تذکرے عام محفلوں میں ہونے لگے۔ جب حضرت خدیجہ الکبریٰؑ نے ، جو مکہ مکرمہ کی ایک مالدار اور ثروتمند خاتون تھیں، آنحضرتؐ کی صداقت و امانتداری کی شہرت سنی، تو آپؐ کو اپنی طرف سے تجارت کی غرض سے شام بھیجنے کا ارادہ کیا اور آپؐ کے ہمراہ اپنے ایک موردِ اعتماد غلام ‘‘میسرہ’’ کو بھی روانہ کیا، تاکہ وہ سفرِِ شام سے واپسی پر حضرت خدیجہؑ کو تفصیلی رپورٹ دے۔ ‘‘میسرہ’’ نے واپسی پر آپؐ کی صداقت، امانت داری، حسن سلوک، خوش اخلاقی اور توحید پرستی کی گزارش دی اور بتایا کہ کسی بات پر آپؐ کا اختلاف شام کے ایک تاجر سے ہوگیا اور اُس نے آپؐ سے لات و عزّیٰ کی قسم کھانے کو کہا، اُس کے جواب میں محمدؐ نے فرمایا: ‘‘میرے نزدیک یہی لات و عزّیٰ پست ترین ہیں جن کی تم قسم کھانے کو کہہ رہے ہو۔’’ ۲۱

جوانی کے دور میں ہر جوان کی یہ خواہش ہوتی ہے کہ وہ اپنے لیے خوبصورت اور جوان شریکِ حیات کا انتخاب کرے، لیکن تمام مؤرِّخین و محدِّثین اِس بات پر متفق ہے کہ محمَّد ؐابن عبداللہؑ نے 25سال کی جوانی کے عالم میں، خود اپنے اختیار سے، اپنے سے 15سال بڑی، 40سالہ خاتون سے شادی کی اور وہ بھی حضرت خدیجہؑ نے پہلے اِس خواہش کا اظہار فرمایا اور اپنی عقل و فراست اور دور اندیشی سے کام لیتے ہوئے اپنی خواستگاری کا پیغام آپؐ کی طرف بھیجوایا۔ کیونکہ وہ اپنی ہمسری کے لیے کسی ایسے ہی شخص کے انتظار میں تھیں اور یہ گوہر یگانہ انہیں ‘‘محمدؐ ’’ کی صورت میں مل گیا تھا۔

آپؐ نے جس وقت حضرت خدیجہؑ سے شادی کی، اُس وقت آپؐ مناسب اقتصادی اور اجتماعی موقعیت کے حامل تھے اور اگر چاہتے تو کسی بھی جوان عرب خاتون کو اپنی ہمسری کے لیے انتخاب کرسکتے تھے، لیکن آپؐ نے ہرگز اپنے شفیق اور مہربان چچا ‘‘حضرت ابوطالبؑ ’’سے اِس خواہش کا اظہار نہ فرمایا، اس لیے کہ آپؐ بھی اپنے لیے جناب خدیجہ الکبریٰؑ جیسی یکتاپرست اور نیک سیرت زوجہ کی تلاش میں تھے۔

علی ابن ابیطالبؑ پیغمبر خدا ﷺ کے تربیت یافتہ

خداوند عالم نے اپنے حبیبؐ کی براہِ راست تعلیم و تربیت کا انتظام فرمایا، اگرچہ آپؐ بچپن ہی میں اپنے ماں باپ کے سایۂ پُرشفقت سے محروم ہوگئے تھے، لیکن خداوند عالم نے حضرت عبدالمطلبؑ اور حضرت ابوطالبؑ جیسی دو عظیم ہستیوں کو آپؐ کی کفالت کی عظیم ذمہ داری سونپی اور حضرت ابوطالبؑ نے تو اِس ذمہ داری کو اِس قدر احسن انداز سے نبھایا کہ اپنی رحلت تک آنحضرتؐ کی ڈھال بنے رہے اور پشت پناہی کا فرض انجام دیتے رہے۔ یہاں تک کہ جب تک حضرت ابوطالبؑ زندہ رہے کسی کو پیغمبر اکرمؐ کوجسمانی اذیت و آزار دینے کی جرأت نہ ہوئی۔

نیز خداوند عالم نے روحانی الہام کے ذریعہ بھی آپؐ کی شخصیت کی تعمیر فرمائی، لہٰذا حضور اکرمؐ خداوند عالم کے تربیت یافتہ تھے اور آپؐ نے حضرت علیؑ کی تربیت بھی اِسی انداز سے فرمائی تھی۔ جس کے بارے میں خود حضرت علیؑ فرماتے ہیں:‘‘ وَکَّلَ اللہُ بِہ عَظِیْماً مِّنْ مَّلٰائِکَتِہ وَکٰانَ یُلْقِیْ اِلَیْہِ فیْ کُلِّ یَوْمٍ خُلُقاً مِنْ أَخْلٰاقِہ’’ ‘‘خداوند عالم نے اپنے ایک عظیم فرشتے کو اپنے حبیبؐ پر نازل کیا جو آپؐ کو ہر روز اخلاق کی تعلیم دیتا تھا۔’’

حضرت علیؑ جو آغوش رسولِ خداؐ کے پروردہ اور تربیت یافتہ تھے، مسلمانوں میں آپؑ کے علاوہ کوئی ایسا فرد موجود نہیں تھا، جو تمام صفات و کمالات میں رسول اکرمؐ کے مشابہ ہو، کیونکہ حضور انورؐ نے حضرت علیؑ کی تربیت بالکل اپنے ہی انداز میں کی تھی اور ان کو اپنے بعد خلافت و جانشینی کے لئے مکمل طور پر تیار کیا تھا۔

امام علیؑ اپنے اِس افتخار کو بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں: ‘‘ وَلَقَدْ عَلِمْتُمْ مَوْضِعِیْ مِنْ رَّسُوْلِ اللہِ صَلّٰی اللہُ عَلَیْہِ وَآلِہ بِالْقَرٰابَةِ الْقَرِیْبَةِ وَالْمَنْزِلَةِ الْخَصِیْصَةِ، وَضَعَنِیْ فی حِجْرِہ وَأَنَا وَلِیْدٌ، یَضَمُّنِیْ اِلٰی صَدْرِہ وَیَکْنِفُنِیْ فِرٰاشَہ وَیَمَسُّنِیْ جَسَدَہ وَیُشَمُّنِیْ عَرَفُہ وَکٰانَ یَمْضَغُ الشَّیْئَ ثُمَّ یُلَقِّمُنِیْہ وَمَا وَجَدَ لِیْ کِذْبَةً فی قَوْلٍ وَلٰا خَطْلَةً فی فِعْلٍ ’’ ‘‘تم ضرور پیغمبراکرمؐ سے میری نزدیکی قرابت اور خاص مقام و منزلت کو جانتے ہوں گے، آپؐ مجھے اپنی آغوش میں بٹھالیتے (اور پیار کرتے تھے)، آپؐ مجھے اپنے سینے سے لگاتے اور اپنے بستر پر سلاتے تھے، آپؐ مجھے اپنے بدن مبارک سے اس طرح مس کرتے کہ مجھے آپؐ کے بدن کی خوشبو سونگھائی دیتی اور آپؐ غذا چبا کر نرم کرتے اور پھر مجھے کھلاتے تھے۔ اور آپؐ نے نہ کبھی مجھے جھوٹی بات کرتے ہوئے پایا اور نہ کبھی کوئی غلط کام کرتے ہوئے دیکھا۔’’

حضرت علی (علیہ السلام) مزید فرماتے ہیں: ‘‘ وَلَقَدْ کُنْتُ أَتْبَعُہُ اِتِّبٰاعَ الْفَصِیْلِ اِثْرَ أُمِّہِ، یَرْفَعُ لِیْ فی کُلِّ یَوْمٍ مِنْ أَخْلٰاقِہِ عِلْمًا وَیَأْمُرُنِیْ بِالْاِقْتِدٰآءِ بِہِ وَلَقَدْ کَانَ یُجٰاوِرُ فِیْ کُلِّ سَنَةٍ بِحِرٰآءِ فَأَرٰاہُ وَلٰا یَرٰاہُ غَیْرِیْ وَلَمْ یَجْمَعْ بَیْتٌ وٰاحِدٌ یَوْمَئِذٍ فی الْاِسْلٰامِ غَیْرَ رَسُوْلِ اللہِ صَلّٰی اللہُ عَلَیْہِ وَآلِہ وَخَدِیْجَةَ وَأَنَا ثٰالِثُھُمٰا ’’ ۲۲ ‘‘میں ہمیشہ آپؐ کے پیچھے پیچھے اس طرح چلتا جیسے اونٹنی کا بچہ اپنی ماں کے پیچھے پیچھے چلتا ہے۔ آپؐ اپنے اچھے اخلاق و اطوار کی ہر روز مجھے تعلیم دیتے اور اس پر عمل کرنے کی تاکید فرماتے۔ آپؐ ہر سال غارِ حِراء میں عبادت کے لئے جاتے، جہاں میرے علاوہ کوئی اور آپؐ کو نہیں دیکھتا تھا۔ اسلام کا پہلا گھرانہ حضرت محمدؐ ، حضرت خدیجہؑ اور مجھ پر مشتمل تھا۔

اعلانِ نبوت اور کفار کے ھتکنڈے

جس وقت آپؐ نے اعلانِ نبوت فرمایا اُس وقت آپؐ کی اخلاقی، معاشرتی، مالی اور سیاسی پشت پناہی اور حمایت کرنے والی دو ہی ہستیاں تھیں، اگر حضرت ابوطالبؑ اور حضرت خدیجہؑ کی ابتدائے تبلیغِ اسلام اور آغازِ رسالتِ عظمیٰ کے موقع پر مکمل سرپرستی حاصل نہ ہوتی، تو مشرکین و کفارِ مکہ، جو کہ انتہائی طاقتور اور مکہ مکرمہ پر مکمل کنٹرول رکھنے والے شمار ہوتے تھے اور تمام جزیرة العرب میں مکہ مکرمہ کے ان مشرکین و کفار کو خاص مقام حاصل تھا،آغازِ کار میں ہی اسلام کی بساط لپیٹ دیتے اور دینِ جدید اپنی ولادت کے ساتھ ہی مر جاتا، لیکن جب تک یہ دونوں ہستیاں زندہ رہیں، کسی کو آنکھ میلی کرنے کی جرأت و ہمت نہ ہوئی، صرف زبانی اذیت و آزار اور طعن و تشنیع کرنے پر اکتفاء کرتے رہے۔

جب مشرکینِ مکہ نے یہ دیکھا کہ آنحضرتؐ کسی صورت تبلیغِ دینِ مبینِ اسلام سے دستبردار ہونے کو تیار نہیں ہیں، تو مشرکینِ مکہ نے ایک گمراہ کن مہم چلانی شروع کردی اور آپؐ کو ( نعوذ باللہ) جادوگر، شاعر اور دیوانہ کہہ کر پکارنے لگے، تاکہ آپؐ کے بارے میں عام تاثر کو غلط ثابت کرسکیں کہ آپؐ اللہ کے بھیجے ہوئے نمائندے اور رسول ہیں، نیز یہ کہ لوگوں کو آپؐ کی باتیں سننے اور دینِ اسلام کی طرف مائل ہونے سے باز رکھیں۔ اس بارے میں خداوند عالم یوں ارشاد فرماتا ہے: ‘‘ وَقَالُوْآ أَسَاطِیْرُ الْأَوَّلِیْنَ اِکْتَتَبَھَا فَھِیَ تُمْلیٰ عَلَیْہِ بُکْرَةً وَّاَصِیْلاً ’’ ۲۳ ‘‘اور یہ لوگ کہتے ہیں کہ یہ تو صرف اگلے لوگوں کے افسانے ہیں جسے انہوں نے لکھوالیا ہے اور وہی صبح و شام ان کے سامنے پڑھے جاتے ہیں۔’’

دوسرے مقام پر قرآنِ کریم مشرکینِ مکہ کی آپؐ سے کینہ اندوزی کو اس طرح بیان کرتا ہے: ‘‘ وَاِنْ یَکَادُ الَّذِیْنَ کَفَرُوا لَیُزْلِقُونَکَ بِأَبْصَارِھِمْ لَمَّا سَمِعُوا الذِّکْرَ وَیَقُولُونَ اِنَّہُ لَمَجْنُون ’’ ۲۴ ‘‘اور یہ کفار قرآن کو سنتے ہیں تو ایسا لگتا ہے کہ عنقریب آپؐ کو نظروں سے پھسلا دیں گے اور یہ کہتے ہیں کہ یہ (محمّد ؐ) تو دیوانہ ہیں۔’’

اُن کی اِس بہتان تراشی اور اذیت رسانی کا جواب آپؐ نے نہایت ہی تحمل مزاجی اور بردباری سے دیا، لیکن خداوند عالم کو مشرکینِ مکہ کی یہ اوچھی حرکتیں اور ناروا سلوک پسند نہ آیا، اس لیے خود اپنے حبیبؐ کا دفاع کرتے ہوئے، ایک طرف تو اپنے حبیبؐ کی دلداری کی خاطر فرمایا: ‘‘ مَا أَنتَ بِنِعْمَةِ رَبِّکَ بِمَجْنُونٍ ’’ ۲۵ ‘‘آپؐ ہرگز اپنے پروردگار کی نعمت کے طفیل دیوانے نہیں ہیں۔’’ اور دوسری جانب خداوند عالم نے مشرکینِ مکہ کو بھی اپنے حبیبؐ کی ان کے ساتھ ہمنشینی اور مصاحبت کا حوالہ دے کر لا جواب کیا: ‘‘وَمَا صَاحِبُکُمْ بِمَجْنُونٍ ’’ ۲۶ ‘‘اور تمہارا یہ ساتھی و ہمنشین ہرگز دیوانہ نہیں ہے۔’’

قرآنِ کریم کے پیغمبرِ اکرم ﷺ کو مشرکینِ مکہ کا ہمنشین کہنے کی وجہ

سوال یہ ہے کہ کیوں قرآنِ کریم نے پیغمبرِ اکرمؐ کو مشرکینِ مکہ کا صاحب و ہمنشین کہا ہے؟ اس میں ایک لطیف نکتہ یہ ہے کہ ہمارا یہ رسولؐ تمام اس عرصے کے دوران جو اس نے تمہارے درمیان گزارا ہے، اگر تم اس کی سیرت و کردار اور حسنِ معاشرت پر غور کرو، تو جان لو گے کہ اس نے تو کبھی لوگوں کے ساتھ بھی جھوٹ نہیں بولا ہے اور نہ ہی کبھی کسی کی طرف جھوٹ کی نسبت دی ہے، بلکہ تم نے ہمیشہ اس سے سچ ہی سنا ہے، پس کس طرح ممکن ہے کہ یہ اپنے خالق و مالک کی طرف جھوٹی نسبت دے؟ اور اپنی بات کو کلامِ خدا کہہ کر پیش کرے؟

خداوند عالم نے سورۂ والنجم میں بھی اسی روش کو استعمال کرتے ہوئے فرمایا ہے: ‘‘وَالنَّجْمِ اِذَا ھَوٰی * مَا ضَلَّ صَاحِبُکُمْ وَمَا غَوٰی’’۲۷ ‘‘قسم ہے ستارے کی جب وہ ٹوٹا، کہ تمہارا یہ رفیق و ہمنشین ہرگز نہ گمراہ ہوا ہے اور نہ ہی بہکا ہے۔’’

ابنِ قیم الجوزیہ اس بارے میں رقمطراز ہے: ‘‘یہاں خداوند عالم نے ‘‘ مَا ضَلَّ مُحَمَّدٌ’’ یا ‘‘ مَا ضَلَّ رَسُوْلُنَا ’’ نہیں فرمایا، بلکہ فرمایا: ‘‘ مَا ضَلَّ صَاحِبُکُم ’’ اور یہ چیز مشرکینِ مکہ کے لیے اتمامِ حجت کی خاطر ہے کہ ہمارا یہ رسولؐ تمہارا ہمنشین اور مصاحب ہے اور اس نے تمہارے ہی درمیان چالیس سال سے بیشتر زندگی گزاری ہے اور تم اس کے اخلاق و کردار اور رفتار و گفتار سے خوب واقف ہو، اس کے باوجود تم نے کبھی جھوٹ یا کسی ناپسندیدہ فعل کا ارتکاب اس سے مشاہدہ نہیں کیا ہے اور یہ تو تمہارے درمیان صادق اور أمین کے لقب سے پکارا جاتا رہا ہے، لہٰذا اب بھی جو کچھ کہتا ہے تمہاری محبت اور دلسوزی میں کہتا ہے۔’’ ۲۸

مشرکینِ مکہ رسولِ خدا ﷺ کو دیوانہ کیوں کہتے تھے

مشرکین اور کفارِ مکہ کے اس بہتان تراشی کی وجہ واضح ہے، کیونکہ عموما ایسے ہی ہوتا ہے جب کوئی نو وارد، مثلاً بت پرستوں کے درمیان چلا جائے اور اُن کو اپنے ہی ہاتھوں سے بنائی ہوئی مورتیوں کے سامنے جھکتا ہوا دیکھے اور اُن سے کہے کہ یہ مورتیاں تمہارے خدا نہیں ہو سکتیں، کیونکہ اِن کو تو تم نے خود اپنے ہی ہاتھوں سے تراشہ ہے، بلکہ تمہارا خدا کوئی اور ہے۔ تو وہ بت پرست اور مورتیوں کے پجاری یقینا اُس شخص کو پاگل اور دیوانہ ہی کہیں گے، اس لیے کہ انہوں نے جب سے ہوش سنبھالا ہے، اپنے بزرگوں کو ایسا ہی کرتے دیکھا ہے اور ان کے بزرگوں نے انہیں بھی اِسی دین کی تعلیم اور طور طریقے سکھائے ہیں۔ لہٰذا اِن آباء و اجداد کے دین کے پیروکاروں کو اگر کوئی آکر الٰہی دین بتانے لگ جائے، تو وہ اُسے اپنا اور اپنے آباء و اجداد کے دین کا دشمن ہی سمجھیں گے اوراُسے پاگل اور دیوانے کے القابات سے نوازیں گے۔

لیکن جب پیغمبر خداؐ نے ان کے ہر حربے کے مقابلے میں استقامت اور ثابت قدمی کا مظاہرہ کیا اور مسلسل ان کے لیے قرآنِ کریم کی آیات تلاوت فرماتے رہے، تو ان میں سے بہت سے لوگ، جو معاشرے کے مستضعف اور محروم طبقات سے تعلق رکھتے تھے، ان آیات سے متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکے، کیونکہ کلام الٰہی کی خصوصیت ہی یہ ہے کہ ہر ایک پر اُس کا اثر ضرور ہوتا ہے اور وہ لوگ تو تھے ہی ایسے ماحول کے پروردہ، جن کا بیشتر سروکارسخنوری اور شاعری سے تھا، جو ہزاروں اشعار فی البدیہہ کہنے کی صلاحیت رکھتے تھے اور تمام اہل عرب میں مکہ والے اور قریش، فصاحت و بلاغت میں اپنا علیحدہ ہی مقام رکھتے تھے۔

اس لیے مکہ کے بت پرست اور مشرک سردار اِسی طرح کی بہتان تراشیاں کرکے خود بھی ایمان لانے سے کتراتے تھے اور دوسروں کو بھی ایمان لانے سے باز رکھتے تھے، کیونکہ اُن کے ایمان لانے کی صورت میں انہیں اپنی ریاست اور سرداری جانے کا خطرہ در پیش تھااور دوسری جانب کبر و نخوت کے جو تاج انہوں نے اپنے سروں پر سجائے ہوئے تھے، ان کا نفس انہیں اپنے ہی غلاموں اور اپنے سے کم حیثیت افراد کے ساتھ بیٹھنے کی اجازت نہیں دیتا تھا۔

لہٰذا اِس موقع پر خدا وند عالم نے اپنے رسولؐ کا دفاع کرتے ہوئے فرمایا کہ یہ باتیں جو ہمارا حبیب کررہا ہے، یہ دیوانوں اور پاگلوں والی باتیں نہیں ہیں، بلکہ یہ عینِ رسالتِ الٰہی ہے اور جو کلام اِس کی زبان سے ادا ہورہا ہے، وہ بھی کلامِ خدا ہے، جو اِس نے اُفق مبین سے لیا ہے، پس یہ شیطان کا قول نہیں اور نہ ہی کسی پاگل و دیوانے کا کلام ہے۔ ۲۹

رسول اکرم ﷺ کا زندگی گزارنے کا طور طریقہ

پیغمبر اکرمؐ معاشرے کے کمزور اور نادار افراد کے ساتھ زندگی گزارنے میں کسی قسم کا کوئی عار محسوس نہیں کرتے تھے۔ آپؐ کمزور اور محروم لوگوں کے ساتھ عزت و تکریم سے پیش آتے اور ان کی دلجوئی اور حوصلہ افزائی فرماتے تھے۔ آپؐ کے اعلان نبوت فرمانے کے بعد، قریش والوں نے مکہ کے غریب اور نادار لوگوں اور تازہ مسلمانوں کو آپؐ کے قریب آنے سے منع کیا، کیونکہ وہ خود ان محروم افراد کے ساتھ بیٹھنا پسند نہیں کرتے تھے۔ اس لیے انہوں نے آپؐ کو بھی دھمکی دی کہ اگر آپؐ نے ان لوگوں کے ساتھ اُٹھنا بیٹھنا ترک نہ کیا تو ہم آپؐ کے ساتھ نہیں بیٹھیں گے۔

اس وقت خدا وند عالم نے یہ آیت نازل فرما کر آپؐ کی راہ و روش کی تائید فرمائی : ‘‘ وَاصْبِرْ نَفْسَکَ مَعَ الَّذِیْنَ یَدْعُوْنَ رَبَّھُمْ بِالْغَدٰاةِ وَالْعَشِیِّ یُرِیْدُوْنَ وَجْھَہُ وَلٰا تَعْدُ عَیْنٰاکَ عَنْھُمْ تُرِیْدُ زِیْنَةَ الْحَیٰاةِ الدُّنْیَا وَلٰا تُطِعْ مَنْ أَغْفَلْنَا قَلْبَہُ عَنْ ذِکْرِنَا وَاتَّبَعَ ھَوٰاہ وَکَانَ أَمْرُہُ فُرُطاً ’’ ۳۰ ‘‘ اور آپؐ اپنے نفس کو ان لوگوں کے ساتھ صبر پر آمادہ کریں جو صبح و شام اپنے پروردگار کو پکارتے ہیں اور اسی کی خوشنودی کے طلب گار ہیں اور خبردار آپؐ کی نظریں ان کی طرف سے نہ پھر جائیں کہ آپؐ دُنیوی زندگی کی زینت کے طلب گار بن جائیں اور ہرگز آپؐ اس کی اطاعت نہ کریں جس کے دل کو ہم نے اپنی یاد سے غافل کردیا ہے اور وہ اپنی خواہشات کا پیرو کار ہے اور اس کا کام سراسر زیادتی کرنا ہے۔’’

(جاری ہے ۔۔۔)

(وَالسَّلاٰمُ عَلٰی مَنِ اتَّبَعَ الْھُدٰی)

حوالہ جات

۱۔ بحار الانوار، علامہ محمد باقر مجلسی ، ج ٥، ص ١٩٨

۲۔ سورۂ احزاب : آیت ٢١

۳۔ مجلّہ تراثنا، موسّسہ آل بیتؑ، ج۳۷، ص۲۳

۴۔ سورۂ صف : آیت ٢-٣

۵۔ نہج البلاغہ ، کلمات حکمت، حکمت نمبر ١٧٨

۶۔ بحار الانوار، علامہ مجلسی ؒ، ج٨٠، ص٣٦٩

۷۔ سورۂ توبہ : آیت١٢٨

۸۔ الگوی برتر-شیوہ مبارزہ پیامبر اکرمؐ با مفاسد اجتماعی- محمد رضا تویسرکانی، انتشارات آرام دل، تہران، چاپ اول، ص١٣٥

۹۔ سورۂ طٰہ : آیت ٢٥ – ٢٨

۱۰۔ سورۂ انشراح : آیت ١ – ٢

۱۱۔ سورۂ قلم : آیت ٤

۱۲۔ سورۂ آل عمران : آیت١٥٩

۱۳۔ سورۂ آل عمران : آیت ١٦٤

۱۴۔ شیخ البطحاء ابوطالبؑ، الحاج حسین شاکری، ص۱۱۱

۱۵۔ ابوطالبؑ حامی الرسولؐ وناصرہ، نجم الدین العسکری، ص۵۴

۱۶۔ سورۂ انبیاء : آیت ١٠٧

۱۷۔ مستدرک الوسائل، میرزا نوری، ج١١، ص١٨٧

۱۸۔ سورۂ فرقان : آیت 7

۱۹۔ فروغ ابدیت ، جعفر سبحانی ، ج١، ص ٣١۵-٣١۶

۲۰۔ الگوی برتر ، محمد رضا تویسرکانی ، ص١٣١

۲۱۔ فروغ ابدیت ، جعفر سبحانی ، ج١، ص ١٩٢

۲۲۔ نہج البلاغہ ، خطبہ ١٩٢

۲۳۔ سورۂ فرقان : آیت ٥

۲۴۔ سورۂ قلم : آیت ٥١

۲۵۔ سورۂ قلم : آیت ٥١

۲۶۔ سوررۂ تکویر : آیت ٢٢

۲۷۔ سورۂ والنجم : آیت ١ – ٢

۲۸۔ ابن قیم الجوزیہ، اَلتِّبْیَانُ فَی أَقْسَامِ الْقُرْآنِ، ص١٥٣

۲۹۔ رجوع کریں: سوررۂ تکویر : آیت ٢٢-٢٦

۳۰۔ سورۂ کہف : آیت ٢٨

 

 

[*] (ایم اے علوم قرآنی و حدیث از دانشگاہ علوم اسلامی رضوی، مشہد مقدّس)

+ نوشته شده در Thu 1 Dec 2011ساعت 11:8 PM توسط سید عقیل حیدر زیدی | نظر بدهید
شخصیت و قیامِ حضرت مختارؒ
بسمہ تعالی

شخصیت و قیامِ حضرت مختارؒ

مقالہ نگار: سید عقیل حیدر زیدی

جناب مختارِ ثقفی جلیل القدر صحابی رسول خدا ؐ حضرت ابوعبید ثقفی ؒ کے بیٹے تھے، وہ ہجرت کے پہلے سال (بمطابق ٦٢٢ عیسوی) شہر ِطائف میں پیدا ہوئے، اُن کی کنیت ‘‘ابو اسحاق’’ اور مشہور لقب ‘‘کیِّس و کیسا ن’’ یعنی زیرک و تیز ہوش ہے، یہ لقب ‘‘کیِس’’ حضرت امیرالمومنینؑ نے جناب مختارؒ کو عطا کیا تھا۔

حضرت مختارؒ کا جذبہ عقیدت اور اُن کے متعلق آئمہ طاہرینؑ کی احادیث اور اقوال دیکھنے سے یہ امر روز ِروشن کی طرح واضح ہوجاتا ہے کہ جنابِ مختارؒ حضراتِ آلِ محمدؑ سے بہت زیادہ محبت اور الفت رکھتے تھے اور اہل بیت ؑسے ان کا جذبۂ عقیدت درجہ کمال پر پہنچا ہوا تھا، وہ اہل بیت ؑ کی محبت میں ہمہ وقت سرشار رہا کرتے تھے اور ان کی گفتار میں محبت کی بواور ان کے افعال میں اہل بیت پیغمبرؐ کی تأسی کی خُو نمایاں ہوتی تھی۔ وہ کہتے تھے: ‘‘ہمارا دین اور عقیدہ اجازت نہیں دیتا کہ ہم کھائیں پیئں جبکہ سید الشہداء امام حسینؑ کے قاتل زندہ ہوں۔’’ نیز یہ بھی کہتے تھے: ‘‘خدا کی قسم! اگر سہ چہارم (٤/٣) قریش (یعنی بنی اُمیہ) بھی قتل کر دیئے جائیں تو سید الشہداء ؑ کی انگشت مبارک کے ایک پورے کے برابر نہیں ہو سکتا۔’’

اُن کی زندگی کے مختلف ادوار پر نظر ڈالنے سے یہ بات عیاں ہو جاتی ہے کہ اُنہوں نے کسی بھی وقت آل محمد ؑ کے خلاف کوئی نظریہ قائم نہ کیا اور وہ عقیدہ و مذہب کے لحاظ سے کامل شیعہ تھے، یہی وجہ ہے کہ کسی شیعہ عالم کو ان کی شیعیت میں کبھی کوئی شک و شبہ نہیں رہا۔ تواریخ میں ہے کہ حضرتِ مختارؒ آلِ محمد ؑ سے کمالِ عقیدت کی وجہ سے واقعہ کربلا کا بدلہ لینے کے لیے سر سے کفن باندھ کر اٹھے اور خدا کے فضل سے اس مقصد میں پورے طور پر کامیاب ہوئے۔

علامہ محمد ابراہیم لکھنویؒ لکھتے ہیں کہ حضرتِ مختارؒ کمالِ جذبۂ عقیدت کے ساتھ اٹھے اور ایک بادشاہ پُرشکوہ کی شان سے دشمنوں کے قلع و قمع کرنے کی طرف متوجہ ہوکر اس درجہ پر فائز ہوگئے جس پر عرب و عجم میں سے کوئی فائز نہیں ہوا۔ جنابِ مختارؒ کے جذبۂ عقیدت اور حسن عقیدہ پر ایک عظیم شاہد بھی ہے اور وہ حضرتِ ابراہیم ابن مالک اشتر ؒ کی ذات ستودہ صفات کی کارِ مختار میں شرکت ہے جن کی آل محمد ؑ سے عقیدت اور مذہب شیعہ میں پختگی مہر نیمر وز سے بھی زیادہ روشن ہے۔ ١ علامہ حافظ عطا ء الدین حسام الواعظ رقمطراز ہیں: معلوم ہونا چاہیے کہ حضرتِ مختارؒ اہلِ بیتِ پیغمبر ؑ کے مخلصوں میں سے ایک اہم مخلص تھے۔ ٢

علامہ مجلسیؒ لکھتے ہیں کہ جب حضرتِ مختارؒ جنابِ ابرہیم بن مالک اشترؒ کو عبیداللہ بن زیاد کے قتل کی خاطر موصل روانہ کرنے لگے تو حضرتِ مختارؒ ان کو رخصت کرنے کے لیے کافی دور تک ان کے ہمراہ پیدل گئے۔ جنابِ ابراہیم نے راستے میں حضرتِ مختارؒ سے کہا: آپ میرے ساتھ کیوں پیدل چل رہے ہیں بہتر ہے کہ آپ سوار ہو جائیں۔ تو حضرتِ مختارؒ نے جواب میں کہا کہ میں آپ کے ساتھ اس لیے پیدل چل رہا ہوں تاکہ مجھے زیادہ ثواب مل سکے اور میں یہ چاہتا ہوں کہ میرے قدم نصرت آل محمد ؑ میں گرد آلود ہوں۔ ٣ جب امام زین العابدینؑ کی خدمت میں جنابِ مختارؒ نے ابنِ زیاد اور عمر سعد کے سر بھیجے تو آپؑ نے سجدہ شکر ادا کیا اور فرمایا خدا کا لاکھ لاکھ شکر ہے کہ اس نے ہمارے دشمنوں سے بدلا لیااور خداوندعالم اس عمل کی مختار بن ابی عبیدہ ثقفیؒ کو جزائے خیر دے۔ ٤

حضرت امام محمد باقر ؑ ارشاد فرماتے ہیں کہ کسی زنِ ہاشمیہ نے اُس وقت تک اپنے بالوں میں کنگھی نہیں کی اور نہ ہی خضاب لگایا ہے جب تک مختارؒ نے امام حسین ؑ کے قاتلوں کے سر نہیں بھیجے۔ ٥

دشمن کے پروپیگنڈے کی زد میں

واضح رہے کہ رجال کشی اور بعض دیگر کتابوں میں ایسی روایات بھی مندرج ہوگئی ہیں جن سے حضرت ِمختارؒ کی مخالفت ظاہر ہوتی ہے، یہ روایات ضعیف اور غیر قابلِ اعتبار ہیں۔ علامہ دربندی فرماتے ہیں کہ ایسی روایات یا توتقیہ پر محمول ہیں یا ضعیف راویوں کی وجہ سے ناقابلِ قبول ہیں، اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ ایسی چیزیں عامہ کے پروپیگنڈے سے اختراع ہوگئی ہیں اور یہ ہرگز قابلِ تسلیم نہیں ہیں۔ ٦

قاضی سید نوراللہ شوشتریؒ تحریر فرماتے ہیں کہ لوگوں کے پروپیگنڈے سے متاثر ہوکر بعض لوگ حضرتِ مختارؒ کی مذمّت کرنے لگے تو چونکہ وہ زمانہ حضرت امام محمد باقر ؑ کا تھا جب آپؑ کو اس واقعہ کی اطلاع ملی تو آپؑ نے اس سے منع فرمایا اور کہا کہ ایسا مت کرو کیونکہ مختارؒ نے ہمارے قاتلوں کو قتل کیا ہے ہمارے شیعوں کی بیواؤں کی تزویج کرائی ہے اور بیت المال سے جوان کے دست تصرف میں تھا کافی مال بھیج کر امداد کی ہے۔ ٧

علامہ محمد ابراہیم لکھنویؒ تحریر کرتے ہیں کہ حضرتِ مختارؒ کے بارے میں ایسی عبارات اور روایات دشمنانِ آل محمد ؑ کی وجہ سے شہرت پاگئی ہیں۔ جنابِ مختارؒ کا زمانہ، بنی اُمیہ کے بادشاہوں کا عہدِ حکومت تھا جو محمد وآل محمدؑ کے شیعوں کے لیے انتہائی کٹھن دور تھا، حضرتِ مختارؒ نے چونکہ بے شمار بنی اُمیہ اور ان کے حواریوں کو قتل کیا تھا اس لیے بنی اُمیہ کے ہواخواہوں نے ان کے خلاف ایسی چیزیں مشہور کردیں جو ان کے وثاقت اور ان کے وقار کو پامال کردیں اور ان سے یہ چیزیں بعید نہ تھیں کیونکہ ان لوگوں نے ایسی حرکتیں امیرالمومنینؑ جیسی شخصیت کے خلاف بھی کی ہیں ۔۔۔ اور وہ روایات جو امامؑ تک صحیح راستوں سے منتہی ہوتی ہیں، وہ قطعی طور پر تقیہ پر محمول ہیں کیونکہ بنی اُمیہ سے ان حضرات ؑ کے خطرات ظاہر ہیں ۔۔۔۔ ٨

 

شہادت و آرامگاہِ مختار ؒ

حضرت مختارؒ ١٤ رمضان المبارک ٦٧ ہجری قمری کو مصعب بن زبیر کے ہاتھوں درجہ شہادت پر فائز ہوئے، بڑے عرصہ تک اُن کی قبر مخفی رہنے کے بعد سید مہدی بحر العلومؒ کی تلاش و تحقیقات کے نتیجے میں دریافت ہوئی اور اس وقت حضرت مختارؒ کی قبر مسجد ِکوفہ کے مشرقی حصہ میں روضۂ حضرت مسلم بن عقیلؑ کے جنوب میں واقع ہے۔

١۔ نورالابصار، ص١٢

٢۔ رو ضۃ المجاہدین، ص٣

٣۔ جلاء العیون، علامہ مجلسیؒ، ص٢٤٤؛ بحارالانوار، علامہ مجلسیؒ، ج١٠،ص٣٩٦

٤۔ رجال کشی، علامہ محمد بن عبدالعزیز الکشی، ص٨٥

٥۔ ایضاً، ص٨٤

٦۔ اسرار الشہادت، ص٥٦٨

٧۔ مجالس المومنین، قاضی نور اللہ شوشتریؒ، ص٣٥٦

٨۔ نورالابصار، ص٧

+ نوشته شده در Fri 7 Oct 2011ساعت 3:22 PM توسط سید عقیل حیدر زیدی | نظر بدهید
سیرت حضرت فاطمہ بنت اسد(سلام اللہ علیھا)
بسمہ تعالی

سیرت حضرت فاطمہ بنت اسد(سلام اللہ علیھا)

مقالہ نگار: سید عقیل حیدر زیدی

اگرچہ ہر انسان کا حسب و نسب اس کے باپ سے چلتا ہے لیکن کسی بھی کامل، شائستہ، بہترین اور فرشتہ صفت انسان کی شخصیت سازی میں، اُس کی ماں کی تربیت اور کردار ہی ہوتا ہے جو اُس کو اعلی ترین منازل تک پہنچانے میں موثّر ہوتا ہے، تاریخ کی ایک ایسی ہی عظیم المرتبت ماں، جس کی آغوشِ مبارک سے ایک نہیں، بلکہ دو عظیم شخصیتوں نے پروان چڑھ کر اپنی ماں کی طہارت و پاکیزگی اور اس کے ایمان و ایقان کا اعلان کیا، حضرت فاطمہ بنت اسد ؑ ہیں جنہوں نے تاریخِ انسانیت کی عظیم ترین ہستی اور فخرِ موجودات حضرت محمد مصطفیؐ اور اُن کے بعد افضل ترین موجودِ عالم، مولائے کائنات علی بن ابیطالب ؑ جیسی بے نظیر ہستیوں کو پروان چڑھایا۔

جب آنحضرت ؐ جناب ابو طالبؑ کی کفالت میں آئے تو انہی کی آغوش پیغمبر اکرمؐ جیسے ہادیِ اکبر اور راہنمائے اعظم کے لیے گہوارہ اور تربیت گاہ بنی اور انہوں نے اس دلسوزی سے آپؐ کی دیکھ بھال کی کہ آپؐ کو یتیمی اور ماں کی کمی کا احساس نہ ہونے دیااوررسول خدا ؐ بھی انہیں ماں سمجھتے، ماں کہہ کر پکارتے اور ماں ہی کی طرح اُن کی عزت و احترام کرتے تھے۔

آنحضرتؐ نے ان کی شفقت و محبت کا اعتراف کرتے ہوئے فرمایا: ‘‘ابو طالبؑ کے بعد ان (فاطمہ بنت اسدؑ) سے زیادہ کوئی مجھ پر شفیق اور مہربان نہ تھا۔’’ ١

واضح رہے کہ آپ کے بطن مبارک سے ابوطالبؑ کی سات اولادیں ہوئیں۔ جن میں تین صاحبزادیاں تھیں: ریطہ ، جمانہ اور فاختہ جو ‘‘ام ہانی’’ کی کنیت سے معروف ہیں اور چار صاحبزادے تھے: طالب، عقیل، جعفر اور علی ؑ ۔ طالب، جنابِ عقیل سے دس سال بڑے، عقیل، جنابِ جعفر سے دس سال بڑے اور جعفر، مولائے کائنات علیؑ سے دس سال بڑے تھے۔

جناب فاطمہ بنت اسد ؑ اپنے آباء و أجداد کی طرح مسلکِ ابراہیمی کی پابند، دینِ حنیف کی پیرو اور کفر و شرک کی آلائشوں سے پاک و صاف تھیں۔ چنانچہ آنحضرتؐ نے حضرت علیؑ سے اپنے صلبی اشتراک کے سلسلے میں فرمایا:

‘‘خدائے بزرگ و برتر نے ہمیں حضرت آدمؑ کی صُلب سے پاکیزہ صلبوں اور پاکیزہ رحموں کی طرف منتقل کیا۔ جس صُلب سے میں منتقل ہوا، اس صُلب سے ایک ساتھ علیؑ منتقل ہوئے، یہاں تک کہ خداوندِ عالم نے مجھے آمنہؑ کے شکم ِاطہر میں اور علیؑ کو فاطمہ بنت اسدؑ کے پاکیزہ شکم میں ودیعت فرمایا۔’’ ٢

بعض شیعہ سیرہ نویسوں نے حضرت علیؑ کی ولادت کے واقعے کو کچھ اس طرح لکھا ہے :

جب جناب فاطمہ بنت اسد ؑ پر وضعِ حمل کے آثار ظاہر ہوئے تو وہ خانہ کعبہ کے قریب تشریف لے گئیں اور خدا وند عالم سے دعا کی کہ خدا یا! میری اس مشکل کو آسان فرما دے ۔ ابھی دعا میں مشغول ہی تھیں کہ خانہ کعبہ کی دیوار پھٹی اورجناب فاطمہ بنت اسد ؑ اندر داخل ہوگئیں اوروہیں پر حضرت علیؑ کی ولادت واقع ہوئی۔

یزید بن قعنب سے روایت ہے : میں عباس بن عبد المطلب اور ایک جماعت کے ساتھ مسجد الحرام میں خانہ کعبہ کی طرف رخ کئے بیٹھا تھا کہ فاطمہ بنت اسد ؑ آئیں اور طوافِ خانہ کعبہ میں مشغول ہو گئیں، طواف کے دوران اُن پر وضع حمل کے آثار ظاہر ہوئے تو خانہ کعبہ کے قریب آکر کہنے لگیں:

‘‘خدایا! میں تجھ پر اور تیری طرف سے آنے والے تمام پیغمبروں اور کتابوں پر ایمان رکھتی ہوں اور اپنے جدّ ابراہیم خلیل ؑ کی تصدیق کرتی ہوں اور یہ کہ انھوں نے اس بیتِ عتیق ‘‘خانہ کعبہ’’ کو بنایا، پس اُس کا واسطہ جس نے اس گھر کی تعمیر کی اور اس مولودِ مبارک کا واسطہ جو میرے بطن میں ہے کہ اس کی ولادت مجھ پر آسان فرما دے۔’’

جب فاطمہ بنت اسد ؑ علی ؑ کو لے کر خانہ کعبہ سے باہر آنے لگیں تو ہاتف غیبی کی ندا آئی:

‘‘اے فاطمہؑ! اس بچے کا نام ‘‘علی’’ رکھو،اس لیے کہ یہ علی و سربلند ہے اورخداوند جو علیُّ الاعلیٰ ہے فرماتا ہے: میں نے اس بچے کا نام اپنے نام سے مشتق کیا ہے ۔۔۔’’ ٣

راوی کہتا ہے: ہم لوگوں نے دیکھا کہ اچانک خانہ کعبہ کی پشت کی دیوار شق ہوئی اور فاطمہ بنت اسد ؑ کعبہ کے اندر داخل ہو گئیں ۔ پھر دیوارکعبہ آپس میں مل گئی ۔ہم لوگوں نے بڑی کوشش کی کہ خانہ کعبہ کا تالا کھول کر اندرداخل ہوجائیں، لیکن تالا نہ کھلا ۔ تالا نہ کھلنے کی وجہ سے ہم لوگوں پر یہ بات ظاہر ہوگئی کہ یہ خدا وند عالم کا معجزہ ہے اس کے علاوہ کچھ نہیں۔ جناب فاطمہ بنت اسد ؑ چوتھے روز علیؑ کو آغوش میں لیے ہوئے برآمد ہوئیں ۔ ٤

اور جب انہوں نے دارِ دنیا سے رحلت فرمائی تو آنحضرتؐ نے آبدیدہ ہو کر فرمایا: ‘‘خدا کی قسم! وہ میری ماں تھیں اور پھر اپنی پیراہن انہیں بطورِ کفن پہنانے کے لیے دی اور جب قبر کھودی جا چکی تو آپؐ خود قبر میں اُترے اور کچھ دیر کے لئے لحد میں لیٹ گئے اور روتے ہوئے فرمایا:

‘‘اے مادرِ گرامی! خدا آپ کو جزائے خیر دے آپ بہترین ماں تھیں۔’’ ٥

 

١۔ الاستیعاب، ج٢، ص٧٧٤

٢۔ کفایۃ الطالب، ص٢٦

٣۔ امالی، شیخ صدوق ؒ، ص١٩٤۔١٩٥

٤۔ ایضاً

٥۔ تاریخ خمیس، ج٢، ص٥٢٦

+ نوشته شده در Fri 7 Oct 2011ساعت 3:20 PM توسط سید عقیل حیدر زیدی | نظر بدهید
سیرت امام حسن مجتبیٰ (علیہ السلام)
بسمہ تعالی

سیرت امام حسن مجتبیٰ (علیہ السلام)

مقالہ نگار: سید عقیل حیدر زیدی

امام حسن مجتبیٰؑ ١٥ رمضان المبارک ٣ ھجری کی شبِ مبارک، مدینہ منورہ میں پیداہوئے، آپؑ کی ولادت سے قبل جناب اُم فضل نے خواب میں دیکھا کہ رسول اکرمؐ کے جسمِ مبارک کا ایک ٹکڑا میرے گھر میں آیا ہے۔ انہوں نے اپنا خواب رسول خداؐ سے بیان کیا تو آنحضرتؐ نے خواب کی تعبیر یہ بتائی کہ میری لختِ جگر ‘‘فاطمہ ؑ ’’ کے بطن سے عنقریب ایک بچہ پیدا ہو گا جس کی پرورش تم کرو گی۔ مورّخین کا کہنا ہے کہ رسولؐ کے گھر میں آپؑ کی ولادت اپنی نوعیت کی پہلی خوشی تھی جس نے رسول اکرمؐ کے دامن سے مقطوع النسل ہونے کا دھبہ صاف کر دیا اور دنیا کے سامنے سورۂ کوثر کی عملی تفسیر پیش کی۔

جب اس مولودِ سعید کا نام مبارک تجویز ہو رہا تھا تو سرورِ کائنات نے بحکمِ خدا، حضرت موسیٰؑ کے وزیر، حضرت ہارون ؑ کے دو بیٹوں، شبّر و شبّیر کے نام پر آپؑ کا نام ‘‘حسن’’ اوربعدمیں آپؑ کے چھوٹے بھائی کا نام ‘‘حسین’’ رکھا۔ بحارالانوارکے مطابق امام حسنؑ کی ولادت کے بعدجبرئیل أمین ؑ نے سرور کائناتؐ کی خدمت میں ایک سفیدریشمی رومال پیش کیا جس پر ‘‘حسن’’ لکھا ہوا تھا۔ ماہرِ علم الانساب علامہ ابوالحسین کا کہنا ہے کہ خداوند عالم نے حضرت فاطمہ ؑ کے دونوں شہزادوں کے نام أنظارِ عالم سے پوشیدہ رکھے، یعنی اس سے پہلے حسن و حسین نام سے کوئی موسوم نہیں ہوا تھا۔

علل الشرائع میں ہے کہ جب امام حسن ؑ کو ولادت کے بعد سرور کائناتؐ کی خدمت میں لایا گیا تورسول خداؐ بے انتہاء خوش ہوئے اوراُن کے دہنِ مبارک میں اپنی زبانِ رسالت دیدی اور بحارالانور میں ہے کہ آنحضرتؐ نے نومولود بچے کوآغوش میں لے کر پیار کیا اور داہنے کان میں اذان اور بائیں کان میں اقامت دینے کے بعد اپنی زبان اُن کے منہ میں دیدی اور امام حسنؑ اسے چوسنے لگے اس کے بعد آپؐ نے دعافرمائی: ‘‘خدایا! اس کو اور اس کی اولاد کو اپنی پناہ میں رکھ۔’’ بعض کا کہنا ہے کہ امام حسنؑ کو امام حسینؑ کی نسبت رسول اکرمؐ کا لعابِ دہن کم چوسنے کاموقع ملا اسی لیے امامت امام حسین ؑ کی نسل میں مستقر ہوگئی۔

آپؑ کی ولادت کے ساتویں روز سرور کائناتؐ نے اپنے دستِ مبارک سے آپؑ کا عقیقہ فرمایا اور بالوں کو منڈوا کر ان کے ہم وزن چاندی تصدّق کی۔ ١ امام شافعی کا کہنا ہے کہ آنحضرتؐ نے امام حسنؑ کا عقیقہ کرکے اس کے سنّت ہونے کی دائمی بنیاد ڈال دی۔ ٢

آپؑ کی کنیت ‘‘ابومحمد’’ اور آپؑ کے بہت سے القاب ہیں: جن میں طیب، تقی، سبط اورسید زیادہ مشہور ہیں۔ محمدبن طلحہ شافعی کے مطابق آپؑ کا لقب ‘‘سید’’ خود سرور کائناتؐ کا عطا کردہ ہے۔ ٣

پیغمبر اکرمؐ کے نزدیک مقام و منزلت

ایک دن سرور کائناتؐ امام حسنؑ کو کاندھے پر سوار کئے، سیر کرا رہے تھے، ایک صحابی نے کہا: اے صاحبزادے تمہاری سواری کس قدر اچھی ہے! یہ سن کر آنحضرتؐ نے فرمایا: ‘‘یہ کہو کہ کس قدر اچھا سوار ہے۔’’ ٤ ایک صحابی کا بیان ہے کہ میں اس دن سے امام حسنؑ کوبہت زیادہ دوست رکھنے لگا ہوں جس دن سے میں نے رسول خداؐ کی آغوش مبارک میں بیٹھ کر انہیں آپؐ کی داڑھی سے کھیلتے دیکھا ہے۔ ٥

امام نسائی عبداللہ ابن شدّاد سے روایت کرتے ہیں کہ ایک دن نمازِ عشاء پڑھانے کے لیے آنحضرتؐ تشریف لائے تو آپؐ کی آغوش میں امام حسنؑ تھے آنحضرتؐ نماز میں مشغول ہو گئے، جب آپؐ سجدہ میں گئے تواتنا طول دیا کہ میں یہ سمجھنے لگا کہ شاید آپؐ پر وحی نازل ہونے لگی ہے۔ نماز ختم ہونے پر آپؐ سے اس کا ذکر کیا تو فرمایا کہ میرا فرزند میری پشت پر آگیا تھا میں نے یہ نہ چاہا کہ اسے اس وقت تک پشت سے اُتاروں، جب تک کہ وہ خود نہ اُتر جائے، اس لیے سجدہ کو طول دینا پڑا۔ حکیم ترمذی، نسائی اور ابو داؤد نے لکھا ہے کہ آنحضرتؐ ایک دن محوِ خطبہ تھے کہ حسنینؑ آگئے اور حسنؑ کے پاؤں دامنِ عباء میں اس طرح اُلجھے کہ زمین پر گر پڑے، یہ دیکھ کر آنحضرتؐ نے خطبہ ترک کر دیا اور منبر سے اُتر کر انہیں آغوش میں اُٹھالیا اور پھر منبر پر تشریف لے گئے اور دوبارہ خطبہ ارشاد فرمایا۔ ٦

رسولِ خداؐ نے فرمایا: ‘‘حسنؑ اورحسینؑ جوانانِ جنت کے سردار ہیں اوران کے والدِ بزرگوار، یعنی علی بن ابی طالبؑ ان دونوں سے بہترہیں۔’’

آپؑ کا علمی مقام

یہ ایک مسلّمہ حقیقت ہے کہ آئمہ معصومینؑ علم لدنی کے مالک ہیں اس لیے وہ کسی سے تحصیل علم کے محتاج نہیں ہوتے، یہی وجہ ہے کہ وہ بچپن میں ہی ایسے مسائلِ علمیہ سے واقف ہوتے ہیں جن سے عام لوگ حتّی کہ دانشمند حضرات بھی آگاہ نہیں ہوتے۔ امام حسنؑ نے بھی بچپن میں لا تعداد ایسے عملی مسائل کے جوابات دیئے کہ جن سے بڑے بڑے اہلِ علم عاجز تھے۔ ہم یہاں فقط ایک سوال کا جواب ہی پیش کر سکتے ہیں: آپؑ سے پوچھا گیا: وہ دس چیزیں کونسی ہیں جن میں سے ہر ایک کو خداوند عالم نے دوسرے سے سخت پیدا کیاہے؟آپؑ نے جواب میں فرمایا: ‘‘خدا نے سب سے زیادہ سخت پتھر کو پیدا کیا ہے مگر اس سے زیادہ سخت لوہا ہے جوپتھر کو بھی کاٹ دیتا ہے اور اس سے بھی زیادہ سخت آگ ہے جو لوہے کو پگھلا دیتی ہے اور آگ سے زیادہ سخت پانی ہے جو آگ کو بجھا دیتا ہے اور اس سے زیادہ سخت اور قوی ابر ہے جو پانی کو اپنے کندھوں پر اٹھائے پھرتا ہے اور اس سے زیادہ طاقتور ہوا ہے جو ابر کو اڑائے پھرتی ہے اور ہوا سے سخت تر وقوی فرشتہ ہے جس کی ہوا محکوم ہے اوراس سے زیادہ سخت و قوی ملک الموت ہے جو فرشتۂ باد کی بھی روح قبض کرلے گا اور موت سے زیادہ قوی حکمِ خداہے جو موت کو بھی ٹال دیتا ہے۔’’

 

١۔ اسدالغابۃ، ج٣، ص ١٣

٢۔ مطالب السؤل، ص ٢٢٠

٣۔ ایضاً، ص٢٢١

٤۔ اسدالغابۃ، ج٣، ص١٥

٥۔ نورالابصار،ص ١١٩

٦۔ مطالب السؤل، ص ٢٢٣

+ نوشته شده در Fri 7 Oct 2011ساعت 3:18 PM توسط سید عقیل حیدر زیدی | نظر بدهید
خصائص امیر مومنین(علیہ السلام)
بسمہ تعالی

خصائص امیر مومنین(علیہ السلام)

مقالہ نگار: سید عقیل حیدر زیدی

نام ،لقب اور کنیت

حضرت امیر المومنینؑ کے والد، حضرت ابو طالبؑ نے اپنے جد ’’قصی بن کلاب’’ کے نام پر آپ کا نام ‘‘زید’’ رکھا اور جناب فاطمہ بنت اسدؑ نے انپے والدِ بزرگوار کے نام پر ‘‘حیدرؑ’’ نام تجویز کیا، کیونکہ اسد اور حیدر دونوں کا معنی ‘‘شیر’’ ہے۔ چنانچہ آپؑ نے جنگِ خیبر میں مرحب کے رَجز کے جواب میں فرمایا: ‘‘میں وہ ہوں کہ میری ماں نے میرا نام ‘‘حیدر’’ رکھا۔’’

آپؑ کے القاب آپؑ کے گوناگوں اوصاف کے لحاظ سے متعدد ہیں، جن میں سے مرتضیٰ، وصی اور امیرالمومنین زیادہ مشہور و معروف ہیں۔

جبکہ مشہور و معروف کنیت ‘‘ابو الحسن’’ اور ‘‘ابو تراب’’ ہے۔ پہلی کنیت آپؑ کے بڑے بیٹے حسنؑ کے نام پر ہے اور دوسری کنیت رسول اللہؐ نے تجویز فرمائی تھی۔ چنانچہ سیرت ابنِ ہشام میں ہے کہ غزوہ عشیرہ کے موقع پر حضرت علیؑ اور عمار یاسر، بنی مدلج کے ایک چشمہ کی طرف نکل گئے اور درختوں کے سایہ میں ایک نرم و ہموار زمین پر لیٹ گئے۔ ابھی لیٹے زیادہ دیر نہ گزری تھی کہ رسول اکرمؐ بھی ادھر آ گئے اور علیؑ کا بدن خاک میں اَٹا ہوا دیکھ کر فرمایا:

‘‘اے ابو تراب! یہ کیا حالت بنا رکھی ہے؟’’

باوجود اس کے کہ علی بن ابیطالبؑ کے دشمن ان سے حسادت کی وجہ سے اور ان کے دوست خوف کی وجہ سے طولِ تاریخ میں ان کے فضائل و مناقب چھپاتے رہے ، لیکن شاید ہی کوئی حدیث کی کتاب ایسی ملے، جس کے صفحات آپؑ کے فضائل و مناقب سے مزّین اور آراستہ نہ ہوں، نہ فقط شیعوں کی حدیثی کتب، بلکہ اہلِ سنت کی صحاح ستّہ بھی آپؑ کی عظمت و بزرگی کے اس بحرِ بیکراں سے سرشار ہیں۔ ہم یہاں امام علیؑ کی بے شمار خصلتوں میں سے فقط چند مخصوص خصلتیں ہی بیان کرسکیں گے:

حضرت علیؑ کی ولادت با سعادت

حضرت علیؑ خداوند متعال کے پاک و پاکیزہ اور متبرّک و باعظمت گھر، خانہ کعبہ میں بروز جمعہ، تیرہ رجب المرجب، سن تیس عام الفیل دنیا میں تشریف لائے اور یہ شرف نہ اس سے پہلے کسی کو ملا تھا اور نہ آپؑ کے بعد کسی کو حاصل ہو گا۔ اسے تمام محدّثین و مؤرّخین نے قبول کیاہے۔

چنانچہ اہلِ سنت کے معروف محدّث حاکمِ نیشاپوری لکھتے ہیں:

‘‘اخبار متوار سے یہ بات ثابت ہے کہ امیر المومنین علی ابن ابی طالب (کَرَّمَ اللہُ وَجْھَہٗ) خانہ کعبہ کے اندر جناب فاطمہ بنت اسدؑ کے بطن سے متولد ہوئے۔’’ ١

اسی طرح شاہ ولی اللہ محدّث دہلوی بھی اس کی تصریح کرتے ہوئے قمطراز ہیں:

‘‘متواتر روایات سے ثابت ہے کہ امیرالمومنین علیؑ روز جمعہ، تیرہ رجب تیس عام الفیل کو کعبہ کے اندر فاطمہ بنت اسدؑکے بطن سے پیدا ہوئے اور آپؑ کے علاوہ، نہ آپؑ سے پہلے اور نہ آپؑ کے بعد کوئی خانہ کعبہ میں پیدا ہوا۔’’ ٢

حافظ گنجی شافعی اپنی کتاب میں حاکم سے نقل کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

‘‘امیرالمو منین حضرت علی بن ابی طالبؑ مکہ معظمہ میں خانہ کعبہ کے اندر روز جمعہ ١٣ رجب، ٣٠ عام الفیل کو پیدا ہوئے۔ ان کے علاوہ کوئی بھی بیت اللہ میں نہیں پیدا ہوا ۔ نہ اس سے پہلے اورنہ اس کے بعد۔ یہ منزلت و شرف فقط حضرت علیؑ کو حاصل ہے ۔’’ ٣

علامہ امینیؒ نے اپنی گراں قدر کتاب ‘‘الغدیر’’ جلد ٦ صفحہ٢١ کے بعد حضرت علی ابن ابی طالبؑ کی خانہ کعبہ میں ولادت کے واقعہ کو ،اہلِ سنت کی بیس اور شیعوں کی پچاس سے زیادہ کتابوں سے نقل کیا ہے ۔

علیؑ رسول خدا ؐ کے تربیت یافتہ

جس طرح خداوند متعال نے اپنے حبیبؐ کی تربیت کی، اسی طرح رسول خداؐ نے حضرت علیؑ کی تربیت فرمائی۔ آپؑ ہمیشہ آنحضرتؐ کے ساتھ ساتھ رہتے تھے، یوں آپؐ نے حضرت علیؑ کی تربیت اپنے انداز سے فرمائی۔ جس کے بارے میں خود علیؑ فرماتے ہیں: ‘‘خدا وند عالم نے ایک عظیم فرشتے کو اپنے حبیبؐ کی تربیت کیلئے مامور کیا تھا اور آپؐ ہر روز اپنے اخلاقِ حسنہ میں سے کچھ مجھے تعلیم دیتے تھے۔’’

یہی وجہ ہے کہ علیؑ کے علاوہ مسلمانوں میں کوئی ایسا فرد موجود نہیں، جو تمام صفات و کمالات میں رسول اکرمؐ کیساتھ مشابہ ہو۔ کیونکہ حضورؐ نے علیؑ کی تربیت بالکل اپنے انداز سے کی تھی اور ان کو اپنے بعد جانشینی کے لئے مکمل طور پر تیار کیا تھا، علیؑ اس تربیت کے بارے میں فرماتے ہیں: ‘‘میں ہمیشہ آپؐ کے پیچھے اس طرح چلتا تھا جیسے اونٹنی کا بچہ اپنی ماں کے پیچھے پیچھے چلتا ہے۔’’ ٤

اگر ان میں سے کوئی ایک میرے لیے ہوتی۔۔۔

عامر بن سعد بن ابی وقاص نقل کرتا ہے: معاویہ نے سعد بن ابی وقاص سے کہا: تم کیوں ابوتراب (علیؑ کی کنیت) پر سبّ و شتم نہیں کرتے؟

تو اُس نے جواب دیا: تین چیزوں کی وجہ سے، جو رسول خداؐ نے اُن (علیؑ) کے لیے فرمائی ہیں، میں اُن پر سبّ وشتم نہیں کروں گا کہ اگر اُن میں سے کوئی ایک بھی میرے لیے ہوتی تو میرے لیے سرخ بالوں والے اُونٹوں سے بہتر ہوتا۔

پیغمبر خداؐ نے جب کسی غزوہ پز تشریف لے جاتے وقت، اُن (علیؑ) کو مدینہ میں اپنا جانشین مقرر فرمایا، تو علیؑ نے عرض کیا: ‘‘اے رسول خداؐ! کیا آپؐ مجھے عورتوں اور بچوں کے درمیان چھوڑ رہے ہیں؟’’

تو پیغمبر خداؐ نے اُن سے فرمایا: ‘‘اے علیؑ! کیا تم خوش نہیں ہو کہ تمہاری نسبت میرے ساتھ ایسے ہی ہے جیسے ہارونؑ کی موسیٰؑ سے تھی، سوائے اس کے کہ میرے بعد کوئی نبی نہ ہوگا۔’’

اور میں نے جنگِ خیبر کے موقع پر پیغمبر خداؐ کو کہتے سنا کہ فرما رہے تھے: ‘‘کل میں پرچمِ اسلام اُس شخص کو دوں گا جو خدا اور اُس کے رسولؐ کو دوست رکھتا ہوگا اور خدا اور اُس کا رسولؐ بھی اُس کو دوست رکھتے ہوں گے۔’’

پس ہم نے بھی اپنی اپنی گردنیں بلند کیں کہ شاید آنحضرتؐ کی نظر ہم پر پڑ جائے، لیکن انہوں نے فرمایا: ‘‘علیؑ کو میرے پاس بلاؤ! علیؑ شریف لائے درحالانکہ وہ آشوبِ چشم میں مبتلا تھے، پس رسول خداؐ نے اپنا لعابِ دہن اُن کی آنکھوں پر ملا اور پرچمِ اسلام اُن کو دے دیا۔

اور جب آیۂ تطہیر، ٥ پیغمبر اکرمؐ پر نازل ہوئی تو آپؐ نے علیؑ، فاطمہؑ، حسنؑ اور حسینؑ کو اپنے پاس بلایا اور فرمایا: ‘‘خدایا! یہ ہیں میرے اہل بیت’’ ٦

 

١۔ المستدرک ،ج٣،ص٣٨٣

٢۔ ازالۃ الخفاء، ص٢٥١

٣۔ کفایۃ الطالب، ص٢٦٠

٤۔ نہج البلاغۃ، الامام علیؑ، ج٢، ص١٥٧

٥۔ سورۂ احزاب، آیت٣٣

٦۔ خصائص امیر المومنین علی بن ابی طالبؑ، ابو عبدالرحمان احمد بن شعیب النسائی، تحقیق: سید جعفر حسینی، ص٢٨٠

+ نوشته شده در Fri 7 Oct 2011ساعت 3:12 PM توسط سید عقیل حیدر زیدی | نظر بدهید
جنگ بدر، مسلمانوں کی تاریخ ساز فتح
بسمہ تعالی

جنگ بدر، مسلمانوں کی تاریخ ساز فتح

مقالہ نگار: سید عقیل حیدر زیدی

ہجرت نبوی کے دوسرے سال جو اہم واقعات پیش آئے، ان میں سے جنگِ بدر مسلمانوں کا تاریخ ساز اور انتہائی اہمیت کا حامل معرکہ ہے، اس جنگ کا تعلق ارادۂ ایزدی سے تھا۔ اگر ہم اُس وقت کے اسلامی معاشرے کی سیاسی و اجتماعی حالت کا بغور جائزہ لیں، تو اس نتیجے پر پہنچیں گے کہ اُس وقت ایسی فاتحانہ جنگ کی اشد ضرورت تھی، کیونکہ پیغمبر اکرمؐ جو تیرہ سال تک مکہ میں اپنی اُمت کی اصلاح و نجات کے لیے اسلام کی دعوت دیتے رہے، لیکن آپؐ کی اس صدائے حق و عدالت کو گنتی کے چند افراد کے علاوہ، نہ صرف یہ کہ سننا گوارا نہ کیا، بلکہ آپؐ کو ہر قسم کی اذیت و تکالیف بھی پہنچائیں گئیں، جن کے باعث آپؐ کو مکہ سے جلاوطنی اختیار کرکے مدینہ ہجرت کرنا پڑی۔ جو لوگ اُس وقت تک مکہ میں رہ گئے تھے، وہ بھی سخت مشکلات و مصائب سے دوچار تھے اور قریش نے اُن پر سخت پابندیاں لگا رکھی تھیں کہ وہ ہجرت کرکے مدینہ بھی نہیں جا سکتے تھے۔

دوسری طرف منافقین اور یہودیوں کی تحریک اپنا کام کر رہی تھی، ابتداء میں جب آنحضرتؐ مدینہ تشریف لائے تو انہوں نے بڑی خندہ پیشانی سے آپؐ کا استقبال کیا، لیکن جب وہ اپنے ناپاک عزائم میں کامیاب نہ ہو سکے تو مخالفت اور سرکشی پر اُتر آئے۔ رسول خداؐ نے بھی اٹھارہ ماہ سے زیادہ مدینہ میں قیام کے دوران جہاں تک ممکن تھا دشمن سے مقابلہ کے لیے فوج تیار کرلی تھی اور تمام پہلوؤں کو مدِّنظر رکھتے ہوئے، کہا جا سکتا تھا کہ اب وہ وقت آپہنچا ہے جب رسول خداؐ وسیع پیمانے پر فتح مندانہ عسکری تحریک شروع فرمائیں اور دین اسلام کو گوشہ نشینی اور خفت و شرمساری کی حالت سے نکال کر اجتماعی اور یلغاری تحریک میں تبدیل کردیں۔

قرآنِ کریم کی آیات سے جو بات سمجھ میں آتی ہے وہ یہ ہے کہ پیغمبر اکرمؐ کا مدینہ منورہ سے قریش کے تجارتی قافلہ کے تعاقب اور نتیجہ میں جنگ کے لیے نکلنا، وحی اور آسمانی حکم کے مطابق تھا جیسا کہ ارشاد ہوتا ہے: ‘‘جس طرح تمہارے پروردگار نے تمہیں تمہارے گھر سے حق کے ساتھ برآمد کیا اگرچہ مومنین کی ایک جماعت اسے ناپسند کر رہی تھی ۔۔۔ ۔’’ ١

دوسری دلیل جو اس حقیقت کو ثابت کرتی ہے کہ مسلمانوں اور کفار کے درمیان یہ جنگ، حکمِ الہٰی کا قطعی و حتمی نتیجہ تھی اور انہیں ایک دوسرے کا مقابلہ کرنے کی ترغیب دلائی جارہی تھی، یہ ہے کہ جنگ سے پہلے دونوں گروہوں میں سے ہر ایک کو دوسرے کی تعداد کم نظر آرہی تھی، قرآنِ کریم کی آیات اس منظر کو پیش کرتی ہیں:

‘‘اور اُس وقت کو یاد کرو جب تم ایک دوسرے کے مقابلے میں آئے تو اُنہیں تمہاری نگاہوں میں کم دکھایا اور تمہیں اُن کی نگاہوں میں کم دکھایا کہ اگروہ تمہیں اُن کی تعداد زیادہ دکھا دیتا تو ضرور تم لوگ سُست ہو جاتے اور جنگ کے معاملے میں جھگڑا کرنے لگتے۔’’٢

دوسری طرف اگر دشمن کو مسلمان طاقت اور تعداد میں زیادہ نظر آتے تو اس میں کوئی تعجب کی بات نہ تھی کہ کفار مسلمانوں کا مقابلہ کرنے سے گریز کرتے اور اس سرنوشت ساز جنگ کے لیے ہرگز آمادہ نہ ہوتے۔ یہی وجہ تھی کہ خداوند عالم نے ایسے حالات پیدا کر دیئے کہ دونوں گروہوں کے لیے اس کے علاوہ کوئی چارہ نہ تھا کہ وہ ایک دوسرے کے مقابل آجائیں اور ایک دوسرے کے ساتھ جنگ کریں تاکہ ارادۂ خداوندی حقیقت کی صورت میں جلوہ گر ہو۔

جبکہ بعض سست عقیدہ لوگ جو اسلامی حکومت کو اچھی طرح نہیں سمجھ سکے تھے انہیں اس جنگ میں رسول خداؐ کے ہمراہ روانہ ہونا گوارا نہ تھا، یہ ظاہر بین گروہ اس حقیقت کو جاننے کے باوجود کہ پیغمبر اکرمؐ کا یہ اقدام حکمِ خدا کے عین مطابق ہے، آنحضرتؐ کے ساتھ جنگ پر جانے کے لیے جھگڑا کرنے پر لگا ہوا تھا اگرچہ حق بات اُن پر واضح اور روشن ہوچکی تھی، لیکن اس کے باوجود وہ اسے قبول کرنے سے کترا رہے تھے اور ان کی دلیل یہ تھی کہ ہماری تعداد بہت کم ہے اور دشمن بہت زیادہ ہے، ایسی صورت میں ہم اتنے بڑے دشمن کا مقابلہ کرنے کے لیے مدینہ سے باہر کیسے جا سکتے ہیں اور یہ بھی تو معلوم نہیں کہ یہ کاروان جنگ ہے یا قافلہ تجارت؟ ٣

جنگ بدر کے نتائج

جنگ بدر، سترہ (١٧) رمضان المبارک ٢ ھجری کو ‘‘بدر’’ کے مقام پر لڑی گئی، اس جنگ میں مسلمانوں کی تعداد (٣١٣) نفر تھی (جن میں (٨١) مہاجرین اور (٢٣١) انصار شامل تھے) جبکہ دشمن کا لشکر (٩٥٠) نفوس پر مشتمل تھا اور پورے جنگی ساز و سامان کے ساتھ مسلح ہو کر آیا تھا، اس کے برعکس سپاہ اسلام کے پاس صرف دو گھوڑے اور ستر اُونٹ تھے۔ لیکن پروردگار عالم کی غیبی امداد، پیغمبر اکرمؐ کی دانشمندانہ قیادت اور مجاہدین اسلام کی جانفشانی کے نتیجے میں یہ جنگ مسلمانوں کے حق میں اختتام پذیر ہوئی اور دشمن نے بڑے جانی و مالی نقصان کے بعد راہِ فرار اختیار کرنے میں ہی عافیت سمجھی۔اس جنگ میں کفار کے ستر (٧٠) سپاہی ہلاک اور ستر (٧٠) قیدی بنائے گئے اور بہت سا مال غنیمت مسلمانوں کے ہاتھ آیا، جبکہ اس جنگ میں صرف (١٤) مسلمانوں نے جام شہادت نوش کیا۔ ٤

١۔ ملاحظہ فرمائیں: سورۂ انفال، آیت٥ تا ١٨

٢۔ ملاحظہ فرمائیں: سورۂ انفال، آیت٤١ تا ٤٥

٣۔ تفسیر مجمع البیان، علامہ طبرسی ؒ، ج٣، ص٥٢

٤۔ تاریخ پیامبرؐ ، علامہ أمینی ؒ، ص٢٥٣

+ نوشته شده در Fri 7 Oct 2011ساعت 3:4 PM توسط سید عقیل حیدر زیدی | نظر بدهید
معراجِ پیغمبرِ اکرم(صلّی اللہ علیہ وآلہ وسلم)
بسمہ تعالی

معراجِ پیغمبرِ اکرم(صلّی اللہ علیہ وآلہ وسلم)

مقالہ نگار: سید عقیل حیدر زیدی

تاریخِ اسلام کے بعثتِ پیغمبر اکرمؐ سے لے کر آنحضرتؐ کی ہجرت تک کے اہم واقعات میں سے ایک نہایت اہم واقعہ ‘‘واقعہ معراج’’ ہے۔ یہ واقعہ کب اور کس طرح پیش آیا اس کی صحیح اور دقیق تاریخی جزئیات کے بارے میں تاریخ نویسوں کے درمیان کافی زیادہ اختلاف پایا جاتاہے، بعض کہتے ہیں کہ ‘‘واقعہ معراج’’ بعثتِ پیغمبرؐ کے چھ ماہ بعد اور بعض کی رائے میں بعثت کے دوسرے، تیسرے، پانچویں، دسویں، گیارہویں یا بارہویں سال میں رونما ہوا۔ ١

علی بن ابراہیم قمی ؒ بیان کرتے ہیں کہ واقعۂ معراج ٢٧ رجب المرجب ١٢ ؁ بعثت کی رات پیش آیا، جب خداوند عالم نے جبرائیلؑ کوبھیج کربُراق کے ذریعہ آنحضرتؐ کوقاب قوسین کی منزل پر بلایا اوروہاں علی بن ابی طالبؑ کی خلافت وامامت کے متعلق ہدایات فرمائیں۔ ٢

‘‘واقعہ معراج’’ کا اقرار اور اس پر عقیدہ رکھنا ضروریاتِ دین میں سے ہے، حضرت امام جعفر صادقؑ فرماتے ہیں: ‘‘جو شخص معراج کا منکر ہے اس کا ہم سے کوئی تعلق نہیں ہے۔‘‘ ٣ روایت میں ہے کہ معراج سے پہلے صرف دو نمازیں واجب تھیں اور معراج کے بعدپانچ وقت کی نمازیں مقرر ہوئیں۔

جب ہم رسول اکرمؐ کے ‘‘واقعہ معراج’’ کے بارے میں گفتگو کرتے ہیں تو ہمارے سامنے دو عنوان آتے ہیں: ایک اسراء اور دوسرا معراج۔

‘‘اسراء’’ یہ رات کے وقت آنحضرتؐ کا وہ سفر ہے جو مسجد الحرام یعنی مکہ مکرمہ سے مسجد اقصیٰ یعنی بیت المقدس تک طے ہوا، چنانچہ اس بارے میں قرآنِ کریم کا صریح ارشاد ہے:

‘‘پاک و منزہ ہے وہ ذات جس نے رات میں اپنے بندے کو مسجدِ حرام سے مسجدِ اقصیٰ، وہ مسجد جس کے اطراف کو ہم نے برکت دی، تک کی سیر کرائی، تاکہ ہم اپنے بندے کو اپنی (قدرت کی) نشانیاں دکھائیں۔’’ ٤

یہ سفرجناب اُم ہانی کے گھرسے شروع ہوا، پہلے آپؐ بیت المقدس تشریف لے گئے پھروہاں سے آسمان کے سفر پر روانہ ہوئے۔ آسمانی منازل طے کرتے ہوئے آپؐ ایک ایسی منزل پر پہنچے جس کے آگے جبرائیلؑ کا جانا بھی ممکن نہ تھا، جبرائیلؑ نے عرض کی حضور اب اگر ایک انگلی بھی آگے بڑھوں گا تو جل جاؤں گا۔ پھرآپؐ بُراق پر سوار آگے بڑھے، ایک منزل پر بُراق رک گیا اور آپؐ رفرف پر بیٹھ کر آگے روانہ ہوگئے یہ ایک نوری تخت تھا جو نور کے دریا میں جا رہا تھا یہاں تک کہ آپؐ منزلِ مقصود پر پہنچ گئے۔ ٥

اس آیت میں جملہ ‘‘سُبْحَانَ الَّذِی’’ اس حقیقت کو بیان کر رہا ہے کہ یہ سفر خداوند متعال کی قدرت کے پرتو میں انجام پایا تھا۔ جملہ ‘‘أَسْرٰی بِعَبْدِہِ لَیْلاً’’ سے یہ مطلب واضح ہے کہ اس سیر کی علت ذات خداوندی تھی اور اسی سے یہ بات بھی واضح ہو جاتی ہے کہ یہ سیر رات کے وقت ہوئی، اس کے علاوہ لفظ ‘‘لَیْلاً’’ سے بھی وہی مفہوم سمجھ میں آتا ہے جو لفظ ‘‘أَسْرٰی’’ سے سمجھ میں آتا ہے، کیونکہ عربی میں یہ لفظ رات کے وقت سفر کے مفہوم میں استعمال ہوتا ہے، تیسری بات یہ ہے کہ یہ ‘‘سفر’’ جسمانی اور روحانی تھا اگر فقط روحانی ہوتا تو اس کے لیے لفظ ‘‘بِعَبْدِہِ’’ کے ذکر کی کوئی ضرورت پیش نہ آتی۔

مذکورہ آیت کی رو سے اس سفر کا آغاز ‘‘مسجد الحرام’’ سے ہوتا ہے اور اختتام ‘‘مسجد اقصیٰ’’ پر اور آخر میں اس سفر کا یہ مطلب بتایا گیا ہے کہ خداوند متعال کو اپنی نشانیاں دکھانا مقصود تھیں۔

‘‘معراج’’ اور ملکوت اعلیٰ کی سیر کے بارے میں بہت سے محدثین اور مورخین کے نظریات کی بنیاد پر تحقیقات کی جا چکی ہیں اگرچہ سب کی متفقہ رائے یہی ہے کہ شبِ معراج، ہی شبِ اسراء ہے، یعنی یہ دونوں سفر ایک ہی رات میں انجام پائے ہیں۔ ٦

ہر چند مذکورہ بالا آیت سے پورے طور پر یہ مفہوم واضح نہیں ہوتا، لیکن سورۂ النجم کی آیت اور بہت سی ان روایات کی مدد سے جو ‘‘واقعہ معراج’’ کے متعلق ہم تک پہنچی ہیں یہ بات ثابت ہو جاتی ہے۔

چنانچہ علامہ مجلسی ؒ متعلقہ آیات بیان کرنے کے بعد ‘‘واقعہ معراج’’ کے بارے میں لکھتے ہیں: رسول خداؐ کا بیت المقدس کی جانب سفر کرنا اور وہاں سے ایک ہی رات میں آسمانوں پر پہنچنا اور وہ بھی بدن مبارک کے ساتھ، ایسا موضوع ہے جس کے بارے میں ایسی آیات اور متواتر شیعہ و سنی روایات ہم تک پہنچی ہیں، جو اس واقعہ کے وقوع پر دلالت کرتی ہیں اور اس حقیقت سے انکار کرنا یا روحانی معراج کی تاویل پیش کرنا یا اس واقعہ کا خواب میں رونما ہونا، اس بات کو ظاہر کرتا ہے کہ کہنے والے نے پیشوایانِ دین کی کتابوں کا کم تتبع کیا ہے اور یا یہ بات اس کی ایمان کی کمزوری و ضعف اعتقاد پر مبنی ہے۔ ٧

١۔ الصحیح من سیرة النبی الاعظمؐ، ج١، ص٢٢٩ - ٢٧٠

٢۔ تفسیرقمی ؒ، سورہ النجم

٣۔ سفینۃ البحار، شیخ عباس قمی ؒ، ج٢، ص١٧٤

٤۔ سورۂ اسراء، آیت١

٥۔ شرح عقائدنسفی، ص٦٨

٦۔ تاریخِ پیغمبرؐ، عبدالحسین امینی ؒ، ص١٠٩

٧۔ بحار الانوار، علامہ مجلسی ؒ، ج١٨، ص٢٨٩

Add new comment