حضرت امام محمد باقرعلیہ السلام

حضرت امام محمد باقر علیہ السلام بتاریخ یکم رجب المرجب ۵۷ ھ یوم جمعہ مدینہ منورہ میں پیدا ہوئے (اعلام الوری ص ۱۵۵ ،جلاء العیون ص ۲۶۰ ،جنات الخلود ص ۲۵) ۔

علامہ مجلسی تحریرفرماتے ہیں کہ جب آپ بطن مادرمیں تشریف لائے تو آباؤ اجداد کی طرح آپ کے گھرمیں آوازغیب آنے لگی اورجب نوماہ کے ہوئے تو فرشتوں کی بے انتہا آوازیں آنے لگیں اورشب ولادت ایک نورساطع ہوا، ولادت کے بعد قبلہ رو ہو کرآسمان کی طرف رخ فرمایا،اور(آدم کی مانند) تین بار چھینکنے کے بعد حمد خدا بجا لائے،ایک شبانہ روز دست مبارک سے نور ساطع رہا، آپ ختنہ کردہ ،ناف بریدہ، تمام آلائشوں سے پاک اورصاف متولد ہوئے۔ (جلاء العیون ص ۲۵۹) ۔

اسم گرامی ،کنیت اور القاب

آپ کا اسم گرامی ”لوح محفوظ“ کے مطابق اورسرورکائنات کی تعیین کے موافق ”محمد“تھا۔ آپ کی کنیت ”ابوجعفر“ تھی، اورآپ کے القاب کثیرتھے، جن میں باقر،شاکر،ہادی زیادہ مشہورہیں (مطالب السؤل ص ۳۶۹ ،شواہدالنبوت ص ۱۸۱(

واقعہ کربلا میں امام محمد باقر علیہ السلام کاحصہ
آپ کی عمرابھی ڈھائی سال کی تھی، کہ آپ کوحضرت امام حسین علیہ السلام کے ہمراہ وطن عزیزمدینہ منورہ چھوڑنا پڑا،پھرمدینہ سے مکہ اور وہاں سے کربلا تک کی صعوبتیں سفر برداشت کرنا پڑی اس کے بعد واقعہ کربلا کے مصائب دیکھے، کوفہ وشام کے بازاروں اوردرباروں کا حال دیکھا ایک سال شام میں قید رہے، پھروہاں سے چھوٹ کر ۸/ ربیع الاول ۶۲ ھ کو مدینہ منورہ واپس ہوئے۔

جب آپ کی عمرچارسال کی ہوئی ،توآپ ایک دن کنویں میں گرگئے ،لیکن خدا نے آپ کو ڈوبنے سے بچا لیا(اورجب آپ پانی سے برآمد ہوئے تو آپ کے کپڑے اورآپ کا بدن تک بھیگا ہوا نہ تھا(مناقب جلد ۴ ص ۱۰۹(

حضرت امام محمد باقر علیہ السلام اور جابربن عبداللہ انصاری کی باہمی ملاقات

یہ مسلمہ حقیقت ہے کہ حضرت امام محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنی ظاہری زندگی کے اختتام پرامام محمد باقرکی ولادت سے تقریبا ۴۶/ سال قبل جابر بن عبداللہ انصاری کے ذریعہ سے امام محمد باقرعلیہ السلام کو سلام کہلایا تھا، امام علیہ السلام کا یہ شرف اس درجہ ممتاز ہے کہ آل محمد میں سے کوئی بھی اس کی ہمسری نہیں کرسکتا(مطالب السؤل ص ۲۷۲) ۔

مورخین کا بیان ہے کہ سرورکائنات ایک دن اپنی آغوش مبارک میں حضرت امام حسین علیہ السلام کو لئے ہوئے پیارکر رہے تھے۔ ناگاہ آپ کے صحابی خاص جابربن عبداللہ انصاری حاضرہوئے حضرت نے جابرکو دیکھ کر فرمایا ،اے جابر!میرے اس فرزند کی نسل سے ایک بچہ پیدا ہو گا جوعلم وحکمت سے بھرپور ہو گا،اے جابرتم اس کا زمانہ پاؤ گے،اوراس وقت تک زندہ رہو گے جب تک وہ سطح ارض پرنہ آ جائے ۔

اے جابر! دیکھو، جب تم اس سے ملنا تو اسے میرا سلام کہہ دینا، جابر نے اس خبراوراس پیشین گوئی کو کمال مسرت کے ساتھ سنا،اور اسی وقت سے اس بہجت آفرین ساعت کا انتظار کرنا شروع کردیا،یہاں تک کہ چشم انتظار پتھرا گئیں اورآنکھوں کا نورجاتا رہا۔

جب تک آپ بینا تھے ہرمجلس ومحفل میں تلاش کرتے رہے اورجب نورنظرجاتا رہا توزبان سے پکارنا شروع کردیا،آپ کی زبان پرجب ہر وقت امام محمد باقرکا نام رہنے لگا تولوگ یہ کہنے لگے کہ جابرکا دماغ ضعف پیری کی وجہ سے ناکارہ ہو گیا ہے لیکن بہرحال وہ وقت آ ہی گیا کہ آپ پیغام احمدی اورسلام محمدی پہنچانے میں کامیاب ہوگئے۔ راوی کا بیان ہے کہ ہم جناب جابرکے پاس بیٹھے ہوئے تھے کہ اتنے میں امام زین العابدین علیہ السلام تشریف لائے، آپ کے ہمراہ آپ کے فرزند امام محمد باقرعلیہ السلام بھی تھے، امام علیہ السلام نے اپنے فرزند ارجمند سے فرمایا کہ چچا جابربن عبداللہ انصاری کے سر کا بوسہ دو ،انہوں نے فورا تعمیل ارشاد کیا،جابر نے ان کو اپنے سینے سے لگا لیا اور کہا کہ ابن رسول اللہ آپ کو آپ کے جد نامدارحضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے سلام فرمایا ہے۔

حضرت نے کہا! اے جابر ان پراورتم پرمیری طرف سے بھی سلام ہو،اس کے بعد جابربن عبداللہ انصاری نے آپ سے شفاعت کے لیے ضمانت کی درخواست کی، آپ نے اسے منظورفرمایا اورکہا کہ میں تمہارے جنت میں جانے کا ضامن ہوں(صواعق محرقہ ص ۱۲۰ ، وسیلہ النجات ص ۳۳۸ ،مطالب السؤل ، ۳۷۳ ،شواہدالنبوت ص ۱۸۱ ، نورالابصارص ۱۴۳ ،رجال کشی ص ۲۷ ،تاریخ طبری جلد ۳ ،ص ۹۶ ،مجالس المومنین ص ۱۱۷ ۔

علامہ محمد بن طلحہ شافعی کا بیان ہے کہ آنحضرت نے یہ بھی فرمایا تھا کہ ”ان بقائک بعد رویتہ یسیر“ کہ اے جابر! میرا پیغام پہنچانے کے بعد بہت تھوڑا زندہ رہو گے ،چنانچہ ایسا ہی ہوا(مطالب السؤل ص ۲۷۳) ۔

سات سال کی عمرمیں امام محمد باقر کا حج خانہ کعبہ

علامہ جامی تحریرفرماتے ہیں کہ راوی بیان کرتا ہے کہ میں حج کے لیے جا رہا تھا،راستہ پرخطر اور انتہائی تاریک تھا جب میں لق ودق صحرا میں پہنچا تو ایک طرف سے کچھ روشنی کی کرن نظرآئی ۔ میں اس کی طرف دیکھ ہی رہا تھا کہ ناگاہ ایک سات سال کا لڑکا میرے قریب آ پہنچا،میں نے سلام کا جواب دینے کے بعد اس سے پوچھا کہ آپ کون ہیں؟ کہاں سے آ رہے ہیں اورکہاں کا ارادہ ہے، اورآپ کے پاس زاد راہ کیا ہے؟ اس نے جواب دیا، سنو میں خدا کی طرف سے آرہا ہوں اورخدا کی طرف جا رہا ہوں، میرا زاد راہ ”تقوی“ ہے ۔ میں عربی النسل ،قریشی خاندان کا علوی نزاد ہوں،میرا نام محمد بن علی بن الحسین بن علی بن ابی طالب ہے، یہ کہہ کر وہ دونوں سے غائب ہو گئے اورمجھے پتہ نہ چل سکا کہ آسمان کی طرف پرواز کر گئے یا زمین میں سما گئے (شواہدالنبوت ص ۱۸۳) ۔
حضرت امام محمد باقر علیہ السلام اور اسلام میں سکے کی ابتدا

مورخ شہیرذاکرحسین تاریخ اسلام جلد ۱ ص ۴۲ میں لکھتے ہیں کہ عبدالملک بن مروان نے ۷۵ ھ میں امام محمد باقرعلیہ السلام کی صلاح سے اسلامی سکہ جاری کیا۔ اس سے پہلے روم و ایران کا سکہ اسلامی ممالک میں بھی جاری تھا۔

اس واقعہ کی تفصیل علامہ دمیری کے حوالہ سے یہ ہے کہ ایک دن علامہ کسائی سے خلیفہ ہارون رشید عباسی نے پوچھا کہ اسلام میں درہم و دینار کے سکے، کب اورکیونکر رائج ہوئے؟ انہوں نے کہا کہ سکوں کا اجرا خلیفہ عبدالملک بن مروان نے کیا ہے لیکن اس کی تفصیل سے ناواقف ہوں اورمجھے نہیں معلوم کہ ان کے اجراء اور ایجاد کی ضرورت کیوں محسوس ہوئی، ہارون الرشید نے کہا کہ بات یہ ہے کہ سابقہ دور میں جو کاغذ وغیرہ ممالک اسلامیہ میں مستعمل ہوتے تھے وہ مصرمیں تیار ہوا کرتے تھے جہاں اس وقت نصرانیوں کی حکومت تھی ، اور وہ تمام کے تمام بادشاہ روم کے مذہب بر تھے وہاں کے کاغذ پرجو ضرب یعنی (ٹریڈ مارک) ہوتا تھا، اس پر رومی زبان میں (اب،ابن،روح القدس لکھا ہوا تھا ،فلم یزل ذلک کذالک فی صدرالاسلام کلہ بمعنی علوما کان علیہ ،الخ)۔

اوریہی چیز اسلام میں جتنے دور گزرے تھے سب میں رائج تھی یہاں تک کہ جب عبدالملک بن مروان کا زمانہ آیا، توچونکہ وہ بڑا ذہین اور ہوشیار تھا،لہذا اس نے ترجمہ کرا کے گورنر مصرکو لکھا کہ تم رومی ٹریڈ مارک کو موقوف و متروک کر دو،یعنی کاغذ ،کپڑے وغیرہ جو اب تیارہوں ان میں یہ نشانات نہ لگنے دو بلکہ ان پریہ لکھوا دو ”اشہد ان لا اللہ الا ہو“ چنانچہ اس حکم پرعمل درآمد کیا گیا جب اس نئے مارک کے کاغذوں کا جن پر کلمہ توحید ثبت تھا، رواج پایا تو قیصر روم کو بے انتہا ناگوار گزرا ۔ اس نے تحفہ تحائف بھیج کرعبدالملک بن مروان خلیفہ وقت کولکھا کہ کاغذ وغیرہ پرجو”مارک“ پہلے تھا وہی بدستورجاری کرو،عبدالملک نے ہدایا لینے سے انکارکردیا اورسفیرکو تحائف و ہدایا سمیت واپس بھیج دیا اوراس کے خط کا جواب تک نہ دیا۔ قیصر روم نے تحائف کو دوگنا کرکے پھربھیجا اورلکھا کہ تم نے میرے تحائف کو کم سمجھ کر واپس کردیا،اس لیے اب اضافہ کرکے بھیج رہا ہوں، اسے قبول کرلو اورکاغذ سے نیا”مارک“ ہٹا دو۔ عبدالملک نے پھر ہدایا واپس کردیا اور پہلے کی طرح کوئی جواب نہیں دیا ۔ اس کے بعد قیصرروم نے تیسری مرتبہ خط لکھا اورتحائف و ہدایا بھیجے اورخط میں لکھا کہ تم نے میرے خطوط کے جوابات نہیں دئیے ،اورنہ میری بات قبول کی، اب میں قسم کھا کر کہتا ہوں کہ اگرتم نے اب بھی رومی ٹریڈ مارک کو ازسرنو رواج نہ دیا اورتوحید کے جملے کاغذ سے نہ ہٹائے تومیں تمہارے رسول کو گالیاں،سکہ درہم ودینار پرنقش کراکے تمام ممالک اسلامیہ میں رائج کردوں گا اورتم کچھ نہ کرسکوگے ۔ دیکھو اب جو میں نے تم کولکھا ہے اسے پڑھ کرارفص جبینک عرقا،اپنی پیشانی کا پسینہ پوچھ ڈالو اورجو میں کہتا ہوں اس پرعمل کرو تاکہ ہمارے اورتمہارے درمیان جو رشتہ محبت قائم ہے بدستورباقی رہے۔

عبدالملک ابن مروان نے جس وقت اس خط کو پڑھااس کے پاؤں تلے سے زمین نکل گئی ،ہاتھ کے طوطے اڑگئے اورنظروں میں دنیا تاریک ہوگئی۔ اس نے کمال اضطراب میں علماء فضلاء اہل الرائے اورسیاست دانوں کو فورا جمع کرکے ان سے مشورہ طلب کیا اورکہا کہ کوئی ایسی بات سوچو کہ سانپ بھی مرجائے اورلاٹھی بھی نہ ٹوٹے یا سراسر اسلام کامیاب ہوجائے، سب نے سرجوڑ کربہت دیرتک غورکیا لیکن کوئی ایسی رائے نہ دے سکے جس پرعمل کیا جا سکتا”فلم یجد عنداحدمنہم رایایعمل بہ“ جب بادشاہ ان کی کسی رائے سے مطمئن نہ ہوسکا تو اور زیادہ پریشان ہوا اوردل میں کہنے لگا میرے پالنے والے اب کیا کروں ابھی وہ اسی تردد میں بیٹھا تھا کہ اس کا وزیراعظم”ابن زنباع“ بول اٹھا،بادشاہ تو یقینا جانتا ہے کہ اس اہم موقع پراسلام کی مشکل کشائی کون کرسکتا ہے ،لیکن عمدا اس کی طرف رخ نہیں کرتا،بادشاہ نے کہا”ویحک من“ خدا تجھے سمجھے،تو بتا تو سہی وہ کون ہے؟ وزیراعظم نے عرض کی ”علیک بالباقرمن اہل بیت النبی“ میں فرزند رسول امام محمد باقرعلیہ السلام کی طرف اشارہ کر رہا ہوں اوروہی اس آڑے وقت میں تیرے کام آ سکتے ہیں ،عبدالملک بن مروان نے جونہی آپ کانام سنا قال صدقت کہے لگا۔ خدا کی قسم ! تم نے سچ کہا اورصحیح رہبری کی ہے۔

اس کے بعد اسی وقت فورا اپنے عامل مدینہ کو لکھا کہ اس وقت اسلام پرایک سخت مصیبت آ گئی ہے اوراس کا دفع ہونا امام محمد باقرکے بغیرناممکن ہے،لہذا جس طرح ہو سکے انھیں راضی کرکے میرے پاس بھیج دو،دیکھو اس سلسلہ میں جو مصارف ہوں گے،وہ بذمہ حکومت ہوں گے۔

عبدالملک نے دوخواست طلبی، مدینہ ارسال کرنے کے بعد شاہ روم کے سفیرکو نظر بند کردیا،اورحکم دیا کہ جب تک میں اس مسئلہ کوحل نہ کرسکوں اسے پایہ تخت سے جانے نہ دیا جائے۔

حضرت امام محمد باقر علیہ السلام کی خدمت میں عبدالملک بن مروان کا پیغام پہنچا اورآپ فوراعازم سفرہوگئے اور اہل مدینہ سے فرمایا کہ چونکہ اسلام کا کام ہے لہذا میں تمام اپنے کاموں پراس سفرکوترجیح دیتا ہوں ۔ الغرض آپ وہاں سے روانہ ہوکرعبدالملک کے پاس جا پہنچے، بادشاہ چونکہ سخت پریشان تھا،اس لیے اسے نے آپ کے استقبال کے فورا بعدعرض مدعا کردیا،امام علیہ السلام نے مسکراتے ہوئے فرمایا”لایعظم ہذاعلیک فانہ لیس بشئی“ اے بادشاہ سن، مجھے بعلم امامت معلوم ہے کہ خدائے قادر و توانا قیصرروم کواس فعل قبیح پرقدرت ہی نہ دے گا اورپھرایسی صورت میں جب کہ اس نے تیرے ہاتھوں میں اس سے عہدہ برآ ہونے کی طاقت دے رکھی ہے۔ بادشاہ نے عرض کی یا ابن رسول اللہ وہ کونسی طاقت ہے جومجھے نصیب ہے اورجس کے ذریعہ سے میں کامیابی حاصل کرسکتا ہوں۔

حضرت امام محمد باقرعلیہ السلام نے فرمایا کہ تم اسی وقت حکاک اور کاریگروں کوبلاؤ اوران سے درہم ودینارکے سکے ڈھلواؤ اورممالک اسلامیہ میں رائج کردو، اس نے پوچھا کہ ان کی کیا شکل وصورت ہوگی اوروہ کس طرح ڈھلیں گے؟ امام علیہ السلام نے فرمایا کہ سکہ کے ایک طرف کلمہ توحید ، دوسری طرف پیغمراسلام کا نام نامی اورضرب سکہ کا سن لکھا جائے۔ اس کے بعد اس کے اوزان بتائے۔ آپ نے کہا کہ درہم کے تین سکے اس وقت جاری ہیں ایک بغلی جو دس مثقال کے دس ہوتے ہیں ،دوسرے سمری خفاف جو چھ مثقال کے دس ہوتے ہیں، تیسرے پانچ مثقال کے دس ،یہ کل ۲۱/ مثقال ہوئے اس کو تین پرتقسیم کرنے پرحاصل تقسیم ۷/ مثقال ہوئے،اسی سات مثقال کے دس درہم بنوا،اوراسی سات مثقال کی قیمت سونے کے دینار تیار کر جس کا خوردہ دس درہم ہو،سکہ کا نقش چونکہ فارسی میں ہے اس لیے اسی فارسی میں رہنے دیا جائے ،اوردینارکا سکہ رومی حرفوں میں ہے لہذا اسے رومی حرفوں میں ہی کندہ کرایا جائے اور ڈھالنے کی مشین (سانچہ) شیشے کا بنوایا جائے تاکہ سب ہم وزن تیار ہو سکیں۔

عبدالملک نے آپ کے حکم کے مطابق تمام سکے ڈھلوا لیے اورسب کچھ تیار کرلیا اس کے بعد حضرت کی خدمت میں حاضرہو کردریافت کیا کہ اب کیا کروں؟ ”امرہ محمد بن علی“ آپ نے حکم دیا کہ ان سکوں کو تمام ممالک اسلامیہ میں رائج کردے، اورساتھ ہی ایک سخت حکم نافذ کردے جس میں یہ ہو کہ اسی سکہ کو استعمال کیاجائے اور رومی سکے خلاف قانون قراردیئے گئے۔ اب جو خلاف ورزی کرے گا اسے سخت سزا دی جائے گی ،اوربوقت ضرورت اسے قتل بھی کیا جا سکے گا۔

عبدالملک بن مروان نے تعمیل ارشاد کے بعد سفیر روم کو رہا کرکے کہا کہ اپنے بادشاہ سے کہنا کہ ہم نے اپنے سکے ڈھلوا کر رائج کر دیے اور تمہارے سکہ کوغیر قانونی قرار دے دیا اب تم سے جو ہو سکے کرلو۔

سفیرروم یہاں سے رہا ہو کرجب اپنے قیصرکے پاس پہنچا اوراس سے ساری داستان بتائی تو وہ حیران رہ گیا،اورسرجوڑ کردیرتک خاموش بیٹھا سوچتا رہا، لوگوں نے کہا! بادشاہ تو نے جو یہ کہا تھا کہ میں مسلمانوں کے پیغمبرکو سکوں پرگالیاں کندا کرا دوں گا اب اس پرعمل کیوں نہیں کرتے؟ اس نے کہا کہ اب گالیاں کندا کرکے کیا کروں گا اب تو ان کے ممالک میں میراسکہ ہی نہیں چل رہا اورلین دین ہی نہیں ہو رہا(حیواة الحیوان دمیری المتوفی ۹۰۸ ھ جلد ۱ طبع مصر ۱۳۵۶ ھ)۔

حضرت امام محمد باقر علیہ السلام کی علمی حیثیت

کسی معصوم کی علمی حیثیت پر روشنی ڈالنا بہت دشوار ہے، کیونکہ معصوم اور امام زمانہ کوعلم لدنی ہوتا ہے، وہ خدا کی بارگاہ سے علمی صلاحیتوں سے بھرپورمتولد ہوتا ہے، حضرت امام محمد باقر علیہ السلام چونکہ امام زمانہ اورمعصوم ازلی تھے اس لیے آپ کے علمی کمالات، علمی کارنامے اورآپ کی علمی حیثیت کی وضاحت ناممکن ہے۔ تاہم میں ان واقعات میں سے مستثنی ازخروارے، لکھتا ہوں جن پرعلماء عبورحاصل کرسکے ہیں۔

علامہ ابن شہرآشوب لکھتے ہیں کہ حضرت کا خود ارشاد ہے کہ” علمنامنطق الطیر و اوتینا من کل شئی “ ہمیں طائروں تک کی زبان سکھا گئی ہے اور ہمیں ہرچیز کا علم عطا کیا گیا ہے (مناقب شہرآشوب جلد ۵ ص ۱۱) ۔

روضة الصفاء میں ہے کہ بخدا سوگند کہ ماخازنان خدائیم درآسمان زمین الخ ۔ خداکی قسم! ہم زمین اورآسمان میں خداوند عالم کے خازن علم ہیں اورہم یہ شجرہ نبوت اورمعدن حکمت ہیں ،وحی ہمارے یہاں آتی رہی اور فرشتے ہمارے یہاں آتے رہتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ دنیا کے ظاہری ارباب اقتدار ہم سے جلتے اورحسد کرتے ہیں، لسان الواعظین میں ہے کہ ابومریم عبدالغفار کا کہنا ہے کہ میں ایک دن حضرت امام محمد باقرعلیہ السلام کی خدمت میں حاضرہو کرعرض پرداز ہوا کہ :

۱ ۔ مولا کونسا اسلام بہترہے جس سے اپنے برادرمومن کوتکلیف نہ پہنچے ؟

۲۔ کونسا خلق بہترہے؟ فرمایا ! صبراورمعاف کردینا

۳ ۔ کون سا مومن کامل ہے؟ فرمایا! جس کے اخلاق بہترہوں

۴ ۔ کون سا جہاد بہترہے ؟ فرمایا ! جس میں اپنا خون بہہ جائے

۵ ۔ کونسی نماز بہترہے ؟ فرمایا! جس کا قنوت طویل ہو،

۶ ۔ کون سا صدقہ بہترہے؟ فرمایا! جس سے نافرمانی سے نجات ملے،

۷ ۔ بادشاہان دنیا کے پاس جانے میں آپ کی کیا رائے ہے؟ فرمایا! میں اچھا نہیں سمجھتا، پوچھا کیوں؟

فرمایا کہ اس لیے کہ بادشاہوں کے پاس کی آمدورفت سے تین باتیں پیدا ہوتی ہیں :

۱ ۔ محبت دنیا ۲ ۔ فراموشی مرگ ۳ ۔ قلت رضائے خدا۔

 

پوچھا پھرمیں نہ جاؤں ،فرمایا میں طلب دنیا سے منع نہیں کرتا، البتہ طلب معاصی سے روکتا ہوں ۔

علامہ طبرسی لکھتے ہیں کہ یہ مسلمہ حقیقت ہے اوراس کی شہرت عامہ ہے کہ آپ علم وزہد اورشرف میں ساری دنیا سے فوقیت لے گئے ہیں۔ آپ سے علم القرآن، علم الآثار،علم السنن اورہرقسم کے علوم ، حکم،آداب وغیرہ کے مظاہرہ میں کوئی نہیں ہوا،بڑے بڑے صحابہ اورنمایاں تابعین،اورعظیم القدرفقہاء آپ کے سامنے زانوئے ادب تہ کرتے رہے۔ آپ کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جابر بن عبداللہ انصاری کے ذریعہ سے سلام کہلایا تھا اوراس کی پیشین گوئی فرمائی تھی کہ یہ میرا فرزند”باقرالعلوم“ ہوگا ،علم کی گتھیوں کو سلجھائے گا کہ دنیا حیران رہ جائے گی(اعلام الوری ص ۱۵۷ ،علامہ شیخ مفید۔

علامہ شبلنجی فرماتے ہیں کہ علم دین، علم احادیث،علم سنن اورتفسیر قرآن وعلم السیرت وعلوم وفنون ،ادب وغیرہ کے ذخیرے جس قدرامام محمد باقرعلیہ السلام سے ظاہر ہوئے اتنے امام حسین اور امام حسین کی اولاد میں سے کسی سے ظاہرنہیں ہوئے ۔ ملاحظہ ہوکتاب الارشاد ص ۲۸۶ ،نورالابصار ص ۱۳۱ ،ارجح المطالب ص ۴۴۷ ۔

علامہ ابن حجرمکی لکھتے ہیں کہ حضرت امام محمد باقرعلیہ السلام کے علمی فیوض وبرکات اورکمالات واحسانات سے اس شخص کے علاوہ جس کی بصیرت زائل ہوگئی ہو، جس کا دماغ خراب ہو گیا ہواورجس کی طینت وطبیعت فاسد ہوگئی ہو،کوئی شخص انکارنہیں کرسکتا،اسی وجہ سے آپ کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ آپ ”باقرالعلوم“ علم کے پھیلانے والے اورجامع العلوم ہیں، آپ کا دل صاف، علم وعمل روشن و تابندہ نفس پاک اورخلقت شریف تھی، آپ کے کل اوقات اطاعت خداوندی میں بسر ہوتے تھے۔

عارفوں کے قلوب میں آپ کے آثار راسخ اورگہرے نشانات نمایاں ہو گئے تھے، جن کے بیان کرنے سے وصف کرنے والوں کی زبانیں گونگی اورعاجز و ماندہ ہیں ۔ آپ کے ہدایات وکلمات اس کثرت سے ہیں کہ ان کا احصاء اس کتاب میں ناممکن ہے(صواعق محرقہ ص ۱۲۰) ۔

علامہ ابن خلکان لکھتے ہیں کہ امام محمد باقرعلامہ زمان اور سردار کبیرالشان تھے آپ علوم میں بڑے تبحراور وسیع الاطلاق تھے (وفیات الاعیان جلد ۱ ص ۴۵۰) علامہ ذہبی لکھتے ہیں کہ آپ بنی ہاشم کے سرداراورمتبحر علمی کی وجہ سے باقرمشہورتھے ۔ آپ علم کی تہ تک پہنچ گئے تھے، اورآپ نے اس کے وقائق کو اچھی طرح سمجھ لیا تھا (تذکرةالحفاظ جلد ۱ ص ۱۱۱) ۔

علامہ شبراوی لکھتے ہیں کہ امام محمد باقرکے علمی تذکرے دنیا میں مشہور ہوئے اورآپ کی مدح وثناء میں بکثرت شعر لکھے گئے، مالک جہنی نے یہ تین شعر لکھے ہیں:

ترجمہ : جب لوگ قرآن مجید کا علم حاصل کرنا چاہیں تو پورا قبیلہ قریش اس کے بتانے سے عاجز رہے گا،کیونکہ وہ خود محتاج ہے اوراگرفرزند رسول امام محمد باقر کے منہ سے کوئی بات نکل جائے تو بے حد وحساب مسائل وتحقیقات کے ذخیرے مہیا کردیں گے۔ یہ حضرات وہ ستارے ہیں جو ہرقسم کی تاریکیوں میں چلنے والوں کے لیے چمکتے ہیں اوران کے انوارسے لوگ راستے پاتے ہیں (الاتحاف ص ۵۲ ،و تاریخ الائمہ ص ۴۱۳)

علامہ ابن شہرآشوب کا بیان ہے کہ صرف ایک راوی محمد بن مسلم نے آپ سے تیس ہزارحدیثیں روایت کی ہیں (مناقب جلد ۵ ص ۱۱) ۔
آپ کی عبادت گذاری اور آپ کے عام حالات

آپ آباؤاجدادکی طرح بے پناہ عبادت کرتے تھے ساری رات نمازپڑھنی اورسارا دن روزہ سے گزارناآپ کی عادت تھی آپ کی زندگی زاہدانہ تھی، بورئیے پربیٹھتے تھے ہدایاجوآتے تھے اسے فقراء ومساکین پرتقسیم کردیتے تھے غریبوں پربے حدشفقت فرماتے تھے تواضع اورفروتنی ،صبروشکرغلام نوازی صلہ رحم وغیرہ میں اپنی آپ نظیرتھے آپ کی تمام آمدنی فقراء پرصرف ہوتی تھی آپ فقیروں کی بڑی عزت کرتے تھے اورانہیں اچھے نام سے یادکرتے تھے (کشف الغمہ ص ۹۵ ۔

آپ کے ایک غلام افلح کابیان ہے کہ ایک دن آپ کعبہ کے قریب تشریف لے گئے، آپ کی جیسے ہی کعبہ پرنظرپڑی آپ چیخ مارکررونے لگے میں نے کہا کہ حضورسب لوگ دیکھ رہے ہیں آپ آہستہ سے گریہ فرمائیں ارشادکیا،اے افلح شاید خدابھی انہیں لوگوں کی طرح میری طرف دیکھ لے اورمیری بخشش کاسہاراہوجائے، اس کے بعدآپ سجدہ میں تشریف لے گئے اورجب سراٹھایاتوساری زمین آنسوؤں سے ترتھی (مطالب السؤل ص ۲۷۱) ۔

http://www.alawy.net/urdu/news/9005/

Add new comment