انکار منکر
انکار منکر۔۔۔۔۔نذر حافی
روشن سورج کے آگے آنکھوں کو جوت کر میں دوسروں کا بوجھ بھی اداراک کے کاندھوں پہ لادے ہوئے درد کی مہار کہاں تک کھینچوں۔کبھی کبھی سوچتاہوں کہ اگرمیں اپنے جسم کے سارے پُرزے نیلام بھی کر دوں توکیاپھربھی کوئی شئے میرے پاس بچ جائے گی۔اسی اثناء میں ایک جگنو میری پیشانی پہ آکر بیٹھتاہے اور پھر رینگتے رینگتے میری آنکھوں میں اتر جاتاہے ۔جگنو کے رینگنے کی سرسراہٹ نے لوگوں کی توجہ اپنی طرف کھینچ لی ہے اور شہر بھر نے میرے گوشت سے منہ پھییر لیا ہے،لوگ آخر کب تک ایک ہی طرح کا گوشت کھاتے۔
بازار کے سب سے بلند مینار پر میری لاش جھول رہی تھی۔لوگ ایک ایک کر کےاپنی چھتوں سے نیچے اتر رہے تھے۔میں اپنی پتھرائی ہوئی آنکھوں سے لوگوں کو مسلسل اترتے ہوئے دیکھے جا رہا تھا۔نیچے شہر کی گلیوں میں لوگ کیڑوں ،مکوڑوں کی طرح رینگ رہے تھے۔
صبح سویرے یہ لوگ رزق کی تلاش میں اپنے گھروں سے نکل آتے ہیں،ایک دوسرے کی کھال کھینچ کھینچ کر اور خون کو چاٹ چاٹ کر شام ہوتے ہی تھکے ہارے ہوئے واپس اپنے گھروں میں گھس جاتے ہیں۔
میں کتنے مہینوں سے یہ منظر مسلسل دیکھ رہاتھا۔اب جون کی گرمی نے میرےجسم پر بچے کُھچے گوشت کو جُھلسا کر خُشک لکڑی کی مانند کر دیاتھا اور جولائی کی تیز ہواوں میں میری لاش مرجھائے ہوئےپھول کی طرح ہوا کے رخ پر جھول جھول کرچورچورہوچکی تھی۔
اسی طرح دنوں پر دن گزرتے رہے اور دسمبر کی سردیاں شروع ہو گئیں۔دسمبر میں میری لاش سردی سے سکڑنے لگی پھر ایک دن میں یہ دیکھ کر حیران رہ گیا کہ میرا وجود برف سے ڈھک گیاہے اور میرے بدن کی خشک ہڈیاں سفید مر مریں پتھر کی طرح چمک رہی ہیں۔پھر اگلے روز علی الصبح میں نے اپنے وجود پر نگاہ ڈالنا چاہی تو محسوس ہوا کہ میری آنکھیں بھی برف تلے دب چکی ہیں۔
مدتوں برفباری ہوتی رہی اور میں یہ سوچتا رہاکہ اب تک تو میرے اوپر برف کا ،کے۔ٹو، تعمیرہو چکا ہو گا۔
میں برف تلے دبے دبے کئی مہینوں تک یہی سوچتا رہا کہ ایک دن مجھے اپنے پاوں کی جانب سے گرمی محسوس ہوئی۔پھر یہ گرمی بڑھتے بڑھتے میرے سینے اور گلے تک آ پہنچی۔پھر ایک صبح کو میرے جسم سے برف پگھل چکی تھی،میری آنکھوں کے گڑھوں میں روشنی پہنچ چکی تھی۔میرے وجود کی ہڈیوں میں جگہ جگہ گھاس پھوس اور سبزہ اُگ آیا تھا۔مینار سے لیکر شہر کے درودیوار تک ہر چیز پر بہار آئی ہوئی تھی،ہر طرف پرندے چہچہا رہے تھے،پانی رس رہا تھا،سورج چمک رہا تھا،سبزہ اُگ رہا تھا،ہر طرف خوشبو ہی خوشبو،پھول ہی پھول اور بہار ہی بہار تھی۔
میں نے ذرا دائیں بائیں نگاہ دوڑائی تو دھک سے رہ گیا۔میرے ہر طرف ان گنت بلند و بالا مینار تھے۔ان میں سے ہر مینار عظمتِ انساں کا شہکار تھا اور ہر مینارپر ایک انوکھی صلیب گاڑی گئی تھی۔
کہیں پر انتظار کی صلیب ،کہیں پر سچ کی صلیب،کہیں پر وعدہ وفائی کی صلیب اور کہیں پر ایثارو وفا کی صلیب، اس طرح کی بے شمار صلیبیں تھیں جن پر بےشمار لوگ جھول رہے تھے۔یہ ساری مصلوب لاشیں مسخ ہو چکی تھیں۔ان کی آنکھوں کے گڑھوں میں فاختاوں نے اپنے گھونسلے بنا لیے تھے۔اُن کی کھوپڑیوں میں چڑیوں نے بسیرا کر لیا تھا۔ان کی ہڈیوں میں گھاس پھوس اور دیمک نے جگہ بنا رکھی تھی۔
میں اپنے ارد گرد اتنی لاشوں کو دیکھ کر خوشی سے چیخ اُٹھا۔ارے تم لوگ کب سے آ کر میرے ارد گرد بس گئے ہو! ! !خوش آمدید!میری آواز کے بلند ہوتے ہی سورج ایک مینار کی اوٹ میں چھپ کر غروب ہوگیا۔
ساری رات میری آواز بازار کے درودیوار سے ٹکراتی رہی اور میناروں میں گونجتی رہی۔لوگ کیڑوں مکوڑوں کی طرح اپنے اپنے بلوں میں گھس کر سو گئے۔میناروں پر مصلوب لاشیں ساکت ہو گئی۔ہر طرف سناٹا ہی سناٹا اور اس سناٹے میں صرف میری آواز کی گردش۔۔۔
پھر اعلی الصبح موذن اذان دینے لگا،مندر کی گھنٹیاں بجنے لگیں اور پرندوں کی مناجات کا شور میری آواز پر غالب آنے لگا۔میناروں پر ساکت لاشیں حرکت کرنے لگیں اور گھروں میں دبکے ہوئے لوگ ایک ایک کر کے باہر نکلنے لگے۔پھر کچھ دیر میں ایک مینار کی اوٹ سے سورج مغرب سے طلوع ہونے لگا۔
میں حیران رہ گیا،،سورج مغرب سے طلوع ہو رہا ہے،ابھی میری خود کلامی جاری ہی تھی کہ میناروں پر مصلوب لاشیں بول پڑیں۔میں ایک ایک لاش کو غور سے تکنے لگا۔ان میں سے کوئی پُر اسرار طور پر مرا ہوا تھا،کسی نے خود کشی کی ہوئی تھی،کسی کو حکومت نے سزا ئےموت دی تھی،کوئی اپنے دماغی امراض کی وجہ سے دم توڑ چکا تھا۔
ان میں سے کوئی قہقہے لگا رہا تھا،کوئی آہ وبکا کر رہا تھا،کوئی میری طرح چُپ چاپ دوسروں کو گھورے جا رہا تھا۔کوئی تالیا ں بجا رہا تھا۔ساری رات میں انہیں خوش آمدید کہتا رہاتھا۔اب وہ سب مل کر مجھے خوش آمدید کہہ رہے تھے۔ان کا کہنا تھا کہ وہ مجھ سے پہلے یہیں پہ موجود تھے لیکن میں نہ انہیں دیکھ رہا تھا اور نہ کی آوازسن رہا تھا۔
میں نے ان سے پوچھا کہ آج یہاں سورج مغرب سے کیوں نکلا ہے؟وہ بولے یہاں ہر روز سورج مغرب سے ہی نکلتا ہے لیکن تمہیں دکھائی نہیں دے رہا تھا۔پھر ان سب نے بیک زباں ہو کر مجھ سے ایک سوال پوچھا۔صرف ایک سوال !
وہ یہ کہ تم اس نگری میں کیسے آئے؟تم تو خود کُشی کو حرام سمجھتے تھے،تم تو دماغی مریضوں کے لیے جدید سہولتوں سے آراستہ ہسپتال تعمیر کروانے کے علمبردار تھے،تم تو قانون کی بالادستی کے لیے انسانوں کا بھرتہ بنانے کا احتیار حکمرانوں کو سونپنے کے حق میں تھے۔۔۔
میں ایک دم ٹھٹھک کر رہ گیا،میں اُنہیں کیا بتاتا کہ مجھے کیا ہوا۔میری زبان ندامت اور شرمندگی سے لڑ کھڑا رہی تھی،میرا بدن تھرتھر کا نپ رہا تھا۔میں اپنی کرچی کرچی ہمّت کو سمیٹ کر آہستہ آہستہ بولا۔۔۔
میرے دوستو!تم سچ کا زہر پینے میں مجھ پر سبقت لے گئے۔میں مجرم ہوں!احساسات کا،جذبات کا،قلم کا،کاغذ کا، سماج کا،روایات کا اور سب سے بڑھ کر یہ کہ میں مجرم ہوں دین اور دھرم کا۔
دوستو!میری فکر کی آنکھ میں پرندوں نے گھونسلے بنا رکھے تھے،میری کتابوں پرڈگریوں کی تہیں جمی ہوئی تھیں،میری سوچ کے گنبد پرہوس کی فاختائیں بیٹھی ہوئی تھیں،میری باتیں نمود و نمائش کے پلڑوں میں تُل رہی تھیں،میرے آنسووں میں دغا و ریاء کی ندی بہہ رہی تھی ،میری سسکیوں میں مصلحتیں موجزن تھیں،میں ظاہرمیں کسی اور کے نام کی مالاجھپ رہاتھا جبکہ اصل میں کسی اور کی تلاش میں تھا۔
اے انسانی عظمت کے میناروں پر مصلوب دوستو!میری لٹکی ہوئی لاش کو اپنے درمیان سے ہٹادو اس لئے کہ میں تمہارا بھی مجرم ہوں۔میں تمہاری صفوں میں گھُس کر اپنی شناخت کرواتا تھا اور پھر اس شناخت کو بیچ دیتا تھا۔
میں خود کُشی کو تو حرام لکھتا تھا لیکن وہ لوگ جو دوسروں کو خود کُشی کی منزل تک لے جاتے ہیں ان کے خلاف زبان نہیں کھولتا تھا،میں دماغی مریضوں کے لیےجدید سہولتوں سے آراستہ ہسپتالوں کی تعمیر کے حق میں تقریر یں تو کرتا تھا لیکن جو انسانوں کو دماغی مریض بناتے ہیں ان سے میری دوستیاں تھیں۔میں قانون کی بالادستی کے لیے انسانوں کا بھرتہ بنانے پر تو رضا مند تھالیکن جو انسانوں کو قانون سے کھیلنے پر مجبور کرتے ہیں میں ان کی شان میں قصیدے لکھتا تھا۔
میں ہر روز ان جرائم کا ارتقاب کرتا،ہر روز میری سوچ کی آنکھ میں بیٹھے ہوئے پرندے اُڑ اُڑ کرمیراجگر نوچتے ۔بالاخر میری فکر کی آنکھ میں بیٹھے پرندوں نے اپنے گھونسلوں کو خالی کرنا شروع کردیا اورایک شب میں نے نام ونمود کے بجائےگمنام ہونے کا فیصلہ کر لیا ۔میں نے آخر شب میں باطن کی سلسبیل سے سچ کے زہر کا جام پی کر سقراط کے ہاتھوں کا بوسہ لے لیا۔
صبح ہوتے ہی میرے قلم کی لاش سے انکارِ منکر کی بوآ رہی تھی۔لوگ اپنے بلّوں سے مجھے کوستے ہوئے باہر نکلے،امیر شہر نے مجھے شہرسے نکال باہر کیا۔لوگوں نے مجھے دھکیل کر عظمتِ انسان کے ان میناروں میں سے ایک پر گاڑھ دیا۔
مدّتیں ہوئیں اب میں سارے سماج سے الگ تھلگ الفاظ کی صلیب پر جھول رہا ہوں اور لوگ کیڑوں مکوڑوں کی زندگی جی رہے ہیں ! ! ! کہیں دور بہت دور ! ! !
Add new comment