امام علیؑ کی خلافت اور حدیث دار
ابن جریر طبری نے اس حدیث کو اپنی سند کے ساتھ نقل کیا ھے کہ جب رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلمپر یہ آیت نازل هوئی :
<وَانْذِرْ عَشِیْرَتَکَ الْاٴَقْرَبِیْنَ>[1]
”(اے رسول) تم اپنے قریبی رشتہ داروں کو (عذاب خدا) سے ڈراؤ“
چنانچہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلمنے خاندان عبد المطلب کو دعوت کے لئے بلایا جس میں ان کے چچا جناب ابوطالب ، جناب حمزہ، جناب عباس اور ابو لھب بھی تھے اور جب سب لوگ کھانے سے فارغ هوگئے تو آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلمنے خطبہ دیتے هوئے فرمایا:
”یا بنی عبد المطلب انی واللّٰہ ما اعلم شاباً فی العرب جاء قومہ باٴفضل ممّا قد جئتکم بہ، اٴنی قد جئتکم بخیر الدنیا والآخرة، وقد امرنی اللّٰہ تعالیٰ اٴن اٴدعوکم الیہ، فاٴیکم یوازرنی علی ہذا الامر علی اٴن یکون اخي ووصیي وخلیفتي فیکم؟“
(اے خاندان عبد المطلب ! خدا کی قسم، میں عرب میں کسی ایسے شخص کو نھیں جانتا جو اپنی قوم میں مجھ سے بہتر پیغام لایا هو میں تم میں دنیا وآخرت کی بھلائی لے کر آیا هوں ، اور خداوندعالم نے مجھے حکم دیا ھے کہ میں اس دعوت کو تمھارے سامنے پیش کردوں، پس تم میں کون شخص ھے جو اس کام میں میری مدد کرے، اور جو شخص میری مدد کرے گا وہ میرا بھائی، میرا وصی اور میرا خلیفہ هوگا۔)
چنانچہ یہ سن کر سب لوگوں نے اپنا سر جھکالیا او رکوئی جواب نہ دیا، اس وقت حضرت علی علیہ السلام کھڑے هوئے اور کھا:
”انا یا نبي اللّٰہ اٴکون وزیرک علیہ ، فقال (ص) ان ہذا اخي ووصیي وخلیفتي فیکم، فاسمعوا لہ واطیعوا“
(یا رسول اللہ میں حاضر هوں اور میں آپ کا وزیر هوں، تب رسول اللہ نے فرمایا:
یہ میرے بھائی، میرے وصی اور تمھارے درمیان میرے خلیفہ ھیں ان کی باتوں کو سنو اور ان کی اطاعت کرو) یہ سن کر سب لوگ جناب ابو طالب کو یہ کہہ کر ہنستے هوئے چلے گئے:
”اے ابو طالب تم کو حکم دیا گیا ھے کہ اپنے بیٹے کی باتوں کو سنو اور ان کی اطاعت کرو“[2]
قارئین کرام ! یہ حدیث اپنے ضمن میں حضرت علی علیہ السلام کے لئے تین صفات کی حامل ھے:
۱۔وزیرهونا۔
۲۔وصی هونا۔
۳۔خلیفہ هونا۔
اب ھم یہ سوال کرتے ھیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلمنے حضرت علی علیہ السلام کو کس لئے یہ صفات عطا کئے اور کسی دوسرے کو ان صفات سے کیوں نھیں نوزا؟ اور کیوں آپ نے اس کام کے لئے بعثت کے بعد پھلے جلسہ کا انتخاب کیا؟
اور چونکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلمکو اس کام میں اپنے لئے ایک مددگار کی ضرورت تھی تو وزارت کافی تھی لیکن ان کے ساتھ خلافت ووصایت کا کیوں اضافہ کیا؟ اور اپنے رشتہ داروں کو ڈرانے اور ان کو اسلام کی دعوت دینے اور وصایت وخلافت میں کیا ربط ھے؟ ان سوالوں کے جوابات دینے کے لئے ھم پر مندرجہ ذیل چیزوں کا بیان کرنا ضروری ھے:
قارئین کرام ! رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلماپنے اس پھلے اعلان میں عہد جدید ، جدید معاشرے اورنئی حکومت کی طرف اشارہ کرنا چاہتے ھیں۔
کیونکہ جب کوئی اھم شخصیت اپنے ہدف کو باقی رکھنا چاہتی ھے تو اس رئیساور ایک نائب مقرر کیا جاتا ھے تاکہ اگر رئیس کو کوئی پریشانی لاحق هوجائے تو اس کے نائب کی طرف رجوع کیا جاسکے۔
چنانچہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلمبھی اس ہدف کے تحت حاضرین کو یہ سمجھانا چاہتے تھے کہ یہ مسئلہ (دین ودنیا) کوئی ایسا مسئلہ نھیں ھے جو فقط مادام العمر باقی رھے اور اس کے بعد ختم هوجائے گا کیونکہ یہ ایک الٰھی رسالت ھے اور ھمیشہ باقی رہنے والی ھے اور رسول کی وفات کے بعد ختم نھیں هوگی، بلکہ جب تک زمین باقی ھے اس وقت تک یہ دین باقی ھے او رمیرے بعد بھی اس دین کا باقی رکھنے والا هوگا اور وہ یہ جوان ھے جس نے اس وقت میری مدد ووزارت کا اعلان کیاھے یعنی حضرت علی بن ابی طالب (علیہ السلام)
اور یہ تمام باتیں مذکورہ حدیث شریف میں دقت اور غور وفکر کرنے سے واضح هوجاتی ھیں اور شاید یھی وجہ تھی کہ جس کی بنا پر امام رازی نے اس حدیث کی صحت اور سند دلالت کا اعتراف کیا لیکن خلافت کے معنی میں شک کیا اور اس بات کا دعویٰ کیا کہ اگر پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ و سلماپنی وفات کے بعد خلیفہ معین کرنا چاہتے تھے تو ”خلیفتي فیکم“ نہ کہتے یعنی علی تم میں میرے خلیفہ ھیں، بلکہ ”خلیفتي فیکم من بعدی“ (یعنی تم میں میرے بعد میرے خلیفہ هوں گے) کا اضافہ کرتے تاکہ واضح طور پر نص بن جائے۔
لیکن حقیقت یہ ھے کہ ھم دونوں الفاظ میں کوئی فرق نھیں پاتے، اور اگر یہ طے هو کہ ”خلفتي فیکم من بعدی“ دلالت کے اعتبار سے واضح هوتی تو پھر ”خلفیتي فیکم“بھی اسی طرح ھے کیونکہ اس کے معنی یہ ھیں کہ اگر مجھ پر کوئی پریشانی آجائے تو تمھارے درمیان علی (ع) خلیفہ ھیں اور اسی طرح کے الفاظ موت کے بعد خلافت پر واضح نص هوتے ھیں اور اس معنی کی تاکید لفظ ”وصی“ کرتا ھے کیونکہ اسلام میں کسی کو موت کے وقت ھی وصی بنایا جاتا ھے کیونکہ موصی کی موت کے بعد وصی اس کے کاموں پر عمل کرتا ھے۔
اور اگر کسی کام کے بارے میں موت سے قبل کہنا هو تو کھا جاتا ھے ”ہذاوکیلی“ (یہ میرا وکیل ھے)، ”وصیي“(میرا وصی) نھیں کھا جاتا کیونکہ وکالت ایک اسلامی تعبیر ھے جو اس شخص کے لئے کھی جاتی ھے جو انسان کی قید حیات میں اس کی نیابت میں کسی کام کو انجام دے۔
لہٰذا اس بات پر آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلمنے روز اول ھی واضح بیان فرمایاکہ کون میرے بعد میرا خلیفہ هوگا اور کون مسلمانوں میں میرا وصی هوگا تاکہ کشتی اسلام میری وفات کے بعد امواج زمانہ کی نذر نہ هوجائے۔
اور یہ اسلام کا آغازجس میں آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلمنے اس محدود مجمع میں اپنا خلیفہ مقرر کیا اور ھمیشہ اس پر تاکید فرماتے رھے یھاں تک کہ آخری عمر میں بھی (غدیر خم میں)اس مسئلہ کی وضاحت فرمائی۔
Add new comment