تاریخ شیعیان بلتستان
تحریر: نذر حافی
nazarhaffi@gmail.com
قلم انسان کے بھیدوں کا مخزن ہے۔ کسی کی علمی صلاحیتوں اور اخلاقی اوصاف کا پتہ اس کے قلم سے بخوبی چلایا جاسکتا ہے۔ گویا کسی محرر کی سوجھ بوجھ اور فہم و فراست پر سب سے بڑی دلیل اس کی اپنی تحریر ہوا کرتی ہے۔ تحریر چاہے ایک سطر میں چند الفاظ پر مشتمل ہو یا ایک کتاب کی صورت میں کئی ابواب پر، وہ نفرتوں کو بڑھکائے یا محبتوں کے دیپ جلائے، اس کے تمام محاسن اور معائب دراصل محرِّر کی شخصیت کے آئینہ دار ہوتے ہیں۔ یہ جہانِ علم و شعور کا متفقہ فیصلہ ہے کہ انسان کی شخصیت کا پتہ اس کی ڈگری سے نہیں بلکہ اس کے قلم سے چلتا ہے۔
میں اس وقت ایک تازہ لکھی جانے والی کتاب "تاریخ شیعیان بلتستان" کی ورق گردانی میں مشغول ہوں۔ عنوان کے اعتبار سے یہ کتاب بظاہر ایک مخصوص فرقے سے متعلق ہے جبکہ محتویٰ اور مواد کے اعتبار سے ہر دین، مکتب، مسلک، ملک اور علاقے سے تعلق رکھنے والے منصف مزاج محقق کے لئے قابلِ قبول ہے۔ اس کتاب کی ہر سطر سے ٹپکتی ہوئی سنجیدگی، متانت اور منصف مزاجی دراصل اس کے مولف اور ہمارے عزیز دوست سید قمر عباس حسینی کی محنتِ شاقہ، وسعتِ قلبی اور بلند فکری کی مرہونِ منّت ہے۔ میں اب تک مولف کی متعدد نگارشات کا مطالعہ کرچکا ہوں، ان کی قلمی کاوشوں سے ان کے گہرے دینی لگاو، انتہائی فکری عمق، شدید تحقیقی ذوق اور اعلٰی درجے کی علمی استعداد کا اندازہ بخوبی لگایا جاسکتا ہے۔
رشک کی بات یہ ہے کہ ایک تاریخی کتاب ہونے کے ناطے "تاریخ شیعیان بلتستان"میں جابجا دوسروں پر تنقید کرنے اور اپنے تاریخی و نظریاتی مخالفین کے احساسات کو مجروح کرنے یا انتقام لینے کی گنجائش بدرجہ اتم موجود تھی، لیکن مولف نے کہیں پر بھی سنگ و دشنام کا سہارا نہیں لیا۔ ان کی اس تالیف "تاریخ شیعیان بلتستان" کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ اس کے مطالعے سے یہ واضح ہوجاتا ہے کہ دوسروں کو چھیڑے بغیر اور احترامِ باہمی کی فضا کو قائم رکھتے ہوئے بھی اپنے مکتب اور فرقے کی ترجمانی کی جاسکتی ہے۔
اس کتاب کے شروع میں تاریخ کی اہمیت اور لفظ ِشیعہ کے لغوی اور اصطلاحی معانی اور شیعیت کی تاریخ کو بیان کیا گیا ہے، اس کے بعد بلتستان کی تاریخ، جغرافیے اور موسم کا تعارف ہے، بعد ازاں مولف نے بتدریج بلتستان کے مذہبی اور تاریخی مراکز اور زبان کا ذکر کیا ہے۔ یہاں پر مولف نے اپنے قلم کو روک کر اشاعت ِ اسلام سے پہلے کے بلتستان کا ایک مختصر جائزہ قارئین کے سامنے رکھتے ہوئے اس منطقے میں اسلام کی تبلیغ اور نشرواشاعت کی تاریخ کو ایک خاص نظم اور ترتیب سے بیان کیا ہے۔ اس کے بعد بلتستان میں موجود مختلف شیعہ فرقوں، ان کے عقائد، عبادات، شادی بیاہ، موت اور رسوم و رواج پر روشنی ڈالی گئی ہے۔ مولف نے فقط انہی معلومات پر اکتفا نہیں کیا بلکہ بلتستان میں فعال سیاسی، مذہبی اور سماجی تنظیموں، معروف علمائے کرام، ادبا، سیاستدانوں، شعرا نیز سیاسی و سماجی شخصیات کا تعارف بھی کروایا ہے۔
اربابِ دانش جانتے ہیں کہ تحلیل کے بغیر تاریخ کا مطالعہ کوئی حیثیت نہیں رکھتا، چنانچہ مولف نے حسبِ ضرورت تحلیل و تجزیے کا فریضہ بھی انجام دیا ہے۔ خصوصاً بلتستان کی اقتصادی، ثقافتی اور تعلیمی صورتحال کو مختصراً مگر جامع انداز میں زیرِ بحث لایا ہے۔ اس کے علاوہ بعض علاقوں مثلاً اسکردو، کھرمنگ وغیرہ کی مذہبی تاریخ کو الگ سے بھی بیان کیا ہے۔ یاد رہے کہ بلتستان کے موسوی اور حسینی سادات کے شجرہ نسب نے اس کتاب کے حسن کو مزید چار چاند لگا دیئے ہیں۔ یہ بات قابلِ ذکر ہے کہ تحقیقی سفر نسل در نسل اپنے ارتقا کے زینے طے کرتا ہے۔ برادر قمر حسینی نے "تاریخ شیعیان بلتستان" کے عنوان سے تحقیق کی دنیا میں اپنے حصّے کی شمع جلا دی ہے، اب انشاءاللہ مستقبل کی دنیا میں اس شمع سے کئی چراغ جلیں گے اور تحقیق کے پر پیچ راستوں میں تاابد چراغاں ہوتا رہے گا۔
آخر میں عرض کرتا چلوں کہ یوں تو دنیا میں بہت سارے لوگ ہیں جو اپنے استادوں اور دوستوں کے اس دنیا سے چلے جانے کے بعد ان کی تعریف کرتے ہوئے نظر آتے ہیں، لیکن ایسے خوش بخت لوگ بہت کم ہیں جنہیں اپنے استادوں اور دوستوں کی زندگی میں ہی ان کی تعریف کرنے کا موقع ملتا ہے۔ ان خوش بختوں میں سے ایک میں بھی ہوں کہ جسے خداوندِ عالم نے سید قمر عباس حسینی جیسا باخلاق، مومن، محقق اور فعال دوست عطا کیا۔ میں اس ایک جملے کے ساتھ اپنے تبصرے کو مکمل کرتا ہوں کہ "سیّد" کی یہ کتاب جہاں ایک تاریخی دستاویز کی حیثیت رکھتی ہے، وہیں پر سیّد کی شخصیت کا پتہ بھی دیتی ہے، چونکہ انسان کی شخصیت کا پتہ اس کی ڈگری سے نہیں بلکہ اس کے قلم سے چلتا ہے۔
والحمدللہ ربِّ العالمین
Add new comment