حضرت فاطمہ زہراء سلام اللہ علیہا کی شادی مبارک
حضرت فاطمہ سے شادی کی خواہش کئی لوگوں نے کی جن میں سے کچھ پر رسول اللہ نے غضب ناک ہو کر منہ پھیر لیا۔[24]۔ طبقات ابن سعد وغیرہ کے مطابق حضرت ابوبکر نے اور بعد میں حضرت عمر نے اپنے لیے خواستگاری کی تو دونوں کو حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے یہ کہہ کر انکار کر دیا کہ مجھے اس سلسلے میں وحیِ الٰہی کا انتظار ہے۔ کچھ عرصہ بعد حضرت علی نے اسی خواہش کا اظہار کیا تو حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے قبول کر لیا اور کہا 'مرحباً و اھلاً۔[25]۔[26]۔[27]۔[28]۔[29]۔ بعض روایات کے مطابق حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے حضرت علی سے فرمایا کہ اے علی خدا کا حکم ہے کہ میں فاطمہ کی شادی تم سے کر دوں۔ کیا تمہیں منظور ہے۔ انہوں نے کہا ہاں چنانچہ شادی ہو گئی۔[30] یہی روایت صحاح میں عبداللہ ابن مسعود، انس بن مالک اور حضرت ام سلمیٰ نے کی ہے۔ ایک اور روایت میں حضرت عبداللہ بن مسعود سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا: اللہ نے مجھے حکم فرمایا ہے کہ میں فاطمہ کا نکاح علی سے کردوں۔[31]۔[32]
حضرت علی و فاطمہ کی شادی یکم ذی الحجہ 2ھ کو ہوئی۔[33] کچھ اور روایات کے مطابق امام محمد باقر و امام جعفر صادق سے مروی ہے کہ نکاح رمضان میں اور رخصتی اسی سال ذی الحجہ میں ہوئی۔[34]۔ ۔شادی کے اخراجات کے لیے حضرت علی نے اپنی زرہ 500 درھم میں بیچ دی۔[35] یہ رقم حضرت علی نے رسول اللہ کے حوالے کر دی جو حضرت فاطمہ کا مہر قرار پایا۔ جبکہ بعض دیگر روایات میں مہر 480 درھم تھا۔[36]
شہزادی کونین کا جہیز
جہیز کے لیے رسول اللہ نے حضرت مقداد ابن اسود کو رقم دے کر اشیاء خریدنے کے لیے بھیجا اور حضرت سلمان فارسی اور حضرت بلال کو مدد کے لیے ساتھ بھیجا۔[37] انہوں نے چیزیں لا کر حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے سامنے رکھیں۔ اس وقت حضرت اسماء بنت عمیس بھی موجود تھیں۔ مختلف روایات میں جہیز کی فہرست میں ایک قمیص، ایک مقنع (یا خمار یعنی سر ڈھانکنے کے لیے کپڑا)، ایک سیاہ کمبل، کھجور کے پتوں سے بنا ہوا ایک بستر، موٹے ٹاٹ کے دو فرش، چار چھوٹے تکیے، ہاتھ کی چکی، کپڑے دھونے کے لیے تانبے کا ایک برتن، چمڑے کی مشک، پانی پینے کے لیے لکڑی کا ایک برتن(بادیہ)، کھجور کے پتوں کا ایک برتن جس پر مٹی پھیر دیتے ہیں، دو مٹی کے آبخورے، مٹی کی صراحی، زمین پر بچھانے کا ایک چمڑا، ایک سفید چادر اور ایک لوٹا شامل تھے۔ یہ مختصر جہیز دیکھ کر رسول اللہ کی آنکھوں میں آنسو آ گئے اور انہوں نے دعا کی کہ اے اللہ ان پر برکت نازل فرما جن کے اچھے سے اچھے برتن مٹی کے ہیں۔[38]۔[39]۔[40] یہ جہیز اسی رقم سے خریدا گیا تھا جو حضرت علی نے اپنی زرہ بیچ کر حاصل کی تھی۔[41]۔[42]۔[43]۔[44]
سیدہ النساء حضرت فاطمہ سلام اللہ علیہا کی رخصتی
نکاح کے کچھ ماہ بعد یکم ذی الحجہ کو آپ کی رخصتی ہوئی۔ رخصتی کے جلوس میں حضرت فاطمہ اشہب نامی ناقہ پر سوار ہوئیں جس کے ساربان حضرت سلمان فارسی تھے۔ ازواج مطہرات جلوس کے آگے آگے تھیں۔ بنی ھاشم ننگی تلواریں لیے جلوس کے ساتھ تھے۔ مسجد کا طواف کرنے کے بعد حضرت فاطمہ کو حضرت علی کے گھر میں اتارا گیا۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے پانی منگوایا اس پر دعائیں دم کیں اور علی و فاطمہ کے سر بازؤوں اور سینے پر چھڑک کر دعا کی کہ اے اللہ انہیں اور ان کی اولاد کو شیطان الرجیم سے تیری پناہ میں دیتا ہوں[45]۔ ازواج مطہرات نے جلوس کے آگے رجز پڑھے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے خاندان عبدالمطلب اور مہاجرین و انصار کی خواتین کو کہا کہ رجز پڑھیں خدا کی حمد و تکبیر کہیں اور کوئی ایسی بات نہ کہیں اور کریں جس سے خدا ناراض ہوتا ہو۔ بالترتیب حضرت ام سلمیٰ، حضرت عائشہ اور حضرت حفصہ نے رجز پڑھے۔ ازواج مطہرات نے جو رجز پڑھے وہ اس طرح سے ہیں۔
http://www.aalmiakhbar.com/index.php?mod=article&cat=intakhabailanat&art...
Add new comment