حضرت زہرا ؑ ،نمونہ عمل
حضرت زہرا ؑ ،نمونہ عمل
انسان کی زندگی میں وقت اور زمانہ کی تبدیلی کے ساتھ ساتھ جو مختلف حالات سامنے آتے ہیں ان سے انسانی زندگی کے بنیادی اصول بالکل تبدیل نہیں ہوتے بلکہ انداز زندگی یا آپسی روابط کے ظاہری طور طریقے بدل جاتے ہیں مثلاً انسانی فطرت ہر زمانہ اور ہر نسل کے لئے بالکل ایک جیسی تھی اور رہے گی۔ الہٰی سنتیں اور وہ قوانین ہستی کہ جو انسانی زندگی پر حاکم ہیں سب کے سب ثابت اور ناقابل تغیر ہیں ۔ انسان کا اپنے خدا اور عالم فطرت(حتیٰ کہ اپنے خاندان ) سے رابطہ ایک ایسا رابطہ ہے کہ جس کے اصول ثابت ہیں اور وہ قابل تغیر نہیں ہیں ۔ لہٰذا حضرت زہرا ؑ جو تمام انسانی اقدار سے واقف تھیں اور آپ ؑ کی زندگی الہٰی اور انسانی معیاروں کے مطابق گزری تھیں آپؑ انتہائے تاریخ تک تمام انسانوں کے لئے نمونہ بن سکتی ہیں یا دوسرے الفاظ میں یوں کہا جاسکتا ہے کہ جس طرح دین ایک ثابت امر کا نام ہے اسی طرح نمونہ بھی ثابت اور دائمی ہو سکتا ہے۔ لہٰذا یہ معقول بات نہیں ہے کہ وہ جزئی مسائل کہ جن کی اپنے اعتبار سے کوئی قدر و قیمت نہیں بلکہ وہ وقت یا حالات کے تقاضوں کے تحت ابھر کر سامنے آجاتے ہیں ان کو اپنا نمونہ عمل قرار دیا جائے۔
بلکہ سیرت معصومین ؑ سے ماخوذ معیاروں اور اقدار کو اچھی طرح سمجھیں اور پھر اپنے زمانے کے مطابق ان کو اپنی زندگی میں شامل کرلیں ۔ کیا کوئی یہ دعویٰ کر سکتا ہے کہ مناسب شریک حیات کے انتخابات کا اختیار ، زندگی میں سادگی، شوہر اور زوجہ کا آپس میں ایک دوسرے کا احترام ، زندگی میں ایثار وفداکاری ، گھر کے حقوق کا دفاع ، سچائی، بچوں کی تربیت کے لئے کوشش اور محنت، معاشرہ کے بارے میں احساس ذمہ داری اور اسی طرح کے دوسرے امور ایسی چیزیں ہیں کہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ان کی قدروقیمت اور حقانیت بھی تبدیل ہو جائے گی۔ یہ سب جلوے ہمیں حضرت زہرا ؑ کی زندگی میں نمایاں طور پر نظر آتے ہیں جو ہمارے لئے ہمیشہ نمونہ¿ عمل قرار پاسکتے ہیں ۔
حقیقت یہ ہے کہ حضرت فاطمہ ؑ اور امیر المومنین ؑ کی زندگی ہر اعتبار سے دلچسپ اور نمونہ ¿ عمل ہے حضرت علی ؑ ، اسلام کی دوسری عظیم شخصیت اور پیغمبر کے داماد تھے۔ اگر حضرت علی ؑ کی کوشش اور آپکی حمایت نہ ہوتی تو اسلام اتنی آسانی سے کامیاب نہیں ہو سکتا تھا۔ جناب فاطمہ ؑ بھی بہت عظیم خاتون تھیں آپؑ پیغمبر کی بیٹی اور ان کے نزدیک قابل احترام تھیں۔ لیکن اس کے باوجود آپؑ کی زندگی بہت سادہ تھی۔ یہ دونوں حضرات یہی کوشش کرتے تھے کہ ان کی زندگی بالکل معمولی ہو نیز آسائش و آرام کے وسائل کے لحاظ سے اپنے زمانہ کے اعتبار سے کمترین سطح پر ہو۔ یہ حضرات زندگی کی مشکلات کو دوسرے لوگوں سے زیادہ برداشت کرتے تھے اور جناب فاطمہ ؑ بھی اس صورت حال سے مکمل طور پر راضی تھیں اور یہ بہت اہم بات ہے کیونکہ اس زمانہ میں بیت المال کا سرمایہ پیغمبر اسلام کے اختیار میں تھا اور آپ اس سرمایہ سے ان حضرات کی مدد کرسکتے تھے مثلا: وہ اپنی بیٹی کو مفصل جہیز دے سکتے تھے یا راہ اسلام میں حضرت علی ؑ کی زحمتوں کے شکریہ کے عنوان سے ان کی مدد کر سکتے تھے لیکن آپ نے ایسا نہیں کیا۔
حضرت فاطمہ ؑ ان اقدار کا اچھی طرح خیال رکھتی تھیں، آپ ہر مشکل کو دل و جان سے قبول کرتی تھیں، آپؑ کسی بھی طرح کا بہانہ نہیں بناتی تھیں اور نہ ہی اعتراض کرتی تھیں۔ ایک دن پیغمبر نے حضرت فاطمہ ؑ کے گھر میں ایک خوبصورت پردہ دیکھا جب آپ نماز کے لئے گھر سے باہر گئے تو جناب فاطمہ ؑ کو یہ احساس ہوگیا کہ ان کے بابا کو یہ پردہ مناسب معلوم نہیں ہوا لہٰذا آپؑ نے اسے اتارا اور امام حسن ؑ یا امام حسین ؑ کے ذریعہ رسول کے پاس مسجد میں بھیج دیا۔ یہ منظر دیکھ کر پیغمبر بہت زیادہ خوش ہوئے اور فرمایا: میری بیٹی میں نے جو چاہا تھا وہ تم نے انجام دے دیا۔ مختصر یہ کہ آپؑ کی پوری زندگی سادگی میں اپنی مثال آپ ہے اور میرے خیال کے مطابق اس کی بہت اہمیت ہے۔
یہ ایک عام بات ہے کہ ثروت مند اور سرمایہ دار حضرات غریبوں اور فقیروں کی مدد کریں اور اس طرح زندگی نہ گزاریں کہ سماج کے مختلف لوگوں میں دنیا پرستی کا شوق پیدا ہو اس کی مزید تقویت ہو اور ان کی ناراضگی کا سبب بنے۔ اسلام کسی بھی وجہ سے دنیا کی آرائشوں میں حد سے آگے بڑھ جانے کا قائل نہیں ہے بلکہ انسان جو چیز دنیا پرستی پر خرچ کرنا چاہتا ہے اسے سماجی کاموں یا فقیروں کی امداد میں خرچ کرے اور جو لوگ سیاسی یا معنوی اعتبار سے کسی عہدہ یا شخصیت کے مالک ہیں ان کو اس مسئلہ کی طرف زیادہ توجہ دینا چاہیے۔ کیونکہ یہ لوگ اگر اپنے ذاتی اور حلال مال کو دنیا کی رنگینیوں پر خرچ کریں گے یا عیش و آرام کی زندگی گزاریں گے تو دوسرے لوگ بھی ایسا ہی کریں گے اس طرح جو لوگ اچھی زندگی نہیں گزار سکتے ان کے لئے ایک مشکل کھڑی ہو جائے گی۔
اس کام کا دوسرا سماجی نقصان یہ ہے کہ لوگوں کے دینی اعتقاد اور عمل کی بنیاد کمزور ہو جائے گی۔ کیونکہ وہ سوچیں گے کہ جب ہمارے قائدین کا یہ حال ہے تو اس سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ اصل چیز سرمایہ اور مادیات ہیں اور معنویت کوئی چیز نہیں ہے۔
اگر یہ فرض کرلیا جائے کہ سماج میں کوئی فقیر اور محتاج نہ ہوتا اور عیش و عشرت اور آرائش سے دوسروں پر برا اثر نہ پڑتا تب بھی سادہ زندگی گزارنا ایک اچھی صفت اور ایک وظیفہ ہوتا۔ کیونکہ اسلام اسراف کا مخالف ہے ، لہٰذا اگر ہمارے سماج میں کوئی فقیر نہ بھی ہو تب بھی ہمارا پیسہ دنیا کی رنگینیوں اور عیش و عشرت کے بجائے سماج کی ترقی کے لئے خرچ ہو تو تمام لوگ اور ہمارا سماج ہر اعتبار سے ترقی کرے۔
اس کام کے لئے ہمیں دنیا سے لگاﺅ کم کرنا پڑے گا کیونکہ جتنا بھی دنیا سے انسان کا تعلق زیادہ ہوگا وہ اتناہی معنوی چیزوں سے دور ہوتا جائے گا البتہ دنیا طلبی صرفاً پیسہ سے لگاﺅ یا اچھی زندگی بسر کرنا نہیں ہے بلکہ دنیا سے بہت زیادہ دل لگائے رکھنا ہے۔کیونکہ عین ممکن ہے کوئی فقیر ہو لیکن اس وجہ سے نہیں کہ وہ دنیا سے بے رغبت ہے بلکہ شاید دنیا سے اس کا لگاﺅ زیادہ ہو لیکن وہ اسے حاصل نہ کر سکا ہو یا ممکن ہے کسی کے پاس معمولی سا سرمایہ ہی ہواور وہ اسی کا گرویدہ ہو اور اس کا دل اسی میں مگن ہو۔
انسان کی دنیا سے قلبی محبت ثروت حاصل کرنے کے معاملہ میں بہت زیادہ موثر ہے۔ یعنی اگر کوئی دنیا کا دلدادہ ہو تو پھر وہ اسے ہر راستہ سے حاصل کرنا چاہے گا حتیٰ کہ اسے حاصل کرنے کے لئے دوسروں پر ظلم و ستم اور گناہ سے بھی پرہیز نہیں کرے گا۔ لیکن اگر کوئی دنیا کا دلدادہ نہ ہو تو پھر وہ ناجائز راستوں کی طرف نہیں جائے گا اور دوسروں کی حق تلفی سے پرہیز کرے گا۔
حضرت زہرا ؑ جو کہ نبوت کی بیٹی اور امامت کی زوجہ تھیں اور پیغمبر اکرم اور حضرت علی ؑ کے بیان کردہ اقدار اور احکامات نیز سماجی مصلحتوں اور منافع کے پیش نظر شہزادی کائنات ؑ نے جس طرح سادگی کی زندگی گزاری اور روحانی پہلوﺅں پر خاص توجہ دی ہے اس کو پیغمبراکرم کی کامیابیوںکا ایک راز قرار دیا جاسکتا ہے۔
البتہ سادہ زندگی گزارنے کی خوبی پیغمبر کے زمانہ سے مخصوص نہیں ہے بلکہ جو لوگ مسلمان ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں اور وہ محافظ اسلام ہیں یا اسلامی دنیا کی بڑی شخصیت اور اسلام کے قائدین کے عنوان سے پہچانے جاتے ہیں ۔ لوگوں کو ان سے یہی توقع ہوتی ہے کہ وہ پیغمبر، امیر المومنین ؑ اور حضرت فاطمہ ؑ کی طرح زندگی بسر کریں۔ اگر لوگ علماءکو دنیا سے بے رغبت اور سادگی کے ساتھ زندگی گزارتے ہوئے دیکھیں تو وہ اسلامی نظام اور اس کے عہدیداروں کو پسند کرنے لگیں گے لیکن اگر وہ یہ مشاہدہ کریں کہ ان کے قول اور عمل میں تضاد پایا جاتا ہے تو ان سے دور ہو جائیں گے۔
وہ عالم دین کہ جو حضرت زہرا ؑ اور حضرت علی ؑ کے طرز زندگی کا تذکرہ کرتا ہے یا حضرت علی ؑ کی عدالت کی تعریف کرتا ہے ضعیفوں اور فقیروں کے بارے میں باتیں کرتاہے لیکن اس کا گھر اور سامان زندگی (اگرچہ حلال مال سے ہی ہو) دنیا داروں جیسا ہے تو ان کی صداقت پر لوگوں کی انگلیاں اٹھیں گی ، لوگ کہیں گے حضرت علی ؑ اور پیغمبر تو خود کام کیا کرتے تھے اور یہ بات ثابت ہے کہ ان کے کام اور تدبیر کا نتیجہ بہت اچھا تھا۔ لیکن جو بھی مال انہیں ملتا تھا وہ اسے فقیروں میں تقسیم کردیتے تھے ۔ تو لوگ حکومت کے عہدہ داروں سے بھی یہی چاہتے ہیں ۔
اس اعتبار سے ایک بڑا عہدہ دار اور دینی شخصیت کا حامل یا اسلامی مملکت کا قائد و رہبر کہ جس کے لئے ضروری ہے کہ اپنے اور اپنے گھر والوں نیز اپنے پڑوسیوں کے کام میں ان کا ہاتھ بٹائے اگر یہ صحیح انداز سے زندگی گزارے تو یہ دراصل اسلام کی تبلیغ ہے۔
البتہ کبھی کبھی بعض عورتیں ایک دوسرے کی دیکھا دیکھی اور حرص میں اپنے شوہروں کو دنیا پرستی اور تجملات دنیا کی طرف دعوت دیتی ہیں تو ان کے لئے ضروری ہے کہ حضرت زہرا ؑ کی زندگی سے سبق سیکھیں ۔ لیکن اگر خیانت کریں اور اپنے مقام اور منصب کا خیال نہ کریں تو درواقع انہوں نے اسلام پر ایک کاری ضرب لگائی ہے اور انہیں قیامت کے دن جواب دہ ہونا پڑے گا۔
سیاسی و سماجی خدمات
حضرت زہرا ؑ سیاسی اور سماجی کاموں میں مختلف مقامات پر نظر آتی ہیں ۔ جن کی امور میں شرکت، میدان جنگ میں براہ راست حاضری، فکری اور روحی اعتبار سے حضرت علی ؑ کی مدد کرنا یا تعلیمی اور تربیتی کاموں کو انجام دینا، آپؑ کے اس طرح کے بہت سے کام تھے لیکن میرے خیال میں سب سے اہم مسئلہ جس پر جناب فاطمہ ؑ کی توجہ تھی وہ ولایت علی ؑ کا دفاع تھا کہ جس پر ایک سماجی اور دینی وظیفہ کے عنوان سے آپؑ نے کام کیا مثلاً فدک کے مسئلہ میں جو جناب فاطمہ زہرا ؑ کا اصلی مقصد تھا وہ حضرت علی ؑ کی ولایت کا دفاع کرنا تھا۔ یہاں تک کہ آپؑ کی زندگی کا آخری کارنامہ جسے آپؑ نے اپنی وصیت کے ذریعہ انجام دیا تھا وہ یہ تھا کہ آپؑ کو رات کی تاریکی میں دفن کیا جائے اور قبر کو پوشیدہ رکھا جائے۔ یہ سیاسی اور سماجی کاموں میں آپؑ کی شرکت کی بہترین دلیل ہے نیز آپؑ کے عظیم مقصد او وسعت نظر کا بھی ثبوت ہے۔ کیونکہ انسان یہی پسند کرتا ہے کہ مرنے کے بعد دوسرے لوگ اس کی تشیع اور تدفین میں حاضر رہیں ، دھوم دھام سے اس کا جنازہ اٹھے، اس کی قبر پر آئیں اور اس کا نام و نشان باقی رہے۔ لیکن آپؑ نے ان تمام چیزوں کو اس مقصد پر قربان کردیا جو آپؑ کے سپرد کیا گیا تھا۔
گھریلو زندگی
حضرت زہرا ؑ گھر یلو اعتبار سے ایک ممتاز مقام کی حامل تھیں ، آپ ؑ ایسے والد کے گھر میں پیدا ہوئیں جو تمام بشریت کے لئے بہترین مربی اور ہادی تھے۔ آپؑ کی والدہ بھی کوئی عام خاتون نہیں تھیں بلکہ جناب خدیجہ ؓ ایک ایسی خاتون تھیں کہ جس زمانہ میں زیادہ تر عورتیں محروم تھیں آپؑ نے بہت بڑا تجارتی مرکز قائم کیا اور اسے اچھی طرح چلایا۔ آپؑ تجارت کے بڑے بڑے قافلے دوسرے ممالک میں بھیجا کرتی تھیں ۔ یہ تمام باتیں آپؑ کی ذاتی لیاقت کی دلیل ہیں۔ لیکن میرے نظریہ کے مطابق ان تمام باتوں میں سب سے مہم چیز آپؑ کی صحیح شناخت اور دقیق معرفت بھی دخیل ہے کہ اتنی زیادہ دولت اور سماجی مقام کے بعد بھی آپ ؑ نے پیغمبر سے شادی کے لئے درخواست کی جو اس وقت بظاہر سماجی اعتبار سے کسی خاص مقام کے حامل نہیں تھے اور مشغلہ کے اعتبار سے آپؑ کے ہی کاروان تجارت کے ساتھ گئے تھے اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ وہ انسانی صفات کی شناخت میں کتنی باریک بین اور تیز نظر کی مالک تھیں اور اس کے علاوہ آپؑ نے کتنی پر اعتمادی اور یقین محکم کے ساتھ اسے مادی فضیلتوں پر ترجیح دی اور اس کا انتخاب کیا اور جب پیغمبر اکرم رسالت کے لئے مبعوث ہوئے تو جناب خدیجہ ؓ نے اپنی تمام دولت پیغمبر اکرم کے حوالہ کردی، اسی کے سہارے اسلام کی تبلیغ کا سلسلہ آگے بڑھا۔ حضرت زہرا ؑ ایسے ماں باپ کی آغوش میں پروان چڑھی تھیں اور ایسے گھرانہ کی تربیت یافتہ تھیں جو دین کا مرکز اور تبلیغ دین کے لئے مجسم دوڑ دھوپ تھا، جب آپؑ شوہر کے گھر میں منتقل ہوئیں تو ایسے شریک زندگی کے ساتھ زندگی گزاری جس کی پرورش خود پیغمبر نے کی تھی اور وہ انسانی فضائل کا نمونہ تھے اور یہ تمام باتیں آپؑ کی ممتاز شخصیت کی تعمیر میں موثر تھیں۔
حضرت فاطمہ ؑ پیغمبر اکرم اور جناب خدیجہؓ کی بیٹی اور حضرت علی ؑ کی زوجہ، حسنین ، زینب اور ام کلثوم ؑ کی والدہ تھیں ۔ لیکن میں ان تمام باتوں کے علاوہ واضح طور پر کہنا چاہوں گا کہ ” فاطمہ ؑ فاطمہؑ تھیں “ کبھی کبھی ایک انسان کی شخصیت اس کے ماں باپ سے وابستہ ہوتی ہے لیکن حضرت فاطمہ زہرا ؑ ان تمام فضائل کی حامل ہونے کے باوجود اپنے فاطمہ ؑ ہونے کی وجہ سے فاطمہ ؑ ہیں اور یہ سب آپؑ کی ذاتی شخصیت کی بناءپر ہے۔
لیکن معصومین سے ماثور زیارتوں میںغالباً اس لئے آپؑ کے سلسلہ نسب سے آپؑ کو خطاب کیا جاتا ہے کہ اس زمانہ میں اس نسب کا بیان کرنا نیز اس رابطہ کا اظہار ضروری تھا تاکہ لوگ متوجہ ہو جائیں کہ یہ سب اہل بیت پیغمبر ہیں اور جو کچھ انہوں نے قرآن یا پیغمبر اکرم کے بیانات میں آپؑ کی شان میں سنا ہے وہ انہیں یاد آجائے۔ اسی لئے ہم تاریخ میں یہ دیکھتے ہیں کہ ائمہؑ نے اس موضوع کی بہت تاکیدکی ہے کہ اگر لوگ ان کے فضائل کو نہ سمجھ سکے تو کم سے کم ان کی فضیلت کو نہ بھولیں اور آپؑ کو اس راستہ سے پہچان لیں ۔ دوسری وجہ یہ ہے کہ جب ہم جناب فاطمہ ؑ کو بنت رسول کہتے ہیں تو اس کا مطلب یہ ہے کہ منصب نبوت کی حقیقی بیٹی۔ اس میں اور بنت محمد کہنے میں فرق ہے اور وہ یہ کہ یہاں پر جسمانی رابطہ ہمارا منظور نظر نہیں ہے بلکہ یہاں ہمارا مقصد آپؑ کی شخصیت اور معنوی رابطہ کو بتانا ہے.
Add new comment