رجب طیب اردگان

ترکی کے وزیراعظم رجب طیب اردگان نے اپنے دور اقتدار کا آغاز ہوتے ہی کچھ ایسے کاموں کو انجام دینا شروع کیا جس سے یہ تاثر لیا جائے کہ ترکی ایک مرتبہ دوبارہ خلافت عثمانیہ کی کھوئی ہوئی ساکھ کو بحال کرنے کی تگ و دو کر رہا ہے ، ان کاوشوں میں اردگان کی جانب سے ایسے اقدامات اٹھائے گئے کہ جن میں مذہبی عبادت گاہوں میں جا کر مذہبی رسوما ت میں بنفس نفیس دوسرے عوام کے ساتھ شریک ہونا، خواہ وہ کسی بھی مذہب، یا مسلک کے ہوں تاکہ تمام مذاہب اور مسالک کے لوگوں کی ہمدردیاں حاصل کی جائیں ، حتیٰ عوام ایسا محسوس کریں کہ طیب اردگان انہی کے مذہب یا مسلک کا ہی نمائندہ ہے ، اور اس مقصد میں اردگان کافی حد تک کامیاب بھی رہے، دوسرا اہم ترین کارنامہ رجب طیب اردگان نے اس وقت انجام دیا جب انہوں نے دنیا بھر کے مظلوموں کی آواز میں آواز ملاتے ہوئے مظومین فلسطین کی مدد و نصرت کے لئے عملی اقدامات اٹھائے اور فریڈم فلوٹیلا نامی ایک قافلہ روانہ کیا اور پھر جواب میں اسرائیل نے اس حریت پسندانہ قافلے کے شرکاء پر حملہ کر دیا جس کے نتیجے میں ترکی کے 9رضاکار بھی شہید ہوئے اور متعدد ممالک کے افراد زخمی ہوئے۔

بہر حال ان تمام معاملات کے بعد دنیا بھر میں ترکی کو کافی پذیرائی ملی اور حریت پسندوں نے ترکی کی خدمات کو سراہا اور اسرائیل سمیت امریکہ کی شدید مذمت کی، ترکی انتظامیہ نے بھی اپنی قومی حمیت اور عزت کو باقی رکھنے کے لئے فوری طور پر ترکی سے اسرائیلی سفارتخانہ بند کروا دیا اور اسرائیلی سفیر کو ملک سے نکل جانے کا حکم دے دیا۔یہ وہ معاملات تھے کہ دنیا بھر میں ترکی ابھر کر سامنے آیا لیکن ترکی کی یہ مقبولیت عین اس وقت مسائل اور سوالات کی زد میں آ گھری جب ترکی نے خطے کی عرب ریاستوں اور امریکہ و اسرائیل کے ساتھ مل کر خفیہ معاہدوں کے ذریعے شام پر حملے کرنے کی کوششیں شروع کر دیں اور پھر رفتہ رفتہ شام میں ہونے والی جنگ میں براہ راست ملوث ہوتا ہی چلا گیا،ترکی نے شام کے مسئلے میں امریکہ،اسرائیل اور خطے کی عرب ریاستوں کے تمام تر اقدامات کی بھرپور حمایت کی اور اس بات کی کوشش کی کہ جلد از جلد شام سے بشار الاسد کی حکومت کا خاتمہ کر دیا جائے خواہ اس کام کے لئے لاکھوں بے گناہ شامیوں کا خون بہتا ہے تو بہتا رہے، یہ وہ موقع تھا کہ جس نے ترکی کے اصل چہرے کو اب خواس ہی نہیں بلکہ عوام کے سامنے بھی عیاں کر دیا تھا، خطے میں بسنے والی ریاستوں کے خواس تو پہلے روز سے ہی ترکی کے تمام معاملات سے بخوبی آگاہ تھے اور جانتے تھے اردگان صرف اور صرف اپنی مقبولیت اور اسلامی حلقوں میں خود کو اسلام پسند کہلوانے کی کوشش کر رہا ہے جبکہ مقاصد اس کے بر عکس ہی ہیں اور وہ تمام مقاصد شام کے مسئلے کی صورت میں سامنے آ ہی گئے۔

واضح رہے کہ رجب طیب اردگان جب فریڈم فلوٹیلا بھیج رہا تھا اور پھر اس پر حملے کے بعد دنیا کے سامنے ڈھونگ رچا رہا تھا ٹھیک اسی وقت عالمی ذرائع ابلاغ میں ایسی خبریں گردش کر رہی تھیں کہ اردگان کا بیٹا اسرائیل میں خفیہ طور پر موجود ہے اور تجارتی معاہدوں میں مصروف عمل ہے۔

کیا کوئی حکومت یہ سوچ سکتی ہے کہ وہ اپنے سیاسی مفادات اور ذاتی مفادات کی خاطر اپنے ہی ملک کے عوام کو قتل کرے گی؟ امریکہ اور اسرائیل سے ایسی امید ضرور ہے کہ جو اپنے مفادات کی خاطر دوسرے ملکوں کی عوام اور انسانوں کو قتل کرنے سے دریغ نہیں کرتے وہ اپنے عوام کو کیونکر بخش دیں گے؟ اور تاریخ میں ایسا ہوا بھی ہے کہ نائن الیون کے واقعہ میں خود امریکہ اور اسرائیل براہ راست ملوث تھے، جس کے ثبوت اب ذرائع ابلاغ میں آنا بھی شروع ہو چکے ہیں۔

خیر یہاں بات ہے ترکی کی حکومت کی کہ جو خودکو مسلمانوں کی فلاح کا علمبردار بھی سمجھتی ہے لیکن افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ ترکی حکومت کا رویہ اس کے بر عکس ہی رہا ہے۔حال ہی میں ایک ایسی خفیہ ویڈیو ٹیپ منظر عام پر آئی ہے کہ جس نے ترک حکومت کی دھجیاں اڑا کر رکھ دی ہیں اور ترکی کی مقبول خود مختاری سمیت دیگر مقبولیتوں کی قلعی کھول کر رکھ دی ہے۔اس ویڈیو ٹیپ میں کہ جو ترکی میں سوشل ویب سائٹ یو ٹیوب کو بند کئے جانے کے باعث نہیں دیکھی جا سکتی ہے ، اس میں brazenly نامی ایک حکومتی کا اعلیٰ عہدیدار ترکی کے عوام کو قتل کرنے کی باتیں کر رہا ہے۔

خود انٹیلی جنس سربراہ Hakan Fidan کے الفاظ ریکارڈ پر موجود ہیں کہ جنہوں نے کہا ہے کہ اردگان انتظامیہ ترکی پر ایک میزائل حملہ کرنے کی منصوبہ بندی کر رہی ہے تا کہ جنگ کا ماحول پید اکیا جا سکے، Hakan Fidan کاکہنا ہے کہ ترک انتظامیہ یہ کام صرف اس لئے انجام دینا چاہتی ہے کیونکہ ترکی حکومت شام میں بھاری مقدار میں اسلحہ بھیج رہی ہے اور اس کوشش میں ہے کہ اگر ترکی پر ایک میزائل حملہ کر دیا جائے اور کچھ لوگوں کا قتل ہو جائے تو ترکی کو موقع ملک جائے گا کہ وہ شام کے ساتھ براہ راست جنگ کا اعلان کر دے۔ Hakan Fidan کاکہنا ہے کہ یہ انتہائی تکلیف دہ بات ہے کہ ایک حکومت خود اپنے ہی لوگوں کے قتل کروانے کی حرکت کر سکتی ہے، یقیناًیہ انتہائی سنجیدہ اور افسوس ناک عمل ہے۔

سنہ2013ء اور 2014ء میں ترکی میں کرپشن اور بد عنوانی شدت سے بڑھ گئی ہے، ماضی قریب میں بھی ترکی کا ایک نوجوان غازی پارک پر ترک انتظامیہ کے تسلط کے خاتمے کے حوالے سے ہونے والے احتجاجی مظاہروں کے دوران ایک دکان پر بریڈ خریداری کرتے ہوئے پولیس کی گولیوں کا نشانہ بن کر شہید ہو گیا تھاجس کے بعد ترکی کے مختلف علاقوں میں ترکی حکومت کے خلاف زبردست احتجاجی مظاہرے شروع ہو گئے تھے۔سنہ2014ء کے آغاز میں ہی اپوزیشن کی جانب سے اردگان کے خلاف کئی ایک ایسے ثبوت فراہم کئے گئے ہیں کہ جن سے واضح ہوتا ہے کہ کرپشن کس انتہا کو پہمچ چکی ہے۔اسی طرح ایک اور ٹیپ کہ جس کی تصدیق ماہرین نے کی تھی اس میں اردگان کا بیٹا ایک بھاری مقدار کی رقم کی منتقلی کی بات کررہا تھا۔

ترکی میں سوشل ویب سائٹ پر لگائی جانے والی پابندی بھی اردگان کی ایک ایسی ہی ٹیپ کی تصدیق کے بعد لگائی گئی ہے کہ جس میں اردگان انتظامیہ ترکی پر حملہ کرنے کی منصوبہ بندی کی باتیں کرتے ہوئے پائے گئے ہیں جس کا تذکرہ مقالے کی درج بالا سطور میں کیا گیا ہے، ترکی کی قومی سلامتی کمیٹی نے فوری طور پر سوشل ویب سائٹ کو بند کر دیا ہے اور کوشش کی جا رہی ہے کہ ترکی کو کسی طرح اس خطر ناک مسئلے سے نکالا جائے۔ترک قومی سلامتی کے لئے یہ بات انتہائی خطر ناک ثابت ہوئی ہے کہ ترک انتظامیہ خود ہی اپنے ملک کی خود مختاری کو داؤ پر لگانا چاہتی تھی اور اپنے ہی وطن میں بسنے والے بے گناہ اور معصوم انسانوں کا خون بہا کر ملک کوخانہ جنگی کی طرف لے جا نا چاہتی تھی۔

یاد رکھنا چاہئیے کہ دنیا کے وہ تما م ممالک جو نیٹو کے اتحادی ہیں اور جو عراق میں بد ترین مظالم کے مرتکب ہوئے ہیں ان ممالک کے حکمرانوں کی اپنی نہ تو کوئی حکمت عملی ہے اور نہ ہی ان کے نزدیک قومی سلامتی کی کوئی اہمیت اور نہ ہی اپنے وطن کے انسانوں کی زندگی کی کوئی قیمت ہے اس لئے اس طرح کے واقعات غیر متوقع نہیں ہیں۔

دوسری جانب ترکی کے وزیر خارجہ احمد داؤد اوگلو نے اپنے ہی ملک کے انٹلی جنس سربراہ کی جانب سے خفیہ ٹیپ کہ جس میں ترکی پر ایک میزائل حملے کی منصوبہ بندی کی گئی ہے کے بارے میں کہا ہے کہ یہ ترکی کے ساتھ سنگین غداری کے مترادف ہے، حیرت انگیز بات ہے کہ ترکی کے وزیر خارجہ نے ایک ایسی ٹیپ کہ جس میں ترکی حکومت خود اپنے ہی ملک پر میزائل حملے کی منصوبہ بندی کر رہی تھی کے بارے میں کافی لا پرواہی سے کام لیتے ہوئے ایک ایسے شخص پر غداری کا الزام عائد کیا ہے کہ جس نے ترک انتظامیہ کے اصل اور مکروہ چہرے کو نہ صرف ترکی کی عوام کے سامنے بلکہ پوری دنیا کے سامنے عیاں کر دیا ہے۔

خلاصہ یہ ہے کہ اب ترکی کے عوام کو فیصلہ کرنا ہوگا کہ وہ کیا چاہتے ہیں کیا وہ بد عنوان او ر ترکی کے عوام کو قتل کرنے کے منصوبے بنانے والوں کو اپنا رہنما مانیں گے،اور ترکی کی انتظامیہ کی جانب سے بنائے جانے والے ترکی پر میزائل حملے کے منصسوبے کے حوالے سے ٹیپ جاری ہونا ترکی کا دفاع ہے نہ کہ غداری ،یہ ہے اردگان اور اس کی حکوم کی حقیقت کہ جو خود اپنے ہی عوام کا قتل عام کر کے ملک پر جنگ مسلط کروانے کی منصوبہ بندی کر رہا تھا۔اب فیصلہ ترکی کے عوام کو کرنا ہو گا ۔

تحریر: صابر کربلائی
شفقنا اردو

Add new comment