ام البنین ﴿س﴾
امیرالمومنین حضرت علی ﴿ع﴾ اور ام البنین ﴿س﴾ کی شادی
امیرالمومنین علی ﴿ع﴾ رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی دختر اور تمام جہان کی خواتین کی سردار ٕ امامت اور ولایت کے راستے کی پہلی شہیدہ حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کی شہادت کے بعد اپنے بھائی عقیل ابن ابی طالب علیہ السلام کہ جو عرب میں حسب و نسب کے حوالے سے شہرت رکھتے تھے کو بلایا اورکہا کہ عرب کے ایک بہادر قبیلہ سے ان کے لئے ایک ہمسر کا انتخاب کریں تاکہ ان کے بطن سے ایک بہادر اور باوفا بیٹا پیدا ہوکہ جو سرور سالار شہیدان کی کربلا میں نصرت میں مدد کر سکے۔
عقیل نے فاطمہ کلابیہ﴿س﴾ کا انتخاب کیا کیوں کہ ان کا قبیلہ اور خاندان ۛۛ ۛ بنی کلاب ۛ ۛ عرب میں بے نظیر شہرت کا حامل تھا اور اپنی شجاعت اوت بہادری میں تمام عرب میں زبان زد عام تھا۔امیر مومنین علیہ السلام نے بھی اس انتخاب کو پسند کیا اور اپنے بھائی عقیل کے ذریعے شادی کا پیغام پہنچایا۔آپ کے والد نے جیسے ہی اس پیغام کو سنا فوراً خوشی کے عالم میں اپنی بیٹی فاطمہ کلابیہ ﴿س﴾ کے پاس آئے اور اپنی بیٹی کو یہ پیغام سنایا اور ان سے پوچھا کہ آیا وہ اس بابرکت وصلت کے لئے رضا مند ہیں ؟ انہوں نے نہایت سر بلندی سے اپنی رضامندی کا اظہار کیا اور اس طرح آپ ہمیشہ کے لئے امام المتقین علی علیہ السلام کی زوجیت میں آگئیں۔
ام البنین سلام اللہ علیھا اور دو سبط پیامبر ﴿صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ﴾
جب جناب ام البنین ﴿س﴾ نے مولائے کائنات علیہ السلام کے بیت اشرف میں قدم رکھتے ہی آستان مقدس کا بوسہ لیااور شہزادوں کی خدمت میں عرض کی ۛ ۛ میں تمہاری ماں بن کر نہیں آئی ہوں بلکہ ایک کنیز کی حیثیت سے آئی ہوں ۛ ۛ
ان کے کہے گئے ان الفاظ سے اس با ت کا ثبوت ملتا ہے کہ ام البنین ﴿س﴾ مولائے کا ئنات علیہ السلام کے علاوہ صدیقہ طاہرہ سلام اللہ علیھا کی عظمت سے بھی باخبر تھیں انہیں یہ معلوم تھا کہ فاطمہ سلام اللہ علیھا اس جلیل القدر خاتون کا نام ہے کہ جس کے عقد کا خصوصی اہتمام خود خالق کائنات نے بالا ئے عرش کیا تھا۔ام البنین﴿س﴾ عرفان کامل کی منزل پر فائز تھیںآپ ایمان کامل اور نیک صفات کی مالک تھیں کہ جن سے امام علی ﴿ علیہ السلام ﴾ بھی با خبر تھے ۔
رسول خدا ﴿ٕص﴾ کے فرزند آپ کے مقدس وجود میں اپنی ماں کو دیکھتے تھےاور اپنی والدہ کی شہادت کے واقعہ کی شدت کا کم احساس کرتے تھے۔ام البنین﴿س﴾حضرت فاطمہ سلام اللہ علیھا کے بچوں کو اپنے بچوں پر فضیلت دیتی تھیںاور اپنے بچوں کی نسبت ان سے زیادہ محبت کا اطہار کرتیں تھیں۔
تاریخ نے اس خاتون کے علاوہ ٕ بہت ہی کم ایسے ناموں کا ذکر کیا ہے کہ جنہوں نے دوسرے بچوں کواپنے بچوں پر اس قدر زیادہ فضیلت اور برتری دی ہو۔لیکن ام البنین﴿س﴾ رسول خدا ﴿ص﴾کے بچوں کی تربیت کو اپنا دینی فریضہ سمجھ کر ادا کرتی رہیںکیونکہ پردگار عالم نے اپنی مقدس کتاب میں مسلسل اہل بیت ﴿ع﴾ سے محبت کا ذکر کیا ہے ، اور رسول خدا کی جانب سے بھی متواتر احادیث موجود ہیں کہ جن میں اپنی اہل بیت ﴿ع﴾ سے محبت کا ذکر ملتا ہے اور یہ صرف فرزند رسول خدا ﴿صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم﴾ نہیں تھے بلکہ ریحانہ بتول سلام اللہ علیھا کی آنکھوں کی ٹھنڈک اور ان کے دل کا قرار تھے۔اور اس بات کا ام البنین ﴿س﴾ کو بہت اچھی طرح سے اندازہ تھا اسی وجہ سے انہوں نے حسنین ﴿ع﴾ اور جناب زینب ﴿س﴾ کی خدمت میں اور ان کی پرورش میں کسی بھی قسم کی کوتاہی نہیں کی اور دل و جان سے اس کو مقدس ترین فرض سمجھ کر انجام دیا۔
تاریخ میں ملتا ہے کہ جب جناب ام البنین ﴿س﴾نے شادی کے بعد گھر میں قدم رکھا تو اس وقت دونوں بچے اپنی والدہ محترمہ کی جدائی کی شدت سے بہت زیادہ بیمار تھے اور جب آپ نے اس صورت حال کو دیکھا توحضرت علی ﴿ٕ علیہ السلام ﴾ سے درخواست کی کہ مجھے فاطمہ کے نام سے کہ جو ان کا اصلی نام تھا نہ پکاریں کیونکہ یہ نام سن کر بچوں کو ان کی ماں کی یاد آ ئیگی اور اس طرح وہ گذرے ہوئے تلخ واقعات کو کبھی نہیں بھلا سکیں گے اور دوسری طرف ان بچوں کو بے انتہا محبت دی اور ایک ماں کی طرح ان کی خدمت کی ۔
ام البنین ﴿س﴾ اور اہل بیت علیہ السلام
فرزندان فاطمہ ﴿سلام اللہ علیھا ﴾سےآپ کی مخلص اور بے انتہا محبت ور آپ کے فرزندوں کی اسلام کے لئے شہادت تاریخ میں سنہرے الفاظ سے لکھی گئی ہے۔اہل بیت ﴿علیہ السلام﴾ بھی آپ﴿س﴾کی عظیم شخصیت کے قائل تھے اور آپ کا بہت زیادہ احترام کرتے تھے۔حضرت زینب کبریٰ ﴿سلام اللہ علیھا﴾جب کربلا کے دلخراش واقعے اور شام کی قید گزار کر مدینہ آئیں تو سب سے پہلے ام البنین ﴿س﴾ کے پاس آئیں اور ان سے ان کے بیٹوں کی شہادت پر افسوس کا اظہار کیا۔
بانو نے رو کے پوچھا علم دار کیا ہوئے
بولے تمہاری بیٹی پہ پیاسے فدا ہوئے
شبیر کے حقوق سب ان سے ادا ہوئے
ہم مبتلائے صدمۂ شرم و حیا ہوئے
اس بے کسی میں سوگ کا سامان کیا کریں
عباس کے یتیموں پہ احسان کیا کریں
اور اس کے علاوہ اعیاد اور مختلف موقعوں پر اہل بیت ﴿علیہ السلام﴾ آپ کے پاس آتے تھے کہ یہ اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ اہل بیت ﴿ علیہ السلام ﴾آپ کی عظیم شخصیت اور اعلی مقام کے قائل تھے اور آپ کا بہت زیادہ احترام کرتے تھے۔
فرزندان ام البنین ﴿س﴾
قمر بنی ہاشم ، ابو الفضل حضرت عباس علیہ السلام کے جن کو غازی کربلا کے لقب سے بھی یاد کیا جاتا ہے آپ ﴿س﴾ کے سب سے پہلے فرزند ہیں اور اس کے بعد عبداللہ جعفر اور پھر عثمان جسے فرزندوں سے خدا نے آپ کو نوازا کہ سب کربلا میں اپنے امام حسین علیہ السلام پر نثار ہو گئے یہ آپ ہی کی بہترین تربیت تھی کہ جس نے انہیں اپنے امام﴿ علیہ السلام ﴾کی نصرت کے لئے ذرہ برابر بھی کربلا میں پیچھے ہٹنے نہیں دیا ۔
جب بشیر امام سجاد علیہ السلام کے حکم سے مدینہ میںد خل ہواتاکہ لوگوں کو کربلا کے جاں گداز واقعہ اور اسرا آل عبا کی واپسی کے بارے میں مطلع کرے۔جب وہ اس واقعہ کا اعلان کر ہی رہا تھا کہ ام البنین ﴿س﴾ وہاں آگئیں اور فرمایا ۛ ای بشیر إ امام حسین ﴿ علیہ السلام ﴾ کا کیا حال ہے ؟ ۛبشیر نے کہا ۛ اے ام البنین ﴿س﴾ إ خدا آپ کو صبر عطا کرے ۔ تمہا رے عباس کو قتل کردیا گیا ۛ ام البنین نے کہا ۛ مجھ کو امام حسین علیہ السلام کی خبر سناوٴ ۛاس طرح بشیر ایک ایک فرزند کی شہادت کی خبر دیتا رہا اور آپ مسلسل صرف امام حسین علیہ السلام کی خیریت پوچھتی رہیں اور کہا ۛ میں تجھ سے امام حسین علیہ السلام کے بارے میں پوچھ رہی ہوں اور تو مجھے میرے بیٹوں کی شہادت کی خبر سنا رہا ہے میرے بیٹےاور جو کچھ بھی اس کائنات میں ہے سب میرے حسین علیہ السلام پر فدا إ یہ سننا تھا کہ اس نے امام حسین علیہ السلام کی شہادت کی خبر سنائی اس خبر کا سننا تھا کہ ام البنین ﴿س﴾ نے ایک آہ بھری اور کہا جس کا عباس جیسا بھائی ہو تو اُسے کیسے شہید کیا جا سکتا ہے؟
اے بشیر إ تو نے میرے دل کی رگوں کو پارہ پارہ کردیا اور شدت سے گریہ و زاری کرنے لگیں۔
علامہ سماوی اپنی کتاب ابصار العین میں لکھتے ہیں کہ ام البنین ﴿س﴾بقیع کے قبرستان میں جاتیں تھیں اور اس طرح سے مرثیہ خوانی کرتیں تھیں کہ مروان جیسا شقی القلب بھی آپ کے مرثیہ کو سن کر روتا تھا ۔
ام البنین ﴿س﴾ کے مصائب
امام علی علیہ السلام کی زوجہ محترمہ فاطمہ کلابیہ کے آپ علیہ السلام سے چار فرزند تھے کہ جن کی وجہ سے آپ کو ام البنین کہا جاتا تھا ۔مورخین لکھتے ہیں کہ امام علی علیہ السلام کی اپنے بھائی عقیل سے مخصوصاً یہ سفارش تھی کہ میرے لئے ایسے قبیلے سے ہمسر کا انتخاب کریں جو شجاع ترین قبیلہ ہواور میرے لئے ایک شجاع فرزند پیدا کرے ﴿ولدتھا الفحولة ﴾ ﴿لتلد لی ولدا شجاعا ﴾ اور ارث میں شجاعت لے کر آٴے ۔اس طرح ام البنین ﴿س﴾ سے شادی کے بعد چار بیٹے پیدا ہو ئے کہ جن میں سب سے بڑے حضرت عباس علیہ السلام تھے ۔جب واقعہ کربلا پیش آیا تو حضرت عباس علیہ السلام نے اپنے بھا ئیوں سے کہا کہ میں چاہتا ہوں کہ تم سب میرے سے پہلے میدان میں جاوٴ اور شہید ہو تاکہ میں بھائیوں کی شہادت کو درک کر سکوں ۔انہوں نے بھائی کے امر کی اطاعت اور اپنی جانوں کا نذرانہ اپنے مظلوم امام ﴿ع﴾ کی خدمت میں پیش کیا۔
ام البنین ﴿س﴾ اپنے چاروں جوان اور بہادر شجاع بیٹوں کو یاد کر کے کبھی عراق کے راستے میں اور کبھی بقیع کے قبرستان میں مرثیہ خوانی کرتیں کہ جن کو سن کر ہر قساوت القلب شخص بھی رونے لگتا تھا آپ ﴿س﴾ فرماتی تھیں
اے مدینہ کی عورتوإ مجھے ام البنین نہ کہنا جب تم مجھے اس نام سے پکارتی ہو تو مجھے اپنے شیر جیسے بیٹے یاد آجاتے ہیں جب میرے بیٹے زندہ تھے تو میں ام البنین تھی اب ان میں سے کوئی بھی زندہ نہ رہا ۔
ام البنین ﴿س﴾ کا مقام
تمام مسلمان مخصوصاً شیعہ آپ ﴿س﴾ کے لئے ایک مخصوص مقام کے قائل ہیں۔اور اگر کوئی ضرورت مند شخص خداوند متعال کی بارگاہ میں آپ ﴿س﴾ کو اپنا شفیع اور واسطہ بنا کر اپنی حاجات کے دور ہونے کا سوال کرتا ہے تو خدا اس کو کبھی بھی خالی ہاتھ نہیں لوٹاتا ۔اس لئے سختی اور درماندگی میں اس فداکار ماں کو اپنا شفیع اور واسطہ بنا ئیں یہ ایک طبیعی بات ہے کہآپ کا مقام خدا کی نظر میں بہت بلند ہے کیونکہ آپ نے اپنے بیٹوں کو مخلصانہ خدا اور اس کے دین کی راہ میں قربان کر دیا ہم کبھی بھی آپ ﴿س﴾ کی دی گئی ان قرابنیوں کو فراموش نہیں کریں گے۔
یامن رای العباس کر علی جماھیر النقد
اے وہ لوگو! کہ جس نے اپنی آنکھوں سے دیکھا کہ میرا عباس﴿ع﴾کس طرح پست صفت لوگوں پر حملہ کرتا تھا۔
وورائہ من ابناء حیدر کل لیث ذی لبد
اس کے پیچھے فرزندان حیدر شیر کے مثل کھڑے رہتے تھے ۔
انبئت ان ابنی اصیب براسہ مقطوع ید
مجھے خبر دی گئی ہے کہ جب اس کے ہاتھ قلم ہوگئے تب سر پر گرز لگا ۔
ویل علیٰ شبلی اما لبراسہ ضر ب العمد
افسوس میرے بیٹے کے سر پر گرزگراںپڑا۔
لوکان سیفکئ فی ید یکئ لمادنا منکئ احد
(اے عباس! )اگر تیرے ہاتھ میں تلوار ہوتی تو تیرے پاس کوئی نہیں آتا۔
عباس فاطمہ کی تمنا کا نام ہے عباس کا جہان میں اعلیٰ مقام ہے
بارہ امام مذہبِ اسلام کے ہوئے یہ مذہب ِوفا کا اکیلا امام ہے
http://www.shiacenter.org/urdu/index.php?option=com_content&view=article...
Add new comment