حضرت زینبؑ کی زندگی پر ایک نظر

1۔ زینب سلام اللہ علیہا کی نام گذاری
اہل مدینہ کو سیدہ کی ولادت کی خوشخبری ایسے وقت میں ملی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سفر پر تھے۔ سیدہ فاطمۂ زہراء سلام اللہ علیہا نے اپنے شریک حیات امیرالمؤمنین علی علیہ السلام سے کی خدمت میں عرض کیا: والد ماجد سفر پر ہیں لہذا اس لڑکی کے لئے کوئی نام منتخب کریں۔ فرمایا: ميں آپ کے والد سے سبقت نہیں لیتا ہم انتظار کرتے ہیں کہ آپ (ص) مدینہ واپس تشریف لائیں گے تو جو آپ (ص) چاہیں گے اپنی بچی پر وہی نام رکھیں گے۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم تشریف فرما ہوئے تو آپ (ص) سے درخواست کی گئی کہ نورسیدہ کے لئے نام چن لیں۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا: فاطمہ (س) کے فرزند اگرچہ میرے فرزند ہیں لیکن ان کام معاملہ خدا کے ساتھ ہے چنانچہ میں حکم خداوندی کا انتظار کروں گا۔ جبرائیل امین علیہ السلام نازل ہوئے اور عرض کیا: یا رسول اللہ (ص)! خداوند متعال کا فرمان ہے کہ اس بچی کا نام "زینب" رکھیں کیونکہ ہم نے یہ نام لوح محفوظ پر مرقوم کیا ہے۔

2۔ حضرت زینب سلام اللہ علیہا کے القاب
آپ (س) کو عقیلہ بنی ہاشم کہا جاتا ہے اور عقیلہ ایسی کریمہ اور عظیم خاتون کو کہا جاتا ہے جو اپنے خاندان اور اقرباء میں بہت عزیز اور محترم و ارجمند ہو۔
صدیقۂ صغری آپ (ع) کا دوسرا لقب ہے یعنی بہت زیادہ سچ بولنے والی خاتون اور صدیقۂ صغری اس لئے کہ آپ (س) کی والدہ ماجدہ سیدہ فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کا لقب صدیقہ کبری ہے جبکہ علی علیہ السلام صدیق اکبر ہیں۔
عصمت صغری بھی آپ (س) کا لقب ہے کیونکہ پاکدامنی اور گناہ سے دوری کا وصف اللہ تعالی نے آپ (س) کو عطا فرمایا تھا جبکہ آپ (س) کی والدہ "عصمت اللہ الکبری" ہیں۔
ولیۃاللہ اور امینۃ اللہ بھی آپ (س) کے القاب ہیں۔
عالمۂ غیرِ مُعَلَّمہ بھی آپ کا لقب ہے۔ یعنی وہ عالمہ جس نے سے کسی سے پڑھ کر علم حاصل نہیں کیا بلکہ اس کا علم خداداد ہے۔
3۔ سیدہ زینب سلام اللہ علیہا کے کمالات
سیدہ کے کمالات کثیر ہیں: جمال اور وقار و عظمت و کرامت میں محسنۂ اسلام ام المؤمنین سیدہ خدیجۃالکبری سلام اللہ علیہا کی شبیہ تمام نما تھیں اور عصمت و حیا و پاکدامنی میں اپنی والدہ سے شباہت کاملہ رکھتی تھیں۔ فصاحت و بلاغت میں اپنے والد امیرالمؤمنین علی علیہ السلام کی تصویر تھیں اور حلم و صبر و بردبار میں بھائی امام حسن مجتبی علیہ السلام کے شبیہ تھیں جبکہ شجاعت، قوت قلبی میں بھائی سیدالشہداء امام حسین علیہ السلام کی مانند تھیں۔
4۔ سیدہ زینب سلام اللہ علیہا کی تربیب و پرورش
سیدہ زینب سلام اللہ علیہا نے نبوت عظمی اور ولایت کبری کی آغوش میں تربیت پائی؛ معلم وحی کے مبارک لبوں سے علم حاصل کیا، کرامت کی گود میں پروان چڑھیں اور خمسۂ طیبہ (پنچتن پاک) سے ادب سیکھا۔
5۔ زینب سلام اللہ علیہا کی یکتا پرستی
سیدہ زینب سلام اللہ علیہا طفولیت کے دور میں والد ماجد باب مدینۃالعلم حضرت امیرالمؤمنین علی علیہ السلام کی گود میں بیٹھ جایا کرتی تھیں اور امیرالمؤمنین علیہ السلام کو بولنا سکھایا کرتے تھے۔ ایک دفعہ آپ (ع) نے بیٹی سے فرمایا: کہو "ایک" (احد)، سیدہ نے کہا: واحد اور جب مولا نے فرمایا کہ کہو "اثنان" (دو)، تو سیدہ خاموش رہ گئیں۔ مولا نے فرمایا: اے میری آنکھوں کی روشنی، کہو "اثنان"۔ اچانک سیدہ نے بولنا شروع کیا اور عرض کیا: پدرجان! جس زبان سے ایک بار لفظ "احد" جاری ہوجاتا ہے وہ لفظ اثنان کو کس طرح ادا کرسکتی ہے!؟ امام (ع) جانتے تھے کہ سیدہ کی مراد اللہ کی وحدانیت کا اقرار ہے چنانچہ بیٹی کو گلے لگایا اور پیارکیا۔
6۔ زین اب
بعض لوگوں کا خیال ہے کہ زینب ایک خوبصورت اور خوشبو درخت کا نام ہے اور بعض دوسروں کا کہنا ہے کہ "زینب" دو الفاظ یعنی "زین" اور "اب" کا مجموعہ ہے یعنی اپنے والد کی زینت اور والد کے لئے باعث فخر۔ اسی وجہ سے آپ (س) کو "زین ابیہا" (باپ کی زینت) بھی کہا جاتا ہے جس طرح کہ سیدہ فاطمہ سلام اللہ علیہا کو "ام ابیہا" (باپ کی ماں) کا لقب ملا ہے۔
7۔ اللہ کی بندگی
سیدہ زینب سلام اللہ علیہا کو عظمت و شجاعت اور قوت قلب اللہ تعالی سے ارتباط اور اللہ کی ذات پر توکل سے حاصل ہوئی تھی۔ دربار یزید میں تاریخی خطاب، جو بنی ابی سفیان کی حکمرانی کے لئے تباہ کن ثابت ہوا اور یزید کی رسوائی کا سبب بنا، اور اس مسموم فضا میں نہی عن المنکر، سفر شام کے تمام مراحل میں حیا و عفت و پاکدامنی کی بھرپور حمایت اور تمام مراحل میں فرائض الہیہ پر عمل، حتی کا نماز تہجد تک کو ترک نہ کرنا، سیدہ زینب سلام اللہ علیہا کی بندگی کے جلووں میں سے ہیں۔
8۔ بھائی بہن کی بے مثل دوستی
سیدالشہداء امام حسین علیہ السلام اور سیدہ زینب سلام اللہ علیہا کی باہمی دوستی اور محبت ان دو بزرگواروں کی پوری زندگی پر محیط ہے:
بـچی تھیں تو امام حسین (ع) کے ساتھ سو کر سکون پاتیں۔
بچپن ہی سے امام حسین علیہ السلام کے چہرہ مبارک کی مسلسل زیارت جاری رکھی۔
شادی کا وقت ہوا تو عبداللہ بن جعفر کے ساتھ شرط رکھی کہ آپ (ع) کو ہر روز گھر آنے اور امام حسین علیہ السلام کی زیارت کرنے کی اجازت ہوگی اور زندگی میں ایسا کوئی دن ہوگا جب آپ (س) نے اپنے بھائی کی زیارت نہ کی ہو۔ اور یہ سلسلہ عصر عاشور تک جاری رہا اور شام تک جب سر حسین (ع) نیزے پر تھا اور آپ (س) اونٹ کی پشت پر، اسیری کا سفر کررہی تھیں۔
9۔ سیدالشہداء علیہ السلام کی ہم سفر
سفر کا سب کو علم تھا کیونکہ امام حسن اور امام حسین اور حضرت زینب اور حضرت ام کلثوم سلام اللہ علیہم اجمعین کی ولادت کے دن ہی رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے سب کو ان کی شہادت اور اسیری کی پیشن گوئی کی تھی اور سب جانتے تھے کہ ایک تاریخی سفر امام حسین علیہ السلام کو درپشی ہے چنانچہ مؤرخین اور سیرت نگاروں نے لکھا ہے کہ حضرت زینب سلام اللہ علیہا نے عبداللہ بن جعفر کے ساتھ شادی کے رشتے میں منسلک ہوتے وقت یہ شرط بھی رکھی تھی کہ اس سفر کا وقت آن پہنچے گا تو آپ (س) کو امام حسین علیہ السلام کی ہمراہی کی اجازت ہوگی اور عبداللہ نے یہ شرط بھی قبول کرلی اور وقت آیا تو اپنی شرط پر کاربند رہے۔
10۔سیدہ زینب سلام اللہ عليہا کی دانش
امام سجاد علیہ السلام فرماتے ہیں کہ خدا کی قسم ہماری پھوپھی زینب سلام اللہ علیہا عالمۂ غیرِ مُعَلَّمہ ہیں چنانچہ تاریخ گواہ ہے کہ آپ (س) کی دانش کی حد یہ تھی کہ مدینہ کی بہت سی خواتین آپ (س) کی خدمت میں حاضر ہوکر تفسیر قرآن کا درس لیا کرتی تھی اور جیسا کہ عرض ہوا آپ (س) کی دانش کسی مدرسے یا مکتب سے حاصل نہیں ہوئی تھی۔ امام سجاد علیہ السلام نے مسجد کوفہ میں کوفیوں سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا: میری پھوپھی الہی عالمہ ہیں اور اللہ تعالی نے معرفت کے شفاف چشمے آپ (س) کے قلب مطہر پر جاری فرمائے ہیں۔

Add new comment