اہلبیتؑ کو بنو امیہ کی گالیاں،ثبوت9
ثبوت نمبر 9: معاویہ ابن ابی سفیان کا الحسن ابن علی کی موت پر خوش ہونا
سنن ابو داود، کتاب 32، حدیث 4119:
مقدام بن معدیکرب معاویہ ابن ابنی سفیان کے پاس آئے تو معاویہ بن ابی سفیان نے المقدام بن معدی کرب سے کہا: کیا تمہیں علم ہے کہ الحسن بن علی مر گئے ہیں؟ اس پر مقدام بن معدی کرب نے قرآنی آیت پڑھی انا للہ و انا الیہ راجعون۔ ایک آدمی [لفظ فلاں استعمال ہوا ہے اور مراد معاویہ ابن ابی سفیان خود ہے] نے کہا:تو کیا تم اس[الحسن ابن علی]کے مرنے کو ایک مصیبت تصور کر رہے ہو ؟ اس پر مقدام نے جواب دیا: "میں اسے مصیبت کیسے نہ جانوں جبکہ رسول ص الحسن کو اپنی گود میں لیتے تھے اور کہتے تھے کہ الحسن مجھ سے ہے جبکہ الحسین علی سے ہیں۔
اس ہر بنی اسد کے آدمی نے [معاویہ کی خوشنودی کے لیے] کہا: [الحسن] ایک جلتا ہوا انگارہ تھا جسے اللہ نے بجھا دیا۔
اس روایت میں یہ جہاں "فلاں" کا لفظ استعمال ہوا ہے وہاںمراد بذات خود معاویہ ہے [جیسا کہ مسند احمد بن حنبل میں معاویہ کا لفظ مروی ہے، مگر امام ابو داؤد نے اسے فلاں کے لفظ سے تبدیل کر دیا ہے]۔ یعنی یہ معاویہ ابن ابنی سفیان ہے جو امام حسن علیہ السلام کے مرنےکو مصیبت قرار دے رہا ہے۔
مولانا شمس الحق نے سنن ابو داؤد کی شرح لکھی ہے "عون المعبود" کے نام سے جو کہ تمام سلفی ویب سائٹس پر موجود ہے۔ مثلاhttp://hadith.al-islam.comجو کہ سلفی حضرات کی مستند ترین ویب سائٹس میں شمار ہوتی ہے۔
اس روایت کے ذیل میں عون المعبود میں یہ شرح دی گئی ہے [آنلائن لنک]:
فقال له فلان ) وفي بعض النسخ وقع رجل مكان فلان والمراد بفلان هو معاوية بن أبي سفيان رضي الله تعالى عنه والمؤلف لم يصرح باسمه وهذا دأبه في مثل ذلك وقد أخرج أحمد في مسنده من طريق حيوة بن شريح حدثنا بقية حدثنا بحير بن سعد عن خالد بن معدان قال وفد المقدام بن معد يكرب وفيه فقال له معاوية أيراها مصيبة الحديث( أتعدها ) وفي بعض النسخ أتراها أي أنعد يا أيها المقدام حادثة موت الحسن رضي الله تعالى عنه مصيبة والعجب كل العجب من معاوية فإنه ما عرف قدر أهل البيت حتى قال ما قال فإن موت الحسن بن علي رضي الله عنه من أعظم المصائب وجزى الله المقدام ورضي عنه فإنه ما سكت عن تكلم الحق حتى أظهره وهكذا شأن المؤمن الكامل المخلص
ترجمہ:
۔۔۔ (فقال لہ فلان) اور کچھ جگہ لفظ فلاں کی جگہ لفظ "رجل" استعمال کیا گیا ہے، اور اس فلاں سے مراد معاویہ ابن ابی سفیان رضی اللہ تعالی ہیں۔ جیسا کہ مؤلف [امام ابو داؤد] یہ معلوم نہیں ہونے دیتے چونکہ یہ انکی عادت ہے۔ احمد [امام احمد بن حنبل] اپنی مسند میں حیوۃ بن شریح سے بیان کرتے ہیں جو بقیۃ سے اور جو بحیر بن سعد سے اور وہ خالد بن معدان سے بیان کرتے ہیں : “اور معاویہ نے ان سے کہا:تو کیا تم اس[الحسن ابن علی]کے مرنے کو ایک مصیبت تصور کر رہے ہو ؟۔۔۔۔
۔۔۔بعض جگہ پر(أتعدها)اور بعض جگہ پر(أتراها)یعنی کیا تم دیکھتے ہو ، تصور کرتے ہو الحسن ابن علی کی موت کو ایک مصیبت؟
تعجب پر تعجب(انتہائی تعجب)ہے امیر معاویہ کے اس قول پر۔ انہوں نے اہلبیت کی قدر نہ پہنچانی حتی کہ ایسی بات کہہ دی۔ حسن بن علی رضی اللہ عنہ کی موت یقینا بہت بڑی مصیبت تھی اور اللہ حضرت مقدام رضی اللہ عنہ کو جزائے خیر دے اور ان سے راضی ہو کہ انہوں نے کلمہ حق ادا کرنے میں خاموشی اختیار نہ کی اور اسے اعلانیہ کہہ دیا۔ مومن کامل و مخلص کی یہی شان ہے۔ بنو اسد کے شخص نے جو کچھ کہا وہ معاویہ رضی اللہ عنہ کی رضا اور تقرب حاصل کرنے کے لیے تھا۔ اُس نے یہ سخت گھٹیا بات اس وجہ سے امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے سامنے کہی تھی کہ(امام حسن کی موجودگی میں)امیر معاویہ کو اپنی خلافت کے زوال کا خوف تھا۔
یہی الفاظ مولانا خلیل احمد صاحب نے بذل المجہود، شرح سنن ابی داؤد میں اسی روایت کی تشریح کرتے ہوئے درج کیے ہیں۔ وہ لکھتے ہیں:
“اسدی نے یہ بات معاویہ کی رضا اور تقرب حاصل کرنے کے لیے کہی تھی۔ جب حضرت مقدام نے اس شخص کی بات سنی جو اس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے نواسے کی شان میں گستاخی کرتے ہوئے امیر معاویہ کی خاطرداری کے لیے کہی تھی، تو حضرت مقدام امیر معاویہ سے کہنے لگے کہ میں یہان سے آج ہرگز نہ ہلوں گا جب تک آپ کو غصہ نہ دلاؤں اور آپ کو ایسی بات نہ سناؤں جو آپ کو ناپسند ہو جس طرح کہ آپ نے مجھے ایسی بات سنائی جو مجھے پسند نہیں۔
اور برصغیر کے مشہور اہلحدیث عالم دین مولانا وحید الزمان خانصاحب اس روایت کے ذیل میں حاشیہ میں لکھتے ہیں:
امام حسن علیہ السلام کے انتقال پر معاویہ کو یہ کہنا کہ یہ مصیبت نہیں ہے مبنی تھا اوپر تعصب کے علی اور اولاد علی سے۔ راضی ہو اللہ اپنے رسول کے اہل بیت سے اور ہمارا حشر ان کے ساتھ کرے۔ امین۔
روایت میں آگے بیان ہے کہ حضرت مقدام نے امیر معاویہ کو قسم دلا کر پوچھا کہ کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے مردوں کو سونے کا زیور اور ریشم پہننے سے منع نہیں فرمایا اور خدا کی قسم یہ چیزیں آپ کے گھر کے لوگ استعمال کرتے ہیں۔ اس کی شرح میں صاحبِ عون المعبود فرماتے ہیں:
فَإِنَّ أَبْنَاءَك وَمَنْ تَقْدِر عَلَيْهِ لَا يَحْتَرِزُونَ عَنْ اِسْتِعْمَالهَا وَأَنْتَ لَا تُنْكِر عَلَيْهِمْ وَتَطْعَن فِي الْحَسَن بْن عَلِيّ
ترجمہ:
“آپ کے لڑکے اور گھر کے مرد (یزید وغیرہ) ان اشیاء کے استعمال سے پرہیز نہیں کرتے اور آپ ان پر نکیر نہیں کرتے۔ اور ادھر آپ حضرت حسن پر طعن کرتے ہیں۔"
http://www.wilayat.net/index.php/ur/%D9%BE%D8%B1%D8%A7%D8%AC%DB%8C%DA%A9...
Add new comment