اہلبیتؑ کو بنو امیہ کی گالیاں،ثبوت3

ثبوت نمبر 3:
ابن کثیر الدمشقی، کتاب البدایہ و النہایہ، حلد7، صفحہ341، باب فضائل علی ابن ابی طالب
وقال أبو زرعة الدمشقي‏:‏ ثنا أحمد بن خالد الذهبي أبو سعيد، ثنا محمد بن إسحاق، عن عبد الله بن أبي نجيح، عن أبيه قال‏:‏ لما حج معاوية أخذ بيد سعد بن أبي وقاص‏.‏فقال‏:‏ يا أبا إسحاق إنا قوم قد أجفانا هذا الغزو عن الحج حتى كدنا أن ننسى بعض سننه فطف نطف بطوافك‏.‏قال‏:‏ فلما فرغ أدخله دار الندوة فأجلسه معه على سريره، ثم ذكر علي بن أبي طالب فوقع فيه‏.‏فقال‏:‏ أدخلتني دارك وأجلستني على سريرك،ثم وقعت في علي تشتمه ‏؟‏والله لأن يكون في إحدى خلاله الثلاث أحب إلي من أن يكون لي ما طلعت عليه الشمس، ولأن يكون لي ما قال حين غزا تبوكاً ‏(‏‏(‏إلا ترضى أن تكون مني بمنزلة هارون من موسى إلا أنه لا نبي بعدي ‏؟‏‏)‏‏)‏أحب إلي مما طلعت عليه الشمس، ولأن يكون لي ما قال له يوم خيبر‏:‏ ‏(‏‏(‏لأعطين الراية رجلاً يحب الله ورسوله ويحبه الله ورسوله يفتح الله على يديه، ليس بفرار‏)‏‏)‏ ‏(‏ج/ص‏:‏ 7/377‏)‏أحب إليّ مما طلعت عليه الشمس، ولأن أكون صهره على ابنته ولي منها الولد ماله أحب إليّ من أن يكون لي ما طلعت عليه الشمس، لا أدخل عليك داراً بعد هذا اليوم، ثم نفض رداءه ثم خرج‏.‏
 
ترجمہ:
ابو زرعہ الدمشقی عبداللہ بن ابی نجیح کے والد سے روایت کرتے ہیں کہ جب معاویہ نے حج کیا تو وہ سعد بن ابی وقاص کا ہاتھ پکڑ کر دارالندوہ میں لے گیا اور اپنے ساتھ تخت پر بٹھایا۔ پھر علی ابن ابی طالب کا ذکر کرتے ہوئے انکی عیب جوئی کی۔ اس پر سعد بن ابی وقاص نے جواب دیا: "آپ نے مجھے اپنے گھر میں داخل کیا، اپنے تخت پر بٹھایا،پھر آپ نے علی ابن ابی طالب کے حق میں بدگوئی اور سب و شتم شروع کر دیا۔خدا کی قسم، اگر مجھے علی کے تین خصائص و فضائل میں سے ایک بھی ہو تو وہ مجھے اس کائنات سے زیادہ عزیز ہو جس پر سورج طلوع ہوتا ہے۔ کاش کہ نبی اللہ ص نے میرے حق میں یہ فرمایا ہوتا جب کہ آنحضور ص غزوہ تبوک پر تشریف لے جا رہے تھے تو آپ نے علی کے حق میں فرمایا:"کیا تم اس پر راضی نہیں کہ تمہیں مجھ سے وہی نسبت ہے جو کہ ہارون کو موسی سے تھی سوائے ایک چیز کہ میرے بعد کوئی نبی نہ ہو گا۔ یہ ارشاد میرے نزدیک دنیا و مافیہا سے زیادہ محبوب تر ہے۔ پھر کاش کہ میرے حق میں وہ بات ہوتی جو آنحضور ص نے خیبر کے روز علی کے حق میں فرمائی تھی کہ "میں جھنڈا اس شخص کو دوں گا جو اللہ اور اسکے رسول سے محبت رکھتا ہے اور اللہ اور اسکا رسول ص اس سے محبت رکھتے ہیں۔ اللہ اسکے ہاتھ پر فتح دے گا اور یہ بھاگنے والا نہیں [غیر فرار]۔ یہ ارشاد بھی مجھے دنیا و مافیہا سے زیادہ عزیز تر ہے۔ اور کاش کہ مجھے رسول ص کی دامادی کا شرف نصیب ہوتا اور آنحضور ص کی صاحبزادی سے میرے ہاں اولاد ہوتی جو علی کو حاصل ہے، تو یہ چیز بھی میرے لیے دنیا و مافیہا سے عزیز تر ہوتی۔ آج کے بعد میں تمہارے گھر کبھی داخل نہ ہوں گا۔ پھر سعد بن ابی وقاص نے اپنی چادر جھٹکی اور وہاں سے نکل گئے۔"
نوٹ:
یہ صحیح روایت ہے۔ مخالفین نے پھر بھی اس میں شک ڈالنے کے لیے ایک راوی احمد بن خالد پر اعتراض کرنے کی کوشش کی ہے۔ مگر یہ راوی احمد بن خالد انتہائی ثقہ ہیں اور ان کی ضعیف ثابت کرنے کی کوئی کوشش کامیاب نہیں ہو سکتی۔ انکے متعلق ائمہ رجال کے اقوال:
الذھبی: امام، محدث، ثقہ [سر اعلام النبلاء جلد 9، صفحہ 539]
امام یحیی ابن معین: ثقہ [تہذیب الکمال جلد 1، صفحہ 301]
امام ابن حبان نے ان کا اپنی کتاب "الثقات" میں شامل کیا ہے [جلد 8، صفحہ 6]
امام ابن ماجہ نے احمد بن خالد سے روایات نقل کی ہیں اور سعودیہ کے شیخ البانی نے ان احادیث کو صحیح قرار دیا ہے [سنن ابن ماجہ، جلد 2، حدیث 3188]

http://www.wilayat.net/index.php/ur/%D9%BE%D8%B1%D8%A7%D8%AC%DB%8C%DA%A9...

Add new comment