اہل تشیع اور متبرک مقامات
اولیائے الہی سے منسوب اشیاء کو اپنے لئے باعث برکت سمجھنا کوئی ایسا جدید مسئلہ نہیں ہے جو مسلمانوں کے درمیان آج پیدا ہوا ہو بلکہ اس کی بنیادیں رسول خداۖ اور ان کے صحابہ کے زمانے میں دکھائی دیتی ہیں . اس عمل کو نبی اکرمۖ اور ان کے اصحاب ہی نے انجام نہیں دیا ہے بلکہ گزشتہ انبیاء ٪ بھی ایسا ہی کرتے تھے اب ہم آپ کے سامنے اس عمل کے جائز ہونے کے سلسلے میں قرآن مجید اور سنت پیغمبرۖسے چنددلیلیں پیش کرتے ہیں:
١۔قرآن مجید میں ہم پڑھتے ہیں کہ جس وقت حضرت یوسفـ نے اپنے بھائیوں کے سامنے خود کو پہچنوایا اور ان کے گناہوں کو معاف کردیا تو یہ فرمایا:
(اِذْہَبُوا بِقَمِیصِ ہَذَا فََلْقُوہُ عَلیٰ وَجْہِ َبِ یَْتِ بَصِیرًا)(١)
میری یہ قمیص لے کر جاؤ اورمیرے بابا کے چہرے پر ڈال دو کہ انکی بصارت پلٹ آئے گی.
اور پھرقرآن فرماتا ہے:
(فَلَمَّا َنْ جَائَ الْبَشِیرُ َلْقَاہُ عَلَیٰ وَجْہِہِ فَارْتَدَّ بَصِیرًا)(٢)
اور اس کے بعد جب بشارت دینے والے نے آکر قمیص کو یعقوب کے چہرے پر ڈال دیا تو وہ دوبارہ صاحب بصارت ہوگئے .
قرآن مجید کی یہ آیتیں گواہی دے رہی ہیں کہ ایک نبی (جناب یعقوبـ) نے دوسرے نبی (جناب یوسفـ) کی قمیص کو باعث برکت سمجھا تھا اور یہی نہیں بلکہ حضرت یعقوبـ کا یہ عمل ان کی بصارت کے لوٹنے کا سبب بنا تھا. کیا یہاں پر یہ کہا جاسکتا ہے کہ ان دو انبیاء کے اس عمل نے انہیں توحید اور عبادت خدا کے دائرے سے خارج کردیا تھا!؟
٢۔اس بات میں کوئی شک نہیں ہے کہ رسول خداۖ خانہ کعبہ کا طواف کرتے وقت
(١)سورہ یوسف آیت:٩٣
(٢)سورہ یوسف آیت:٩٦
انہوں نے جواب دیا:
''رایت رسول اللہ ۖ یستلمہ و یقبلہ ''(١)
میں نے رسول خداۖ کو دیکھا ہے کہ وہ حجر اسود کو سلام کررہے تھے اور بوسے دے رہے تھے.
اگر ایک پتھر کو سلام کرنا اور بوسے دینا شرک ہوتا تو نبی اکرمۖ ہرگز اس عمل کو انجام نہ دیتے.
٣۔صحیح، مسنداور تاریخی کتابوںمیں بہت سی ایسی روایات ہیں جن کے مطابق صحابۂ کرام آنحضرتۖ سے منسوب اشیاء جیسے آپۖ کا لباس، آپ کے وضو کا پانی اور برتن وغیرہ کو باعث برکت سمجھتے تھے اگر ان روایات کا مطالعہ کیا جائے تو اس عمل کے جائزہونے میں کسی بھی قسم کی تردید باقی نہیں رہے گی.
اگرچہ اس بارے میں وارد ہونے والی روایات کی تعداد زیادہ ہے اور سب کو اس مختصر کتاب میں پیش کرنا ممکن نہیں ہے لیکن پھر بھی یہاں ہم ان میں سے بعض روایتوں کو نمونہ کے طور پر پیش کررہے ہیں :
الف: بخاری نے اپنی کتاب صحیح میں آنحضرتۖ اور ان کے اصحاب کے خصوصیات کو بیان کرنے والی ایک طولانی روایت کے ضمن میں یوں نقل کیا ہے:
''واذا توضّأ کادوا یقتتلون علیٰ وضوئہ''(٢)
(١)صحیح بخاری جزئ٢ کتاب الحج باب تقبیل الحجر ص ١٥١ اور ص ١٥٢ طبع مصر.
(٢)صحیح بخاری جلد٣ باب مایجوز من الشروط ف الاسلام باب الشروط ف الجہاد والمصالحة ص ١٩٥
جس وقت پیغمبر خداۖ وضو کرتے تھے تو نزدیک ہوتا تھا کہ مسلمان آپۖ کے وضوکے پانی کو حاصل کرنے کے لئے آپس میں جنگ شروع کردیں.
ب:ابن حجر کہتے ہیں کہ:
''اِنّ النب ۖ کان یؤت بالصبیان فیبرک علیھم''(١)
بے شک نبی اکرم ۖ کی خدمت میں بچوں کو لایا جاتا تھا اور آنحضرتۖ اپنے وجود کی برکت سے انہیں بھی بابرکت بنا دیتے تھے.
ج:محمد طاہر مکی کہتے ہیں: ام ثابت سے روایت ہوئی ہے وہ کہتی ہیں: کہ رسول خداۖ میرے ہاں تشریف لائے اور آپ نے دیوار پر آویزاں ایک مشک کے دھانے سے کھڑے ہو کر پانی نوش فرمایا یہ دیکھ کر میں اپنی جگہ سے اٹھی اور میں نے اس مشک کے دھانے کو کاٹ کر اپنے پاس رکھ لیا اور پھر اضافہ کرتے ہوئے کہتے ہیں : اسی حدیث کو ترمذی نے نقل کرتے ہوئے کہا ہے کہ یہ حدیث صحیح اور حسن ہے اور کتاب ریاض الصالحین میں اس حدیث کی شرح میں کہا گیا ہے کہ ام ثابت نے مشک کے دھانے کو اس لئے کاٹ لیا تھا تاکہ وہ اس جگہ کو اپنے پاس محفوظ کرلیں جہاں سے پیغمبر اکرمۖ نے پانی نوش فرمایا تھا کیونکہ وہ اسے باعث برکت سمجھتی تھیںاسی طرح صحابہ کی بھی یہی کوشش رہتی تھی کہ وہ اس جگہ سے پانی پئیں جہاں سے پیغمبراکرمۖ نے پانی پیا ہو.(٢)
(١)الاصابة جلد١ خطبہ کتاب ص٧ طبع مصر
(٢)تبرک الصحابہ (محمد طاہر مکی) فصل اول ص٢٩ترجمہ انصاری.
''کان رسول اللّہ ۖ اِذا صلیٰ الغداة جاء خدم المدینة بآنیتھم فیھا الماء فما یُؤتی بانائٍ اِلا غمس یدہ فیھا فربما جاؤوہ ف الغداة الباردة فیغمس یدہ فیھا ''(١)
رسول خدا ۖ جب نماز صبح سے فارغ ہوجاتے تو مدینہ کے خادم پانی کے برتن لئے آنحضرتۖ کی خدمت میں آتے تھے اور آپ ۖ ان سب برتنوں میں اپنا ہاتھ ڈبو دیتے تھے بعض اوقات تو وہ لوگ ٹھنڈک والی صبح میں آنحضرت ۖ کی خدمت میں پہنچ جاتے تھے لیکن پھربھی آنحضرت ۖ ان کے برتنوں میں ہاتھ ڈبو دیتے تھے. (٢)
گذشتہ دلائل کی روشنی میں یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ اولیائے الہی سے منسوب اشیاء کو باعث برکت قرار دینا ایک جائز عمل ہے اور وہ لوگ جو شیعوں پر اس عمل کی وجہ سے تہمت لگاتے ہیں وہ توحید اور شرک کے معنی کو اچھی طرح سے سمجھ نہیں پائے ہیں کیونکہ شر ک کے معنی یہ ہیں کہ خدا کی عبادت کے ساتھ کسی دوسرے کو بھی خدا سمجھا جائے یا یہ عقیدہ ہو کہ خدائی امور اس کے سپرد کردئیے گئے ہیں اور وہ اپنے وجود اور
(١)صحیح مسلم جزء ٧ کتاب الفضائل باب قرب النبیۖ من الناس و تبرکھم بہ، ص٧٩.
(٢)مزید معلومات کے لئے درج ذیل کتابوں کا مطالعہ فرمائیں:
صحیح بخاری، کتاب اشربہ ،مؤطا مالک جلد١ ص١٣٨ باب صلوة علی النبیۖ، اسدالغابة جلد٥ ص٩٠، مسند احمد جلد٤ ص ٣٢، الاستیعاب (الاصابة) کے حاشیے میں جلد٣ ص ٦٣١، فتح الباری جلد١ صفحہ ٢٨١ اور ٢٨٢.
تاثیر رکھنے میں خدا سے بے نیاز ہے.
جبکہ شیعہ اولیائے الہی اور ان سے متعلق اشیاء کو خدا کی مخلوق اور اس کا محتاج سمجھتے ہیں اور وہ اپنے اماموں اور دین کے پرچمداروں کے احترام اور ان سے سچی محبت کے اظہار کے لئے ان بزرگوں کو باعث برکت قرار دے کر ان سے فیض حاصل کرتے ہیں .
شیعوں کا پیغمبر اسلامۖ اور ان کے اہل بیت ٪ کے حرم میں جاکر ان کی ضریح مقدس کو بوسہ دینا یا حرم کے در ودیوار کو مس کرنا صرف اس وجہ سے ہے کہ ان کے دل پیغمبرخداۖ اور ان کی عترت کے عشق سے سرشار ہیں اور یہ عشق ہر انسان کی فطرت میں پایا جاتا ہے اور یہ ایک انسانی محبت کاجذبہ ہے جو ہر محبتی انسان کے اندر ظاہر ہوتا ہے : اس بارے میں ایک شاعر کہتا ہے:
أمر علیٰ الدیار دیار سلمیٰ اقبل ذاالجدار و ذالجدار ا
وما حُبّ الدیار شغفن قلب ولکن حُبّ مَن سکن الدیارا
میں جب سلمیٰ کے دیار سے گزرتا ہوں تو اس دیوار اور اس دیوار کے بوسے لیتا ہوںاس دیار کی محبت نے میرے دل کولبھایا نہیں ہے بلکہ اس دیار کے ساکن کی محبت نے میرے قلب کو اسیر کرلیا ہے۔
Add new comment