سقیفہ ایک نظر میں
امت اسلامیہ کے درمیان جو اختلاف ظاھر ھوا یہ اس بات کی دلیل ھے کہ مسلمانوں کی ایک بڑی تعداد کے پاس صحیح اسلامی عقیدہ کما حقہ موجود نہیں تھا اور دوسرے یہ کہ اسی اختلاف کی بنیاد پر اسلامی حکومت میں کجروی پہیلی اور مسلمانوں کے درمیان آج تک اس کے جو مھلک نتائج سامنے آرھے ہیں وہ سب اسی کی دین ہیں-
جس دور میں رسول اکرم کی وفات ہوئی ھے اس کے فورا بعد متضاد قسم کے حادثات اچانک رونما ھوتے چلےگئے- لہٰذا اس دور میں جناب فاطمہ(سلام اللہ علیھا) کے درخشندہ کردار کا جائزہ لینے کےلئے پہلے ھمیں اس وقت کے عام حالات کے ساتھ ساتھ ان حادثات کا بھی گھرائی سے مطالعہ کرنا ھوگاتاکہ اس کے ذریعہ اس دور میں امت اسلامیہ کی صحیح صورتحال اور اس کے اندر موثر اور ایک دوسرے پر اثر انداز ہونے والی طاقتوں کا بخوہی اندازہ لگایا جاسکے،جن کی وجہ سے بطور عموم اور اہل ہیت طاھرین(علیہم السلام) اورخاص طور سے شہزادی کائنات(علیہاالسلام) پرجو ظلم و ستم اورزیادتی ہوئی ان پر اس کا کیا اثر ھوا، اس سلسلہ میں سب سے پہلے سقیفہ کا واقعہ سامنے آتا ھے اور اس کے بعد رونما ہونے والے تمام واقعات میں اس کا بنیادی کردار ھے-
ادھر مولائے کائنات(علیہ السلام)، اہل ہیت(علیہم السلام) پیغمبر(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)، بنی ہاشم(علیہم السلام) اور ان کے سب چاھنے والے تو نبی اکرم(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے غسل و کفن اور دفن میں ہی مصروف تھے کہ اس موقعہ سے ان عناصر نے غلط فائدہ اٹھالیا کہ جن کے منھ میں پیغمبر(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خلافت کو دیکھ کر پانی آچکا تھا، اور پیغمبر اکرم(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اللہ تعالیٰ کے جو اوامر و نواہی پھنچائے تھے انہیں ان کی کوئی پرواہ بھی نہیں تھی-
اب ھمارے سامنے دو طرح کے طرز عمل ہیں:
۱-عمر بن خطاب پیغمبر اکرم کے گھر کے چاروں طرف موجود، غمزدہ مسلمانوں کے درمیان چیخ چیخ کر یہ کہہ رھے ہیں: پیغمبر اکرم(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا انتقال نہیں ھوا ھے اور اس کے ساتھ ساتھ جو ایسی بات آپنی زبان سے نکالے اسے،دھمکی بھی دے رھے ہیں اور وہ آپنی اس بات پر اس وقت تک اڑے رھے جب تک ابوبکر مدینہ کے باھر سے وھاں نہیں پھنچ گئے-
۲-دوسری طرف سقیفہ بنی ساعدہ کے اندر انصار، سعد بن عبادہ خزرجی کی سرکردگی میں اکٹھا ہیں-
اس بات پر مورخین و محدثین کااتفاق ھے کہ عمر کا یہ انداز اس وقت تک باقی رھا جب تک ابوبکر نہ آگئے اور انھوں نے یہ آیت پڑھ کر نہیں سنادی:<وما محمد الّا رسول قد خلت من قبله الرسل اٴفان مات اٴو قتل انقلبتم علی اٴعقابکم ومن ينقلب علی عقبيه فلن يضرّالله شيئاً و سيجزی الله الشاکرين>اور محمد(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تو صرف ایک رسول ہیں جن سے پہلے بہت سے رسول گذرچکے ہیں کیا اگر وہ مرجائیں یا قتل ھوجائیں تو تم الٹے پاوٴں پلٹ جاوٴگے جو بھی ایسا کرے گا وہ خدا کا کوئی نقصان نہیں کرے گا اور خدا تو عنقریب شکر گذاروں کو ان کی جزا دے گا-
جس سے عمر کا غصہ ٹھنڈا پڑ گیا اور وہ ابوبکر کے ساتھ نبی اکرم(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے گھر سے نکل کر چلےگئے اور آنحضرت(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے جنازہ کو ان کے غمزدہ گھر والوں کے درمیان یونہی چھوڑ دیا-
قرائن اور تاریخ و سیرت سے اس بات کی تائید ھوتی ھے کہ یہ دونوں وھاں سے نکل کر سیدھے اس جگہ پھنچے جسے انھوں نے وقت ضرورت اور ھنگامی پایسی تیار کرنے کےلئے پہلے سے طے کر رکھا تھا، دوسری طرف اکثر انصار، جن میں سعد بن عبادہ بھی شامل تھے ان کے حساب سے تو رسول اکرم کے بعد صرف حضرت علی کو ہی خلیفہ ھونا چاہیئے تھا جب کہ عام مسلمانوں کا خیال بھی یہی تھا کہ خلافت حضرت علی کے علاوہ کسی اور کے پاس نہیں جاسکتی ھے-
لیکن جب انصار کو یہ معلوم ھوا کہ بڑے بوڑھے(پرانے)مھاجرین نے اس کارخ موڑنے اور اس پر قبضہ کرنے لئے باقاعدہ ایک گروپ تیار کر رکھا ھے اور وہ رسول اکرم(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی تمام تاکیدوں کو پس پشت ڈال کر خلافت کی باگ ڈور کو راہ حق سے منحرف کر کے اس میں آپنے اس نئے قرشی معاھدہ(پلاننگ) کے ذریعہ جاہلیت کی روح پھونکنے اور قبائیلی تنازعات کو دوبارہ زندہ کرنے کے درپے ہیں تو وہ بھی خلافت کی دوڑمیں کود پڑے کیونکہ انھوں نے پیغمبر اسلام اور آپ کی تبلیغ کےلئے آپنی جان و مال کی ایسی قربانی دی تھی کہ اتفاقا خلافت پر قبضہ جمانے کا منصوبہ بنانے والے مھاجرین میں سے کسی ایک نے بھی ایسی قربانی پیش نہیں کی تھی چنانچہ جب انصار کو اس بات کا پورا یقین ھوگیا تو ان میں سے کچھ لوگ سعد بن عبادہ کی سر کردگی میں خلافت کے بارے میں غور و خوض کرنے کےلئے سقیفہ بنی ساعدہ میں جمع ھوگئے اور انہیں میں سے کچھ لوگوں نے خلافت کےلئے سعد بن عبادہ کا نام پیش کرنا شروع کردیا- اُدھرجب یہ خبر بعض ایسے انصار کے ذریعہ مھاجرین تک پھنچ گئی جن کی سعد سے ان بن رہتی تھی اور وہ سعد کے مفاد کے خلاف کام کیا کرتے تھے تو مھاجرین آپنی جگہ سے اٹھ کر تیزی کے ساتھ سقیفہٴ بنی ساعدہ میں پھنچ گئے، چنانچہ انصار کی طرف سے ایک مقرِر کھڑا ھوا اور اس نے اسلا م کی راہ میں انصار کے ایثار و قربانی کے ساتھ ساتھ مھاجرین کے اوپر ان کے احسانات کا تذکرہ کرنے کے بعد ان سے یہ خواھش کی کہ وہ ان کی تمام جانفشانیوں سے چشم پوشی نہ کریں اور اس میں ان کا بھی کچھ حق ھونا چاہئے اس کے بعد ابوبکر کھڑے ھوئے اور انھوں نے قریش کی عظمت و بزرگی کی تعریف کے پل باندھنا شروع کر دئے اوران کے ذھنوں کواسلام سے پہلے عربوں کے درمیان رائج طریقوں اورحسب و نسب پر فخر ومباھات کی طرف موڑ دیا-
عقد الفرید کی روایت کے مطابق انھوں نے یہ کھا: ھم مھاجرین سب سے پہلے اسلام لانے والے حسب و نسب کے اعتبار سے ھر ایک سے برتر،بستی کے ہیچوں و ہیچ رھنے والے، اور سب سے زیادہ خوبصورت اور رشتہ داری کے لحاظ سے رسول اللہ سے سب سے قریب ہیں پھر مزید یہ کھا:
عرب قریش کے اس قہیلہ کے علاوہ کسی کی فرمانبرداری قبول نہیں کرسکتے ہیں لہٰذا جس چیز میں اللہ تعالیٰ نے تمھارے مھاجر بھائیوں کو فضیلت بخشی ھے اس میں ان سے مقابلہ نہ کرو، لہٰذا میں تمھارے لئے ان دونوں میں کسی ایک کےلئے راضی ھوں یہ کہہ کر انھوں نے عمر بن خطاب اور ابو عہیدہ جراح کی طرف اشارہ کیا ابوبکر نے فرصت کو غنیمت سمجھا اور وہ اسی طرح قریش اور خاص طور سے مھاجرین کی تعریفوں کے پل باندھتے رھے- کیونکہ بشیر بن سعد خزرجی کو آپنے ابن عم(سعد بن عبادہ)سے حسد تھا لہٰذا ایک کونے سے ان کی یہ آواز ابھری: اے لوگو: یہ دہیان رھے کہ حضرت محمد(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا تعلق قریش سے ھے لہٰذا ان کے قہیلہ والے ان کی جانشینی کے زیادہ حقدار ہیں اور خدا کی قسم، اللہ مجھے کبھی بھی اس معاملہ میں ان سے اختلاف کرتے ھوئے نہیں دیکھے گا-
حباب بن منذر خزرجی کو آپنے ابن عم کی یہ دھوکہ بازی اور حسد بھرا انداز ہیحد ناگوار گذرا تو انھوں نے کھا: بشیر بن سعد کو یہ جلن ہوگئی ھے کہ نہی(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بعد سعد بن عبادہ آنحضرت(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے جانشین اور خلیفہ بن جائیں لہٰذا انھوں نے ایسا انداز آپنایاکہ جس کے بارے میں کوئی بھی سعد کے استحقاق اور ان کی اولویت پر انگلی نہیں اٹھا سکتا پھر انھوں نے بشیر کی طرف رخ کرکے کھا: اے بشیر تمہیں یہ سب کرنے کی کیا ضرورت تھی؟ یقینا تم نے امت کی سر براہی کے معاملہ میں آپنے ابن عم سعد بن عبادہ سے حسد کیا ھے-
یہ اختلافات یہیں ختم نہیں ھوئے بلکہ قہیلہٴ اوس کے ایک سردار اسید بن حضیر نے کھڑے ھوکر دور جاہلیت کے دبے ھوئے کینے ابھارنا شروع کردئے اور قہیلہ اوس و خزرج کے درمیان جن اختلافات کو اسلام نے دبا دیا تھا اس نے وہ گڑے مردے پھر سے اکھاڑنا شروع کردئے اور اوس کو مخاطب کرکے یہ کھا: اے اوس کے ہیٹو! اللہ کی قسم اگر تم نے ایک بار بھی سعد کو آپنا حاکم تسلیم کرلیا تو خزرج والوں کو تم پر فوقیت حاصل ھوجائے گی اور وہ تمہیں کبھی بھی اس میں حصہ دار نہیں ہونے دیں گے-
ابوبکر نے بشیر بن سعد کے بھڑکانے والے ان جملات کو غنیمت سمجھا اور ایک ہاتھ سے عمر اور دوسرے ہاتھ سے ابوعہیدہ کا ہاتھ پکڑ کر یہ آواز لگائی اے لوگو! یہ عمر ہیں اور یہ ابو عہیدہ ہیں لہٰذا تم ان میں سے جس کی ہیعت کرنا چاھو کرسکتے ھو، ان تینوں کی رچی ہوئی پالیسی کو دیکھ کر حباب بن منذر نے کھڑے ھوکر کھا: اے میرے انصار بھائیو! آپنے ہاتھ کہینچ لو اور اس کے اور اس کے ساتھیوں کی بات ھرگز نہ سنناورنہ وہ تمھارے حق پر قبضہ کرلیں گے، یہ سن کر عمر بن خطاب کو غصہ آگیا انھوں نے جھلا کر کھا: ھم(حضرت) محمد(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے دوست اور ان کے خاندان والے ہیں ان کی حاکمیت و سلطنت میں ھمارے مدمقابل کون اسکتا ھے؟ مگر یہ کہ جو ناحق طریقہ سے گناہ کا سھارا لیتے ھوئے ھلاکت میں پڑجائے؟
حباب بن منذر نے دوٹوک انداز میں جب عمر بن خطاب کا یہ چیلنج سنا تو ایک بار پھر انصار کی طرف رخ کرکے کھا: اگر یہ تمھارا مطالبہ نہ مانیں تو انہیں اس شھرسے باھر نکال دو، اللہ کی قسم تم اس کے ان سے زیادہ حقدار ھو تمھاری تلواروں کے زور پر ہی لوگوں نے اسلام قبول کیا ھے یہ کہہ کر انھوں نے تلوار نکال لی اور اسے ھوا میں لھراتے ھوئے کھامیں باتجربہ اور واقف کار ھوں، اس کے اوپر بوجھ روکنے والا ھوں اور اللہ کی قسم اگر تم چاھو تو میں اسے اس کی پرانی شکل میں پلٹادوں گا-
یہ سن کر عمر بن خطاب کا غصہ بھڑک اٹھا اور ابھی دونوں کے درمیان فتنہ کی آگ بھڑکنے ہی والی تھی کہ ابو عہیدہ جراح نے کھڑے ھوکر کھا: اے گروہ انصار: آپ ہی لوگ وہ تھے جنھوں نے سب سے پہلے مدد اور پشت پناہی کی لہٰذا سب سے پہلے رخ پہیرنے اور بدل جانے والے نہ ھوجانا اور پھر وہ ان سے ایسے پر التماس اندازمیں گذارش کرتے رھے کہ جس سے انصار کچھ ٹھنڈے پڑگئے اور انصار اسی طرح دو دھڑوں میں بٹے ھوئے تھے کہ اس گفتگو کے بعد حضرت عمر بڑی تیزی کے ساتھ ابوبکر کی طرف بڑھے اور ان سے کھا اے بوبکر آپنا ہاتھ بڑھایئے،
کسی کو یہ حق نہیں ھے کہ اللہ نے تمہیں جو مقام اور مرتبہ عنایت فرمایا ھے اسے کم کرسکے، اس کے بعد ابو عہیدہ نے یہ کھا: تم مھاجرین میں سب سے افضل ھو اور پیغمبر(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے یار غار اور نماز میںرسول اللہ(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے خلیفہ ھو، تو ابوبکر صاحب نے ان دونوں کے سامنے آپنے ہاتھ پہیلادئے اور ان دونوں نے ابوبکر کی ہیعت کرلی اس کے فورا بعد بشیر بن سعد اور کچھ خزرجیوں نے بھی ہیعت کرلی اورپھر اسید بن حضیر اور اوس کے کچھ لوگوں نے بھی ان کی ہیعت کرلی اور ابوبکر کا نعرہ لگاتے ھوئے سقیفہٴ بنی ساعدہ سے باھر نکل گئے اور راستہ میں جس کے پاس سے بھی گذرتے تھے اس کا ہاتھ پکڑ کر اس سے ابوبکر کی ہیعت کرنے کےلئے کہتے تھے اور جو کوئی انکار کرتا تھا عمر اس پر کوڑے برساتے تھے اور ان کے ساتھی اس پر ٹوٹ پڑتے تھے یھاں تک کہ اسے ہیعت کرنے پر مجبور کردیتے تھے اور اس انداز سے ابوبکر کی ہیعت لی جاتی رہی جو اکثر لوگوں کےلئے بالکل اتفاقی اور غیر متوقع تھی-
اس پوری صورتحال کو دیکھنے کے بعد یہ واضح ھوجاتا ھے کہ حضرت علی (علیہ السلام) کو خلافت و حکومت سے دور رکھنے کا منصوبہ صرف ان چند گھنٹوں کا کرشمہ نہیں تھا، جس کی تائیدموجود شواھد سے بھی ہوئی ھے نیز یہ کہ سعد بن عبادہ کےلئے ان کی پہلے سے کوئی تیاری نہیں تھی جس کا اظھار ان کے درمیان موجود اختلاف سے بھی ھوتا ھے جیسا کہ یہ بھی ظاھر ھے کہ تینوں سربراہ(لیڈر)یعنی ابوبکر، عمر بن خطاب اور ابوعہیدہ جراح قریش کے اس گروہ کے سربراہ تھے جو خلافت پر قبضہ کرکے مولائے کائنات(علیہ السلام) کو اس سے دور کردینا چاہتے تھے اور انصار کے مقابلہ میں ان کے پاس کل دو دلیلیں تھیں: پہلی یہ کہ مھاجرین پہلے اسلام لائے، اور دوسری یہ کہ وہ رسول اللہ(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے قریہی رشتہ دار ہیں اور اس طرح ان سربراھوں نے آپنے لئے اس دلیل کو سھارا بنالیا کیونکہ اگر خلافت کا معیار واقعا سابق الاسلام ھونا یا رسول اکرم(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے قربت کاھوناھوتاجیسا کہ وہ اس کے مدعی تھے تب تو یہ صرف حضرت علی(علیہ السلام) کا حق تھا، کیونکہ تمام مسلمانوں کے اجماع کے مطابق سب لوگوں سے پہلے آپ نے ہی رسول اکرم(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی تصدیق کی اور ان پر ایمان رکھنے کا اعلان کیا
نیزجب پیغمبر اکرم(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مدینہ میں مھاجرین و انصار کو ایک دوسرے کا بھائی بنایا تھا تو اس وقت حضرت علی(علیہ السلام) کو آپ نے آپنا بھائی قرار دیا تھا اس طرح وہ نسہی اعتبار سے آپ کے ابن عم اور دوسروں کے بالمقابل آپ سے بے حد قریب تھے-
اس طرح توابوبکر نے اس وقت آپنی ہی مخالفت میں ہیان دیا تھا کہ جب انھوں نے انصار کے مقابلہ میں قرابت داری اور پہلے اسلام لانے کو دلیل بنا کر پیش کیا تھا اور اسی وجہ سے انھوں نے سابق الاسلام اور نبی کریم(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے رشتہ دار ہونے کی بنا پر عمر بن خطاب اور ابو عہیدہ کا نام تو خلافت کےلئے پیش کردیا مگر حضرت علی(علیہ السلام) کے حق کے بارے میں بالکل انجان بن گئے جن کے ہاتھوں پر غدیر خم کے میدان میں صرف دو تین مہینے پہلے ایک لاکھ سے زیادہ مسلمان حاجیوں نے ہیعت کی تھی، اور آپ(علیہ السلام) نے ہی سب سے پہلے اسلام قبول کرنے کا اعلان کیا تھا نیز آپ(علیہم السلام) نسب کے اعتبار سے پیغمبر(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ابن عم اور برائے خدا ان کے تنھا بھائی تھے جس کے بارے میں تمام مورخین اور محدثین کا اجماع ھے اور انہیں کے جہاد، ایثار و قربانی کے کارناموں کی وجہ سے اسلام کی بنیادیں مضبوط ہوئیں اور اس کے پیر جم گئے اور وہ شرک و بت پرستی اور قریش کے مقابلہ میں کامیاب ھوا-
مختصر یہ کہ جب ابوبکر نے ان دونوں باتوں کو صحیح و سالم اور مضبوط دلیل کے طور پر پیش کیا تھا اور خلافت کےلئے دو نام بھی پیش کردئے تواس وقت ان کی نظروں سے کچھ بھی پوشیدہ نہیں تھا بلکہ بات در اصل یہ ھے کہ وہ اور ان کے ساتھی اس بارے میں پہلے ہی پورا نقشہ تیار کرچکے تھے اور بعض انصار و مھاجرین کے ساتھ مل کر حضرت علی(علیہ السلام) کو خلافت سے دور کرنے اور خود خلافت پر ھر طرح سے تسلط قائم کرنے کے بارے میں متفق ھوچکے تھے دوسری طرف انصار سے تعلق رکھنے والے اس دوسرے فریق کے ساتھ گفتگو بھی جاری تھی جنھوں نے ابوبکر اور ان کے ساتھیوں کی پوزیشن کو خطرہ میں ڈال دیا تھا
اور وہ سب سقیفہ بنی ساعدہ میں جمع ھوکر خلافت کے بارے میں بات چیت میں مشغول تھے، ابوبکر اور ان کے ساتھیوں نے انصار کی اُس پارٹی سے طاقت کی زبان استعمال کی اور کسی نہ کسی طرح حقائق پر پردہ ڈال کر اور ان کی آنکھوں میں دھول جھونک کر سہی انہیں زیر کرلیا جو آپنے دوسرے دھڑے پرغلبہ پانے کی کوشش کررھے تھے-
جس کا ثبوت یہ ھے کہ جب ابوبکر نے یہ اشارہ کیا کہ تم لوگ عمربن خطاب اور ابو عہیدہ میں سے جس کی ہیعت کرنا چاھو کرسکتے ھو تو عمر نے فوراً یہ کھا: تمھاری زندگی میں یہ کیسے ممکن ھے؟کسی کو ھرگز یہ اختیار نہیں ھے کہ رسول اللہ نے تمہیں جو مقام عنایت کیا ھے کوئی تمہیں اس مقام سے نیچے اتار دے-
یہ جواب ان دونوں کے تیار کردہ اس منصوبہ کی طرف بہترین اشارہ ھے جس کے نتیجہ میں ابوبکر کی ہیعت لی گئی تھی، اور یہ کہ عین اسی وقت حضرت عمر نے لوگوں کی آنکھوں میں دھول جھونکتے ھوئے رائے عامہ کو اس طرح گمراہ کرنے کی کوشش کی کہ جیسے انہیں پیغمبر اکرم نے ہی آپنا جانشین منتخب کیا ھو جیسا کہ ان کے اس جملہ " کسی کو یہ حق نہیںھے کہ رسول اللہ(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے تمہیں جو مقام عطا کیا ھے وہ تم کو اس سے پیچھے ڈھکیل دے " کیونکہ ھمیں معلوم ھے کہ حیات پیغمبر لکھنے والے تمام قدیم مورخین و محدثین اور وہ موثق حضرات جنھوں نے آپ کی حدیثوں کی حفاظت کی ھے اور انہیں آپنی آئندہ نسلوں تک منتقل کیا ھے ان میں سے کسی نے بھی یہ دعویٰ نہیں کیا ھے کہ وہ عھدہ جس کےلئے ابن خطاب اور ان کے ھم نواوٴں نے یہ سب کچھ کیا ھے اس کےلئے پیغمبر(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے(چاھے دور سے ہی سہی)ان کے حق میں کبھی کوئی اشارہ کیا ھو- بلکہ ان کے ساتھ تو پیغمبر کا برتاوٴ کچھ اس کے برخلاف ہی نظر آتا ھے یعنی آپ نے نہ ہی ان کو کوئی عھدہ دیا ھے اور نہ ہی کوئی ایسی ذمہ داری سونپی ھے جسے دوسروں پر ان کا کوئی امتیاز قرار دیا جاسکے اور بالفرض اگر انہیں کسی جنگ میں بھیج بھی دیا جیسے غزوہٴ ذات السلاسل یا کسی جنگ میں لشکر کا علم ان کے حوالہ کردیا جیسے جنگ خیبر میں دیکھنے میں آیا تو وہ وھاں سے مغلوب ھوکر سرجھکائے ھوئے وآپس پلٹ آئے-
آپنی عمر کے تقریبا بالکل آخری دور میں جب انحضرت(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)کو آپنی موت کے نزدیک ہونے کا یقین تھا پیغمبر اکرم(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے انہیں اور عمر دونوں کو ہی اسامہ بن زید کی سرداری مدینہ چھوڑنے کا حکم دے دیا تھا جو ایک عام سپاہی تھے اس وقت اسامہ بن زید کی عمر(آخری اندازہ کے مطابق)ہیس سال سے زیادہ نہیں تھی- رھا پیغمبر(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے مرض الموت میں ابو بکر کے نماز پڑھانے کا قصہ جس کی طرف ابو عہیدہ نے انصار سے گفتگو کے دوران اشارہ کیا تھا، تو یہ کوئی خاص بات نہیں ھے کیونکہ یہ ھمیشہ سے ایک عام بات رہی ھے کہ چھوٹا، بڑا اور فاضل و مفضول ایک دوسرے کی امامت اور اقتداء کرتے رھے ہیں اور اگر امامت کی بھی ھو تو اس سے کسی پر کوئی فوقیت پیدا نہیں ھوتی ھے، اور یہ شرف انہیاء و مرسلین یا قدیسین سے مخصوص نہیں ھے، اور اس کےلئے بھی انہیں ان کی ہیٹی عائشہ نے اس وقت بلایا تھا کہ جب پیغمبر اکرم(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بستر سے نہیں اٹھ پارھے تھے اور جب آپ کو اس کا علم ھوا تو حضرت علی(علیہ السلام) اور عباس کے کاندھوں کا سھارا لیتے ھوئے مسجدمیں تشریف لے آئے اور انہیں محراب سے ہٹا دیا اور اسی حالت میں نماز پڑھائی جب کہ ہیماری کی وجہ سے آپ کو سخت تکلیف تھی-
اورسب سے عجیب بات جو عقل و منطق کے کسی معیار پر پوری نہیں اترتی یہی ھے مگر اسے محدثین و علمائے اہلسنت نے حضرت ابو بکر کی ایسی فضیلت بنادیا جو انہیں خلافت کا اہل بنادیتی ھے جب کہ اسی کے ساتھ وہ یہ اعتراف بھی کرتے ہیں کہ شب ہجرت میدان احد، جنگ خندق، صلح حدیہیہ، جنگ خیبر، حنین، تبوک، اور غدیر خم نیزمکہ و مدینہ میں مواخات جیسے اھم واقعات میں حضرت علی(علیہ السلام) نے حضور اکرم کے ساتھ اھم کردار ادا کیا ھے اور وہ ان تمام باتوں کو حضرت علی(علیہ السلام) کےلئے نہ صرف یہ کہ خلافت کی دلیل کے طور پر قبول نہیں کرتے بلکہ اسے اس کا اشارہ تک قرار نہیں دیتے جب کہ حضرت ابوبکر کی دو رکعت کی امامت کو مسلمانوں کی خلافت،قیادت و رھبری اور انہیں اس کے لائق قرار دینے کی واضح دلیل بنادیتے ہیں-
نیز یہ کہ سقیفہ میں انصار کا اجتماع در اصل مھاجرین کے اس منصوبہ کارد عمل تھا جس کے تحت وہ خلافت پر قبضہ کرنا چاہتے تھے، اس کی ایک دلیل وہ روایت بھی ھے جس میں زہیر بن بکار کا یہ قول نقل ھے جیساکہ وہ کہتے ہیں:
جب کچھ لوگوں نے ابوبکر کی ہیعت کرلی، تو وہ انہیں مسجد میں اس طرح لے کر آئے جیسے کسی دلھن کو لایا جاتا ھے، جب شام ہوئی تو کچھ انصار اور کچھ مھاجرین جمع ھوئے اور اس بارے میں بات کرنے لگے، تو عبد الرحمٰن بن عوف نے کھا: اے گروہ انصار، اگرچہ تم اہل فضل و نصرت اور سابقین میں سے ھو لیکن تمھارے درمیان میں کوئی بھی ابوبکر،عمر،علی(علیہ السلام) اور ابو عہیدہ جیسا نہیں ھے-
تو زید بن ارقم نے کھا: اے عبد الرحمٰن جن کے فضائل کا تم نے تذکرہ کیا ھے ھم ان کے منکر نہیں ہیں مگر ھم میں سے انصار کے سردار سعد بن عبادہ ہیں اور جسے اللہ نے آپنے رسول(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے سلام کھلوایا ھے اور یہ کھا ھے کہ اس سے قرآن لے لیں یعنی اہی بن کعب ہیں، اور اسی طرح جو روز قیامت علماء کا امام بن کر آئے گا یعنی معاذبن جبل اور جن کی ایک گواہی کو رسول اللہ(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے دو گواھوں کے برابر قرار دیا ھے یعنی خزیمہ بن ثابت انصاری، اور ھمیں معلوم ھے کہ قریش کے جن لوگوں کا تم نے نام لیا ھے ان کے درمیان وہ بھی ھے کہ اگر وہ خلافت کا مطالبہ کرے تو اس بارے میں کوئی ان کا پاسنگ بھی نہیں ھے اور وہ علی بن اہی طالب(علیہما السلام) ہیں-
تاریخ طبری میں ھے کہ جب ابوبکر نے خلافت کےلئے دو افراد یعنی ابو عہیدہ اور عمر بن خطاب کا نام پیش کیا اور وہ دونوں ابوبکر کےلئے اصرار کرنے لگے تو انصار نے کھا: ھم علی بن اہی طالب کے علاوہ کسی کی ہیعت نہیں کریں گے-
یہ دونوں روایتیں اس بات کی واضح دلیل ہیں کہ اگر مھاجرین کی طرف سے حضرت علی کا نام پیش کیا جاتا تو وہ آپ(علیہ السلام) کے مقابلہ میں نہ کھڑے ھوتے جس کا مطلب یہ ھے کہ سقیفہ میں ان کا ابوبکر کے مقابلہ میں کھڑا ھونا در اصل ان کے اس منصوبہ کی مخالفت میں تھا
جسے قریش نے خلافت پر قبضہ کرنے اور اس کے شرعی حقداروں سے چہین لینے کےلئے تیار کیا تھا- استاد توفیق ابو علم آپنی کتاب "اہل البیت(علیہم السلام) " میں کہتے ہیں: کوئی بعید نہیں ھے کہ جب سعد بن عبادہ نے مھاجرین کا یہ پختہ ارادہ بھانپ لیا کہ وہ حق کو صاحبان حق تک نہیں جانے دیں گے تو انھوں نے اس کےلئے آپنا نام پیش کردیا ھو-
بھر حال اصل حقیقت چاھے جو کچھ بھی ھو، لیکن حضرت علی(علیہ السلام) کے بارے میں پیغمبر اکرم(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا طرز عمل اور مختلف مواقع پر آپ کی تصریحات کی بنا پر آپ جمھور مسلمین کے ایک بڑے حصہ کے نظریہ کے مطابق ان کے حاکم تھے حتی کہ حضرت علی(علیہ السلام) بھی اس بارے میں پر اعتماد تھے کہ خلافت انہیں کا حق ھے-
ابن اہی الحدید نے شرح نہج البلاغہ میں تحریر کیا ھے: حضرت علی(علیہ السلام) کو اس بارے میں کوئی شک نہیں تھا کہ خلافت ان کا حق ھے اور اس سلسلہ میں کوئی بھی ان کا مد مقابل نہیں ھے، وہ مزید کہتے ہیں:
اور ان سے ان کے چچا عباس نے کھا: آپنا ہاتھ بڑھاوٴ تاکہ یہ کھا جاسکے کہ رسول(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے چچا نے رسول کے ابن عم کی ہیعت کرلی ھے تاکہ تمھارے بارے میں کوئی دو آدمی بھی اختلاف نہ کریں تو انھوں نے کھا: اے چچا، کیا میرے علاوہ بھی کوئی اس کا دعوے دار ھے؟
تو انھوں نے کھا جلد ہی تمہیں معلوم ھوجائے گا پھرآپ نے فرمایا: اس درد سری میں مجھے اس سے کوئی دلچسپی نہیں ھے-
چنانچہ وہ اور ان کے ساتھی اس وقت انگشت بدنداں رہ گئے کہ جب انھوں نے اس عجیب و غریب حادثہ کی خبر سنی اور یہ دیکھا کہ لوگ ابوبکر کو اس طرح مسجد میں لارھے ہیں جیسے کسی دلھن کو لایا جاتا ھے جب کہ حضور اکرم کا جنازہ ابھی تک آنحضرت(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے گھر میں ہی موجود تھا
اور آپ کے اہل خانہ اور ازواج آپ کو سپرد خاک کئے جانے کے منتظر تھے اور جب حضرت علی علیہ السلام کو یہ معلوم ھوا کہ ابوبکر نے آپنے مخالف انصار کے سامنے رسول اللہ(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے آپنی قرابت اور آپنے سابق الاسلام ہونے کو دلیل کے طور پر پیش کیا تھا تو ان کےلئے بھی یہ ضروری تھا کہ وہ بھی ان کو انہیں دلیلوں سے لاچار کر دیتے جو انھوں نے دوسروں کے سامنے پیش کی تھیں اور اگر وہ ان دلائل کو صحیح تسلیم نہ کرتے یا انہیں قبول کرنے سے انکار کرتے تو آپ کےلئے عین ممکن تھا کہ ان کے سامنے ایسی دسیوں دلیلیں پیش کردیتے جن میں کسی قسم کے بحث و مباحثہ اور غور و فکر کی گنجائش نہیں تھی البتہ اگر ان کے پاس دلیل ومنطق کا کوئی خانہ ھوتا!اور آپ ان کوان کے ان ہی دلائل سے خاموش کردیتے جن پر وہ خود مصر تھے، اگرچہ اس کے باوجود بھی آپ نے انہیں باتوں کو دلیل بناکر پیش کیا جن کے ذریعہ انھوں نے انصار پر غلبہ حاصل کرلیا تھا، نیز آپنے بارے میں رسول اللہ(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے اقوال، نصوص آپنا ماضی، جہاد، رسول خدا(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اخوت جیسے دلائل بھی پیش کئے اور مسلسل آپنے حق کا مطالبہ کرتے رھے اور آپ کے ساتھ آپ کی زوجہ سیدہٴ نساء عالمین جناب فاطمہ زھرا(سلام اللہ علیھا) فدک کے ساتھ آپنے شوہر نامدار کی خلافت کا مطالبہ بھی کرتی رہیں-
اکثر راویوں نے نقل کیا ھے کہ ابو سفیان نے حضرت علی(علیہ السلام) کو بھڑکانے کی کوشش کی تھی اور آپ کو ان سے ڈراکر سبز باغ دکھانے کی کوشش کرتے ھوئے یہ کھا: خدا کی قسم میں ان کے خلاف مدینہ کو گھوڑوں اور سواروں سے بھردوں گا، اور حضرت علی کو بخوہی معلوم تھا کہ یہ مسلمانوں کے درمیان فتنہ کو ھوا دے کر انہیں آپس میں لڑانا چاہتا ھے تاکہ اسے اور اس جیسے ان تمام لوگوں کو جنھوں نے آپنے دلوں میں شرک و نفاق کو چھپا رکھا ھے موقع مل جائے اور وہ آپنے اسلام دشمن مقاصد کے تحت ان مسلمانوں سے آپنا بدلہ چکاسکیں جن سے ہیس سال تک ابو سفیان نے جنگ کی تھی، اور اسی وجہ سے فتح مکہ کے موقع پر اس کااور اس کی ہیوی ھندہ جگر خوارہ کا اسلام مسلمانوں کے درمیان سب سے زیادہ ناگواری میں قبول کیا جانے والا اسلام تھا-
کیونکہ یہ اس مغلوب کاا سلام تھا جس کے اوپر ھر طرف سے راستے بندھوچکے تھے اور اس کےلئے مسلمانوں کی صف میں داخل ہونے کے علاوہ کوئی اور چارہٴ کار باقی نہیں رہ گیاتھا جب کہ ان دونوں کے دل کینے سے بھرے ھوئے تھے جو اس قسم کے حالات میں اکثرظاھر ھوتارہتا تھا-
طبری اور کامل ابن اثیر کی روایت میں ھے: امیر المومنین نے ابو سفیان کو ڈانٹتے ھوئے اس سے یہ کھا: خدا کی قسم فتنہ و فساد کے علاوہ تیرا کوئی ارادہ نہیں ھے اور اللہ کی قسم توھمیشہ سے اسلام کا بدترین دشمن رھا ھے ھمیں تیری مدد کی کوئی ضرورت نہیں ھے-
۲-سقیفہ کے نتائج
واقعہٴ سقیفہ میں تین قسم کے مخالف سامنے آئے:
۱-انصار: جنھوں نے سقیفہ میں خلیفہ اور ان کے دونوں ھمنواوٴں کی جم کر مخالفت کی یھاں تک کہ ان کے درمیان زبانی تکرار کے ساتھ لڑائی کی نوبت تک آگئی اور بالآخر عربوں کی دینی وراثت والی ذھنیت اور انصار کے دو دھڑوں میں تقسیم ھوجانے اور ان کے پرانے جھگڑوں کے سر ابھارنے کی وجہ سے اس کا خاتمہ قریش کی کامیاہی پر ھوا-
در اصل آپنے دفاع کےلئے ان کا سارا زور اسی نکتہ پر تھا جو ان کے خیال میں ان کا حق تھا اور بہت سے لوگوں کی نظر میں عزت و شرف کا ذریعہ بھی تھا کیونکہ قریش رسول اللہ کے خاندان والے اور ان کے اقرباء تھے لہٰذا وہ دوسرے مسلمانوں کے مقابلہ میں آپ کی خلافت و حکومت کے زیادہ حقدار تھے اسی وجہ سے ابوبکر اور ان کی تائید کرنے والوں نے سقیفہ میں انصار کے اجتماع سے دوھرا فائدہ اٹھایا:
پہلے یہ کہ: انصار نے ایسا راستہ(طریقہٴ کار)آپنایا تھا جو انہیں حضرت علی(علیہ السلام) کی صف میں کھڑے ہونے اور آپ کی لیاقت و حکومت اور استحقاق کو آپنے لئے استعمال کرنے کی اجازت نہیں دیتا تھا-
دوسرے یہ کہ:ابوبکر کا ان حالات نے اس طرح ساتھ دیا کہ انہیں انصار کے مجمع میں مھاجرین کے حقوق کا تنھا مدافع بنا ڈالا اور انہیں آپنی مصلحتوں کےلئے سقیفہ سے بہتر پلیٹ فارم نہیں مل سکتا تھا کیونکہ اس وقت اس پلیٹ فارم پر ایسے بڑے بڑے مھاجرین موجود نہیں تھے کہ اگر ان میں سے کوئی ایک بھی وھاں موجود ھوتا تو پھر اس دن سقیفہ کا قصہ تمام نہیں ھوسکتا تھا-
جب ابوبکر سقیفہ سے باھر نکلے تو ان کی ہیعت صرف ان بعض مسلمانوں نے کی تھی جنہیں اس میں کچھ حصہ مل چکا تھا یا پھروہ اس پر کسی طرح بھی سعد بن عبادہ کا قبضہ نہیں دیکھنا چاہتے تھے-
۲- بنی امیہ: جن کا ارادہ یہ تھا کہ انہیں بھی حکومت میں کچھ حصہ مل جائے تاکہ وہ آپنی کہوئی ہوئی اس سیاسی طاقت کی تلافی کرسکیں جواسلام آنے کے بعد ان کے ہاتھ سے نکل چکی تھی- ان میں سب سے آگے آگے ابو سفیان تھا اور حاکم جماعت(یعنی ابوبکر اور ان کے ساتھی) کوبنی امیہ کی مخالفت خاص طور سے ابوسفیان کی دھمکیوں اور اس کو پیغمبر اکرم نے اموال جمع کرنے کےلئے جس سفر پر بھیجا تھا اس سے وآپسی پر اس نے ان کی حکومت کا تختہ الٹنے کی جو دھمکی دی تھی انہیں اس کی کوئی پرواہ نہیں تھی، کیونکہ وہ بنی امیہ کی فطری دولت پرستی سے بخوہی واقف تھے اور اس طرح بنی امیہ کو حکومت کی طرف جھکانا بہت آسان تھا جیسا کہ ابوبکر نے یہی کیا تھا کہ انھوں نے آپنے بلکہ(ایک نقل کے مطابق) عمر نے ان کےلئے یہ جائز کردیا تھا کہ مسلمانوں کے جو اموال اور زکات ابوسفیان کے پاس ھےں انہیں اسی کے حوالہ کردیا جائے اور اس کے علاوہ بھی بنی امیہ کےلئے حکومت کے کئی اھم دروازوں سے کچھ حصے مخصوص کردئے گئے-
۳-بنی ہاشم اور ان کے قریہی چاھنے والے: جیسے جناب سلمان، ابوذر، مقداد رضوان اللہ تعالیٰ علیھم جو یہ سمجھتے تھے کہ فطری اور سیاسی اعتبار سے ہاشمی گھرانہ ہی پیغمبر اکرم کا اصل وارث ھے-
آپ نے ملاحظہ فرمایا کہ حاکم طبقہ کو انصار اور بنی امیہ کے ساتھ رکھ رکھاوٴ اور ان سے امتیاز حاصل کرنے میں کسی طرح کامیاہی ملی- لیکن اسی کامیاہی نے اسے ایک واضح سیاسی ٹکراوٴ سے دوچار کردیا کیونکہ سقیفہ کے حالات کا تقاضا تو یہی تھا کہ حاکم طبقہ رسول اللہ کی قرابت کو مسئلہ خلافت کی اھم گوٹ قرار دے دے اور دینی قیادت کےلئے وراثت کے راستہ کو پختہ کردے لیکن سقیفہ کے بعد یہ صورت حال یکسر تبدیل ہوگئی اور اس مسئلہ نے اس انداز سے دوسرا رنگ اختیار کرلیا کہ اگر رسول اللہ(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی قرابت کی وجہ سے آپ کی خلافت کےلئے قریش تمام عربوں سے اولیٰ ہیں تو بنی ہاشم بقیہ قریش کے مقابلہ میں اس کے زیادہ سزاوار اور مستحق ہیں-
اس کا اعلان حضرت علی(علیہ السلام) نے ان الفاظ میں کیا تھا:جب ان کے اوپر مھاجرین نے رسول اللہ(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی قرابت کو حجت بنا کر پیش کیا تھا تو یہی پہلو مھاجرین کے اوپر ھماری حجت ھے اور اگر ان کی دلیل ناقص ھو جائے تو بھی ھمارے پاس دلیل موجودھے نہ کہ ان کےلئے ورنہ انصار کا مطالبہ آپنی جگہ پر باقی ھے-
اسی بات کی وضاحت جناب عباس نے حضرت ابوبکر سے آپنی ایک گفتگو میں اس طرح فرمائی ھے: اور تمھارا یہ کھنا کہ ھم رسول اللہ کے شجرہ سے ہیں " تو پھر "تم تو اس شجرہ کے پڑوسی ھو اور ھم اس کی شاخیں ہیں "-
نیز حضرت علی(علیہ السلام) کو معلوم تھا کہ حاکم طبقہ کے دلوں میں موجودہ دھشت کی بنیاد بنی ہاشم کی مخالفت ھے کیونکہ ان کے مخصوص حالات اور(وسائل)اس نو مولود حکومت کے خلاف دو مثبت پہلووٴں سے مددگار ثابت ھوں گے-
۱-حکومت کی دشمن پارٹیوں کو آپنے ساتھ ملا لیا جائے جیسے بنی امیہ اورمغیرہ بنی شعبہ وغیرہ جنھوں نے آپنی حمایت کی نیلامی کی بولی لگانا شروع کردی تھی اور وہ ھر رخ کو نظر میں رکھ کر اس کی بھاری سے بھاری قیمت وصول کرنا چاہتے تھے، جس کا پتہ ھمیں ابو سفیان کی اس بات سے لگتا ھے جو اس نے مدینہ پھنچتے ہی سقیفائی خلافت کے سامنے رکھی تھی، نیز اس نے حضرت علی(علیہ السلام) کو اکسانے کی کوشش کی اورجب خلیفہ نے اسے مسلمانوں کے وہ تمام اموال بخش دئے جنہیں وہ آپنے سفر کے دوران وصول کرکے لایا تھا تو پھر وہ خلیفہ کی طرف جھک گیا کیونکہ اس زمانہ میں عام طور سے لوگوں کی ایک جماعت کے اوپر زرپرستی کا غلبہ تھا-
اور یہ واضح ھے کہ رسول اللہ نے جو خمس، یا مدینہ کی اراضی کے غلات یا فدک جیسے سرمائے چھوڑے تھے اور ان کی ایک بڑی آمدنی تھی حضرت علی(علیہ السلام) ان کے ذریعہ ان تمام لوگوں کے منھ بند کرسکتے تھے-
دوسرے یہ کہ حضرت علی(علیہ السلام) کے پاس ان کے مقابلہ کےلئے آسان حربہ یہ تھا جس کی طرف آپ نے خود بھی یہ کہہ کر اشارہ فرمایا ھے: "احتجوا بالشجرة و اضاعوا الثمرة " انھوں نے شجرہ(پیڑ)کو تو حجت بنا لیا مگر اس کے پہل کو ضائع کر ڈالا- یعنی چونکہ اس وقت رائے عامہ اہل ہیت(علیہم السلام) کی تقدیس اور ان کے احترام کے بارے میں متفق تھی اور انہیں رسول اللہ کی قرابتداری کی بنا پر ایک خاص امتیاز حاصل تھا اور یہی ان کی مخالفت کے برحق ہونے کی ایک مضبوط سند تھی-
برسر اقتدارپارٹی کے اقدامات
پہلا اقدام؛ حضرت علی(علیہ السلام) کی مالی قوت کمزور کرنا
بر سر اقتدار طبقہ کے سامنے بڑی سخت صورتحال پیدا ہوگئی تھی کیونکہ اسلامی مملکت کے جن ثروتمند طبقوں سے حکومت کا خزانہ چلتاتھا انھوں نے اس وقت تک نئی حکومت کے سامنے سر جھکانے سے انکار کردیا تھا
جب تک کہ خود مدینہ کے اندر اس کی پوزیشن مستحکم نہ ھوجائے، اور مدینہ والے سو فیصد اس کے اوپر متفق نہیں ھوسکتے تھے، کیونکہ مثلا اگر ابو سفیان یا اس جیسے لوگوں نے اگرچہ باقاعدہ سودے بازی کر کے حکومت کی حمایت کی تھی مگر پھر بھی یہ ممکن تھا کہ کل اگر کوئی دوسرا انہیں اس سے زیادہ مال کی پیش کش کرتا تو وہ پرانا سودا ختم کردیتے اور یہ کام حضرت علی(علیہ السلام) کےلئے ھر وقت آسان تھا، تو جب یہ صورتحال تھی، تواس وقت حضرت علی(علیہ السلام) سے ان کی مالی طاقت ختم کرنا حکومت کےلئے یقینا ضروری تھا کیونکہ وہ اس وقت تومقابلہ کےلئے آمادہ نہیں تھے- مگر ان کا سرمایہ جو کسی بھی وقت بر سر اقتدار طبقہ کے مصالح کو خطرات سے دوچار کرسکتاتھاتاکہ اس کے ذریعہ انصار حکومت کی حمایت پر باقی رہیں اوراس کے مخالفین اہل حرص و طمع لوگوں کو ایک
پلیٹ فارم پر جمع کرکے ایک پارٹی کی شکل میں ان کے مقابلہ کےلئے سر ابھارنے کے لائق نہ رہ جائیں-
اس تجزیہ کو بر سر اقتدار طبقہ کی سیاست سے بعید قرار نہیں دیا جاسکتا کیونکہ یہ تجزیہ ان کی اس سیاست کے عین مطابق ھے جس کے بغیر ان کے پاس کوئی چارہٴ کار نہیں تھا اور خاص طور سے جب کہ ھمیں یہ معلوم ھے کہ ابوبکر نے بنی امیہ کو اس وقت دولت و حکومت دونوں کے ذریعہ خرید لیا تھا جب ابو سفیان کے ہیٹے کو گورنر بنایا تھا جیسا کہ روایت میں ھے کہ جب ابوبکر خلیفہ بنادئے گئے تو ابو سفیان نے کھا: ھمیں اور ابو فصیل کو کیا ملے گا؟ کہ وہ بھی اولاد عبد مناف میں سے ھے، تو اسے یہ جواب دیا گیا، اس نے تمھارے ہیٹے کو گورنری دے دی ھے تو اس نے کھا تم نے صلہٴ رحم کیا ھے-
دوسرا اقدام؛ امام(علیہ السلام) کی مخالفت کا سامنا
بر سر اقتدار طبقہ اس کشمکش میں پڑگیا کہ دوسرے پلیٹ فارم کا سامنا کس طرح کیا جائے اور اس کے مقابلہ کےلئے مندرجہ ذیل دو صورتوں میں سے کون سا طریقہٴ کار زیادہ مستحکم رھے گا؟-
۱-رسول اکرم(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی قرابت داری کو کوئی اھمیت نہ دی جائے اور اس کے معنی یہ ہیں کہ ابوبکر کی خلافت کے اوپر سے وہ شرعی لبادہ اتار دیا جائے جو اس نے سقیفہ کے دن زیب تن کیا تھا-
۲- آپنی ہی بات کاٹ کر خود آپنی مخالفت کر ہیٹہیں یعنی سقیفہ میں جن چیزوں کا اعلان کیا گیا ھے ان پر ثابت قدم رہیں لیکن بنی ہاشم کو کسی قسم کا کوئی حق اور امتیاز نہ دیا جائے اور اگر انہیں کوئی رعایت دی بھی جائے تو وہ ایسی ھو کہ ان لوگوں نے جو حکومت تیار کی ھے اور اس بارے میں جو معاھدے ھوئے ہیں اس سے ان کے ٹکراوٴ کا کوئی امکان نہ ھو اور جب ایسا ھوگا تو پھر کوئی بھی بنی ہاشم کی مدد نہیں کرے گا-
چنانچہ اقتدار پر قابض طبقہ نے یہی ترجیح دی کہ انصار کی میٹنگ میں انھوںنے جن نظریات کی ترویج کی تھی انہیں کو مزید مستحکم بنایا جائے اور آپنے مخالفوں پر یہ اعتراض کردیا جائے کہ خلیفہ کی ہیعت کے بعد ان لوگوں کی مخالفت صرف ایک نیا فتنہ ھے جو اسلام میں حرام ھے-
آل محمد(علیہم السلام) کے مقابلہ کےلئے دوسرے عملی اقدامات
جب ھم سلاطین سقیفہ کی سیاست پر مزید غور و فکر کرتے ہیں تو ھمیں یہ معلوم ھوتا ھے کہ ان لوگوں نے آپنے اقتصادیات مضبوط کرنے کے ساتھ ساتھ شروع سے ہی آل محمد(علیہم السلام) کے مقابلہ میں ایک خاص قسم کی سیاست آپنائے رکھی تاکہ اس طرز فکر پر کنٹرول کیا جاسکے جس کی پشت پناہی کی بنا پر بنی ہاشم ان کی مخالفت پر کمر بستہ تھے جس طرح کہ انھوں نے آپنی مخالفت کا ہی گلا گھونٹ دیا تھا- اور یہ سب اس کے باوجودتھا کہ جب بنی ہاشم رسول اللہ(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے سب سے زیادہ قریہی رشتہ دار تھے-
ھم اس سیاست کا اس طرح تجزیہ کرسکتے ہیں کہ اس سیاست کا اصلی مقصد ہاشمی گھرانہ کی تمام مراعات کو ختم کرکے ان کے تمام چاھنے والے مخلصوں کو اھم حکومتی عھدوں سے دور رکھنا تھا
اور مسلمانوں کے درمیان ان کی جو قدر و منزلت تھی اسے بالکل ختم کردینا تھا چنانچہ ھمارے اس نظریہ کی تائید مندرجہ ذیل تاریخی حادثات سے ھوتی ھے-
۱-حضرت علی(علیہ السلام) کے ساتھ خلیفہ اور ان کے ھمنواوٴں کا ہیحد سخت رویہ حتی کہ عمر کی یہ دھمکی کہ ان کے گھر کو آگ لگا کر جلا دیا جائے گا چاھے اس کے اندر فاطمہ(سلام اللہ علیھا) ہی کیوں نہ ھوں! جس کے صاف معنی یہ ہیں کہ چاھے جناب فاطمہ(سلام اللہ علیھا) یا بنی ہاشم کی اور کوئی محترم شخصیت ہی کیوں نہ ھو اس کا احترام ان کے راستہ میں حائل نہیں ھوسکتا اور وہ اس کے ساتھ بھی بالکل ویسا ہی سلوک کریں گے جو سقیفہ کے دن سعد بن عبادہ کے ساتھ کیا تھا لوگوں کو ان کے قتل کرنے کا حکم تک دے دیا تھا اور اس تشدد کی ایک اور شکل، حضرت علی(علیہ السلام) کے بارے میں خلیفہ کا یہ کھنا ھے کہ وہی سارے فتنہ کی جڑہیں یا ان کی یہ مثال دینا کہ وہ ایک لومڑی کی طرح ہیں(معاذاللہ)یا عمر نے حضرت علی(علیہ السلام) سے یہ کھا تھا: رسول اللہ(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ھم میں سے اور تم میں سے ہیں-
۲-خلیفہ اول نے کسی بھی ہاشمی کو حکومت کے کسی اھم کام میں دخیل نہیں ہونے دیا اور نہ ہی ان کو اتنی وسیع مملکت اسلامیہ کی کسی ایک بالشت زمین کا حاکم(گورنر)بنایا جب کہ بنی امیہ کا اس میں ایک وافر حصہ تھا بلکہ خلیفہٴ دوم اور ابن عباس کی گفتگو سے ھم بآسانی یہ سمجھ سکتے ہیں کہ یہ سب ایک سوچی سمجہی سیاست کے تحت کیا گیا تھا جب انھوں نے ان کو " حمص" کا گورنر بنایا تو اس خوف کا اظھار کیا تھا کہ اگر بنی ہاشم اسلامی مملکت کے مختلف علاقوں کے حاکم ھوگئے اور اسی دوران خلیفہ کا انتقال ھوگیا تو اس سے خلافت کی بری طرح کایا پلٹ ھوسکتی ھے جو انہیں ھرگز پسند نہیں ھے-
۳-خلیفہٴ اول کا خالد بن سعید بن عاص کو فتح شام کےلئے بھیجے جانے والے لشکر کی سپہ سالاری سے معزول کرنا جس کی وجہ اس کے علاوہ کچھ نہیں تھی
کہ عمر نے خالدکے ہاشمیوں اور اہل ہیت(علیہم السلام) پیغمبر اکرم(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی طرف ان کے رجحان اور وفات پیغمبر کے بعد ان کے بارے میں ان کے دوستانہ رویہ کی وجہ سے خلیفہٴ اول کے کان بھر دئے تھے-
مختصر یہ کہ برسر اقتدار طبقہ کی ساری کوشش یہ تھی کہ بنی ہاشم اور دوسرے تمام مسلمانوں کو ھر لحاظ سے ایک صف میں کھڑا کردیا جائے اور رسول اللہ(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے ان کو جو خاص نسبت ھے اس کی اھمیت کو ختم کردیا جائے تاکہ اس طرز تفکر کا خاتمہ ھوجائے جس کے بل بوتے پر بنی ہاشم کی مخالفت میں سارا زور ھے اور حتی کہ اگر ارباب خلافت کویہ اطمینان بھی ھوتاکہ حضرت علی(علیہ السلام) اس وقت اسلام کو درپیش خطرات کے پیش نظر ان کے خلاف انقلاب برپا نہیں کریں گے مگر اس کے باوجود ان کادل اس طرف سے ھرگز مطمئن نہیں تھا کہ وہ کسی بھی وقت ان کے خلاف قیام کرسکتے ہیں، لہٰذا یہ ایک فطری تقاضا تھا کہ جب تک سکون کا ماحول ھے اور اس سے پہلے کہ آپ ان کے خلاف انہیں نگل جانے والی مھم شروع کرےں وہ آپ کی مادی طاقت(فدک)اور معنوی طاقت(خلافت) پر آپنا کنٹرول قائم کرلیں-
۴- لہٰذا اس کے بعد یہ ایک سمجھ میں آنے والی بات ھے کہ خلیفہ وہ تاریخی حکم صادر کردیں جو حقِ جناب فاطمہ(س) یا "قصہٴ فدک " کے نام سے مشھور ھے- اور یہ ایسا ہتھکنڈہ تھا جس سے خلافت کے دونوں سیاسی منصوبے ایک ساتھ پورے ھوگئے کیونکہ جن اسباب کی بنا پر انھوں نے آپنے کارندے بھیج کر جناب فاطمہ(س) سے فدک کا علاقہ چہینا تھا ان کا تقاضا یہی تھا کہ آپنے مخالف سے اس کی وہ دولت چہین لی جائے جو اس دور کے لحاظ سے ایک مضبوط اسلحہ تھا اور اس کی بنا پر ان کی حکومت کو ھر لمحہ خطرہ لاحق رہتا، ورنہ اگر یہ وجہ نہ ھوتی تو انہیں فدک جناب فاطمہ(س) کے حوالہ کرنے میں کون سی پریشانی تھی
کہ جب آپ نے ان سے یہ پختہ وعدہ کرلیا تھا کہ آپ اس کی آمدنی کو صرف کارخیر اور عوام کی بھلائی کے راستوں میں خرچ کریں گی؟ مگر کیا کیاجائے کہ خلیفہ کو یہ ڈر تھا کہ کہیں
وہ(معاذ اللہ)وعدہ خلافی نہ کرہیٹہیں اور فدک کا کل سرمایہ سیاسی میدان میں پانی کی طرح نہ بھادیا جائے اور مزید یہ کہ اگر بالفرض یہ ثابت بھی ھوجائے کہ فدک مسلمانوں کا حق تھا تو انھوں نے جناب فاطمہ(س) کو اس میں سے ان کا وہ حق کیوں نہیں دیا جو تمام صحابہ کو دیا گیا تھا؟ جسکے صاف معنی یہ ہیں کہ وہ اس کے ذریعہ آپنی خلافت کو مضبوط کرنا چاہتے تھے-
نیز یہ کہ ھمیں بخوہی معلوم ھے کہ جناب فاطمہ(س) آپنے شوہر نامدار کی حقانیت کی ایک زندہ دلیل تھیں اور حضرت علی(علیہ السلام) کے چاھنے والے آپ کو باقاعدہ ایک زندہ سند کے طور پر پیش کرتے تھے اس سے ھمارے لئے یہ بالکل واضح ھوجاتا ھے کہ فدک سے متعلق حضرت فاطمہ(س) کے دعوے کے مقابلہ میں خلیفہ کی پوری کوشش یہی تھی کہ وہ آپنے سیاسی منصوبہ کے تحت بالکل اسی راستے پر چلتے رہیں جس پر چلنا اس وقت کا تقاضا تھا، چنانچہ خلیفہ نے اس موقع کوغنیمت سمجھا اور نھایت زیرکی کے ساتھ بالواسطہ انداز میں عام مسلمانوں کے ذھن میں یہ بات بٹھا دی کہ جناب فاطمہ(س) عام عورتوں کی طرح ایک خاتون ہیں لہٰذا فدک جیسے عام معاملات میں ان کی رائے یا ان کا دعویٰ قبول کرنا صحیح نہیں ھے چہ جائےکہ خلافت جیسے اھم مسئلہ میں؟!
اور جب وہ ایک ایسی زمین کا مطالبہ کرسکتی ہیں جو ان کا حق نہیں ھے تو پھر عین ممکن ھے کہ وہ آئندہ آپنے شوہر کےلئے پوری مملکت اسلامیہ کا مطالبہ کرہیٹہیں جب کہ وہ اس کے حقدار نہیں ھےں-
۳-فدک نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)اور حضرت فاطمہ زھرا (سلام اللہ علیھا)کے درمیان:
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ھے:<فآت ذا القرہیٰ حقّه و المسکين و ابن السبيل ذلک خير لّلذين يريدون وجه الله و اولئک هم المفلحون>
ھمیں اچہی طرح معلوم ھے کہ اس آیت میں خداوندعالم نے نہی اکرم کو یہ حکم دیا ھے کہ قرابتداروں کو ان کا حق دے دیں، تو سوال یہ پیدا ھوتا ھے کہ آپ کے قرابتدار کون لوگ ہیں؟ اور ان کا حق کیا ھے؟
تو اس بارے میں مفسرین کا اتفاق ھے کہ قرابتداروں سے آپ کے قریہی رشتہ دار یعنی حضرت علی(علیہ السلام) فاطمہ(س) اور حسن(علیہ السلام) و حسین(علیہ السلام) مراد ہیں، جس کے یہ معنی ھوں گے کہ آپنے ان قرابتداروں کو ان کا حق دے دیجئے-
سیوطی کی تفسیر در المنثور میں ابو سعید خدری سے روایت ھے کہ: جب یہ آیت(فآت ذا القرہیٰ حقّه---) نازل ہوئی تو رسول(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اللہ نے جناب فاطمہ(س) کو بلایا اور انہیں فدک عطا کردیا-
ابن حجرمکی نے صواعق محرقہ میں نقل کیا ھے کہ عمر نے کھا: میں تمہیں اس امر کے بارے میں بتائے دیتاھوں کہ خداوندعالم نے یہ حصہ آپنے پیغمبر کےلئے مخصوص کردیا تھا اور اس میں سے ان کے علاوہ کسی کو کچھ بھی نہیں دیا ھے جیسا کہ اس کا ارشاد ھے:" و ما اٴَفاء الله علٰی رسوله منهم فما اٴوجفتم عليه من خيل و لا رکاب و لکنّ الله يسلط- --"اس طرح یہ(یعنی فدک) صرف اور صرف رسول اللہ(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا حق تھا-
تاریخی اسناد سے یہ استفادہ ھوتا ھے کہ فدک جناب فاطمہ(س) کے قبضہ میں اور آپ کے زیر تصرف تھا،
نیز فدک کے آل رسول(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے قبضہ میں ہونے کی ایک بہترین دلیل حضرت علی(علیہ السلام) کا وہ خط بھی ھے جو آپ نے بصرہ میں آپنے گورنر عثمان بن حنیف کے نام لکھا تھا جیسا کہ آپ نے تحریر فرمایا ھے:"بلیٰ کانت فی اٴيدينا فدک من کلّ ما اٴظلّتہ السماء فشحّت عليها نفوس قوم و سخت عنها نفوس قومٍ آخرين، و نعم الحکم الله- ---"
"آسمان کے نیچے ھمارے پاس کل ایک فدک ہی تھا جس پر ایک قوم کے کچھ لوگوں کی رال ٹپک گئی اور دوسرے لوگ اس کی وجہ سے ناراض ھوگئے اور بہترین قاضی اللہ ھے-
بشکریہ :::::::::::::::شیعہ فورم:::::::::::::::
Add new comment