حضرت فاطمہ[س] کی شادی کا ماجرا
شہزادی کائنات حسب ونسب کے لحاظ سے آپنے دور کی تمام عورتوں سے ممتاز اور بلندتھیں کیونکہ آپ حضرت محمد مصطفی(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)اور جناب خدیجہ(علیہا السلام) کی ہیٹی، فضیلت و علم اور پاکیزہ صفات کی نسل طیبہ کا خلاصہ، جمال و صورت و سیرت میں آخری درجہ پر فائز، معنوی وروحانی اور انسانی کمالات کی حد آخر، نیز اعلی رفتار و گفتار اور تابندہ قسمت کی مالک تھیں-
آپ آپنی پختہ خیالی اوررشدعقلی میں آپنی کمسنی سے ہی ممتاز حیثیت کی حامل تھیں پروردگار عالم نے آپ کو عقل کامل، اعلی ذھانت و ذکاوت اور نورانی زندگی میں مکمل حسن وجمال سے نواز اتھا، آپ ھرروزآپنے پدر بزرگوار کے زیر سایہ خداوندعالم کی ان ہی عظیم اور ہی پایا ں نعمتوں اور عطایا کے درمیان فضائل و کمالا ت کے زینے طے کرتے ھوئے بلوغ کی منزل تک پھنچ گئیں- ابھی ہجرت پیغمبر(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا دوسرا سال شروع ھواتھا کہ مسلمانوں کو امن و امان اور سکون و اطمینان کی جھلکیاںدکھائی دینے لگیں تو اسی وجہ سے قریش کے بڑے بڑے لوگ جو سابق الاسلام ہونے کے علاوہ فضل و شرف اور مال ومنال کے اعتبارسے اعلیٰ حیثیت کے مالک تھے وہ آنحضر ت(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں شہزادی سے شادی کی درخواست لے کر جاتے تھے
مگر آ نحضرت(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ان سب کونھایت خوبصورتی سے یہ کہہ کر وآپس لوٹا دیتے تھے < انی انتظر فيها امر الله >اس بارے میں، مجھے حکم خدا کا انتظار ھے- اور آپ ان سے اس طرح آپنامنھ پہیر لیتے تھے کہ سامنے والے کویہ احساس ھوتا تھا کہ جیسے آپ اس سے ناراض ھوں کیونکہ شہزادی کی ھمسری کےلئے رسول الله(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نظر صرف حضرت علی(علیہ السلام) پر ہی تھی اور آپ یہی چاہتے تھے کہ وہی شادی کا پیغام لے کر آئیں-
بریدہ سے روایت ھے کہ جب ابوبکر جناب فاطمہ(سلام اللہ علیہا) سے شادی کا پیغام لے کر آئے تو آنحضرت(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا: <انھا صغیرة و انی انتظر بھا القضاء> وہ ابھی چھوٹی ہیں اور میں اس کے بارے میں ابھی الٰہی فیصلہ کا منتظر ھوںچنانچہ جب ان سے عمر کی ملاقات ہوئی توانھون نے عمر کو اطلاع دی تو عمر نے کھا: تم کو وآپس کردیا؟پھر عمر بھی آپنی درخواست لے کر پھنچے تو آنحضرت(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان کو بھی رد کردیا-
مولائے کائنات کے ذھن میں شہزادی دو عالم(علیہا السلام) کے ساتھ شادی کرنے کا خیال ضرور تھا مگر آپ کو اس دور کے مسلمانوں اور آپنی اقتصادی پر یشا نیوں اور فاقہ بھری زندگی کی فکر لا حق رہتی تھی، اسی لئے آپ شادی کا خیال چھوڑ کر آپنے اور مسلمانوں کے کاموں میں مصروف ھوجاتے تھے، اس وقت آپ کی عمر اکیس سال سے زیادہ ھوچکی تھی وہ وقت قریب آگیا تھا جب آپ جناب فا طمہ(علیہا السلام) سے رشتہٴ ازدواج میں منسلک ھوجائیں، ان کےلئے آپ کے علاوہ اور آپ کےلئے ان کے علاوہ کوئی کفو اور ھمسر نہیں تھا اور یہ ایسارشتہ تھا جس کو دھرایا نہیں جا سکتا تھا-
ایک دن جب حضرت علی( علیہ السلا م) آپنا کا م مکمل کرچکے تو آپنا ڈول اٹھایا اور اسے آپنے گھرلے جا کر اوپرلٹکا دیآپھرآپ رسول اللہ(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے گھر پھنچ گئے،
اس وقت رسول اللہ(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جناب ام سلمہ کے گھر پر تھے، ابھی آپ راستہ ہی میں تھے کہ خدا کی طرف سے ایک فرشتہ آنحضرت(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر یہ حکم لے کر نازل ھوا کہ ایک نور سے دوسرے نور،یعنی جناب فاطمہ(علیہا السلام) سے حضرت علی(علیہ السلام) کی شادی کردیں-
حضرت علی(علیہ السلام) نے دق الباب کیا جناب ام سلمہ نے دریافت کیا کو ن ھے؟تو رسول اکرم(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان سے فرمایا: اے ام سلمہ اٹھ کر دروازہ کھول دو اور انہیں اندر آنے کےلئے کھو یہ وہ شخص ھے جس سے الله اور اسکارسول محبت کرتے ہیں اور وہ ان دو نوں کو محبوب رکھتاھے- تو ام سلمہ نے کھا: میرے ماںبآپ آپ پر قربان جائیں یہ کون ھے؟جس کو آپ نے ابھی دیکھابھی نہیں اور آپ اس کا تذکر ہ کرر ھے ہیں؟آپ نے فرمایا:<مه يا امّ سلمة فهذا رجل ليس بالخرق و لا بالنزق،هذا اٴخی و ابن عمّی واٴحبّ الخلق الي>-
اے ام سلمہ! یہ میرا بھائی ابن عم، اور ساری مخلوقات میں مجھے سب سے زیادہ محبوب ھے- ام سلمہ کہتی ہیں میں اتنی جلدی میں اٹہی کہ قریب تھا کہ میں گر پڑتی-
جب میں نے دروازہ کھولاتو علی بن طالب(علیہم السلام) کوسامنے پایا،انھوں نے رسول اللہ کی خدمت میں پھنچ کر السلام علیک یا رسو ل اللہ ورحمتہ اللہ و برکاتہ کھا تو آنحضرت(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا: وعلیک السلام اے ابوالحسن، آؤہیٹھ جاؤ، تو حضرت علی(علیہ السلام) پیغمبر اسلام(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے سامنے ہیٹھ گئے اور اس طرح زمین کی طرف دیکھنے لگے جیسے انہیں کوئی کام ھو، مگر شرم و حیا کی وجہ سے اسے نہیں کہہ پارھے ہیں،
اور وہ رسول الله(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) روبرو شرم و حیاء کی وجہ سے ایسے ھوگئے تھے کہ جیسے زمین میں گڑے جارھے ھوںاور پیغمبر اکرم(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو بھی حضرت علی(علیہ السلام) کے دل کی کیفیت کا اندازہ ھوگیا تھا لہذا آپ نے ان سے کھا:
<يا اٴبا الحسن، انّی اٴری اٴنّک اٴتيت لحاجة، فقل حاجتک و ابدِ ما فی نفسک، فکلّ حاجة لک عندی مقضية >-
اے علی(علیہ السلام) مجھے محسوس ھورھا کہ تم کسی کام سے آئے ھو، تمہیں جو کام ھو ہیان کرو اور اسے ظاھر کرو، میرے نزدیک تمھاری ھر حاجت پوری ھوگی، توحضرت علی(علیہ السلام) نے کھا:<فداک اٴہی و اُمّی انّک اٴخذتنی عن عمّک اٴہی طالب و من فاطمة بنت اٴسد و اٴنا صہی، فغذّيتنی بغذائک، و اٴدّبتنی باٴدبک، فکنتَ الي اٴفضل من اٴہی طالب و من فاطمة بنت اٴسد فی البرّ و الشفقة، و انّ الله تعالی هدانی بک و علٰی يديک، انّک و الله ذخری و ذخيرتی فی الدنيا و الآخرة يا رسول الله فقد اٴحببت مع ما شدّ الله من عضدی بک اٴن يکون لی بيت واٴن تکون لی زوجة اٴسکن اليها، و قد اٴتيتک خاطباً راغباً، اٴخطب اليک ابنتک فاطمة، فهل اٴنت مزوّجی يا رسول الله؟ >؛میرے ماں بآپ آپ پرقر بان ھوں، آپ نے آپنے چچا جناب ابوطالب اور فاطمہ بنت اسد سے اس وقت مجھے گود لیا تھاجب میں، بالکل بچہ تھا آپ نے مجھے آپنے ساتھ کھا نا کھلایا، آپنے ادب کی تعلیم دی، اور آپ میرے اوپر میرے والد جناب ابوطالب(علیہ السلام) اور والدہ جناب فاطمہ بنت اسد سے زیادہ شفیق و مہربان تھے، الله تعالی نے آپ کے ذریعہ اور آپ کے ہاتھوں پر ھدایت سے سرفراز فرمایا اور آپ ہی دنیا و آخرت میں میرا سرمایہ ہیں، اے اللہ کے رسول میں ایسی شخصیت کی ھمراہی چاہتاھوں جس سے میرے ہاتھ مضبوط ھوجائیں اور اس کے ساتھ میں آپنا گھر بساسکوں، ایسی زوجہ ھوجومیری مونس بن سکے، میں آپ کی خدمت میں اسی رشتہ کی غرض سے آیا ھوں اور میں آپ کی ہیٹی فاطمہ(علیہا السلام) سے شادی کا پیغام لے کر حاضر ھواھوں،
یا رسول الله(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کیا آپ میری شادی کےلئے تیار ہیں؟ تو خوشی ومسرت سے رسول الله کا چھرہ کھلِ اٹھا آپ جناب فاطمہ(علیہا السلام) کے پاس تشریف لائے اور ان سے فرمایا:
" انّ علياً قدذکرکِ وهو من قد عرفت"
علی(علیہ السلام) نے تمھارا ذکر کیاھے اور تم توان کو پہچانتی ہی ھو،؟؟توجناب فاطمہ زھرا(علیہاالسلام) خاموش رہیں تو آپ نے فرمایا: <الله اٴکبر، سکوتها رضاها> اس کی خاموشی ہی اس کا اقرار ھے پھر آپ وھاں سے باھر آئے اور اسکے بعد ان کی شادی کردی-
جناب ام سلمہ کہتی ہیں میںنے دیکھاکہ رسول الله(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا چھرہ خوشی و مسرت سے کھلِ گیا پھر آپ نے حضرت علی(علیہ السلام) کی طرف مسکر اکران سے کھا:<يا علي فهل معک شيء اٴزوّجک به؟>
اے علی تمھارے پاس کوئی چیزھے جس کے ذریعہ میں تمھاری شادی کردوں؟ تو حضرت علی(علیہ السلام) نے کھا:
"فقال علي:فداک اٴہی و اُمّی، و الله ما يخفٰی عليک من اٴمری شيء، اٴملک الاسيفی و درعی و ناضحی، و ما اٴملک شيئاً غيرهذا"
میرے ماں بآپ آپ پر قربان جائیں، میرے حالات آپ سے بالکل مخفی نہیں ہیں میرے پاس کل سرمایہ میری یہ تلوار، زرہ اور یہ ایک ڈول ھے اس کے علاوہ میرے پاس کوئی چیز نہیں ھے تو رسول الله نے فرمایا:<يا علي اٴمّا سيفک فلا غنٰی بک عنه، تجاهد فی سبيل الله، و تقاتل به اٴعداء الله، و ناضحک تنضح به علی نخلک و أهلک، و تحمل عليه رحلک فی سفرک و لکنی قد زوّجتک بالدرع و رضيت بها منک >
اے علی! تلوار کے بغیر تو تمھارے لئے کوئی چارہ نہیں ھے اس سے تم راہ خدا میں جہاد کرتے ھو اور دشمنان خدا کو قتل کرتے ھو، اور ڈول سے کھجوروںکو سینچنے اور گھر والوں کےلئے پانی کہیچتے ھواور سفر میں اسے آپنی سواری (آپنے مرکب) پر آپنے ساتھ لے کرچلتے ھو،
لیکن میں زرہ کے بدلے تمھاری شادی کردیتا ھوں اور میں تم سے یہی قبول کرنے کےلئے تیارھوں <يا اٴبا الحسن، اٴاٴبشّرک؟! >، اے علی(علیہ السلام) تمہیں مبارک ھو حضرت علی کہتے ہیںمیں نے کھا:
<قال علي قلتSad(نعم فداک اٴہی و اُمّی بشّرنی، فاٴنّک لم تزل ميمون النقيبة، مبارک الطائر، رشيد الاٴمر، صلّی الله عليک >-
جی ھاں: میرے ماں باب آپ پر قربان ھوں، مجھے خوشخبری سنائیں کہ ہیشک آپ ھمیشہ سے مبارک ہیں تو رسول الله(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا:
فقال رسول الله(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم): <اُبشّرک يا علي فاٴنّ الله -عزوجل - قد زوّجكها فی السماء من قبل اٴن اٴزوّجكها فی الاٴرض، و لقدهبط علي فی موضعی من قبل اٴن تاٴتي---ينی ملک من السماء فقال: يا محمد! انّ الله - عزوجل - اطلع الی الاٴرض اطلاعة فاٴختارک من خلقه فبعثک برسالته، ثم اطلع الی الاٴرض ثانية فاختار لک منها اٴخاً و وزيراً و صاحباً و ختناً فزوّجه ابنتک فاطمة(سلام اللّه عليها)، و قد احتفلت بذلک ملائکة السماء، يا محمد! ان الله - عزوجل - اٴمرنی اٴن آمرک اٴن تزوّج عليّاً فی الاٴرض فاطمة، و تبشّرهما بغلامين زکيين نجيبين طاهرين خييرين فاضلين فی الدنيا و الآخرة، يا علي! فو الله ما عرج الملک من عندی حتٰی دققتَ الباب >-
اے علی(علیہ السلام)! میں تمہیں یہ خوشخبری دیتاھوں کہ اس سے پہلے کہ میں زمین پر فاطمہ(علیہم السلام) کا نکاح تم سے کرتا خداوندعالم نے آسمان پر ان کا نکاح تمھارے ساتھ کردیا ھے اور تمھارے یھاں پھنچنے سے پہلے اس جگہ آسمان سے ایک فرشتہ نازل ھو اتھا اور اس نے یہ کھاھے: اے محمد! الله تعالی نے زمین کے اوپر ایک نظر کی تو تمام مخلوقات کے درمیان سے آپ کو منتخب فرمایا اور پھر آپ کو آپنی رسالت کے ساتھ مبعوث کیا، اس نے زمین پر دوبارہ نظر کی تو آپ کےلئے بھائی، وزیر اور ساتھی کو منتخب فرمایا ھے لہذا آپ ساتھ آپنی ہیٹی فاطمہ(علیہا السلام) کی شادی کردیں، اس کی وجہ سے ملائکہ نے جشن منایا ھے،
اے محمد! الله تعالیٰ عزّوجل نے مجھے یہ حکم دیاھے کہ میں آپ کو یہ حکم دوں کہ آپ زمین پر علی(علیہ السلام) سے فاطمہ(علیہا السلام) کی شادی کردیں اور ان دونوں کو زکی، نجیب، طاھر نیک اور دنیا و آخرت میں صاحب فضیلت دو ہیٹوں کی مبارک بادبھی پیش کردیں، اے علی! خدا کی قسم وہ فرشتہ ابھی میرے پاس سے وآپس نہیں جانے پایاتھا کہ تم نے میرا دروازہ کھٹکھٹادیا
ابن اہی الحدید کا ہیان ھے: پیغمبراکرم(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے جناب فاطمہ(علیہا السلام) کے ساتھ حضرت علی(علیہ السلام) کی شادی نہیں کی مگر یہ کہ اس سے پہلے الله تعالی نے آسمان پر فرشتوں کے درمیان ان کی شادی کردی جابر بن عبدالله انصاری سے روایت ھے: جب رسول اکرم(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے جناب فاطمہ(علیہا السلام) کی شادی حضرت علی(علیہ السلام) سے کی تھی، تو اس سے پہلے ہی خداوندعالم نے عرش کے اوپر ان کی شادی کردی تھی-
امام محمد باقر(علیہم السلام) نے فرمایاھے:قال:رسول الله( ص)<انّمااٴنا بشر مثلکم، اٴتزوج فيکم واٴزوّجکم الّا فاطمة،فانّ تزويجها نزل من السماء >؛ رسول الله نے فرمایا: میں تمھاری طرح ایک بشرھوں تمھارے درمیان اور تم سے شادی کرتاھوں، البتہ فاطمہ(علیہا السلام) کے علاوہ کیونکہ ان کی شادی(کا حکم) آسمان سے نازل ھوا ھے-
::::::::::بشکریہ شیعہ فورم::::::::::::::::
Add new comment