حضرت فاطمہ[س] اور ہجرت مدینہ
بعثت کے تیرھویں سال پیغمبر اکرم(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے آپنی جان کی حفاظت اور آپنی تبلیغ کی بقاء کےلئے مکہ سے مدینہ کی طرف ہجرت فرمائی اور حضرت علی بن اہی طالب کو یہ حکم دیا کہ شب ہجرت آپ کے بستر پر لیٹ جائیںجس سے مشرکین کچھ سمجھ نہ سکیں وہ ان ہی کی طرف لگے ر ہ ہیں، آنحضرت(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے آپ کو اور بھی کئی حکم دئے تھے جن میں سے کچھ یہ تھے: جب وہ کسی قابل اطمینان جگہ پھنچ جائیں گے تو انہیں آپنے فواطم اور غیر فواطم تمام گھر والوں کے ساتھ بلانے کےلئے کسی کو ان کے پاس بھیجیں گے اور آپ کے پاس لوگوں کی جو امانتیں رکھی ہوئی ہیں وہ سب صاحبان امانت تک پھنچادیں یا آپ کے اوپر جن لوگوں کا قرض ھےا سے اداکردیں-
چنانچہ جب آنحضرت(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)قباء کے علاقہ میں پھنچے جو مدینہ سے صرف چندمیل کے فاصلہ پر ھے-
اور آپ وھاںقیام پذیرھوگئے توآپ نے اہی واقدلیثی کے ذریعہ حضرت علی(علیہ السلام)کو ایک خط بھیجا اور انہیں یہ حکم دیا کہ تمام امامنتیں وآپس کرکے تمام ہی ہیوں(فواطم) کوآپنے ساتھ یھاں لے آئیں چنانچہ حضرت علی(علیہ السلام) نے اسی وقت سے تیاری شرو ع کردی اور مکہ کی طرف ہجرت کرنے کےلئے سواریاں اور ضروری وسائل خرید لئے اور آپ کے ساتھ جو کمزور مؤمنین تھے انہیں یہ حکم دیا کہ جب چاروں طرف رات کا اندہیر اچھا جائے تو ھر ایک دبے قدموں اور خاموشی کے ساتھ و ادئ ذی طُوی میں پھنچ جائے-
جب آپ نے سب لوگوں کی امانتیں ان تک پھنچا دیں توآپ نے کعبہ کے اوپر چڑھ کر بلند آواز سے یہ اعلان کیا:
<يا اٴيّها الناس!هل من صاحب اٴمانة؟هل من صاحب وصية؟هل من عدّة له قِبل رسول الله؟ فلمّالم يات اٴحد لحق بالنبي>-
اے لوگو کیا کسی کی کوئی امانت ھے یا کسی کی کوئی وصیت ھے یا رسول الله کے اوپر کسی کاکچھ مطالبہ باقی ھے؟ چنانچہ جب کوئی بھی نہ آیا تو آپ رسول خدا(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں پھنچ گئے-
حضرت علی(علیہ السلام)فواطم( یعنی جناب فاطمہ زھرا(سلام اللہ علیہا)، آپنی والدہ فاطمہ بنت اسد، فاطمہ بنت زہیر بن عبد المطلب، فاطمہ بنت حمزہ بن عبد المطلب) کو آپنے ساتھ لیکر دن کے اجالے میں آشکارا طور پر مدینہ کی طرف روانہ ھوگئے اور آپ کے ساتھ نبی اکرم(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)کی پرورش کرنے والی اور آنحضرت(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خادمہ بابر کة امّ ایمن اور ان کے ہیٹے بھی تھے اور اسی کاروان کے ساتھ رسول الله(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے روانہ کردہ ایلچی ابو واقد لیثی بھی وآپس لوٹے جو قافلہ کی ساربانی کررھے تھے، تو ایک بارانھوں نے اونٹوں کو تیز دوڑانا شروع کردیا تو حضرت علی علیہ السلام نے فرمایا:<ارفق بالنسوة يا اٴبا واقد، انّهن ضعاف >؛ اے ابو واقد عورتوں کا خیال رکھو یہ کمزور ہیں تو انھوں نے کھا مجھے ڈرھے کہ کہیں ھمیں پکڑ نے والے نہ پھنچ جائیں!
تو حضرت علی(علیہ السلام) نے فرمایا: <اٴربع عليک، فانّ رسول الله(صلی اللّه عليه وآله وسلم) قال لی: يا علي لن يصلوا من الآن اليک باٴمرٍ تکرهه>؛مجھ سے رسول الله(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے یہ فرمایا تھا کہ وہ تم سے کوئی ایسی بات نہیں کرسکتے جو تمہیں ناگوار ھو پھر حضرت علی(علیہ السلام) ان لوگوں کو آھستہ آھستہ لے کرچلنے لگے اور اس وقت آپ کی زبان پر یہ رجز جاری تھا:
و ليس الا الله فارفع ضنّکا
يکفيک ربّ الناس ما أهمّکما
الله کے علاوہ کوئی نہیں لہذا آپنی کمزوری کو دور کردو،،رب الناس، تمھارے ھر اھم کام میں تمھارے لئے کافی ھے-
آپ اسی طرح چلتے رھے مگر جب آپ "ضجنان،، نامی جگہ کے قریب پھنچے تو قریش کے سات بھادر گھڑ سوار چھروں پر نقاب ڈالے ھوئے آپ کو پکڑنے کےلئے پھنچ گئے ان کے ساتھ آٹھواں آدمی حارث بن امیہ کا غلام جناح تھاجوبہت نامور بھادر تھا، تو حضرت علی(علیہ السلام) جناب ام ا یمن اور واقد کے پاس آئے،اس وقت ان سب لوگوں کی نظریں آپ کی طرف تھیں، آپ نے ان دونوں سے کھا:"انيخا الابل و اعقلاها"اونٹوں کو بٹھا کر باند ھ دو آپ آگے بڑھ گئے یھاں تک کہ خواتین سوار یوں سے اتر گئیں اتنی دیر میں وہ لوگ قریب آگئے تو حضرت علی(علیہ السلام) آپنی تلوار کہینچتے ھوئے ان کی طرف بڑھے ان لوگوں نے آپ کے نزدیک آکر کھا: تمھارا یہ خیال ھے کہ تم عورتوں کے ساتھ جان بچاکر نکل جاؤگے، وآپس چلوآپ نے کھا: اگر میں ایسانہ کروں؟ وہ بولے، تم ذلّت کے ساتھ پلٹائے جاؤگے یا ھم تمھارا سر آپنے ساتھ لے کرپلٹیں گے، اتنے میں وہ سارے گھڑ سوار عورتوں اور سواریوں پر قبضہ کرنے کےلئے ان کی طرف لپکے تو حضرت علی علیہ السلام ان کے درمیان میں حائل ھوئے توجناح نے آپ کے اوپر آپنی تلوار سے وار کردیا
آپ پھرتی کے ساتھ اس کے وارسے بچ گئے اور پھرآپ نے بڑی ہی ھوشیاری سے اس کے کندھے پروار کردیا کہ آپ کی تلواراس کے سر کو پھاڑ کر گھوڑے کی پیٹھ کو چھوتی ہوئی نکل گئی اور آپ نے ان پر تلوارکے حملے اورشدید کردئے تو وہ سب کے سب آپ کے پاس سے تتربتر ھوگئے اور کھنے لگے:اے ابو طالب کے فرزند تم ھمارے ہاتھوں سے بچ گئے!
تو آپ نے فرمایا:<فانی منطلق الٰی ابن عمّی رسول الله(صلی اللّه عليه وآله وسلم) فمن سرّہ اٴن اٴفری لحمه و اٴُهيق دمه فليتبعنی>؛میں تو آپنے ابن عم، رسول الله کے پاس جارھاھوں چنانچہ جو میرے ہاتھوں مرناچاہتاھو یا آپنا خون بھانا چاہتاھو وہ میرا پیچھا کرے، مگر وہ سب کے سب ذلت و خواری کے ساتھ گردن جھکا ے ھوئے وآپس چلےگئے-
پھر حضرت علی(علیہ السلام)جناب ایمن اور واقد کے پاس آئے اور آپ نے فرمایا:"آپنی سواریوں کو آگے بڑھاؤ،،پھر آپ فاتحانہ انداز میں سواریوں کے ساتھ روانہ ھوگئے یھاں تک کہ "ضجنان،، کی منزل پر پھنچ گئے اور وھاں جاکر پورے ایک دن اور رات بھر آرام کیا وھاںھر کمزور مسلمان بھی آپ کے ساتھ آملے رات بھران لوگوں نے نمازیں پڑہیں اور اٹھتے ہیٹھتے اور لیٹتے ھوئے ذکر خدا کرتے رھے ان کی یہ صورت حال اسی طرح جاری رہی یھاں تک کہ صبح نمودار ہوگئی حضرت علی(علیہ السلام) نے ان کے ساتھ نماز صبح پڑہی پھر آپنی منزل کی طرف چل پڑے یھاں تک کہ منزل قبا( جو مدینہ سے قریب ھے) تک پھنچ گئے اور رسول الله(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے جاملے جو بہت شدت سے آپ لوگوں کا انتظار کررھے تھے ، ان لوگوں کے پھنچنے سے پہلے ہی رسول الله کے اوپر وحی کی شکل میں آنحضرت کے شایان شان قرآن مجید کی یہ آیتیں نازل ہوئیں:
<الذين يذکرون الله قياماً و قعوداً و علٰی جنوبهم--->
نبی کریم پندرہ دن تک ان لوگوں کے انتظار میں قبا کی منزل پر رکے رھے تھے اس مدت کے اندر آپ نے مسجد قبا تعمیر کردی جس کے بارے میں الله تعالی نے قرآن مجید کی یہ آیتیں نازل فرمائیں <لمسجد اُسس علی التقویٰ من اٴول يوم اٴحقّ اٴن تقوم فيه>
نبی کریم(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس مسجد میں نماز پڑھنے اور اسے آباد رکھنے کی ترغیب دلائی اور اس میں نماز پڑھنے والے کےلئے عظیم ثواب کا تذکرہ فرمایا-جب قافلہ والے آرام کر چکے تو پیغمبر اکرم(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) آپنے تمام ساتھیوں اور گھر والوں کے ساتھ مدینہ کی طرف روانہ ھوئے مدینہ کے مسلمانوں نے اشعار، ترانوں اورنعروں کے ساتھ آپ کا شاندار استقبال کیا اوس و خزرج کے قہیلوں کے سر داروں اور بڑے لوگوں نے آپ کو کھلے دل کے ساتھ خو ش آمدید کھا اور آپنا تمام مالی اور فوجی سرمایہ آپ کی خدمت میں پیش کردیا آپ جس قہیلہ سے بھی گذرتے تھے اس قہیلہ کے سردار اس امید میں آگے بڑھ کرآپ کے ناقہ کی مھار تھام لیتے تھے کہ شاید آپ انہیں کے یھاں نزول اجلال فرمائیں اورانہیںآپنی ضیافت کے شرف سے نوازدیں آپ ان کےلئے دعائے خیرکرکے ا ن سے یہ فرماتے تھے کہ: <دعوا الناقة تسير فانّها ماٴمورة > اس ناقہ کو چھوڑدوتاکہ یہ خود چلتا رھے کیونکہ یہ خدا کی طرف سے مامور ھے-
پھر آپ کا ناقہ جناب ابو ایوب انصاری کے گھر کے پاس ایک کھلی جگہ پر جاکر ہیٹھ گیاآپ عماری سے نیچے تشریف لائے اور آپ کے ساتھ جناب فاطمہ زھرا(سلام اللہ علیہا) اور دوسری ہی ہیاں بھی اتر آئیں اور جناب ام خالد (جناب ابو ایوب انصاری کی والدہ) کے پاس قیام پذیر ہوگئیں جناب فاطمہ(علیہا السلام) آپنے والد گرامی کے ھمراہ سات مہینے یعنی جب تک مسجد نبوی تیار نہ ہوگئی اور اس کے پاس رسول اکرم(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا سادہ ساگھر تیار نہ ھوگیا اسی گھر میں رہیں جسمیں چند حجرے پتھروں کے تھے اور چند حجرے کھجور کی شاخوں سے نبے ھوئے تھے جن کی اونچائی کی وضاحت امام حسن(علیہ السلام) نے ان الفاظ میں فرمائی ھے:<کنت اٴدخل بيوت النبي(صلی اللّه عليه وآله وسلم) و اٴنا غلام مراهق فاٴنال السقف بيدی >-
جب میں بالکل نو عمر تھا تو پیغمبر(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے حجروں میں داخل ہونے کے بعد میرا ہاتھ چھت تک پھنچ جاتاتھا----
نبی اکرم(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے آپنے گھر کےلئے جو سامان مہیا فرمایا وہ بھی نھایت سادہ اور متواضعانہ تھا، آپ نے آپنے لئے لکڑی کا ایک تخت بنوایا جو کھجور کی لکڑی کا بنا ھوا تھا، جناب فاطمہ زھرا(سلام اللہ علیہا) بھی دنیا ئے اسلام کے اسی سادہ اور متواضعانہ دار ہجرت اور نبوت کے گھر میں آنحضرت(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی عنایتوں، اور محبتوںسے بھرہ مند ھو تی تھیں،یقینا یہ ایسی عنایت و محبت جو دنیامیں آپ کے علاوہ کسی اور دوسری عورت کو نصیب نہ ھوسکی-
مکہ سے ہجرت کر نے کے بعد جناب فاطمہ زھرا(سلام اللہ علیہا) اسی گھر میں قیام پذیر ہوئیں تاکہ آپنی آنکھوں سے یہ مناظر دیکہیں کہ آپ کے والد گرامی کو مھاجرین اور انصار مدینہ ایک ہیش قیمت موتی کی طرح آپنے گہیرے میں لئے ھوتے ہیں اور آپ کےلئے جان کی قربانی تک دینے کےلئے تیارہیں اور آپ قہیلہ اوس و خزرج کے تازہ دم مسلمانوں کے ہیچ میں نھایت سکون واطمینان سے رہ رھے ہیں آپ(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مھاجرین اور مدینہ کے مسلمانوں کے درمیان بھائی چارہ کی بنیاد ڈالی تاکہ ان کے دل سے وطن کی غربت کا احساس اور خوف نکل جائے اور وہ اس اتحادکے ذریعہ مزید مستحکم اور سب کے ساتھ ایک پلیٹ فارم پر جمع ھوجائیں"جو خدائے وحدہ لا شریک پر ایمان ھے"البتہ آپ نے آپنے لئے حضرت علی(علیہ السلام) کو بچاکر رکھا تھااس وقت آپ کے اردگرد انصار و مھاجرین کا اچھا خاصا مجمع تھا چنانچہ ان سب کے درمیان آپ نے یہ ارشاد فرمایا: "هذا اخی و وارثی من بعدی ""یہ میرا بھائی اورمیرے بعدمیرا وارث ھے " حضرت علی(ع) کے سر پر نبی کریم(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی اخوت کا سھرا بندھے ھوئے ابھی زیادہ عرصہ نہیں گذرا تھا کہ آپ کے سر پر آنحضرت کی داماد ی کا سھرا بھی بندھ گیا اور آپ آنحضرت کی ھر دل عزیز اور چہتی ہیٹی اور آپ کی پارہ قلب و جگر کے شوہر بھی ھوگئے-
مدینہ میں قیام پذیر ہونے کے بعد نہی اکرم(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے سب سے پہلے جناب سودہ سے شادی کی اوریہ جناب خدیجہ(سلام اللہ علیہا) کی وفات کے بعد آنحضرت(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)کی پہلی شادی تھی پھرآپ نے جناب ام سلمہ بنت اہی امیہ سے نکاح کیا اور آپنی ہیٹی جناب فاطمہ(سلام اللہ علیہا) کی دیکھ بھال اور ان کے کام کاج آپ کے حوالے کردئے- جناب ام سلمہ ہیان کرتی ہیں: رسول اللہ نے مجھ سے شادی کرنے کے بعد،آپنی ہیٹی فاطمہ (علیہا السلام) کی دیکھ بھال کا فریضہ میرے سپرد کردیا،چنانچہ میں ہی انہیںسب کچھ بتاتی اورسکھاتی تھی لیکن خدا کی قسم،وہ مجھ سے زیادہ مودب اور تمام چیزوں کے بارے میں مجھ سے زیادہ واقف کار تھیں-
Add new comment