رسول اکرمؐ کا وصال اور حضرت فاطمہؑ
حضرت فاطمہ سلام اللہ علیھا نے ابھی زندگی سے کچھ ہی بہاریں گذاریں تھیں کہ وقوع پذیر ہونے والے واقعہ نے ان کی زندگی پر گہرے اثرات مرتب کئے اور وہ واقعہ پیغمبر اسلام(ص) کی رحلت ہے۔
حضرت زہرا پیغمبر اسلام(ص) کی بیماری کے دوران ہمیشہ ان کی خدمت میں رہیں، جیسے ہی دھن مبارک پیغمبر سے یہ فرماتے ہوئے سنا، تمہارے غم و دکھ، تو دکھ بھرے لہجے میں فریاد بلند کی کیسے غم و دکھ؟
پیغمبر اسلام(ص) حضرت فاطمہ کی حالت زار پر پریشان ہوئے، تو اپنی بیٹی کے دل کو آرام پہنچانے کیلئے فرمایا، اے بیٹی آج کے بعد باپ کیلئے پریشان نہ ہونا۔
حضرت فاطمہ زہرا کو یاد آنے لگا کہ باپ نے بڑے رازدارانہ اندا زمیں فرمایا تھا کہ بیٹی تیری موت کا وقت بھی نزدیک ہے، اور اہل بیت علیھم السلام سے سب سے پہلے مجھ سے ملاقات کرے گی، اور مزید یاد آیا کہ پیغمبر نے مجھے بشارت دی تھی کہ اے فاطمہ جان کیا اس بات پر راضی نہیں ہیں کہ سید النساء العالمین ہیں، حضرت زہر اباپ کی وفات کے بعد کبھی ہنسی نہیں، بلکہ اس قدر زیادہ ہوئی کہ تاریخ کے ان زیادہ چھ رونے والے افراد میں شمار ہونے لگیں، اور اس قدر زیادہ روتیں کہ اہل مدینہ تنگ آکر مطالبہ کرتے ہیں کہ یا دن میں روئیں یا رات میں روئیں، آخر کار جناب سیدہ رونے کیلئے جنت البقیع جاتیں، ایک مرتبہ اپنے باپ کے غم میں یوں اشعار پڑھے۔
ماذا علی من شم تربۃ احمد
ان لا یشم مدی الزمان غوالینا
قل للمغیب تحت اطباق الشری
ان کنت تسمع صرختی ندائیٰا
صبت علی مصائب لوانھا
صبت علی الایام صرن لیالیٰا
قد کنت ذات رحمی بظل محمد
لا اخش من ضیم و کان حما لیٰا
فا لیوم اخضع للذلیل واتقی
ضیمی، وادفع ظالمی بردائیٰا
فاذا بکت قمریۃ فی لیلھا
شجنا علی غصنٍ بکیت صباحیٰا
فلا جعلن الحزن بعدک مونسی
ولا جعلن الدمع فیک و شاحیٰا
ترجمہ:۔
کیا پرواہ ہے اس کو جو پیغمبر کی مٹی سے ایسی خوشبو سونگھے
گویا تمام عمر میں ایسی خوشبو نہیں سونگھی۔
اے خاک کے نیچے اپنے رخ کوچھپانے والے
بولو کیا میرے نالہ فریاد کی آوازیں سن رہے ہو
مجھ پر ایسی مصیبتیں آئیں اگراگریہ مصیبتیں روشن دنوں پرآتیں تووہ اندھیری راتوں میں بدل جاتےمیں جب تک پیغمبر کے سایہ اور ان کی حمائیت و تائید میں تھی کسی دشمن اور کینہ پرور سے نہیں ڈرتی تھی لیکن آج ذلیل لوگوں کے سامنے عاجز ہوں اور ڈر رہی ہوں کہ مجھ پر ظلم کیا جائے جبکہ اکیلی خود دفاع کررہی ہوں
جب پرندے ہنگامہ رات میں اپنے اپنے آشیانوں سے گریہ و نالہ بلند کرتے ہیں، تو میں بھی بار بار آہ و فغاں کرتی ہوں اے پدر جان تیرے غموں کو اپنے لئے مونس قرار دیا ہےاور تیرے سوگ میں غم میرے دامن سے متصل ہو گیاہے۔
فاطمہ زہرا اپنے شفیق اور مہربان والد کی وفات پر بہت زیادہ روتی تھیں، دل کی گہرائیوں سے اٹھنے والی حسرتیں اور آہیں کھلی فضا میں بکھر جاتیں ۔ جب پیغمبر اسلام(ص) کے جنازے کو قبر میں اتار چکے تو کسی ایک صحابی سے یوں کہا، کہ کس طرح تیرا دل پیغمبر اسلام(ص) کو منوں مٹی تلے اتارنے کے لئے راضی ہوا۔ اور ایک دم اس طرح فریاد بلند کی۔
اغیرآفاق السماء و کورت
شمس النھار والظلم العصران
والارض من بعدی النبی
اسفاعلیہ کثیرة الرجفان
ترجمہ:۔
آسمان کے کنارے بکھر سے گئے ہیں، اور سورج دن کو تاریکی میں ڈوب گیا ہے اور دنوں نے اندھیری راتوں کا سماں ڈھال لیا ہے۔ اور زمین ان کی وفات کے بعد ان پر اظہار تاسف کے لئے غمگین تھی اور لرز رہی تھی۔
Add new comment