سیدۃالنسا العالمین بی بی فاطمہ الزھرا علیہ السلام کا خطبہ

 

” تمام تعریفیں اس اللہ کے لئے ھیںجس نے مجھے اپنی بے شمار اوربے انتھا نعمتوں سے نوازا،میں شکر بجالاتی ہوں اس کی ان توفیقات پرجواس نے مجھے عطا کیں، اورخدا کی حمدو ثنا ء کرتی ہوں ان بے شمارنعمتوں پرجن کی کوئی انتھا نھیں، اورنہ ھی ان کاکوئی بدلاہوسکتاھے، ایسی نعمتیں جن کا تصور کرنا امکان سے باھر ھے، خدا چاھتا ھے کہ ھم اسکی نعمتوںکی قدر کریں تاکہ وہ ھم پر اپنی نعمتوں کا اضافہ فرمائے، ھمیں شکر کی دعوت دی ھے تاکہ آخرت میں بھی وہ ایسے ھی اپنی نعمتوں کا نزول فرمائے ۔ میں خدا کی وحدانیت کی گواھی دیتی ہوں،وہ وحدہ لا شریک ھے، ایسی وحدانیت جس کی حقیقت اخلاص پر مبنی ھے اور جس کا مشاھدہ دل کی گھرائی سے ہو تا ھے اوراس کے حقیقی معنی پر غور وفکر کرنے سے دل ودماغ روشن ہوتے ھیں۔ وہ خدا جس کو آنکھ کے ذریعہ دیکھانھیںجاسکتا،زبان کے ذریعہ اس کی تعریف وتوصیف نھیں کی جاسکتی ، جو وھم وگمان میں بھی نھیں آسکتا۔ وہ خدا جس نے ایسی ایسی موجوات خلق کی جن کی اس سے پھلے نہ کوئی نظیر ملتی ھے اور نہ کوئی مثال، اس نے اپنی مرضی ومشیت سے اس کائنات کو وجود بخشا بغیر اس کے کہ اسے اس کے وجود کی ضرورت ہو، یا اسے اس کا کوئی فائدہ پہونچتا ہو۔ بلکہ کائنات کواس نے اس لئے پیدا کیا تاکہ اپنے علم وحکمت کو ثابت کرسکے ،اپنی اطاعت کے لئے تیار کرسکے، اپنی طاقت وقدرت کا اظھار کرسکے، بندوںکواپنی عبادت کی تر غیب دلاسکے اور اپنی دعوت کی اھمیت جتاسکے؟ اس نے اپنی اطاعت پر جزاء اورنافرمانی پر سزامعین کی ھے، تاکہ اپنے بندوں کوعذاب سے نجات دے ، اورجنت کی طرف لے جائے۔
میں گواھی دیتی ہوں کہ میرے پدربزرگوارحضرت محمد،اللہ کے بندے اور رسول ھیں، ان کو پیغمبری پر مبعوث کرنے سے پھلے اللہ نے ان کو چنا،(اوران کے انتخاب سے پھلے ان کا نام محمد رکھا)اوربعثت سے پھلے ان کا انتخاب کیا، جس وقت مخلوقات عالم غیب میں پنھاں تھیں، نیست ونابودی کے پردوں میں چھپی تھیں اورعدم کی وادیوں میں تھیں ،چونکہ خداوندعالم ھر شیٴ کے مستقبل سے آگاہ ، زمانے کے حوادثات سے با خبر اورقضا وقدر سے مطلع ھے۔
خدا نے حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کومبعوث کیا تاکہ اپنے مقصد کو آگے بڑھائے، اپنے حتمی فیصلوں کو پایہٴ تکمیل تک پہونچائے اور لوگوں پر اپنی رحمت کو نازل کرے۔ (جب آپ مبعوث ہوئے )تو لوگ مختلف ادیان میں بٹے ہوئے تھے، کفر و الحاد کی آگ میں جل رھے تھے، بتوں اور آگ کی پرستش کررھے تھے اورخدا کی شناخت کے بعد بھی اس کا انکار کیا کرتے تھے۔ حضرت محمد مصطفےٰ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے وجود مقدس سے تاریکیاںچھٹ گئیںجھالت ونادانیاںدلوں سے نکل گئیں، حیرتیں و سر گردانیاں آنکھوں سے اوجھل ہوگئیں، میرے باپ نے لوگوںکی ھدایت کی اور ان کوگمراھی اور ضلالت سے نجات دی ، تاریکی سے نکال کر روشنی کی طرف لے کر آئے اور دین اسلام کی راہ دکھائی اور صراط مستقیم کی طرف رہنمائی کی۔
اس کے بعدخدانے اپنے پیغمبر کے اختیار،رغبت اورمھربانی سے ان کی روح قبض کی ،اس وقت میرا باپ اس دنیا کی سختیوں سے آرام میں ھے اوراس وقت فرشتوںاور رضایت غفّاراور ملک جبّارکے قرب میں زندگی گزاررھا ھے ،خدا کی طرف سے میرے باپ،نبی اور امین خدا،خیر خلق اورصفی خداپر درود و سلام اور اس کی رحمت ہو۔
اس کے بعدآپ نے مجمع کو مخاطب کرکے فرمایا:
تم خدا کے بندے ،امرونھی کے پرچم دار اور دین اسلام کے عھدہ دار ہو، اور تم اپنے نفسوں پر اللہ کے امین ہو ، تم ھی لوگوںکے ذریعہ دوسری قوم تک دین اسلام پہونچ رھا ھے،تم نے گویا یہ سمجھ لیا ھے کہ تم ان صفات کے حقدارہو،اور کیا اس سلسلہ میں خدا سے تمھارا کوئی عھد وپیمان ھے؟ حالانکہ ھم بقیة اللهاور قرآن ناطق ھیںوہ کتاب خدا جو صادق اور چمکتا ہوا نور ھے جس کی بصیرت روشن ومنور اوراس کے اسرار ظاھر ھےں، اس کے پیرو کارسعادت مندھیں،اس کی پیروی کرنا ،انسان کوجنت کی طرف ھدایت کرتاھے ،اس کی باتوںکوسننا وسیلہٴ نجات ھے اوراس کے بابرکت وجودسے خدا کی نورانی حجتوں تک رسائی کی جاسکتی ھیں اس کے وسیلہ سے واجبات ومحرمات، مستحبات ومباھات اورقوانین شریعت حاصل ہو سکتے ھیں۔ خدا وندعالم نے تمھارے لئے ایمان کو شرک سے پاک ہونے کا وسیلہ قرار دیا، نمازکو تکبر سے بچنے کے لئے،زکوة کووسعت رزق اورتزکیہ ٴنفس کے لئے، روزہ کواخلاص کے لئے،حج کودین کی بنیادیں استوار کرنے کے لئے، عدالت کونظم زندگی اور دلوںکے آپس میں ملانے کے لئے سبب قرار دیا ھے۔ اورھماری اطاعت کو نظم ملت اور ھماری امامت کوتفرقہ اندازی سے دوری، جھاد کو عزتِ اسلام اور کفار کی ذلت کاسبب قرر دیا،اور صبر کو ثواب کے لئے مددگارمقرر کیا،امر بالمعروف و نھی عن المنکرعمومی مصلحت کے لئے اور والدین کےساتھ نیکی کو غضب سے بچنے کاذریعہ اورصلہ رحم کو تاخیر موت کاوسیلہ قراردیا ،قصاص اس لئے رکھاتاکہ کسی کوناحق قتل نہ کرونیزنذر کوپوراکرنے کوگناھگاروںکی بخشش کاسبب قرار دیااورپلیدی اورپست حرکتوںسے محفوظ رہنے کے لئے شراب خوری کوحرام کیا،زنا کی نسبت دینے سے اجتناب کو لعنت سے بچنے کا ذریعہ بنایا ،چوری نہ کرنے کوعزت وعفت کا ذریعہ قرار دیا، خدا کے ساتھ شرک کوحرام قرار دیا تاکہ اس کی ربو بیت کے بارے میں اخلاص باقی رھے۔ ”اے لوگو! تقویٰ وپرھیز گاری کواپناؤ اور تمھارا خاتمہ اسلام پر ہو“ اوراسلام کی حفاظت کروخدا کے اوامرونواھی کی اطاعت کرو۔ ”اورخدا سے صرف علماء ڈرتے ھیں ۔“
اس کے بعد جناب فاطمہ زھرا نے فرمایا:
اے لوگو! جان لو میں فاطمہ ہوں، میرے باپ حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم تھے، میری پھلی اور آخری بات یھی ھے ،جو میں کہہ رھی ہوں وہ غلط نھیں ھے اور جو میں انجام دیتی ہوں بے ہودہ نھیں ھے۔
”خدانے تم ھی میںسے پیغمبر کو بھیجاتمھاری تکلیف سے انھیںتکلیف ہوتی تھی وہ تم سے محبت کرتے تھے اورمومنین کے حق میں دل سوز وغفورورحیم تھے۔“وہ پیغمبر میرے باپ تھے نہ کہ تمھاری عورتوں کے باپ،میرے شوھر کے چچازاد بھائی تھے نہ کہ تمھارے مردوںکے بھائی،اور آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے منسوب ہونا کتنی بھترین نسبت اور فضیلت ھے۔ انھوں نے دین اسلام کی تبلیغ کی اور لوگوں کوعذاب الٰھی سے ڈرایا، اورشرک پھیلانے والوں کا سد باب کیاان کی گردنوںپرشمشیرعدالت رکھی اورحق دبانے والوںکا گلادبادیاتاکہ شرک سے پرھیز کریں ا ور توحید وعدالت کوقبول کریں۔
اپنی وعظ و نصیحت کے ذریعہ خداکی طرف دعوت دی،بتوں کو توڑااور ان کے سروں کوکچل دیا،کفارنے شکست کھائی اورمنھ پھیر کر بھاگے ،کفر کی تاریکیاں دور ہوگئیں اورحق مکمل طور سے واضح ہوگیا،دین کے رھبر کی زبان گویاہوئی اورشیاطین کی زبانوں پر تالے پڑ گئے ، نفاق کے پیروکار ھلاکت و سر گردانی کے قعر عمیق میں جا گرے کفر و اختلاف اور نفاق کے مضبوط بندھن ٹکڑے ٹکڑے ہوگئے۔ (اور تم اھلبیت کی وجہ سے) کلمہ شھادت زبان پر جاری کرکے لوگوں کی نظروں میں سرخ رو ہوگئے ،درحالانکہ تم دوزخ کے دھانے پر اس حالت میںکھڑے تھے کہ جیسے پیاسے شخص کے لئے پانی کا ایک گھونٹ اور بھو کے شخص کے لئے روٹی کا ایک تر لقمہ، اور تمھارے لئے شعلہ جہنم اس راہ گیر کی طرح جستجو میں تھاجو اپنا راستہ تلاش کرنے کے لئے آگ کی راہنمائی چاھتا ھے۔ تم قبائل کے نحس پنجوںکی سخت گرفت میں تھے گندا پانی پیتے تھے اور حیوانوںکو کھال سمیت کھا لیتے تھے،اور دوسروں کے نزدیک ذلیل وخوارتھے اوراردگردکے قبائل سے ھمیشہ ھراساںتھے۔ یھاں تک خدا نے میرے پدر بزرگوار محمدمصطفےٰ (ص)کے سبب ان تمام چھوٹی بڑی مشکلات کے باوجود جو انھیں درپیش تھی ،تم کو نجات دی، حالانکہ میرے باپ کو عرب کے بھیڑئے نماافراد اوراھل کتاب کے سرکشوںسے واسطہ تھا ”لیکن جتنا وہ جنگ کی آگ کو بھڑ کا تے تھے خدا اسے خاموش کر دتیا تھا“ اور جب کو ئی شیاطین میں سے سر اٹھا تا یا مشرکوں میںسے کوئی بھی زبان کھولتاتھا توحضرت محمد اپنے بھائی (علی) کوان سے مقابلہ کے لئے بھیج دیتے تھے، اورعلی اپنی طاقت وتوانائی سے ان کو نیست ونابود کردیتے تھے اور جب تک ان کی طرف سے روشن کی گئی آگ کو اپنی تلوارسے خاموش نہ کردیتے میدان جنگ سے واپس نہ ہوتے تھے۔ (وہ علی ) جو اللہ کی رضاکے لئے ان تمام سختیوںکاتحمل کرتے رھے اورخدا کی راہ میں جھاد کرتے رھے ،رسول اللہ(ص)کے نزدیک ترین فرد اور اولیاء اللہ کے سردار تھے ھمیشہ جھاد کے لئے آمادہ اور نصیحت کرنے کے لئے جستجو میں رھتے تھے، لیکن تم اس حالت میںآرام کے ساتھ خوش وخرم زندگی گزارتے تھے،(اور ھمارے لئے کسی بری) خبرکے منتظررھتے تھے اوردشمن کے مقابلہ سے پرھیز کرتے تھے نیز جنگ کے وقت میدان سے فرارہوجایا کرتے تھے ۔ جب خدا نے اپنے رسولوں اور پیغمبروںکی منزلت کو اپنے حبیب کے لئے منتخب کرلیا، تو تمھارے اندر کینہ اور نفاق ظاھر ہوگیا،لباس دین کہنہ ہوگیا اور گمراہ لوگوں کے سِلے منھ گھل گئے، پست لوگوںنے سر اٹھالیا، باطل کااونٹ بولنے لگااور تمھارے اندر اپنی دم ھلانے لگا، شیطان نے اپنا سر کمین گاہ سے باھرنکالااورتمھیں اپنی طرف دعوت دی، تم کو اپنی دعوت قبول کرنے کے لئے آمادہ پایا ، وہ تم کو دھوکہ دینے کا منتظر تھا، اس نے ابھارا اورتم حرکت میںآگئے اس نے تمھیں غضبناک کیا، تم غضبناک ہوگئے وہ اونٹ جو تم میںسے نھیں تھا تم نے اسے علامت دار بناکر اس جگہ بٹھادیا جس کا وہ حق دار نہ تھا ،حالانکہ ابھی پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی موت کوزیادہ وقت نھیں گزراتھا اور ھمارے زخم دل نھیں بھرے تھے ، زخموں کے شگاف بھرے نھیں تھے ،ابھی پیغمبر (ص)کو دفن بھی نھیں کیا تھا کہ تم نے فتنہ کے خوف کے بھانے سے خلافت پر قبضہ جمالیا ”لیکن خبرداررہو کہ تم فتنہ میں داخل ہوچکے ہو اور دوزخ نے کافروںکا احاطہ کرلیا ھے “۔
افسوس تمھیں کیا ہوگیا ھے اور تم نے کونسی ڈگراختیارکرلی ھے حالانکہ اللہ کی کتاب تمھارے درمیان موجود ھے اوراس کے احکام واضح اوراس کے امرونھی ظاھرھیں تم نے قرآن کی مخالفت کی اور اسے پس پشت ڈال دیا، کیا تم قرآن سے روگردانی اختیارکرنا چاھتے ہو؟یا قرآن کے علاوہ کسی دوسری چیز سے فیصلہ کرنا چاھتے ہو؟
”ظالمین کے لئے کس قدر برا بدلا ھے“

” جو شخص اسلام کے علاوہ کسی دوسرے دین کو اختیا رکریگا اس کا دین قبول نھیں کیا جائیگا اورآخرت میں ایسا شخص سخت گھاٹے میں ہوگا ۔“
تم خلافت کے مسئلہ میںاتنا بھی صبرنہ کرسکے کہ خلافت کے اونٹ کی سرکشی خاموش ہوجائے اوراسکی قیادت آسان ہوجائے(تاکہ آسانی کے ساتھ اس کی مھار کو ھاتھوں میں لے لو) اس وقت تم نے آتش فتنہ کو روشن کردیا اور اس کے ایندھن کو اوپر نیجے کیا (تاکہ لکڑیاں خوب آگ پکڑلیں) اورشیطان کی دعوت کو قبول کرلیا اور دین کے چراغ اور سنت رسول(ص) کوخاموش کرنے میں مشغول ہوگئے ،تم ظاھر کچھ کرتے ہو لیکن تمھارے دلوں میں کچھ اور بھرا ہوا ھے۔
میں تمھارے کاموں پر اس طرح صبر کرتی ہوں جس طرح کسی پرچھری اورنیزے سے پیٹ میں زخم کردیا جاتا ھے، اور وہ اس پر صبر کرتا ھے ۔
تم لوگ گمان کر تے ہو کہ ھمارے لئےو ارث نھیںھے، ؟! ” کیا تم سنت جاھلیت کو نھیں اپنا رھے ہو ؟!!
” کیا یہ لوگ (زمانہ) جاھلیت کے حکم کی تمنا رکھتے ھیں حالانکہ یقین کرنے والوں کے لئے حکم خدا سے بھتر کون ہوگا۔“
کیا تم نھیں جا نتے کہ صاحب ارث ھم ھیں، چنانچہ تم پرروزروشن کی طرح واضح ھے کہ میںرسول کی بیٹی ہوں، اے مسلمانو! کیا یہ صحیح ھے کہ میں اپنے ارث سے محروم رہو ں(اور تم میری خاموشی سے فا ئدہ اٹھاکر میرے ارث پر قبضہ جمالو۔
اے ابن ابی قحافہ ! کیایہ کتاب خدا میں ھے کہ تم اپنے باپ سے میراث پاؤ ا ورھم اپنے باپ کی میراث سے محروم رھیں، تم نے فدک سے متعلق میرے حق میں عجیب وغریب حکم لگایا ھے، اور علم وفھم کے با وجود قرآن کے دامن کو چھوڑدیا ، اس کو پس پشت ڈالدیا؟
کیا تم نے بھلادیا کہ خدا قرآن میں ارشاد فرماتا ھے <وارث سلیمان داود> ”جناب سلیمان نے جناب داود سے وارث لیا“، اورجناب یحيٰ بن زکریاکے بارے میں ارشاد ہوتا ھے کہ انہوں نے دعا کی:
”بارِ الہٰا ! اپنی رحمت سے مجھے ایک فرزند عنایت فرما، جو میرا اورآل یعقوب کا وارث ہو“، نیز ارشاد ہوتا ھے: ” اور صاحبان قرابت خدا کی کتاب میں باھم ایک دوسرے کی (بہ نسبت دوسروں ) زیادہ حق دار ھیں۔“ اسی طرح حکم ہوتا ھے کہ ” خدا تمھاری اولاد کے حق میں تم سے وصیت کرتا ھے کہ لڑکے کا حصہ دو لڑکیوں کے برابر ھے “ ۔
نیز خداوندعالم نے ارشاد فرمایا:
”تم کو حکم دیا جاتا ھے کہ جب تم میں سے کسی کے سامنے موت آکھڑی ہو بشرطیکہ وہ کچھ مال چھوڑجائے تو ماں باپ اور قرابت داروں کے لئے اچھی وصیت کرے ، جو خدا سے ڈرتے ھیں ان پر یہ ایک حق ھے۔“

کیا تم گمان کرتے ہو کہ میرا اپنے باپ سے کوئی رشتہ نھیں ھے اور مجھے ان سے میراث نھیں ملے گی ؟
کیا خداوندعالم نے ارث سے متعلق آیات کو تم ھی لوگوںسے مخصوص کردیا ھے؟ اور میرے باپ کو ان آیات سے الگ کردیا ھے ؟یا تم کھتے ہو کہ میرا اورمیرے باپ کا دوالگ الگ ملتوں سے تعلق ھے ؟ لہٰذا ایک دوسرے سے ارث نھیں لے سکتے۔
آیاتم لوگ میرے پدربزرگوار اور شوھر نامدارسے زیادہ قرآن کے معنیٰ ومفاھیم ،عموم وخصوص اورمحکم ومتشابھات کوجانتے ہو ؟
تم نے فدک اور خلافت کے مسئلہ کو اونٹ کی طرح مھار کرلیا ھے اور اس کو آمادہ کرلیاھے جو قبر میں تمھاری ساتھ رھے گا اور روز قیامت ملاقات کریگا ۔
اس روز خدا بھترین حاکم ہوگا اور محمد بھترین زعیم ، ھمارے تمھارے لئے قیامت کا دن معین ھے وھاںپر تمھارا نقصان اور گھاٹاآشکارہوجائےگا اورپشیمانی اس وقت کوئی فائدہ نہ پہونچائے گی،” ھر چیزکے لئے ایک دن معین ھے“ ۔ ” عنقریب ھی تم جان لوگے کہ عذاب الٰھی کتنا رسوا کنندہ ھے ؟اور عذاب بھی ایسا کہ جس سے کبھی چھٹکارا نھیں“۔

انصار سے خطاب
اس کے بعد انصارکی طرف متوجہ ہوئیںاورفرمایا:
اے اسلام کے مددگار بزرگو! اور اسلام کے قلعوں،میرے حق کو ثابت کرنے میںکیوںسستی برتتے ہو اور مجھ پر جو ظلم وستم ہورھاھے اس سے کیوںغفلت سے کام لے رھے ہو ؟! کیا میرے باپ نے نھیں فرمایاتھا کہ کسی کا احترام اس کی اولاد میں بھی محفوظ رھتاھے( یعنی اس کے احترام کی وجہ سے اس کی اولادکااحترام بھی ہوتا ھے؟)
تم نے کتنی جلدی فتنہ برپا کردیا ھے اور کتنی جلدی ہوا وہوس کے شکار ہوگئے! تم اس ظلم کو ختم کرنے کی قدرت رکھتے ہو اور میرے دعوی کو ثابت کرنے کی طاقت بھی۔
یہ کیا کہہ رھے ہو کہ محمد مرگئے ! (او ران کا کام تمام ہوگیا) یہ ایک بھت بڑی مصیبت ھے جس کا شگاف ھر روز بڑھتا جارھاھے اورخلاء واقع ہو رھا ھے، آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے جانے سے زمین تاریک ہوگئی اور شمس وقمر بے رونق ہوگئے، ستارے مدھم پڑ گئے، امیدیں ٹوٹ گئیں،پھاڑوں میں زلزلہ آگیااوروہ پاش پاش ہوگئے ھیں ،حرمتوں کا پاس نھیں رکھا گیا اور پیغمبر اکرم (ص)کی رحلت کے وقت ان کے احترام کی رعایت نھیں کی گئی۔

خدا کی قسم یہ ایک بھت بڑی مصیبت تھی جس کی مثال دنیا میں نھیں مل سکتی۔
یہ اللہ کی کتاب ھے جس کی صبح وشام تلاوت کی آواز بلند ہورھی ھے اور انبیاء علیھم السلام کے بارے میں اپنے حتمی فیصلوں کے بارے میں خبر دے رھی ھے اور اس کے احکام تغیر ناپذیر ھیں(جیسا کہ ارشاد ہوتا ھے) :
”اور محمد(ص)صرف خدا کے رسول ھیں، ان سے پھلے بھی دوسرے پیغمبرموجود تھے، اب اگر وہ اس دنیا سے چلے جائیں، یا قتل کردئے جائیں تو کیا تم دین سے پھر جاوٴگے، اور جو شخص دین سے پھر جائے گا وہ خدا کو کوئی نقصان نھیں پہونچاسکتا،خدا شکر کرنے والوںکو جزائے خیردیتاھے“ ۔
اے فرزندان قیلہ( اوس وخزرج) کیا یہ مناسب ھے کہ میں اپنے باپ کی میراث سے محروم رہوں جبکہ تم یہ دیکھ رھے ہواور سن رھے ہو اوریھاں حاضربھی ہو اور میری آوازتم تک پہونچ بھی رھی ھے اور تم واقعہ سے با خبر بھی ہو، تمھاری تعداد زیادہ ھے، تمھارے پاس طاقت واسلحہ بھی ھے، اور میں تم کو اپنی مدد کے لئے پکار رھی ہوں، لیکن تم اس پر لبیک نھیں کھتے، میری فریادکو سن رھے ہو مگر فریاد رسی نھیں کرتے ہو، تم بھادری میںمعروف اور نیکی سے موصوف اورخود نخبہ ہو ، تم ھی ھم اھلبیت کے لئے منتخب ہوئے ،تم نے عربوںکے ساتھ جنگیں لڑیں، سختیوں کوبرداشت کیا، مختلف قبیلوں سے جنگ کی، سورماوٴں سے زورآزمائی کی ، جب ھم قیام کرتے تھے توتم بھی قیام کرتے تھے ھم حکم دیتے تھے اورتم اطاعت کرتے تھے ۔
یھاں تک کہ اسلام نے رونق پائی اور نعمتیں اور خیرات زیادہ ہوئےں، مشرکین کے سر جھک گئے، ان کا جھوٹا وقاروجوش ختم ہوگیا،اورکفرکے آتش کدے خاموش ہوگئے ، شورش اور شوروغل ختم ہوگیا اور دین کا نظام مستحکم ہوگیا۔
اے گروہ انصار: متحیرہوکر کھاںجارھے ہو ؟ ! حقائق کے معلوم ہونے کے بعد انھیں کیوںچھپاتے ہو،اور قدم آگے بڑھانے کے بعد پیچھے کیوں ہٹا رھے ہو، اورایمان لانے کے بعد مشرک کیوں ہو رھے ہو ؟
” بھلا تم ان لوگوں سے کیوں نھیں لڑتے جھنوں نے اپنی قسموں کو توڑ ڈالا ھے اور رسول کا شھر بدر کرنا چاھتے ھیں، اور تم سے پھلے پھل چھیڑ بھی انھوں نے ھی شروع کی تھی کیا تم ان سے ڈرتے ہو ،حالانکہ کہ اگر تم سچے ایماندار ہو تو تمھیں صرف خدا سے ڈرنا چاہئے ۔“
میں دیکھ رھی ہوں کہ تم پستی کی طرف جارھے ہو جو شخص لائق حکومت تھا اس کو برکنار کردیا اورتم گوشہ نشینی اختیار کرکے عیش وعشرت میں مشغول ہو،زندگی کے وسیع وعریض میدان سے فرار کرکے راحت طلبی کے تنگ وتار ماحول میں پھنس گئے ہو، جو کچھ تمھارے اندرتھا اسے ظاھر کردیااور جوپی چکے تھے اسے اگل دیا، ”لیکن آگاہ رہو اگرتم اور روئے زمین پرآباد تمام انسان کافرہوجائیںتو خدا تمھارا محتاج نھیںھے ۔“

اے لوگو! جو کچھ مجھے کہناچاہئے تھا سوکہہ دیا، چونکہ میںجانتی ہوںکہ تم میری مددنھیںکروگے، تم لوگ جو منصوبے بناتے ہو مجھ سے پوشیدہ نھیںھیں، دل میں ایک درد تھا جس کو بیان کردیاتاکہ تم پرحجت تمام ہوجائے اب فدک اورخلافت کوخوب مضبوطی سے پکڑے رکھو،لیکن یہ بھی جان لو کہ اس راہ میں بڑی دشواریاں ھیں اور اس”فعل “کی رسوائیاںاورذلتیں ھمیشہ تمھارے دامن گیر رھیںگی۔
خدا اپنا غیظ وغضب زیادہ کریگا اوراس کی سزا جہنم ہوگی،” خدا تمھارے کردارسے آگاہ ھے بھت جلد ستمگاراپنے کئے ہوئے اعمال کے نتائج دیکھ لیں گے“
اے لوگو! میں تمھارے اس نبی کی بیٹی ہوںجس نے تمھیںخدا کے عذاب سے ڈرایا،اب جو کچھ تم لوگ کرسکتے ہو کرو، ھم اس کا ضرور انتقام لیںگے تم بھی منتظر ہو ، ھم بھی منتظرھیں۔

قمر بخاری قلمکار

Add new comment