اہل بیتؑ اور ہدایت

وانّی لغفّار لمن تاب و آمن و عمل صالحاً ثمّ اہتدیٰ[١]
''اور میں بہت زیادہ بخشنے والا ہوں اس شخص کےلئے جو توبہ کرے اور ایمان لے آئے اور نیک عمل کرے اور پھر راہ ہدایت پر ثابت قدم رہے۔''

تفسیر آیہ:
جمال الدین محمد بن یوسف الزرندی الحنفی نے آیت شریفہ کی تفسیر میں ایک روایت نقل کی ہے:
ثم اہتدیٰ ای ولایۃ اہل بیتہ۔ یا دوسری روایت:ثم اہتدیٰ ولایتنا اہل البیتیا تیسری روایت:ثم اہتدیٰ حب آل محمدیعنی ثم اہتدیٰ سے ہم اہل بیت کی ولایت سے بہرہ مند ہونا مقصود ہے،یعنی ہدایت پانے والے وہی ہونگے جو ہماری ولایت اور سرپرستی کو مانے گا اور اہل سنت کے کئی مفسرین اور علماء نے ثم اہتدیٰ کی تفسیر میں بہت ساری روایات نقل کی ہیں۔ [٢] جن کا خلاصہ یہ ہے کہ ولایت اہل بیت اور ان کی سرپرستی کے بغیر ہدایت پانے کا دعویٰ سراسر غلط ہے،کیونکہ خدا کی جانب سے جوحضرات ہدایت ہی کےلئے منصوب ہوئے ہیں ان کی رہنمائی اور نمائندگی کے بغیر ہدایت پانے کا تصور ہی صحیح نہیں ہے،چاہے ہدایت تشریعی ہو یا ہدایت تکوینی۔اگرچہ ہدایت تکوینی کو ہر بشر کی فطرت میں خدا نے ودیعت فرمایا ہے لیکن صرف ہدایت تکوینی بشر کےلئے کافی نہیں ہے اور آیت کریمہ میں ہدایت سے مراد یقیناً ہدایت تشریعی ہے،کیونکہ خدا نے توبہ کرنے والے اور ایمان لے آنے والے اور عمل صالح بجا لانے والے لوگوں کا تذکرہ کرنے کے بعد''ثم اھتدی''فرمایاہے۔اس سے بخوبی واضح ہوجاتا ہے کہ ہدایت تشریعی کی آبیاری کےلئے ولایت اہل بیت ضروری ہے وہ اہل بیت جن کو خدا نے ہی ہر قسم کی ناپاکی اور برائی سے پاک وپاکیزہ کرکے خلق فرمایا ہے۔
لہٰذا ولایت اہل بیت کے بغیر نماز، منافق کی نماز کہلائے گی،روزہ منافق کا روزہ شمار ہوگا اور حج و عمرہ بھی منافق کا حج و عمرہ شمار ہوگا جس کا اثر وضعی شائد ہو لیکن اجر و ثواب یقیناً نہیں۔ مذکورہ آیت سے واضح ہوا کہ اعمال صالحہ کی قبولیت اور ثواب ملنے کی شرط ولایت اہل بیت ہے، اور ان کی سر پرستی کے بغیرروحانی تکامل و ترقی کا تصور کرناغلط ہے ،کیونکہ روحانی اور معنوی تکامل و ترقی اس وقت ہوسکتی ہے جب مسلمان خدا کی طرف سے منصوب شدہ ہستیوں کی سیرت پر چلے۔

[١]۔طہ/٨٢

[٢]المیزان ج ١٦ص ٢١١ودرمنثور ج٦،ص ٣٢١

 http://www.shiastudies.com/library/Subpage/Book_Matn.php?syslang=4&id=25...

Add new comment