عظمت اہلبیتؑ اور سنت رسولؐ
١)اہل بیت کا وجود نور الہٰی ہے
قرآن کریم میں خدا نے اپنی ذات گرامی کو نور سے تعبیر کیاہے جیسے ''اللہ نور السموٰات والارض ''یعنی اللہ تبارک وتعالیٰ پورے آسمانوں اور زمین کا نور ہے۔
نیز حضرت پیغمبر اسلام (ص) کے وجود مبارک کو اور خود قرآن کریم کو بھی نور سے یاد کیاگیا ہے، اسی طرح احادیث نبوی(ص)میں علم اور نمازتہجد اور احادیث متواترہ میں اہل بیت کے وجود بابرکت کو نور سے تعبیر کیا گیاہے۔
ابن مسعود -نے کہا:
قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم :اعلم ان اللہ خلقنی و علیاً من نور عظیم قبل خلق الخلق بالفی عام اذ لا تسبیح و لا تقدیس[١]
''پیغمبر اکرم (ص)نے مجھ سے فرمایا:[اے ابن مسعود -] جان لو! خدا نے کائنات کو خلق کرنے سے دو ہزار سال پہلے مجھے اور علی -کو ایک عظیم نور سے خلق فرمایا تھا جبکہ اس وقت خدا کی تقدیس اور تسبیح کےلئے کوئی مخلوق نہ تھا۔
اس روایت سے دو نکتے واضح ہوجاتے ہیں:
١۔کائنات کی خلقت سے پہلے پیغمبر (ص)اور حضرت علی - کی خلقت ہوئی تھی اگرچہ اس کا تصور کرنا اس صدی کے افراد کی ذہنیت سے دور ہے کیونکہ اس صدی کے انسان کا ذہن مادی اشیاء سے زیادہ مانوس ہے۔ لہٰذاماورائے مادہ و مادیات کا تصور اور خاکہ اس کے ذہن میں ڈالنا اتنی علمی ترقی اور عقل و شعور کے باوجود بہت مشکل ہے ۔لیکن اگر انسان کا عقیدہ اور ایمان مضبوط ہو تو یہ سمجھنا آسان ہے کہ کائنات کی خلقت سے پہلے پیغمبر اکرم (ص)اور حضرت علی - کے نور کو خلق کرنا خدا کے لئے مشکل کام نہیںتھا۔کیا اللہ تعالیٰ اس پر قادر نہ تھا؟کیا اس طرح کا خلق کرنا ممکن نہیں ہے کیا کائنات کی خلقت حضرت پیغمبر (ص) اور حضرت علی -کی خلقت کےلئے علت تامہ ہے؟ لہٰذا یہ کہنا کہ پیغمبر اکرم (ص)اور حضرت علی - کی خلقت کےلئے مکان و زمان یا اس رائج مادی سسٹم کی ضرورت ہے۔اس طرح تصور کرناحقیقت میں کائنات کے حقائق سے بے خبر ہونے کے مترادف ہے۔
٢۔اس حدیث سے پیغمبر اکرم (ص)اور حضرت علی - کے وجود مبارک کے نور ہونے کا پتہ چلتا ہے جس کی حقیقت یہ ہے کہ ان کے وجود میں کسی بشر کے لئے کوئی ضرر یا نقصان قابل تصور نہیں ہے۔ کیونکہ خدا کی ذات نور ہے قرآن نور ہے،علم وعبادات نور ہیں،اہل بیت کا وجود بھی نور ہے، اور یہ چیزیں انسان کے تکامل و ترقی کا ذریعہ ہیں۔تکامل و ترقی کےلئے رکاوٹ کا تصور محال ہے۔
نیز جناب عبد الرضی بن عبد السلام نے نزہۃ المجالس میں جناب جابر بن عبد اللہ -سے روایت کی ہے:
عن النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ان اللہ خلقنی و خلق علی (ع) نورین بین یدی العرش نسبح اللہ و نقدسہ قبل ان یخلق آدم بالفی عام فلما خلق اللہ آدمؑ اسکننا فی صلبہ ثم خلقنا من صلب طیب و بطن طاہر حتیٰ اسکننا فی صلب ابراہیم(ع)ثم نقلنا من صلب ابراہیمؑ الیٰ صلب طیب و بطن طاہر حتیٰ اسکننا فی صلب عبد المطلبؑ ثم افترق النور فی عبد المطلبؑ فصار ثلثاہ فی عبد اللہ و ثلثہ فی ابی طالب (ع) ثم اجتمع النور منی و من علی (ع) فی فاطمۃ (ع) فالحسنؑ و ال حسین (ع) نوران من نور ربّ العالمین[2]
جناب جابر -نے پیغمبر اکرم (ص)سے روایت کی ہے کہ آپنے فرمایا: بتحقیق خدا نے مجھے اور علی - کو حضرت آدم -کی خلقت سے دوہزار سال پہلے دو نور کی شکل میں عرش کے سامنے خلق کیا اور ہم خدا کی تسبیح و تقدیس کرتے تھے ۔جب خدا نے حضرت آدم -کو خلق فرمایا تو ہمارے نورکو ان کے صلب مبارک میں قرار دے دیا پھر ان کے صلب سے پاک و پاکیزہ اصلاب کے ذریعہ منتقل کرکے حضرت ابراہیم - کے صلب میں ٹھہرایا،پھر ان کے صلب اور پشت سے نکال کر جناب عبد المطّلب- کے صلب میں منتقل کیا پھر جناب عبد المطلب -کے صلب سے یہ نور اس طرح تقسیم ہواکہ دو حصے حضرت عبد اللہ بن عبد المطّلب- کے صلب میں قرار دیا گیاجبکہ ایک حصہ جناب ابو طالب بن عبد المطلب +کے صلب میں قرار دیاگیا،پھر اس نور کے دونوں حصے فاطمہ = کے وجود مبارک میں جمع ہوئے لہٰذا حسن- و حسین- اللہ تعالیٰ کے دو نور ہیں۔
اس روایت پر غور کیا جانا چاہئے کیونکہ گذشتہ روایت میں حضرت پیغمبر اکرم (ص)اور حضرت علی - کے نور کا کائنات کی خلقت سے پہلے موجود ہونے کو بتایا گیا ۔ اس روایت میں حضرت آدم - کی خلقت سے پہلے حضرت پیغمبر (ص) اور حضرت علی - کا نورخلق ہونے کی خبر دی۔
نیز جناب سلمان فارسی -نے فرمایا:
قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم: یا سلمان!فہل علمت من نقبائی و من الانثیٰ عشر الذین اختارھم اللہ للامامۃ بعدی فقلت اللہ و رسولہ اعلم قال یا سلمان خلقنی اللہ من صفوۃٍ نورہ و دعانی فا طعت و خلق من نوری علیاً فدعاہ واطاعہ وخلق من نوری و نور علی فاطمہ فدعاھا فاطاعتہ و خلق منی و من علی و فاطمۃ الحسن و الحسین فدعاھما فاطاعاہ فسمانا بالخمسۃ الاسماء من اسمائہ اللہ المحمود و انا محمد واللہ اعلٰی وھٰذا علی و اللہ فاطر وھٰذہ فاطمۃ واللہ ذوالاحسان وھٰذا الحسن واللہ المحسن وھٰذا الحسین ثم خلق منا ومن صلب الحسین تسعۃ ائمۃ فدعاھم فاطاعوہ قبل ان یخلق اللہ سماء مبنیۃ وارضا مدحیۃ او ھواء او ماء او ملکاً او بشراً وکنّا بعلمہ نوراً نسبحہ و نقدسہ و نطیع[3]
پیغمبر اکرم (ص)نے فرمایا:اے سلمان -! کیا تو جانتے ہو کہ میرے جانشین کون ہیں؟ اور وہ بارہ افراد جنہیں خدا نے میرے بعد امامت کےلئے چن لیا ہے کون ہیں؟سلمان -نے کہا:اللہ اور اس کا رسول (ص) بہترجانتے ہیں۔ اس وقت رسول خدا ؐنے فرمایا: اے سلمان -جان لو!خدا نے مجھے اپنے خالص نور سے خلق فرمایا اور مجھے اپنی اطاعت کی دعوت دی تو میں نے اطاعت کی پھر میرے نور سے علی -کو خلق کیا اور ان کو بھی اپنی طرف دعوت دی انہوں نے بھی اطاعت کی اور میرے اور علی -کے نور سے فاطمہ زہرا =کو خلق کیا ان کو بھی اطاعت کی دعوت دی انہوں نے لبیک کہا پھر میرے،علی - اور فاطمہ = کے نور سے حسن و حسین (ع) کو خلق فرمایا ان کو بھی اپنی طرف دعوت دی انہوں نے قبول کیا پھر خدا نے ہمیں اپنے پانچ اسماء حسنیٰ سے موسوم فرمایا پس خدا محمود ہے میں محمد،خدا اعلیٰ ہے اور یہ علی -،خدا فاطر ہے اور یہ فاطمہ =،خدا صاحب احسان ہے اور یہ حسن -،خدا محسن ہے اور یہ حسین-۔اس کے بعد خدا نے میرے حسین - کے صلب سے نو ہستیوں کو امام اور پیشوا بناکر خلق فرمایا ان کو بھی اپنی طرف دعوت دی تو سب نے خدا کی اطاعت کی،اس وقت آسمان،زمین،ہوا،پانی،فرشتے اور بشر میں سے کوئی چیز خلق نہیں ہوئی تھی صرف ہمارا نور تھا جو خدا کی تسبیح و تقدیس اور اطاعت کر رہا تھا۔
فضل نے کہا:
قال الصادق علیہ السلام:ان اللہ تبارک وتعالیٰ خلق اربعۃ عشر نوراً قبل خلق الخلق باربعۃ عشر الف عام فھی ارواحنا فقیل لہ یابن رسول اللہ ومن الاربعۃ عشر قال محمد(ص)و علی (ع) و فاطمہؑ والحسن والحسین والائمۃ من ولد الحسین آخرھم القائم الذی یقوم بعد غیبۃ فیقتل الدجال و یطھر الارض من کل جور و ظلم......[4]
امام جعفر صادق -فرماتے ہیں:بتحقیق خدا نے کائنات کو خلق کرنے سے چودہ ہزار سال پہلے چودہ نور کو خلق فرمایا،اوروہ ہم اہل بیت کی ارواح تھیں آپ -سے پوچھا گیا یابن رسول خدا! وہ چودہ ہستیاں کون ہیں؟آپ- نے فرمایا:وہ حضرت محمد(ص)،حضرت علی -،حضرت فاطمہ =،حضرت حسن-حضرت حسین- اور امام حسین - کی نسل سے نوامام ہیںجن میں سے آخری امام قائم عج ہوگا جو غیبت کے بعد ظہور کرے گااور دجال کو قتل کرکے زمین کو ہر قسم کے ظلم و جور سے پاک کردے گا۔
تحلیل:
مذکورہ روایتوں سے معلوم ہوجاتاہے کہ اہل بیت شیعہ امامیہ کے
عقید ے کے مطابق چودہ ہیںجوچودہ معصومین کے نام سے مشہور ہےں ان کی خلقت حضرت آدم -کی خلقت سے پہلے نور کی شکل میں عالم ذر اور عالم نفس میں ہوئی تھی۔
جب حضرت آدم -کی خلقت ہوئی تو خدا نے ان کے نور کو پاک و پاکیزہ صلبوں سے منتقل کرکے حضرت عبد اللہ - اورحضرت ابو طالب-کے صلب تک پہنچا دیا پھراس مادی دنیامیں بشر کی شکل میں وجود کا لباس پہنایا۔
نیز امام سجاد -نے فرمایا:
حدثنا عمّی حسن قال سمعت جدی رسول اللہ یقول خلقت من نور اللہ عز وجل و خلق اہل بیتی من نوری و خلق محبھم من نورھم و سائر الناس فی النار[5]
میں نے اپنے تایاامام حسن مجتبیٰ -سے سنا کہ آپ-نے فرمایا:میرے نانا رسول خدا ؐنے فرمایا: میرا وجود خدا کے نور سے خلق ہوا اور میرے اہل بیت کو میرے نور سے خلق کیا گیا اور ان کے دوستوں کو اہل بیت کے نور سے خلق کیا گیا ۔ اوران کے ساتھ بغض رکھنے والوں کو منہ کے بل جہنم میں دھکیل دیا جائے گا۔
اہم نکات:
اگر اس صدی کا بشر اہل بیت کی عظمت اور فضیلت کے بارے میں صرف اہل سنت کے منابع کا مطالعہ کرے توحقیقت واضح ہونے کے علاوہ بہت ساری مشکلات کا حل بھی مل سکتا ہے۔اور اہل بیت کی عظمت بیان کرنے والی احادیث کو کسی اضافہ اور مبالغہ گوئی کے بغیر پیش کیا جائے تو اہل بیت کی خلقت اور دیگر انسانوں کی خلقت میں بڑا فرق نظر آئے گا۔ اگر ہم ان کی خلقت کا حضرت آدم -کی خلقت یا کائنات کی خلقت سے پہلے ہونے کی خبر کسی ایسے معاشرے میں بیان کریں جہاں سالوں سال سے مادی نظام رائج ہو تو ہمارا مذاق اڑایا جائے گا ۔کیونکہ ان کی ذہنیت مادہ اور مادیات سے مانوس ہوچکی ہے۔لہٰذا ان کا نظام ہر غیر مادی شیء کی نفی کرتا ہے ۔اسی لئے ایسے افراد کے ذہن میں ایسے حقائق کا بٹھانا بہت مشکل کام ہے۔لیکن اگر کوئی شخص اسلامی فلسفہ سے آگاہ ہو تو بخوبی اس مطلب کو درک کرسکتا ہے۔کیونکہ اسلامی فلسفہ تین قسم کے عالم میں وجود کو ثابت کرتا ہے:
١۔عالم ذہن
٢۔عالم خارج
٣۔عالم نفس الامر
ہم وجودذہنی اور وجود خارجی کی خصوصیات سے مانوس ہیں لیکن وجود نفس الامری کی خصوصیات سے بے خبر ہیں۔اس لئے جب چودہ معصومین کے وجود مبارک کا نور ہونے یا حضرت آدم -اور کائنات کی خلقت سے پہلے عالم ذر اور عالم نفس الامرمیں موجود ہونے کی خبر دی جاتی ہے تو اس کا درک کرنا مشکل ہوتا ہے۔
کسی مذہب یاعقیدے پر تنقیدکرنے سے پہلے ان کی دلیل اور اس عقیدہ کی حقیقت کو سمجھنا ضروری ہے،پھر اشکال بھی کرے اور جواب بھی سنے۔
[١]۔قندوزی،ینابیع المودۃ،ج١ص٧٠
[2]۔نزہۃ المجالس ج ٢ص٢٣٠ ۔
[3]۔بحار الانوارج ١٥ ص٩۔
[4]۔بحار الانوار ج ١٥،ص٢٣۔
[5]۔ینابیع المودۃ ج ١ص١٠۔
http://www.shiastudies.com/library/Subpage/Book_Matn.php?syslang=4&id=25...
Add new comment