حضرت فاطمہؑ کا دفن اور تشیع جنازہ

آیت اللہ ابراہیم امینی

حضرت فاطمہ زہرا ؑ کے گھر سے رونے کی آوازیں بلند ہونے پر اہل مدینہ کو علم ہوگیا۔ تمام شہر سے گریہ و بکا کی آوازیں آنے لگیں، لوگوں نے حضرت علی ؑ کے گھر کا رخ کیا۔ حضرت علی ؑ تشریف فرما تھے حسن ؑ اور حسین ؑ آپؑ کے نزدیک بیٹھے گریہ کررہے تھے۔ ام کلثوم روتی اور فرماتی تھیں : یا رسول اللہ ! آج ہم آپ سے محروم ہوئے ہیں ۔
لوگ گھر کے باہر جمع ہو کر حضرت زہرا ؑ کے جنازے کے باہر آنے کے منتظر تھے کہ اچانک حضرت ابوذر گھر سے باہر نکلے اور کہا: لوگو! چلے جاﺅ کیونکہ جنازہ دیر سے اٹھایا جائے گا۔
حضرت علی ؑ نے اسماءکے ساتھ مل کر اسی رات حضرت زہرا ؑ کو غسل و کفن دیا، حضرت فاطمہ ؑ کے چھوٹے چھوٹے بچے جنازے کے ارد گرد گریہ کررہے تھے ، جب آپؑ غسل و کفن سے فارغ ہوگئے تو آوازدی: اے حسن ؑ ، اے حسین ؑ ، اے زینب ؑ، اے کلثوم ؑ آﺅ ماں کو وداع کرو کہ پھر ان کو نہ دیکھ سکو گے۔ جناب زہرا ؑ کے یتیم بچے اپنی ماں کے جنازے پر گرے ہوئے بوسہ دیتے اور روتے جاتے۔ حضرت علی ؑ نے ان کو جنازے سے اٹھایا۔
جنازے پر نماز پڑھی اور اسے لے کر چلے ۔ عباس، فضل، مقداد، سلمان، ابوذر، عمار، حسن ؑ، حسین ؑ ، عقیل، بریدہ ، حذیفہ اور ابن مسعود تشیع جنازہ میں شریک ہوئے۔
اندھیرے میں جب تمام آنکھیں محو خواب تھیں جنازے کو آہستہ آہستہ اور خاموشی کے ساتھ قبر کی طرف لے گئے تاکہ دشمنوں کو علم نہ ہو جائے اور وہ دفن میں حائل نہ ہو جائیں، جنازے کو قبر کے کنارے زمین پر رکھا گیا امیر المومنین حضرت علی ؑ نے خود اپنی شریک حیات کے جسد اطہر کو اٹھایا اور قبر میں رکھ دیا پھر نہایت تیزی سے قبر کو بند کردیا۔
حضرت علی ؑ جناب زہرا ؑ کی قبر پر
جناب زہرا ؑ کی تدفین کے مراسم کو انتہائی مخفی انداز سے بہت سرعت سے انجام دیا گیا، تاکہ دشمنوں کو اطلاع نہ ہو اور وہ آپؑ کے دفن میں مانع نہ ہوں۔ لیکن جب حضرت علی ؑ جناب زہرا ؑ کی دفن سے فارغ ہوئے تو آپؑ پر بہت زیادہ غم و اندوہ طاری ہوگیا، آپؑ نے فرمایا: اے خدا ! کس طرح میں نے یادگار نبی کو زمین میں دفن کیا ہے: کیسی مہرباں ، باصفا، پاکدامن اور فداکار بیوی کو اپنے ہاتھ سے کھویا ہے۔ خدایا ! اس نے میری حفاظت کے سلسلے میں کتنے مصائب برداشت کئے ہیں ، میرے گھر میں کتنی زحمت اٹھائی ہے۔ آہ ! زہرا ؑ کے اندرونی درد، افسوس ان کے ٹوٹے ہوئے پہلو پر اور ان کے ورم کئے ہوئے بازو پر اور ان کے ساقط شدہ بچے پر ، خدایا! میری امید تھی کہ آخر عمر تک اس مہرباں بیوی کے ساتھ گزاروں گا لیکن افسوس صد افسوس کہ موت نے ہمارے درمیان جدائی ڈال دی ہے۔ آہ ! میں زہرا ؑ کے یتیم بچوں کا کیا کروں ؟
رات کے اندھیرے میں آپؑ جناب رسول خدا کی قبر کی طرف متوجہ ہوئے اور عرض کی: یا رسول اللہ ! میری اور اپنی دختر عزیز کی جانب سے جو ابھی آپ کی خدمت میں پہنچنے ہی والی ہے ، جو آپ کے جوار میں مد فون ہوئی ہے اور جو سب سے جلد آپ سے آملی ہے ، سلام قبول فرمائیے۔ یا رسول اللہ میرا صبر ختم ہوگیا ہے لیکن اس کے سوا کوئی چارہ بھی نہیں ۔ جیسے میں نے آپ کی مصیبت پر صبر کیا ہے زہرا ؑ کے فراق پر بھی کروں گا۔ یا رسول اللہ ! آپ کی روح میرے دامن میں قبض کی گئی، میں نے ہی آپ کی آنکھوں کو بند کیا، میں ہی تھا جس نے آپ کے جسم مبارک کو قبر میں اتارا، ہاں صبر کروں گا اور پڑھوں گا”انا للہ وانا الیہ راجعون“
یا رسول اللہ ! وہ امانت جو آپ نے میرے سپرد کی تھی اب آپ کے پاس لوٹ گئی ہے۔ زہرا ؑ میرے ہاتھ سے چھین لی گئی ہے، آسمان اور زمین کی رونق ختم ہوگئی ہے، یا رسول اللہ ! میرے غم کی کوئی انتہا نہیں ، میری آنکھوں سے نیند اڑ گئی ہے ، میرا غم و اندوہ ختم نہ ہوگا مگر جب تک کہ میں مر نہ جاﺅں گا اور آپ کے پاس پہنچ نہ جاﺅں گا۔ یہ ایسا غم و اندوہ ہے جو دل کے زخموں سے پیدا ہوتا ہے ، ایسا عنصر ہے جو تحریک و جوش میں آیا ہے، ہماری باصفا بزم کس قدر جلد اجڑ گئی، میں اپنے دل کے درد کو خدا سے بیان کرتا ہوں ۔
یا رسول اللہ ! آپ کی دختر آپ کو بتائے گی کہ آپ کی امت نے اتفاق کرکے خلافت کو مجھ سے چھین لیا، آپ کی زہرا ؑ کے حق کو غصب کیا۔ یا رسول اللہ ! حالات کو اصرار کرکے فاطمہ ؑ سے دریافت کیجئے گا کیونکہ ان کے دل میں بہت زیادہ درد موجود ہے جو یہاں ظاہر نہ کر سکیں لیکن آپ سے بیان کریں گی۔ شاید خدا ہمارے اور ان لوگوں کے درمیان قضاوت کرے۔ یا رسول اللہ ! آپ سے رخصت ہوتا ہوں لیکن اس لئے نہیں کہ آپ کی قبر پر بیٹھے بیٹھے تھک گیا ہوں اور آپ کے حضور سے جاتا ہوں، لیکن اس لئے نہیں کہ یہاں ملول خاطر ہوگیا ہوں اور اگر آپ کی قبر پر بیٹھا ہوں تو اس لئے نہیں کہ اللہ تعالیٰ کے اس وعدے پر جو صبر کرنے والوں کو دیا گیا ہے یقین نہیں رکھتا پھر بھی صبر کرنا تمام چیزوں سے بہتر ہے۔
یا رسول اللہ ! اگر دشمنوں کی جسارت کا خوف نہ ہوتا تو آپ کی قبر پر اقامت اختیار کرلیتا، اور اس مصیبت عظمیٰ پر روتا رہتا۔ یا رسول اللہ ! ہمارے حالات ایسے ہوگئے تھے کہ ہم مجبور تھے کہ آپ کی بیٹی کو مخفی طور سے رات کی تاریکی میں دفن کریں۔ اس کا حق چھین لیا گیا اور اسے میراث سے محروم رکھا گیا۔ یا رسول اللہ میں اپنے اندرونی درد کو خدا کے سامنے پیش کرتا ہوں اور اس دردناک مصیبت پر آپ کو تسلیت پیش کرتا ہوں ۔ آپ پر اور اپنی مہربان بیوی پر میرا درود ہو۔
حضرت علی ؑ نے دشمنوں کے خوف سے جناب زہرا ؑ کی قبر مبارک کی مٹی کو ہموار کردیا اور مختلف مقامات پر سات یا چالیس تازہ قبریں بنا دیں تاکہ حقیقی قبر کا پتہ نہ چلے اس کے بعد آپؑ اپنے گھر واپس لوٹ آئے۔
حضرت فاطمہ ؑ کی قبر مبارک
ہم نے پہلے ذکر کیا ہے کہ خود حضرت فاطمہ ؑ نے فیصلہ کیا تھا کہ آپؑ کی قبر مخفی رکھی جائے۔ اسی لئے حضرت علی ؑ نے آپؑ کو رات کی تاریکی میں دفن کیا اور آپؑ کی قبر کو زمین سے ہموار کردیا اور چالیس تازہ قبریں بنا دیں تاکہ دشمن دھوکے میں رہیں اور آپؑ کی قبر کی حقیقی جگہ معلوم نہ کر سکیں ۔ اگرچہ خود حضرت علی ؑ اور ان کی اولاد اور خاص اصحاب اور رشتہ دار آپؑ کی قبر کی جگہ جانتے تھے۔ لیکن اس سلسلے میں جناب زہرا ؑ کی سفارش اس قدر موکد تھی کہ ان میں سے کوئی بھی تیار نہ تھا کہ آپؑ کی قبر کی نشاندہی کرتا، یہاں تک کہ ایسے قرائن اور آثار بھی نہیں چھوڑے گئے کہ جس سے آپؑ کی قبر معلوم کی جاسکے۔
ائمہ طاہرین ؑیقینی طور سے آپؑ کی قبر سے آگاہ تھے لیکن انہیں بھی اس بات کی اجازت نہ تھی کہ وہ اس راز الہٰی کو فاش اور ظاہر کریں لیکن اس کے باوجود اہل تحقیق نے اس کی جستجو میں کمی نہیں کی اور ہمیشہ اس بارے میں بحث و گفتگو کرتے رہے۔ لہٰذا بعض قرائن اور امارات کے ذریعہ انہوں نے حضرت فاطمہ ؑ کے مدفن کو بتایا ہے۔
1۔ بعض علماءنے کہا ہے کہ آپؑ پیغمبر کے روضہ میں ہی دفن ہیں ۔ مجلسی نے محمد بن ھمام سے نقل کیا ہے کہ وہ کہتے ہیں : حضرت علی ؑ نے حضرت فاطمہ ؑ کو رسول کے روضہ میں دفن کیا ہے لیکن قبر کے آثار کو بالکل مٹا دیا۔ نیز مجلسی نے حضرت زہراؑ کی کنیز جناب فضہ سے نقل کیا ہے کہ انہوں نے کہا: حضرت فاطمہ ؑ کی نماز جنازہ روضہ رسول میں پڑھی گئی اور آپؑ کو اسی مقام پر دفن کردیا گیا۔
شیخ طوسیؒ نے فرمایا ہے: بظاہر حضرت فاطمہ ؑ کو روضہ پیغمبر میں یا خود ان کے گھر میں دفن کیا گیا ہے۔ اس احتمال کے لئے مزید جودلیل لائی جاسکتی ہے وہ پیغمبر سے نقل ہونے والی وہ روایت ہے جس میں آپ نے فرمایا: میری قبر اور منبر کے درمیان جنت کے باغوں میں سے ایک باغ ہے۔
دوسری دلیل یہ ہے کہ لکھا گیا ہے کہ حضرت علی ؑ نے روضہ پیغمبر پر فاطمہ ؑ کی نماز پڑھی اور اس کے بعد پیغمبر کو مخاطب کیا اور فرمایا: میرا اور آپ کی دختر کا آپ پر سلام ہو جو آپ کے جوار میں دفن ہے۔
2۔ مجلسی نے ابن بابویہ ؒ سے نقل کیا ہے کہ انہوں نے فرمایا: میرے نزدیک یہ بات ثابت شدہ ہے کہ حضرت فاطمہ ؑ کو اپنے گھر میں دفن کیا گیا تھا اور جب بنی امیہ نے مسجد نبوی کی توسیع کی تو حضرت فاطمہ ؑ کی قبر مسجد میں آگئی۔
پھر مجلسی ؒ نے محمد ابن ابی نصر سے نقل کیا ہے کہ انہوں نے کہا : میں نے ابو الحسن سے پوچھا کہ حضرت فاطمہ ؑ کی قبر کہاں ہے تو انہوں نے فرمایا: اپنے گھر میں مدفون ہیں اور بعد میں جب مسجد کی توسیع کی گئی تو مسجد میں آگئی ہیں۔
3۔ صاحب کشف الغمہ لکھتے ہیں کہ مشہور یہ ہے کہ حضرت فاطمہ ؑ کو بقیع مین دفن کیا گیا۔
سید مرتضیٰ ؒ نے بھی عیون المعجزات میں یہی قول اختیار کیا ہے۔
ابن جوزی لکھتے ہیں کہ یہ بھی کہا گیا ہے کہ حضرت فاطمہؑ ؑبقیع میں مدفون ہیں ۔
بعید نہیں کہ یہ بات اس لئے سمجھی گئی ہو کہ حضرت علیؑ نے بقیع میں چالیس تازہ قبریں بنائی تھیں اور جب بعض نے ان قبروں میں سے حضرت فاطمہ ؑ کے جنازے کو نکالنے کا ارادہ کیا تو حضرت علی ؑ غضبناک ہوئے تھے اور انہیں قتل کرنے کی دھمکی بھی دی تھی۔ پس معلوم ہوتا ہے کہ ان قبروں میں سے ایک قبر حضرت فاطمہ زہرا ؑ کی تھی۔
4۔ ابن جوزی لکھتے ہیں : بعض نے لکھا ہے کہ حضرت فاطمہ ؑ کو عقیل کے گھر کے قریب دفن کیا گیا تھا۔ آپؑ کی قبر سے راستے تک سات ذرع کا فاصلہ ہے۔ عبداللہ بن جعفر نے کہا ہے: اس میں کوئی شک نہیں کہ حضرت فاطمہ ؑ کی قبر عقیل کے گھر کے قریب واقع ہے۔

Add new comment