آج مسٹر اوباما سعودی عرب کے دورے پر ہیں۔میڈیا

ٹی وی شیعہ(میڈیا نیٹ ورک،اے ایف پی) امریکی صدر بارک اوباما نے سعودی فرمانروا شاہ عبداللہ بن عبدالعزیز سے ملاقات کی جس میں باہمی دلچسپی کے امور پر تبادلہ خیال کیا گیا۔ شام، ایران، مصر اور مشرق وسطیٰ میں امن کے معاملات خاص طور پر گفتگو کا موضوع رہے۔ اوباما اور شاہ عبداللہ کی ملاقات میں شام میں معتدل اپوزیشن کو فوجی اور دیگر پہلوئوں سے طاقتور بنانے کے طریقوں پر تبادلہ خیال کیا گیا۔وائٹ ہائوس کے مطابق اپوزیشن کو سیاسی اور فوجی اعتبار سے صدر بشار الاسد کے مقابل کھڑا کرنے کے طریقوں پر غور ہو گا۔ سعودی عرب ایران کے ساتھ ہونے والے امریکہ اور دیگر عالمی طاقتوں کے جوہری مذاکرات پر تحفظات کا اظہار کرتا رہا ہے۔ صدر اوباما نے شاہ عبداللہ کو کہا کہ امریکہ ایران کے ساتھ ہونیوالے کسی برے معاہدے کو قبول نہیں کریگا۔ خاص طور پر اس نے شام میں کیمیکل ہتھیاروں کے استعمال کے بعد اوباما کی جانب سے شام میں فوجی کارروائی نہ کرنے کے فیصلے پر مایوسی کا اظہار کیا ہے۔ امریکی صدر کی شاہ عبداللہ سے ملاقات شمالی مشرقی جانب صحرائی فارم رادات خریم میں ہوئی۔ اوباما کے ساتھ سیکرٹری خارجہ جان کیری اور نیشنل سکیورٹی ایڈوائزر سوسن رائس بھی موجود تھے۔ سعودی عرب کی خواہش رہی ہے کہ امریکہ شام کے باغیوں کے حوالے سے اپنی پوزیشن میں تبدیل ہوئے اور انہیں زمین سے فضا میں داغ جانے والے میزائل فراہم کرے تاہم امریکہ اس حوالے سے ہچکچاہٹ کا مظاہرہ کرتا رہا ہے۔ امریکہ کے ڈپٹی نیشنل سکیورٹی ایڈوائزر بین روڈز نے کہا کہ شامی باغیوں کی مدد کے حوالے سے امریکہ کے سعودی عرب کے ساتھ تعلقات میں بہتری آئی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ شام کی پالیسی کے حوالے سے امریکہ کے سعودی عرب سے تعلقات میں گذشتہ موسم خزاں کی نسبت فرق آ گیا ہے۔ دریں اثناء واشنگٹن پوسٹ کی ایک رپورٹ کے مطابق امریکہ سعودی عرب سمیت اپنے مقامی اتحادیوں کے ساتھ اپنی گفتگو میں شام کے باغیوں کی خفیہ مدد کرنے کے ایک منصوبے پر عمل کیلئے تیار ہے۔ اس منصوبے میں سی آئی اے کی جانب سے سعودی عرب، اردن اور قطر میں ہر ماہ شامی اپوزیشن فورسز کے 600افراد کی تربیت بھی شامل ہے۔ واشنگٹن شامی باغیوں کو میزائل داغنے والے ائرکرافٹ کی فراہمی پر بھی غور کر رہا ہے۔ قطر نے اس منصوبے کے پہلے سال کیلئے ادائیگیوں کی پیش کش کی ہے۔ کانگریس نے اوباما انتظامیہ پر شام میں ناکامی کے حوالے سے تنقید کی تھی۔ شام میں ہونے والی جھڑپوں میں اب تک ایک لاکھ 40ہزار افراد جاں بحق ہو چکے ہیں۔ قبل ازیں امریکی صدر باراک اوباما نے ماسکو حکومت سے مطالبہ کیا کہ وہ یوکرائن کے سرحدی علاقوں سے اپنی افواج واپس بلا لے اور کشیدگی کو ختم کرنے کے لئے مذاکرات کا راستہ اختیار کرے۔دورہ یورپ کے اختتام پر اوباما نے کہا  سرحدی علاقوں میں روسی فوج کی تعیناتی غیر معمولی ہے اور ایسا معلوم ہوتا ہے غالباً ماسکو نے کچھ اضافی منصوبہ جات بنا رکھے ہیں۔ ادھر روسی وزارت دفاع نے کہا ہے یوکرائن کے تمام حامی فوجی کریمیا سے روانہ ہو گئے ہیں اور یوکرائن کا فوجی سازوسامان جلد ہی واپس کر دیا جائے گا۔ سعودی روانگی سے قبل اوباما نے اٹلی میں پوی فرانسس برطانوی صدر جیارجیو نیوہٹانو اور وزیراعظ میٹیورینزی سے ملاقات کی۔

Add new comment