صدیقہ عالم [س] نرغہ اعدا میں

ابوبکر صراحتاً حضرت زہرا کی تکذیب نہ کرسکتے تھے بلکہ اس بات کا اعتراف کیا کہ آپ سچی و صادقہ ہیں اور آپ کا کلام ، کلام الہٰی کی طرح سچا ہے ۔ لیکن کچھ بہانے اور عذر پیش کیے کہ جو ابتدائی نظر میں اچھے نظر آتے ہیں ۔

ابوبکر نے کہا :اے بہترین خاتون عالم اور تمام عالم کی بہترین عورت کی بیٹی آپ اپنی گفتار میں سچی ہیں اور عقل و منطق میں کامل ہیں آپ کے حق کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا اور آپ کے صدق و صفائی میں کوئی بہانہ پیش نہیں کیا جائے گا ، لیکن خدا کی قسم میں رسول خدا ۖ کے فرمان کو پائمال نہیں کرسکتا میں نے سنا ہے کہ آپ ۖ نے فرمایا کہ ہم صنف انبیاء ، سونا چاندی گھر و جنگل میراث میں نہیں چھوڑ تے! اور ہماری میراث صرف کتاب و سنت اور حکمت و نبوت ہے اور جو مال ہم سے رہ جائے وہ ہمارے بعد ولی امر کے لیے ہے کہ وہ جو چاہے انجام دے ۔(١)

..............

(١) یہ تمام گفتگو اور حضرت زہرا کا جواب پہلے بیان ہوچکا ہے ۔ دیکھیے: احتجاج طبرسی :١ ١٤١ـ١٤٤۔

٢٦٣

ابوبکر نے یہ ماحول و موقعیت فراہم کرلی کہ فاطمہ زہرا کو جھٹلایا جاسکے اور ایسے بہانے تلاش کیے کہ جوظاہرا ً شرعی نظر آرہے تھے لیکن حضرت فاطمہ زہرا نے حجت و برہان اور قاطع دلیلوں سے یہ ثابت کردیا کہ ابوبکر جھوٹے ہیں اور فرمایا : اے ابوقحافہ کے بیٹے ''لقد جئت شیأ فریا '' (١)خدا کی قسم بہت بڑا جھوٹ اور خود ساختگی چیز پیش کی ہے ۔

یہ صدیقہ فاطمہ کا کلام ہے کہ جس کی خوشنودی میں رضائے الہٰی ہے اور جس کی ناراضگی میں غضب خداوندہے جب کہ یہ جملہ بالکل واضح ہے کہ حضرت زہرا کوئی بات بھی اپنی خواہشا ت نفس و حس عاطفی سے نہیں کہتیں اور عام انسانوں کی طرح گفتگو نہیں کرتیں چونکہ یہ معقول نہیں ہے کہ خداوندعالم اپنی مطلقا ًرضا و غضب کوکسی ایسے شخص کی خوشنودی و ناراضگی میں قرار دے کہ جو نعوذ باللہ خواہشات نفس کا تابع اور اپنی مصلحت کا فرمانبردار ہو ۔

 

ا س کا مطلب یہ ہے کہ فاطمہ زہرا ، مرتبہ ٔ عصمت پر فائز ہیں چونکہ آپ کی خوشنودی خدا کی رضا اور آپ کی ناراضگی خداوندعالم کا غضب ہونے کے یہی معنی ہیں کہ آپ معصوم ہیں،اور دوسری طرف یہ مقام کہ فاطمہ ، نور خدا سے خلق ہوئی ہیں ، صدیقہ کبری کی خشم و ناراضگی میں خدااور اس کے رسول کا غضب منعکس ہے ۔یہ ہے رسول اکرمۖ کا فرمان '' فاطمہ میرا ٹکڑا ہے جو اس کو اذیت دے گا گویا اس نے مجھے اذیت دی ''(٢)اورجس نے اس کو ناراض کیا گویا اس نے مجھے ناراض کیا ۔(٣)

..............

(١) سورہ مریم(١٩) آیت ٢٧۔

(٢) المجموع (نووی) :٢٠ ٢٣٤۔

(٣) ینابیع المودة :٢ ٥٧۔

٢٦٤

فاطمہ زہرا سے فرمایا بیشک خداوند آپ کی ناراضگی میں غضب ناک ہوتا ہے اور آپ کی خوشنودی میں خوشنود ہوتا ہے ۔(١)

یہ سب تاکید ہے کہ فاطمہ کی ناراضگی اور اس کو پریشان کرنا، ان کو غصہ دلانا خدا اور رسول کو ناراض کرنا اور ان کو اذیت و پریشان کرنا ہے ۔خداوندمتعال کا ارشاد ہے :

(ان الذین یوذون اللہ و رسولہ لعنھم اللہ فی الدنیا والآخرة و اعدلھم عذاباً مھیناً ) (٢)

وہ لوگ کہ جو خدااور رسول کو اذیت و پریشان کرتے ہیں ان پر اللہ دنیا و آخرت میں لعنت کرتا ہے اور ان کے لیے ذلیل و خوار کرنے والا عذاب مہیا کررکھا ہے ۔ اور پھر ارشاد ہوا :

(ومن یحلل علیہ غضبی فقد ھوی )(٣)

اور جس پر خدا وندعالم کا غضب نافذ ہو جائے وہ برباد اور جہنمی ہے ۔

اب آپ دیکھیے کہ جو بخاری نے عایشہ سے اور ابن قتیبہ نے عمر سے روایت نقل کی ہے کہ عایشہ کا بیان کہ فاطمہ بنت رسولۖ نے ابوبکر کے پاس پیغام بھیجا کہ جس میں رسول خدا ۖ کی میراث کا مطالبہ کیا اور وہ مال کہ جو خداوندعالم نے ان کو مدینہ میں عطا کیا تھا فدک و خمس خیبر وغیرہ اسے طلب کیا۔

..............

(١) مستدرک حاکم :٣ ١٥٤۔

(٢) سورہ احزاب (٣٣) آیت ٥٧۔

(٣) سورہ طہ(٢٠) آیت ٨١۔

٢٦٥

ابوبکر نے کہا ، رسول اکرمۖ نے فرمایا ہے کہ ہم میراث نہیں چھوڑ تے اور جو کچھ ہم سے رہ جاتا ہے وہ صدقہ ہے بیشک آل محمد اسی طرح تصرف کریں اور خدا کی قسم میں رسول خدا ۖکے صدقے میں کوئی تغییر نہیں دے سکتا اور جو چیز آپ کے زمانہ حیات میں جہاں استعمال ہوتی تھی اس کو وہیں استعمال کروں گا اور میں رسول خدا ۖ کے عمل کے مطابق عمل انجام دوںگا ۔

بہر حال ابوبکر نے کچھ بھی فاطمہ زہرا کو نہ دیا ، آپ ابوبکر سے ناراض ہوگئیں اور ان کو ان کے حال پر چھوڑ دیاجب تک زندہ رہیں ابوبکر سے گفتگو نہیں کی ۔

فاطمہ ، پیغمبراکرمۖ کی وفات کے بعد چھ مہینے تک زندہ رہیں اور جب آپ کا انتقال ہوا آپ کے شوہر علی نے آپ کو رات ہی میں دفن کردیا اور ابوبکر کو خبر بھی نہ دی ، خود ہی فاطمہ کی نماز جنازہ پڑھی اور فاطمہ کی زندگی میں علی کے لیے رعب و دبدبہ تھا ،لوگوں کے درمیان عز ت و احترام تھا لیکن جب فاطمہ کا انتقال ہوگیا علی ناآشنا و تنہا رہ گئے۔(١)

ابن قتیبہ دینوری (م ٢٧٦ھ) الامامة والسیاسة میں رقمطراز ہے کہ عمر نے ابوبکر سے کہا آؤ ہم فاطمہ کے پاس چلتے ہیں کہ ہم نے ان کو ناراض کیا ہے ، پس دونوں چل دیئے اور فاطمہ سے ملاقات کی اجازت چاہی ، فاطمہ نے ان دونوں کو اجاز ت نہیں دی وہ لوگ علی کے پاس پہنچے اور آپ سے گفتگو کی ، علی ان دونوں کو فاطمہ کے پاس لے گئے تو جیسے ہی وہ فاطمہ کے سامنے بیٹھے آپ نے اپنی صورت کو دیوار کی طرف کرلیا ، انہوں نے فاطمہ کو سلام کیا آپ نے ان کے سلام کا جواب بھی نہ دیا ۔

..............

(١) صحیح بخاری : ٥ ٨٣، کتاب مغازی ، باب غزوہ خیبر ۔ صحیح مسلم :٥ ١٥٤۔

٢٦٦

ابوبکر نے گفتگو کرنا شروع کی اور کہا اے حبیبہ رسول خدا ۖ، خدا کی قسم میرے نزدیک رسول خدا ۖکے رشتہ دار و عزیز میرے رشتہ دار و عزیز سے زیادہ محبوب تر ہیں اور میں آپ کو اپنی بیٹی عایشہ سے بھی زیادہ چاہتاہوں اور عزیز رکھتا ہوں ، میں تو چاہتا تھا کہ آپ کے والد رسول خدا ۖکے انتقال سے پہلے ہی مرجاؤں اور یہ دن مجھے دیکھنے کو نہ ملے میں آپ کے فضل و شرف سے واقف ہوں اور آپ کی نظریہ ہے کہ میں نے آپ کو آپ کی میراث اور حق سے محروم رکھا ہے جب کہ میں نے وہی کیا کہ جو رسول خدا سے سنا تھا کہ آپ نے فرمایا: ہم انبیاء میراث نہیں چھوڑتے او ر جو کچھ ہم سے رہ جاتا ہے وہ صدقہ ہے ۔

فاطمہ نے کہا کیا اگر میں آپ سے حدیث رسول بیان کروں تواس کو حدیث و فرمان رسول مانوگے اور اس پر عمل کروگے ؟ ان دونوں نے کہا :ہاں۔

فاطمہ نے فرمایا آپ دونوں کو خدا کی قسم دیتی ہوں کیا آپ لوگوں نے یہ نہیں سنا کہ رسول خدا نے فرمایا ہے کہ فاطمہ کی خوشنودی میری رضا ہے اور فاطمہ کی ناراضگی میری ناراضگی ہے اور جو کوئی بھی میری بیٹی فاطمہ کو دوست رکھے گا گویا مجھے دوست رکھا اور جس نے فاطمہ کو خوشنود و خوشحال کیا گویا مجھے خوشنود و خوشحال کیا اور جس نے اس کو ناراض کیا اور غصہ دلایا گویا مجھے ناراض کیا اورمجھے غصے میں لایا، ان دونوں نے کہا : ہاں ہم نے رسول خدا سے یہ سنا ہے ۔

فاطمہ نے فرمایا پس میں خدا اور اس کے فرشتوں کو گواہ بناتی ہوں کہ تم دونوں نے مجھے ناراض کیا اور غصہ دلایا ہے اور راضی و خوشنود نہیں کیا ہے اور جب پیغمبرۖ کی زیارت کروں گی ان سے آپ کی شکایت کروں گی ۔

٢٦٧

ابوبکر نے کہا میں خدا کے غضب اور اے فاطمہ آپ کے غضب و ناراضگی سے خدا کی پناہ مانگتا ہوں اس وقت ابوبکر بلند آواز سے رونے لگے یہاں تک کہ ان کی روح ، بد ن سے نکلنے والی تھی جب کہ فاطمہ کہہ رہی تھیں خداکی قسم میں ہر نماز میں تم دونوں پر لعنت کروں گی ۔۔۔

علی نے جب تک فاطمہ زندہ رہیں ابوبکر کی بیعت نہ کی (١) اور فاطمہ اپنے والد گرامی کے انتقال کے بعد زیادہ دن دنیا میں نہ رہیں بلکہ صرف پچھتررات۔(٢)

تمام نصوص وروایات دلالت کرتی ہیں کہ فاطمہ زہرا ، ابوبکر سے ناراض رہیں اور ابوبکر و عمر سے ناراض و غمگین دنیا سے گئیں ۔ اس سلسلے میں مسجد رسول میں حضرت فاطمہ زہرا کا خطبہ آپ کے لیے کافی ہے ، اس خطبہ میں بہت زیادہ ایسے مقامات اور عبارات ہیں کہ جن میں غور وفکر کی ضرور ت ہے ۔

مثلا ً وہ وقت کہ جب حضرت فاطمہ نے فرمایا : اے لوگوں جان لو کہ میں فاطمہ ہوں اور میرے والد محمدۖہیں یہ ہمیشہ کہتی ہوں اور جو کہتی ہوں اشتباہ و خطاء نہیں کرتی اور جو کام انجام دیتی ہوں اس میں کسی پر ظلم و زیادتی نہیںکرتی ۔(٣)

..............

(١) یہ اہل سنت کی روایت ہے ورنہ شیعہ عقیدہ یہ ہے کہ علی نے اصلا ًابوبکر کی بیعت نہیں کی بلکہ مادام العمر کسی غیر کی بیعت نہیں کی ۔(م)

(٢) الامامة والسیاسة :١ ١٩ـ٢٠۔

(٣) شرح الاخبار :٣ ٣٤۔ احتجاج طبرسی :١ ١٣٤۔ شرح نہج البلاغہ (ابن ابی الحدید): ١٦ ٢١٢۔

٢٦٨

آنحضرت اس کلام سے ایک بہت مہم حقیقت کو آشکار فرمانا چاہتی ہیں اور وہ یہ کہ میں وہی فاطمہ ہوں کہ جس کے بارے میں رسول خدا ۖ کا ارشاد گرامی ہے :سیدة نساء العالمین (١) فاطمہ تمام عالمین کی عورتوں کی سردار ہے فاطمہ صدیقہ ہیں (٢)(بہت زیادہ سچ بولنے والی )۔

..............

(١) مسند ابی داؤد طیالسی ١٩٧ ۔ مصنف ابن ابی شیبہ : ٧ ٢٥٧، حدیث ٥۔ مستدرک حاکم :٣ ١٥٦۔(حاکم کا بیان ہے کہ اس حدیث کے اسناد و رجال صحیح ہیں اور بخاری و مسلم نے اس کو نقل نہیں کیا )

(٢) اصول کافی :١ ٤٥٨،حدیث ٢۔ منتقی الجمان :١ ٢٢٤۔

بلکہ ام المؤمنین عایشہ حضرت فاطمہ زہرا کی توصیف میں کہتی ہیں کہ میں نے کسی کو بھی فاطمہ سے زیادہ رسول خدا ۖسے گفتار و رفتار، اٹھنے بیٹھنے ،چلنے پھرنے میں مشابہ تر نہیں پایا اور جب پیغمبراکرمۖ کے پاس تشریف لاتیں آپ ان کی تعظیم کے لیے اٹھ جاتے ، ان کی دست بوسی کرتے اور اپنی جگہ پر بٹھاتے اور جب کبھی پیغمبراکرمۖ فاطمہ کے یہاں تشریف لے جاتے توفاطمہ ان کی تعظیم کے لیے اٹھتیں اور آپ کی دست بوسی کرتیں اور اپنی جگہ پر بٹھاتیں ۔دیکھیےـ : سنن ترمذی :٥ ٣٦١، حدیث ٣٩٦٤۔ سنن ابی داؤد :٢ ٥٢٢ ، حدیث ١٧ ٥٢۔ مستدرک حاکم :٤ ٢٧٢۔ الادب المفرد (بخاری ) ٢٠٢۔

 

 

دوسری روایت میںہے کہ میں نے کسی کو بھی فاطمہ کی طرح رسول اکرمۖ سے گفتار و رفتار و کردار میں شبیہ ترنہیں دیکھا ، جب بھی فاطمہ پیغمبراکرمۖ کے پاس تشریف لاتیں ان کے لیے جگہ فراہم کرتے ان کی تعظیم کوکھڑے ہوتے آپ کے ہاتھوں کو پکڑتے، بوسے لیتے اور اپنی جگہ پر بٹھلاتے ۔ مستدرک حاکم :٣ ١٥٤۔ السنن الکبری (بیہقی ) : ٧ ١٠١۔

 

اور تیسری روایت میں ہے کہ عایشہ نے کہا کہ میں نے فاطمہ سے زیادہ رسول خدا کے علاوہ سچا اور وعدہ وفائی میں پکا و پختہ نہیں دیکھا ۔ مستدرک حاکم :٣ ١٦١ ۔ نظم درر السمطین(زرندی) ١٨٢ ۔

 

٢٦٩

ام ابیھا(١) اپنے باپ کی ماں ، فداھا ابوھا (٢) اس کا باپ اس پر قربان ہوجائے ۔ گویا حضرت فاطمہ زہرا یہ فرمانا چاہتی ہیں کہ میں وہی ہوں کہ جس کے بارے میں رسول خدا ۖنے فرمایا فاطمہ میرا ٹکڑا ہے جس نے اسے آزردہ و پریشان کیا اس نے مجھ کوآزردہ و پریشان کیا ۔(٣)

بنابر این حضرت زہرا کے کلام مبارک کے جملات اس حقیقت کو آشکار کر رہے ہیں کہ میں جو کچھ بھی کہہ رہی ہوں غلط و خطا ء نہیں ہے اور جو کچھ اقدام کررہی ہوں یہ ظلم و زیاتی نہیں ہے ۔

یقینا فاطمہ زہرا غلط و خطا ء کلام نہیں فرماتیں اور اپنے کام میں ظلم و زیادتی نہیں فرماتیں جیسا کہ رسول اکرمۖ نے کسی پر بھی یا کسی سے بھی خواہشات نفس کی وجہ سے کچھ نہیں فرمایا وہ ایسی شخصیت ہیں کہ جن کے بارے میں ارشاد ہوا :(وما ینطق عن الھوی ان ھو الا وحی یوحی)(٤)

پیغمبراکرمۖ اپنی خواہشات نفس سے کوئی بات نہیں کرتے وہ جو بھی کہتے ہیں وہ وحی الہٰی ہے ۔

امیر المؤمنین نے اسی بات کی اپنے کلام میں تائید فرمائی ہے :

''بیشک رسول خدا ۖ نے مجھ کو ظاہری رشتہ داری و قرابت داری کی وجہ سے اپنے قریب نہیں کیا بلکہ میں ایثار و قربانی اور جہاد کے ذریعہ ان کے قریب ہوا ''۔(٥)

..............

(١) المعجم الکبیر :٢٢ ٣٩٧۔ تاریخ دمشق :١٥٨۔ اسد الغابہ :٥ ٥٢٠۔

(٢) امالی صدوق ٣٠٥، حدیث ٣٤٨۔ روضة الواعظین ٤٤٤۔ مناقب ابن شہر آشوب :٣ ١٢١۔

(٣) صحیح بخاری :٦ ١٥٨۔ سنن ابی داؤد :١ ٤٦٠، حدیث ٢٠٧١۔ المعجم الکبیر : ٢٢ ٤٠٤۔

(٤) سورہ نجم (٥٣) آیت ٣ـ٤۔

(٥) شرح نہج البلاغہ (ابن ابی الحدید) :٢٠ ٢٩٩۔

 

 

٢٧٠

اور اس کے بعد حضرت فاطمہ زہرا کا فرمان ذیشان :

'' فان تعزوہ و تعرفوہ تجدوہ ابی دون نسائکم و اخاابن عمی دون رجالکم ولنعم المعزی الیہ ''(١)

اگر نسب و نسبت کو دیکھنا چاہتے ہو تو دیکھو گے کہ وہ میرے باپ ہیں نہ کہ تمہاری عورتوں کے اور میرے ابن عم کے بھائی ہیں نہ کہ تمہارے ، اور یہ ہماری پیغمبراکرمۖ سے کتنی بہترین نسبت ہے۔

اس کلام میں حضرت فاطمہ اپنی معنوی منزلت کی طرف اشارہ فرمانا چاہتی ہیں وہ یہ کہ ہمارا یہ مقام صرف پیغمبراکرمۖ سے رشتہ داری ہی کی وجہ سے نہیں ہے ۔

اور بالفرض اگر یہ بھی مان لیا جائے کہ فاطمہ اس کلام میں اپنی ظاہری رشتہ داری کو بیان فرمانا چاہتی ہیں تو مقصد یہ ہے کہ اس رشتہ داری کے ذریعہ اپنے حق کو جتلایا جاسکے اور پھر میراث کا مطالبہ کیا جاسکے ۔لیکن وہ لوگ شیطان کے اغوا شدہ تھے اور حیات رسول میں ہی اپنی اپنی مصلحتوں کی بناء پر خاموش تھے اور دشمنی کو رسول کے بعد ظاہر کیا جیسا کہ امت موسیٰ نے ان کے بعد کارنامے انجام دیئے۔رسول خدا ۖ نے انپی امت کو ان حوادث کی خبر دی تھی اور فرمایا تھا کہ تم گذشتہ امتوں کی پیروی ایک ایک بالشت تک میں انجام دوگے حتی اگر وہ نیول و گو کے سوراخ میں بھی گھسے تو تم بھی گھسوگے ۔(٢)

..............

(١) احتجاج طبرسی :١ ١٣٤۔ الطرائف (ابن طاؤس ) ٢٦٣۔

(2) صحیح مسلم :٨ ٥٨۔ الطرائف ٣٧٩، حدیث ٢١۔(اس حدیث کی صحت پر سب کا اتفاق ہے ) ۔ مسند احمد:٢ ٥١١۔

 

 

٢٧١

اور اپنی زندگی کے آخری خطبہ ، خطبۂ وداع میں فرمایا : وائے ہو تم پر کہ میرے بعد کفر کی طرف نہ چلے جانا کہ آپس میں ایک دوسرے کی گردنیں کاٹو ۔(١)

حدیث حوض میں ارشاد ہوا : ''آگاہ ہوجاؤ کہ حوض کوثر پر میرے پاس میری امت کے کچھ افراد کو لایا جائے گا اور ان کو برے ا ور دوزخی قرار دیا جائے گا پس میں کہوں گا کہ خدایا یہ تو میرے اصحاب ہیں تو کہا جائے گا آپ کو نہیں معلوم کہ آپ کے بعد انہوں نے کیا افعال انجام دیئے ۔(٢)

اس روش سے رسول خدا ۖ نے آنے والے واقعات و حوادث کو اپنی امت پر بیان فرمایا اور اپنے خوف کا اظہار کیا اور ان کو متوجہ کیا کہ مبادا گمراہ نہ ہوجانا ۔

اور اسی طرح حضرت فاطمہ زہرا نے اپنے خطبہ میں سنت نبوی کے خلاف ہونے والی چالبازی اور مکاری کی طرف اشارہ فرمایا ہے اور اس بات کی وضاحت فرمائی ہے کہ شیطان لوگوں کو اپنے جال میں پھنسا نے کے لیے ہر طرح کی کوشش میں لگا ہوا ہے لہذا خبر دار اس کے جال میں نہ پھنس جانا ۔ لہذا آپ نے فرمایا :

اور اب جوں ہی خداوندعالم نے اپنے حبیب رسول خدا ۖ کو ان کے اصلی مقام پر بلالیا اور وہ دنیا سے رخصت ہوگئے ہیں تو تمہارے اندر سے نفاق و حسدظاہر ہونا شروع ہوگیا ہے

..............

(١) صحیح بخاری :١ ٣٨ ۔ و جلد : ٢ ١٩١۔ وجلد : ٥ ١٢٦۔ و جلد :٧ ١١٢۔ سنن ابن ماجہ :٢ ١٣٠، حدیث ٣٩٤٣۔ مسند احمد :٢ ٨٥۔ بغیة الباحث ٢٤٥۔ اور دوسرے منابع۔

(٢) صحیح بخاری : ٥ ٢٤٠، وجلد :٧ ٢٠٦۔ صحیح مسلم :١ ١٥٠۔ وجلد : ٧ ٦٨۔ سنن ترمذی :٤ ٣٨۔ اور دوسرے منابع میں ۔

 

 

٢٧٢

اور تم اپنے پرانے دین جاہلیت کی طرف پلٹ گئے ہو اور اب خاموش گمراہوں کی زبانیں کھل گئی ہیں اور گمنام و بے وقار لوگ چمک اٹھے ہیں ، اہل باطل کے نازو نخرے کا پلا ہوا اونٹ بول اٹھا ہے اوراب تمہارے سروں پر حکومت ہورہی ہے شیطان کہ جو اب تک کمین گاہ میں چھپا ہوا تھا اس نے سربلند کرلیا ہے اور تمہیں اس نے دعوت دی ہے اس نے یہ جان لیا کہ تم اس کے بہکائے میں بہت آسانی سے آنے والے ہو بلکہ اس کے بہکائے میں آنے کے لیے آمادہ ہو تو اس نے تم سے چاہا کہ عذر سجاؤ بغاوت کرو اور تمہیںمکر وفریب کے ذریعہ ابھارا اور تم عذر و بغاوت کے لیے نکل کھڑے ہوئے ۔

لہذا تم نے کسی دوسرے اونٹ کی چرا گاہ کو نشانہ بنایا اور اس کی چراگاہ سے استفادہ کرنے لگے کہ جو تمہاری نہ تھی ۔

اور یہ کارنامے اس وقت انجام پائے کہ ابھی پیغمبراکرمۖ کو دنیا سے گئے ہوئے چند روز نہ گذرے تھے ابھی ان کی مفارقت کا زخم نہ بھرا تھا ،ابھی ان کے جانے سے دلوں میں پیدا ہونے والے زخم صحیح نہ ہونے پائے تھے اور ابھی وہ دفن بھی نہ ہونے پائے تھے کہ تم نے اس فتنہ کو برپا کردیا جب کہ تمہیں خبردارکرتی ہوں کہ اپنے کارنامے سے باز آؤ اور اس فتنہ سے ہاتھ اٹھالو ۔

(الا فی الفتنة سقطوا و ان جھنم لمحیطة بالکافرین)(١) آگاہ رہو کہ وہ فتنہ میں پڑگئے ہیں اور بیشک جہنم کافروں کے لیے آمادہ اور ان پر احاطہ کیے ہوئے ہے۔

..............

(١) سورہ توبہ (٩) آیت ٤٩۔

 

 

٢٧٣

یہ کام تم لوگوں سے بعید تھا کس طرح آپ لوگوں نے انجام دیا ؟ اور اس جھوٹ کے پلندوں کو کہاں کہاں اٹھائے پھروگے ۔

 

کیا کتاب خدا کوپڑھتے ہو ، اس کے امور ظاہر ہیں اور اس کے احکام روشن و واضح ،اس کے اعلانات آشکار ، اس کے نواہی درخشان اور اوامر صاف و سادہ ہیں ۔ آپ لوگوں

نے اس کو پس پشت ڈال دیا ہے ، کیا قرآن سے بیزار ہو اور منھ پھیر لیا ہے یا کوئی اور حکم چاہتے ہو؟۔

(بٔس للظالمین بدلا)(١) ظالمین کا یہ مقام کتنا برا ہے !

(ومن یتبع غیر الاسلام دینا فلن یقبل منہ و ھو فی الآخرة من الخاسرین)(٢) جو کوئی بھی دین اسلام کے علاوہ کسی اور دین کی پیروی کرے اس سے وہ قبول نہیں کیا جائے گا اور وہ آخرت میں گھاٹا اٹھانے والوں میں سے ہے ۔

تم لوگوں نے تھوڑا سا توقف بھی نہ کیا ،اس اونٹ کو آرام بھی نہ کرنے دیا اور سوار ہوگئے ، اب آگ بھڑکادی ہے اور شعلوں کو دہکادیا ہے کہ شیطان گمراہ کرنے کے لیے آواز دے اور تم اس کی دعوت کو قبول کرلو اور دین کے چمکتے ہوئے نور کو خاموش کرو ، سنت پیغمبرکو فراموش کرو اور تبدیل کردو۔

تم نے اپنے مقصد کو چھپائے رکھا اور اپنی دھوکہ دینے والی رفتار سے آگے بڑھتے رہے جب کہ اہل بیت کی راہ میں کانٹے بچھاتے رہے ۔

..............

(١) سورہ کہف (١٨) آیت ٥٠۔

(٢) سورہ آل عمران (٣) آیت ٨٥۔

 

 

٢٧٤

ہم تمہاری اس رفتار کے مقابل صابر و بردبار ہیں اگر چہ یہ صبر سخت ہے لیکن پھر بھی اس شخص کی مانند کہ جس کے خنجر مارا جائے اور نیزہ اس کے پیٹ میں گھونپ دیا جائے لیکن پھر بھی وہ دم نہ بھرے اور آہ نہ کرے۔(١)

حضرت فاطمہ زہرا نے اپنے اس متین و لطیف خطبہ اور علمی تنبیہ کے ذریعہ اس قوم کو متوجہ فرمایا اور فتنہ میں پڑنے سے ڈرایا، کہ شیطان اپنی کمین گاہ سے نکل کر ان کو بلا رہا ہے اور وہ لوگ اس کے بلانے پر لبیک کہہ رہے ہیں ۔

جب کہ یہ شیطان وہی ہے کہ جس کے بارے میں خداوندمتعال کا ارشاد گرامی ہے ۔(و قال الشیطان لما قضی الامر ان اللہ وعدکم وعدالحق و وعدتکم فاخلفتکم و ماکان لی علیکم من سلطان الا ان دعوتکم فاستجبتم لی فلا تلومونی ولو موا انفسکم) (٢)

اور شیطان نے کہا کہ جب وقت حساب و کتاب آیا بیشک خداوند عالم نے تم کو وعدہ حق دیا اور میں نے بھی وعدہ دیا پس میں نے اپنے وعدے میں خلاف ورزی کی، اور میری تم پر حکومت نہیں تھی مگر صرف یہ کہ تم کو دعوت دیتا تھا اور تم قبول کرلیتے تھے لہذا مجھ کو برا نہ کہو اور میری ملامت نہ کرو بلکہ خود اپنے آپ کی سرزنش کرو۔

..............

(١) دلائل الامامة ١١٥۔ بحار الانوار :٢٩ ٢٩ـ٣٠۔ (متن خطبہ اسی کتاب سے ماخوذہے )

(٢) سورہ ابراہیم (١٤) آیت ٢٢۔

 

 

٢٧٥

لیکن وہ کہ جو عمر نے اپنی خلافت کے ابتداء میں کہا کہ میں جب اختلاف امت سے ڈرنے لگا تو ابوبکر سے کہا کہ اپنا ہاتھ دے کہ میں بیعت کروں ۔(١)

یہ اس منافق (٢)کے کلام کی دوسری صورت و توجیہ ہے کہ جس نے جنگ تبوک میں نہ جانے کا بہانا بھرا اور پیغمبراکرمۖ سے کہا میں عورتوں کو بہت چاہتاہوں جمالیاتی ذوق رکھتاہوں کہیں ایسا نہ ہو کہ روم کی خوبصورت و حسین عورتیں مجھے اپنے حسن کا گرویدہ کرلیں اور میں اپنا دین و ایمان کھو بیٹھوں ، اس وقت یہ آیت نازل ہوئی : (ومن ھم من یقول أذن لی ولا تفتنی الافی الفتنة سقطو اوان جھنم لمحیطة بالکافرین )(٣)

 

اور ان میں سے وہ بھی ہے کہ جو کہتا ہے کہ مجھ کو اجازت دیں اور جنگ میں نہ جاؤں مجھے فتنے میں نہ ڈالو ، آگاہ ہوجاؤ کہ وہ فتنے میں پڑچکے ہیں اور بیشک جہنم کافرین کا احاطہ کیے ہوئے ہے ۔

حضرت فاطمہ زہرا اپنے اس کلام سے ان بہانے اور توجیہات کا قبل از وقت جواب دے رہی ہیں۔'' زعمتم خوف الفنتة الافی الفتنة سقطوا ''تمہیں اختلاف و فتنہ کا خوف تھا جب کہ اب فتنہ میں پڑ چکے ہو ۔

چونکہ وہ منافق جد بن قیس یہ چاہتا تھا کہ بنی اسرائیل کی طرح راہ فرار اختیار کرے (کہ لاٹھی بھی نہ ٹوٹے اور سانپ بھی مرجائے ) کہ جو بنی اسرائیل نے کہا :

..............

(١) شرح نہج البلاغہ (ابن ابی الحدید) :٢ ٢٤ـ٢٥۔

(٢) مراد جد بن قیس ہے

(٣) سورہ توبہ (٩) آیت ٤٩۔

 

 

٢٧٦

(فاذھب انت و ربک فقاتلا انا ھھنا قاعدون) (١)

اے موسی آپ اور آپ کا پروردگار جاؤ اور جاکر جنگ کرو ہم یہیں پر بیٹھے ہیں ۔

اس لیے کہ حقیقی فتنہ یہی ہے کہ پیغمبراکرمۖ کے ساتھ جنگ پر نہ جایا جائے اور ان کے ہم رکاب ہوکر جنگ نہ کی جائے چونکہ یہی شرک و کفر کا سرچشمہ ہے ، بالکل اسی کی طرح یہ ہے کہ پیغمبراکرمۖ کے وصی وجانشین کو ان کے منصب سے دور و علیحدہ رکھا جائے ، چونکہ یہ سبب ہوگا کہ منافقین و طلقاء خلافت کی طمع و لالچ اور خواب و خیال میں پڑجائیں۔

واقعا یہی فتنہ ہے بلکہ یہ بہت عظیم فتنہ ہے

حضرت فاطمہ زہرا اپنے اس کلام میں '' ھیھات منکم و کیف بکم و انی تؤفکون وکتاب اللہ بین اظھر کم وامور ہ ظاھرة ۔ ۔ ۔'' یہ اشارہ فرمانا چاہتی ہیں کہ منصب خلافت ایک الہی منصب ہے تو پھر کیوں لوگ اس کی معرفت نہیں رکھتے جب کہ خدا کی کتاب لوگوں ہی کے لیے ہے اور اس کے امور و معارف سب کے لیے واضح ہیں کہ جو خلافت الہٰیہ پر دلالت کرتے ہیں جیساکہ خداوندمتعال کا ارشاد گرامی ہے :

(واذ ابتلی ابراھیم ربہ بکلمات فاتمھن قال انی جاعلک للناس اماما قال و من ذریتی قال لا ینال عھدی الظالمین )(٢)

..............

(١) سورہ مائدہ (٥) آیت ٢٤۔

(٢) سورہ بقرہ(٢) آیت ١٢٤۔

 

 

٢٧٧

اور جب ابراہیم کا اس کے پروردگار نے چند کلمات کے ذریعہ امتحان لیا اوروہ اس میں کامیاب ہوگئے تو خداوندعالم نے فرمایا کہ ہم تمہیں لوگوں کا امام بنانے والے ہیں تو ابراہیم نے سوال کیا کہ پروردگار کیا یہ امامت میری نسل میں بھی کسی کو دے گا ؟ جواب آیا اے ابراہیم ہمارا یہ عہدہ کسی ظالم تک نہیں پہنچے گا۔

یا اسی طرح دوسری آیت : (وجعلنامنھم آئمة یھدون بامرنا لما صبروا و کانوا بآیاتنا یوقنون)(١)

اور ہم نے ان میں سے کہ جو صبر کرنے والے اور ہماری آیات پر یقین رکھتے تھے امام قرار دیا کہ جوہمارے امر کے ذریعہ لوگوں کی ہدایت کرتے ہیں ۔

حضرت زہرا نے اس کلام کو اس لیے بیان فرمایا تاکہ ان کو متوجہ فرمائیں کہ وہ لوگ قرآن پر عمل کرنا ترک کرچکے ہیں۔

 

'' تم لوگوں نے قرآن کو پس پشت ڈال دیاہے کیا اس سے منھ پھیرے جارہے ہو ؟ یا قرآن کے علاوہ کسی اور چیز سے فیصلے کررہے ہو ؟ ظالموں اور ستمگروں کے لیے اس کا بدلا کتنا برا ہے اور جو کوئی اس کے علاوہ دوسرا دین لائے گا وہ قبول نہ ہوگا ،وہ آخرت میں نقصان اٹھانے والوں میں ہوگا ''۔(٢)

..............

(١) سورہ سجدہ (٣٢) آیت ٢٤۔

(٢) شرح الاخبار :٣ ٣٦۔ احتجاج طبرسی : ١ ١٣٧۔ کشف الغمہ : ٢ ١١٢۔

 

 

٢٧٨

آپ نے اس کے بعد اپنے خطبہ کوجاری رکھا تاکہ واضح کریں کہ ان لوگوں نے احکام الہٰی کو کھیل و بازیچہ بنالیا ہے کس طرح کہتے ہیں کہ زہرا کے لیے ارث و میراث نہیں ہے کیاجان بوجھ کر کتاب خدا کو چھوڑدیا ہے اور پس پشت ڈالدیا ہے ،جب کہ خداوندعالم قرآن کریم میں ارشاد فرماتا ہے (وورث سلیمان داؤد ) (١) سلیمان نے داؤد سے میراث پائی ۔

اور اسی طرح اس خطبہ کے متعدد ٹکڑے و جملات کہ جو احتجاج و مناظرے کی انتہا و معنویت و حقیقت کے بلند و بالا منارے ہیں ۔

..............

(١) سورہ نمل(٢٧) آیت ١٦۔

 

بشکریہ::::::::::::::::::شفقنا اردو

Add new comment