طالبان سے مذاکرات۔ٹی وی شیعہ کرنٹ رپورٹ
ٹی وی شیعہ [کرنٹ رپورٹ]گذشتہ ماہ فروری میں طالبان کے خلاف فضائی حملوں کے بعد طالبان کے موقف میں تیزی سے تبدیلی آ گئی، اس کارروائی سے قبل ہمیشہ طالبان کی جانب سے کڑی شرائط رکھی جاتی تھیں مگر جب وزیرستان، خیبر ایجنسی اور ہنگو وغیرہ میں طالبان کے متعدد ٹھکانوں کو نشانہ بنایا گیا اور حکومت کی جانب سے باقاعدہ آپریشن شروع کرنے کا عزم ظاہر کیا گیا تو طالبان کی ترجمانی کرنے والی شخصیات مولانا سمیع الحق، مولانا یوسف شاہ وغیرہ کو موقف میں بھی کافی تبدیلی واقع ہوئیں۔ ان کی وہ جارحیت اور فاتحانہ انداز یکسر ختم ہوگیا جو وہ ان کاروائیوں سے قبل اور مذاکرات کے دوران کررہے تھے۔ عمران خان کی پالیسی میں بھی 180 درجے نہ سہی، 150 درجے تبدیلی تو آ ہی گئی اور حکومت کو ایک بار پھر مذاکرات شروع کرنے پر آمادہ کرنے کی کوششیں تیز ہو گئیں لیکن اس بار حکومت نے بزدلانہ موقف کی بجائے کافی حد تک دلیرانہ موقف اختیار کیا اور کہا کہ طالبان کی جانب سے کوئی شرط قبول نہیں کی جائے گی۔ طالبان پہلے غیر مشروط جنگ بندی کا اعلان کریں، تب کہیں آپریشن روک کر مذاکرات شروع کئے جائیں گے۔ حکومت کی جانب سے مذاکرات پر آمادگی کے ساتھ ہی یہ کوششیں تیز ہوگئیں اور گزشتہ روز ایک وفد تیار ہوکر وزیرستان روانہ ہوگیا۔
ذرائع کے مطابق حکومت کی جانب سے تین بیوروکریٹ اور رستم شاہ مہمند پر مشتمل کمیٹی کے قیام کے بعد طالبان نے حتمی مذاکرات کی تیاری شروع کردی ہے۔ اور طالبان کی ایک 9 رکنی کمیٹی حکومت کے ساتھ مجوزہ معاہدے پر مشاورت کررہی ہے۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ اس حوالے سے نامعلوم مقام پر قاری شکیل کی سربراہی میں طالبان کی شوریٰ کا ایک اہم اجلاس بھی منعقد ہوا جس میں طالبان کی مذاکراتی کمیٹی کی وزیرستان آمد پر انہیں تحریری شکل میں مطالبات پیش کرنے اور حکومت اور طالبان کے درمیان براہ راست مذاکرات کیلئے جگہ کے تعین کے حوالے سے غور کیا گیا۔ ذرائع کے مطابق اس حوالے سے مزید اجلاس بھی ہونگے۔ تاہم ڈرون حملوں اور دیگر عناصر کی جانب سے مذاکرات کو سبوتاژ کرنے سے بچانے کے لئے تمام اجلاس اور مذاکراتی عمل کو خفیہ رکھا جا رہا ہے۔ باوثوق ذرائع سے معلوم ہوا ہے کہ تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان اور وزیراعلیٰ خیبر پی کے پرویز خٹک کی جانب سے سرکاری مذاکراتی کمیٹی میں رکن قومی اسمبلی گلزارخان کی نامزدگی کی گئی تھی لیکن بعض طاقتور حلقوں نے گلزارخان کی نمائندگی پر اعتراضات اٹھائے، جس کے بعد سابق حکومتی کمیٹی کے رکن رستم شاہ مہمند کو دوبارہ شامل کرلیا گیا ہے، جو تحریک انصاف کی صوبائی حکومت کی نمائندگی کریں گے جبکہ وفاق کی نمائندگی تیں بیورو کریٹ کرینگے، ان میں سے حبیب خٹک دو مرتبہ پولیٹیکل ایجنٹ رہ چکے ہیں، جبکہ ارباب عارف فاٹا سیکرٹری کے علاوہ سیکرٹری گورنر اور دیگر اہم عہدوں پر رہ چکے ہیں۔ کمیٹی میں فواد حسن فواد بھی شامل ہیں، جو وزیراعظم سے ہدایات لینے اور انہیں پیشرفت سے آگاہ کرنے کے ذمہ دار ہونگے۔
دوسری جانب پشاور سے تحریک انصاف کے رکن قومی اسمبلی گلزار خان کی نمائندگی پر اعتراضات کی وجہ یہ بتائی گئی ہے کہ ان کے آباو اجداد عوامی نیشنل پارٹی سے وابستہ رہے ہیں اور خود گلزار خان کی بھی اے این پی کے ساتھ گہری وابستگی رہی ہے۔ طالبان اور دینی جماعتوں سے متعلق گلزار خان اور اے این پی کے موقف میں کوئی فرق نہیں ہے۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ رستم شاہ مہمند کی دوبارہ نامزدگی بھی ان لوگوں کے کہنے پر ہوئی ہے، جو پس پردہ مذاکرات کو 70 فیصد تک آگے بڑھا چکے ہیں۔
رستم شاہ کا تعلق چونکہ مہمند قبائل سے ہے اور طالبان کی صفوں میں بھی وہ اچھی شہرت رکھتے ہیں جبکہ حکومت اور طالبان کمیٹیوں کے درمیان ہونے والی اب تک کی بات چیت میں بھی ان کے کردار سے کئی طاقتور حلقے نہ صرف متفق رہے بلکہ انہوں نے ان کی کاوشوں کو سراہا بھی ہے۔ بعض ذرائع کے مطابق رستم شاہ مہمند کا جنگ بندی میں بھی اہم کردار رہا ہے۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ طالبان اور حکومت کے درمیان روابط مثبت انداز سے آگے بڑھ رہے ہیں۔ تاہم طالبان نے کراچی جیل سے اپنے ساتھیوں کی دوسری جیلوں میں منتقلی اور ایک وفاقی وزیر کے بیانات پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ مجموعی طور پر طالبان قیادت وزیراعظم میاں نواز شریف، وزیر داخلہ چوہدری نثار اور دیگر ذمہ داران کی مذاکرات میں دلچپسی سے مطمئن ہیں۔ دوسری جانب طالبان کمیٹی کے سربراہ مولانا سمیع الحق جلد دوبارہ مذاکرات شروع کرنا چاہتے ہیں۔
باوثوق ذرائع نے بتایا کہ حکومت اور طالبان کی جانب سے جنگ بندی کے بعد سیز فائر کرانے میں اہم کردار ادا کرنے والی شخصیات اور اداروں نے پس پردہ مذاکرات میں کافی پیشرفت کی ہے۔ ذرائع کے مطابق طالبان نے واضح کیا ہے کہ انہوں نے جنگ بندی کے لئے کوئی شرط نہیں رکھی ہے اور مذاکرات کی کامیابی کے لئے بھی ایسی شرائط نہیں رکھیں گے جو مشکل ہوں۔ اس حوالے سے طالبان نے اپنی مشاورت مکمل کرلی ہے۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ طالبان نے قبائلی علاقے میں براہ راست مذاکرات کرنے پر آمادگی ظاہر کردی ہے اور وہ حکومتی کمیٹی کو تحفظ دینے کے لئے تیار ہیں۔ دوسری جانب اگر حکومت انہیں تحفظ کی ٹھوس ضمانت دے تو وہ بندوبستی علاقے میں بھی مذاکرات کیلئے تیار ہیں۔
طالبان ذرائع نے میڈیا کے استفسار پر کہا کہ شورٰی کے اجلاس کی تمام تفصیلات تو نہیں بتائی جا سکتیں تاہم دو تین نکات کے علاوہ تمام نکات پر اتفاق رائے موجود ہے۔ اس سوال کے جواب میں کہ فوج کی شمولیت کے بغیر مذاکرات کس طرح کامیاب ہونگے؟ کہا گیا کہ حکومت تمام اداروں کے ساتھ مشاورت کے بعد ہی مذاکرات کر رہی ہے۔ طالبان ذرائع کا یہ بھی کہنا ہے کہ طالبان یکم اپریل تک کوئی کارروائی نہیں کریں گے اور مذاکرات کی پیشرفت کے ساتھ ہی جنگ بندی میں توسیع کی جائیگی۔ طالبان ذرائع کا کہنا ہے کہ ملک اور عوام کی خاطر جنگ بندی کی ہے۔ تمام گروپ اس کا پاس رکھیں گے۔ اور جس گروپ نے بھی خلاف ورزی کی اسکے خلاف کارروائی کی جائیگی۔ اسلام آباد کچہری حملے کے حوالے سے بھی طالبان اپنی تحقیقات سے حکومتی کمیٹی کو آگاہ کریں گے۔
دوسری طرف مذاکرات میں کردار ادا کرنے والے ایک ذریعے کا کہنا ہے کہ وزیراعظم نواز شریف اور اعلیٰ عسکری قیادت کے درمیان ہونے والی ملاقات کے بعد مذاکرات میں بڑی پیشرفت کا امکان ہے۔ اس وقت فوج کا براہ راست مذاکرات میں شامل ہونا یا نہ ہونا ایشو نہیں ہے۔ تاہم بعد میں اسکی بھی گنجائش ہے۔ ابھی وہ ذرائع یا شخصیات جو پس پردہ ان مذاکرات میں براہ راست شریک ہیں وہ بھی اس حق میں نہیں ہیں کہ فوج کو براہ راست شامل کیا جائے۔ مذاکرات میں کوئی ایسا فیصلہ نہیں ہوگا جو فوج کو منظور نہ ہو۔ لہذا کوشش ہوگی کہ دونوں جانب سے قابل قبول حل تلاش کیا جائے۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ قبائلی سردار، پولیٹیکل انتظامیہ، چوہدری نثار اور گورنر خیبر پختونخوا مذاکرات میں پیشرفت کے لئے بہت کام کررہے ہیں۔ دوسری جانب طالبان کمیٹی کے دو اہم ارکان جماعت اسلامی کے صوبائی امیر پروفیسر ابراہیم اور مولانا یوسف شاہ اپنے معاون عبد الحئی کے ساتھ شمالی وزیرستان پہنچ گئے ہیں۔ وہاں انہیں پولیٹیکل ایجنٹ سراج احمد اور دیگر سرکاری حکام نے طالبان کے ساتھ رابطوں پر بریفنگ دی اور انہیں محفوظ مقام تک رسائی کے لئے انتظامات سے بھی آگاہ کیا گیا۔
قبل ازیں پشاور ایئرپورٹ پہنچنے سے قبل پروفیسر ابراہیم نے میڈیا کو بتایا کہ فی الحال وہ یہ نہیں بتا سکتے کہ کن امور پر تبادلہ خیال ہوگا۔ تاہم وہ وزیراعظم اور چوہدری نثار اپنی ملاقات کے تناظر میں طالبان کے ساتھ ملاقات میں ان سے وہ جگہ بھی کنفرم کریں گے کہ کہاں براہ راست مذاکرات شروع ہوں۔ انہوں نے کہا کہ طالبان کس قسم کی ضمانت چاہتے ہیں اس سے بھی حکومت کو آگاہ کیا جائے گا جبکہ پولیو مہم کے حوالے سے حکومت کی جو خواہش ہے، اسے بھی طالبان کے سامنے رکھا جائے گا۔ انہوں نے کہا کہ امید ہے طالبان آئندہ چند روز میں پولیو مہم شروع کرنے کی اجازت دیدیں گے اور شمالی اور جنوبی وزیرستان میں پولیو مہم شروع ہو جائے گی۔
انہوں نے مزید کہا کہ وہ بہت پرامید ہیں، انشاءاللہ اس بار حتمی امن کا معاہدہ ہو جائے گا۔ پروفیسر ابراہیم سے جب یہ پوچھا گیا کہ کیا سابق وزیراعظم سید یوسف رضا گیلانی کے بیٹے علی حیدر گیلانی اور ڈاکٹر اجمل کی رہائی کی امید ہے۔ تو انہوں نے بتایا کہ انشاءاللہ اس سے بھی زیادہ کچھ ہوگا اور قوم کو ایک بڑی خوش خبری ملے گی۔ تاہم وہ فی الحال کچھ بتانے کی پوزیشن میں نہیں ہیں۔
دوسری جانب ایک اہم ذریعے نے بتایا کہ طالبان کو یہ پیشکش کی جائے گی کہ وہ اپنے کارکنوں کے ذریعے بھی پولیو مہم چلا سکتے ہیں۔ باہر کے لوگ اس مہم میں شریک نہیں ہونگے اور اگر طالبان کارکن اس مہم کو چلانے پر آمادہ ہو جاتے ہیں تو انہیں معاوضہ بھی دوگنا دیا جائے گا۔ ان تمام امیدوں کے باوجود یہ خدشہ بھی ظاہر کیا جا رہا ہے کہ طالبان حکومت کو مذاکرات میں مشغول رکھ کر اپنی پوزیشن مضبوط کریں گے۔ نیز اپنے ٹھکانوں کو نسبتا زیادہ محفوظ مقامات کی طرف بدلیں گے۔ کیا ہوتا ہے یہ تو وقت ہی بتائے گا۔ فی الوقت دکھائی یہ دے رہا ہے کہ مذاکرات اپنے آخری مراحل میں داخل ہوگئے ہیں۔ میرے خیال میں حکومت کی پوزیشن کچھ زیادہ مضبوط ہے چنانچہ اس دفعہ مذاکرات میں شرائط حکومت کی جانب سے زیادہ جبکہ طالبان کی شرائط کم ہونگی۔
رپورٹ: ایس این حسینی
Add new comment