کیا ہمارا یہ جاننا کافی نہیں کہ امام مہدی علیہ السلام ہمارے بارہویں امام ہیں ؟
کچھ لوگ پوچھتے ہیں کیا ہمارا یہ جاننا کافی نہیں کہ امام مہدی علیہ السلام ہمارے بارہویں امام ہیں ،آپ غائب ہیں اور آخری زمانے میں اللہ کے حکم سے ظہور کریں گے۔مزید اس پر بحث کرنے کی کیا ضرورت ہے؟
یقیناً یہ کافی نہیں ہے بلکہ اس سے کہیں زیادہ جاننا واجب ہے ورنہ ہمارا ایمان کامل نہیں ہے اور ہمارا عمل نقص کا شکار ہے
مندرجہ ذیل جہات سے اس ضرورت کو بیان کیا جاتا ہے:
١۔ اعتقادی جہت:
عقیدہ زندگی کی اصل اساس ہے یعنی انسان میدان عمل میں جو کچھ بھی انجام دیتا ہے اس کی بنیاد اس کے عقائد ہوتے ہیں۔
بناء بر ایں اگر انسان کا عقیدہ صحیح اورکامل ہو تو انسان عملی میدان میں لغزش اور شک و شبہ کا شکار نہیں ہوگا۔ اہم ترین چیز ہے کہ جو ایک صحیح عقیدے کو تشکیل دیتی ہے وہ معرفت امام ہے۔
شیعہ اور سنی راویوں نے پیغمبرصلي اللہ عليہ وآلہ وسلم سے نقل کیا ہے : '' مَن مَاتَ و َ لَم یَعرِفْاِماَمَ زَماَنَہِ ماَتَ مِیتةً جاَھَلیة ''
(جو شخص اس حال میں مرا کہ اپنے زمانے کے امام کی معرفت ( شناخت) نہ رکھتاہو۔ وہ جہالت کی موت مرا)
بعض دعائوں میں ہمیں یہ حکم دیا گیا ہے کہ معرفت امام کی توفیق طلب کریں۔
''اَلَّھُمَّ عَرِّفْنِی حُجَّتَکَ فَا نَّکَ اِن لَّم تُعَرِّ فْنیِ حُجَّتَک ضَلَلْتُ عَنْ دِیِنیْ''
''خداوندا! اپنی حجت کی معرفت عطا فرماکہ اگر تو نے مجھے اپنی حجت کی معرفت عطا نہ فرمائی تو میں اپنے دین سے گمراہ ہو جائوں گا۔''
کیا ان احادیث کے مطابق ہم نے امام عصر(عج)کی حقیقی معرفت پیدا کی ہے؟یا ہمیں معلوم ہے کہ معرفت امام کیا ہے؟
۲:عملی جہت:
امام زمان عجل اللہ فرجہ الشریف کےہم پر کچھ حقوق ادا کرنے واجب ہیں اور انکی طرف سے ہم پر کچھ زمہ داریاں اور فرائض ہیں کہ جنہیں فردی اور اجتماعی سطح پر انجام دینا واجب ہے۔ کیا ہمیں معلوم ہے کہ وہ فرائض اور ذمہ داریاں کیا ہیں ؟آیا ہم انہیں ادا کررہے ہیں؟
پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) فرماتے ہیں:
”خوش نصیب ہیں وہ لوگ جو میری نسل کے قائم کو اس حال میں دیکھیں کہ ان کے قیام سے پہلے خود ان کی اور ان سے پہلے ائمہ کی اقتداء کرتے ہوں...اور یھی لوگ میرے نزدیک میری امت کے سب سے عظیم افراد ہیں“۔(کمال الدین، ج۱، باب ۲۵، ح۳، ص ۵۳۵)
یہ کونسی اقتداء کہ جس پر غیبت کے مسلمانوں کو بشارت دی گئی ہے؟
امام زمان علیہ السلام فرماتے ہیں:
”فَمَا یَحْبِسُنَا عَنْہُمْ إلاَّ مَا یَتَّصِلُ بِنَا مِمَّا نُکْرِہُہُ وَ لاٰ نُوٴثِرُہُ مِنْہُم“(بحار الانور، جلد ۵۳، ص ۱۷۷)
”کوئی بھی چیز ہمیں شیعوں سے جدا نہیں کرتی، مگر خود ان کے وہ (برے) اعمال جو ہمارے پاس پہنچتے ہیں جن اعمال کو ہم پسند نہیں کرتے اور شیعوں سے ان کی امید بھی نہیں ہے!“
کونسے سے ایسے اعمال ہیں کہ جو امام کے ظہور میں تاخیر کا باعث بن رہے ہیں؟
نیزامام عصر علیہ السلام فرماتے ہیں:
”اگر ہمارے شیعہ (کہ خداوندعالم ان کو اپنی اطاعت کی توفیق عطا کرے) اپنے کئے ہوئے عہدو پیمان پر ایک دل اور مصمم ہوں تو ہرگز (ہمارے)دیدار کی نعمت میں دیر نہیں ہوگی، اور مکمل و حقیقی معرفت کے ساتھ ہماری ملاقات جلد ہی ہوجائے گی“۔(احتجاج، ج۲، ش۳۶۰، ص ۶۰۰۔)
وہ کونسا عہد ہے جو ہم نے اپنے امام (عج)سے کیا تھا؟ہم کیسے اس عہد کو بجا لائیں کہ آپ کا مبارک ظہور ہو جائے؟
ان سب چیزوں کو جاننے کے لیے ضروری ہے کہ ہم مہدویت پر علمی بحث و مباحثہ کریں۔
Add new comment