جنگ موتہ‎ تاریخ اسلام کا ایک یادگار ورق

 

یہ جنگ 6 جمادی الاول 8ھ کو جنوب مغربی اردن میں موتہ کے مقام پر ہوئی جو دریائے اردن اور اردن کے شہر کرک کے درمیان ہے۔ اس میں حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم شریک نہیں تھے اس لیے اسے غزوہ نہیں کہتے بلکہ جنگ یا سریہ یا معرکہ (عربی میں معركة مؤتة ) کہتے ہیں۔ اس میں حضرت علی کرم اللہ وجہہ سمیت کئی جلیل القدر صحابہ شامل نہیں تھے۔ یہ بازنطینی (مشرقی رومی) افواج اور مسلمانوں کے درمیان ہوئی۔ بازنطینی افواج میں نصف عرب عیسائی بھی شامل تھے جن کا تعلق اردن و بلاد شام سے تھا۔

 

صلح حدیبیہ کے بعد مسلمان اور قریش کے درمیان کچھ وقت کے لیے جنگ نہ ہوئی۔ یمن کے ساسانی گورنر کے اسلام قبول کرنے کے ساتھ ساتھ اس کے قبائل بھی مسلمان ہو گئے تھے۔ اس طرف سے اطمینان کے بعد حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اسلام کی تبلیغ کے لیے کچھ سفیر اردن اور شام کے عرب قبائل کی طرف روانہ کیے جنہیں ان قبائل نے سفارتی روایات کے برخلاف قتل کر دیا۔ یہ عرب قبائل بازنطینی سلطنت (مشرقی روم کی سلطنت) کے باج گذار تھے۔ سفیروں کے قتل کے بعد ان قبائل کی سرکوبی کے لیے حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے 3000 کی ایک فوج تیار کر کے مغربی اردن کی طرف روانہ کی۔ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے سپہ سالاروں کی ترتیب یہ رکھی کہ حضرت زید بن حارثہ رضی اللہ عنہ کو اس لشکر کا امیر مقرر کیا، ان کی شہادت کی صورت میں حضرت عبداللہ بن جعفر (جعفر طیار) کو مقرر کیا اور ان کی شہادت کی صورت میں حضرت حضرت عبداللہ بن رواحہ کو مقرر کیا۔ اور یہ کہ اگر وہ بھی شہید ہو جائیں تو لشکر اپنا امیر خود چن لے۔ دوسری طرف سے ھرقل کی قیادت میں ایک لاکھ رومی اور ایک لاکھ عرب قبائل پر مشتمل فوج بھی تیار ہوئی جو مروجہ ہتھیاروں سے لیس تھی۔ جب مسلمان موتہ پہنچے اور دشمنوں کی تعداد کا پتہ چلا تو انہوں نے پہلے سوچا کہ مدینہ سے مزید کمک آنے کا انتظار کیا جائے مگر حضرت عبداللہ بن رواحہ رضی اللہ عنہ نے اسلامی فوج کی ہمت افزائی کی اور اسلامی فوج نے پیش قدمی جاری رکھتے ہوئے جنگ کی

 

جنگ شروع ہوئی تو حضرت زید بن حارثہ رضی اللہ عنہ نے شجاعت کے ساتھ جنگ کی۔ رومی افواج تجربہ کار تھیں۔ انہوں نے حضرت زید بن حارثہ رضی اللہ عنہ کو نیزوں کی مدد سے زمین پر گرا کر شہید کر دیا تو حضرت جعفر طیار رضی اللہ عنہ نے علم سنبھال کر اسلامی افوج کی قیادت کی مگر جب وہ گھیرے میں آ گئے اور محسوس کر لیا کہ اب شہادت قسمت میں لکھی ہے تو اپنا گھوڑا فارغ کر دیا اور پیدل نہایت خونریز جنگ کی اور 80 زخم کھائے۔ اس دوران ان کے دونوں ہاتھ کٹ گئے اور وہ شہید ہو گئے۔ ان کے بعد حضرت عبداللہ بن رواحہ رضی اللہ عنہ نے علم سنبھالا اور رومی افواج کے مرکز میں زبردست حملہ کیا۔ شدید لڑائی میں وہ بھی شہید ہو گئے۔ تینوں سرداروں کی شہادت کے بعد اسلامی لشکر منتشر ہو گیا اور لوگ واپس مدینہ پلٹ آے-

Add new comment